مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

مشکلات کے تحت برداشت یہوواہ کیلئے ستائش کا باعث بنتی ہے

مشکلات کے تحت برداشت یہوواہ کیلئے ستائش کا باعث بنتی ہے

مشکلات کے تحت برداشت یہوواہ کیلئے ستائش کا باعث بنتی ہے

‏”‏ اگر نیکی کرکے دُکھ پاتے اور صبر کرتے ہو تو یہ خدا کے نزدیک پسندیدہ ہے۔‏“‏ —‏۱-‏پطرس ۲:‏۲۰‏۔‏

۱.‏ چونکہ سچے مسیحی اپنی مخصوصیت کے مطابق زندہ رہنے کی فکر میں ہیں،‏ لہٰذا کس سوال پر غور کِیا جانا چاہئے؟‏

مسیحی یہوواہ کے لئے مخصوص ہیں اور اُس کی مرضی بجا لانا چاہتا  ہے۔‏ اپنی مخصوصیت پر قائم رہنے کیلئے وہ اپنے نمونے،‏ یسوع مسیح کے نقشِ‌قدم پر چلنے اور حق پر گواہی دینے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔‏ (‏متی ۱۶:‏۲۴؛‏ یوحنا ۱۸:‏۳۷؛‏ ۱-‏پطرس ۲:‏۲۱‏)‏ تاہم یسوع اور دیگر وفادار اشخاص نے اپنی زندگیاں قربان کر دی اور ایمان کی خاطر شہیدوں کے طور پر وفات پائی۔‏ کیا اسکا مطلب یہ ہے کہ تمام مسیحی ایمان کی خاطر مرنے کی توقع کر سکتے ہیں؟‏

۲.‏ مسیحی آزمائشوں اور تکالیف کو کیسا خیال کرتے ہیں؟‏

۲ مسیحیوں کے طور پر،‏ ہمیں ایمان کی خاطر جان دینے کی نہیں  بلکہ  جان دینے  تک وفادار رہنے کی تاکید کی جاتی ہے۔‏ (‏۲-‏تیمتھیس ۴:‏۷؛‏ مکاشفہ ۲:‏۱۰‏)‏ اسکا مطلب یہ ہے کہ ہمیں اپنے ایمان کے لئے تکلیف برداشت کرنے اور ضروری ہو تو مرنے کے لئے تیار ہونے کے باوجود بھی اس خیال سے خوش نہیں ہونا چاہئے۔‏ ہم تکلیف سے خوش نہیں ہوتے اور دُکھ یا تذلیل کو پسند نہیں کرتے۔‏ تاہم،‏ آزمائشوں اور اذیت کی توقع کی جا سکتی ہے،‏ اسلئے ہمیں  بڑی  احتیاط کے ساتھ غور کرنا چاہئے کہ ایسی صورتحال میں ہم کیا کرینگے۔‏

آزمائش کے تحت وفادار

۳.‏ اذیت برداشت کرنے کے سلسلے میں آپ بائبل سے کونسی مثالیں پیش کر سکتے ہیں؟‏ (‏اگلے صفحے پر بکس بعنوان ”‏اُنہوں نے اذیت کا مقابلہ کیسے کِیا“‏ دیکھیں۔‏)‏

۳ بائبل میں،‏ ہمیں ایسی بیشمار سرگزشتیں ملتی ہیں جو یہ ظاہر کرتی ہیں کہ ماضی میں خدا کے خادموں کا پُرخطر حالات کا مقابلہ کرتے وقت کیسا ردِعمل ہوتا تھا۔‏ جن مختلف طریقوں سے اُنہوں نے مقابلہ کِیا وہ آجکل کے مسیحیوں کیلئے راہنمائی فراہم کرتے ہیں کہ ہم ایسے ہی چیلنج‌خیز حالات کا سامنا کیسے کر سکتے ہیں۔‏ بکس بعنوان ”‏اُنہوں نے اذیت کا مقابلہ کیسے کِیا“‏ میں درج سرگزشتوں پر غور کریں اور دیکھیں کہ آپ اِن سے کیا سیکھتے ہیں۔‏

۴.‏ مشکلات برداشت کرنے کے سلسلے میں یسوع اور دیگر وفادار خادموں کے ردِعمل کی بابت کیا کہا جا سکتا ہے؟‏

۴ اگرچہ یسوع اور خدا کے دیگر وفادار خادموں نے حالات کے مطابق اذیت کیلئے مختلف ردِعمل کا مظاہرہ کِیا توبھی یہ واضح ہے کہ اُنہوں نے جان‌بوجھ کر اپنی زندگیوں کو خطرے میں نہیں ڈالا تھا۔‏ جب بھی اُنہوں نے خود کو خطرناک صورتحال میں پایا تو دلیری کیساتھ ساتھ ہوشیاری سے بھی کام لیا۔‏ (‏متی ۱۰:‏۱۶،‏ ۲۳‏)‏ اُنکا مقصد منادی کے کام میں ترقی کرنا اور یہوواہ کیلئے اپنی راستی پر قائم رہنا تھا۔‏ مختلف صورتحال میں اُنکا ردِعمل آجکل مسیحیوں کیلئے نمونہ فراہم کرتا ہے کہ وہ آزمائشوں اور اذیت کا مقابلہ کیسے کر سکتے ہیں۔‏

۵.‏ ملاوی میں ۱۹۶۰ کے دہے میں کونسی اذیت برپا ہوئی اور وہاں کے گواہوں نے کیسا ردِعمل دکھایا؟‏

۵ جدید زمانے میں،‏ یہوواہ کے گواہوں نے اکثر جنگوں،‏ پابندیوں یا براہِ‌راست اذیت کی وجہ سے خود کو انتہائی مشکل اور محرومی کی صورتحال میں پایا ہے۔‏ مثال کے طور پر،‏ ۱۹۶۰ کے دہے میں،‏ ملاوی میں یہوواہ کے گواہوں کو سخت اذیت پہنچائی گئی۔‏ اُنکے کنگڈم ہالز،‏ گھر،‏ فصلیں اور کاروبار عملاً سب کچھ برباد کر دیا گیا۔‏ اُنہیں پُرتشدد اور کربناک تجربات سے گزرنا پڑا۔‏ ایسی صورتحال میں بھائیوں کا ردِعمل کیا تھا؟‏ ہزاروں کو اپنے گاؤں چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔‏ بیشتر نے جنگل میں پناہ لی جبکہ دیگر پڑوسی مُلک موزمبیق میں جلاوطن ہو گئے۔‏ بہتیرے وفادار مسیحی اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے،‏ دیگر نے خطرناک علاقے سے فرار کا راستہ اختیار کِیا جوکہ ایسے حالات کے تحت معقول قدم تھا۔‏ ایسا کرنے سے بھائیوں نے یسوع اور پولس کے نمونے کی نقل کی تھی۔‏

۶.‏ شدید اذیت کے باوجود،‏ ملاوی کے گواہ کیا نہیں بھولے تھے؟‏

۶ اگرچہ ملاوی کے بھائیوں کو فرار یا روپوش ہونا پڑا توبھی اُنہوں نے تھیوکریٹک ہدایات پر عمل کِیا اور خفیہ طور پر اپنی مسیحی کارگزاریاں جاری رکھیں۔‏ نتیجہ؟‏ سن ۱۹۶۷ میں پابندی سے ذرا پہلے بادشاہتی مُنادوں کی انتہائی تعداد ۵۱۹،‏۱۸ کو پہنچ چکی تھی۔‏ اگرچہ ابھی تک پابندی تھی اور بہتیرے گواہ موزمبیق منتقل ہو گئے تھے توبھی ۱۹۷۲ میں پبلشروں کی نئی انتہائی تعداد ۳۹۸،‏۲۳ حاصل ہوئی۔‏ اُنہوں نے خدمتگزاری میں اوسطاً ۱۶ گھنٹے  صرف کئے تھے۔‏ بِلاشُبہ،‏ اُن کی کارروائی یہوواہ کے لئے ستائش کا باعث  بنی  اور  اس  مشکل  وقت  کے  دوران  یہوواہ  کی  برکت  اِن  وفادار  بھائیوں پر  تھی۔‏ *

۷،‏ ۸.‏ اگرچہ مخالفت مسائل پیدا کرتی ہے توبھی بعض نقل‌مکانی کرنے کا انتخاب کیوں نہیں کرتے؟‏

۷ اس کے برعکس،‏ دیگر ممالک میں جہاں اذیت مشکلات کا باعث بن رہی ہے،‏ بعض بھائی نقل‌مکانی نہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔‏ علاقہ چھوڑ دینے سے بعض مسائل تو حل ہو سکتے ہیں مگر شاید دیگر مشکلات پیدا ہو جائیں۔‏ مثلاً کیا وہ مسیحی برادری کیساتھ رابطہ رکھ سکیں گے اور روحانی طور پر تنہا تو نہیں ہو جائینگے؟‏ جب وہ زیادہ متمول مُلک میں رہنے کی کوشش کرتے ہیں تو کیا وہ اپنا روحانی معمول برقرار رکھ سکیں گے؟‏—‏۱-‏تیمتھیس ۶:‏۹‏۔‏

۸ دیگر  منتقل  ہونے  کی  بابت  نہیں  سوچتے  کیونکہ  وہ  اپنے  بھائیوں  کی روحانی فلاح‌وبہبود میں دلچسپی رکھتے ہیں۔‏ اپنے علاقے میں منادی کرنے اور ساتھی ایمانداروں کیلئے حوصلہ‌افزائی کا باعث بننے کی غرض سے وہ اُسی جگہ رہ کر حالات کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔‏ (‏فلپیوں ۱:‏۱۴‏)‏ ایسا انتخاب کرنے سے،‏ بعض کو انجام‌کار اپنے مُلک میں قانونی فتح حاصل ہوئی  ہے۔‏ *

۹.‏ اذیت کی وجہ سے منتقل ہونے یا وہیں رہنے کا فیصلہ کرتے وقت کسی کیلئے کن عوامل پر غور کرنا ضروری ہے؟‏

۹ وہیں رہنا یا دوسری جگہ منتقل ہو جانا یقیناً ایک ذاتی فیصلہ ہے۔‏ ایسے فیصلے واقعی دُعا میں یہوواہ کی راہنمائی حاصل کرنے کے بعد ہی کئے جانے چاہئیں۔‏ تاہم،‏ ہمیں خواہ کیسے ہی انتخاب کا سامنا کیوں نہ ہو،‏ ہمیں پولس کے ان الفاظ کو یاد رکھنا چاہئے:‏ ”‏پس ہم میں سے ہر ایک خدا کو اپنا حساب دیگا۔‏“‏ (‏رومیوں ۱۴:‏۱۲‏)‏ جیسے ہم نے پہلے بیان کِیا،‏ یہوواہ یہ چاہتا ہے کہ اُسکے تمام خادم ہر طرح کے حالات کے تحت وفادار رہیں۔‏ اُسکے بعض خادم آج بھی مشکلات اور اذیت کا سامنا کر رہے ہیں جبکہ دیگر شاید بعد میں اسکا سامنا کریں۔‏ سب کے سب کسی نہ کسی طریقے سے آزمائے جائینگے اور کسی کو بھی یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ اُس پر کوئی مشکل نہیں آئیگی۔‏ (‏یوحنا ۱۵:‏۱۹،‏ ۲۰‏)‏ یہوواہ کے مخصوص‌شُدہ خادموں کے طور پر،‏ ہم یہوواہ کے نام کی تقدیس اور اُسکی حاکمیت کی سربلندی کے عالمگیر مسئلے کو نظرانداز نہیں کر سکتے۔‏—‏حزقی‌ایل ۳۸:‏۲۳؛‏ متی ۶:‏۹،‏ ۱۰‏۔‏

‏”‏بدی کے عوض بدی نہ کرو“‏

۱۰.‏ یسوع اور اُسکے رسولوں نے دباؤ اور مخالفت کا سامنا کرنے کے سلسلے میں ہمارے لئے کیا نمونہ قائم کِیا؟‏

۱۰ جیسا یسوع اور اُسکے رسولوں نے ردِعمل دکھایا اُس سے ہم ایک اہم اُصول سیکھ سکتے ہیں کہ دباؤ کے تحت بھی ہمیں اپنے ایذا دینے والوں کیساتھ کبھی بُری طرح پیش نہیں آنا چاہئے۔‏ بائبل میں ہم کہیں یہ نہیں پڑھتے کہ یسوع اور اُسکے پیروکاروں نے کبھی کسی قِسم کی مزاحمتی تحریکوں میں حصہ لیا ہو یا اپنے ایذارسانوں کا مقابلہ کرنے کیلئے لوگوں کو منظم کِیا ہو۔‏ اسکے برعکس،‏ پولس رسول نے مسیحیوں کو مشورہ دیا،‏ ”‏بدی کے عوض کسی سے بدی نہ کرو۔‏“‏ نیز یہ کہ ”‏اَے عزیزو!‏ اپنا انتقام نہ لو بلکہ غضب کو موقع دو کیونکہ یہ لکھا ہے کہ [‏یہوواہ]‏ فرماتا ہے انتقام لینا میرا کام ہے۔‏ بدلہ مَیں ہی دونگا۔‏“‏ مزیدبرآں یہ کہ ”‏بدی سے مغلوب نہ ہو بلکہ نیکی کے ذریعہ سے بدی پر غالب آؤ۔‏“‏—‏رومیوں ۱۲:‏۱۷-‏۲۱‏؛‏ زبور  ۳۷:‏۱-‏۴؛‏ امثال ۲۰:‏۲۲‏۔‏

۱۱.‏ ایک مؤرخ حکومت کی بابت ابتدائی مسیحیوں کے میلان کے سلسلے میں کیا کہتا ہے؟‏

۱۱ ابتدائی مسیحیوں نے اس مشورت پر دھیان دیا۔‏ اپنی کتاب دی الرلی چرچ اینڈ دی ورلڈ میں مؤرخ سی‌سل جے.‏ کیڈکس ۳۰-‏۷۰ س.‏ع.‏ کے دوران حکومت کیلئے مسیحیوں کے رویے کو بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے:‏ ”‏ہمارے پاس اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ اس وقت کے مسیحیوں نے کبھی اذیت کا مقابلہ کرنے کیلئے مزاحمت کی ہو۔‏ وہ ان حکمرانوں کو رد یا فرار ہوکر پریشان کر سکتے تھے۔‏ لیکن مسیحیوں کا اذیت کے سلسلے میں ردِعمل شدید نہیں تھا لہٰذا اُنہوں نے واضح طور پر حکومتوں کے حکم کی اطاعت کرنے سے انکار کر دیا اور مسیح کی تابعداری کا اقرار کِیا۔‏“‏

۱۲.‏ تکلیف برداشت کرنا مزاحمت کرنے سے بہتر کیوں ہے؟‏

۱۲ کیا بظاہر ایسی غیرمزاحمتی روش واقعی عملی ہے؟‏ کیا ایسا ردِعمل ظاہر کرنے والا شخص آسانی سے مخالفین کا شکار نہیں ہو جائیگا؟‏ کیا اپنا دفاع کرنا دانشمندی نہیں ہوگی؟‏ انسانی نقطۂ‌نظر سے ایسا ہو سکتا ہے۔‏ تاہم،‏ یہوواہ کے خادموں کے طور پر،‏ ہم پُراعتماد ہیں کہ ہر معاملے میں یہوواہ کی ہدایت پر عمل کرنا ہی بہترین روش ہے۔‏ ہم پطرس کے الفاظ کو یاد رکھتے ہیں:‏ ”‏اگر نیکی کرکے دُکھ پاتے اور صبر کرتے ہو تو یہ خدا کے نزدیک پسندیدہ ہے۔‏“‏ (‏۱-‏پطرس ۲:‏۲۰‏)‏ ہمیں یقین ہے کہ یہوواہ صورتحال سے بخوبی واقف ہے اور حالات کو ہمیشہ ایسا نہیں رہنے دیگا۔‏ ہم اسکا یقین کیسے کر سکتے ہیں؟‏ بابل میں اسیر اپنے لوگوں سے یہوواہ نے فرمایا:‏ ”‏جو کوئی تمکو چُھوتا ہے میری آنکھ کی پتلی کو چُھوتا ہے۔‏“‏ (‏زکریاہ ۲:‏۸‏)‏ کوئی شخص کتنی دیر تک کسی کو اپنی آنکھ کی پتلی چُھونے دیگا؟‏ یہوواہ مناسب وقت پر رہائی فراہم کریگا۔‏ اس بات کی بابت کوئی شک‌وشُبہ نہیں ہے۔‏—‏۲-‏تھسلنیکیوں ۱:‏۵-‏۸‏۔‏

۱۳.‏ یسوع نے خود کو اپنے دُشمنوں کے حوالے کئے جانے کی اجازت کیوں دی تھی؟‏

۱۳ اس سلسلے میں ہم یسوع کے نمونے کی نقل کر سکتے ہیں۔‏ جب اُس نے گتسمنی باغ میں اپنے دُشمنوں کو گرفتار کرنے کی اجازت دی تو یہ اسلئے نہیں تھا کہ وہ اُنکا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا۔‏ درحقیقت،‏ اُس نے اپنے شاگردوں سے کہا:‏ ”‏کیا تُو نہیں سمجھتا کہ مَیں اپنے باپ سے منت کر سکتا ہوں اور وہ فرشتوں کے بارہ تمن سے زیادہ میرے پاس ابھی موجُود کر دیگا؟‏ مگر وہ نوشتے کہ یونہی ہونا ضرور ہے کیونکر پورے ہونگے؟‏“‏ (‏متی ۲۶:‏۵۳،‏ ۵۴‏)‏ یسوع کیلئے یہوواہ کی مرضی کو پورا کرنا اوّلین اہمیت کا حامل تھا،‏ چاہے اُسکو اس کیلئے تکلیف ہی کیوں نہ اُٹھانی پڑے۔‏ اُسے داؤد کے اس نبوّتی زبور کے الفاظ پر مکمل بھروسا تھا:‏ ”‏تُو نہ میری جان کو پاتال میں رہنے دیگا نہ اپنے مُقدس کو سڑنے دیگا۔‏“‏ (‏زبور ۱۶:‏۱۰‏)‏ سالوں بعد پولس رسول نے یسوع کی بابت کہا:‏ ”‏ایمان کے بانی اور کامل کرنے والے یسوع کو تکتے رہیں جس نے اُس خوشی کیلئے جو اُسکی نظروں کے سامنے تھی شرمندگی کی پرواہ نہ کرکے صلیب کا دُکھ سہا اور خدا کے دہنی طرف جا بیٹھا۔‏“‏—‏عبرانیوں ۱۲:‏۲‏۔‏

یہوواہ کے نام کو پاک ٹھہرانے کی خوشی

۱۴.‏ وہ کونسی خوشی تھی جس نے یسوع کو تمام مشکلات برداشت کرنے کی قوت بخشی تھی؟‏

۱۴ وہ کونسی خوشی تھی جس نے یسوع کو ایسی ناقابلِ‌تصور آزمائش برادشت کرنے کی طاقت بخشی؟‏ یہوواہ کے تمام خادموں میں سے خدا کا پیارا بیٹا یسوع شیطان کا اہم‌ترین نشانہ تھا۔‏ لہٰذا آزمائش کے تحت اپنی راستی پر قائم رہنا یہوواہ کے خلاف شیطان کے الزام کا مُنہ‌توڑ جواب ہوگا۔‏ (‏امثال ۲۷:‏۱۱‏)‏ کیا آپ اُس خوشی اور تسکین کا تصور کر سکتے ہیں جو یسوع کو اپنے زندہ کئے جانے پر حاصل ہوئی ہوگی؟‏ وہ یہ جانکر کتنا خوش ہوا ہوگا کہ وہ ایک کامل انسان کے طور پر یہوواہ کی حاکمیت کی سربلندی اور اُسکے نام کی تقدیس کے سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنے میں کامیاب رہا ہے!‏ علاوہ‌ازیں،‏ ’‏خدا کے تخت کے دہنے ہاتھ‘‏ بیٹھنا یسوع کیلئے سب سے بڑا اعزاز اور عظیم‌ترین خوشی کا باعث تھا۔‏—‏زبور ۱۱۰:‏۱،‏ ۲؛‏ ۱-‏تیمتھیس ۶:‏۱۵،‏ ۱۶‏۔‏

۱۵،‏ ۱۶.‏ گواہوں نے زاکسن‌ہاؤسن میں کیسی سخت اذیت اُٹھائی اور اُنہیں کس چیز نے برداشت کی قوت بخشی؟‏

۱۵ مسیحیوں کیلئے بھی یسوع کی طرح مشکلات اور اذیت کی برداشت کرتے ہوئے یہوواہ کے نام کی تقدیس میں شامل ہونا خوشی کی بات ہے۔‏ اسکی ایک عمدہ مثال زاکسن‌ہاؤسن اذیتی کیمپ میں ظلم کا سامنا کرنے والے گواہوں کی ہے جو دوسری عالمی جنگ کے اختتام پر موت کو پہنچانے والی اس حالت سے بچ نکلے تھے۔‏ اس عرصے کے دوران،‏ ہزاروں قیدی ناسازگار ماحول،‏ بیماری یا بھوک کی وجہ سے یا تو مر گئے یا پھر اُنہیں ایس‌ایس گارڈز سرِعام اذیت پہنچاتے تھے۔‏ لیکن ۲۳۰ گواہ ایک دوسرے کا سہارا بننے اور اپنی جان پر کھیل کر باہمی مدد کرنے کے جذبے کی بدولت بچ گئے۔‏

۱۶ کس چیز نے ایسی سخت اذیت برداشت کرنے کیلئے گواہوں کو طاقت بخشی تھی؟‏ بچ نکلنے کے بعد اُنہوں نے یہوواہ کیلئے خوشی اور شکرگزاری کا اظہار ایک دستاویز میں کِیا جسکا عنوان تھا،‏ ”‏چھ مختلف قوموں کے ایک جنگل میں جمع ۲۳۰ یہوواہ کے گواہوں کی قرارداد۔‏“‏ اس میں اُنہوں نے کہا:‏ ”‏آزمائش کا سخت دَور اب ختم ہو گیا ہے اور بچنے والے گویا آگ کی بھٹی سے نکل کر آئے ہیں اور اُن سے جلنے کی ذرا بُو بھی نہیں آتی۔‏ (‏دیکھیں دانی‌ایل ۳:‏۲۷‏۔‏)‏ اسکے برعکس،‏ وہ یہوواہ کی طرف سے طاقت اور حوصلے سے معمور ہیں اور بادشاہتی مفادات کو فروغ دینے کیلئے بادشاہ کے نئے احکام کے منتظر ہیں۔‏“‏  *

۱۷.‏ آجکل خدا کے لوگ کیسی آزمائشوں کا تجربہ کر رہے ہیں؟‏

۱۷ اُن ۲۳۰ وفاداروں کی طرح ہمارے ایمان کی بھی آزمائش ہو سکتی ہے حتیٰ‌کہ ہم نے ”‏اب تک ایسا مقابلہ نہیں کِیا جس میں خون بہا ہو۔‏“‏ (‏عبرانیوں ۱۲:‏۴‏)‏ لیکن آزمائش کئی اقسام کی ہو سکتی ہے۔‏ شاید ہم‌جماعت ہمارا مذاق اُڑائیں یا بداخلاقی اور دیگر بُرے کام کرنے کیلئے دوست ہم پر دباؤ ڈالیں۔‏ نیز،‏ خون سے پرہیز کرنے،‏ صرف خداوند میں شادی کرنے یا منقسم گھرانے میں بچوں کی سچائی میں پرورش کرنے کا عزم بعض‌اوقات سخت دباؤ اور آزمائشوں کا باعث بنتا ہے۔‏—‏اعمال ۱۵:‏۲۹؛‏ ۱-‏کرنتھیوں ۷:‏۳۹؛‏ افسیوں ۶:‏۴؛‏ ۱-‏پطرس ۳:‏۱،‏ ۲‏۔‏

۱۸.‏ ہمارے پاس اس بات کی کیا یقین‌دہانی ہے کہ ہم نہایت کڑی آزمائش بھی برداشت کر سکتے ہیں؟‏

۱۸ پس،‏ ہم پر خواہ کیسی ہی آزمائش آئے،‏ ہم جانتے ہیں کہ یہوواہ اور اُسکی بادشاہت کو پہلا درجہ دینے کی وجہ سے ہم اسکا شکار ہوتے ہیں لیکن ہم اسے نہایت خوشی اور شرف کی بات سمجھتے ہیں۔‏ ہم پطرس کی اس یقین‌دہانی سے حوصلہ پاتے ہیں:‏ ”‏اگر مسیح کے نام کے سبب سے تمہیں ملامت کی جاتی ہے تو تم مبارک ہو کیونکہ جلال کا روح یعنی خدا کا روح تم پر سایہ کرتا ہے۔‏“‏ (‏۱-‏پطرس ۴:‏۱۴‏)‏ یہوواہ کی روح کے زور سے ہم مشکل‌ترین آزمائشیں بھی برداشت کرنے کی قوت رکھتے ہیں جو اُس کے لئے حمدوتعریف کا باعث  ہے۔‏—‏۲-‏کرنتھیوں ۴:‏۷؛‏ افسیوں ۳:‏۱۶؛‏ فلپیوں ۴:‏۱۳‏۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 6 سن ۱۹۶۰ میں شروع ہونے والی اس سخت اذیت کا سلسلہ ایسا چلا کہ ملاوی کے گواہوں نے اسے تقریباً تین دہوں تک برداشت کِیا۔‏ مکمل سرگزشت کے لئے ۱۹۹۹ ائیربُک آف جیہوواز وٹنسز کے صفحہ ۱۷۱-‏۲۱۲ کو دیکھیں۔‏

^ پیراگراف 8 اپریل ۱،‏ ۲۰۰۳ کے مینارِنگہبانی کے شمارے میں صفحہ ۱۱-‏۱۴ پر مضمون بعنوان ”‏ ’‏اراراط کی سرزمین‘‏ میں عدالتِ‌عالیہ نے سچی پرستش کی حمایت کی“‏ دیکھیں۔‏

^ پیراگراف 16 اس قرارداد کے مکمل متن کے لئے ۱۹۷۴ ائیربُک آف جیہوواز وِٹنسز صفحہ ۲۰۸،‏ ۲۰۹ دیکھیں۔‏ اذیت سے بچ نکلنے والے ایک شخص کی کہانی جنوری ۱،‏ ۱۹۹۸ کے دی واچ‌ٹاور،‏ صفحہ ۲۵-‏۲۹ پر بھی ملتی ہے۔‏

کیا آپ وضاحت کر سکتے ہیں؟‏

‏• مسیحی دُکھ اور اذیت کو کیسا خیال کرتے ہیں؟‏

‏• آزمائشوں کے تحت یسوع اور دیگر وفادار اشخاص کے طرزِعمل سے ہم کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

‏• اذیت کے باعث غصے میں نہ آنا دانشمندی کیوں ہے؟‏

‏• آزمائش کے دوران کس خوشی نے یسوع کو  سنبھالے رکھا اور ہم اس سے کیا سیکھ سکتے  ہیں؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۱۵ پر بکس/‏تصویریں]‏

اُنہوں نے اذیت کیسے برداشت کی

‏• ہیرودیس کے سپاہی دو سال یا اس سے کم عمر کے بچوں کو قتل کرنے کیلئے ابھی بیت‌لحم نہیں پہنچے تھے کہ یوسف اور مریم ایک فرشتے سے آگاہی پاکر یسوع کو لیکر مصر بھاگ گئے۔‏—‏متی ۲:‏۱۳-‏۱۶‏۔‏

‏• یسوع کی خدمتگزاری میں کئی مرتبہ اُسکے دُشمنوں نے اُسکی زوردار گواہی کی وجہ سے اُسے ہلاک کرنا چاہا۔‏ یسوع ہر موقع پر اُن سے بچنے کیلئے چلا جاتا تھا۔‏—‏متی ۲۱:‏۴۵،‏ ۴۶؛‏ لوقا ۴:‏۲۸-‏۳۰؛‏ یوحنا ۸:‏۵۷-‏۵۹‏۔‏

‏• جب سپاہی اور اہلکار یسوع کو گرفتار کرنے کیلئے گتسمنی باغ میں آئے تو اُس نے بےدھڑک اپنی شناخت کرائی اور دو مرتبہ کہا کہ ”‏مَیں ہی ہوں۔‏“‏ اُس نے اپنے شاگردوں کو مزاحمت کرنے سے منع کِیا اور خود کو بِھیڑ کے حوالے کر دیا۔‏—‏یوحنا ۱۸:‏۳-‏۱۲‏۔‏

‏• یروشلیم میں پطرس اور دیگر کو گرفتار کرکے کوڑے لگائے گئے اور حکم دیا گیا کہ یسوع کا نام لیکر منادی نہ کرنا۔‏ لیکن رِہا ہونے کے بعد ”‏وہ .‏ .‏ .‏ چلے گئے .‏ .‏ .‏ اور .‏ .‏ .‏ ہر روز تعلیم دینے اور اس بات کی خوشخبری سنانے سے کہ یسوؔع ہی مسیح ہے باز نہ آئے۔‏“‏ —‏اعمال ۵:‏۴۰-‏۴۲‏۔‏

‏• جب ساؤل کو جو بعدازاں پولس رسول بن گیا،‏ یہ پتہ چلا کہ دمشق کے یہودی اُسے مار ڈالنا چاہتے ہیں تو بھائیوں نے اُسے ایک ٹوکرے میں بٹھا کر شہر کی دیوار سے لٹکا کر باہر نکال دیا اور وہ بھاگ گیا۔‏ —‏اعمال ۹:‏۲۲-‏۲۵‏۔‏

‏• کئی سال بعد پولس نے قیصر کے سامنے اپیل کی اگرچہ گورنر فیستُس اور بادشاہ اگرپا نے دیکھا کہ ”‏یہ آدمی ایسا تو کچھ نہیں کرتا جو قتل یا قید کے لائق ہو۔‏“‏—‏اعمال ۲۵:‏۱۰-‏۱۲،‏ ۲۴-‏۲۷؛‏ ۲۶:‏۳۰-‏۳۲‏۔‏

‏[‏صفحہ ۱۶ پر تصویریں]‏

اگرچہ سخت اذیت کے باعث ملاوی کے ہزاروں گواہوں کو بھاگنا پڑا توبھی اُنہوں نے خوشی سے بادشاہتی خدمت جاری رکھی

‏[‏صفحہ ۱۷ پر تصویریں]‏

اذیتی کیمپوں میں نازیوں کے جان‌لیوا مظالم کے دوران یہوواہ کے نام کی تقدیس کرنے کی خوشی نے ان وفاداروں کو سنبھالے رکھا

‏[‏تصویر کا حوالہ]‏

‏,Death march: KZ-Gedenkstätte Dachau

courtesy of the USHMM Photo Archives

‏[‏صفحہ ۱۸ پر تصویر]‏

آزمائشیں اور دباؤ مختلف اقسام کے ہوتے ہیں