مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

اُنہوں نے سُکڑے راستے کی تلاش کی

اُنہوں نے سُکڑے راستے کی تلاش کی

اُنہوں نے سُکڑے راستے کی تلاش کی

آج سے تقریباً ۵۵۰ سال پہلے کی بات ہے۔‏ چیک ریپبلک کے شہر پراگ اور دوسرے شہروں سے دعویدار مسیحیوں نے چھوٹے چھوٹے گروہوں کی شکل میں اپنے گھروں کو چھوڑنا شروع کر دیا۔‏ وہ شمال‌مشرقی بوہی‌میا کی وادی میں ایک گاؤں کُن‌والڈ میں آ کر آباد ہو گئے۔‏ وہاں اُنہوں نے جھونپڑیوں میں رہنا شروع کر دیا۔‏ وہ کھیتی‌باڑی کِیا کرتے اور بائبل پڑھا کرتے تھے۔‏ اُن لوگوں کا نام متحد برادری تھا۔‏

اِن میں نواب،‏ کسان،‏ طالبعلم،‏ امیر،‏ غریب،‏ مرد،‏ عورتیں،‏ بیوہ اور یتیم سب شامل تھے۔‏ وہ ایک ہی مقصد کے لئے جمع تھے جس کے بارے میں اُنہوں نے یوں بیان کِیا:‏ ”‏ہم نے خدا سے یہ دُعا مانگی ہے کہ وہ تمام باتوں میں اپنی مرضی ہم پر ظاہر کرے۔‏ ہم نے اُس کی راہ میں چلنے کا پُختہ اِرادہ کِیا ہے۔‏“‏ بِلاشُبہ اِس متحد برادری کے رُکن ’‏سکڑے راستے‘‏ کی تلاش میں تھے۔‏ (‏متی ۷:‏۱۳،‏ ۱۴‏)‏ اُن کو اِس تلاش میں بائبل کی کونسی سچائیاں ملیں؟‏ اُن کی تعلیمات دوسرے مسیحی فرقوں سے کیسے مختلف تھیں؟‏ ہم اِن سے کیا سبق سیکھ سکتے ہیں؟‏

تشدد اور مصالحت سے گریز

اِن لوگوں نے ۱۵ ویں صدی میں مختلف مسیحی فرقوں کو چھوڑ کر متحد برادری نام کی ایک جماعت قائم کی۔‏ اِن میں سے بعض لوگ پہلے ولندیزی تھے۔‏ ولندیزیوں نے ۱۲ ویں صدی میں سرکاری کیتھولک مذہب کو چھوڑ دیا تھا۔‏ لیکن بعدازاں اُنہوں نے دوبارہ کیتھولک تعلیمات کو جزوی طور پر اپنا لیا تھا۔‏ متحد برادری کے اکثر رُکن پہلے جان ہس کے پیروکار تھے۔‏ اُس وقت چیک ریپبلک میں زیادہ‌تر لوگ اِسی فرقے سے تعلق رکھتے تھے۔‏ لیکن اِن میں کوئی اتحاد نہ تھا کیونکہ کچھ تو معاشرتی مسائل میں اُلجھے

ہوئے تھے جبکہ دوسرے مذہب کو اپنی سیاست چمکانے کے لئے استعمال کر رہے تھے۔‏ اس کے علاوہ مسیح کی ہزار سالہ حکمرانی کے عقیدے کے معتقد گروہوں اور مقامی اور غیرملکی بائبل عالموں نے بھی متحد برادری پر اثر ڈالا۔‏

اِن میں سے ایک پیٹر چل‌سکی ہے (‏تقریباً ۱۳۹۰-‏۱۴۶۰)‏ جو  بائبل عالم اور مصلح تھا۔‏ وہ ولندیزیوں اور ہس کے پیروکاروں کی تعلیمات سے واقف تھا۔‏ لیکن اُسے ہس کے پیروکاروں سے یہ اعتراض تھا کہ وہ جنگ میں حصہ لیتے تھے۔‏ وہ ولندیزیوں سے بھی متفق نہ تھا کیونکہ وہ بائبل کی تعلیمات سے ہٹ گئے تھے۔‏ پیٹر چل‌سکی یہ ایمان رکھتا تھا کہ مسیحیوں کو جنگ میں حصہ نہیں لینا چاہئے۔‏ اس کے علاوہ وہ جانتا تھا کہ مسیحیوں کو  ”‏مسیح کی شریعت“‏ پر قائم رہنا چاہئے اور ہر حال میں اِس پر عمل کرنا چاہئے۔‏ (‏گلتیوں ۶:‏۲؛‏ متی ۲۲:‏۳۷-‏۳۹‏)‏ سن ۱۴۴۰ میں اُس نے اپنے نظریات کو ایک کتاب کی شکل دی جس کا نام سچے ایمان کا نظام ہے۔‏

پراگ میں رہنے والا گریگری بھی ہس کا پیروکار تھا۔‏ چل‌سکی کی تعلیمات نے گریگری کو اِس حد تک متاثر کِیا کہ وہ ہس کی جماعت سے علیحدہ ہو گیا۔‏ سن ۱۴۵۸ میں اُس نے ہس کے کچھ پیروکاروں کو ایک نئی جماعت قائم کرنے پر قائل کِیا۔‏ یہ لوگ اپنے گھروں کو چھوڑ کر گریگری کے ساتھ گاؤں کُن‌والڈ میں آباد ہو گئے  تھے۔‏  بعدازاں کچھ چیک کے گروہ اور ولندیزی بھی اُن کے ساتھ مل گئے۔‏

ماضی پر ایک نظر

سن ۱۴۶۴ تا ۱۴۶۷ تک متحد برادری نے گاؤں کُن‌والڈ میں مجالس منعقد کیں۔‏ اِن مجالس میں اُنہوں نے بائبل کی تعلیمات کے بارے میں اپنے نظریات پیش کئے۔‏ بعدازاں اِن کو مختلف جِلدوں میں درج کِیا گیا جن کا نام اُنہوں نے متحد برادری کی تعلیمات کا مجموعہ رکھا۔‏ آجکل یہ کتابیں ہمیں متحد برادری کے ایمان کے بارے میں بہت سی تفصیلات بتاتی ہیں۔‏

متحد برادری کی تعلیمات کا مجموعہ یوں بیان کرتا ہے:‏ ”‏ہمارا پُختہ اِرادہ ہے کہ ہم صرف بائبل کی راہنمائی قبول کریں گے۔‏ ہم اپنے خداوند یسوع اور اُس کے رسولوں کے نمونے پر عمل کرنا چاہتے ہیں۔‏ اِس لئے ہم مطالعہ کریں گے،‏ نرمی اور تحمل سے کام لیں گے،‏ اپنے دُشمنوں کے لئے دُعا کریں گے اور ان کے ساتھ محبت اور نیکی سے پیش آئیں گے۔‏“‏ ہم ان کتابوں میں یہ بھی پڑھتے ہیں کہ متحد برادری کے رُکن دو دو کرکے منادی کِیا کرتے تھے۔‏ اِس کام میں نہ صرف مرد بلکہ عورتیں بھی حصہ لیتی تھیں۔‏ علاوہ‌ازیں وہ کسی معاملے میں نہ تو قسم اُٹھاتے،‏ نہ سیاست میں حصہ لیتے تھے نیز فوج میں بھرتی ہونا تو درکنار وہ ہتھیار اُٹھانے سے بھی انکار کرتے تھے۔‏

اتحاد کا ٹوٹ جانا

کچھ عرصے کے بعد متحد برادری کا اتحاد ختم ہو گیا۔‏ اُن میں اس بات پر تکرار ہوئی کہ کس حد تک بائبل کی تعلیمات پر عمل کِیا جانا چاہئے۔‏ سن ۱۴۹۴ میں متحد برادری دو حصوں میں بٹ گئی۔‏ اِن میں سے ایک نے اپنا نام ”‏اکثریتی جماعت“‏ اور دوسری نے ”‏اقلیتی جماعت“‏ رکھ لیا۔‏ ”‏اکثریتی جماعت“‏ نے متحد برادری کی بہت سی تعلیمات کو ردّ کر دیا۔‏ جبکہ ”‏اقلیتی جماعت“‏ اِن پر کاربند رہی۔‏—‏بکس بعنوان ”‏ ’‏اکثریتی جماعت‘‏ کے ساتھ کیا واقع ہوا؟‏“‏ دیکھیں۔‏

مثال کے طور پر،‏ ”‏اقلیتی جماعت“‏ کے ایک رُکن نے یوں  لکھا:‏ ”‏لوگ بیک وقت دو الگ راستوں پر نہیں چل سکتے۔‏ اِسی طرح اگر ہم صرف بعض معمولی باتوں میں خدا کی مرضی پوری کریں اور تمام دوسری باتوں میں اپنی مرضی اِختیار کریں تو یہ بھی غلط ہوگا۔‏ .‏ .‏ .‏ ہم صاف ضمیر اور عقل کے ساتھ خداوند یسوع کی پیروی کریں گے اور اپنی صلیب اُٹھا کر سکڑے راستے پر چلیں گے۔‏“‏

‏”‏اقلیتی جماعت“‏ یہ ایمان رکھتی تھی کہ خدا کی رُوح‌القدس اُس کی سرگرم قوت یا ”‏خدا کا ہاتھ“‏ ہے۔‏ وہ یہ جانتے تھے کہ آدم نے جو کھویا تھا وہ یسوع نے اپنی جان دے کر ہمیں واپس لوٹا دیا ہے۔‏ وہ مریم کی پرستش نہیں کرتے تھے۔‏ اُنہوں نے غیرشادی‌شُدہ رہنے کے عہد کے بغیر تمام ایمانداروں کے کاہن ہونے کے عقیدے کو بحال کر دیا۔‏ ”‏اقلیتی جماعت“‏ کے تمام رُکن منادی کرتے تھے۔‏ وہ اپنے گناہوں سے توبہ نہ کرنے والوں کو کلیسیا سے خارج بھی کر دیتے تھے۔‏ سیاسی اور فوجی کاموں میں بھی حصہ نہیں لیتے تھے۔‏ (‏بکس بعنوان ”‏ ’‏اقلیتی جماعت‘‏ کی تعلیمات کیا تھیں؟‏“‏ کو دیکھیں۔‏)‏ ”‏اقلیتی جماعت“‏ کے رُکن تعلیمات کا مجموعہ پر عمل کرتے تھے۔‏ اس لئے وہ اپنے آپ کو متحد برادری کے وارث سمجھتے تھے۔‏

صاف‌گوئی کی وجہ سے اذیت

‏”‏اقلیتی جماعت“‏ اکثر ”‏اکثریتی جماعت“‏ اور دوسرے مذاہب پر تنقید کرتی تھی۔‏ ایسے مذاہب کے بارے میں اُنہوں نے لکھا:‏ ”‏تُم چھوٹے بچوں کو بپتسمہ دیتے ہو جن کو کچھ سمجھ نہیں۔‏ ایسا کرنے سے تُم بشپ دیونسی‌یس کے رواج پر عمل کرتے ہو جس نے کچھ بےعقل لوگوں کی بات مان کر اِس تعلیم کو فروغ دیا۔‏ .‏ .‏ .‏ ’‏اکثریتی جماعت‘‏ کے علاوہ لوتھر،‏ میلان‌کتھون،‏ بوسرز،‏ کورون،‏ یلااشز،‏ بولنگر اور بہت سے  دوسرے علما نے بھی اِس تعلیم کو اپنا لیا ہے۔‏“‏

ایسے بیانات کو جاری کرنے کی وجہ سے ”‏اقلیتی جماعت“‏ کے ارکان کو اذیت دی گئی۔‏ سن ۱۵۲۴ میں جماعت کے ایک سربراہ کو کوڑے مارے گئے۔‏ اس کے کچھ عرصہ بعد اقلیتی جماعت کے تین ارکان کو زندہ سولی پر جلا دیا گیا۔‏ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اپنے آخری پیشوا کی وفات کے بعد یہ اقلیتی جماعت ۱۵۵۰ میں ختم ہو گئی تھی۔‏

ان تمام اذیتوں کے باوجود ”‏اقلیتی جماعت“‏ نے قرونِ‌وسطیٰ کے یورپ پر اپنے دَور کے مذہبی نظریات کی مہر لگا دی تھی۔‏ یہ بات سچ ہے کہ اقلیتی جماعت کے دنوں میں صدیوں پرانی روحانی تاریکی کو دُور کرنے میں کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں ہوئی تھی کیونکہ اُس وقت خدا نے سچائی کو پوری طرح سے آشکارا نہیں کِیا تھا۔‏ (‏دانی‌ایل ۱۲:‏۴‏)‏ وہ سخت مخالفت کے باوجود بھی سکڑے راستے کو تلاش کرنے کے خواہشمند تھے۔‏ اِس لئے یہ لوگ آج کے مسیحیوں کے لئے ایک عمدہ نمونہ ہیں۔‏

‏[‏صفحہ ۱۲ پر عبارت]‏

سن ۱۵۰۰ تا ۱۵۱۰ تک چیک ریپبلک میں ۶۰ کتابیں چھاپی گئیں۔‏ غالباً اِن میں سے ۵۰ کتابیں متحد برادری کے ارکان نے لکھی تھیں۔‏

‏[‏صفحہ ۱۱ پر بکس]‏

‏”‏اکثریتی جماعت“‏ کیساتھ کیا واقع ہوا؟‏

”‏اکثریتی جماعت“‏ کا کیا انجام ہوا؟‏ ”‏اقلیتی جماعت“‏ کے ختم ہو جانے کے باوجود ”‏اکثریتی جماعت“‏ قائم رہی اور متحد برادری کے نام سے مشہور ہو گئی۔‏ بالآخر اُنہوں نے اپنی تعلیمات میں ردّوبدل کِیا۔‏ سن ۱۶۰۰ سے کچھ عرصہ پہلے متحد برادری ایک لوتھرن جماعت کیساتھ شامل ہو گئی۔‏ * اُنہوں نے بائبل کا ترجمہ کرنے کے علاوہ مذہبی کتابیں بھی شائع کیں۔‏ اِن کتابوں میں سے کچھ کی جِلد پر خدا کا نام عبرانی حروف میں درج ہے۔‏

سن ۱۶۲۰ میں،‏ چیک کے لوگوں کو زبردستی کیتھولک بنایا گیا تھا۔‏ اِس وجہ سے متحد برادری کے بہت سے ارکان چیک کو چھوڑ کر دوسرے ملکوں میں جا کر رہنے لگے جہاں وہ اپنی تعلیمات پر قائم رہے۔‏ اِسکے بعد وہ موراوین چرچ کے نام سے مشہور ہو گئے (‏موراویہ چیک کا ایک صوبہ ہے)‏ جو آج تک موجود ہے۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 24 اِس جماعت میں پاک‌شراکت کے دوران روٹی کیساتھ مے بھی دی جاتی تھی جبکہ کیتھولک چرچ میں صرف روٹی دینے کا رواج ہے۔‏

‏[‏صفحہ ۱۳ پر بکس]‏

‏”‏اقلیتی جماعت“‏ کی تعلیمات

مندرجہ‌ذیل بیانات متحد برادری کی تعلیمات کا مجموعہ کی کتابوں سے لئے گئے ہیں۔‏ اِن سے پتہ چلتا ہے کہ ”‏اقلیتی جماعت“‏ کیا ایمان رکھتی تھی۔‏ یہ بیانات ”‏اقلیتی جماعت“‏ کے راہنماؤں نے ”‏اکثریتی جماعت“‏ سے مخاطب ہو کر لکھے تھے۔‏

تثلیث:‏ ‏”‏اگر تُم پوری بائبل میں بھی دیکھو تو تمہیں کہیں اِس بات کا ثبوت نہیں ملیگا کہ خدا تثلیث کا حصہ ہے۔‏ یہ لوگوں کا خودساختہ نظریہ ہے۔‏“‏

رُوح‌القدس:‏ ‏”‏یہ خدا کا ہاتھ اور ہمارے لئے خدا کی طرف سے ایک تحفہ ہے۔‏ یہ خدا کی قوت یا ایک مددگار ہے جو خدا اپنے بندوں کو یسوع کے فدیے کی بِنا پر بخشتا ہے۔‏ بائبل اور رسولوں کی تعلیمات کے مطابق رُوح‌القدس نہ تو کوئی شخص ہے اور نہ ہی ایک خدا ہے۔‏“‏

پادری طبقہ:‏ ‏”‏لوگ تمہیں ’‏پادری‘‏ کا لقب دیتے ہیں۔‏ لیکن آرائش‌وزیبائش کے بغیر تُم میں اور عام انسان میں کوئی فرق نہ رہتا۔‏ پطرس رسول نے تمام مسیحیوں کو کاہن کہا ہے۔‏ وہ کہتا ہے:‏ تُم کاہنوں کا مُقدس فرقہ ہو جو روحانی قربانیاں چڑھاتا ہے۔‏ (‏۱-‏پطرس ۲ باب)‏ “‏

بپتسمہ:‏ ‏”‏خداوند یسوع نے اپنے رسولوں کو کہا:‏ تُم تمام دُنیا میں جا کر تمام انسانیت کے سامنے انجیل کی منادی کرو تاکہ وہ ایمان لائیں۔‏ (‏مرقس ۱۶ باب)‏ اِسکے بعد ہی یسوع نے کہا:‏ اُنکو بپتسمہ دو تاکہ وہ نجات پا سکیں۔‏ لیکن تُم تو چھوٹے بچوں کو بپتسمہ دیتے ہو جو ایمان لانے کے قابل نہیں ہیں۔‏“‏

غیرجانبداری:‏ ‏”‏شروع میں تمہارے بھائی فوج میں بھرتی ہونے،‏ قتل کرنے اور مسلح ہونے سے انکار کِیا کرتے تھے۔‏ لیکن تُم یہ تمام کام کرتے ہو۔‏ .‏ .‏ .‏ ہمارے خیال میں نہ تمہارے اُستاد اور نہ ہی تُم صحیفوں کو صحیح طرح سے سمجھتے ہو جن میں لکھا ہے:‏ اُس نے برقِ‌کمان کو اور ڈھال اور تلوار اور سامانِ‌جنگ کو توڑ ڈالا۔‏ (‏زبور ۷۵‏)‏ اِسکے علاوہ صحیفوں میں یہ بھی لکھا ہے:‏ وہ میرے تمام کوہِ‌مُقدس پر نہ ضرر پہنچائینگے نہ ہلاک کرینگے کیونکہ زمین خداوند کے عرفان سے معمور ہوگی۔‏ (‏یسعیاہ ۱۱ باب)‏ ۔‏“‏

منادی:‏ ‏”‏ہمیں معلوم ہے کہ شروع میں عورتیں بھی منادی کے کام میں حصہ لیا کرتی تھیں اور وہ اِس کام میں پادریوں اور بشپوں سے زیادہ کامیاب تھیں۔‏ لیکن اب پادری اپنے چرچ میں بیٹھ کر لوگوں کا انتظار کرتے ہیں۔‏ یہ کتنی احمقانہ بات ہے!‏ تمہیں تمام دُنیا میں جا کر منادی کرنی چاہئے۔‏“‏

‏[‏صفحہ ۱۰ پر نقشے]‏

‏(‏تصویر کے لئے چھپے ہوئے صفحے کو دیکھیں)‏

جرمنی

پولینڈ

چیک ریپبلک

بوہی‌میا

دریائےاِلب

پراگ

دریائےوِٹاوا

کلاٹووی

چل‌سکی

کُن‌والڈ

ویلیموف

موراویہ

دریائےدانوب

‏[‏صفحہ ۱۱ پر تصویر]‏

بائیں طرف:‏ پیٹر چل‌سکی؛‏ نیچے:‏ ”‏سچے ایمان کا نظام“‏ کا ایک صفحہ

‏[‏صفحہ ۱۱ پر تصویر]‏

پراگ کا گریگری

‏[‏صفحہ ۱۳ پر تصویر کا حوالہ]‏

‏:All images

S laskavým svolením knihovny

Národního muzea v Praze, C̆esko