جنگ کی صورت بدل گئی ہے
جنگ کی صورت بدل گئی ہے
جنگ نے ہمیشہ ظلم برپا کِیا ہے۔ یہ ہمیشہ فوجیوں کی ہلاکت اور شہریوں کیلئے مشکلات پر منتج ہوئی ہے۔ مگر حالیہ سالوں میں جنگ نے صورت بدل لی ہے۔ کسطرح؟
فیزمانہ جنگیں عموماً ایک ہی مُلک میں رہنے والے شہریوں کے مختلف گروہوں پر مبنی خانہجنگی پر مشتمل ہیں۔ علاوہازیں، خانہجنگی اکثر دیرپا اور لوگوں کے زیادہ نقصان کا باعث ہوتی ہے اور اتنا نقصان مختلف ملکوں کے مابین جنگ میں نہیں ہوتا جتنا خانہجنگی میں ہوتا ہے۔ ہسپانوی مؤرخ ہولیان کاسانوا بیان کرتا ہے، ”خانہجنگی بڑی ظالم چیز ہے، یہ ایسی خونین ہے کہ ہزاروں اموات، جنسی حملوں، جبراً جلاوطنی اور بیشتر صورتوں میں نسلکُشی پر منتج ہوتی ہے“۔ واقعی، جب ایک ہی جگہ رہنے والے لوگ ایک دوسرے پر ظلم کریں تو شاید زخم بھرنے میں صدیاں بیت جائیں۔
جب سے سرد جنگ ختم ہوئی ہے اُس وقت سے قومی افواج کے مابین نسبتاً کم جنگیں لڑی گئی ہیں۔ سٹاکہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ (ایسآئیپیآرآئی) کی رپورٹ کے مطابق ”۱۹۹۰ سے ۲۰۰۰ تک درج لڑائیوں میں سے تقریباً تین مسلح جنگیں اندرونی تھیں۔“
ہو سکتا ہے کہ اندرونی لڑائیاں کم خطرناک دکھائی دیں اور انٹرنیشنل میڈیا شاید بڑی حد تک اسے نظرانداز کر دے، مگر ایسی رقابیتیں جو تکلیف اور ہلاکت برپا کرتی ہیں بہت ہی تباہکُن ہوتی ہیں۔ اندرونی لڑائیوں میں بھی لاکھوں لوگ مارے جا چکے ہیں۔ درحقیقت، گزشتہ دو دہوں کے دوران، جنگ سے متاثرہ تین ممالک—افغانستان، ڈیموکریٹک ریپبلک آف کانگو اور سوڈان—میں تقریباً پانچ ملین جانیں ضائع ہوئی ہیں۔ بلقانی ریاستوں میں، شدید نسلی جھگڑوں نے ۰۰۰،۵۰،۲ لوگوں کی جانیں لی ہیں اور کولمبیا کی طویل گوریلا جنگ نے ۰۰۰،۰۰،۱ کو ہلاک کِیا ہے۔
خانہجنگی نے سب سے زیادہ بچوں کو متاثر کِیا ہے۔ یونائیٹڈ نیشنز ہائی کمشنر فار رفیوجیز کے مطابق، گزشتہ دہے کے دوران، دو ملین سے زیادہ بچے خانگی جھگڑوں کا نشانہ بنے ہیں۔ دیگر چھ ملین زخمی ہوئے ہیں۔ بچوں کی بڑی تعداد کو فوج میں بھرتی کر لیا گیا ہے۔ ایک کمسن فوجی کہتا ہے: ”اُنہوں نے مجھے تربیت دیکر میرے ہاتھ میں بندوق تھما دی۔ مَیں نشہ کرنے لگا اور مَیں نے بیشمار شہریوں کو قتل کِیا۔ یہ تو بس جنگ تھی . . . مجھے حکم ماننا ہوتا تھا۔ مَیں جانتا تھا کہ یہ اچھا نہیں اور نہ ہی مَیں ایسا کرنا چاہتا تھا۔“
جن ممالک میں خانہجنگی روز کا معمول بن گئی ہے وہاں بہتیرے بچوں کو پتہ ہی نہیں کہ امن کا مطلب کیا ہے۔ وہ ایسی دُنیا میں رہتے ہیں جہاں سکول تباہ ہو چکے ہیں اور جہاں باتچیت بندوق کی گولی کے ذریعے ہوتی ہے۔ چودہ سالہ ڈنجا کہتی ہے: ”اتنے زیادہ لوگ مارے جا چکے ہیں کہ اب آپکو پرندوں کے گانے کی آواز نہیں بلکہ مرنے والے باپ بھائی ماں یا بہن کیلئے رونے والے بچوں کی آواز سنائی دیگی۔“
اسباب کیا ہیں؟
کیا چیز ایسی ظالم خانہجنگی کو ہوا دیتی ہے؟ نسلی اور قبائلی نفرت، مذہبی تفریق، ناانصافی اور سیاسی بحران اسکے اہم اسباب ہیں۔ ایک دوسری بنیادی وجہ لالچ ہے—جیہاں، طاقت اور پیسے کا لالچ۔ لالچ سے تحریک پاکر اکثر سیاسی راہنما ایسی نفرت کو ہوا دیتے ہیں جو لڑائی کا باعث بنتی ہے۔ ایسآئیپیآرآئی کی شائعکردہ ایک رپورٹ بیان کرتی ہے کہ مسلح لڑائیوں میں شریک ہونے والے بیشتر لوگ ”ذاتی نفع سے تحریک پاتے ہیں۔“ رپورٹ مزید بیان کرتی ہے: ”لالچ مختلف طرح سے ظاہر ہوتا ہے جس میں فوجی اور سیاسی راہنماؤں کے بڑے پیمانے پر ہیروں کے کاروبار سے لیکر گاؤں کی سطح تک نوجوانوں کے بندوق کے زور پر لوٹمار کرنا شامل ہے۔“
سستے مگر مُہلک ہتھیاروں کی دستیابی اس تباہی میں مزید اضافہ کرتی ہے۔ خاص طور پر عورتوں اور بچوں کی تقریباً ۰۰۰،۰۰،۵ سالانہ اموات کو ان چھوٹے ہتھیاروں سے منسوب کِیا جاتا ہے۔ ایک افریقی مُلک میں، اےکے-۴۷ رائفل ایک مرغی کی قیمت کے عوض خریدی جا سکتی ہے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بعض جگہوں پر رائفل اتنی زیادہ دستیاب ہیں جیسےکہ پالتو پرندے۔ دُنیابھر میں اندازاً ۵۰۰ ملین چھوٹے ہتھیار ہر ۱۲ اشخاص کیلئے ایک کے حساب سے دستیاب ہیں۔
کیا یہ خانہجنگیاں اس ۲۱ ویں صدی کا خاصہ بن جائینگی؟ کیا خانہجنگیوں پر قابو پایا جا سکتا ہے؟ کیا ایسا وقت آئیگا جب لوگ قتلوغارت بند کر دینگے؟ اگلا مضمون ان سوالات کے جواب دیگا۔
[صفحہ ۴ پر بکس]
خانہجنگیوں کا المناک نقصان
شدید خانہجنگیوں میں، زخمی ہونے والوں کا ۹۰ فیصد فوجیوں کی بجائے عوام ہوتے ہیں۔ اقوامِمتحدہ کے سیکرٹری جنرل اور بچوں پر مسلح لڑائیوں کے اثرات کا ماہر گراکا میکل بیان کرتا ہے کہ ”یہ بالکل واضح ہے کہ مسلح لڑائیوں میں بچے حادثاتی طور پر زخمی ہونے کی بجائے نشانہ بنائے جاتے ہیں۔“
زنابالجبر ایک سوچیسمجھی عسکری حکمتِعملی بن گیا ہے۔ جنگ سے متاثرہ بعض علاقوں میں، سرکش لوگ گاؤں کی ہر بالغ لڑکی کو اپنی ہوس کا نشانہ بناتے ہیں۔ انکا مقصد دہشت پھیلانا یا نسلی رقابت رکھنے والوں کے مابین خاندانی رشتوں کو نقصان پہنچانا ہوتا ہے۔
جنگ کے باعث خوراک کی کمی اور بیماری میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔ خانہجنگی کا مطلب ہے کہ بہت کم فصل کی کاشت ہوگی، بہت کم طبّی سہولیات فراہم کی جائینگی اور بہت ہی کم بینالاقوامی امداد حاجتمندوں تک پہنچائی جائیگی۔ افریقی خانہجنگی کے ایک سروے نے آشکارا کِیا کہ زخمی ہونے والوں میں سے ۲۰ فیصد لوگ بیماری کی وجہ سے اور ۷۸ فیصد بھوک سے مر گئے۔ صرف ۲ فیصد لوگ لڑائی کی وجہ سے مارے گئے۔
اوسطاً ہر ۲۲ منٹ میں کوئی نہ کوئی شخص بارودی سرنگوں کی وجہ سے معذوری کا شکار ہوتا یا جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ۶۰ سے زیادہ ممالک کے اندر ۶۰ سے ۷۰ ملین بارودی سرنگیں بچھی ہوئی ہیں۔
لوگوں کو گھروں سے بھاگنے پر مجبور کِیا جاتا ہے۔ دُنیابھر میں اس وقت ۵۰ ملین پناہگزین اور بےگھر لوگ ہیں جن میں سے نصف تعداد بچوں کی ہے۔
[صفحہ ۲ پر تصویر کا حوالہ]
COVER: Boy: Photo by Chris Hondros/Getty Images
[صفحہ ۳ پر تصویر کا حوالہ]
Photo by Chris Hondros/Getty Images