بہتیرے سوال چند تسلیبخش جواب
بہتیرے سوال چند تسلیبخش جواب
یکم نومبر ۱۷۵۵ کے روز پُرتگال میں ایک مذہبی تہوار منایا جا رہا تھا۔ صبح کے وقت شہر لزبن کے زیادہتر باشندے چرچ میں تھے۔ اچانک ایک زوردار زلزلے نے شہر کو ہلا کر رکھ دیا۔ ہزاروں عمارتیں گِر کر ڈھیر ہو گئیں اور لاکھوں لوگ مر گئے۔
لزبن پر آنے والی اِس آفت کی وجہ سے فرانسیسی مصنف والٹیر نے ایک نظم لکھی۔ اُس نے اپنی نظم میں لکھا کہ خدا گناہوں کی سزا دینے کیلئے لوگوں پر آفتیں نہیں لاتا۔ لیکن اُس نے یہ بھی کہا کہ انسان نہ تو سمجھنے کے قابل ہے کہ ایسی آفتیں کیوں آتی ہیں اور نہ ہی وہ اسے سمجھا سکتا ہے۔ پھر والٹیر نے لکھا:
ہم کس سے شکوہ کریں، کس سے پوچھیں؛
یا رَب تُو ہی اپنے بندوں کو سمجھا۔
صرف والٹیر ہی خدا کے بارے میں ایسے خیالات نہیں رکھتا تھا۔ انسانی تاریخ کے دوران آنے والی آفتوں اور تباہیوں سے لوگوں کے ذہنوں میں طرح طرح کے سوالوں نے جنم لیا ہے۔ آج سے کوئی ۶۰۰،۳ سال پہلے ایوب نامی شخص کے تمام بچے یکدم ہلاک ہو گئے۔ پھر ایوب ایک نہایت دردناک بیماری میں مبتلا ہو گیا۔ اِس پر اُس نے خدا سے پوچھا: ”دُکھیارے کو روشنی اور تلخ جان کو زندگی کیوں ملتی ہے؟“ (ایوب ۳:۲۰) آجکل بھی لوگ اس بات سے پریشان ہوتے ہیں کہ خدا انسانوں کی تکلیف اور ناانصافی کو دیکھ کر کیوں کچھ نہیں کرتا۔
جب لوگ قحط، جنگ، بیماری اور موت کے اثرات کو دیکھتے ہیں تو اِن میں سے اکثر ایک پُرمحبت خالق کے وجود پر شک کرنے لگتے ہیں۔ خدا پر یقین نہ رکھنے والے ایک فلاسفر نے کہا: ”اگر خدا موجود ہے اور وہ ایک ننھے بچے کو تکلیف میں تڑپنے دیتا ہے تو وہ قصوروار ہے۔ . . . اس وجہ سے مَیں خدا کے وجود کو نہیں مانتا۔“ اسکے علاوہ انسانی تاریخ میں اَور بھی بہت سے ظلم ہوئے ہیں جنکی بِنا پر لوگ ایسا ہی نتیجہ اخذ کرتے ہیں، مثال کے طور پر دوسری عالمی جنگ کے دوران نازیوں کے ہاتھوں لاکھوں یہودیوں کا قتلِعام ہوا تھا۔ ایک یہودی نے اسکے بارے میں لکھا: ”آوشوِتس کے اذیتی کیمپ میں جوکچھ ہوا اُسکی ایک وجہ یہ ہے کہ انسانی مسائل میں مداخلت کرنے والا کوئی خدا ہے ہی نہیں۔“ فرانس کی مثال لے لیجئے جہاں زیادہتر لوگ کیتھولک مذہب سے تعلق رکھتے ہیں۔ لیکن وہاں ۴۰ فیصد لوگ خدا کے وجود پر اسلئے یقین نہیں رکھتے کیونکہ پوری تاریخ میں لاکھوں لوگ قتل کئے گئے ہیں۔ اسکی ایک مثال روانڈا کا ملک ہے جہاں ۱۹۹۴ میں ہزاروں لوگوں نے ایک دوسرے کو وحشیانہ طریقے سے قتل کِیا تھا۔
خدا پر ایمان لانے میں رکاوٹ
خدا آفتوں کی اجازت کیوں دیتا ہے؟ ایک کیتھولک تاریخدان کے مطابق یہ سوال اکثر لوگوں کو ”خدا پر یقین رکھنے سے روکتا ہے۔“ وہ پوچھتا ہے: ”کیا آپ ایک ایسے خدا پر یقین رکھ سکتے ہیں جو لاکھوں معصوم لوگوں کو مرنے دیتا ہے اور پوری کی پوری قوموں کے وحشیانہ قتل پر بھی خاموش رہتا ہے؟“
ایک کیتھولک اخبار میں لکھا تھا: ”آفتیں خواہ آسمانی ہوں یا انسانی، تمام نظریں آسمان کی طرف اُٹھتی ہیں۔ کیا خدا موجود ہے؟ اگر موجود ہے تو وہ کہاں ہے؟ کیا وہ کسی کی پرواہ کرتا ہے؟“
پوپ جان پال دوم نے ۱۹۸۴ میں اس مسئلے پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا: ”خدا کی بنائی ہوئی چیزوں سے انسان اُسکے وجود، اُسکی حکمت، قوت اور عظمت کا اندازہ لگا سکتا ہے۔ اِسکے برعکس، دُنیا میں بُرائی اور تکلیف کا ہونا خدا کی ذات پر دھبا لگاتا ہے۔ یہ خاص طور پر اُس وقت ہوتا ہے جب انسان دوسروں کو روزانہ بِلاوجہ تکلیف میں تڑپتے اور ناانصافیوں کا شکار ہوتے دیکھتا ہے۔“
بائبل میں لکھا ہے کہ خدا نہ صرف موجود ہے بلکہ وہ قوت اور محبت کا سرچشمہ بھی ہے۔ لیکن یہ کیسے سچ ہو سکتا ہے جبکہ اتنے لوگ مصیبت اور تکلیف میں مبتلا ہیں؟ کیا خدا آفتوں کو روکتا ہے خواہ یہ ایک شخص پر آ رہی ہوں یا پھر بہت سے لوگوں پر؟ کیا خدا ہمارے لئے کچھ کر رہا ہے؟ والٹیر نے اپنی نظم میں کہا تھا کہ ”یا رَب تُو ہی اپنے بندوں کو سمجھا۔“ کیا ایک ایسا خدا ہے جو اپنے بندوں کو اِن تمام سوالوں کے جواب دینا چاہتا ہے؟ اِس سوال کا جواب حاصل کرنے کیلئے اگلے مضمون کو پڑھیں۔
[صفحہ ۳ پر تصویریں]
سن ۱۷۵۵ میں لزبن کی تباہی کے بعد والٹیر نے کہا کہ انسان یہ نہیں سمجھ سکتا کہ ایسے دردناک واقعات کیوں رونما ہوتے ہیں
[تصویروں کے حوالہجات]
;Great Men and Famous Women Voltaire: From the book
Lisbon: J.P. Le Bas, Praça da Patriarcal depois do
terramoto de 1755. Foto: Museu da Cidade/Lisboa
[صفحہ ۴ پر تصویر]
بہتیرے لوگوں کیلئے خدا پر یقین نہ رکھنے کی ایک وجہ روانڈا جیسے واقعات ہیں جہاں لوگوں نے ایک دوسرے کو وحشیانہ طریقے سے قتل کِیا تھا
[تصویر کا حوالہ]
AFP PHOTO
[صفحہ ۲ پر تصویر کا حوالہ]
COVER, children: USHMM, courtesy of Main Commission for the
Prosecution of the Crimes against the Polish Nation