”تم شکرگزار رہو“
”تم شکرگزار رہو“
”مسیح کا اطمینان . . . تمہارے دِلوں پر حکومت کرے اور تم شکرگزار رہو۔“ —کلسیوں ۳:۱۵۔
۱. سچے مسیحیوں اور شیطان کی دُنیا میں کیا فرق ہے؟
پوری دُنیا میں یہوواہ کے گواہوں کی ۶۰۰،۹۴ کلیسیاؤں میں شکرگزاری کا جذبہ پایا جاتے ہیں۔ ہر اجلاس کے آغاز اور اختتام پر دُعا کی جاتی ہے جس میں یہوواہ خدا کا شکر ادا کِیا جاتا ہے۔ اجلاسوں کے دوران اور اِن کے بعد ہم اکثر بہنبھائیوں کے مُنہ سے ”شکریہ“ کا لفظ سنتے ہیں۔ وہ ایک دوسرے سے مل کر بہت خوش ہوتے ہیں۔ (زبور ۱۳۳:۱) یہوواہ کے گواہوں اور اُن خودغرض لوگوں کے درمیان بہت فرق پایا جاتا ہے جو ’یہوواہ کو نہیں پہچانتے اور خوشخبری کو نہیں مانتے۔‘ (۲-تھسلنیکیوں ۱:۸) ہم ایک ناشکری دُنیا میں رہ رہے ہیں۔ اس دُنیا کا حکمران شیطان ہے اس لئے اُس میں پائی جانے والی خودغرضی اور غرور تمام انسانوں میں پھیلتا جا رہا ہے۔—یوحنا ۸:۴۴؛ ۲-کرنتھیوں ۴:۴؛ ۱-یوحنا ۵:۱۹۔
۲. ہمیں کس آگاہی پر دھیان دینا ہوگا اور ہم کن سوالات پر غور کریں گے؟
۲ شیطان کی دُنیا نے ہمیں گھیرا ہوا ہے۔ اس لئے ہمیں بڑے دھیان سے رہنا چاہئے تاکہ ہم اُس کے کاموں میں شامل نہ ہو جائیں۔ پہلی صدی میں پولس رسول نے افسس کے مسیحیوں کو یاددہانی کرائی: ”تم پیشتر دُنیا کی روش پر چلتے تھے اور ہوا کی عملداری کے حاکم یعنی اُس روح کی پیروی کرتے تھے جو اب نافرمانی کے فرزندوں میں تاثیر کرتی ہے۔ اِن میں ہم بھی سب کے سب پہلے اپنے جسم کی خواہشوں میں زندگی گزارتے اور جسم اور عقل کے ارادے پورے کرتے تھے اور دوسروں کی مانند طبعی طور پر غضب کے فرزند تھے۔“ (افسیوں ۲:۲، ۳) پولس کے یہ الفاظ آج بھی بالکل سچ ثابت ہو رہے ہیں۔ ہم شکرگزاری کیسے ظاہر کر سکتے ہیں؟ ایسا کرنے میں یہوواہ خدا ہماری کیسے مدد کرتا ہے؟ اپنے کن کاموں کے ذریعے ہم یہ ظاہر کر سکتے ہیں کہ ہم حقیقت میں یہوواہ کے شکرگزار ہیں؟
شکرگزار ہونے کی وجوہات
۳. ہم کن کن نعمتوں کے لئے یہوواہ خدا کے شکرگزار ہو سکتے ہیں؟
۳ ہمارے پاس یہوواہ خدا کے شکرگزار ہونے کی بہت سی وجوہات ہیں۔ اُس نے ہمیں خلق کِیا ہے۔ اس کے علاوہ اُس نے ہمیں بہت سی نعمتوں سے نوازا ہے۔ (یعقوب ۱:۱۷) ہم روزانہ یہوواہ خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کیونکہ اُس نے ہمیں زندگی دی ہے۔ (زبور ۳۶:۹) ہم اپنے اردگرد یہوواہ کی بنائی ہوئی چیزیں دیکھتے ہیں مثلاً سورج، چاند اور ستارے۔ ہماری زمین پر بہت سی معدنیات پائی جاتی ہیں جو ہمیں زندہ رکھتی ہیں۔ ہوا میں مختلف گیسیں بالکل ٹھیک مقدار میں موجود ہیں۔ اِس کے علاوہ اَور بھی بہت سے ایسے انتظام موجود ہیں جن کی بِنا پر زمین پر زندگی کا عمل جاری رہتا ہے۔ ہم ان تمام چیزوں سے فائدہ حاصل کرتے ہیں۔ ہمارے خالق یہوواہ نے ہمیں یہ تمام چیزیں فراہم کی ہیں کیونکہ وہ ہم سے محبت رکھتا ہے۔ داؤد نبی نے گاتے ہوئے کہا: ”اَے [یہوواہ] میرے خدا! جو عجیب کام تُو نے کئے اور تیرے خیال جو ہماری طرف ہیں وہ بہت سے ہیں۔ مَیں اُن کو تیرے حضور ترتیب نہیں دے سکتا۔ اگر مَیں ان کا ذکر اور بیان کرنا چاہوں۔ تو وہ شمار سے باہر ہیں۔“—زبور ۴۰:۵۔
۴. جب ہم کلیسیا میں بہن بھائیوں کے ساتھ خوشگوار رفاقت سے لطف اُٹھاتے ہیں تو ہمیں کیوں یہوواہ کے شکرگزار ہونا چاہئے؟
۴ اگرچہ ابھی تک جسمانی فردوس تو وجود میں نہیں آیا توبھی یہوواہ کے خادم روحانی فردوس کا لطف اُٹھا رہے ہیں۔ مثلاً جب ہم کنگڈم ہال اجلاسوں پر، کنونشنوں یا اسمبلیوں پر حاضر ہوتے ہیں تو ہم بہن بھائیوں کے درمیان اچھی خوبیاں یعنی روح کے پھل دیکھتے ہیں۔ منادی کے دوران بعض گواہ لوگوں کو پولس کے الفاظ دکھاتے ہیں جو اُس نے گلتیوں ۵:۱۹-۲۳ میں لکھے تھے۔ اِن آیات میں ”جسم کے کاموں“ کا مقابلہ روح کے پھلوں سے کِیا گیا ہے۔ اِس کے بعد وہ اِس صحیفے کے بارے میں لوگوں کی رائے لیتے ہیں۔ بہتیرے اس بات کو مانتے ہیں کہ واقعی ایسا ہو رہا ہے۔ جب ایسے لوگ اجلاسوں پر آ کر اپنی آنکھوں سے ان بہن بھائیوں کو روح کے پھل ظاہر کرتے ہوئے دیکھتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ ”بیشک خدا تُم میں ہے۔“ (۱-کرنتھیوں ۱۴:۲۵) یہ پیار اور محبت ہم صرف اجلاسوں پر ہی نہیں دیکھتے بلکہ ہم دُنیا کے جس کونے میں بھی چلے جائیں تقریباً ۶۰ لاکھ یہوواہ کے گواہوں کے درمیان ایسی خوبیاں پائی جاتی ہیں۔ یقینی طور پر ہمیں یہوواہ خدا کے شکرگزار ہونا چاہئے جس نے ہمیں ایسے بہنبھائیوں کی خوشگوار رفاقت سے نوازا ہے۔ کیونکہ اُس کی روح کی طاقت سے ہی یہ سب کچھ ممکن ہوا ہے۔—صفنیاہ ۳:۹؛ افسیوں ۳:۲۰، ۲۱۔
۵، ۶. ہم یسوع مسیح کی قربانی کے لئے شکرگزاری کیسے دکھا سکتے ہیں؟
۵ یہوواہ خدا کی سب سے خاص نعمت یسوع مسیح کی قربانی ہے۔ یوحنا رسول نے لکھا: ”جب خدا نے ہم سے ایسی محبت کی تو ہم پر بھی ایک دوسرے سے محبت رکھنا فرض ہے۔“ (۱-یوحنا ۴:۱۱) ہمیں یسوع کی اس قربانی کے لئے یہوواہ خدا کا بہت شکرگزار ہونا چاہئے۔ اس کے علاوہ ہمیں دوسروں سے بھی پیارومحبت سے پیش آنا چاہئے۔—متی ۲۲:۳۷-۳۹۔
۶ جب ہم اسرائیلیوں کے ساتھ یہوواہ خدا کے برتاؤ پر غور کرتے ہیں تو ہم شکرگزاری کے سلسلے میں بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ موسیٰ کو دی جانے والی شریعت کے ذریعے یہوواہ نے اسرائیلیوں کو بہت سے سبق سکھائے۔ ”علم اور حق کا جو نمونہ شریعت میں ہے“ ہمیں پولس کی اِس مشورت پر چلنے میں مدد دے گا کہ ”تم شکرگزار رہو۔“—رومیوں ۲:۲۰؛ کلسیوں ۳:۱۵۔
موسوی شریعت سے تین اہم سبق
۷. ایک طریقہ کونسا تھا جس سے اسرائیلی یہوواہ کے لئے شکرگزاری دکھاتے تھے؟
۷ موسوی شریعت میں یہوواہ نے اسرائیلیوں کو تین طریقے فراہم کئے جن سے وہ شکرگزاری ظاہر کر سکتے تھے۔ سب سے پہلے اُن کو دہیکی دینی تھی یعنی زمین کی پیداوار کا دسواں حصہ۔ اُنہیں ”گائے بیل اور بھیڑ بکری“ پر بھی اسی طرح دہیکی دینی تھی جو ”[یہوواہ] کے لئے پاک“ ہونی تھی۔ (احبار ۲۷:۳۰-۳۲) جب اسرائیلی یہوواہ خدا کو دہیکی دیتے تھے تو یہوواہ اُنہیں برکات سے نوازتا تھا۔ یہوواہ نے ملاکی نبی کے ذریعے کہا: ”پوری دہیکی ذخیرہخانہ میں لاؤ تاکہ میرے گھر میں خوراک ہو اور اِسی سے میرا اِمتحان کرو ربُالافواج فرماتا ہے کہ مَیں تُم پر آسمان کے دریچوں کو کھول کر برکت برساتا ہوں کہ نہیں یہاں تک کہ تمہارے پاس اُس کے لئے جگہ نہ رہے۔“—ملاکی ۳:۱۰۔
۸. دہیکی دینے اور مرضی کے مطابق عطیات دینے میں کیا فرق ہے؟
۸ یہوواہ کے لئے شکرگزاری دکھانے کا دوسرا طریقہ یہ تھا کہ اسرائیلی اپنی مرضی کے مطابق عطیات بھی دے سکتے تھے۔ یہوواہ نے موسیٰ کو اسرائیلیوں سے یہ کہنے کی ہدایت کی: ”جب تُم اُس مُلک میں پہنچو جہاں مَیں تم کو لئے جاتا ہوں۔ اور اُس مُلک کی روٹی کھاؤ تو [یہوواہ] کے حضور اُٹھانے کی قربانی گذراننا۔“ اسرائیلیوں کو ”[یہوواہ] کے حضور“ اپنے اناج کے ”پہلے گوندھے ہوئے آٹے“ میں سے تمام نسلوں تک پیش کرتے رہنا تھا۔ ذرا اس بات پر غور کریں کہ دینے کے اِس طریقے میں یہوواہ نے اسرائیلیوں سے ایک خاص مقدار کا تقاضا نہیں کِیا تھا۔ (گنتی ۱۵:۱۸-۲۱) جب اسرائیلی یہوواہ کی شکرگزاری کے لئے دل کھول کر دیتے تو یہوواہ اُنہیں برکات دیتا تھا۔ حزقیایل کی رویا میں بھی اسی قِسم کے انتظام کے بارے میں یوں بتایا گیا ہے: ”سب پہلے پھلوں کا پہلا اور تمہاری تمام چیزوں کی ہر ایک قربانی کاہن کے لئے ہوں اور تم اپنے پہلے گندھے آٹے سے کاہن کو دینا تاکہ تیرے گھر پر برکت ہو۔“—حزقیایل ۴۴:۳۰۔
۹. یہوواہ نے اسرائیلیوں کو شکرگزاری کا تیسرا طریقہ بتاتے ہوئے کیا سکھایا؟
۹ تیسرا طریقہ فصل کی کٹائی کے دوران غریبوں کے لئے کچھ چھوڑ دینا تھا۔ یہوواہ نے اسرائیلیوں سے کہا: ”جب تُم اپنی زمین کی پیداوار کی فصل کاٹو تو تُو اپنے کھیت کے کونے کونے تک پورا پورا نہ کاٹنا اور نہ کٹائی کی گِری پڑی بالوں کو چن لینا۔ اور تُو اپنے انگورستان کا دانہ دانہ نہ توڑ لینا اور نہ اپنے انگورستان کے گِرے ہوئے دانوں کو جمع کرنا۔ ان کو غریبوں اور مسافروں کے لئے چھوڑ دینا۔ مَیں [یہوواہ] تمہارا خدا ہوں۔“ (احبار ۱۹:۹، ۱۰) غور کریں کہ یہوواہ نے پھر اسرائیلیوں کو کوئی مخصوص مقدار دینے کے لئے نہیں کہا۔ یہ ہر اسرائیلی کا اپنا فیصلہ تھا کہ وہ غریبوں اور ضرورتمندوں کے لئے کتنا کچھ چھوڑنا چاہتا تھا۔ بادشاہ سلیمان نے بیان کِیا: ”جو مسکینوں پر رحم کرتا ہے [یہوواہ] کو قرض دیتا ہے اور وہ اپنی نیکی کا بدلہ پائے گا۔“ (امثال ۱۹:۱۷) دینے کے اس طریقے سے یہوواہ اسرائیلیوں کو سکھانا چاہتا تھا کہ وہ ضرورتمندوں کے لئے رحم دکھائیں۔
۱۰. جب اسرائیلیوں نے اپنی شکرگزاری دکھانے کے لئے کچھ دینا بند کر دیا تو اُنہیں کونسے نتائج بھگتنے پڑے؟
۱۰ جب اسرائیلی اپنے مال کا دسواں حصہ دیتے، اپنی مرضی کے مطابق عطیات دیتے اور غریبوں اور ضرورتمندوں کی مدد کرتے تو یہوواہ اُنہیں برکت دیتا تھا۔ لیکن جب اسرائیلیوں نے اپنی شکرگزاری کو دکھانے کے لئے کچھ دینا بند کر دیا تو اُنہوں نے یہوواہ کو ناراض کِیا۔ ایسا کرنے سے اُن پر بہت سی مصیبتیں آئیں اور آخرکار وہ اسیری میں چلے گئے۔ (۲-تواریخ ۳۶:۱۷-۲۱) اس بات سے ہم کیا سبق سیکھتے ہیں؟
ہم کس طرح شکرگزاری دکھا سکتے ہیں
۱۱. ہم کس اہم طریقے سے یہوواہ کے لئے شکرگزاری ظاہر کر سکتے ہیں؟
۱۱ یہوواہ کے لئے شکرگزاری ظاہر کرنے کا ایک اہم طریقہ ”قربانی“ پیش کرنا ہے۔ یہ بات تو سچ ہے کہ مسیحی ہونے کی وجہ سے ہم موسوی شریعت کے تابع نہیں ہیں۔ اِس لئے آج یہوواہ ہم سے جانور اور اناج پیش کرنے کی توقع نہیں کرتا۔ (کلسیوں ۲:۱۴) پولس رسول نے مسیحیوں کو نصیحت کی: ”پس ہم اُس کے وسیلہ سے حمد کی قربانی یعنی اُن ہونٹوں کا پھل جو اُس کے نام کا اقرار کرتے ہیں خدا کے لئے ہر وقت چڑھایا کریں۔“ (عبرانیوں ۱۳:۱۵) جس حد تک ممکن ہو ہمیں دل سے یہوواہ کی شکرگزاری کرنی چاہئے۔ یہ ہم منادی کے ذریعے یا ”جماعتوں میں“ یعنی اجلاسوں کے دوران کر سکتے ہیں۔ (زبور ۲۶:۱۲) یہوواہ کے لئے شکرگزاری ظاہر کرنے میں ہم اسرائیلیوں کی مثال سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟
۱۲. ہم دہیکی سے مسیحی ذمہداریوں کے بارے میں کیا سیکھ سکتے ہیں؟
۱۲ اسرائیلیوں کی مثال سے ہم نے دیکھا کہ دسواں حصہ دینا اُن کے لئے لازمی تھا۔ اسی طرح سچے مسیحیوں کی ذمہداریوں میں منادی میں حصہ لینا اور اجلاسوں پر باقاعدگی سے حاضر ہونا شامل ہے۔ اُن کے لئے ایسا کرنا لازمی ہے۔ آخری زمانے کے بارے میں پیشینگوئی کرتے ہوئے یسوع نے کہا: ”بادشاہی کی اِس خوشخبری کی منادی تمام دُنیا میں ہوگی تاکہ سب قوموں کے لئے گواہی ہو۔ تب خاتمہ ہوگا۔“ (متی ۲۴:۱۴؛ ۲۸:۱۹، ۲۰) مسیحی اجلاسوں کے بارے میں پولس رسول نے لکھا: ”محبت اور نیک کاموں کی ترغیب دینے کے لئے ایک دوسرے کا لحاظ رکھیں۔ اور ایک دوسرے کے ساتھ جمع ہونے سے باز نہ آئیں جیسا بعض لوگوں کا دستور ہے بلکہ ایک دوسرے کو نصیحت کریں اور جس قدر اُس دن کو نزدیک ہوتے ہوئے دیکھتے ہو اُسی قدر زیادہ کِیا کرو۔“ (عبرانیوں ۱۰:۲۴، ۲۵) جب ہم منادی کرتے اور اجلاسوں پر حاضر ہوتے ہیں اور کلیسیا کے بہنبھائیوں سے رفاقت رکھتے ہیں تو ہم حقیقت میں یہوواہ کے لئے شکرگزاری دکھا رہے ہوتے ہیں۔ ایسے کاموں کو ہمیں ایک اہم شرف خیال کرنا چاہئے۔
۱۳. ہم مرضی کے مطابق دینے اور غریبوں کے لئے اناج چھوڑنے کے انتظامات سے کیا سبق سیکھ سکتے ہیں؟
۱۳ اس کے علاوہ ہم اپنی مرضی کے مطابق دینے اور غریبوں کے لئے گلتیوں ۶:۴۔
اناج چھوڑنے کے انتظامات سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ دہیکی کے برعکس، دینے کے اِن دو طریقوں میں کوئی مقدار مقرر نہیں تھی۔ اسرائیلیوں سے دل کھول کر دینے کی توقع کی جاتی تھی۔ اگرچہ ہم یہ جانتے ہیں کہ منادی کرنا اور اجلاسوں پر حاضر ہونا مسیحیوں کی ذمہداری ہے۔ لیکن کیا مسیحی ایسا خوشی سے کرتے ہیں؟ کیا ہم اسے یہوواہ کے لئے شکرگزاری دکھانے کا ایک اچھا موقع خیال کرتے ہیں؟ ہمارے حالات ہمیں جتنی اجازت دیں، کیا ہم دل سے ان ذمہداریوں کو پورا کرتے ہیں؟ یا کیا ہم ان ذمہداریوں کو بوجھ سمجھتے ہیں؟ یہ چند ایسے سوالات ہیں جن کا ہمیں خود جواب دینا ہوگا۔ پولس رسول نے اسے یوں بیان کِیا: ”ہر شخص اپنے ہی کام کو آزما لے اس صورت میں اُسے اپنی ہی بابت فخر کرنے کا موقع ہوگا نہ کہ دوسرے کی بابت۔“—۱۴. جب ہم یہوواہ کی خدمت کرتے ہیں تو وہ ہم سے کیا توقع کرتا ہے؟
۱۴ یہوواہ خدا ہمارے حالات جانتا ہے۔ وہ ہماری کمزوریوں سے واقف ہے۔ جب اُس کے خادم دل کی خوشی سے یہوواہ کو کسی قِسم کی بھی قربانی دیتے ہیں تو وہ اُن کی بہت قدر کرتا ہے۔ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ ہم سب ایک جیسی قربانیاں نہیں دے سکتے۔ پولس نے خیرات دینے کے بارے میں کہا: ”اگر نیت ہو تو خیرات اُس کے موافق مقبول ہوگی جو آدمی کے پاس ہے نہ اُس کے موافق جو اُس کے پاس نہیں۔“ (۲-کرنتھیوں ۸:۱۲) اس اصول کا اطلاق خدا کی خدمت کرنے پر بھی ہوتا ہے۔ کیونکہ خدا یہ دیکھتا ہے کہ ہم کس نیت سے اُس کی خدمت کر رہے ہیں۔—زبور ۱۰۰:۱-۵؛ کلسیوں ۳:۲۳۔
پائنیر جذبہ پیدا کرنا اور بڑھانا
۱۵، ۱۶. (ا) خدا کے لئے شکرگزاری دکھانے کا ایک طریقہ کیا ہے؟ (ب) جن کے لئے پائنیر خدمت کرنا ممکن نہیں وہ کس طرح پائنیر جذبہ پیدا کر سکتے ہیں؟
۱۵ یہوواہ کے لئے شکرگزاری دکھانے کا سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہم کُلوقتی خدمت کو اپنائیں۔ یہوواہ کے خادم اُس سے محبت رکھتے
اور اُس کی دل سے قدر کرتے ہیں۔ بہتیروں نے اپنی زندگی میں تبدیلیاں پیدا کی ہیں تاکہ وہ یہوواہ کی خدمت میں اَور زیادہ وقت صرف کر سکیں۔ بعض بہنبھائیوں نے لوگوں کو خدا کے کلام کی خوشخبری کا پیغام سنانے کے لئے ریگولر پائنیرنگ شروع کر دی ہے اور وہ ہر مہینے منادی کے کام میں اوسطاً ۷۰ گھنٹے صرف کر رہے ہیں۔ جن بہنبھائیوں کے حالات اجازت نہیں دیتے اُنہیں جب بھی موقع ملتا ہے امدادی پائنیرنگ کرکے منادی کے کام میں ۵۰ گھنٹے صرف کرتے ہیں۔۱۶ لیکن اُن بہنبھائیوں کے بارے میں کیا ہے جو نہ تو ریگولر پائنیر بن سکتے ہیں اور نہ ہی امدادی پائنیر؟ ایسے بہن بھائی پائنیروں کی طرح کا جذبہ پیدا کرنے سے خدا کے لئے شکرگزاری دکھا سکتے ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے؟ وہ اُن بہنبھائیوں کی حوصلہافزائی کر سکتے ہیں جو پائنیر بننا چاہتے ہیں، وہ اپنے بچوں کے دلوں میں کُلوقتی خادم بننے کی خواہش پیدا کر سکتے ہیں اور جب بھی اُن کے حالات اجازت دیں وہ منادی میں حصہ لے سکتے ہیں۔ ہم خدا کی خدمت میں جتنا بھی وقت صرف کرتے ہیں ہمیں خوشی سے اور دل سے ایسا کرنا چاہئے۔ ہمیں یہوواہ کی اُن تمام مہربانیوں کو نہیں بھولنا چاہئے جو اُس نے ہمارے لئے کی ہیں اور جو کر رہا ہے اور جو مستقبل میں کرنے والا ہے۔
”اپنے مال سے“ یہوواہ کی شکرگزاری کرنا
۱۷، ۱۸. (ا) ہم ”اپنے مال سے“ کس طرح یہوواہ خدا کے لئے شکرگزاری ظاہر کر سکتے ہیں؟ (ب) کنگال بیوہ کے چندہ ڈالنے سے یسوع نے کیا نتیجہ اخذ کِیا اور کیوں؟
۱۷ امثال ۳:۹ میں لکھا ہے: ”اپنے مال سے اور اپنی ساری پیداوار کے پہلے پھلوں سے [یہوواہ] کی تعظیم کر۔“ بائبل کے مطابق، آجکل یہوواہ کے خادموں سے اپنے مال کا دسواں حصہ دینے کا تقاضا نہیں کِیا جاتا۔ اس کے علاوہ پولس نے کرنتھس کے مسیحیوں کو لکھا: ”جس قدر ہر ایک نے اپنے دل میں ٹھہرایا ہے اُسی قدر دے۔ نہ دریغ کرکے اور نہ لاچاری سے کیونکہ خدا خوشی سے دینے والے کو عزیز رکھتا ہے۔“ (۲-کرنتھیوں ۹:۷) جب ہم دل کھول کر پوری دُنیا میں ہونے والے منادی کے کام کے لئے عطیات دیتے ہیں تو ہم خدا کے لئے شکرگزاری ظاہر کر رہے ہوتے ہیں۔ پہلی صدی کے مسیحیوں کی طرح ہمیں بھی اپنے دل میں یہ ٹھہرا لینا چاہئے کہ مَیں ہر مہینے یا ہر ہفتے خدا کے لئے کتنی رقم دے سکتا ہوں۔ پھر ہم اِس رقم کو خدا کی خدمت میں استعمال ہونے کے لئے دے سکتے ہیں۔—۱-کرنتھیوں ۱۶:۱، ۲۔
۱۸ خدا دینے کے معاملے میں ہماری رقم کو نہیں بلکہ ہمارے جذبے کو دیکھتا ہے۔ یہ ہمیں اُس واقعہ کی یاد دلاتا ہے جب یسوع اُن لوگوں کو دیکھ رہا تھا جو ہیکل کے خزانہ میں چندہ ڈال رہے تھے۔ جب یسوع نے ’ایک کنگال بیوہ کو بھی دو دمڑیاں ڈالتے دیکھا‘ تو کہا: ”مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ اس کنگال بیوہ نے سب سے زیادہ ڈالا۔ کیونکہ ان سب نے تو اپنے مال کی بہتات سے نذر کا چندہ ڈالا مگر اس نے اپنی ناداری کی حالت میں جتنی روزی اُس کے پاس تھی سب ڈال دی۔“—لوقا ۲۱:۱-۴۔
۱۹. ہمیں شکرگزاری کے اظہارات کا جائزہ کیوں لینا چاہئے؟
۱۹ یہ مضمون ظاہر کرتا ہے کہ ہم کس طرح یہوواہ خدا کے لئے شکرگزاری دکھا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم اپنا جائزہ لے سکتے ہیں کہ آیا مَیں منادی کے کام میں پہلے سے زیادہ حصہ لے سکتا ہوں؟ کیا مَیں پوری دُنیا میں ہونے والے منادی کے کام کے لئے زیادہ عطیات دے سکتا ہوں؟ ہمیں یہ یقین کر لینا چاہئے کہ جتنا بھی ہم اپنے پیارے آسمانی باپ یہوواہ کے لئے کرتے ہیں وہ شکرگزاری کے ایسے اظہارات سے بہت خوش ہوتا ہے۔
کیا آپ کو یاد ہے؟
• کن وجوہات کی بِنا پر ہمیں یہوواہ کا شکرگزار ہونا چاہئے؟
• اسرائیلی جن تین طریقوں سے یہوواہ کے لئے شکرگزاری دکھاتے تھے ہم اِن سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟
• ہم پائنیر جذبہ کس طرح بڑھا سکتے ہیں؟
• ہم ”اپنے مال سے“ کس طرح یہوواہ کے لئے شکرگزاری دکھا سکتے ہیں؟
[مطالعے کے سوالات]
[صفحہ ۱۵ پر تصویریں]
”ہر اچھی بخشش اور کامل انعام اُوپر سے ہے“
[صفحہ ۱۶ پر تصویریں]
موسوی شریعت میں سے کونسے تین سبق یہاں بیان کئے گئے ہیں؟
[صفحہ ۱۸ پر تصویریں]
ہم یہوواہ کے لئے کیا قربانیاں دے سکتے ہیں؟