مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

یہوواہ کی شفقت اور فکرمندی کا تجربہ کرنا

یہوواہ کی شفقت اور فکرمندی کا تجربہ کرنا

میری کہانی میری زبانی

یہوواہ کی شفقت اور فکرمندی کا تجربہ کرنا

از فے کنگ

میرے والدین انتہائی شفیق مگر دیگر لوگوں کی طرح مذہب سے باغی تھے۔‏ میری والدہ کہا کرتی تھی:‏ ”‏کوئی نہ کوئی خدا تو ضرور ہے ورنہ پھول پودے اور درخت کس نے اُگائے ہونگے؟‏“‏ لیکن والدہ کی سوچ بس یہاں تک ہی تھی۔‏

میرے والد کی وفات ۱۹۳۹ میں ہوئی جب مَیں صرف ۱۱ برس کی تھی،‏ لہٰذا مَیں اپنی والدہ کے ساتھ جنوبی مانچسٹر انگلینڈ،‏ میں سٹاک‌پورٹ میں رہنے لگی۔‏ مَیں ہمیشہ سے خالق کی بابت زیادہ جاننا چاہتی تھی اور بائبل کی بہت قدر کرتی تھی اگرچہ مَیں بائبل کی بابت کچھ نہیں جانتی تھی۔‏ پس مَیں نے اس جستجو میں چرچ آف انگلینڈ کیساتھ رابطہ کرنے کا فیصلہ کِیا۔‏

چرچ کی رسومات تو مجھے زیادہ متاثر نہ کر سکیں،‏ تاہم جب انجیل سے پڑھا جاتا تو یسوع کے الفاظ مجھے یہ یقین بخشتے تھے کہ بائبل واقعی سچی کتاب ہے۔‏ جب مَیں ماضی کی بابت سوچتی ہوں تو یہ بات بڑی عجیب لگتی ہے کہ مَیں نے کبھی خود سے بائبل نہیں پڑھی تھی۔‏ حتیٰ‌کہ جب میری ایک سہیلی نے مجھے ”‏نئے عہدنامے“‏ کا ایک جدید ترجمہ دیا تو مَیں نے اُسے کبھی بھی کھول کر نہ دیکھا۔‏

سن ۱۹۵۰ میں،‏ کوریا کی جنگ کے چھڑ جانے سے مَیں پریشان ہو گئی۔‏ کیا یہ لڑائی دوسری عالمی جنگ کی طرح پھیل جائیگی؟‏ اگر ایسا ہوتا ہے تو مَیں پڑوسی سے اپنی مانند محبت رکھنے کے یسوع کے حکم پر کیسے عمل کر سکتی ہوں؟‏ لیکن یہ بات بھی ہے کہ کیا مَیں لوگوں کو اپنے مُلک پر حملہ کرتے دیکھ کر خاموش رہونگی؟‏ اگر ایسا ہوا تو مَیں اپنی ذمہ‌داری سے مُنہ موڑ رہی ہونگی۔‏ تاہم متذبذب ہونے کے باوجود مجھے پورا یقین تھا کہ میرے تمام سوالوں کے جواب بائبل میں ہیں حالانکہ مَیں یہ نہیں جانتی تھی کہ انہیں کیسے تلاش کروں۔‏

آسٹریلیا میں سچائی تلاش کرنا

سن ۱۹۵۴ میں میری والدہ اور مَیں نے آسٹریلیا نقل‌مکانی کرنے کا فیصلہ کِیا جہاں میری بہن جین رہتی تھی۔‏ چند سال بعد،‏ جین نے مجھے بتایا کہ میری بائبل میں دلچسپی اور چرچ جانے کی وجہ سے اُس نے یہوواہ کے گواہوں سے درخواست کی ہے کہ وہ مجھ سے ملاقات کریں۔‏ وہ جاننا چاہتی تھی کہ مَیں اُنکی بابت کیا سوچتی ہوں۔‏ اُس نے مجھ سے کہا،‏ ”‏مَیں یہ تو نہیں جانتی کہ آیا وہ بائبل کو صحیح طور پر سمجھاتے ہیں یا نہیں مگر اتنا ضرور جانتی ہوں کہ وہ ایسی باتیں سمجھا سکتے ہیں جو چرچز نہیں سمجھا سکتے۔‏“‏

بل اور لنڈا سیک‌نیدر جو میرے پاس ملاقات کیلئے آئے وہ بہت ہی خوش‌مزاج تھے۔‏ وہ تقریباً ۷۰ کے دہے میں تھے اور کئی سال سے گواہ تھے۔‏ وہ آسٹریلیا کے شہر ایڈلیڈ میں یہوواہ کے گواہوں کے ایک ریڈیو سٹیشن پر کام کرتے تھے لہٰذا جب دوسری عالمی جنگ کے دوران آسٹریلیا میں یہوواہ کے گواہوں کے کام پر پابندی لگا دی گئی تو اُنہوں نے کُل‌وقتی مبشروں کے طور پر کام کرنا شروع کر دیا۔‏ تاہم،‏ بل اور لنڈا کے اسقدر مددگار ہونے کے باوجود مَیں ابھی تک مختلف مذاہب کو آزما رہی تھی۔‏

ایک ساتھی کارکن مجھے مبشر بلی گراہم کی میٹنگ پر لے گیا جہاں ہم میں سے بہتوں نے ایک پادری سے ملاقات کی جو لوگوں کے سوالوں کے جواب دے رہا تھا۔‏ مَیں نے وہ سوال پوچھا جو مجھے ابھی تک پریشان کر رہا تھا:‏ ”‏آپ کیسے مسیحی ہوتے ہوئے اپنے دشمنوں سے محبت کر سکتے ہیں جبکہ جنگ میں اُنہیں قتل بھی کرتے ہیں؟‏“‏ سارا گروپ بول اُٹھا کیونکہ اس سوال نے اُن سب کو بھی پریشان کر رکھا تھا!‏ آخر میں پادری نے کہا:‏ ”‏اس سوال کا جواب مجھے نہیں معلوم۔‏ ابھی مَیں بھی اسکی بابت سوچ رہا ہوں۔‏“‏

اس دوران بل اور لنڈا کیساتھ میرا مطالعہ جاری رہا اور ستمبر ۱۹۵۸ میں مَیں نے بپتسمہ لے لیا۔‏ مَیں نے اپنے اُستاد کے نقشِ‌قدم پر چلنے کا عزم کِیا لہٰذا،‏ مَیں نے اگلے سال اگست میں ریگولر پائنیر کے طور پر کُل‌وقتی خدمت شروع کر دی۔‏ آٹھ ماہ بعد مجھے سپیشل پائنیر خدمت کیلئے بلا لیا گیا۔‏ مجھے یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کہ میری بہن جین نے بھی مطالعے میں ترقی کرکے بپتسمہ لے لیا ہے!‏

استحقاق کا دروازہ کھل گیا

مَیں سڈنی کی ایک کلیسیا میں خدمت انجام دے رہی تھی اور میرے پاس کئی بائبل مطالعے بھی تھے۔‏ ایک دن مجھے چرچ آف انگلینڈ کا ایک ریٹائرڈ پادری مل گیا اور مَیں نے اُس سے پوچھا کہ دُنیا کے آخر کی بابت چرچ کیا تعلیم دیتا ہے۔‏ اگرچہ اُس نے مجھے بتایا کہ وہ ۵۰ سال چرچ میں تعلیم دے چکا ہے،‏ توبھی اُسکے جواب نے مجھے حیران کر دیا:‏ ”‏اس پر تحقیق کیلئے مجھے وقت چاہئے کیونکہ مَیں یہوواہ کے گواہوں جتنی بائبل نہیں جانتا۔‏“‏

اسکے بعد،‏ پاکستان میں خدمت انجام دینے کیلئے رضاکاروں کا اعلان کِیا گیا۔‏ مَیں نے بھی درخواست دیدی کیونکہ مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ وہاں کنواری لڑکیوں کی بجائے صرف لڑکوں اور شادی‌شُدہ جوڑوں کو بھیجا جا رہا تھا۔‏ میری درخواست بروکلن ہیڈکوارٹر بھیج دی گئی اور جلد ہی مجھے ایک خط موصول ہوا جس میں یہ بیان کِیا گیا تھا کہ اگر مَیں جانا چاہتی ہوں تو بمبئی انڈیا میں ضرورت ہے۔‏ یہ ۱۹۶۲ کی بات ہے۔‏ پس الہ‌آباد جانے سے پہلے مَیں ۱۸ ماہ تک بمبئی میں رہی۔‏

جلد ہی مَیں نے ہندی زبان سیکھنا شروع کر دی۔‏ اس زبان کے ہجوں اور تلفظ میں یکسانیت کی وجہ سے اسے سیکھنا زیادہ مشکل نہیں تھا۔‏ تاہم مجھے اکثر پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا تھا کیونکہ صاحبِ‌خانہ مجھ سے ہندی میں بات کرنے کی بجائے انگریزی بولنے کیلئے کہتے تھے!‏ اگرچہ اس نئے مُلک میں مجھے دلچسپ اور ہیجان‌خیز چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا توبھی مَیں آسٹریلیا سے آنے والے ساتھی گواہوں کی رفاقت سے بہت خوش تھی۔‏

شروع شروع میں مَیں شادی کی بابت سوچتی تھی مگر جب میرا بپتسمہ ہو گیا تو مَیں یہوواہ کی خدمت میں زیادہ مصروف ہو گئی۔‏ تاہم،‏ اب مجھے زندگی میں ایک ساتھی کی ضرورت محسوس ہو رہی تھی۔‏ مَیں اپنی تفویض بھی نہیں چھوڑنا چاہتی تھی لہٰذا مَیں نے دُعا میں معاملہ یہوواہ پر ڈال دیا اور خود اس پر سوچنا چھوڑ دیا۔‏

ایک غیرمتوقع برکت

اُس وقت ایڈون سکنر انڈیا برانچ کے کام کی نگرانی پر مامور تھا۔‏ اُس نے ۱۹۴۶ میں واچ‌ٹاور بائبل سکول آف گلئیڈ کی آٹھویں کلاس میں شمولیت کی تھی جس میں اُسکے ساتھ بھائی ہیرلڈ کنگ اور سٹینلے جونز جیسے وفادار بھائی بھی تھے جنہیں چین بھیجا گیا تھا۔‏ * سن ۱۹۵۸ میں،‏ ہیرلڈ اور سٹینلے کو شنگھائی میں منادی کرنے کی وجہ سے قید میں ڈال دیا گیا۔‏ سن ۱۹۶۳ میں ہیرلڈ کی رِہائی کے بعد ایڈون نے اُسے خط لکھا۔‏ ریاستہائےمتحدہ اور برطانیہ کے دوروں سے واپس آنے کے بعد ہیرلڈ نے ہانگ‌کانگ سے خط کا جواب دیا اور اس بات کا تذکرہ کِیا کہ وہ شادی کرنا چاہتا ہے۔‏ اُس نے جیل ہی میں اس معاملے کو دُعا میں یہوواہ کے سامنے رکھا تھا اور اُس نے ایڈون سے بھی پوچھا تھا کہ آیا اُسکی نظر میں کوئی ایسی گواہ ہے جو ایک موزوں بیوی ثابت ہو سکے۔‏

انڈیا میں زیادہ‌تر شادیاں والدین طے کرتے ہیں اور ایڈون سے متواتر ایسا بندوبست کرنے کیلئے کہا جاتا رہا مگر وہ ہمیشہ انکار کر دیتا۔‏ پس اُس نے ہیرلڈ کا خط روت میکائے کے حوالے کر دیا جسکا شوہر ہومر ایک سفری نگہبان تھا۔‏ روت نے مجھے لکھا کہ ایک مشنری جو کافی سال سے سچائی میں ہے شادی کرنا چاہتا ہے اور مجھ سے کہا گیا کہ کیا مَیں اُس سے رابطہ کرنا چاہونگی۔‏ اُس نے مجھے اس بھائی کی بابت کچھ نہیں بتایا تھا۔‏

یہوواہ کے علاوہ ساتھی کیلئے میری دُعا کی بابت کوئی نہیں جانتا تھا اور اس صورت میں مَیں نے فوراً انکار کرنے کا سوچا۔‏ تاہم،‏ جتنا زیادہ مَیں نے اسکی بابت سوچا مَیں اس نتیجے پر پہنچی کہ ضروری نہیں جیسے ہم چاہتے ہیں یہوواہ ویسے ہی ہماری دُعاؤں کا جواب دے۔‏ پس مَیں نے روت کو لکھا کہ اُس بھائی سے کہیں کہ مجھ سے رابطہ کرے۔‏ ہیرلڈ کنگ کا دوسرا خط میرے نام تھا۔‏

ہیرلڈ اور اسکی سرگزشت اور تصاویر چین میں قید سے رہائی کے بعد مختلف رسالوں اور اخبارات میں شائع ہو چکی تھیں۔‏ وہ کافی مشہور ہو چکا تھا مگر مجھے تو تھیوکریٹک خدمت میں اُسکے وفادارانہ ریکارڈ نے متاثر کِیا تھا۔‏ لہٰذا پانچ مہینوں تک ہماری خط‌وکتابت ہوتی رہی اور پھر مَیں ہانگ‌کانگ چلی گئی۔‏ ہماری شادی اکتوبر ۵،‏ ۱۹۶۵ میں ہوئی۔‏

ہم دونوں شادی کرنا اور کُل‌وقتی خدمت کو جاری رکھنا چاہتے تھے چونکہ ہماری عمر بڑھ رہی تھی اسلئے ہم دونوں کو ہی رفاقت کی بہت ضرورت تھی۔‏ مَیں ہیرلڈ کو پسند کرنے لگی اور لوگوں اور خدمتگزاری میں درپیش مسائل کیساتھ نپٹنے کیلئے اُسکے مشفقانہ اور مہربان رویے نے میری نظروں میں اُس کی عزت کو مزید بڑھا دیا۔‏ ہم نے ۲۷ برس تک خوشحال ازدواجی زندگی سے لطف اُٹھایا اور یہوواہ کی طرف سے بیشمار برکات حاصل کیں۔‏

چینی لوگ بڑے محنتی اور جفاکش ہوتے ہیں اس لئے مَیں اُنہیں بہت پسند کرتی ہوں۔‏ ہانگ‌کانگ میں جو چینی زبان بولی جاتی ہے اُسے کین‌ٹونیز کہتے ہیں اور اسے سیکھنا کافی مشکل ہے۔‏ ہیرلڈ اور مَیں نے اپنی ازدواجی زندگی کا آغاز یہوواہ کے گواہوں کے برانچ آفس کے مشنری ہوم سے کِیا اور علاقے کے مختلف حصوں میں خدمت انجام دی۔‏ ہم واقعی بہت خوش تھے لیکن ۱۹۷۶ میں مجھے صحت کے مختلف مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔‏

صحت کے مسائل کیساتھ نپٹنا

چند مہینوں سے جریانِ‌خون میں مبتلا ہونے کی وجہ سے میرے اندر خون کی بہت کمی واقع ہو گئی تھی۔‏ مجھے سرجری کی ضرورت تھی مگر ہسپتال کے ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ وہ بغیر خون کے آپریشن نہیں کرینگے کیونکہ اس صورت میں میری موت واقع ہو سکتی ہے۔‏ ایک دن جب ڈاکٹر میرے مسئلے پر بات کر رہے تھے تو نرسوں نے میرے ذہن کو تبدیل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ مجھے اپنی زندگی ضائع کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔‏ اُس دن ۱۲ آپریشن کئے جانے تھے جن میں سے دس اسقاطِ‌حمل تھے مگر مَیں نے دیکھا کہ کسی بھی حاملہ عورت کی اپنے بچے کی جان لینے کیلئے مذمت نہیں کی گئی تھی۔‏

آخرکار ہیرلڈ نے ایک خط لکھا جس میں اُس نے میری موت کی صورت میں ہسپتال کو ہر طرح سے بری‌الذمہ قرار دے دیا۔‏ پس ڈاکٹر میرا آپریشن کرنے کیلئے تیار ہو گئے۔‏ مجھے آپریشن کیلئے تیار کِیا گیا مگر آخری لمحے،‏ بیہوش کرنے والے ڈاکٹر نے انکار کر دیا اور ایک بار پھر مجھے ہسپتال سے گھر بھیج دیا گیا۔‏

پھر ہم نے ایک گائنی‌کالوجسٹ سے رابطہ کِیا۔‏ میری حالت کو دیکھ کر وہ اِس شرط پر کم پیسوں میں آپریشن کرنے کو تیار ہو گیا کہ ہم کسی کو بھی نہ بتائیں کہ اُس نے کتنے پیسوں میں آپریشن کِیا ہے۔‏ اُس نے بغیر خون کے کامیاب آپریشن کِیا۔‏ ہیرلڈ اور مَیں اس وقت یہوواہ کی شفقت اور فکرمندی کا واضح ثبوت دیکھ سکتے تھے۔‏

سن ۱۹۹۲ میں،‏ ہیرلڈ کی طبیعت بہت خراب ہو گئی۔‏ ہم دونوں برانچ آفس منتقل ہو گئے اور ہم دونوں کی بڑی اچھی دیکھ‌بھال کی گئی۔‏ سن ۱۹۹۳ میں،‏ میرے عزیز شوہر نے ۸۱ برس کی عمر میں اپنی زمینی زندگی کا اختتام کِیا۔‏

انگلینڈ واپسی

مَیں ہانگ‌کانگ بیت‌ایل خاندان کے ممبر کے طور پر بہت خوش تھی مگر میرے لئے گرم اور مرطوب موسم میں رہنا دن‌بدن مشکل ہوتا جا رہا تھا۔‏ تب ہی بروکلن بیت‌ایل سے ایک خط موصول ہوا جس میں پوچھا گیا تھا کہ میری صحت کے پیشِ‌نظر کیا مَیں ایسی برانچ میں جانا چاہونگی جہاں زیادہ سہولیات مل سکتی ہیں۔‏ پس سن ۲۰۰۰ میں،‏ مَیں واپس لندن آ گئی اور لندن کے بیت‌ایل خاندان میں شامل ہو گئی۔‏ یہ کیا ہی مشفقانہ بندوبست ثابت ہوا ہے!‏ میرا پُرتپاک خیرمقدم کِیا گیا اور مَیں اپنے مختلف کام سے بھی بہت خوش تھی جس میں بیت‌ایل خاندان کی لائبریری اور اس میں موجود ۰۰۰،‏۲ جِلدوں کی دیکھ‌بھال کرنے میں مدد دینا شامل تھا۔‏

مَیں لندن میں چائنیز کلیسیا کیساتھ رفاقت رکھتی ہوں،‏ مگر اب سب کچھ بہت بدل گیا ہے۔‏ آجکل ہانگ‌کانگ کی بجائے چین سے زیادہ لوگ آتے ہیں۔‏ وہ میڈرن زبان بولتے ہیں اور یہ منادی کے کام میں خاصی مشکلات پیدا کرتا ہے۔‏ مُلک کے دیگر حصوں میں چین سے آنے والے پوسٹ‌گریجویٹ سٹوڈنٹس کیساتھ بائبل مطالعے کئے جا رہے ہیں۔‏ یہ محنتی ہیں اور بائبل سچائیوں کی قدر کرتے ہیں۔‏ اُنکی مدد کرنا خوشی بخشتا ہے۔‏

اپنے نئے گھر کی خاموشی میں،‏ مَیں اکثر اپنی خوشحال زندگی پر نظر ڈالتی اور یہوواہ کی شفقت پر حیران ہوتی ہوں۔‏ یہ اُسکے مقصد سے وابستہ تمام چیزوں میں سرایت کر گئی ہے اور اپنے خادموں کیلئے اُسکی فکرمندی کتنی واضح ہے۔‏ میرے پاس اُسکی پُرمحبت فکرمندی کیلئے شکرگزار ہونے کی ہر وجہ ہے۔‏—‏۱-‏پطرس ۵:‏۶،‏ ۷‏۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 19 ان دونوں مشنریوں کی سرگزشتیں واچ‌ٹاور جولائی ۱۵،‏ ۱۹۶۳ کے شمارے کے صفحہ ۴۳۷-‏۴۴۲ اور دسمبر ۱۵،‏ ۱۹۶۵ کے شمارے کے صفحہ ۷۵۶-‏۷۶۷ پر شائع ہو چکی ہیں۔‏

‏[‏صفحہ ۲۴ پر تصویر]‏

انڈیا میں خدمت کرتے ہوئے

‏[‏صفحہ ۲۵ پر تصویر]‏

ہیرلڈ کنگ ۱۹۶۳ اور ۱۹۵۰ کے دہے میں چین میں خدمت انجام دیتے ہوئے

‏[‏صفحہ ۲۶ پر تصویر]‏

اکتوبر ۵،‏ ۱۹۶۵ میں ہانگ‌کانگ میں ہماری شادی کا دن

‏[‏صفحہ ۲۶ پر تصویر]‏

ہانگ‌کانگ بیت‌ایل خاندان کیساتھ،‏ یہاں لی‌انگز درمیان میں اور گاناویز دائیں طرف ہیں