یہوواہ ادنیٰ کو سچائی کی طرف راغب کرتا ہے
میری کہانی میری زبانی
یہوواہ ادنیٰ کو سچائی کی طرف راغب کرتا ہے
از اسانو کوشینو
دوسری جنگِعظیم کے تھوڑے عرصے بعد ہی سن ۱۹۴۹ میں ایک پردیسی جاپان کے شہر کوبے میں اُس خاندان سے ملنے آیا جس کیلئے مَیں کام کِیا کرتی تھی۔ وہ سب سے پہلا مشنری تھا جو یہوواہ کے گواہوں کی طرف سے جاپان بھیجا گیا تھا۔ اُسی کی وجہ سے آج مَیں سچائی میں ہوں۔ لیکن مجھے پہلے اپنی زندگی کے بارے میں کچھ بتانا چاہئے۔
مَیں ۱۹۲۶ میں شمالی یوکوہاما کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں پیدا ہوئی۔ ہم آٹھ بہنبھائی تھے اور مَیں پانچویں نمبر پر تھی۔ میرا باپ شنٹو مذہب کا کٹر پیرو تھا۔ شنٹو مذہب میں سالبھر مختلف مذہبی تہوار منائے جاتے ہیں۔ ہم بچے اِن تہواروں سے بہت خوش ہوتے تھے۔
جیسے جیسے مَیں بڑی ہوتی گئی میرے ذہن میں زندگی اور خاص طور پر موت کے بارے میں بہت سے سوال پیدا ہوتے گئے۔ شنٹو مذہب کے مطابق جب ایک فرد آخری سانسیں لے رہا ہوتا ہے تو تمام رشتہدار اُس کے پاس جمع ہو جاتے ہیں۔ مجھے اُس وقت تو بہت گہرا صدمہ پہنچا جب میری دادی اور پھر میرا چھوٹا بھائی جو چند مہینوں کا ہی تھا فوت ہو گئے۔ میرے والدین ابھی زندہ ہی تھے۔ لیکن مَیں یہ سوچ کر بہت اُداس ہو جاتی تھی کہ اگر وہ مر گئے تو مَیں کیا کروں گی۔ ’کیا زندگی صرف مرنے کا نام ہے؟ کیا زندگی کا کوئی مقصد ہے؟‘ مَیں ان سوالوں کے جواب جاننے کے لئے بیتاب تھی۔
سن ۱۹۳۷ میں، جب مَیں چھٹی جماعت میں تھی تو جاپان نے چین کے خلاف اعلانِجنگ کر دیا۔ مردوں کو جنگ کیلئے بھرتی کِیا جانے لگا۔ وہ شہنشاہ کے حق میں ”بنزائی!“ کا نعرہ لگاتے جسکا مطلب ہے کہ شہنشاہ کی سلامتی ہو۔ لوگ شہنشاہ کی جیت پر پورا یقین رکھتے تھے کیونکہ وہ اُسے ایک زندہ دیوتا مانتے تھے۔
جنگ شروع ہونے کے بعد جب لوگوں کو اپنے عزیزوں کے مرنے کی خبریں آنے لگیں تو وہ ماتم کرتے اور اُنکے دلوں میں نفرت کا زہر بڑھنے لگتا۔ اسی طرح جب دشمن پر فتح کی خبر آتی تو لوگ بڑی خوشی مناتے۔ میرے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوا کہ جسطرح ہمیں مرنے کی خبر سے بہت دُکھ ہوتا ہے یقیناً چین کے لوگوں کو بھی دُکھ کا سامنا کرنا پڑتا ہوگا۔ میرے سکول ختم کرنے کے وقت تک جاپان نے چین کے بڑے علاقے پر قبضہ کر لیا تھا۔
ایک پردیسی سے غیرمتوقع ملاقات
میرا باپ کسان تھا اور ہم بہت غریب تھے۔ لیکن اُس نے مجھے تعلیم حاصل کرنے سے نہ روکا۔ لیکن وہ اسکے لئے پیسے دینے کے قابل نہیں تھا۔ اِسلئے مَیں نے اوکےیاما میں لڑکیوں کے ایک سکول میں داخلہ لے لیا۔ یہ سکول لڑکیوں کو ایک اچھی بیوی بننے کی تعلیم دیتا تھا۔ یہ سکھانے کیلئے وہ ہمیں شہر کے امیر گھروں میں لے جایا کرتے تھے۔ صبح کے وقت ہم سیکھنے کیلئے ایسے گھروں میں کام کِیا کرتے اور دوپہر کے وقت ہم سکول جاتے تھے۔
میری اُستانی نے کیمونو یعنی ایک خاص جاپانی لباس پہن رکھا تھا۔ نئی لڑکیوں کو خوشآمدید کہنے کے بعد وہ مجھے ایک بڑے گھر میں لے گئی۔ لیکن اُس گھر کی مالکن نے مجھے رکھنے سے صاف انکار کر دیا۔ پھر میری اُستانی نے مجھ سے پوچھا کہ ”کیا ہم مسز کوڈا کے گھر چلیں؟“ اِسکے بعد وہ مجھے وہاں لے گئی۔ جب ہم نے گھنٹی بجائی تو ایک سنہرے بالوں والی عورت نے دروازہ کھولا۔ مَیں اُسے دیکھ کر حیران رہ گئی کیونکہ وہ جاپانی نہیں تھی بلکہ اُسکا تعلق مغربی مُلک سے تھا۔ مَیں نے اپنی زندگی میں پہلے کبھی ایسی عورت نہیں دیکھی تھی۔ اُستانی نے میرا اُس عورت سے جسکا نام موڈ کوڈا تھا تعارف کرایا اور پھر چلی گئی۔ مَیں نے اپنا بیگ اُٹھایا اور دبے پاؤں گھر میں داخل ہوئی۔ مَیں دل ہی دل میں ڈر رہی تھی۔ بعد میں مجھے پتہ چلا کہ یہ عورت امریکی ہے۔ امریکہ میں اُس نے ایک جاپانی سے شادی کر لی تھی جسکے بعد وہ جاپان آ کر رہنے لگے۔ یہاں وہ ایک سکول میں پڑھاتی تھی۔
اگلے ہی دن میری مصروف زندگی شروع ہو گئی۔ مسز کوڈا کے خاوند کو مرگی کی بیماری تھی اسلئے مَیں اُسکی دیکھبھال کرنے میں مسز کوڈا کی مدد کِیا کرتی تھی۔ مجھے انگریزی زبان بالکل نہیں آتی تھی اسلئے مَیں شروع شروع میں پریشان رہتی تھی۔ لیکن جب مسز کوڈا نے مجھ سے جاپانی زبان میں باتچیت کرنا شروع کی تو مَیں بہت خوش ہوئی۔ روزانہ اُنکو آپس میں انگریزی میں باتچیت کرتے سننے سے مَیں اِس زبان کی عادی ہو گئی۔ مجھے اُس گھر کا ماحول بہت اچھا لگنے لگا۔
مَیں موڈ کو دیکھ کر بہت متاثر ہوئی کیونکہ وہ اپنے بیمار خاوند کی بڑی اچھی طرح سے دیکھبھال کر رہی تھی۔ اُسکے خاوند کو بائبل پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ مجھے بعد میں یہ پتہ چلا کہ اُنکو یہوواہ کے گواہوں کی طرف سے چھپی ہوئی ایک کتاب پُرانی کتابوں کی دُکان سے ملی تھی جو جاپانی زبان میں تھی۔ اِسکے علاوہ وہ انگریزی زبان میں مینارِنگہبانی کا شمارہ بھی کئی سالوں سے پڑھ رہے تھے۔
ایک دن مجھے تحفے کے طور پر ایک بائبل دی گئی۔ مَیں بہت خوش ہوئی کیونکہ اب زندگی میں پہلی مرتبہ میرے پاس اپنی بائبل تھی۔ اکثر سکول جاتے ہوئے مَیں اُسے پڑھا کرتی لیکن زیادہتر باتوں کو نہ سمجھ سکی کیونکہ میری پرورش شنٹو مذہب کے مطابق ہوئی تھی۔ یسوع مسیح میرے لئے بالکل اجنبی تھا۔ اُس وقت مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ ایک دن بائبل زندگی اور موت کی بابت میرے تمام سوالوں کے جواب دیگی اور مَیں بائبل کی سچائیوں کو قبول کر لونگی۔
تین افسوسناک واقعات
دو سال کا یہ کورس جلد ختم ہو گیا اور مجھے اس خاندان کو چھوڑنا پڑا۔ اسکے بعد مَیں رضاکارانہ طور پر فوجیوں کی وردیاں بنانے لگی۔ امریکہ کے جنگی جہازوں نے جاپان پر بموں کیساتھ حملہ کرنا شروع کر دیا اور آخرکار ۶ اگست ۱۹۴۵ کو ہیروشیما پر ایک ایٹم بم گرایا گیا۔ اسکے کچھ دنوں بعد ہی مجھے ٹیلیگرام کے ذریعہ خبر ملی کہ میری ماں سخت بیمار ہے۔ مَیں پہلی ہی ٹرین سے روانہ ہو گئی۔ جیسے ہی مَیں ٹرین سے اُتری مجھے ایک رشتہدار نے بتایا کہ تمہاری ماں ۱۱ اگست کو فوت ہو گئی تھی۔ جس بات کا مجھے ڈر تھا وہی ہوا۔ مَیں یہ سوچ کر بہت مایوس ہوئی کہ اب مَیں اپنی ماں کی مسکراہٹ کبھی دوبارہ نہیں دیکھ سکتی اور نہ ہی اُس سے باتیں کر سکتی ہوں۔
آخرکار ۱۵ اگست کا وہ دن آ گیا جب جاپان کو اپنی شکست تسلیم کرنی پڑی۔ مجھے دس دنوں کے اندر اندر تین افسوسناک واقعات کو دیکھنا پڑا یعنی جاپان پر گرنے والا ایٹم بم، میری ماں کی وفات اور جاپان کی شکست۔ جاپان کی شکست کے بعد مجھے ایک بات کی تسلی ہو گئی کہ اب لوگ جنگ کی وجہ سے نہیں مرینگے۔ مَیں نے بڑے اُداس دل کیساتھ فیکٹری میں کام کرنا چھوڑ دیا اور واپس اپنے گاؤں آ کر رہنے لگی۔
سچائی کی طرف راغب ہونا
ایک دن اچانک مجھے موڈ کوڈا کی طرف سے ایک خط ملا۔ اس خط میں موڈ نے لکھا: ”مَیں انگریزی زبان سکھانے والا ایک سکول کھولنا چاہتی ہوں۔ کیا تم میرے پاس اوکوہاما آ کر گھر کے کاموں میں میرا ہاتھ بٹا سکتی ہو؟“ کچھ سوچبچار کے بعد مَیں اوکوہاما چلی گئی اور موڈ کیساتھ رہنے لگی۔ پھر کئی سال اوکوہاما میں گزارنے کے بعد ہم سب شہر کوبے میں جا کر رہنے لگے۔
سن ۱۹۴۹ میں، ایک لمبے قد والا پردیسی کوڈا کے خاندان کو ملنے آیا۔ یہ جاپان میں آنے والا سب سے پہلا مشنری تھا۔ اُسکا نام ڈونلڈ ہیسلٹ تھا۔ اُس نے کوبے میں مشنریوں کیلئے ایک مشنری ہوم یعنی گھر ڈھونڈا۔ اسطرح نومبر ۱۹۴۹ میں کئی مشنری کوبے میں آ گئے۔ ایک دن پانچ مشنری کوڈا خاندان کو ملنے آئے۔ اُن میں سے لائیڈ بیری اور پرسی ازلوب نے دس دس منٹ کیلئے انگریزی زبان میں تقریریں دیں۔ تمام مشنری موڈ کو اپنی مسیحی بہن سمجھتے تھے۔ ان سب باتوں سے موڈ کو کافی حوصلہافزائی ملی۔ یہ دیکھ کر میرے اندر انگریزی زبان سیکھنے کی خواہش پیدا ہوئی اور اسطرح مَیں نے انگریزی سیکھنا شروع کی۔
مشنریوں کی مدد سے مَیں نے آہستہ آہستہ بائبل کی سچائی کو سمجھنا شروع کر دیا۔ مجھے اُن تمام سوالوں کے جواب بھی مل گئے جو بچپن سے میرے ذہن میں تھے۔ جیہاں، بائبل ہمیں فردوس میں ہمیشہ کی زندگی کی اُمید دیتی ہے اور یہ وعدہ کرتی ہے کہ ”جتنے قبروں میں ہیں“ زندہ کئے جائینگے۔ (یوحنا ۵:۲۸، ۲۹؛ مکاشفہ ۲۱:۱، ۴) مَیں یہوواہ خدا کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتی ہوں کہ اُس نے یسوع مسیح کی قربانی کے ذریعے ہمارے لئے یہ سب ممکن بنایا ہے۔
خوشکُن مسیحی کارگزاریاں
دسمبر ۳۰، ۱۹۴۹ سے جنوری ۱، ۱۹۵۰ تک یہوواہ کے گواہوں کی جاپان میں ہونے والی پہلی اسمبلی کوبے میں مشنریوں کے گھر میں ہی منعقد ہوئی۔ یہ ایک بڑا گھر تھا جہاں اِردگِرد کا منظر بہت خوبصورت تھا۔ مَیں موڈ کیساتھ وہاں گئی۔ مَیں بائبل کے بارے میں اتنا نہیں جانتی تھی اسلئے مجھے زیادہ باتیں سمجھ نہ آئیں۔ لیکن مَیں مشنریوں اور جاپانیوں کے درمیان اچھے تعلقات کو دیکھ کر بہت متاثر تھی۔ تقریر کو سننے کے لئے ۱۰۱ لوگ حاضر تھے۔
اسمبلی کے بعد مَیں نے منادی پر جانے کا فیصلہ کِیا۔ مجھے گھرباگھر جانے کے لئے کافی حوصلے کی ضرورت تھی کیونکہ مَیں بہت شرمیلی تھی۔ ایک صبح بھائی لائیڈ بیری ہمارے گھر آئے اور مجھے منادی پر لے گئے۔ اُنہوں نے موڈ کے ساتھ والے گھر سے ہی منادی شروع کر دی۔ مَیں بھائی بیری کے پیچھے شرم کے مارے چھپ رہی تھی۔ جب مَیں اگلی بار منادی پر گئی تو مَیں نے دو اَور مشنریوں کے ساتھ کام کِیا۔ اس دوران ایک بوڑھی جاپانی عورت نے ہمیں اندر آنے کی دعوت دی اور ہماری باتوں کو بڑے غور سے سنا۔ اس کے بعد اُس نے ہم سب کو ایک ایک گلاس دودھ پینے کے لئے دیا۔ وہ بائبل کا مطالعہ کرنے کے لئے راضی ہو گئی اور بہت جلد
ایک بپتسمہیافتہ گواہ بن گئی۔ مَیں اُس عورت کی ترقی کو دیکھ کر بہت متاثر ہوئی۔اپریل ۱۹۵۱ میں، بھائی ناتھن ایچ. نار بروکلن ہیڈکوارٹرز سے جاپان کا پہلی مرتبہ دورہ کرنے کیلئے آئے۔ اُنہوں نے ٹوکیو کے ایک بہت بڑے ہال میں تقریباً ۷۰۰ لوگوں کے سامنے تقریر پیش کی۔ پھر جب اعلان ہوا کہ مینارِنگہبانی اب سے جاپانی زبان میں شائع ہوگا تو حاضرین بہت زیادہ خوش ہوئے۔ اگلے مہینے بھائی نار نے کوبے میں ایک خاص تقریر پیش کی اور اس موقع پر مَیں نے بپتسمہ لیا۔
اِسکے ایک سال بعد کُلوقتی خدمت اختیار کرنے کی حوصلہافزائی کی گئی۔ اُس وقت جاپان میں صرف تھوڑے ہی پائنیر تھے۔ مَیں یہ سوچنے لگی کہ اپنا خرچ کیسے پورا کرونگی اور یہ بھی کہ کیا میری شادی ہوگی یا نہیں؟ لیکن پھر مجھے یہ بات سمجھ میں آئی کہ زندگی میں یہوواہ خدا کی خدمت کرنے سے بہتر اور کوئی کام نہیں۔ اسلئے مَیں نے ۱۹۵۲ میں پائنیر خدمت شروع کر دی۔ اس کام سے مَیں بہت خوش تھی اور ہفتے میں کچھ گھنٹے بہن کوڈا کے گھر بھی کام کِیا کرتی تھی۔
اسی دوران میرا بڑا بھائی تائیوان سے اپنے خاندان کیساتھ جاپان لوٹ آیا۔ مَیں نے تو سوچا تھا کہ وہ جنگ میں مر چکا ہے۔ میرا خاندان مسیحیت کو پسند تو نہیں کرتا تھا لیکن ایک پائینر کے جذبے کیساتھ مَیں نے اُنہیں رسالے اور بروشر بھیجنے شروع کر دئے۔ اسکے بعد میرا بھائی اپنے کام کی وجہ سے کوبے منتقل ہو گیا۔ مَیں نے اپنی بھابی سے پوچھا: ”کیا آپ نے وہ رسالے پڑھے ہیں؟“ اُس نے جواب میں کہا: ”یہ رسالے بہت دلچسپ ہیں۔“ پھر اُس نے ایک مشنری کیساتھ بائبل کا مطالعہ شروع کر دیا اور اس مطالعہ میں میری چھوٹی بہن بھی شریک ہوتی جو اُنکے ساتھ رہا کرتی تھی۔ آخرکار اُن دونوں نے بپتسمہ لے لیا۔
عالمگیر برادری سے متاثر
کچھ عرصے بعد، مجھے ایک خط ملا جسے پڑھ کر مَیں حیران رہ گئی۔ یہ واچٹاور بائبل سکول آف گلئیڈ کی ۲۲ ویں جماعت کیلئے دعوتنامہ تھا جہاں ہمیں مشنری بننے کی تربیت دی جانی تھی۔ بھائی ٹسوٹومو فوکیس اور مَیں جاپان کی طرف سے سب سے پہلے اشخاص تھے جنہیں گلئیڈ سکول کیلئے دعوت دی گئی تھی۔ سن ۱۹۵۳ میں، گلئیڈ سکول کے آغاز سے پہلے ہم نیو یارک میں ایک بہت بڑی اسمبلی پر حاضر ہوئے تھے۔ مَیں وہاں پر یہوواہ کے لوگوں کے بھائیچارے کو دیکھ کر بہت متاثر ہوئی۔
کنونشن کے پانچویں دن جاپان سے آنے والے تمام بہنبھائیوں نے کیمونو یعنی جاپانی لباس پہنا یہانتک کہ جاپان سے آنے والے مشنریوں نے بھی ایسا کِیا۔ مَیں نے اپنا کیمونو نیو یارک آنے سے پہلے ہی بھجوا دیا تھا لیکن وہ ابھی نہیں پہنچا تھا۔ اسلئے مَیں نے بہن نار سے اُنکا کیمونو اُدھار لے لیا۔ اچانک اسمبلی کے دوران بارش شروع ہو گئی اور مَیں یہ سوچ کر پریشان ہو گئی کہ کیمونو بھیگ جائیگا۔ مَیں یہ سوچ ہی رہی تھی کہ کسی نے پیچھے سے میرے اُوپر بارش میں پہننے والا کوٹ ڈال دیا۔ ایک بہن میرے ساتھ کھڑی تھی۔ اُس نے مجھ سے پوچھا: ”کیا تمہیں معلوم ہے کہ یہ کون ہے جس نے تمہارے اُوپر یہ کوٹ ڈالا؟“ بعد میں مجھے پتہ چلا کہ یہ بھائی فریڈرک فرینز تھے جو گورننگ باڈی کے ممبر ہیں۔ مَیں نے حقیقت میں یہوواہ کی تنظیم میں پیارومحبت کو محسوس کِیا تھا!
گلئیڈ سکول کی ۲۲ ویں جماعت میں ۱۲۰ طالبعلموں نے شرکت کی جو ۳۷ ممالک سے آئے تھے۔ ہم سب مختلف زبانیں بولتے تھے۔ اسلئے ایک دوسرے سے باتچیت کرنا آسان نہیں تھا لیکن پھر بھی ہم سب نے ایک
دوسرے کی رفاقت سے بہت لطف اُٹھایا تھا۔ آخرکار فروری ۱، ۱۹۵۴ کے دن جب بہت برفباری ہو رہی تھی مجھے سند ملی۔ میری ایک ہمجماعت بہن اِنگر برانٹ کو اور مجھے جاپان کے شہر نگویا میں مشنری کے طور پر بھیج دیا گیا۔ وہاں ہم کچھ مشنریوں کیساتھ رہے جو کوریا میں جنگ کی وجہ سے یہاں آئے ہوئے تھے۔ جتنے سال مَیں نے مشنری خدمت میں گزارے ہیں وہ میرے لئے بہت قیمتی تھے۔اپنے شوہر کیساتھ ملکر خدمت کرنا
ستمبر ۱، ۱۹۵۷ کو مجھے بیتایل میں کام کرنے کی دعوت دی گئی۔ اُس وقت ایک لکڑی کی دو منزلہ عمارت کو جاپان کے برانچ دفتر کے طور پر استعمال کِیا جا رہا تھا۔ برانچ میں بھائی بیری سمیت صرف چار ممبر تھے اور ہم سب مشنری تھے۔ مجھے ترجمہ کرنے کے علاوہ صفائی، کپڑے دھونے اور کھانا پکانے کا کام سونپا گیا۔
جاپان میں یہوواہ کے گواہوں کا کام ترقی کرتا گیا۔ اسلئے اَور بہنبھائیوں کو بیتایل آنے کی دعوت دی گئی۔ ان میں سے ایک بھائی جسکا نام جونجی کوشینو تھا ہماری کلیسیا میں بزرگ مقرر ہوا۔ مَیں نے ۱۹۶۶ میں اس بھائی سے شادی کر لی۔ شادی کے بعد جونجی کو سفری نگہبان مقرر کِیا گیا۔ ہم مختلف کلیسیاؤں کا دورہ کرنے اور بھائیوں سے ملاقات کرنے سے بہت خوش ہوتے تھے۔ مجھے ترجمہ کرنے کی ذمہداری سونپی گئی تھی اسلئے ہم جس گھر میں ٹھہرتے وہاں مَیں اپنا کام کِیا کرتی۔ اس وجہ سے سفر کے دوران ہم نہ صرف اپنا سامان اُٹھاتے بلکہ بھاری بھاری کتابیں بھی اُٹھا کر لے جایا کرتے تھے۔
ہم نے سرکٹ کے کام کو چار سالوں تک جاری رکھا اور یہوواہ کی تنظیم کو ترقی کرتے دیکھا۔ پھر ہم برانچ دفتر کیساتھ نومازو منتقل ہو گئے۔ اسکے دس سال بعد برانچ دفتر ایبینا منتقل ہو گیا جہاں یہ آج بھی موجود ہے۔ جونجی اور مَیں نے بیتایل میں خدمت کرنے سے بہت خوشی حاصل کی ہے۔ آج ہم بیتایل میں تقریباً ۶۰۰ بہنبھائیوں کیساتھ ملکر کام کر رہے ہیں۔ مئی ۲۰۰۲ میں میرے قریبی دوستوں نے میری کُلوقتی خدمت کے ۵۰ سالوں کی یاد میں ایک پارٹی دی۔
ترقی سے خوش ہونا
جب مَیں نے ۱۹۵۰ میں یہوواہ کی خدمت کرنا شروع کی تو جاپان میں صرف مٹھی بھر پبلشر تھے۔ لیکن اب یہاں تقریباً دو لاکھ دس ہزار کے قریب یہوواہ کے گواہ موجود ہیں۔ آج ہزاروں کی تعداد میں جاپان کے لوگ یہوواہ کی طرف آ رہے ہیں۔
وہ پانچ مشنری بہنبھائی جو ۱۹۴۹ میں بہن کوڈا کے گھر میں ہمیں ملنے آئے تھے اور بہن موڈ کوڈا سب اپنی موت تک یہوواہ کے وفادار رہے تھے۔ میرا بھائی خدمتگزار خادم تھا اور میری بہن نے ۱۵ سال پائنیر خدمت کی۔ وہ دونوں بھی یہوواہ کی یاد میں موت کی نیند سو رہے ہیں۔ میرے والدین کی بابت کیا ہے؟ بائبل ہم سے یہ وعدہ کرتی اور ہمیں یہ اُمید دیتی ہے کہ مُردے پھر سے زندہ کئے جائینگے۔—اعمال ۲۴:۱۵۔
اگر مَیں ۱۹۴۱ میں موڈ سے اور اُن مشنریوں سے نہ ملتی اور پھر بعد میں موڈ کے خط کا جواب نہ دیتی تو شاید آج مَیں سچائی میں نہ ہوتی۔ غالباً مَیں اپنے گاؤں میں کام کر رہی ہوتی۔ مَیں یہوواہ خدا کی بہت شکرگزار ہوں جس نے موڈ اور مشنریوں کے ذریعے مجھ تک سچائی پہنچائی۔
[صفحہ ۲۵ پر تصویر]
بہن موڈ کوڈا اور اُسکے خاوند کیساتھ۔ مَیں سامنے بائیں طرف
[صفحہ ۲۷ پر تصویر]
سن ۱۹۵۳ میں انٹرنیشنل اسمبلی پر جاپان کے مشنریوں کیساتھ۔ مَیں بائیں طرف
[صفحہ ۲۸ پر تصویریں]
مَیں اپنے خاوند جونجی کیساتھ بیتایل میں