یہوواہ مجھے بچپن سے سکھاتا آیا ہے
میری کہانی میری زبانی
یہوواہ مجھے بچپن سے سکھاتا آیا ہے
از رچرڈ ابرہامسن
”اَے خدا! تُو مجھے بچپن سے سکھاتا آیا ہے اور مَیں اب تک تیرے عجائب کا بیان کرتا رہا ہوں۔“ آئیے مَیں آپ کو بتاتا ہوں کہ زبور ۷۱:۱۷ کے یہ الفاظ میرے لئے اتنی اہمیت کیوں رکھتے ہیں۔
جب مَیں ایک سال کا تھا تو ۱۹۲۴ میں میری ماں فینی ابرہامسن کی ملاقات یہوواہ کے گواہوں کے ساتھ ہوئی جو اُس زمانے میں بائبل طالبعلم کہلاتے تھے۔ ماں جب بھی اُن سے کوئی بائبل سچائی سیکھتی تو فوراً جا کر پڑوسیوں کو بتاتی۔ اِس کے علاوہ وہ مجھے اور میری بڑی بہن کو بھی سکھایا کرتی تھی۔ چھوٹی عمر سے ہی میری ماں نے مجھے یہوواہ خدا کی بادشاہت کی برکات کے بارے میں صحائف یاد کرنے میں مدد دی تھی۔
مَیں امریکہ کے شہر لاگرانڈے میں پیدا ہوا۔ وہاں یہوواہ کے گواہوں کا ایک چھوٹا سا گروپ ہوا کرتا تھا۔ اگرچہ ہم دوسری کلیسیاؤں سے بہت دُور تھے توبھی سفری نگہبان باقاعدگی سے سال میں ایک یا دو دفعہ ہمارے گروپ کا دورہ کِیا کرتے تھے۔ یہ سفری نگہبان تقریروں سے ہماری حوصلہافزائی کرتے اور ہمارے ساتھ منادی کے کام میں بھی حصہ لیتے تھے۔ سب سے بڑھکر وہ ہم بچوں سے بہت پیار کِیا کرتے تھے۔
سن ۱۹۳۱ میں اوہایو میں ایک کنونشن منعقد ہوا جہاں بائبل طالبعلموں نے اپنا نام بدل کر یہوواہ کے گواہ رکھ لیا۔ لیکن جو کلیسیائیں کسی وجہ سے اس کنونشن پر حاضر نہ ہو سکیں اُنہوں نے مقامی طور پر اگست کے مہینے میں اس نام کی بابت قرارداد کو قبول کر لیا۔ ہمارے گروپ نے بھی ایسا ہی
کِیا۔ جب ۱۹۳۳ میں لوگوں کو ایک خاص کتابچہ پیش کِیا جا رہا تھا تو مَیں نے پہلی بار اکیلے منادی کے کام میں حصہ لیا۔یہوواہ کے گواہوں کے خلاف ۱۹۳۰ کے دہے میں بہت سی کارروائیاں ہونے لگیں۔ اس مشکل کا سامنا کرنے کے لئے اسمبلیاں چھوٹے پیمانے پر منعقد کی گئیں اور منادی کے کام کا خاص بندوبست بھی بنایا گیا۔ اس کے علاوہ بہن بھائیوں کو ایک ہدایتی پرچہ دیا گیا تاکہ اگر اُنہیں پولیس یا عدالت میں پیش کِیا جائے تو اُن کو معلوم ہو کہ وہ کس طرح سے بات کریں گے۔ اس سے ہماری بہت مدد ہوئی۔
خدا کے کلام میں ابتدائی ترقی
زمینی فردوس کی اُمید نے میرے دل پر گہرا اثر کِیا۔ لیکن اُس وقت بپتسمہ صرف اُن کو دیا جاتا تھا جو یسوع کے ساتھ آسمان پر حکمرانی کرنے کی اُمید رکھتے تھے۔ (مکاشفہ ۵:۱۰؛ ۱۴:۱، ۳) مجھے یہ بتایا گیا کہ اگر مَیں دل سے یہوواہ کی مرضی پوری کرنا چاہتا ہوں تو مجھے بپتسمہ لینا چاہئے۔ اس وجہ سے مَیں نے اگست ۱۹۳۳ میں بپتسمہ لے لیا۔
جب مَیں ۱۲ سال کا تھا تو میری اُستانی نے میری ماں کو بتایا کہ یہ لڑکا اچھی تقاریر پیش کرتا ہے۔ اگر مَیں اُس کی مدد کروں تو اُس میں مزید بہتری آ سکتی ہے۔ میری ماں نے یہ سوچ کر ہاں کر دی کہ اس طرح مَیں بہتر طور پر یہوواہ کی خدمت کر سکوں گا۔ ماں کے پاس اُستانی کو دینے کے لئے کوئی پیسے نہ تھے۔ اس لئے ماں نے ایک سال تک اُس کے کپڑے دھوئے۔ اُستانی کی مدد سے مَیں نے منادی کے کام میں ترقی کی۔ جب مَیں ۱۴ سال کا تھا تو مجھے جوڑوں کی بیماری ہو گئی جس کی وجہ سے مَیں ایک سال تک سکول نہ جا سکا۔
سن ۱۹۳۹ میں ایک کُلوقتی خادم وارن ہینشل ہمارے علاقے میں رہنے کے لئے آیا۔ * وہ میرے لئے بڑے بھائی کی طرح تھا۔ وارن مجھے پورے دن کے لئے منادی کے کام میں لے جایا کرتا تھا۔ اُس کی مدد سے مَیں نے سکول کی چھٹیوں کے دوران پائینر خدمت بھی کی۔ اسی سال ہمارے گروپ کو کلیسیا بنا دیا گیا۔ وارن کو کلیسیا کا خادم مقرر کِیا گیا اور مَیں مینارِنگہبانی کے مطالعہ کا کنڈکٹر مقرر ہوا۔ پھر جب وارن نیو یارک بیتایل میں کام کرنے کے لئے چلا گیا تو مجھے کلیسیا کا خادم مقرر کر دیا گیا۔
کُلوقتی خدمت کا آغاز
کلیسیا کی بڑھتی ہوئی ذمہداریوں نے میرے اندر کُلوقتی مُناد بننے کی خواہش پیدا کی۔ اس لئے مَیں نے ۱۷ سال کی عمر میں سکول کی پڑھائی ختم کر دی۔ میرا باپ یہوواہ کا گواہ تو نہیں تھا لیکن وہ ایک اچھا انسان ہونے کے ساتھ ساتھ خاندان کی اچھی کفالت کرتا تھا۔ میرے والد نے مجھ سے کہا: ”مَیں کالج جانے میں تمہاری مدد کرنے کو تیار ہوں لیکن اگر تم پائنیر بننا چاہتے ہو تو تمہیں اپنی دیکھبھال خود کرنی ہوگی۔“ مَیں خدا کی خدمت کرنا چاہتا تھا۔ اِس لئے مَیں نے یکم ستمبر ۱۹۴۰ کو پائنیر خدمت کا آغاز کر دیا۔
امثال ۳:۵، ۶ کا حوالہ پڑھ کر سنایا جس میں لکھا ہے کہ ”سارے دل سے [یہوواہ] پر توکل کر اور اپنے فہم پر تکیہ نہ کر۔ اپنی سب راہوں میں اُس کو پہچان اور وہ تیری راہنمائی کرے گا۔“ اس حوالے پر عمل کرنے سے مَیں نے زندگی کے ہر موڑ پر یہوواہ پر بھروسا کِیا اور اُس نے میری مدد کی۔
جب مَیں گھر سے جُدا ہو رہا تھا تو میری ماں نے مجھےپھر مَیں نے جَو اور مارگریٹ ہارٹ کے ساتھ مل کر واشنگٹن کے صوبہ میں منادی کا کام شروع کر دیا۔ اس علاقے میں لوگ مویشی، بھیڑبکریاں پالتے تھے اور امریکن انڈینز کے علاوہ اور بہت سے چھوٹے چھوٹے گاؤں بھی ہیں۔ سن ۱۹۴۱ میں مَیں وناچی، واشنگٹن کلیسیا کا خادم مقرر ہوا۔
واشنگٹن میں ایک اسمبلی کے دوران مَیں حاضرباش کی ڈیوٹی دے رہا تھا۔ مَیں نے دیکھا کہ ایک بھائی کو لاؤڈسپیکر کی تاریں جوڑنا نہیں آ رہا تھا۔ اِس لئے مَیں نے اُسے ذمہداری تبدیل کرنے کی پیشکش کی اور اُس کی ذمہداری کو پورا کرنے لگ گیا۔ جب ڈسٹرکٹ اوورسئیر نے یہ دیکھا تو اُس نے مجھے بڑے پیار سے سمجھایا کہ ہمیں اُس وقت تک اپنی ذمہداری کو نہیں چھوڑنا چاہئے جب تک ہمیں کہا نہ جائے۔ اس مشورت نے میری زندگی میں بہت مدد کی۔
اگست ۱۹۴۱ میں یہوواہ کے گواہوں نے سینٹلوئس، میسوری میں ایک بڑے کنونشن کے انعقاد کا منصوبہ بنایا۔ جَو اور مارگریٹ نے اپنی پکاَپ میں بینچ رکھے۔ اس طرح ہم نو پائنیروں نے اس میں بیٹھ کر ۵۰۰،۱ میل کا سفر ایک ہفتے میں طے کِیا۔ پولیس نے اندازہ لگایا کہ اس کنونشن پر حاضر ہونے والوں کی تعداد تقریباً ۰۰۰،۱۵،۱ تھی۔ یہ اندازہ درست تھا یا نہیں، اُس وقت پورے امریکہ میں یہوواہ کے گواہوں کی تعداد صرف ۰۰۰،۶۵ کے قریب تھی۔ اِس کا مطلب ہے کہ اُس کنونشن پر گواہوں کے علاوہ بھی بہت لوگ حاضر تھے۔ اس کنونشن نے ہماری روحانی طور پر بہت مدد کی۔
بروکلن بیتایل میں خدمت
وناچی واپس پہنچنے پر مجھے بیتایل میں کام کرنے کا دعوتنامہ ملا۔ جب مَیں ۲۷ اکتوبر ۱۹۴۱ کو بیتایل پہنچا تو مجھے فیکٹری اوورسئیر بھائی ناتھن ایچ. نار کے پاس لے جایا گیا۔ اُس نے مجھے بیتایل کی زندگی کے بارے میں بتایا اور یہ سمجھایا کہ اگر ہم اپنی زندگی کو کامیاب بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں یہوواہ کے ساتھ اپنا رشتہ مضبوط بنانا پڑے گا۔ اس کے بعد مَیں نے اُس ڈیپارٹمنٹ میں کام شروع کِیا جہاں رسالوں کو باندھ کر بھیجنے کے لئے تیار کِیا جاتا ہے۔
جنوری ۸، ۱۹۴۲ کو بھائی جوزف رتھرفورڈ انتقال کر گئے جو اُس وقت یہوواہ کے گواہوں کے عالمگیر کام کی دیکھبھال کرتے تھے۔ اس کے پانچ دن بعد بھائی ناتھن ایچ. نار کو صدر کے عہدے کے لئے مقرر کِیا گیا۔ بیتایل کے خزانچی نے تمام بھائیوں کے سامنے یہ اعلان کِیا: ”مجھے وہ دن ابھی بھی یاد ہے جب ۱۹۱۶ میں بھائی سی. ٹی. رسل نے وفات پائی اور بھائی جے. ایف. رتھرفورڈ نے اُن کا عہدہ
سنبھالا۔ خداوند یسوع مسیح یہوواہ خدا کے اِس کام کی راہنمائی اور دیکھبھال کر رہا ہے اور اُس نے یہ ذمہداری بھائی ناتھن ایچ. نار کو سونپی ہے۔“فروری ۱۹۴۲ میں بیتایل میں کام کرنے والوں کے لئے ایک کورس کا آغاز کِیا گیا۔ کورس میں بھائیوں کو بائبل کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا اور اِسے تقریر میں پیش کرنا سکھایا گیا۔ چھوٹی عمر میں ہی یہ تعلیم حاصل کرنے کی وجہ سے مَیں نے اِس کورس میں بہت جلد ترقی کی۔
جلد ہی مَیں سروس ڈیپارٹمنٹ میں خدمت کرنے لگا جہاں پورے امریکہ میں کئے جانے والے منادی کے کام کی دیکھبھال کی جاتی ہے۔ پھر اسی سال سفری نگہبانوں کے لئے ایک پروگرام کا آغاز کرنے کا اعلان کِیا گیا جس کا مقصد بھائیوں کی تربیت کرنا تھا تاکہ وہ مختلف کلیسیاؤں کا دورہ کر سکیں اور اُن کو حوصلہافزائی دیں۔ سن ۱۹۴۲ میں اس کورس کا آغاز ہوا۔ اس کورس میں مَیں بھی شامل تھا۔ مجھے خاص طور پر بھائی نار کے الفاظ یاد ہیں جو انہوں نے ہم سے کہے تھے: ”انسانوں کو خوش کرنے کی کوشش نہ کریں ورنہ آپ کسی کو بھی خوش نہیں کر سکیں گے۔ اِس کی بجائے یہوواہ کو خوش کریں تو آپ اُن تمام لوگوں کو خوش کر سکیں گے جو یہوواہ سے محبت رکھتے ہیں۔“
اکتوبر ۱۹۴۲ میں کلیسیاؤں کا دورہ کرنے کا کام شروع ہوا۔ بیتایل میں سے کچھ بھائی اکثر ہفتے کے آخر میں نیو یارک کی کلیسیاؤں کا دورہ کرتے۔ ایسا کرنے کے لئے اُنہیں ۲۵۰ میل کا فاصلہ طے کرنا پڑتا تھا۔ ہم کلیسیا کی منادی اور حاضری کے بارے میں رپورٹ دیتے، کلیسیا میں ذمہداری رکھنے والے بھائیوں سے ملاقات کرتے، ایک یا دو تقریریں دیتے اور بہنبھائیوں کے ساتھ ملکر منادی کے کام میں حصہ لیتے تھے۔
سن ۱۹۴۴ میں سروس ڈیپاڑٹمنٹ سے مجھے اور مختلف بھائیوں کو سفری نگہبان کے طور پر میریلینڈ، پینسلوانیا اور ورجینیا بھیجا گیا۔ اس کے بعد مجھے کچھ مہینوں کے لئے مختلف صوبوں کے علاوہ روڈ آئیلینڈ بھی بھیجا گیا۔ جب مَیں بیتایل واپس آیا تو مَیں نے بھائی نار اور اُن کے سیکرٹری ملٹن ہینشل کے ساتھ کام کِیا۔ وہاں پر مَیں نے پوری دُنیا میں ہونے والے یہوواہ کے گواہوں کے کام کا انتظام ہوتے دیکھا۔ اس کے علاوہ مَیں نے خزانچی کے دفتر میں بھائی وان ایمبرگ اور اُن کے اسسٹنٹ بھائی گرانٹ سوٹر کے ساتھ مل کر بھی کام کِیا۔ سن ۱۹۴۶ میں مجھے بیتایل میں مختلف دفاتر کا اوورسئیر بنا دیا گیا۔
میری زندگی میں بڑی تبدیلیاں
جب مَیں ۱۹۴۵ میں مختلف کلیسیاؤں کا دورہ کر رہا تھا تو میری ملاقات جولیا چارنوسکاس سے ہوئی جو روڈ آئیلینڈ کے شہر پروویڈنس میں رہتی تھی۔ ہم دونوں شادی کے بارے میں سوچنے لگے۔ اُس وقت ایسا کوئی انتظام نہ تھا کہ آپ شادی کرکے اپنے بیاہتا ساتھی کو بیتایل میں لا سکیں۔ اس لئے ۱۹۴۸ میں مَیں نے بیتایل چھوڑ دیا اور میری اور جولیا کی شادی ہو گئی۔ مَیں نے پروویڈنس میں ملازمت شروع کر دی اور اِس کے ساتھ ساتھ ہم دونوں نے پائنیر خدمت بھی شروع کر دی۔
پھر ستمبر ۱۹۴۹ میں سرکٹ کے کام کے لئے مجھے وسکانسن جانے کے لئے کہا گیا۔ ان دیہاتی علاقوں میں کام کرنا ہمارے لئے ایک نیا تجربہ تھا۔ یہاں پر بہت برفباری ہوتی ہے اور اکثر درجۂحرارت منفی ۲۰ ڈگری تک چلا جاتا ہے۔ ہمارے پاس گاڑی نہیں تھی لیکن کوئی نہ کوئی ہمیں دوسری کلیسیا تک پہنچانے کے لئے سواری کا انتظام کر دیتا تھا۔
اس کے تھوڑے عرصے بعد سرکٹ اسمبلی منعقد ہوئی۔ مجھے یاد ہے کہ مَیں اسمبلی پر مختلف چیزوں کی نگرانی کرتے ہوئے بھائیوں کے ہر چھوٹے چھوٹے کام کو بڑی احتیاط سے چیک کر رہا تھا۔ بعض بھائی میرے اِس رویے سے پریشان ہو گئے۔ اس لئے ڈسٹرکٹ اوورسئیر نے مجھے بڑے پیار سے سمجھایا کہ یہاں بھائی خود ہی اچھی طرح کام کرنے کے قابل ہیں۔ اُن کو اپنے طریقے سے کام کرنے دو۔ اس مشورت سے میری بہت مدد ہوئی۔
سن ۱۹۵۰ میں یہوواہ کے گواہوں کا ایک بڑا کنونشن یانکی سٹیڈیم میں منعقد ہوا۔ مجھے دوسرے ملکوں یا شہروں سے آنے والے
بہنبھائیوں کے رہنے کا بندوبست کرنے کی ذمہداری دی گئی۔ کنونشن شروع سے لے کر آخر تک بہت ہی شاندار ثابت ہوا۔ اس میں ۶۷ مختلف ممالک سے آنے والے بہنبھائیوں نے شرکت کی۔ کنونشن کی کُل حاضری ۷۰۷،۲۳،۱ تھی! کنونشن کے بعد جولیا اور مَیں نے دوبارہ سرکٹ کا کام شروع کر دیا۔ ہم دونوں اس کام میں بہت خوش تھے۔ لیکن ہم اپنے آپ کو ہر طرح کی کُلوقتی خدمت کے لئے پیش کرنا چاہتے تھے۔ اس لئے ہم ہر سال بیتایل اور مشنری خدمت کے لئے درخواستیں دیتے رہے۔ آخرکار ۱۹۵۲ میں ہمیں گلئیڈ سکول کی ۲۰ویں کلاس کا دعوتنامہ ملا جہاں ہمیں مشنری کام کی تربیت دی گئی۔دوسرے مُلک میں جا کر خدمت کرنا
سن ۱۹۵۳ میں ہمیں گلئیڈ سکول سے سند ملی اور ہمیں انگلینڈ کے جنوب میں بھیج دیا گیا جہاں مَیں سفری نگہبان کے طور پر خدمت کرنے لگا۔ ایک سال کا عرصہ بھی نہیں گزرا تھا کہ ہمیں ایک اَور خط ملا جس میں ہمیں ڈنمارک جانے کیلئے کہا گیا۔ وہاں بیتایل میں کام سنبھالنے کیلئے ایک بھائی کی ضرورت تھی۔ مجھے وہاں جانے کو کہا گیا کیونکہ مجھے اس کام کی پہلے ہی بروکلن بیتایل سے تربیت مل چکی تھی۔ انگلینڈ سے ہم ایک بحری جہاز پر بیٹھے جس نے ہمیں نیدرلینڈز پہنچا دیا۔ وہاں سے ہم ایک ریلگاڑی میں بیٹھ کر ۹ اگست، ۱۹۵۴ کو ڈنمارک کے شہر کوپنہیگن پہنچے۔
کوپنہیگن پہنچ کر ہمیں پتہ چلا کہ کچھ بھائی گورننگ باڈی کی ہدایات کے مطابق کام نہیں کر رہے تھے۔ اس کے علاوہ ڈنمارک کی زبان میں ترجمہ کرنے والے چار بھائیوں میں سے تین بیتایل
چھوڑ کر جا چکے تھے اور اُنہوں نے یہوواہ کے گواہوں کے ساتھ رابطہ رکھنا بھی بند کر دیا تھا۔ لیکن یہوواہ نے ایک پائینر جوڑے یورگن اور اِنا لارسن کے ذریعے ہماری دُعاؤں کا جواب دیا کیونکہ اُنہوں نے اپنے آپ کو بیتایل میں ترجمے کے کام کو سنبھالنے کے لئے پیش کِیا۔ اس طرح ترجمے کا یہ کام بغیر کوئی رسالہ رُکے جاری رہا۔ یہ دونوں ابھی بھی ڈنمارک میں خدمت کر رہے ہیں اور یورگن برانچ کوارڈینیٹر ہے۔اُن ابتدائی سالوں میں بھائی نار ڈنمارک برانچ کا اکثر دورہ کرتے جس سے ہمیں بہت حوصلہافزائی ملتی۔ وہ ہماری مدد کرتے اور ہمارے ساتھ بیٹھ کر مختلف مسائل پر باتچیت بھی کرتے تھے۔ جب بھائی نار نے ۱۹۵۵ میں دورہ کِیا تو اُنہوں نے ہمیں ایک بڑی جگہ تلاش کرنے کی ہدایت کی تاکہ ڈنمارک برانچ اپنے رسالے خود چھاپ سکے۔ اِس لئے شہر سے تھوڑا باہر زمین خریدی گئی اور تعمیری کام شروع ہوا۔ سن ۱۹۵۷ میں ہم اس نئی برانچ میں منتقل ہو گئے۔ بھائی ہیری جانسن اپنی بیوی کیرین کے ساتھ ابھی گلئیڈ سکول کی ۲۶ویں کلاس سے ڈنمارک پہنچا تھا۔ اُس نے یہاں پر پرنٹنگ کے کام کو چلانے میں مدد کی۔
مَیں نے امریکہ میں بہت سے کنونشن منعقد کرنے میں مدد کی تھی۔ یہ تجربہ اُس وقت ہمارے کام آیا جب ہم ڈنمارک میں کنونشن منعقد کرنے کے طریقوں کو ترقی دینا چاہتے تھے۔ سن ۱۹۶۱ میں کوپنہیگن میں انٹرنیشنل کنونشن منعقد ہوا جس میں ۳۰ مختلف ممالک سے لوگوں نے شرکت کی اور اس میں ۵۱۳،۳۳ لوگ حاضر ہوئے۔ پھر ۱۹۶۹ میں شمالی یورپ میں سب سے بڑا کنونشن ڈنمارک میں منعقد ہوا۔ اس میں ۰۷۳،۴۲ لوگوں نے شرکت کی!
پھر ۱۹۶۳ میں مجھے ۳۸ویں گلئیڈ کلاس کے لئے دعوت دی گئی۔ اس کلاس میں اُن بھائیوں کو اَور زیادہ تربیت دی جانی تھی جو برانچ دفتر کے کام کو سنبھال رہے تھے۔ دوبارہ بروکلن بیتایل جانا اور اُن تمام بھائیوں سے ملنا جو ہیڈکوارٹر کے کام کو سنبھالے ہوئے تھے میرے لئے ایک خوشخبری تھی۔
جب مَیں واپس ڈنمارک آیا تو مجھے زون اوورسئیر کے فرائض بھی انجام دینے کا موقع ملا۔ مَیں نے مغربی اور شمالی یورپ کے برانچ دفتروں میں کام کرنے والے بھائیوں سے ملاقات کی اور اُن کی حوصلہافزائی کی۔ حال ہی میں مَیں نے مغربی افریقہ اور کریبیئن کی برانچوں کا دورہ بھی کِیا ہے۔
ڈنمارک برانچ کو بڑھانے کیلئے ۱۹۷۰ کے دہے میں بھائی جگہ تلاش کرنے لگے تاکہ وہاں ترجمہ کرنے اور چھاپہخانہ کیلئے زیادہ جگہ مہیا کی جا سکے۔ بھائیوں کو کوپنہیگن سے تقریباً ۴۰ میل کے فاصلے پر ایک جگہ مل گئی۔ مَیں نے مختلف بھائیوں کے ساتھ مل کر برانچ کے تعمیری منصوبہ میں حصہ لیا۔ جولیا اور مَیں بیتایل خاندان کے ساتھ نئے بیتایل ہوم میں جانے کو بہت بیتاب تھے۔ لیکن ہمارا یہ خواب ادھورا ہی رہ گیا۔
بروکلن میں واپسی
نومبر ۱۹۸۰ میں جولیا اور مجھے دوبارہ بروکلن بیتایل میں کام کرنے کے لئے بلایا گیا اور ہم جنوری ۱۹۸۱ میں یہاں پہنچ گئے۔ اُس وقت ہماری عمر تقریباً ۶۰ سال تھی۔ ہم نے اپنی آدھی زندگی ڈنمارک کے بھائیوں کے ساتھ گزاری تھی۔ اس لئے اُن کو چھوڑ کر بروکلن بیتایل میں آنا ہمارے لئے آسان نہیں تھا۔ لیکن ہم نے اپنا پورا دھیان اپنی نئی ذمہداریوں پر لگایا۔ کیونکہ ہم جانتے تھے کہ ہمیں اپنی مرضی نہیں کرنی چاہئے بلکہ جہاں کہیں یہوواہ ہمیں استعمال کرنا چاہتا ہے وہاں اُس کی خدمت کرنی چاہئے۔
جب ہم بروکلن پہنچے تو جولیا کو اکاؤنٹنگ ڈیپارٹمنٹ میں کام دے دیا گیا جو وہ ڈنمارک میں بھی کِیا کرتی تھی۔ مَیں اُس ڈیپارٹمنٹ میں کام کرنے لگا جہاں بھائی رسالے اور دیگر مطبوعات لکھتے ہیں۔ مجھے رسالوں کو چھاپنے کے لئے تیار کرنا تھا۔ سن ۱۹۸۰ میں ٹائپ رائٹر کی جگہ کمپیوٹر اور چھاپنے کے لئے جدید مشینری کا استعمال شروع ہو گیا۔ یہ میرے لئے بہت مشکل ثابت ہوا کیونکہ مجھے کمپیوٹر کے بارے میں زیادہ علم نہیں تھا۔ لیکن مَیں انتظامی کام کرنے کا عادی تھا اور اِس بات نے میری مدد کی۔
اس کے تھوڑے ہی عرصے بعد ہم نے اپنی مطبوعات میں رنگین تصویریں چھاپنا شروع کر دیں۔ اِس وجہ سے آرٹ ڈیپارٹمنٹ میں بڑی تبدیلیاں آئیں اور کام کا انتظام کرنے کے لئے مجھے اس ڈیپارٹمنٹ کا اوورسئیر بنا دیا گیا۔ مَیں نو سال تک اس ڈیپارٹمنٹ کا اوورسئیر رہا۔
سن ۱۹۹۲ میں مجھے پبلشنگ کمیٹی کی مدد کرنے کی ذمہداری دی گئی۔ اس کے علاوہ مجھے خزانچی کے دفتر میں بھی کام دیا گیا جہاں مَیں آج بھی یہوواہ کے گواہوں کی تنظیم کے اخراجات کی دیکھبھال کر رہا ہوں۔
جوانی سے خدمت جاری رکھے ہوئے
اپنی جوانی سے لیکر آج تک مجھے یہوواہ کی خدمت کرتے ہوئے ۷۰ سال ہو چکے ہیں۔ مَیں ۶۳ سال سے کُلوقتی خدمت کر رہا ہوں۔ جبکہ اپنی بیوی جولیا کے ساتھ مَیں ۵۵ سال سے ایسا کر رہا ہوں۔ مَیں یہوواہ کا پورے دل سے شکرگزار ہوں جس نے مجھے اپنے کلام بائبل اور اپنی تنظیم کے ذریعے بھرپور مدد دی۔
مجھے وہ وقت یاد ہے جب میرے باپ نے ۱۹۴۰ میں میرا مذاق اُڑاتے ہوئے کہا تھا کہ ”اگر تم پائنیر بننا چاہتے ہو تو تمہیں اپنی دیکھبھال خود کرنی پڑے گی۔“ لیکن آج تک مَیں نے کبھی بھی اپنے باپ سے کچھ نہیں مانگا کیونکہ یہوواہ نے ہر وقت میری مدد کی ہے۔ سن ۱۹۷۲ میں میرے والد وفات پا گئے۔ وہ اپنے آخری سالوں میں سچائی میں خاصی دلچسپی لینا شروع ہو گئے تھے۔ میری والدہ آسمانی اُمید رکھتی تھی۔ وہ وفادای کے ساتھ یہوواہ خدا کی خدمت کرتی رہیں اور اُنہوں نے ۱۰۲ سال کی عمر میں ۱۹۸۵ میں وفات پائی۔
کُلوقتی کام کے دوران مشکلات تو آتی ہیں لیکن ہم دونوں نے اپنی تفویض پر پورا دھیان دیا اور یہوواہ نے ہماری بہت مدد کی۔ جب میرے ماں باپ کو بوڑھے ہونے کی وجہ سے دیکھبھال کی ضرورت تھی تو میری بڑی بہن وکٹوریہ مارلن اُن کی مدد کو تیار ہو گئی۔ ہم اُس کے بہت شکرگزار ہیں کہ اُس نے ہماری کُلوقتی خدمت کو جاری رکھنے میں مدد کی۔
مَیں جولیا کا تہہِدل سے شکریہ ادا کرتا ہوں جس نے تمام تفویضات میں میری بہت مدد کی ہے۔ اب مَیں ۸۰ سال کا ہوں اور مجھے کچھ صحت کی مشکلات کا سامنا ہے لیکن پھر بھی ہم دونوں بہت خوش ہیں اور یہوواہ اب بھی ہماری اچھی طرح سے دیکھبھال کر رہا ہے۔ مجھے زبور کے ان الفاظ سے بہت تقویت ملتی ہے جس نے یوں کہا: ’اَے خدا! جب مَیں بڈھا ہو جاؤں تو مجھے ترک نہ کرنا جب تک کہ مَیں تیرا زور ہر آنے والے پر ظاہر نہ کر دوں۔‘—زبور ۷۱:۱۷، ۱۸۔
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 12 وارن، ملٹن ہینشل کا بڑا بھائی تھا جو یہوواہ کے گواہوں کی گورننگ باڈی کا ممبر بھی رہ چکا ہے۔
[صفحہ ۲۰ پر تصویر]
سن ۱۹۴۰ میں اپنی ماں کے ساتھ جب مَیں نے پائنیر خدمت شروع کی تھی
[صفحہ ۲۱ پر تصویر]
میرے پائنیر ساتھی جَو اور مارگریٹ ہارٹ
[صفحہ ۲۳ پر تصویر]
جنوری ۱۹۴۸ کو ہماری شادی کے دن پر
[صفحہ ۲۳ پر تصویر]
سن ۱۹۵۳ میں گلئیڈ سکول کے ہمجماعتوں کے ساتھ۔ بائیں سے دائیں طرف: ڈون اور ورجینیا وارڈ، گیرتروڈا سٹیگنگا، جولیا اور مَیں
[صفحہ ۲۳ پر تصویر]
سن ۱۹۶۱ میں کوپنہیگن میں فریڈرک ڈبلیو فرانز اور ناتھن ایچ. نار کیساتھ
[صفحہ ۲۵ پر تصویر]
آج جولیا کیساتھ