مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

مشنری جذبہ قائم رکھنے کی بیشمار برکات

مشنری جذبہ قائم رکھنے کی بیشمار برکات

میری کہانی میری زبانی

مشنری جذبہ قائم رکھنے کی بیشمار برکات

از ٹام کُک

بندوق کی گولی کی آواز نے اچانک دوپہر کی خاموشی کو توڑ دیا۔‏ گولیاں زَن سے ہمارے باغ کے درختوں میں سے گزرنے لگیں۔‏ یہ سب کیا ہو رہا تھا؟‏ جلد ہی ہمیں پتہ چل گیا کہ انقلاب آیا ہے اور اب یوگینڈا جرنل ایدی امین کے زیرِکمان آ گیا ہے۔‏ یہ ۱۹۷۱ کا واقع ہے۔‏

مَیں اور میری بیوی این انگلینڈ کے نسبتی پُرسکون ماحول کو چھوڑ کر افریقہ کے اس خطے میں کیوں آ بسے تھے؟‏ میرا خیال ہے کہ مَیں کچھ مہم‌جُو واقع ہوا ہوں مگر یہ بنیادی طور پر میرے والدین کا بادشاہتی خدمت کیلئے سرگرم نمونہ تھا جس نے میرے اندر مشنری جذبے کو فروغ دیا تھا۔‏

مجھے آج بھی اگست ۱۹۴۶ کا وہ گرم دن یاد ہے جب میرے والدین کی یہوواہ کے گواہوں سے ملاقات ہوئی تھی۔‏ وہ دروازے پر کھڑے کافی دیر تک دو ملاقاتیوں سے گفتگو کرتے رہے۔‏ یہ ملاقاتی جنکے نام فریسر بریڈبری اور مامی شرویو تھے جو کئی مرتبہ واپس بھی آئے اور پھر آنے والے مہینوں کے دوران ہمارا خاندان ڈرامائی طور پر بالکل بدل گیا۔‏

میرے والدین کا دلیرانہ نمونہ

میرے والدین علاقے کی بہت سی سرگرمیوں میں پیش‌پیش رہتے تھے۔‏ مثال کے طور پر،‏ بائبل کا مطالعہ شروع کرنے سے کچھ ہی عرصہ پہلے،‏ ہمارا گھر ونسٹن چرچل کے پوسٹروں سے بھرا ہوا تھا۔‏ جنگ کے بعد ہونے والے انتخابات میں ہمارا گھر مقامی کنزرویٹو پارٹی کا کمیٹی سینٹر تھا۔‏ ہمارے خاندان کے مذہبی اور معاشرتی تعلقات بھی بہت زیادہ تھے۔‏ اگرچہ اُس وقت میری عمر صرف نو سال تھی توبھی مَیں اپنے رشتہ‌داروں کے درمیان اُس حیرت کو محسوس کر سکتا تھا جو اُنہیں ہمارے یہوواہ کے گواہ بننے پر تھی۔‏

جن گواہوں کیساتھ وہ رفاقت رکھتے تھے اُنکے دلیرانہ نمونے نے میرے والدین کو منادی کے کام میں سرگرم رہنے کی تحریک دی۔‏ جلد ہی میرے والد ایمپلی‌فائر کے ذریعے،‏ ہمارے آبائی گاؤں سپوڈن کے بڑے بڑے بازاروں میں تقاریر پیش کر رہے تھے اور ہم بچے مینارِنگہبانی اور جاگو!‏ رسالے تھامے کھڑے رہتے تھے۔‏ مجھے ماننا پڑیگا کہ جب میرے سکول کے ساتھی قریب آتے تو مَیں کہتا کاش زمین اپنا مُنہ کھول کر مجھے نگل جائے۔‏

میرے والدین کے نمونے نے میری بڑی بہن ڈیفنی کو پائنیر خدمت شروع کرنے کی تحریک دی۔‏ اس نے ۱۹۵۵ میں،‏ واچ ٹاور بائبل سکول آف گلئیڈ سے کورس کِیا اور اُسے مشنری کے طور پر جاپان بھیج دیا گیا۔‏ * تاہم،‏ میری چھوٹی بہن زوئی نے یہوواہ کی خدمت کرنا چھوڑ دی۔‏

اسی دوران مَیں نے تصاویر اور گرافک آرٹس میں اپنی تعلیم مکمل کر لی۔‏ اُن دنوں میرے سکول کے ساتھیوں کے درمیان فوج میں جبراً بھرتی کی گرماگرم خبر گردش کر رہی تھی۔‏ جب مَیں نے اُنہیں بتایا کہ مَیں اسکا حامی نہیں تو وہ اسے مذاق سمجھے۔‏ اس مسئلے نے مجھے بعض طالبعلموں کیساتھ بائبل مباحثوں کا موقع فراہم کر دیا۔‏ جلد ہی مجھے فوجی خدمت سے انکار کرنے پر ۱۲ مہینوں کیلئے قید کر دیا گیا۔‏ آرٹ کالج کی ایک طالبہ جس نے بائبل کے پیغام میں دلچسپی ظاہر کی تھی بعدازاں اُسی سے میری شادی ہو گئی۔‏ لیکن این سے سنیں کہ اُس نے سچائی کیسے سیکھی۔‏

این کا سچائی سے واقف ہونا

‏”‏میرا خاندان مذہبی نہیں تھا اور نہ ہی میرا کسی مذہب میں بپتسمہ ہوا تھا۔‏ مگر مجھے مذہب کی بابت بڑا تجسّس تھا اور جس چرچ میں بھی میری دوست جاتی تھیں مَیں اُن کیساتھ چلی جاتی تھی۔‏ مگر بائبل میں میری دلچسپی اُس وقت بڑھی جب مَیں نے ٹام اور دیگر گواہوں کو کالج کے دیگر طالبعلموں کیساتھ گفتگو کرتے سنا۔‏ جب ٹام اور دیگر گواہوں کو فوجی خدمت میں حصہ نہ لینےکی وجہ سے قید کر دیا گیا تو مجھے بڑی حیرت ہوئی۔‏

‏”‏جب ٹام قید میں تھا تو مَیں نے وہاں بھی اُسکے ساتھ خط‌وکتابت رکھی اور یوں بائبل میں میری دلچسپی روزبروز بڑھتی گئی۔‏ جب مَیں اپنی تعلیم مکمل کرنے کیلئے لندن منتقل ہوئی تو مَیں نے موریل البرچٹ کیساتھ بائبل مطالعہ شروع کر دیا۔‏ موریل استونیا میں مشنری خدمت انجام دے چکی تھی اور وہ اور اُسکی والدہ دونوں میرے لئے حوصلہ‌افزائی کا باعث تھیں۔‏ چند ہفتوں ہی میں مَیں اجلاسوں پر باقاعدہ حاضر ہونے لگی اور مینارِنگہبانی اور جاگو!‏ رسالے تھام کر وکٹوریا سٹیشن کے باہر کھڑی ہوتی تھی۔‏

‏”‏مَیں جنوبی لندن میں ساؤتھ‌وارک کلیسیا میں جایا کرتی تھی۔‏ یہ مختلف قومیت کے روحانی بہن بھائیوں پر مشتمل تھی جن میں سے بہتیرے بمشکل گزارا کرتے تھے۔‏ اگرچہ مَیں اجنبی تھی توبھی اُنہوں نے میرے ساتھ اپنوں جیسا برتاؤ کِیا۔‏ یہ اُس کلیسیا کی محبت ہی تھی جس نے حقیقت میں مجھے قائل کِیا تھا کہ سچائی یہی ہے اور یوں مَیں نے ۱۹۶۰ میں بپتسمہ لیا۔‏“‏

نصب‌اُلعین ایک مگر حالات مختلف

بعدازاں ۱۹۶۰ میں،‏ میری اور این کی شادی ہو گئی اور ہمارا نصب‌اُلعین مشنری خدمت شروع کرنا تھا۔‏ لیکن جب ہمیں پتہ چلا کہ این حاملہ ہے تو صورتحال مختلف ہو گئی۔‏ ہماری بیٹی سارا کی پیدائش کے بعد بھی این اور میری خواہش تھی کہ ہم ایسے مُلک میں جا کر کام کریں جہاں بادشاہتی پبلشروں کی زیادہ ضرورت ہے۔‏ مَیں نے مختلف ممالک میں ملازمت کی درخواست دی اور آخرکار مجھے ۱۹۶۶ میں یوگینڈا کی منسٹری آف ایجوکیشن کی طرف سے خط موصول ہوا کہ وہاں میرے لئے ملازمت ہے۔‏ تاہم،‏ اُس وقت این دوبارہ ماں بننے والی تھی۔‏ بعض کو ہمارے وہاں سے جانے پر اختلاف تھا۔‏ ہم نے اپنے ڈاکٹر سے مشورہ کِیا تو اُس نے کہا:‏ ”‏اگر آپ نے جانا ہی ہے تو این کے سات ماہ ہونے سے پہلے پہلے چلے جائیں۔‏“‏ پس ہم فوراً یوگینڈا روانہ ہو گئے۔‏ نتیجتاً ہمارے والدین نے ہماری دوسری بیٹی راخل کو اُس وقت دیکھا جب وہ دو سال کی تھی۔‏ اب خود نانا نانی بننے پر ہمیں اپنے والدین کے خودایثارانہ جذبے کا احساس ہوا ہے۔‏

سن ۱۹۶۶ میں یوگینڈا پہنچنا خوشی اور حوصلہ‌شکنی دونوں کا باعث تھا۔‏ جہاز سے باہر قدم رکھنے کیساتھ ہی ہم فوراً بہت شوخ رنگوں سے متاثر ہوئے تھے۔‏ ہمارا پہلا گھر ایگانگا کے چھوٹے قصبے کے قریب دریائےنیل کے کنارے واقع جنجا سے صرف ۳۰ میل کے فاصلے پر تھا۔‏ ہمارے قریب‌ترین گواہ جنجا کا ایک چھوٹا گروپ تھا۔‏ گلبرٹ اور جواین والٹرز اور سٹیون اور باربرا ہارڈی اس گروپ کے نگران تھے۔‏ مَیں نے جنجا میں ملازمت کے سلسلے میں ٹرانسفر کیلئے درخواست دی تاکہ ہم بہتر طور پر گروپ کی مدد کر سکیں۔‏ راخل کی پیدائش کے کچھ ہی عرصہ بعد ہم جنجا منتقل ہو گئے۔‏ وہاں ہمیں وفادار گواہوں کے ایک چھوٹے گروپ کیساتھ کام کرنے کا شرف حاصل ہوا جو بعد میں یوگینڈا میں دوسرے نمبر کی بڑی کلیسیا بن گیا۔‏

پردیس میں خاندان کے طور پر خدمت کرنا

این اور مَیں محسوس کرتے ہیں کہ بچوں کی پرورش کیلئے ہمیں اس سے بہتر ماحول نہیں مل سکتا تھا۔‏ ہمیں مختلف ممالک سے آنے والے مشنریوں کیساتھ کام کرنے اور روزافزوں ترقی کرنے والی کلیسیا کی مدد کرنے کا شرف حاصل تھا۔‏ ہم اپنے یوگینڈا کے بہن بھائیوں کی رفاقت سے بہت خوش تھے جو اکثر ہمارے پاس آتے رہتے تھے۔‏ سٹینلے اور ایسن لا ماکومبا ہمارے لئے خاص حوصلہ‌افزائی کا باعث تھے۔‏

لیکن ہمارے ملاقاتیوں میں بھائیوں کے علاوہ ہمارے اردگرد مختلف جنگلی جانور بھی تھے۔‏ رات کے وقت دریائےنیل سے گیندے باہر نکل کر ہمارے گھر تک آ جاتے تھے۔‏ مجھے آج بھی اچھی طرح یاد ہے کہ ایک مرتبہ ۱۸ فٹ لمبا اژدہا ہمارے باغ میں تھا۔‏ بعض اوقات جنگلی جانوروں سے لطف‌اندوز ہونے کیلئے ہم ایسے پارکس میں جاتے تھے جہاں شیر اور دیگر جنگلی جانور آزاد گھومتے ہیں۔‏

خدمتگزاری میں بھی ہم مقامی لوگوں کیلئے ایک عجوبہ تھے کیونکہ اُنہوں نے بچہ گاڑی پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔‏ جب ہم گھرباگھر جاتے تو ہمارے پیچھے چھوٹے بچوں کا ایک ہجوم ہوتا تھا۔‏ لوگ ہمیں بڑے احترام سے دیکھتے اور پھر سفید رنگ کے بچے کو پیار کرکے پاس سے گزر جاتے تھے۔‏ گواہی دینے کا کام انتہائی خوش‌کُن تھا کیونکہ لوگ بہت خوش‌اخلاق تھے۔‏ ہمارا خیال تھا کہ سب لوگ سچائی میں آ جائینگے کیونکہ یہاں بائبل مطالعے شروع کرنا بہت آسان تھا۔‏ تاہم،‏ بیشتر کیلئے غیرصحیفائی روایات کو چھوڑنا مشکل تھا۔‏ بہرصورت کافی لوگوں نے بائبل کے اعلیٰ اخلاقی معیاروں کو اپنا لیا اور کلیسیا کی تعداد میں اضافہ ہوا۔‏ سن ۱۹۶۸ میں جنجا میں ہماری پہلی سرکٹ اسمبلی ایک بڑی کامیابی تھی۔‏ بائبل مطالعہ کرنے اور دریائےنیل پر بپتسمہ پانے والوں کی یادیں بھی بہت عزیز ہیں۔‏ مگر جلد ہی ہمارا سکون برباد ہونے والا تھا۔‏

پابندی—‏ایمان اور ذہانت کا امتحان

سن ۱۹۷۱ میں جرنل ایدی امین اقتدار میں آ گیا۔‏ جنجا میں بہت زیادہ ابتری پیدا ہو گئی اور یہ اُس وقت کی بات ہے جب ہم اپنے باغ میں بیٹھے چائے پی رہے تھے کہ وہ سب کچھ واقع ہوا جسکا شروع میں ذکر کِیا گیا ہے۔‏ اگلے دو سال کے دوران،‏ ایشیا سے تعلق رکھنے والے بہت زیادہ لوگوں کو نکال دیا گیا۔‏ زیادہ‌تر غیرملکی چلے گئے اور سکول اور طبّی سہولیات کو بہت نقصان پہنچا۔‏ اسکے بعد یہوواہ کے گواہوں کے کام پر پابندی کا اعلان کر دیا گیا۔‏ ہمارے تحفظ کے پیشِ‌نظر محکمے نے ہمیں دارلحکومت کمپالا منتقل کر دیا۔‏ یہ منتقلی دو طرح سے فائدہ‌مند تھی۔‏ کمپالا میں زیادہ لوگ ہمیں نہیں جانتے تھے لہٰذا ہم آزادی سے حرکت کر سکتے تھے۔‏ نیز کلیسیا اور میدانی خدمتگزاری میں کرنے کیلئے کام بھی بہت زیادہ تھا۔‏

برائن اور میرین والس اور اُنکے دو بچے ہماری جیسی صورتحال سے دوچار تھے لہٰذا اُنہوں نے بھی یوگینڈا ہی میں رہنے کا فیصلہ کِیا۔‏ اس مشکل وقت کے دوران ہم اُنکی رفاقت سے بہت خوش تھے کیونکہ ہم دونوں جوڑے کمپالا کی کلیسیا میں اکٹھے کام کر رہے تھے۔‏ دیگر ممالک میں پابندی کے تحت کام کرنے والے ہمارے بھائیوں کے تجربات اب ہمارے لئے خاص حوصلہ‌افزائی کا باعث تھے۔‏ ہم چھوٹے گروپوں میں ملتے تھے اور مہینے میں ایک بار ہم این‌ٹی‌بی بوٹینیکل گارڈنز میں پارٹی کے رنگ میں اپنا بڑا اجتماع کرتے تھے۔‏ ہماری بیٹیوں کو یہ تجویز بڑی پسند تھی۔‏

ہمیں اپنی منادی کے کام میں بھی خاص احتیاط برتنی پڑتی تھی۔‏ سفید لوگوں کا یوگینڈا کے باشندوں کے گھروں میں جانا خاصا مشکوک تھا۔‏ پس دوکانیں،‏ اپارٹمنٹس اور بعض تعلیمی ادارے ہمارا منادی کا علاقہ بن گئے۔‏ دوکانوں پر مَیں جو طریقے استعمال کرتا اُن میں سے ایک یہ تھا کہ مَیں کوئی ایسی چیز مانگتا جو مجھے پتہ تھا کہ دستیاب نہیں ہوگی جیسےکہ چینی یا چاول۔‏ اگر دوکاندار ملک کے حالات پر افسوس کا اظہار کرتا تو مَیں بادشاہتی پیغام دیتا تھا۔‏ یہ رسائی اکثر بڑی کامیاب ثابت ہوئی۔‏ کبھی‌کبھار تو نہ صرف میری واپسی ملاقات بن جاتی بلکہ وہ مجھے کچھ سوداسلف بھی دے دیتے۔‏

اسی دوران،‏ ہمارے چاروں طرف تشدد بڑھ رہا تھا۔‏ یوگینڈا اور برطانیہ کے تعلقات مزید خراب ہو جانے سے حکومت نے میرے کنٹریکٹ کی دوبارہ تجدید نہ کی۔‏ پس ۱۹۷۴ میں،‏ آٹھ سال یوگینڈا میں رہنے کے بعد،‏ ہمیں اپنے بھائیوں کو خدا حافظ کہنا پڑا۔‏ تاہم،‏ ہمارا مشنری جذبہ ماند نہ پڑا۔‏

نیو گنی روانگی

جنوری ۱۹۷۵ میں ہمیں پاپوآ نیو گنی میں کام کرنے کا موقع ملا۔‏ یوں بحراُلکاہل کے اس خطے میں ہماری آٹھ سالہ خدمت کے اچھے دور کا آغاز ہوا۔‏ بھائیوں کیساتھ اور خدمتگزاری میں ہماری مصروفیت بااجر ثابت ہوئی۔‏

ہمارا خاندان پاپوآ نیو گنی میں اپنے قیام کو بائبل ڈراموں کے دور کے طور پر یاد کرتا ہے۔‏ ہر سال ہم ڈسٹرکٹ کنونشن کیلئے ڈرامے تیار کرتے اور بڑا مزہ آتا تھا!‏ ہم بہت سے روحانی طور پر مضبوط خاندانوں کی رفاقت سے لطف اُٹھاتے تھے اور اسکا ہماری لڑکیوں پر بڑا مثبت اثر ہوا۔‏ ہماری بڑی بیٹی سارہ نے ایک سپیشل پائنیر،‏ رئے سمتھ سے شادی کر لی اور وہ اریئن جیا کی سرحد کے قریب خدمت انجام دیتے رہے۔‏ اُنکا گھر مقامی گاؤں میں گھاس‌پھونس کا ایک جھونپڑا تھا اور سارہ کا کہنا ہے کہ اس تفویض میں جو بھی وقت ہم نے گزارا وہ اُس کیلئے شاندار تربیت تھی۔‏

بدلتے حالات کیساتھ مطابقت پیدا کرنا

اب میرے والدین کو اضافی مدد کی ضرورت تھی۔‏ ہمیں واپس انگلینڈ بلانے کی بجائے،‏ میرے والدین ہمارے پاس آ کر رہنے کیلئے تیار ہو گئے اور ہم سب ۱۹۸۳ میں آسٹریلیا منتقل ہو گئے۔‏ اُنہوں نے کچھ وقت میری بہن ڈیفنی کے ساتھ بھی گزارا جو ابھی تک جاپان میں ہی تھی۔‏ میرے والدین کی وفات کے بعد،‏ مَیں نے اور این نے باقاعدہ پائنیر خدمت کرنے کا فیصلہ کِیا اور یہ میرے ایسا استحقاق حاصل کرنے کا باعث بنا جو خاصا حوصلہ‌شکن تھا۔‏

ابھی ہم نے پائنیر خدمت شروع ہی کی تھی کہ ہمیں سرکٹ کا کام کرنے کی دعوت دی گئی۔‏ بچپن سے مَیں سرکٹ اوورسئیر کے دورے کو ایک خاص موقع خیال کرتا تھا۔‏ اب یہ میری ذمہ‌داری تھی۔‏ سرکٹ کا کام ہماری زندگی میں انتہائی چیلنج‌خیز تفویض ثابت ہوا مگر یہوواہ بارہا ہماری ایسے طریقوں سے مدد کرتا رہا جسکا ہمیں تجربہ نہیں تھا۔‏

بھائی تھیوڈور جیرس کے آسٹریلیا کے زون وزٹ کے دوران ہم نے اُن سے پوچھا کہ وہ ہمیں سمندر پار خدمت کرنے کیلئے زیادہ عمررسیدہ تو خیال نہیں کرتے۔‏ اُنہوں نے کہا:‏ ”‏جزائر سلیمان کی بابت کیا ہے؟‏“‏ لہٰذا جب مَیں اور این ۵۰ کے دہے میں تھے تو ہم اپنی پہلی باضابطہ مشنری تفویض کیلئے روانہ ہوئے۔‏

‏”‏ہی پی آئلز“‏ میں خدمت کرنا

جزائر سلیمان ہی‌پی آئلز کے طور پر بھی مشہور ہیں اور گزشتہ دہائی سے ہماری یہاں خدمت واقعی خوشگوار رہی ہے۔‏ مَیں نے اور این نے جزائر سلیمان میں ڈسٹرکٹ اوورسیئر کے طور پر بہن‌بھائیوں کی مہربانیوں سے فائدہ اُٹھایا۔‏ ہمارے لئے دکھائی جانے والی مہمانوازی نے ہمارے دلوں کو چھوأ اور ہر ایک ہمارے جزائر سلیمان کی پی‌جن زبان میں بات کرنے کی کوششوں کو سراہتا تھا۔‏

ہمارے جرائز سلیمان پہنچنے کیساتھ ہی مخالفین نے اسمبلی ہال کے ہمارے استعمال میں مداخلت کرنے کی کوشش کی۔‏ اینگلیکن چرچ نے یہوواہ کے گواہوں پر الزام لگایا کہ ہونی‌ایرا میں ہمارا نیا اسمبلی ہال اُنکی زمین کی طرف بڑھا ہوا ہے۔‏ حکومت نے اُنکے دعویٰ کو زیادہ اہمیت دی لہٰذا ہم نے ہائی کورٹ میں اپیل دائر کر دی۔‏ اپیل کے نتیجے سے اس بات کا تعیّن ہونا تھا کہ آیا ہمارا ۱۲۰۰ سیٹوں پر مشتمل نیا اسمبلی ہال قائم رہیگا یا نہیں۔‏

کوئی ایک ہفتہ مقدمہ چلتا رہا۔‏ جب ہمارے خلاف مقدمہ پیش کِیا گیا تو مخالف کونسل کی طرف سے بڑے اعتماد کا اظہار ہو رہا تھا۔‏ پھر،‏ آہستہ آہستہ،‏ ہمارے وکیل نیوزی‌لینڈ سے بھائی وارن کیتھ‌کارٹ نے مخالف پارٹی کی طرف سے کئے گئے مقدمے کے ہر نکتے کو غلط ثابت کر دیا۔‏ جمعہ تک کورٹ کیس کی خبر ہر جگہ پھیل چکی تھی اور عدالت چرچ کے عہدیداروں،‏ سرکاری اہلکاروں او ہمارے مسیحی بھائیوں سے بھرا ہوا تھا۔‏ مجھے آج بھی کورٹ کے شیڈول نوٹس پر موجود غلطی یاد ہے۔‏ اُس پر لکھا تھا:‏ ‏”‏جزائر سلیمان کی حکومت اور چرچ آف میلانیزیا بمقابلہ یہوواہ۔‏“‏ بہرصورت جیت ہماری ہوئی۔‏

تاہم،‏ ہی‌پی آئلز پر زیادہ دیر تک سکون نہ رہ سکا۔‏ ایک بار پھر مَیں اور این فوجی دستے کی طرف سے تشدد کا نشانہ بنے۔‏ نسلی رقابت خانہ‌جنگی کا باعث بن گئی۔‏ جون ۲،‏ ۱۹۹۹ کو حکومت کا تختہ اُلٹ دیا گیا اور داراُلحکومت فوج کے قبضہ میں چلا گیا۔‏ چند ہفتوں تک ہمارا اسمبلی ہال بےگھر لوگوں کا مرکز بن گیا۔‏ حکمران یہ دیکھ کر حیران تھے کہ ہمارے مسیحی بھائی مخالف نسلی گروہ کیساتھ ایک پُرامن خاندان کے طور پر اسمبلی ہال میں رہ رہے تھے۔‏ یہ کتنی عمدہ گواہی ثابت ہوا!‏

فوجی بھی یہوواہ کے گواہوں کی غیرجانبداری کی قدر کرتے تھے۔‏ اس سے ہمیں کمانڈر کو اس بات پر اُکسانے میں مدد ملی کہ لٹریچر اور دیگر سامان کا ایک ٹرک مخالف فوج کی سرحد کے پار ہمارے بھائیوں کے ایک چھوٹے گروہ تک جانے دیں۔‏ جب یہ لوگ اتنا عرصہ ہمارے ساتھ رہنے کے بعد ہم سے جدا ہوئے تو شاید ہی کوئی آنکھ اشکبار نہ تھی۔‏

شکرگزار ہونے کیلئے بہت کچھ

جب ہم یہوواہ کی خدمت میں اپنی زندگی پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں شکرگزار ہونے کی بیشمار وجوہات ملتی ہیں۔‏ والدین کے طور پر ہمیں اپنی دونوں بیٹیوں اور اُنکے شوہروں رے اور جان کو وفاداری کیساتھ یہوواہ کی خدمت کرتے رہنے کا شرف حاصل ہوا ہے۔‏ وہ ہماری مشنری تفویض میں واقعی ہمارے لئے معاون ثابت ہوئی ہیں۔‏

گزشتہ ۱۲ سال سے مجھے اور این کو جزائر سلیمان کے برانچ دفتر میں خدمت کرنے کا موقع ملا ہے اور اس وقت کے دوران،‏ ہم نے جزائر سلیمان میں بادشاہتی منادوں کو دُگنا ہوتے اور ۱۸۰۰ کی تعداد کو پہنچتے دیکھا ہے۔‏ حال ہی میں مجھے پیٹرسن،‏ نیو یارک میں برانچ کمیٹی کے ممبران کے سکول میں حاضر ہونے کا موقع ملا ہے۔‏ واقعی مشنری جذبہ رکھنے کی وجہ سے ہمیں برکات سے بھرپور زندگی سے لطف اُٹھانے کا موقع حاصل ہوتا ہے۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 10 جنوری ۱۵،‏ ۱۹۷۷ کے دی واچ‌ٹاور کے شمارے میں ”‏ہم نے تاخیر نہ کی“‏ کے مضمون کو پڑھیں۔‏

‏[‏صفحہ ۲۳ پر تصویر]‏

سن ۱۹۶۰ میں اپنی شادی کے دن

‏[‏صفحہ ۲۴ پر تصویر]‏

یوگینڈا میں،‏ سٹینلے اور ایسن‌لا ماکومبا ہمارے خاندان کیلئے حوصلہ‌افزائی کا باعث رہے

‏[‏صفحہ ۲۴ پر تصویر]‏

سارا ایک پڑوسی کے جھونپڑے میں جاتے ہوئے

‏[‏صفحہ ۲۵ پر تصویر]‏

جزائر سلیمان کے لوگوں کو سکھانے کیلئے تصاویر بنانے نے میری بڑی مدد کی

‏[‏صفحہ ۲۵ پر تصویر]‏

جزائر سلیمان میں ایک الگ‌تھلگ کلیسیا سے ملاقات کرنا

‏[‏صفحہ ۲۶ پر تصویر]‏

ہمارا موجودہ خاندان