کیا خدا کو ہماری فکر ہے؟
کیا خدا کو ہماری فکر ہے؟
کیا آپ خود کو اپنے خاندان، صحت، کام یا دیگر بھاری ذمہداریوں کے مسائل کی وجہ سے جذباتی بوجھ تلے دبا ہوا محسوس کرتے ہیں؟ بہتیرے ایسا محسوس کرتے ہیں۔ علاوہازیں، آج کی دُنیا میں کون ہے جسے ناانصافی، جُرم اور تشدد کا سامنا نہیں ہے؟ واقعی یہ بائبل کے اس بیان کی مطابقت میں ہے: ”ساری مخلوقات مل کر اب تک کراہتی ہے اور دردِزہ میں پڑی تڑپتی ہے۔“ (رومیوں ۸:۲۲) اسی وجہ سے بہتیرے لوگ پوچھتے ہیں: ’کیا خدا فکر کرتا ہے؟ کیا وہ ہماری مدد کریگا؟‘
دانشمند بادشاہ سلیمان نے دُعا میں خدا سے کہا: ”فقط تُو ہی بنیآدم کے دلوں کو جانتا ہے۔“ سلیمان کو اعتماد تھا کہ خدا نہ صرف ہمیں جانتا بلکہ انفرادی طور پر ہماری فکر رکھتا ہے۔ وہ خدا سے یہ کہنے کے قابل تھا کہ خدا ’آسمان پر سے سنکر‘ ایسے خداپرست لوگوں کی دُعاؤں کا جواب دے جو ”اپنے دُکھ اور رنج“ اُسکے حضور پیش کرتے ہیں۔—۲-تواریخ ۶:۲۹، ۳۰۔
آج بھی یہوواہ ہماری پرواہ کرتا اور ہمیں دُعا کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ (زبور ۵۰:۱۵) وہ اُسکی مرضی کے مطابق کی جانے والی دلی دُعاؤں کا جواب دینے کا وعدہ کرتا ہے۔ (زبور ۵۵:۱۶، ۲۲؛ لوقا ۱۱:۵-۱۳؛ ۲-کرنتھیوں ۴:۷) جیہاں، یہوواہ ایسی تمام ’دُعاؤں اور مناجات کو سنتا ہے جو کسی ایک شخص یا اُسکی ساری قوم کی طرف سے‘ کی جاتی ہیں۔ پس اگر ہم خدا پر بھروسا کرتے، اُسکی مدد کے طلبگار ہوتے اور اُسکے نزدیک جاتے ہیں تو ہم اُسکی پُرمحبت فکر اور راہنمائی کا تجربہ کرینگے۔ (امثال ۳:۵، ۶) بائبل مصنف یعقوب ہمیں یقیندہانی کراتا ہے: ”خدا کے نزدیک جاؤ تو وہ تمہارے نزدیک آئیگا۔“—یعقوب ۴:۸۔