سوالات از قارئین
سوالات از قارئین
الیشع نے ایلیاہ کی روح کا ”دُونا حصہ“ کیوں مانگا تھا؟
اسرائیل میں ایلیاہ کے نبوّتی دَور کے اختتامی دنوں میں نوجوان نبی الیشع نے اُس سے یہ درخواست کی: ”تیری رُوح کا دُونا حصہ مجھ پر ہو۔“ (۲-سلاطین ۲:۹) روحانی مفہوم میں الیشع بالکل ویسے ہی دُونا حصہ مانگ رہا تھا جیسے پہلوٹھے کو ملتا ہے۔ (استثنا ۲۱:۱۷) اس سرگزشت کا جائزہ نہ صرف اس بات کو واضح کریگا بلکہ کچھ سبق سیکھنے میں بھی ہماری مدد کریگا۔
یہوواہ کی ہدایت کے مطابق ایلیاہ نبی نے الیشع کو اپنے جانشین کے طور پر مسح کِیا تھا۔ (۱-سلاطین ۱۹:۱۹-۲۱) کوئی چھ سال تک، الیشع نے وفاداری سے ایلیاہ کی خدمت کی تھی اور آخر تک ایسا کرنے کیلئے پُرعزم تھا۔ الیشع اسرائیل میں ایلیاہ کے آخری نبوّتی دن پر بھی اپنے اُستاد کیساتھ ہی تھا۔ اگرچہ ایلیاہ نے الیشع کو اپنے پیچھے آنے سے منع کِیا توبھی نوجوان نبی نے تین مرتبہ کہا: ”مَیں تجھے نہیں چھوڑونگا۔“ (۲-سلاطین ۲:۲، ۴، ۶؛ ۳:۱۱) واقعی، الیشع نے اِس عمررسیدہ نبی کو اپنا روحانی باپ سمجھا تھا۔—۲-سلاطین ۲:۱۲۔
تاہم، الیشع ہی ایلیاہ کا روحانی بیٹا نہیں تھا۔ ایلیاہ اور الیشع ایسے لوگوں کیساتھ رہتے تھے جو ”انبیازادے“ کہلاتے تھے۔ (۲-سلاطین ۲:۳) دوسرا سلاطین کا بیان ظاہر کرتا ہے کہ یہ بھی اپنے روحانی باپ، ایلیاہ کیساتھ بہت قریبی رشتہ رکھتے تھے۔ (۲-سلاطین ۲:۳، ۵، ۷، ۱۵-۱۷) تاہم، مسحشُدہ جانشین کے طور پر الیشع کو ایلیاہ کے دیگر روحانی بیٹوں پر فضیلت حاصل تھی گویا وہ پہلوٹھے کی طرح تھا۔ قدیم اسرائیل میں پہلوٹھے بیٹے کو باپ کی میراث سے دُونا حصہ ملتا تھا جبکہ باقی بیٹوں کو ایک حصہ ملتا تھا۔ لہٰذا، الیشع نے ایلیاہ کی روحانی میراث کا دُونا حصہ مانگا تھا۔
الیشع نے یہ درخواست بالخصوص اسی وقت کیوں کی تھی؟ اسلئےکہ اب وہ ایلیاہ کی جگہ اسرائیل کیلئے نبی مقرر ہونے کی بھاری ذمہداری اُٹھانے والا تھا۔ الیشع جانتا تھا کہ اس اہم تفویض سے متعلق ذمہداریاں پوری کرنے کیلئے اُسے اپنی لیاقتوں سے کہیں زیادہ روحانی طاقت کی ضرورت تھی اور یہ طاقت اُسے صرف یہوواہ ہی سے مِل سکتی تھی۔ وہ ایلیاہ کی طرح نڈر ہونا چاہتا تھا۔ (۲-سلاطین ۱:۳، ۴، ۱۵، ۱۶) لہٰذا، اُس نے ایلیاہ کی روح کا دُونا حصہ مانگا تاکہ وہ دلیری اور ’یہوواہ کیلئے بڑی غیرت‘ دکھا سکے اور اپنے اندر خدا کی روح کی دلکش خوبیاں پیدا کرے۔ (۱-سلاطین ۱۹:۱۰، ۱۴) ایلیاہ نے کیسا ردِعمل دکھایا؟
ایلیاہ جانتا تھا کہ الیشع جو مانگ رہا ہے وہ دینا اُسکے اختیار میں نہیں بلکہ صرف خدا کے اختیار میں ہے۔ اسلئے ایلیاہ نے انکساری سے کہا: ”تُو نے مشکل سوال کِیا تَوبھی اگر تُو مجھے اپنے سے جُدا ہوتے دیکھے تو تیرے لئے ایسا ہی ہوگا۔“ (۲-سلاطین ۲:۱۰) یہوواہ نے واقعی الیشع کو اجازت دی کہ وہ ایلیاہ کو بگولے میں جاتے ہوئے دیکھے۔ (۲-سلاطین ۲:۱۱، ۱۲) الیشع کی درخواست پوری ہو گئی۔ یہوواہ نے اُسے قوت عطا کی جو اُسے اپنی نئی تفویض پوری کرنے اور آئندہ مشکلات کا سامنا کرنے کیلئے درکار تھی۔
آجکل، ممسوح مسیحی (بعضاوقات الیشع جماعت کہلاتے ہیں) اور خدا کے دیگر خادم اس سرگزشت سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ بعضاوقات، ہم محسوس کر سکتے ہیں کہ ہم کسی نئی تفویض کے لائق نہیں یا پھر ہم اپنے علاقے میں بےحسی یا مخالفت کا سامنا کرنے سے اپنی بادشاہتی منادی میں حوصلہشکنی محسوس کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر ہم یہوواہ سے مدد مانگیں تو وہ ہمیں روحالقدس ضرور دیگا کیونکہ ہمیں مشکلات اور بدلتے ہوئے حالات سے نپٹنے کیلئے اسی کی ضرورت ہے۔ (لوقا ۱۱:۱۳؛ ۲-کرنتھیوں ۴:۷؛ فلپیوں ۴:۱۳) جیہاں، جیسے یہوواہ نے الیشع کو اُسکی بھاری ذمہداریوں کیلئے مضبوط کِیا تھا ویسے ہی وہ اپنی خدمت کو پورا کرنے کیلئے ہم سب کی مدد کریگا۔—۲-تیمتھیس ۴:۵۔