’یہوواہ کی سب نعمتوں کے عوض مَیں اُسے کیا دوں؟‘
میری کہانی میری زبانی
’یہوواہ کی سب نعمتوں کے عوض مَیں اُسے کیا دوں؟‘
از ماریا کیراسینِس
جب مَیں ۱۸ سال کی تھی تومیرے والدین میری وجہ سے بہت دُکھی تھے۔ میرے رشتہداروں نے مجھ سے بات کرنا چھوڑ دی اور پورا گاؤں میرا مذاق اُڑانے لگا۔ مجھے دھمکیاں اور طرح طرح کی اذیتیں دی گئیں۔ میری مِنّتیں کی گئیں لیکن مَیں نے کسی کی نہ مانی۔ مجھے پُختہ یقین تھا کہ جو شخص وفاداری سے خدا کی مرضی پوری کرتا ہے اُسے خدا بہت سی نعمتیں دیتا ہے۔ اب مَیں تقریباً ۵۰ سال سے یہوواہ خدا کی خدمت کر رہی ہوں اور پورے دل سے زبور نویس کے ان الفاظ کو دہرا سکتی ہوں: ”[یہوواہ] کی سب نعمتیں جو مجھے ملیں مَیں اُنکے عوض میں اُسے کیا دوں؟“—زبور ۱۱۶:۱۲۔
مَیں ۱۹۳۰ میں، شہر کرنتھس کے نزدیک ایک گاؤں میں پیدا ہوئی۔ یہ گاؤں کنخریہ کی بندرگاہ سے تقریباً ۲۰ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے جہاں پہلی صدی میں ایک مسیحی کلیسیا قائم ہوئی تھی۔—اعمال ۱۸:۱۸؛ رومیوں ۱۶:۱۔
میرا خاندان ایک پُرسکون زندگی گزار رہا تھا۔ میرے والد گاؤں کے سربراہ تھے اور تمام لوگ اُنکی عزت کرتے تھے۔ مَیں پانچ بہنبھائی میںتیسرے نمبر پر ہوں۔ میرے والدین یونان کے آرتھوڈکس چرچ کے رُکن اور بہت ہی مذہبی تھے۔ مَیں ہر اتوار چرچ جایا کرتی، مذہبی تصویروں کو سجدہ کرتی، گاؤں کے گرجاگھروں میں مومبتیاں جلاتی اور تمام روزے رکھتی تھی۔ میری خواہش تھی کہ مَیں ایک دن راہبہ بن کر چرچ کی خدمت کروں۔ میرے ماںباپ مجھ سے بہت خوش تھے لیکن مَیں ہی وہ بیٹی تھی جس نے انہیں مایوس کِیا۔
بائبل سچائیاں سیکھنے پر خوش
جب مَیں ۱۸ سال کی تھی تو مَیں نے سنا کہ میرے بہنوئی کی بہن کاٹینا یہوواہ کے گواہوں کی کتابیں پڑھ رہی ہے اور اُس نے چرچ جانا بند کر دیا
ہے۔ اِس خبر کو سُن کر مَیں بہت پریشان ہوئی۔ مَیں نے کاٹینا کو واپس سیدھی راہ پر لانے کا پکا ارادہ کر لیا۔ کاٹینا کا گاؤں ہمارے گاؤں کے نزدیک ہی تھا۔ ایک دن جب وہ ہم سے ملنے کیلئے آئی تو مَیں اُسکو سیر کرانے لے گئی۔ یہ صرف ایک بہانہ تھا کیونکہ مَیں اُسے پادری کے گھر لے جانا چاہتی تھی۔ جونہی ہم وہاں پہنچے پادری کاٹینا کو طعنے دینے اور کہنے لگا کہ یہوواہ کے گواہوں نے تمہیں ”جھوٹی تعلیم دے کر گمراہ کر دیا ہے۔“ ہم تین روز تک ہر شام پادری کے گھر جاتے رہے۔ کاٹینا نے پادری کے تمام الزامات کا بائبل سے جواب دیا۔ آخرکار پادری نے کاٹینا سے یہ کہہ کر بحث ختم کر دی کہ ”تم ابھی جوان ہو، خوبصورت ہو، ذہین ہو، اپنی جوانی سے لطف اُٹھاؤ۔ بڑھاپے میں خدا کی پرستش کرنا۔“مَیں نے اپنے والدین کو اِن باتوں کے بارے میں کچھ نہ بتایا لیکن اُس اتوار مَیں چرچ نہ گئی۔ دوپہر کے وقت پادری سیدھا ہماری دُکان پر آ پہنچا۔ مَیں نے اُس سے کہا کہ مجھے دُکان پر اپنے باپ کی مدد کرنی تھی اِسلئے مَیں چرچ نہ آ سکی۔
پادری نے پوچھا: ”کیا یہ اصلی وجہ ہے یا اُس لڑکی نے تمہیں بھی گمراہ کر دیا ہے؟“
مَیں نے اُسے صاف صاف کہہ دیا کہ ”اِن لوگوں کی تعلیمات ہمارے عقائد سے کہیں بہتر ہیں۔“
اِس پر پادری نے میرے والد سے کہا: ”ایکونومس صاحب آپ کاٹینا کو فوراً گھر سے نکال دیں۔ اُس نے آپکے گھر کو آگ لگا دی ہے۔“
میرا خاندان میرے خلاف ہو جاتا ہے
یہ سب کچھ ۱۹۴۶ کے بعد واقع ہوا تھا۔ اُس وقت یونان میں خانہجنگی ہو رہی تھی۔ میرے باپ کو خوف تھا کہ کہیں گوریلا سپاہی مجھے اغوا نہ کر لیں۔ اِسلئے اُنہوں نے مجھے میرے بہن اور بہنوئی کے پاس بھیج دیا۔ اتفاق سے وہ اُسی گاؤں میں رہتے تھے جہاں کاٹینا کا گھر تھا۔ مَیں نے بہن کے پاس دو مہینے گزارے۔ اس دوران مَیں نے کاٹینا سے بائبل کی سچائیاں سیکھیں۔ جب مجھے پتہ چلا کہ آرتھوڈکس چرچ کے کئی عقائد بائبل سے نہیں ہیں تو مجھے بہت دُکھ ہوا۔ مَیں نے سیکھا کہ خدا نہیں چاہتا کہ ہم اُسکی عبادت میں مذہبی تصویریں استعمال کریں۔ یہ بھی کہ چرچ کی بہت سی رسومات بائبل کے مطابق نہیں ہیں جن میں صلیب کی پرستش کرنا بھی شامل ہے۔ اسکے علاوہ، مَیں نے سیکھا کہ خدا کو خوش کرنے کیلئے ہمیں اُسکی عبادت ”روح اور سچائی سے“ کرنی چاہئے۔ (یوحنا ۴:۲۳؛ خروج ۲۰:۴، ۵) ان سب باتوں کے علاوہ مَیں نے بائبل میں پڑھا کہ انسان ہمیشہ زمین پر زندہ رہنے کی اُمید رکھ سکتا ہے! ایسی سچائیوں کے بارے میں سیکھنا ان نعمتوں میں شامل ہے جو مجھے یہوواہ کی طرف سے ملی ہیں۔
مَیں نے کھانا کھانے سے پہلے صلیب کا نشان بنانا بند کر دیا اور مذہبی تصویروں کے سامنے دُعا کرنا بھی چھوڑ دی۔ جب میرے بہن اور بہنوئی نے یہ دیکھا تو وہ بہت ناراض ہوئے۔ پھر ایک رات اُنہوں نے ملکر مجھے خوب پیٹا۔ اگلے روز مَیں اپنی خالہ کے گھر چلی گئی۔ میرے بہنوئی نے میرے والد کو اطلاع کر دی۔ یہ سن کر میرے والد فوراً خالہ کے گھر آ گئے۔ وہ رو رو کر مجھے چرچ واپس آنے کو کہہ رہے تھے۔ میرے بہنوئی نے گھٹنے ٹیک کر مجھ سے معافی مانگی۔ مَیں نے اُسے معاف تو کر دیا لیکن چرچ واپس جانے پر ہرگز راضی نہ ہوئی۔
مَیں اپنے والد کیساتھ واپس اپنے گاؤں چلی گئی۔ وہاں بھی مجھ پر بہت دباؤ ڈالا گیا۔ کاٹینا سے میرا رابطہ بالکل بند کر دیا گیا اور میرے پاس بائبل کے بارے میں پڑھنے کیلئے کچھ نہ تھا، یہاں تک کہ بائبل بھی نہ تھی۔ میرے تایا کی بیٹی نے مجھ پر ترس کھا کر میری مدد کی۔ جب وہ کرنتھس گئی تو اُس نے ایک یہوواہ کے گواہ سے میرے لئے گواہوں کی شائعکردہ ایک کتاب اور انجیل حاصل کر لی جنہیں مَیں چھپ چھپ کر پڑھا کرتی تھی۔
میری زندگی اچانک بدل گئی
یہ صورتحال تین سال تک جاری رہی۔ اِس دوران مجھے یہوواہ کے گواہوں سے ملنے یا پھر اُن سے رسالے وغیرہ حاصل کرنے کی اجازت نہ تھی۔ لیکن غیرمتوقع طور پر میرے حالات جلد ہی بدلنے والے تھے۔
میرے والد نے مجھے تھسلنیکے میں میرے ماموں کے گھر بھیجنے کا منصوبہ بنایا۔ تھسلنیکے جانے سے پہلے مَیں اپنے لئے ایک کوٹ بنوانا چاہتی تھی۔ اِسلئے مَیں کرنتھس میں ایک درزی کی دُکان پر گئی۔ دُکان کے اندر داخل ہوتے ہی مجھے کاٹینا نظر آئی جو وہاں کام کرتی تھی! ہم اتنے عرصے کے بعد ایک دوسرے سے مل کر بہت خوش ہوئیں۔ جب کاٹینا اور مَیں دُکان سے باہر نکلے تو ایک جوان آدمی سائیکل پر سوار وہاں سے گزر رہا تھا۔ کاٹینا نے ہمارا تعارف کرایا۔ اُسکا نام خارالمبس تھا۔ وہ مجھے بہت اچھا لگا۔ اس ملاقات کے کچھ عرصہ بعد ہم نے شادی
کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ تقریباً اِسی وقت کے دوران مَیں نے ۹ جنوری، ۱۹۵۲ میں یہوواہ کی ایک گواہ کے طور پر بپتسمہ لیا۔خارالمبس نے مجھ سے پہلے بپتسمہ لیا تھا۔ میری طرح اُنہیں بھی اپنے خاندان کی طرف سے دباؤ کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ بڑے جوش کیساتھ یہوواہ خدا کی خدمت کر رہے تھے۔ وہ کلیسیا کا ایک خدمتگزار خادم ہونے کے علاوہ بہت سے لوگوں کیساتھ بائبل کا مطالعہ بھی کر رہا تھا۔ جلد ہی اُنکے بڑے بھائیوں نے سچائی کو اپنا لیا اور آج وہ سب اپنے بیویبچوں کیساتھ یہوواہ کی خدمت کر رہے ہیں۔
میرے والد خارالمبس کو پسند کرتے تھے اِسلئے اُنہوں نے ہماری راہ میں کوئی رُکاوٹ نہ ڈالی۔ لیکن ماں کو یہ رشتہ منظور نہ تھا۔ اِسکے باوجود ہم نے ۲۹ مارچ، ۱۹۵۲ میں شادی کر لی۔ میرے خاندان کی طرف سے صرف میرا بڑا بھائی اور میرے تایا کا بیٹا ہماری شادی پر حاضر ہوئے۔ میرا شوہر ایک ایسا ساتھی تھا جسکے سہارے مَیں یہوواہ خدا کی خدمت کو اپنی زندگی میں پہلا درجہ دینے میں کامیاب رہی۔ مَیں سمجھتی ہوں کہ میرا شوہر خارالمبس میرے لئے یہوواہ کی طرف سے ایک خاص نعمت تھا!
بھائیوں کی حوصلہافزائی کرنا
سن ۱۹۵۳ میں ہم نے اتھینے منتقل ہو جانے کا فیصلہ کر لیا۔ منادی کے کام میں زیادہ وقت صرف کرنے کی خواہش کیساتھ میرے خاوند خارالمبس نے اپنا کاروبار چھوڑ دیا اور ایک ایسی ملازمت تلاش کر لی جہاں وہ صرف صبح کے وقت کام کرتے تھے۔ دوپہر کو ہم دونوں مل کر منادی کرتے اور بہت سے لوگوں کو بائبل کی سچائیوں کے بارے میں سکھاتے۔
اُس زمانے میں یہوواہ کے گواہوں پر پابندی تھی اِسلئے ہم منادی کرنے کے نئے طریقے استعمال کِیا کرتے تھے۔ مثال کے طور پر میرے خاوند شہر کے اندر جس چھوٹی سی دُکان پر کام کر رہے تھے اُسکی کھڑکی میں اُنہوں نے مینارِنگہبانی کا ایک رسالہ لگا دیا۔ ایک دن ایک پولیس آفیسر وہاں سے گزر رہا تھا۔ دُکان کے اندر داخل ہو کر اُس نے پوچھا کیا تمہیں پتہ نہیں کہ اِن رسالوں پر پابندی ہے؟ پھر اُس نے کہا کہ مجھے ایک رسالہ دے دو۔ مَیں تھانے جا کر اِسکے بارے میں تفتیش کرونگا۔ میرے خاوند نے اُسے ایک مینارِنگہبانی دے دیا۔ تھانے میں اِس آفیسر کو بتایا گیا کہ اِن رسالوں پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ اُس نے واپس آ کر ہمیں یہ بات بتا دی۔ جب دوسرے بھائیوں نے یہ سنا تو جس جسکے پاس دُکان تھی اُس نے کھڑکی میں مینارِنگہبانی لگا دیا۔ ایک آدمی جس نے اسی طرح سے ہماری دُکان سے مینارِنگہبانی رسالہ حاصل کِیا تھا بعد میں یہوواہ کا گواہ بن گیا اور آج وہ نگہبان کے طور پر خدمت کر رہا ہے۔
ہم اِس بات سے بھی بہت خوش ہیں کہ میرا چھوٹا بھائی یہوواہ کا گواہ بن گیا ہے۔ وہ سمندری جہاز کو چلانے کا خاص کورس کرنے کیلئے اتھینے آیا ہوا تھا۔ ہم اُسے ایک کنونشن پر لے گئے۔ پابندی کی وجہ سے اُس زمانے میں ہمارے کنونشن جنگل میں ہوا کرتے تھے۔ میرے بھائی نے کنونشن پر جوکچھ سنا وہ اُسے بہت اچھا لگا لیکن جلد ہی وہ سفر پر روانہ ہو گیا۔ ایک دن اُسکا جہاز ارجنٹینا کی بندرگاہ پر رُکا۔ وہاں پر ایک یہوواہ کا گواہ جو مشنری تھا جہاز پر آ کر منادی کرنے لگا۔ میرے بھائی نے اُس سے ہمارے رسالے مانگے۔ اِنکو پڑھ کر اُس نے ہمیں ایک خط لکھا کہ ”مجھے سچائی مل گئی ہے! میرے لئے باقاعدگی سے رسالے بھیجا کرو۔“ آج وہ اپنے بیوی بچوں سمیت یہوواہ کی خدمت کر رہا ہے۔
سن ۱۹۵۸ میں میرے شوہر کو سفری نگہبان بننے کی دعوت دی گئی۔ اُس زمانے میں سفری نگہبانوں کی بیویاں اُنکے ساتھ کلیسیاؤں کا دورہ نہیں کِیا کرتی تھیں کیونکہ ہمارے کام پر پابندی تھی اور حالات بہت کٹھن تھے۔ اِس صورتحال کے باوجود اکتوبر ۱۹۵۹ میں ہم نے برانچ کمیٹی کے ذمہدار بھائیوں سے درخواست کی تاکہ مَیں اپنے شوہر کیساتھ کلیسیاؤں کے دورے پر جا سکوں۔ ہمیں ایسا کرنے کی اجازت مل گئی۔ پھر ہمیں شمالی اور وسطی یونان کی کلیسیاؤں کا دورہ کرنے کیلئے بھیج دیا گیا۔
اُس زمانے میں سفر کرنا بہت مشکل تھا۔ زیادہتر سڑکیں کچی تھیں اور اُن پر اتنا کیچڑ ہوتا کہ ہم رَبر کے بوٹ پہن کر سفر کرنے پر مجبور ہوتے۔ ہمارے پاس گاڑی نہیں تھی اِسلئے ہم بسوں یا لاریوں پر سفر کرتے۔ اِن لاریوں پر مرغیوں کے علاوہ اَور بھی بہت سا سامان لدا ہوتا تھا۔ ہر گاؤں میں سپاہی ہوتے تھے جو اجنبیوں کی پوچھگچھ کرتے۔ اِس وجہ سے ہم احتیاطاً آدھی رات کو گاؤں میں داخل ہوا کرتے تھے۔
جن کلیسیاؤں کا ہم دورہ کرتے وہاں کے بہنبھائی ہماری ملاقاتوں کی بڑی قدر کرتے تھے۔ وہ دنبھر اپنے کھیتوں میں محنت کرتے لیکن رات گئے اجلاسوں پر ضرور حاضر ہوتے۔ یہ اجلاس مختلف گھروں میں منعقد کئے جاتے تھے۔ یہاں کے بھائی بہت غریب تھے لیکن جوکچھ بھی اُنکے پاس ہوتا وہ اِس سے ہماری مہماننوازی کرتے۔ کبھیکبھار ایسا ہوتا کہ ہمیں پورے خاندان کیساتھ ایک ہی کمرے میں سونا پڑتا۔ اِن بھائیوں کے ایمان، برداشت اور جوش کو بھی مَیں یہوواہ کی طرف سے ایک نعمت خیال کرتی ہوں۔
اپنی خدمت کو بڑھانا
ہم فروری ۱۹۶۱ میں اتھینے میں یہوواہ کے گواہوں کے برانچ دفتر گئے۔ وہاں ہم سے پوچھا گیا کہ کیا آپ بیتایل میں خدمت کرنا پسند کرینگے؟ ہم نے یسعیاہ نبی کے الفاظ میں جواب دیا: ”مَیں حاضر ہوں مجھے بھیج۔“ (یسعیاہ ۶:۸) اسکے دو مہینوں بعد ہمیں ایک خط ملا جس میں ہمیں جلد از جلد بیتایل آنے کو کہا گیا۔ اسطرح ۲۷ مئی، ۱۹۶۱ میں، ہم نے بیتایل میں خدمت کا آغاز کِیا۔
ہم نے بیتایل کو فوراً اپنا گھر بنا لیا۔ میرا شوہر مختلف ڈیپارٹمنٹس میں خدمت کرنے کے علاوہ برانچ کمیٹی کا رُکن بھی رہ چکا ہے۔ مجھے مختلف کام سونپے گئے۔ اُس زمانے میں بیتایل میں صرف ۱۸ لوگ رہتے تھے۔ لیکن تقریباً پانچ سال تک ہر روز ۴۰ لوگ یہاں موجود ہوتے کیونکہ اُس وقت نگہبانوں کیلئے کورس یہیں پر ہوا کرتا تھا۔ صبح کو مَیں برتن صاف کرتی، باورچی کی مدد کرتی، ۱۲ لوگوں کے بستر بچھاتی اور دوپہر کے کھانے کیلئے میز لگاتی۔ کھانے کے بعد مَیں بیتایل میں کام کرنے والوں کے کپڑے استری کرتی اور غسلخانوں اور کمروں کی صفائی کرتی۔ ہفتہ میں ایک دن مَیں تمام لوگوں کے کپڑے دھوتی۔ مصروفیت تو بہت تھی لیکن مَیں تمام کام خوشی سے کرتی تھی۔
ہم بیتایل میں خدمت کرنے کے علاوہ منادی کے کام میں بھی مصروف رہتے۔ کبھیکبھار ایسا ہوتا کہ ہم سات مختلف لوگوں کیساتھ بائبل کا مطالعہ کرتے۔ اتوار کو میرے شوہر مختلف کلیسیاؤں میں تقریریں دیا کرتے تھے۔ وہ جہاں بھی جاتے مَیں اُنکے ساتھ جاتی۔ کیونکہ ہم ایک دوسرے سے جُدا نہیں ہو سکتے تھے۔
ایک بار ہم نے ایک شادیشُدہ جوڑے کیساتھ بائبل کا مطالعہ کِیا جو یونان کے آرتھوڈکس چرچ کے اہم رُکن تھے۔ اُنکے قریبی دوستوں میں ایک ایسا پادری شامل تھا جو چرچ کے عقائد کی خلافورزی کرنے والے لوگوں کی کھوج لگایا کرتا تھا۔ اِس جوڑے کے گھر میں ایک ایسا کمرہ تھا جو مذہبی تصویروں سے بھرا ہوا تھا۔ اُس کمرے میں دنرات اگربتیاں جلتیں اور مذہبی موسیقی بجتی رہتی تھی۔ ایک عرصے تک ہم جمعرات کے روز اُن سے ملنے کیلئے جاتے اور اُنکا پادری دوست جمعے کو اُن سے ملنے کیلئے آتا تھا۔ ایک روز اُنہوں نے ہم سے کہا کہ آج تو آپکو ضرور ہمارے گھر آنا ہوگا کیونکہ ہم آپکو کچھ دکھانا چاہتے ہیں۔ جب ہم اُنکے گھر پہنچے تو وہ ہمیں سیدھا اُس کمرے میں لے گئے جو مذہبی تصویروں سے بھرا ہوتا تھا۔ ہم اِس کمرے کو دیکھ کر حیران رہ گئے کیونکہ اِس میں کوئی مذہبی تصویر نہ تھی یہاں تک کہ کمرے کی سجاوٹ بالکل بدل گئی تھی۔ اِن دونوں میاںبیوی نے بائبل کے بارے میں اپنے علم کو بڑھانے کے بعد یہوواہ کے گواہوں کے طور پر بپتسمہ لے لیا۔ مَیں اِس بات سے بہت خوش ہوں کہ جن لوگوں کیساتھ ہم نے بائبل کا مطالعہ کِیا ہے اُن میں سے کُل ۵۰ لوگوں نے اپنے آپ کو یہوواہ کیلئے مخصوص کرنے کے بعد بپتسمہ لیا۔
ایک خاص نعمت جو یہوواہ کی طرف سے مجھے ملی وہ ممسوح بھائیوں کیساتھ رفاقت رکھنا ہے۔ اِن میں یہوواہ کے گواہوں کی گورننگ باڈی کے رُکن بھائی نار، فرینز اور ہینشل شامل ہیں جنہوں نے یونان کے بیتایل کا دورہ کِیا۔ ایسی ملاقاتیں ہمارے لئے بہت حوصلہافزا رہی ہیں۔ مَیں ۴۰ برس سے زیادہ عرصہ سے بیتایل میں خدمت کر رہی ہوں۔ مَیں نے ہمیشہ اِس خدمت کو ایک شرف سمجھا ہے۔
بیماری اور جُدائی کا سامنا
سن ۱۹۸۲ میں، میرے شوہر بیمار ہو گئے اور اُنکی صحت دنبدن بگڑتی چلی گئی۔ سن ۱۹۹۰ تک اُنکی صحت اتنی خراب ہوگئی کہ اُنکو سارا وقت دیکھبھال کی ضرورت تھی۔ اسکے بعد آٹھ سال تک ہم کہیں نہ جا سکے۔ بیتایل کے بہنبھائیوں اور دوسرے ذمہدار بھائیوں نے ہماری بہت مدد کی۔ لیکن مَیں خود بھی دنرات اپنے شوہر کی دیکھبھال کرتی تھی۔ کبھیکبھار اُنکی حالت اتنی خراب ہو جاتی کہ مَیں پوری پوری رات جاگتی رہتی۔
جولائی ۱۹۹۸ میں میرے شوہر نے وفات پائی۔ مَیں اُنکی بہت کمی محسوس کرتی ہوں لیکن مجھے معلوم ہے کہ وہ یہوواہ کی یاد میں ہیں۔ وقت آنے پر یہوواہ خدا اُنہیں اور اُنکے ساتھ بہتیرے دوسرے لوگوں کو جو مر چکے ہیں پھر زندہ کریگا۔ مجھے اس بات سے بہت تسلی ملتی ہے۔—یوحنا ۵:۲۸، ۲۹۔
یہوواہ کی نعمتوں کیلئے شکرگزار
اپنے شوہر کو کھو دینے کے بعد بھی مَیں اکیلی نہیں ہوں۔ حالانکہ میری عمر ۷۰ سال سے اُوپر ہے مَیں اب بھی بیتایل کے باورچیخانہ اور کھانے کے کمرے میں پورا دن خدمت کرتی ہوں۔ یہاں کے تمام بہنبھائی میرے ساتھ بڑی محبت سے پیش آتے ہیں۔ اسکے علاوہ پورے یونان میں ایسے یہوواہ کے گواہ ہیں جنکو مَیں ذاتی طور پر اپنے بہنبھائی سمجھتی ہوں۔
مَیں ہمیشہ نیو یارک کے بیتایل کو دیکھنا چاہتی تھی۔ میری یہ خواہش ۱۹۹۹ میں پوری ہو گئی۔ وہاں جا کر جو خوشی مَیں نے محسوس کی اُسے بیان نہیں کر سکتی۔ یہ سفر میرے لئے بہت ہی حوصلہافزا رہا۔
مَیں جب بھی اپنی طویل زندگی کے بارے میں سوچتی ہوں تو مَیں یقین کیساتھ کہہ سکتی ہوں کہ یہوواہ کی خدمت میں زندگی گزارنے سے بہتر اَور کچھ نہیں۔ یہوواہ خدا نے ہمیشہ ہم دونوں کی جسمانی اور روحانی ضروریات کو پورا کِیا ہے۔ ہمیں کبھی بھی کسی چیز کی کمی نہیں ہوئی۔ مَیں زبورنویس کے الفاظ کو اچھی طرح سے سمجھ سکتی ہوں جو یوں بیان کرتے ہیں، ”[یہوواہ] کی سب نعمتیں جو مجھے ملیں مَیں اُنکے عوض میں اُسے کیا دوں؟“—زبور ۱۱۶:۱۲۔
[صفحہ ۲۶ پر تصویر]
مجھے اور خارالمبس کو جُدا نہیں کِیا جا سکتا تھا
[صفحہ ۲۷ پر تصویر]
میرا شوہر برانچ میں اپنے دفتر میں کام کرتے ہوئے
[صفحہ ۲۸ پر تصویر]
میرے نزدیک بیتایل خدمت ایک بہت بڑا اعزاز ہے