مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

نوجوانو!‏ یہوواہ کے لائق چال چلیں

نوجوانو!‏ یہوواہ کے لائق چال چلیں

نوجوانو!‏ یہوواہ کے لائق چال چلیں

کبھی‌کبھار مسیحی نوجوانوں کو اپنے خاندان اور کلیسیا کو چھوڑ کر کہیں دُور جا کر رہنا پڑتا ہے۔‏ بعض نوجوان منادی کرنے کیلئے کسی اَور علاقے میں جا کر رہنے لگتے ہیں۔‏ بعض مسیحی نوجوان دُنیاوی معاملات میں حصہ نہیں لیتے۔‏ (‏یسعیاہ ۲:‏۴؛‏ یوحنا ۱۷:‏۱۶‏)‏ اِس وجہ سے کئی ممالک میں ”‏قیصر“‏ یعنی حکومت اِن نوجوانوں کو قید میں ڈال دیتی ہے یا پھر اُن سے سزا کے طور پر زبردستی کام کراتی ہے۔‏ *‏—‏مرقس ۱۲:‏۱۷؛‏ ططس ۳:‏۱،‏ ۲‏۔‏

اپنی غیرجانبداری کی پاداش میں سزا بھگتنے والے اِن نوجوانوں کو اکثر ایسے نوعمر مُجرموں کیساتھ رہنا اور کام کرنا پڑتا ہے جو اُن پر بُرا اثر ڈال سکتے ہیں۔‏ اِس قِسم کے ماحول میں رہنے کے باوجود بھی نوجوان اپنے ’‏چال‌چلن کو خدا کے لائق‘‏ کسطرح بنا سکتے ہیں؟‏ (‏۱-‏تھسلنیکیوں ۲:‏۱۲‏)‏ والدین اُنکو ایسی ناخوشگوار صورتحال سے نپٹنے کیلئے کسطرح تیار کر سکتے ہیں؟‏—‏امثال ۲۲:‏۳‏۔‏

کونسے مسائل درپیش ہیں

تاکس نامی ایک نوجوان ۲۱ سال کا ہے۔‏ * اُسکو ۳۷ مہینوں کیلئے اپنے خاندان سے دُور رہنا پڑا۔‏ وہ اِس عرصے کے بارے میں کہتا ہے:‏ ”‏مجھے اپنے والدین کی اور کلیسیائی بزرگوں کی پُرمحبت نگہداشت کو چھوڑ کر جانا بہت دُشوار لگا۔‏ اکثر مَیں اپنے آپکو بہت ہی کمزور اور چھوٹا محسوس کرتا تھا۔‏“‏ ایک ۲۰ سالہ نوجوان پطرس کو بھی دو سال کیلئے خاندان سے دُور رہنا پڑا۔‏ وہ کہتا ہے کہ ”‏والدین کے پاس نہ ہونے کی وجہ سے میرے پاس زیادہ آزادی تھی۔‏ لیکن آزادی کیساتھ ساتھ میری ذمہ‌داریاں بھی بڑھ گئیں جن سے نپٹنا مجھے اکثر مشکل لگتا تھا۔‏ زندگی میں پہلی بار مجھے خود فیصلہ کرنا پڑا کہ مَیں کس قِسم کے لوگوں کو اپنا دوست بناؤں اور کس قِسم کی تفریح میرے لئے مناسب ہوگی۔‏ سچ تو یہ ہے کہ مَیں نے اکثر اِن معاملات میں غلط فیصلے کئے۔‏“‏ تاسوس ایک مسیحی بزرگ ہے جو بہت سے ایسے نوجوانوں کو جانتا ہے۔‏ اُس نے کہا:‏ ”‏اگر نوجوان ایسی صورتحال میں چوکس اور ہوشیار نہیں رہتے تو وہ اپنے ہم‌عمروں کے چال‌چلن،‏ گندی گفتگو اور باغیانہ رویے کو جلد اپنا سکتے ہیں۔‏“‏

جب مسیحی نوجوان ایسے لوگوں کیساتھ رہتے اور کام کرتے ہیں جو خدا کے کلام کا احترام نہیں کرتے تو اُنکو بعض خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‏ مثلاً اُنکو اِن لوگوں کی بُری عادتوں کو اپنانے سے محتاط رہنا چاہئے۔‏ (‏زبور ۱:‏۱؛‏ ۲۶:‏۴؛‏ ۱۱۹:‏۹‏)‏ ایسی صورتحال میں باقاعدگی سے بائبل کا ذاتی مطالعہ کرنا،‏ اجلاسوں پر حاضر ہونا اور منادی کے کام میں حصہ لینا بھی آسان نہیں ہوتا۔‏ (‏فلپیوں ۳:‏۱۶‏)‏ اسکے علاوہ خدا کی خدمت میں ترقی کرنے کا ارادہ کرنا اور اس ارادے پر پورا اُترنا بھی مشکل ہو سکتا ہے۔‏

مسیحی نوجوان یہوواہ خدا کو اپنی بات‌چیت اور چال‌چلن سے خوش کرنا چاہتے ہیں۔‏ خدا اُنکو دعوت دیتا ہے کہ ”‏اَے میرے بیٹے!‏ دانا بن اور میرے دل کو شاد کر تاکہ مَیں اپنے ملامت کرنے والے کو جواب دے سکوں۔‏“‏ وہ اپنے آسمانی باپ کی اِس دعوت کو قبول کرنا چاہتے ہیں۔‏ (‏امثال ۲۷:‏۱۱‏)‏ اُنکو معلوم ہے کہ لوگ اُنکی آرائش‌وزبیائش اور بول‌چال کو دیکھ کر اُنکی تعریف اور یہوواہ خدا کی تمجید کرینگے۔‏—‏۱-‏پطرس ۲:‏۱۲‏۔‏

خاندان سے دُور رہنے والے اکثر نوجوان پولس رسول کی مشورت پر عمل کرتے ہیں جس نے دُعا میں یوں کہا:‏ ”‏تمہارا چال‌چلن [‏یہوواہ]‏ کے لائق ہو اور اُسکو ہر طرح سے پسند آئے اور تم میں ہر طرح کے نیک کام کا پھل لگے .‏ .‏ .‏ تاکہ خوشی کیساتھ ہر صورت سے صبر اور تحمل کر سکو۔‏“‏ (‏کلسیوں ۱:‏۹-‏۱۱‏)‏ بائبل میں ہم کئی ایسے نوجوانوں کے بارے میں پڑھ سکتے ہیں جو اپنے خاندان سے دُور،‏ بُت‌پرست لوگوں کے درمیان رہ رہے تھے۔‏ اسکے باوجود،‏ اُنہوں نے اپنا چال‌چلن یہوواہ کے لائق بنایا تھا۔‏—‏فلپیوں ۲:‏۱۵‏۔‏

‏’‏یہوواہ یوسف کیساتھ تھا‘‏

یعقوب اور راخل سچے خدا کی پرستش کرتے تھے۔‏ یوسف اُنکا لاڈلا بیٹا تھا۔‏ یوسف نوجوانی ہی میں اُسکے بھائیوں نے اُسے غلام کے طور پر بیچ دیا۔‏ اِسطرح وہ مصر میں فوطیفار کا غلام بن گیا جو یہوواہ خدا کا پرستار نہیں تھا۔‏ یوسف غلام ہونے کے باوجود اتنا محنتی،‏ بااعتماد اور باعزت تھا کہ اُسکے آقا نے اپنا سب کچھ اُسکے اختیار میں کر دیا تھا۔‏ (‏پیدایش ۳۹:‏۲-‏۶‏)‏ پھر فوطیفار کے گھر میں ایک واقعہ پیش آیا جس میں یوسف کا کوئی قصور نہیں تھا۔‏ یہوواہ خدا کا وفادار رہنے کی وجہ سے اُسے قیدخانہ میں ڈال دیا گیا۔‏ اِسکے باوجود بھی یوسف نے یہ نہیں سوچا کہ ”‏خدا کے اُصولوں پر چلنے کا کوئی فائدہ نہیں!‏“‏ قید میں بھی یوسف نے اپنی اچھی عادتوں کو ترک نہ کِیا۔‏ نتیجتاً قیدخانہ کے داروغہ نے سب قیدیوں کو یوسف کے ہاتھ میں سونپ دیا اور اُسکو بڑی ذمہ‌داریاں دیں۔‏ (‏پیدایش ۳۹:‏۱۷-‏۲۲‏)‏ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ’‏یہوواہ یوسف کیساتھ تھا۔‏‘‏—‏پیدایش ۳۹:‏۲۳‏۔‏

یوسف کا خاندان خداپرست تھا لیکن وہ تو اپنے خاندان سے بہت دُور رہ رہا تھا۔‏ اُسکے لئے بُت‌پرست مصریوں کی بُری عادات اور بداخلاق چال‌چلن کو اپنانا بہت آسان تھا۔‏ لیکن ایسا کرنے کی بجائے وہ خدا کے اُصولوں پر چلتا رہا۔‏ جب فوطیفار کی بیوی نے یوسف کو بارہا مباشرت کرنے پر اُکسایا تو وہ اُسکا یہی جواب رہا:‏ ”‏مَیں کیوں اَیسی بڑی بدی کروں اور خدا کا گنہگار بنوں؟‏“‏—‏پیدایش ۳۹:‏۷-‏۹‏۔‏

بائبل آج کے مسیحی نوجوانوں کو مختلف چیزوں سے دُور رہنے کی آگاہی دیتی ہے۔‏ مثلاً اُنکو ایسے لوگوں سے دوستی نہیں کرنی چاہئے جو بُری عادتیں رکھتے ہیں۔‏ اسکے علاوہ نوجوانوں کو ایسی کتابوں،‏ فلموں اور موسیقی سے کنارہ کرنا چاہئے جن میں فحاشی اور بیہودہ باتیں پائی جاتی ہیں۔‏ نوجوانوں کو اِن آگاہیوں پر عمل کرنا چاہئے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ”‏[‏یہوواہ]‏ کی آنکھیں ہر جگہ ہیں اور نیکوں اور بدوں کی نگران ہیں۔‏“‏—‏امثال ۱۵:‏۳‏۔‏

موسیٰ نے ’‏گناہ کا لطف اُٹھانے‘‏ سے انکار کِیا

موسیٰ نے مصر کے بادشاہ فرعون کے محل میں پرورش پائی جہاں لوگ بُتوں کی پوجا کرتے اور عیش‌وعشرت میں زندگی گزارتے تھے۔‏ بائبل موسیٰ کے بارے میں کہتی ہے:‏ ”‏ایمان ہی سے موسیٰؔ نے .‏ .‏ .‏ فرؔعون کی بیٹی کا بیٹا کہلانے سے انکار کِیا اسلئےکہ اُس نے گناہ کا چند روزہ لطف اُٹھانے کی نسبت خدا کی اُمت کیساتھ بدسلوکی برداشت کرنا زیادہ پسند کِیا۔‏“‏—‏عبرانیوں ۱۱:‏۲۴،‏ ۲۵‏۔‏

دُنیا سے دوستی بعض فائدے پہنچا سکتی ہے مگر یہ سب کچھ عارضی ہے کیونکہ اِس دُنیا کا خاتمہ جلد ہونے والا ہے۔‏ (‏۱-‏یوحنا ۱۵۲-‏۱۷)‏ اسلئے ہمیں موسیٰ کے نمونے پر چلنا چاہئے جسکی بابت بائبل کہتی ہے کہ وہ ”‏اندیکھے کو گویا دیکھ کر ثابت قدم رہا۔‏“‏ (‏عبرانیوں ۱۱:‏۲۷‏)‏ موسیٰ یہ کبھی نہیں بھولا تھا کہ وہ ابرہام کی نسل سے ہے اور وہ اپنے باپ‌دادا کی طرح خدا کی عبادت کرنا چاہتا تھا۔‏ موسیٰ نے یہوواہ خدا کی مرضی بجا لانے کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا تھا۔‏—‏خروج ۲:‏۱۱؛‏ اعمال ۷:‏۲۳،‏ ۲۵‏۔‏

جب مسیحی نوجوانوں کو ایسے لوگوں کیساتھ رہنا پڑتا ہے جو یہوواہ خدا کی عبادت نہیں کرتے اور اُن سے عداوت رکھتے ہیں تو ایسے حالات میں وہ کیا کر سکتے ہیں؟‏ وہ بائبل کا ذاتی مطالعہ کرنے سے ”‏اندیکھے خدا کو گویا دیکھ“‏ سکتے ہیں یعنی یہوواہ خدا کیساتھ ایک قریبی رشتہ قائم کر سکتے ہیں۔‏ اسکے علاوہ اُنکو باقاعدگی سے اجلاسوں پر حاضر ہونا،‏ منادی کے کام میں حصہ لینا اور دیگر مسیحی کاموں میں مشغول رہنا چاہئے۔‏ ایسا کرنے سے اُنکا دھیان خدا کو خوش کرنے پر لگا رہیگا۔‏ (‏زبور ۶۳:‏۶؛‏ ۷۷:‏۱۲‏)‏ ایسے نوجوانوں کو موسیٰ کی طرح اپنے ایمان اور اپنی اُمید میں مضبوط ہونے کی بھرپور کوشش کرنی چاہئے۔‏ اُنہیں اپنی ہر سوچ اور کام میں یہوواہ خدا کی راہنمائی کے طالب رہنا چاہئے اسطرح وہ خدا کے دوست ہونگے۔‏

ایک نوعمر لڑکی نے گواہی دی

الیشع نبی کے زمانے میں ارامی فوجیوں نے ایک اسرائیلی لڑکی کو اسیر کر لیا۔‏ ارامی لشکر کے سردار نعمان کی بیوی نے اِس لڑکی کو نوکرانی رکھ لیا۔‏ نعمان کو کوڑھ کی بیماری تھی۔‏ ایک دن اِس لڑکی نے اپنی بی‌بی سے کہا:‏ ”‏کاش میرا آقا اُس نبی کے ہاں ہوتا جو ساؔمریہ میں ہے تو وہ اُسے اُسکے کوڑھ سے شفا دے دیتا۔‏“‏ اِس لڑکی کی گواہی کی وجہ سے نعمان الیشع نبی سے ملنے کیلئے اسرائیل گیا اور اپنے کوڑھ سے شفا پا کر گھر واپس لوٹ آیا۔‏ اِس معجزے کی بدولت نعمان نے یہوواہ خدا کی عبادت کرنا بھی شروع کر دی۔‏—‏۲-‏سلاطین ۵:‏۱-‏۳،‏ ۱۳-‏۱۹‏۔‏

اِس اسرائیلی لڑکی کی مثال سے ہم سیکھ سکتے ہیں کہ نوجوانوں کو اُس وقت بھی دوسروں سے یہوواہ خدا کے بارے میں بات کرنی چاہئے جب وہ اپنے والدین سے دُور کہیں اَور رہ رہے ہوں۔‏ لیکن اگر اس لڑکی کو ”‏بیہودہ‌گوئی اور ٹھٹھابازی“‏ کی عادت ہوتی تو کیا وہ اتنے مؤثر طریقے سے اپنی بی‌بی کو یہوواہ کے بارے میں بتا سکتی تھی؟‏ (‏افسیوں ۵:‏۴؛‏ امثال ۱۵:‏۲‏)‏ نیکوس کی عمر تقریباً ۲۰ سال ہے۔‏ جب اُس نے فوج میں بھرتی ہونے سے انکار کر دیا تو اُسے قید میں ڈال دیا گیا جہاں اُس سے کھیتی‌باڑی کرائی جاتی تھی۔‏ وہ کہتا ہے:‏ ”‏مَیں کچھ جوان مسیحی بھائیوں کیساتھ اپنے خاندان اور کلیسیا سے دُور جیل میں بند تھا۔‏ مَیں نے محسوس کِیا کہ ہم بات‌چیت کرتے وقت بُرے الفاظ استعمال کرنے لگے تھے۔‏ مجھے افسوس ہے کہ ہم نے اپنی گفتگو سے یہوواہ کی حمد کرنے کی بجائے اُسکا دل دُکھایا۔‏“‏ نیکوس اور اُسکی طرح دوسرے نوجوانوں کی مدد کی گئی تاکہ وہ پولس رسول کے اِن الفاظ پر عمل کر سکیں:‏ ”‏جیسا .‏ .‏ .‏ مُقدسوں کو مناسب ہے تم میں حرامکاری اور کسی طرح کی ناپاکی یا لالچ کا ذکر تک نہ ہو۔‏“‏—‏افسیوں ۵:‏۳‏۔‏

یہوواہ اُنکے ساتھ تھا

یسوع مسیح نے کہا کہ جو تھوڑے میں دیانتدار ہے وہ بہت میں بھی دیانتدار رہیگا۔‏ (‏لوقا ۱۶:‏۱۰‏)‏ اِس بات کا ثبوت ہمیں اُس واقع سے ملتا ہے جو دانی‌ایل نبی کے تین عبرانی دوستوں کیساتھ پیش آیا۔‏ وہ بابلیوں کی قید میں تھے۔‏ اُنکو روزانہ شاہی خوراک سے کھانا ملتا تھا۔‏ لیکن اِس خوراک میں ایسی چیزیں شامل تھیں جو موسیٰ کی شریعت کے مطابق ناپاک تھیں۔‏ کیا اِن تین نوجوانوں نے سوچا کہ ہم مجبور ہیں اسلئے ہم اس خوراک کو کھا سکتے ہیں؟‏ ایسا نہیں تھا،‏ اُنہوں نے شاہی خوراک کھانے سے انکار کر دیا۔‏ وہ اِس چھوٹی سی بات میں بھی دیانتدار رہے۔‏ اِسلئے یہوواہ نے اُنکو برکت دے کر اُنکو اُن تمام قیدیوں سے زیادہ تندرست اور دانشمند بنا دیا جو شاہی خوراک کھاتے تھے۔‏ ایسی چھوٹی سی چھوٹی بات میں بھی یہوواہ کے وفادار رہنے سے اُنکا ایمان مضبوط ہو گیا۔‏ پھر جب اُنکو ایک مورت کے سامنے سجدہ کرنے کو کہا گیا تو وہ اِس بڑے امتحان میں بھی کامیاب ہوئے۔‏—‏دانی‌ایل ۱:‏۳-‏۲۱؛‏ ۳:‏۱-‏۳۰‏۔‏

اِن تین نوجوانوں نے یہوواہ خدا کیساتھ ایک قریبی رشتہ قائم کِیا۔‏ اپنے وطن اور سچی پرستش کے مرکز سے دُور ہونے کے باوجود وہ جانتے تھے کہ خدا اُنکے ساتھ ہے۔‏ اِس وجہ سے اُنہوں نے دُنیا سے بیداغ رہنے کا پکا اِرادہ کر لیا۔‏ (‏۲-‏پطرس ۳:‏۱۴‏)‏ یہ نوجوان یہوواہ خدا کیساتھ اپنے رشتے کی اتنی قدر کرتے تھے کہ وہ اِس رشتے کو برقرار رکھنے کیلئے مرنے کو بھی تیار تھے۔‏

یہوواہ آپکو ترک نہیں کریگا

جب نوجوانوں کو اپنے عزیزوں سے دُور رہنے پر مجبور کِیا جاتا ہے تو وہ اکثر بہت زیادہ خوفزدہ اور پریشان ہو جاتے ہیں۔‏ لیکن یہوواہ نے وعدہ کِیا ہے کہ وہ اُنکو ”‏ترک نہیں کریگا۔‏“‏ (‏زبور ۹۴:‏۱۴‏)‏ اِسلئے وہ ہر آزمائش اور مشکل کا سامنا کر سکتے ہیں۔‏ اگر ایسے نوجوانوں کو ’‏راستبازی کی خاطر دُکھ سہنا‘‏ بھی پڑے تو یہوواہ اُنکی مدد کریگا تاکہ وہ ’‏انصاف کے راستوں پر چل سکیں۔‏‘‏—‏۱-‏پطرس ۳:‏۱۴؛‏ امثال ۸:‏۲۰‏۔‏

یہوواہ خدا نے یوسف،‏ موسیٰ،‏ چھوٹی اسرائیلی لڑکی اور دانی‌ایل کے تین عبرانی ساتھیوں کو ہمیشہ طاقت بخشی اور اُنکو برکت بھی دی۔‏ آج یہوواہ اپنی رُوح‌اُلقدس،‏ اپنے کلام اور اپنی تنظیم کے ذریعے اُن لوگوں کی مدد کر رہا ہے جو ”‏ایمان کی اچھی کشتی لڑ“‏ رہے ہیں۔‏ وہ اُنکو انعام کے طور پر ”‏ہمیشہ کی زندگی“‏ کی اُمید بھی دیتا ہے۔‏ (‏۱-‏تیمتھیس ۶:‏۱۱،‏ ۱۲‏)‏ جی‌ہاں،‏ اپنے چال‌چلن میں یہوواہ کے لائق چال چلنا ضروری ہے اور ایسا کرنا دانشمندی کی بات بھی  ہے۔‏—‏امثال ۲۳:‏۱۵،‏ ۱۹‏۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 2 مینارِنگہبانی،‏ مئی ۱،‏ ۱۹۹۶،‏ صفحہ ۱۸-‏۲۰ کو دیکھیں۔‏

^ پیراگراف 5 بعض نام بدل دئے گئے ہیں۔‏

‏[‏صفحہ ۲۵ پر بکس]‏

والدین اپنے بچوں کو آگاہ کریں!‏

”‏جوانی کے فرزند ایسے ہیں جیسے زبردست کے ہاتھ میں تیر۔‏“‏ (‏زبور ۱۲۷:‏۴‏)‏ ایک تیر نشانے تک کیسے پہنچ سکتا ہے؟‏ یہ صرف اُسی وقت ممکن ہے جب ایک ماہر شکاری نشانہ باندھ کر تیر کو چھوڑتا ہے۔‏ اِسی طرح والدین کو ماہرانہ طریقے سے اپنے بچوں کی تربیت کرنی چاہئے۔‏ پھر چاہے اُنکے بچے اُنکے پاس ہوں یا دُور وہ ہمیشہ اُسی راہ پر چلینگے جسکی تربیت اُنکو اپنے والدین سے ملی تھی۔‏—‏امثال ۲۲:‏۶‏۔‏

نوجوان لوگ اکثر جلدبازی سے کام لے کر ”‏جوانی کی خواہشوں“‏ کو پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔‏ (‏۲-‏تیمتھیس ۲:‏۲۲‏)‏ اِس وجہ سے بائبل آگاہ کرتی ہے کہ ”‏چھڑی اور تنبیہ حکمت بخشتی ہیں لیکن جو لڑکا بےتربیت چھوڑ دیا جاتا ہے اپنی ماں کو رسوا کریگا۔‏“‏ (‏امثال ۲۹:‏۱۵‏)‏ اگر نوجوانوں کو تربیت نہ کی جائے تو وہ والدین سے دُور رہ کر مشکلات اور مسائل سے نہیں نپٹ سکیں گے۔‏

مسیحی والدین کو چاہئے کہ وہ اپنے بچوں کو زندگی میں آنے والی اُونچ نیچ سے آگاہ کریں۔‏ حالانکہ والدین اپنے بچوں کو پریشان نہیں کرنا چاہتے اُنہیں اپنے بچوں کو صاف طور پر بتانا چاہئے کہ زندگی میں کس قِسم کے دباؤ اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔‏ اِسطرح وہ اپنے بچوں کی ماہرانہ طریقے سے تربیت کر سکیں گے۔‏ اِس تربیت اور خدا کی راہنمائی کی بِنا پر ’‏سادہ دل ہوشیاری اور جوان علم اور تمیز‘‏ حاصل کر سکیں گے۔‏—‏امثال ۱:‏۴‏۔‏

جب والدین اپنے بچوں کے دلوں میں خدا کے اُصولوں کیلئے محبت پیدا کرتے ہیں تو وہ اُنکو زندگی کے مسائل کا سامنا کرنے کیلئے تیار کرتے ہیں۔‏ ایسا کرنے کیلئے باقاعدگی سے خاندان کے طور پر بائبل کا مطالعہ کرنا،‏ اپنے بچوں سے ہمیشہ بات‌چیت کرنے کو تیار رہنا اور اُنکی دل سے پرواہ کرنا بہت اہم ہے۔‏ والدین کو چاہئے کہ وہ اپنے بچوں کیلئے تمام فیصلے نہ کریں بلکہ اُنکو فیصلے کرنے کی اجازت دیں۔‏ والدین کو متوازن مگر مثبت اور معقول طریقے سے خدائی تربیت کرنی چاہئے اور اپنے بچوں کو زندگی میں اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کی تعلیم دینی چاہئے۔‏ اپنے ذاتی نمونے سے والدین اپنے بچوں کو یہ سکھا سکتے ہیں کہ اِس دُنیا میں رہتے ہوئے بھی دُنیا کا حصہ نہ ہونا ممکن ہے۔‏—‏یوحنا ۱۷:‏۱۵،‏ ۱۶‏۔‏

‏[‏صفحہ ۲۳ پر تصویر]‏

بعض مسیحی نوجوانوں کو مجبوراً اپنا گھر چھوڑنا پڑا

‏[‏صفحہ ۲۴ پر تصویریں]‏

جب نوجوانوں کو بُرے کام کرنے کیلئے اُکسایا جاتا ہے تو وہ یوسف کی طرح بداخلاقی سے کنارہ کر سکتے ہیں

‏[‏صفحہ ۲۶ پر تصویریں]‏

اسرائیلی لڑکی کی طرح ہمیں بھی دوسروں کو یہوواہ کے بارے میں بتانا چاہئے