کیا آپ حسِتجسّس کو فروغ دیتے ہیں؟
کیا آپ حسِتجسّس کو فروغ دیتے ہیں؟
کیا آپ نے غور کِیا ہے کہ بائبل لکھنے والے بارہا خدا کے کاموں اور اوصاف کے سلسلے میں حیرت کا اظہار کرتے ہیں؟ زبورنویس کہتا ہے، ”مَیں عجیبوغریب طور سے بنا ہوں۔“ (زبور ۱۳۹:۱۴) یسعیاہ نبی نے لکھا، ” تُو میرا خدا ہے۔ مَیں تیری تمجید کرونگا۔ تیرے نام کی ستایش کرونگا کیونکہ تُو نے عجیب کام کئے ہیں۔“ (یسعیاہ ۲۵:۱) پولس رسول نے جس حیرت کا اظہار کِیا اُس پر غور کریں: ”واہ! خدا کی دولت اور حکمت اور علم کیا ہی عمیق ہے!“—رومیوں ۱۱:۳۳۔
دی آکسفورڈ انسائیکلوپیڈیا انگلش ڈکشنری ”حیرت“ کی تشریح ”ایک غیرمتوقع، غیرمعروف، یا ناقابلِتشریح جذبے کے طور پر کرتی ہے جس میں بالخصوص حیرت، تجسّس اور تعریف کا عنصر پایا جاتا ہے۔“
ہم چھوٹے بچوں کو بڑی حیرت سے نئی باتوں کو سنتے اور مشاہدہ کرتے دیکھتے ہیں تو کیا اُنکے تجسّس کو دیکھکر ہمیں خوشی نہیں ہوتی؟ تاہم افسوس کی بات ہے کہ تجسّس یا جدت پر مبنی حیرت کا احساس وقت گزرنے کیساتھ اکثر ماند پڑ جاتا ہے
تاہم، جن بائبل لکھنے والوں کا اُوپر ذکر کِیا گیا ہے، اُنکے سلسلے میں حیرت کا احساس گہرا ہوتا گیا تھا۔ یہ پائیدار تھا۔ مگر کیوں؟ اُنہوں نے قدردانی کیساتھ خدا کی دستکاری پر غور کرنے سے اپنی حیرت کے احساس کو مزید بڑھایا تھا۔ زبورنویس نے دُعا کی: ”مَیں گذشتہ زمانوں کو یاد کرتا ہوں۔ مَیں تیرے سب کاموں پر غور کرتا ہوں اور تیری دستکاری پر دھیان کرتا ہوں۔“—زبور ۱۴۳:۵۔
یہ کتنی اچھی بات ہے کہ حیرت کا یہ احساس خدا کے جدید زمانہ کے پرستاروں میں پایا جاتا ہے! کیا آپکے اندر یہ احساس موجود ہے؟ کیا آپ اسے بڑھا رہے ہیں؟