مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

اس وقت جاگتے رہنا پہلے سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے

اس وقت جاگتے رہنا پہلے سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے

اس وقت جاگتے رہنا پہلے سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے

‏”‏پس جاگتے رہو کیونکہ تُم نہیں جانتے کہ تمہارا خداوند کس دن آئیگا۔‏“‏—‏متی ۲۴:‏۴۲‏۔‏

۱،‏ ۲.‏ ہم کیسے جانتے ہیں کہ ہم اِس دُنیا کے آخری دنوں میں رہ رہے ہیں؟‏

ایک مصنف نے کہا:‏ ”‏پچھلے سو سال میں دُنیا نے بہت سی جنگیں دیکھیں۔‏“‏ وہ آگے بیان کرتا ہے کہ یوں تو انسانی تاریخ میں ہمیشہ جنگ اور تشدد ہوتا رہا ہے۔‏ ”‏لیکن پچھلی صدی کے دوران ہونے والی جنگیں شدت کے لحاظ سے پہلی تمام جنگوں سے مختلف تھیں۔‏ اس عرصہ میں ایک نہیں بلکہ دو عالمی جنگیں لڑی گئی تھیں۔‏“‏

۲ یسوع مسیح نے بہت عرصہ پہلے پیشینگوئی کی تھی کہ ”‏قوم پر قوم اور سلطنت پر سلطنت چڑھائی کریگی۔‏“‏ تاہم یہ یسوع کی ”‏[‏موجودگی]‏ اور دُنیا کے آخر ہونے“‏ کے نشان کا صرف ایک پہلو ہے۔‏ اس عظیم پیشینگوئی میں یسوع نے زلزلوں،‏ عالمگیر غذائی قلت اور وباؤں کا بھی ذکر کِیا تھا۔‏ (‏متی ۲۴:‏۳،‏ ۷،‏ ۸؛‏ لوقا ۲۱:‏۶،‏ ۷،‏ ۱۰،‏ ۱۱‏)‏ آج یہ تمام آفتیں شدت میں بڑھ گئی ہیں اور پہلے سے زیادہ لوگوں کو تکلیف میں ڈال رہی ہیں۔‏ انسان بدی میں بہت آگے نکل گیا ہے کیونکہ اُسے اپنے خالق اور ساتھی انسان کی کوئی فکر نہیں ہے۔‏ بداخلاقی،‏ جُرم اور تشدد میں دن‌بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔‏ لوگ خدا کی نسبت پیسوں کو زیادہ اہمیت دے رہے ہیں اور عیش‌وعشرت اُنکی زندگی کا واحد مقصد ہے۔‏ اِن تمام باتوں سے پتہ چلتا ہے کہ ہم ’‏بُرے دنوں‘‏ میں رہ رہے ہیں۔‏—‏۲-‏تیمتھیس ۳:‏۱-‏۵‏۔‏

۳.‏ ”‏زمانوں کی علامتوں“‏ کے بارے میں یسوع نے کیا تاکید کی؟‏

۳ انسانی تنزلی کو دیکھ کر آپ کیسا محسوس کرتے ہیں؟‏ بیشتر لوگ دُنیا کے تکلیف‌دہ واقعات سے بالکل لاپرواہ،‏ حتیٰ‌کہ بےحس ہیں۔‏ دُنیا کے عالم اور بااختیار لوگ اِن ”‏زمانوں کی علامتوں“‏ کو نہیں سمجھ سکے اور مذہبی راہنما بھی ان علامتوں کو سمجھانے میں ناکام رہے ہیں۔‏ (‏متی ۱۶:‏۱-‏۳‏)‏ لیکن یسوع نے اپنے پیروکاروں کو یہ تاکید کی تھی:‏ ”‏جاگتے رہو کیونکہ تُم نہیں جانتے کہ تمہارا خداوند کس دن آئیگا۔‏“‏ (‏متی ۲۴:‏۴۲‏)‏ اس حوالہ میں یسوع صرف خبردار رہنے کی حوصلہ‌افزائی کرنے کی بجائے جاگتے رہنے کی تاکید کرتا ہے۔‏ ایسا کرنے کیلئے ہمیں ہوشیاروبیدار رہنے کی ضرورت ہے۔‏ اِس میں صرف آخری ایّام میں رہنے اور بُرے دنوں کو تسلیم کرنے سے زیادہ کچھ شامل ہے۔‏ ہمیں پورے دل سے اِس بات کا یقین کر لینا چاہئے کہ ”‏سب چیزوں کا خاتمہ جلد ہونے والا ہے۔‏“‏ (‏۱-‏پطرس ۴:‏۷‏)‏ ایسا کرنے سے ہم سمجھ جائینگے کہ ہمارے لئے جاگتے رہنا کیوں اتنا اہم ہے۔‏ ہمیں اس سوال پر غور کرنا چاہئے کہ ’‏ہم اپنے یقین کو کیسے مضبوط بنا سکتے ہیں کہ خاتمہ جلد ہونے والا ہے؟‏‘‏

۴،‏ ۵.‏ (‏ا)‏ ہمارے یقین کو کسطرح تقویت ملتی ہے کہ اِس زمانے کا خاتمہ نزدیک ہے؟‏ (‏ب)‏ نوح کے زمانے اور ابنِ‌آدم کی موجودگی کے وقت کی ایک مشابہت کیا ہے؟‏

۴ ذرا طوفانِ‌نوح سے پہلے کی حالتوں پر غور کریں۔‏ اُس وقت لوگ اتنے بُرے تھے کہ یہوواہ خدا نے ”‏دل میں غم کِیا۔‏“‏ لہٰذا،‏ اُس نے کہا کہ ”‏مَیں انسان کو جسے مَیں نے پیدا کِیا رویِ‌زمین پر سے مٹا ڈالونگا۔‏“‏ (‏پیدایش ۶:‏۶،‏ ۷‏)‏ چنانچہ اُس نے ایسا ہی کِیا۔‏ یسوع نے نوح کے زمانے اور ہمارے زمانے کا موازنہ کرتے ہوئے کہا:‏ ”‏جیسا نوؔح کے دنوں میں ہوا ویسا ہی ابنِ‌آدم [‏کی موجودگی]‏ کے وقت ہوگا۔‏“‏—‏متی ۲۴:‏۳۷‏۔‏

۵ آجکل بھی لوگوں میں بُرائی اتنی بڑھ چکی ہے کہ یہوواہ خدا اسے دیکھ کر غم محسوس کرتا ہے۔‏ جسطرح یہوواہ نے اُس زمانے کے لوگوں کو تباہ کر دیا تھا اسی طرح وہ اِس زمانے کے بُرے لوگوں کو بھی ختم کر دیگا۔‏ نوح کے زمانے اور ہمارے زمانے میں کئی مشابہتیں پائی جاتی ہیں۔‏ اِن پر غور کرنے سے ہمارا اِس بات پر یقین مضبوط ہو جائیگا کہ اِس زمانے کا خاتمہ نزدیک ہے۔‏ تاہم،‏ ہم کن مشابہتوں کے بارے میں بات کر رہے ہیں؟‏ دراصل یہ کم از کم پانچ ہیں۔‏ سب سے پہلی یہ کہ تباہی سے پہلے لوگوں کو واضح آگاہی دی گئی۔‏

ان چیزوں کے بارے میں آگاہی ’‏جو نظر نہیں آتیں‘‏

۶.‏ یہوواہ نوح کے دنوں میں کیا کرنے والا تھا؟‏

۶ نوح کے دنوں میں یہوواہ نے اعلان کِیا کہ ”‏میری روح  انسان کے  ساتھ ہمیشہ مزاحمت نہ کرتی رہیگی کیونکہ وہ بھی تو بشر ہے توبھی اُس کی  عمر  ایک سو بیس برس کی ہوگی۔‏“‏ (‏پیدایش ۶:‏۳‏)‏ جب یہوواہ نے ۲۴۹۰ ق.‏س.‏ع.‏ میں اسکا اعلان کِیا تو اُس بُری دُنیا کے آخری دن شروع ہو گئے تھے۔‏ ذرا سوچیں کہ یہ آگاہی نوح کے زمانے میں رہنے والے لوگوں کیلئے کتنی اہمیت رکھتی تھی!‏ یہوواہ آگاہی دینے کے ۱۲۰ سال بعد کیا کرنے والا تھا؟‏ اسکے بارے میں اُس نے کہا کہ ”‏مَیں خود زمین پر پانی کا طوفان لانے والا ہُوں تاکہ ہر بشر کو جس میں زندگی کا دم ہے دُنیا سے  ہلاک  کر ڈالوں اور سب جو زمین پر ہیں مر جائینگے۔‏“‏—‏پیدایش ۶:‏۱۷‏۔‏

۷.‏ (‏ا)‏ طوفان کی آگاہی کے سلسلے میں نوح کا جوابی‌عمل کیا تھا؟‏ (‏ب)‏ اِس دُنیا کی تباہی کی بابت آگاہیوں کے سلسلے میں ہمارا جوابی‌عمل کیا ہونا چاہئے؟‏

۷ نوح کو بہت عرصہ پہلے طوفان کے بارے  میں آگاہی دی گئی تھی۔‏ اُس نے دانشمندی سے کام لے کر تباہی سے پہلے ہی اپنے بچاؤ کے لئے تیاری شروع کر دی۔‏ اسکی بابت پولس  رسول نے کہا:‏ ”‏ایمان ہی کے سبب سے نوؔح نے ان چیزوں کی بابت جو اُس وقت تک نظر نہ آتی تھیں ہدایت پا کر خدا کے خوف سے اپنے گھرانے کے بچاؤ کیلئے کشتی بنائی۔‏“‏ (‏عبرانیوں ۱۱:‏۷‏)‏ اس سے ہم کیا  سبق سیکھ سکتے ہیں؟‏ ہمارے زمانے کے آخری دن سن ۱۹۱۴ سے شروع ہو چکے ہیں۔‏ اُس وقت سے لے کر آج  تک  تقریباً ۹۰ سال گزر چکے ہیں۔‏ بیشک ہم ”‏آخری زمانہ“‏ میں رہ رہے ہیں۔‏ (‏دانی‌ایل ۱۲:‏۴‏)‏ ہمیں بھی آنے والی تباہی کی بابت آگاہیاں دی گئی ہیں،‏ پس ہمیں کیا کرنا چاہئے؟‏ بائبل میں لکھا ہے کہ ”‏جو خدا کی مرضی پر چلتا ہے وہ ابدتک قائم رہیگا۔‏“‏ (‏۱-‏یوحنا ۲:‏۱۷‏)‏ اِسلئے ہمیں گرمجوشی کیساتھ خدا کی مرضی پوری کرنے میں مصروف رہنا چاہئے۔‏

۸،‏ ۹.‏ یہوواہ خدا آجکل لوگوں کو کن باتوں سے آگاہ کر رہا ہے اور وہ کس کے ذریعے ایسا کر رہا ہے؟‏

۸ خدا کے کلام بائبل کا مطالعہ کرنے والے لوگوں نے یہ جان لیا ہے کہ یہ زمانہ تباہ ہونے والا ہے۔‏ کیا ہم اِس بات پر یقین رکھتے ہیں؟‏ اِس سلسلے میں یسوع نے صاف صاف بتا دیا تھا کہ ”‏اُس وقت ایسی بڑی مصیبت ہوگی کہ دُنیا کے شروع سے نہ اب تک ہوئی نہ کبھی ہوگی۔‏“‏ (‏متی ۲۴:‏۲۱‏)‏ یسوع نے یہ بھی کہا تھا کہ خدا نے اُسے منصف کے طور پر مقرر کِیا ہے اور وہ لوگوں کو ایک دوسرے سے جُدا کریگا جیسے چرواہا بھیڑوں کو بکریوں سے جُدا کرتا ہے۔‏ نامقبول لوگ ”‏ہمیشہ کی سزا پائینگے مگر راستباز ہمیشہ کی زندگی۔‏“‏—‏متی ۲۵:‏۳۱-‏۳۳،‏ ۴۶‏۔‏

۹ یہوواہ خدا اپنے لوگوں کو بار بار یاد دلاتا ہے کہ وہ مستقبل میں کیا کرنے والا ہے۔‏ ایسا وہ اپنے ”‏دیانتدار اور عقلمند نوکر“‏ کے ذریعے کرتا ہے جو خدا کے لوگوں کو باقاعدگی سے روحانی خوراک فراہم کر رہا ہے۔‏ (‏متی ۲۴:‏۴۵-‏۴۷‏)‏ اسکے علاوہ ہر قوم اور قبیلہ اور اہلِ‌زبان اور اُمت کے لوگوں کو ’‏خدا سے ڈرنے اور اُسکی تمجید کرنے کو کہا جا رہا ہے کیونکہ اُسکی عدالت کا وقت آ پہنچا ہے۔‏‘‏ (‏مکاشفہ ۱۴:‏۶،‏ ۷‏)‏ اِس پیغام میں یہ آگاہی بھی شامل ہے کہ خدا کی بادشاہت جلد ہی انسانی حکومتوں کو ختم کر دیگی۔‏ (‏دانی‌ایل ۲:‏۴۴‏)‏ یہوواہ کے گواہ پوری دُنیا میں اِس بادشاہتی پیغام کو سنا رہے ہیں۔‏ ہمیں اِس آگاہی کو نظرانداز نہیں کرنا چاہئے کیونکہ یہوواہ خدا ہمیشہ اپنے قول کو پورا کرتا ہے۔‏ (‏یسعیاہ ۵۵:‏۱۰،‏ ۱۱‏)‏ اُس نے زمانۂ‌نوح میں جیسا کہا ویسا کِیا تھا اور وہ ہمارے زمانے میں بھی ایسا ہی کریگا۔‏—‏۲-‏پطرس ۳:‏۳-‏۷‏۔‏

جنسی بداخلاقی عام ہوگئی ہے

۱۰.‏ نوح کے زمانے میں ہونے والی جنسی بداخلاقی کس حد تک بڑھ گئی تھی؟‏

۱۰ ہمارا زمانہ ایک اَور لحاظ سے بھی نوح کے زمانے کی طرح ہے۔‏ یہوواہ خدا نے آدم اور حوا کو حکم دیا کہ وہ شادی کے بندوبست کے تحت افزائشِ‌نسل کیلئے اپنی جنسی صلاحتیوں کو ایک باعزت طریقے سے کام میں لاتے ہوئے ”‏زمین کو معمورومحکوم“‏ کریں یعنی زمین کو انسانوں سے بھر دیں۔‏ (‏پیدایش ۱:‏۲۸‏)‏ نوح کے زمانے میں کچھ فرشتوں نے انسان کو بداخلاقی سکھائی۔‏ اُنہوں نے خدا کی نافرمانی کی اور انسانوں سے ناجائز جنسی تعلقات رکھے۔‏ اِن فرشتوں نے انسان کا رُوپ اختیار کرکے خوبصورت عورتوں سے شادیاں کر لیں۔‏ اِسکے نتیجے میں پیدا ہونے والی اولاد آدھی انسان اور آدھی بدرُوح تھی۔‏ بائبل میں اِس اولاد کو جبار کہا گیا ہے۔‏ (‏پیدایش ۶:‏۲،‏ ۴‏)‏ اِن شہوت‌پرست فرشتوں کو سدوم اور عمورہ کے لوگوں کی جنسی کجروی سے تشبیہ دی گئی ہے۔‏ (‏یہوداہ ۶،‏ ۷‏)‏ نتیجتاً،‏ نوح کے زمانے میں جنسی بداخلاقی عام ہوگئی تھی۔‏

۱۱.‏ جنسی بداخلاقی کے لحاظ سے ہمارا زمانہ نوح کے زمانے کی طرح کیوں ہے؟‏

۱۱ اِس سلسلے میں ہمارے زمانے کے بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے؟‏ اِن آخری دنوں میں زیادہ‌تر لوگ محض اپنی جنسی خواہشوں کو پورا کرنے کیلئے ہی زندہ ہیں۔‏ پولس ایسے لوگوں کی بابت وضاحت سے بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ”‏اُنہوں نے سُن ہو کر شہوت‌پرستی کو اختیار کِیا تاکہ ہر طرح کے گندے کام حرص سے کریں۔‏“‏ (‏افسیوں ۴:‏۱۹‏)‏ آجکل فحاشی،‏ شادی سے پہلے جنسی تعلقات،‏ بچوں کیساتھ جنسی بدسلوکی اور ہم‌جنس‌پسندی عام ہو گئی ہے۔‏ اکثر لوگ ایسی حرکتوں کے نتیجے میں ’‏اپنے آپ میں اپنی گمراہی کے لائق بدلہ پا رہے ہیں۔‏‘‏ وہ یا تو جنسی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں یا پھر اُنکے خاندانی تعلقات خراب ہو جاتے ہیں جسکی وجہ سے معاشرے میں اَور بھی بہت سے مسائل کھڑے ہوتے ہیں۔‏—‏رومیوں ۱:‏۲۶،‏ ۲۷‏۔‏

۱۲.‏ ہمیں بدی کیلئے نفرت کیوں پیدا کرنی چاہئے؟‏

۱۲ ہمیں یہ بات کبھی نہیں بھولنی چاہئے کہ ہمارا زمانہ بالکل نوح کے زمانے کی طرح ہے۔‏ جسطرح یہوواہ نے طوفان کے ذریعے تمام شہوت‌پرست لوگوں کو ختم کر دیا تھا اِسی طرح ہمارے زمانے میں بھی یہوواہ خدا ”‏بڑی مصیبت“‏ کے ذریعے تمام ’‏حرامکاروں،‏ زناکاروں،‏ عیاشوں اور لونڈےبازوں‘‏ کو ختم کر دیگا۔‏ (‏متی ۲۴:‏۲۱؛‏ ۱-‏کرنتھیوں ۶:‏۹،‏ ۱۰؛‏ مکاشفہ ۲۱:‏۸‏)‏ اس وجہ سے یہ بہت اہم ہے کہ ہم بدی کیلئے نفرت پیدا کریں اور ہر اُس کام سے دُور رہیں جو ہمیں بداخلاقی کی طرف لے جا سکتا ہے!‏—‏زبور ۹۷:‏۱۰؛‏ ۱-‏کرنتھیوں ۶:‏۱۸‏۔‏

زمین ’‏ظلم سے بھر‘‏ گئی ہے

۱۳.‏ نوح کے زمانے میں زمین ظلم سے کیوں بھری تھی؟‏

۱۳ نوح کے زمانے کی ایک اَور خاص بات کے بارے میں بائبل کہتی ہے کہ ”‏زمین خدا کے آگے ناراست ہو گئی تھی اور وہ ظلم سے بھری تھی۔‏“‏ (‏پیدایش ۶:‏۱۱‏)‏ اُس وقت ظلم اور تشدد کا ہونا لوگوں کیلئے کوئی انجانی بات نہیں تھی۔‏ نوح کے زمانے سے پہلے آدم کے بیٹے قائن نے اپنے بھائی ہابل کو قتل کر ڈالا تھا۔‏ (‏پیدایش ۴:‏۸‏)‏ اپنے زمانے کی روح کی عکاسی کرتے ہوئے لمک نامی ایک شخص نے مبیّنہ طور پر ایک نظم میں بڑے فخر سے بیان کِیا کہ اُس نے اپنے دفاع میں ایک جوان کو مار ڈالا تھا۔‏ (‏پیدایش ۴:‏۲۳،‏ ۲۴‏)‏ لیکن نوح کے زمانے میں صرف ظلم اور تشدد کا اضافہ ہو گیا تھا۔‏ اِسکی وجہ یہ تھی کہ جب نافرمان فرشتوں نے عورتوں سے شادی کی تو اُن سے بہت ظالم اولاد پیدا ہوئی۔‏ یہ جبار دیوقامت اور طاقتور تھے۔‏ عبرانی زبان میں اِنکو ”‏گِرا دینے والے“‏ بھی کہا جاتا ہے۔‏ (‏پیدایش ۶:‏۴‏)‏ چنانچہ ”‏زمین ظلم سے بھر گئی“‏ تھی۔‏ (‏پیدایش ۶:‏۱۳‏)‏ ذرا تصور کریں کہ نوح کو ایسی صورتحال میں اپنے بچوں کی پرورش کرنے میں کتنی دقت ہوئی ہوگی!‏ لیکن نوح یہوواہ کے ”‏سامنے اس زمانہ میں راستباز“‏ پایا گیا تھا۔‏—‏پیدایش ۷:‏۱‏۔‏

۱۴.‏ ہمارے زمانے میں زمین کس حد تک ’‏ظلم سے بھر‘‏ گئی ہے؟‏

۱۴ انسان ہمیشہ سے ایک دوسرے پر ظلم اور تشدد کرتا آیا ہے۔‏ لیکن نوح کے زمانے کی طرح ہمارے دنوں میں بھی ظلم بہت بڑھ گیا ہے۔‏ ہم مستقل طور پر گھریلو تشدد،‏ دہشت‌گردی،‏ سلسلہ‌وار نسل‌کُشی اور کسی گن‌مین کے ہاتھوں بِلاوجہ قتل‌وغارت کے مختلف واقعات کی بابت سنتے رہتے ہیں۔‏ اکثر خبروں میں ایسے اشخاص کے بارے میں بتایا جاتا ہے جو بِلاوجہ فائرنگ کرکے معصوم لوگوں کو ہلاک کر دیتے ہیں۔‏ اسکے علاوہ مختلف جنگوں کی وجہ سے انسانی خون کی نہریں بہہ چکی ہیں۔‏ زمین دوبارہ ظلم سے بھر گئی ہے۔‏ اسکی کیا وجہ ہے؟‏ اس سوال کا جواب نوح اور ہمارے زمانے کے درمیان تیسری مشابہت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔‏

۱۵.‏ (‏ا)‏ آخری زمانہ میں تشدد کیوں بڑھ رہا ہے؟‏ (‏ب)‏ اِسکا کیا نتیجہ نکلے گا؟‏

۱۵ خدا نے ۱۹۱۴ میں آسمان میں اپنی بادشاہت قائم کی۔‏ اُس وقت بادشاہت کے بادشاہ یسوع مسیح نے شیطان اور شیاطین کو زمین پر گِرا دیا۔‏ (‏مکاشفہ ۱۲:‏۹-‏۱۲‏)‏ طوفان سے پہلے یہ فرشتے خدا کی نافرمانی کرکے اپنی مرضی سے زمین پر آئے تھے۔‏ لیکن ۱۹۱۴ میں اُنکو زبردستی آسمان سے نکال دیا گیا تھا۔‏ اِس مرتبہ وہ جنسی تعلقات قائم کرنے کیلئے انسان کا روپ اختیار کرنے کے قابل نہیں ہیں۔‏ اُنکو یہ بھی معلوم ہے کہ جلد ہی اُنہیں اپنی نافرمانی کی سزا بھگتنی پڑیگی۔‏ اسلئے وہ بہت غصے میں ہیں اور انسانوں کو ایک دوسرے کیساتھ وحشیانہ جرم‌وتشدد کے کام کرنے کی تحریک دیتے ہیں۔‏ وہ اِس کام میں اتنے کامیاب ہیں کہ آج زمین نوح کے زمانے سے بھی زیادہ تشدد سے بھری ہوئی ہے۔‏ یہوواہ خدا نے نوح کے زمانے کی پُرتشدد دُنیا کو ختم کر دیا تھا اور وہ ہمارے زمانے میں بھی ایسا ہی کریگا۔‏ (‏زبور ۳۷:‏۱۰‏)‏ لیکن اِس آگاہی کو یاد رکھنے والے لوگ جاگتے رہینگے۔‏ اُنکو معلوم ہے کہ اُنکی نجات نزدیک ہے۔‏

منادی کا کام جاری ہے

۱۶،‏ ۱۷.‏ نوح کے زمانے اور ہمارے زمانے میں چوتھی مشابہت کونسی ہے؟‏

۱۶ طوفان سے پہلے نوح کو خدا کی طرف سے ایک خاص کام سونپا گیا تھا۔‏ یہ کام نوح کے زمانے اور ہمارے زمانے میں چوتھی مشابہت ظاہر کرتا ہے۔‏ نوح نے ایک بہت بڑی کشتی تعمیر کی۔‏ اسکے علاوہ وہ ”‏راستبازی کے منادی کرنے والے“‏ کے طور پر بھی مشہور تھا۔‏ (‏۲-‏پطرس ۲:‏۵‏)‏ اُس نے لوگوں کو کونسا پیغام سنایا؟‏ نوح نے لوگوں کو توبہ کرنے اور آنے والی تباہی سے آگاہ کِیا تھا۔‏ یسوع اُس زمانے کے لوگوں کے بارے میں کہتا ہے کہ وہ ”‏بےفکر رہے تاوقتیکہ طوفان آ کر سب کو بہا نہ لے گیا۔‏“‏—‏متی ۲۴:‏۳۸،‏ ۳۹‏،‏ کیتھولک ورشن۔‏

۱۷ اُسی طرح سے یہوواہ کے گواہ آجکل منادی کے کام  میں بڑھ‌چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں جسکی وجہ سے خدا کی بادشاہی کا پیغام دُنیا کے ہر کونے میں سنایا جا رہا ہے۔‏ تقریباً ہر مُلک میں لوگ اپنی زبان میں خدا کی بادشاہت کے بارے میں سُن اور پڑھ رہے ہیں۔‏ مینارِنگہبانی کا ہر شمارہ ۰۰۰،‏۰۰،‏۵۰،‏۲ کی تعداد میں تقریباً ۱۴۰ زبانوں میں شائع ہو رہا ہے۔‏ جی‌ہاں،‏ خدا کی بادشاہی کی خوشخبری کی منادی ’‏تمام دُنیا میں ہو رہی ہے تاکہ سب قوموں کیلئے گواہی ہو۔‏‘‏ جب خدا کی نظر میں منادی کا کام مکمل ہو جائیگا تب خاتمہ ہوگا۔‏—‏متی ۲۴:‏۱۴‏۔‏

۱۸.‏ نوح کے زمانے میں اور آجکل منادی کے کام میں لوگوں کا ردِعمل کیسا ہے؟‏

۱۸ طوفان سے پہلے لوگ خدا کی باتوں میں کوئی دلچسپی نہیں لیتے تھے کیونکہ وہ اخلاقی طور پر بہت بگڑ چکے تھے۔‏ اسلئے وہ نوح اور اُسکے خاندان کا مذاق اُڑاتے اور اُنکو ستاتے تھے۔‏ وہ اس بات کو ماننے کیلئے تیار نہیں تھے کہ اُنکو تباہ کر دیا جائیگا۔‏ لیکن ہم پڑھتے ہیں کہ وہ سب طوفان میں ہلاک ہو گئے۔‏ بالکل اسی طرح ہمارے زمانے میں ’‏ہنسی ٹھٹھا کرنے والوں‘‏ کی کمی نہیں ہے۔‏ بائبل کہتی ہے کہ اُن پر بھی ”‏[‏یہوواہ]‏ کا دن چور کی طرح آ جائیگا۔‏“‏ (‏۲-‏پطرس ۳:‏۳،‏ ۴،‏ ۱۰‏)‏ جی‌ہاں،‏ یہوواہ کا دن ضرور آئیگا۔‏ وہ تاخیر نہ کریگا۔‏ (‏حبقوق ۲:‏۳‏)‏ اس صورتحال میں جاگتے رہنا کتنی دانشمندی کی بات ہے!‏

بہت کم لوگ بچ نکلتے ہیں

۱۹،‏ ۲۰.‏ طوفان اور موجودہ زمانے کی تباہی میں کونسی مشابہت پائی جاتی ہے؟‏

۱۹ ہم نے دیکھا ہے کہ جسطرح نوح کے زمانے میں لوگ اپنی بُرائی کی وجہ سے تباہ ہوئے تھے اُسی طرح ہمارے زمانے میں بھی ہوگا۔‏ اِن دو زمانوں میں پانچویں مشابہت کونسی ہے؟‏ جسطرح لوگ طوفان سے بچ نکلے تھے اسی طرح اِس بُرے زمانے کی تباہی سے بھی بچ نکلینگے۔‏ طوفان سے بچ نکلنے والے لوگ نیک تھے۔‏ اُنہوں نے خدا کی آگاہی پر عمل کرتے ہوئے اُس زمانے کے بُرے لوگوں سے کنارہ کِیا۔‏ بائبل نوح کی بابت بیان کرتی ہے کہ وہ ”‏اپنے زمانہ کے لوگوں میں بےعیب تھا“‏ اِسلئے ”‏نوؔح [‏یہوواہ]‏ کی نظر میں مقبول ہوا۔‏“‏ (‏پیدایش ۶:‏۸،‏ ۹‏)‏ طوفان میں ”‏تھوڑے سے آدمی یعنی آٹھ جانیں پانی کے وسیلہ سے بچیں۔‏“‏ نوح کے خاندان کے سوا تمام لوگوں کو تباہ کر دیا گیا تھا۔‏ (‏۱-‏پطرس ۳:‏۲۰‏)‏ اِس ایک خاندان کو یہوواہ خدا نے یہ حکم دیا کہ ”‏بارور ہو اور بڑھو اور زمین کو معمور کرو۔‏“‏—‏پیدایش ۹:‏۱‏۔‏

۲۰ خدا کے کلام میں لکھا ہے کہ آنے والی ”‏بڑی مصیبت میں سے“‏ ایک ”‏بڑی بھیڑ“‏ بچ نکلے گی۔‏ (‏مکاشفہ ۷:‏۹،‏ ۱۴‏)‏ لیکن ”‏بڑی بِھیڑ“‏ میں کتنے لوگ شامل ہونگے؟‏ اِسکے بارے میں یسوع نے کہا،‏ ”‏وہ دروازہ تنگ ہے اور وہ راستہ سکڑا ہے جو زندگی کو پہنچاتا ہے اور اُسکے پانے والے تھوڑے ہیں۔‏“‏ (‏متی ۷:‏۱۳،‏ ۱۴‏)‏ اِس سے ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ اِس وقت پوری دُنیا میں چھ ارب لوگوں کی نسبت بہت کم لوگ آنے والی تباہی سے بچ نکلینگے۔‏ اُنہیں بھی طوفان سے بچ نکلنے والے لوگوں کی طرح کا شرف حاصل ہوگا۔‏ شاید بچنے والے نئے زمینی معاشرے کے حصہ کے طور پر کچھ دیر تک اولاد پیدا کر سکیں۔‏—‏یسعیاہ ۶۵:‏۲۳‏۔‏

‏”‏جاگتے رہو“‏

۲۱،‏ ۲۲.‏ (‏ا)‏ طوفان کے بارے میں تمام معلومات حاصل کرنے سے آپ نے کیا سیکھا ہے؟‏ (‏ب)‏ سن ۲۰۰۴ کی سالانہ آیت کیا ہے اور ہمیں اِس آیت پر کیوں عمل کرنا چاہئے؟‏

۲۱ شاید ہم یہ سوچیں کہ نوح کے زمانے کا طوفان تو ہمارے زمانہ سے بہت عرصہ پہلے آیا تھا۔‏ لیکن اِس واقعہ کے ذریعے ہمیں ایک اہم آگاہی دی جا رہی ہے جسے ہمیں نظرانداز نہیں کرنا چاہئے۔‏ (‏رومیوں ۱۵:‏۴‏)‏ آجکل جوکچھ ہو رہا ہے اِس سے ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ہمارا زمانہ نوح کے دنوں سے کتنی مشابہت رکھتا ہے۔‏ اِس سے ہمیں یہ بھی جان لینا چاہئے کہ یسوع بُرے لوگوں کو سزا دینے کیلئے اچانک آئیگا۔‏

۲۲ آجکل یسوع ایک بہت بڑے تعمیری کام کی نگرانی کر رہا ہے۔‏ جسطرح نوح کشتی میں داخل ہو کر طوفان کے پانی سے محفوظ رہا اور زندہ بچ نکلا اسی طرح آجکل سچے پرستاروں کو تحفظ اور بچاؤ کیلئے ایک روحانی فردوس میں داخل ہونا ہے۔‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۱۲:‏۳،‏ ۴‏)‏ بڑی مصیبت میں سے بچ نکلنے کیلئے ہمیں اِس روحانی فردوس یعنی خدا کے تحفظ میں رہنے کی ضرورت ہے۔‏ اگر ہم روحانی طور پر سُست پڑ جائینگے تو ہم روحانی فردوس کے تحفظ سے نکل کر شیطان کی دُنیا میں پھنس جائینگے۔‏ اسلئے ہمیں ’‏جاگتے رہنے‘‏ اور یہوواہ کے روزِعظیم کیلئے تیار رہنے کی اشد ضرورت ہے۔‏—‏متی ۲۴:‏۴۲،‏ ۴۴‏۔‏

کیا آپکو یاد ہے؟‏

‏• یسوع نے اپنی آمد کے بارے میں کونسی آگاہی دی تھی؟‏

‏• یسوع کی موجودگی کس شخص کے زمانے سے مشابہت رکھتی ہے؟‏

‏• ہمارے زمانے اور نوح کے زمانے میں کونسی مشابہتیں پائی جاتی ہیں؟‏

‏• اِن مشابہتوں پر غور کرنے سے ہمیں کیسا ردِعمل دکھانا چاہئے؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۱۸ پر عبارت]‏

سن ۲۰۰۴ کی سالانہ آیت یہ ہوگی:‏ ”‏جاگتے رہو .‏ .‏ .‏ تیار رہو“‏—‏متی ۲۴:‏۴۲،‏ ۴۴‏۔‏

‏[‏صفحہ ۱۵ پر تصویر]‏

نوح نے خدا کی آگاہی پر عمل کِیا۔‏ کیا ہم بھی ایسا کر رہے ہیں؟‏

‏[‏صفحہ ۱۶ پر تصویریں]‏

‏”‏جیسا نوح کے دنوں میں ہوا ویسا ہی ابنِ‌آدم کی موجودگی کے وقت ہوگا“‏