مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

بادشاہتی پیغام قبول کرنے میں دوسروں کی مدد کریں

بادشاہتی پیغام قبول کرنے میں دوسروں کی مدد کریں

بادشاہتی پیغام قبول کرنے میں دوسروں کی مدد کریں

‏”‏اگرؔپا نے پولسؔ سے کہا تُو تو تھوڑی ہی سی نصیحت کرکے مجھے مسیحی کر لینا چاہتا ہے۔‏“‏—‏اعمال ۲۶:‏۲۸‏۔‏

۱،‏ ۲.‏ پولس رسول کو گورنر فیستُس اور بادشاہ ہیرودیس اگرپا دوم کے حضور کیوں پیش کِیا گیا تھا؟‏

بادشاہ ہیرودیس اگرپا دوم اور اُسکی بہن برنیکے نے ۵۸ س.‏ع.‏ میں قیصریہ میں رومی گورنر پُرکیس فیستُس سے ملاقات کی۔‏ اگلے ہی دن،‏ گورنر فیستُس کی دعوت پر وہ ”‏بڑی شان‌وشوکت سے پلٹن کے سرداروں اور شہر کے رئیسوں کیساتھ“‏ یروشلیم آئے۔‏ فیستُس کے حکم پر،‏ مسیحی رسول پولس کو اُنکے روبرو پیش کِیا گیا۔‏ یسوع مسیح کے اس پیروکار کو گورنر فیستُس کی عدالت میں کیوں پیش کِیا گیا تھا؟‏—‏اعمال ۲۵:‏۱۳-‏۲۳‏۔‏

۲ فیستُس نے اپنے مہمانوں کو جوکچھ بتایا وہ اس سوال کا جواب فراہم کرتا ہے۔‏ اُس نے کہا:‏ ”‏اَے اگرؔپا بادشاہ اور اَے سب حاضرین تم اس شخص کو دیکھتے ہو جسکی بابت یہودیوں کی ساری گروہ نے یرؔوشلیم میں اور یہاں بھی چلّا چلّا کر مجھ سے عرض کی کہ اسکا آگے کو جیتا رہنا مناسب نہیں۔‏ لیکن مجھے معلوم ہوا کہ اُس نے قتل کے لائق کچھ نہیں کِیا اور جب اُس نے خود شہنشاہ کے ہاں اپیل کی تو مَیں نے اُسکو بھیجنے کی تجویز کی۔‏ اُسکی نسبت مجھے کوئی ٹھیک بات معلوم نہیں کہ سرکارِعالی کو لکھوں۔‏ اس واسطے مَیں نے اُسکو تمہارے آگے اور خاص کر اَے اگرؔپا بادشاہ تیرے حضور حاضر کِیا ہے تاکہ تحقیقات کے بعد لکھنے کے قابل کوئی بات نکلے۔‏ کیونکہ قیدی کے بھیجتے وقت اُن الزاموں کو جو اُس پر لگائے گئے ہوں ظاہر نہ کرنا مجھے خلافِ‌عقل معلوم ہوتا ہے۔‏“‏—‏اعمال ۲۵:‏۲۴-‏۲۷‏۔‏

۳.‏ مذہبی پیشواؤں نے پولس پر کیوں الزام لگائے تھے؟‏

۳ فیستُس کے الفاظ ظاہر کرتے ہیں کہ پولس پر بغاوت کا اِلزام تھا جسکی سزا قتل ہو سکتی تھی۔‏ (‏اعمال ۲۵:‏۱۱‏)‏ ہرچند،‏ پولس بیگناہ تھا۔‏ یہ الزامات یروشلیم کے مذہبی پیشواؤں کے حسد کا نتیجہ تھے۔‏ وہ بادشاہتی مُناد کے طور پر پولس کے کام کی مخالفت کرتے تھے اور اس بات سے سخت ناراض تھے کہ وہ دوسروں کو یسوع مسیح کے پیروکار بننے میں مدد دے رہا ہے۔‏ سخت پہرے میں،‏ پولس کو یروشلیم سے رومی افواج کے ہیڈکواٹرز قیصریہ لایا گیا جہاں اُس نے قیصر کے ہاں اپیل کی۔‏ وہاں سے اُسے روم لیجایا جانا تھا۔‏

۴.‏ اگرپا بادشاہ نے کونسی حیرت‌انگیز بات کہی؟‏

۴ ذرا تصور کریں کہ پولس گورنر کے محل میں ایک ایسے گروہ کے روبرو کھڑا ہے جس میں رومی سلطنت کے اہم اہلکار شامل ہیں۔‏ اگرپا بادشاہ پولس سے مخاطب ہو کر کہتا ہے:‏ ”‏تجھے اپنے لئے بولنے کی اجازت ہے۔‏“‏ جب پولس بولنے لگتا ہے تو ایک غیرمعمولی بات واقع ہوتی ہے۔‏ پولس کی باتیں بادشاہ کو متاثر کرنے لگتی ہیں۔‏ بیشک،‏ اگرپا بادشاہ پکار اُٹھتا ہے:‏ ”‏تُو تو  تھوڑی ہی سی نصیحت کرکے مجھے مسیحی کر لینا چاہتا ہے۔‏“‏—‏اعمال ۲۶:‏۱-‏۲۸‏۔‏

۵.‏ اگرپا سے پولس کی گفتگو اتنی مؤثر کیوں تھی؟‏

۵ ذرا سوچیں!‏ پولس کے ماہرانہ دفاع کے نتیجے میں،‏ ایک حاکم خدا کے کلام کی طاقت سے متاثر ہو گیا تھا۔‏ (‏عبرانیوں ۴:‏۱۲‏)‏ پولس کی گفتگو میں ایسی کونسی بات تھی؟‏ نیز ہم پولس سے کیا سیکھ سکتے ہیں جو ہمیں شاگرد بنانے کے کام میں مدد دے سکتا ہے؟‏ اگر ہم اُسکے دفاع کا تجزیہ کریں تو دو باتیں بالکل واضح ہیں۔‏ (‏۱)‏ پولس کی پیشکش قائل کرنے والی تھی۔‏ (‏۲)‏ اُس نے خدا کے کلام کے اپنے علم کو بڑی مہارت سے استعمال کِیا بالکل اُسی طرح جیسے کوئی کاریگر کسی اوزار کو مؤثر طریقے سے استعمال کرتا ہے۔‏

قائل کرنے کا فن استعمال کریں

۶،‏ ۷.‏ (‏ا)‏ بائبل میں استعمال ہونے والے لفظ ”‏ترغیب دینا“‏ کا کیا مطلب ہے؟‏ (‏ب)‏ دوسروں کو بائبل تعلیم قبول کرنے میں مدد دینے کے سلسلے میں ترغیب دینا کیا کردار ادا کرتا ہے؟‏

۶ اعمال کی کتاب میں،‏ پولس کے حوالے سے ترغیب دینے یا متاثر کرنے کی اصطلاح بارہا استعمال ہوئی ہے۔‏ جہانتک ہمارے شاگرد بنانے کے کام کا تعلق ہے تو اسکا کیا مطلب ہے؟‏

۷ وائنز ایکسپوزیٹری ڈکشنری آف نیو ٹسٹامنٹ ورڈز کے مطابق،‏ مسیحی یونانی صحائف کی اصل زبان میں،‏ ”‏ترغیب دینا“‏ کا مطلب ہے ”‏جیت لینا“‏ یا ”‏اخلاقی طور پر یا استدلال کے ذریعے ذہنی تبدیلی پیدا کرنا۔‏“‏ اسکے اصل مطلب کا جائزہ لینا مزید روشن‌خیالی عطا کرتا ہے۔‏ یہ اعتماد کا نظریہ پیش کرتا ہے۔‏ لہٰذا اگر آپ کسی شخص کو بائبل تعلیم قبول کرنے کی ترغیب دیتے ہیں تو آپکو اسکے اعتماد کو جیتنا ہوگا تاکہ وہ اس تعلیم کی صداقت پر یقین رکھ سکے۔‏ واضح طور پر،‏ کسی چیز کو ماننے یا اُس پر ایمان لانے کیلئے یہ کافی نہیں کہ آپ ایک شخص کو محض یہ بتا دیں کہ بائبل اس سلسلے میں کیا کہتی ہے۔‏ آپکے سامع کو اس بات کا قائل ہونا چاہئے کہ جوکچھ آپ کہہ رہے ہیں وہ سچ ہے،‏ خواہ وہ شخص ایک بچہ،‏ پڑوسی،‏ ساتھی کارکُن،‏ ہم مکتب یا رشتہ‌دار  ہے۔‏—‏۲-‏تیمتھیس ۳:‏۱۴،‏ ۱۵‏۔‏

۸.‏ کسی شخص کو صحیفائی سچائی کیلئے قائل کرنے میں کیا کچھ شامل ہے؟‏

۸ آپ ایک شخص کو کیسے قائل کر سکتے ہیں کہ آپ خدا کے کلام سے جوکچھ بیان کر رہے ہیں وہ واقعی سچائی ہے؟‏ معقول دلیل،‏ منطقی استدلال اور مخلصانہ استدعا کے ذریعے پولس نے اُن لوگوں کی سوچ میں تبدیلی پیدا کرنے کی کوشش کی جن سے وہ کلام کر رہا تھا۔‏ * پس یہ کہنے کی بجائے کہ یہ سچائی ہے،‏ آپکو اپنے بیان کو سچ ثابت کرنے کیلئے ثبوت پیش کرنے کی ضرورت ہے۔‏ یہ کیسے کِیا جا سکتا ہے؟‏ اس بات کا یقین کر لیں کہ آپکا بیان ذاتی رائے کی بجائے خدا کے کلام پر مبنی ہے۔‏ نیز،‏ اپنے صحیفائی بیانات کی حمایت میں شہادت بھی پیش کریں۔‏ (‏امثال ۱۶:‏۲۳‏)‏ مثال کے طور پر،‏ اگر آپ یہ بتاتے ہیں کہ فرمانبردار انسان فردوسی زمین پر زندگی سے لطف اُٹھائینگے تو لوقا ۲۳:‏۴۳؛‏ یسعیاہ ۶۵:‏۲۱-‏۲۵ جیسے دیگر صحائف سے اس بیان کی تائید کریں۔‏ آپ اپنے صحیفائی نکتے کی تائید کیسے کر سکتے ہیں؟‏ آپ اپنے سامع کے تجربے سے مثالیں استعمال کر سکتے ہیں۔‏ آپ اُسے غروبِ‌آفتاب کے خوبصورت نظارے سے بِلامعاوضہ لطف‌اندوز ہونے،‏ پھول کی خوشبو سونگھنے،‏ پھل کا مزہ لینے یا پرندوں کو اپنے بچوں کو کھانا کھلاتے دیکھنے سے لطف اُٹھانے کی یاددہانی کرا سکتے ہیں۔‏ اُسے یہ سمجھنے میں مدد دیں کہ ایسے نظارے ظاہر کرتے ہیں کہ ہمارا خالق چاہتا ہے کہ ہم زمین پر زندگی سے لطف اُٹھائیں۔‏—‏واعظ ۳:‏۱۱،‏ ۱۲‏۔‏

۹.‏ ہم اپنے منادی کے کام میں معقول‌پسندی کیسے دکھا سکتے ہیں؟‏

۹ کسی شخص کو بائبل تعلیم قبول کرنے کی ترغیب دینے کی کوشش کرتے وقت اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ آپکا جوش آپکو نامعقول ثابت کرتے ہوئے آپکے سامع کے دل‌ودماغ کو بند نہ کر دے۔‏ خدمتی سکول کتاب یہ آگاہی دیتی ہے:‏ ”‏کسی شخص کے پُختہ عقیدے کو جھوٹا ثابت کرنے والی سچائی ناشائستہ انداز میں بیان کرنا عموماً اچھے نتائج پر منتج نہیں ہوتا،‏ خواہ اسکے ساتھ کئی صحائف ہی کیوں نہ استعمال کئے جائیں۔‏ مثال کے طور پر،‏ اگر مقبول تقریبات کی محض یہ کہتے ہوئے مذمت کی جاتی ہے کہ یہ جھوٹے مذہب کی اصل سے ہیں تو اس سے لوگوں کے احساسات میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوگی۔‏ ایک استدلالی رسائی عموماً زیادہ کامیاب ثابت ہوتی ہے۔‏“‏ کیوں نہ معقول ہونے کی بھرپور کوشش کریں؟‏ کتاب بیان کرتی ہے:‏ ”‏استدلالی انداز بات‌چیت کو فروغ دیتا ہے،‏ لوگوں کو بعدازاں سوچنے کی تحریک دیتا اور مستقبل میں مزید بات‌چیت کے مواقع فراہم کرتا ہے۔‏ یہ پُرزور طریقے سے ترغیب دے سکتا ہے۔‏“‏—‏کلسیوں ۴:‏۶‏۔‏

قائل کرنے کا دل‌پسند انداز

۱۰.‏ پولس نے کس انداز میں اگرپا کے سامنے اپنا دفاع کِیا؟‏

۱۰ آئیے اب اعمال ۲۶ باب میں درج پولس کے دفاعی الفاظ کا قریبی جائزہ لیں۔‏ غور کریں وہ اپنی تقریر کا آغاز کیسے کرتا ہے۔‏ اپنے موضوع کو متعارف کرانے کیلئے پولس نے مناسب بنیاد قائم کر لی جس پر وہ اگرپا بادشاہ کی تعریف کر سکتا تھا اگرچہ بادشاہ کے اپنی بہن برنیکے کیساتھ ناجائز تعلقات کی خبر بڑی مشہور تھی۔‏ پولس نے کہا:‏ ”‏اَے اگرؔپا بادشاہ جتنی باتوں کی یہودی مجھ پر نالش کرتے ہیں آج تیرے سامنے اُنکی جوابدہی کرنا اپنی خوش‌نصیبی جانتا ہوں۔‏ خاص کر اسلئےکہ تُو یہودیوں کی سب رسموں اور مسئلوں سے واقف ہے۔‏ پس مَیں منت کرتا ہوں کہ تحمل سے میری سن لے۔‏“‏—‏اعمال ۲۶:‏۲،‏ ۳‏۔‏

۱۱.‏ پولس نے اگرپا کیلئے جو الفاظ استعمال کئے اُن سے اُس کیلئے احترام کیسے ظاہر ہوا اور اس سے کیا فائدہ ہوا؟‏

۱۱ کیا آپ نے غور کِیا کہ پولس نے اگرپا کو ”‏بادشاہ“‏ کہہ کر مخاطب کرنے سے اُسکے اعلیٰ مرتبے کو تسلیم کِیا تھا؟‏ الفاظ کے دانشمندانہ انتخاب سے پولس نے اگرپا کیلئے واجب احترام ظاہر کِیا۔‏ (‏۱-‏پطرس ۲:‏۱۷‏)‏ رسول نے اگرپا کو اپنی یہودی رعایا کے پیچیدہ مسائل اور دستورات کا ماہر تسلیم کِیا اور مزید یہ بھی کہا کہ وہ خوش ہے کہ اُسکا مقدمہ ایک ایسے باشعور افسر کے سامنے پیش کِیا گیا ہے۔‏ پولس نے مسیحی ہونے کی وجہ سے خود کو اگرپا سے اعلیٰ محسوس کرنے کا اظہار نہیں کِیا تھا۔‏ (‏فلپیوں ۲:‏۳‏)‏ اسکی بجائے،‏ پولس نے بادشاہ سے التجا کی کہ وہ تحمل کیساتھ اُسکی بات سنے۔‏ پس پولس نے ایسی فضا قائم کر لی جس میں اگرپا اور دیگر سامعین اُسکی بات سننے کیلئے تیار ہونگے۔‏ وہ اپنی گفتگو کیلئے ایک بنیاد ڈال رہا تھا۔‏

۱۲.‏ بادشاہتی منادی کے کام میں،‏ ہم اپنے سامعین کے دل کو کیسے چھو سکتے ہیں؟‏

۱۲ جیسے پولس نے اگرپا کے سامنے اظہارِخیال کِیا تھا ہمیں  بھی بادشاپتی پیغام کی اپنی پیشکش کو شروع سے آخر تک دل‌پسند بنانا چاہئے۔‏ جس شخص سے ہم بات‌چیت کر رہے ہیں اُس کے لئے مخلص احترام نیز اُسکے مخصوص پس‌منظر اور سوچ میں دلچسپی دکھانے سے ہم ایسا کر سکتے ہیں۔‏—‏۱-‏کرنتھیوں ۹:‏۲۰-‏۲۳‏۔‏

خدا کے کلام کو مہارت سے استعمال کریں

۱۳.‏ آپ بھی پولس کی طرح اپنے سامعین کو کیسے تحریک دے سکتے ہیں؟‏

۱۳ پولس اپنے سامعین کو خوشخبری پر عمل کرنے کی تحریک دینا چاہتا تھا۔‏ (‏۱-‏تھسلنیکیوں ۱:‏۵-‏۷‏)‏ ایسا کرنے کیلئے اُس نے علامتی دل تک رسائی کی جہاں سے دراصل تحریک پیدا ہوتی ہے۔‏ ایک بار پھر غور کریں کہ اگرپا کے سامنے اپنا مقدمہ پیش کرتے ہوئے،‏ پولس کیسے موسیٰ اور نبیوں کا حوالہ دینے سے ’‏خدا کے کلام کو درستی سے کام میں لایا۔‏‘‏—‏۲-‏تیمتھیس ۲:‏۱۵‏۔‏

۱۴.‏ واضح کریں کہ پولس نے اگرپا کے حضور کیسے قائل کرنے والے دلائل استعمال کئے تھے۔‏

۱۴ پولس جانتا تھا کہ اگرپا ایک نام‌نہاد یہودی تھا۔‏ اگرپا کے یہودیت سے متعلق علم کو ملحوظِ‌خاطر رکھتے ہوئے،‏ پولس نے استدلال کِیا کہ درحقیقت اُسکی منادی ”‏اُن باتوں کے سوا کچھ نہیں .‏ .‏ .‏ جنکی پیشینگوئی نبیوں اور موسیٰؔ نے بھی کی“‏ کہ مسیحا مریگا اور پھر جی اُٹھیگا۔‏ (‏اعمال ۲۶:‏۲۲،‏ ۲۳‏)‏ پولس نے اگرپا سے براہِ‌راست سوال کِیا:‏ ”‏ اَے اگرؔپا بادشاہ کیا تُو نبیوں کا یقین کرتا ہے؟‏“‏ اب اگرپا مشکل میں پڑ گیا۔‏ اگر وہ کہتا کہ وہ نبیوں کو نہیں مانتا تو یہودی کے طور پر اُسکی ساکھ مجروح ہوتی۔‏ لیکن اگر وہ پولس کے استدلال کی حمایت کرتا تو وہ دراصل سب کے سامنے رسول کیساتھ متفق ہو رہا ہوتا اور یوں مسیحی کہلانے کے خطرے میں پڑ سکتا تھا۔‏ نہایت دانشمندی سے پولس خود ہی اپنے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہتا ہے:‏ ”‏مَیں جانتا ہوں کہ تُو یقین کرتا ہے۔‏“‏ اگرپا کے دل نے اُسے کیا جواب دینے کی تحریک دی؟‏ اُس نے جواب دیا:‏ ”‏تُو تو تھوڑی ہی سی نصیحت کرکے مجھے مسیحی کر لینا چاہتا ہے۔‏“‏ (‏اعمال ۲۶:‏۲۷،‏ ۲۸‏)‏ اگرچہ اگرپا مسیحی تو نہ بنا توبھی پولس نے واضح طور پر اپنے پیغام سے بڑی حد تک اُسکے دل کو متاثر کِیا تھا۔‏—‏عبرانیوں ۴:‏۱۲‏۔‏

۱۵.‏ پولس تھسلنیکے میں کلیسیا قائم کرنے کے قابل کیسے ہوا تھا؟‏

۱۵ کیا آپ نے غور کِیا کہ پولس کی خوشخبری کی پیشکش میں گواہی اور تحریک دینا دونوں شامل تھے؟‏ پولس نے ’‏حق کے کلام کو درستی سے کام میں لانے‘‏ والی رسائی کو استعمال کِیا چنانچہ اُسکے سامعین میں سے بعض ایمان لے آئے۔‏ یہ تھسلنیکے کا واقعہ ہے جہاں پولس نے یہودیوں اور خداترس غیرقوموں کوعبادتخانہ میں کلام سنایا تھا۔‏ اعمال ۱۷:‏۲-‏۴ کا بیان کہتا ہے:‏ ”‏پولسؔ اپنے دستور کے موافق اُنکے پاس گیا اور تین سبتوں کو کتابِ‌مُقدس سے اُنکے ساتھ بحث کی۔‏ اور اُسکے معنی کھول کھول کر دلیلیں پیش کرتا تھا کہ مسیح کو دُکھ اُٹھانا اور مُردوں میں سے جی اُٹھنا ضرور تھا .‏ .‏ .‏ اُن میں سے بعض نے مان لیا۔‏“‏ پولس تحریک دینے میں کامیاب رہا تھا۔‏ اُس نے استدلال کِیا،‏ بیان کِیا اور صحائف سے ثابت کِیا کہ یسوع ہی موعودہ مسیحا تھا۔‏ نتیجہ؟‏ ایمانداروں کی کلیسیا قائم ہو گئی۔‏

۱۶.‏ بادشاہت کی منادی کرنے سے آپ کیسے اضافی خوشی حاصل کر سکتے ہیں؟‏

۱۶ کیا آپ خدا کے کلام کی وضاحت کرنے میں قائل کرنے کے فن میں اَور زیادہ مہارت پیدا کر سکتے ہیں؟‏ اگر ایسا ہے تو آپ اپنے خدا کی بادشاہت کی بابت منادی کرنے اور لوگوں کو تعلیم دینے کے کام سے اضافی احساسِ‌تکمیل اور خوشی حاصل کرینگے۔‏ منادی کے کام میں بائبل استعمال کرنے کی بابت تجاویز پر عمل کرنے والے خوشخبری کے مبشروں کا یہی تجربہ رہا ہے

۱۷.‏ اس بات کو ظاہر کرنے کیلئے کہ خدمتگزاری میں بائبل کا استعمال کیسے مفید ہے،‏ ذاتی تجربہ بیان کریں یا پھر اس پیراگراف میں بیان‌کردہ تجربے کا خلاصہ پیش کریں۔‏

۱۷ مثال کے طور پر،‏ یہوواہ کے گواہوں کے ایک سفری نگہبان نے لکھا:‏ ”‏بہتیرے بہن بھائی اب گھرباگھر گواہی دیتے وقت بائبل اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں۔‏ اس سے پبلشروں کو بیشتر ملاقاتیوں کیلئے صحیفہ پڑھنے کا موقع ملا ہے۔‏ اس سے صاحبِ‌خانہ اور پبلشر دونوں کو ہماری خدمتگزاری کو صرف رسالوں اور کتابوں کیساتھ وابستہ کرنے کی بجائے بائبل کیساتھ منسوب کرنے میں مدد ملی ہے۔‏“‏ آیا ہم منادی کے دوران بائبل ہاتھ میں رکھ سکتے ہیں یا نہیں اسکا انحصار مقامی دستور اور اس سے متعلق مختلف پہلوؤں پر ہے۔‏ تاہم،‏ اگر ہم چاہتے ہیں کہ دوسروں کو بادشاہتی پیغام کو قبول کرنے کی ترغیب دیں تو ہمیں خدا کے کلام کو مہارت سے استعمال کرنے والوں کی شہرت رکھنی چاہئے۔‏

خدمتگزاری کی بابت خدائی نظریہ اپنائیں

۱۸،‏ ۱۹.‏ (‏ا)‏ خدا ہماری خدمتگزاری کو کیسا خیال کرتا ہے اور ہمیں کیوں اُسکا نظریہ اَپنانا چاہئے؟‏ (‏ب)‏ کیا چیز کامیاب واپسی ملاقاتیں کرنے میں ہماری مدد کریگی؟‏ (‏صفحہ ۱۶ پر بکس بعنوان ”‏کامیاب واپسی ملاقاتیں کیسے کریں“‏ دیکھیں۔‏)‏

۱۸ اپنے سامعین کے دل تک رسائی کرنے کا ایک اَور  طریقہ خدمتگزاری کو خدا کی نظر سے دیکھنا اور تحمل ظاہر کرنا ہے۔‏ خدا چاہتا ہے کہ ”‏سب آدمی .‏ .‏ .‏ سچائی کی پہچان تک پہنچیں۔‏“‏ (‏۱-‏تیمتھیس ۲:‏۳،‏ ۴‏)‏ کیا ہم بھی یہی نہیں چاہتے؟‏ یہوواہ بھی تحمل کرتا ہے اور اُسکا تحمل بہتیروں کو توبہ کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔‏ (‏۲-‏پطرس ۳:‏۹‏)‏ پس،‏ جب ہم کسی ایسے شخص سے ملتے ہیں جو بادشاہتی پیغام سننے کے لئے تیار ہے تو یہ ضروری ہے کہ دلچسپی پیدا کرنے کیلئے ہم باربار ملاقات کریں۔‏ سچائی کے بیج کو بڑھتے دیکھنا وقت اور تحمل کا تقاضا کرتا ہے۔‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۳:‏۶‏)‏ ”‏کامیاب واپسی ملاقاتیں کیسے کر سکتے ہیں“‏ کے عنوان پر مشتمل بکس ایسی دلچسپی کو  بڑھانے کے سلسلے میں تجاویز پیش کرتا ہے۔‏ یاد رکھیں،‏ لوگوں کی زندگیاں،‏ اُنکے مسائل اور حالات ہمیشہ بدلتے رہتے ہیں۔‏ اُن سے ملاقات کرنے کیلئے شاید بہت کوشش کرنی پڑے مگر یہ رائیگاں نہیں جائیگی۔‏ ہم اُنہیں خدا کی نجات کا پیغام سننے کا موقع دینا چاہتے ہیں۔‏ لہٰذا،‏ خدا سے دُعا کریں کہ وہ آپکو دوسروں کو  بادشاہتی پیغام قبول کرنے پر آمادہ کرنے کے لئے مہارتیں پیدا کرنے کی حکمت عطا کرے۔‏

۱۹ جب ایک ایسا شخص مل جاتا ہے جو بادشاہتی پیغام کو سننے کی خواہش رکھتا ہے تو بطور مسیحی کارکنوں کے ہم اَور کیا کر سکتے ہیں؟‏ ہمارا اگلا مضمون مدد فراہم کرتا ہے۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 8 قائل کرنے کے سلسلے میں مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے،‏ یہوواہ  کے گواہوں کی شائع‌کردہ کتاب مسیحی خدمتی سکول سے مستفید ہوں کے مطالعہ نمبر ۴۸ اور ۴۹ کو پڑھیں۔‏

کیا آپکو یاد ہے؟‏

‏• کس چیز نے اگرپا بادشاہ کے حضور پولس کے دفاع کو مؤثر بنایا؟‏

‏• ہمارا پیغام دل کو کیسے چُھو سکتا ہے؟‏

‏• دل تک رسائی کرنے کیلئے مؤثر طریقے سے خدا کے کلام کو استعمال کرنے میں کیا چیز ہماری مدد کریگی؟‏

‏• ہم خدمتگزاری کی بابت خدائی نظریہ کیسے اپنا سکتے ہیں؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۱۶ پر بکس/‏تصویریں]‏

کامیاب واپسی ملاقاتیں کیسے کریں

‏• لوگوں میں مخلصانہ ذاتی دلچسپی ظاہر کریں۔‏

‏• گفتگو کیلئے دلچسپ بائبل موضوع کا انتخاب کریں۔‏

‏• ہر اگلی ملاقات کیلئے بنیاد ڈالیں۔‏

‏• ملاقات کے بعد بھی اُس شخص کی بابت سوچتے رہیں۔‏

‏• دلچسپی کی پیروی کرنے کیلئے ایک یا دو دن بعد دوبارہ چکر لگائیں۔‏

‏• یاد رکھیں کہ آپکا مقصد بائبل مطالعہ شروع کرنا ہے۔‏

‏• دُعا کریں کہ یہوواہ دلچسپی کو بڑھائے۔‏

‏[‏صفحہ ۱۵ پر تصویر]‏

پولس نے گورنر فیستُس اور اگرپا بادشاہ کے روبرو بھی قائل کرنے والے دلائل پیش کئے