مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

کیا مذہب انسانی مسائل کی جڑ ہے؟‏

کیا مذہب انسانی مسائل کی جڑ ہے؟‏

کیا مذہب انسانی مسائل کی جڑ ہے؟‏

‏”‏جب مذہب جنگ کی حوصلہ‌افزائی نہیں کر رہا ہوتا تو وہ دراصل منشیات کے طور پر کام کر رہا ہوتا ہے جو لوگوں کو ایک ایسے نشے کا عادی بنا دیتا ہے جس سے اُنکا ضمیر سُن ہو جاتا اور انسانی ذہن خام‌خیالی کا شکار ہو جاتا ہے۔‏ .‏ .‏ .‏ [‏یہ]‏ انسانوں کو تنگ‌نظر،‏ وہمی،‏ نفرت‌انگیز اور خوف‌زدہ بنا دیتا ہے۔‏“‏ سابقہ میتھوڈسٹ مشنری جس نے یہ لکھا وہ مزید بیان کرتا ہے:‏ ”‏یہ الزمات بالکل سچ ہیں۔‏ مذہب بُرا بھی ہے اور اچھا بھی ہے۔‏“‏‏—‏سٹارٹ یور اون ریلیجئن۔‏

بعض شاید کہیں کہ ’‏مذہب کے بارے میں یہ تنقید بہت سخت ہے۔‏‘‏ لیکن تاریخی حقائق کو کون نظرانداز کر سکتا ہے؟‏ بڑی حد تک مذہب جسکی تعریف ”‏خدا یا کسی مافوق‌الفطرت ہستی کی خدمت اور عبادت کرنا“‏ کی گئی ہے اسکا ریکارڈ ہولناک ہے۔‏ اسے ہمیں روشن‌خیالی عطا کرنی اور تحریک دینی چاہئے۔‏ تاہم یہ اکثر لڑائی،‏ نفرت اور تعصّب کو ہوا دیتا ہے۔‏ اسکی کیا وجہ ہے؟‏

ایک دھوکےباز ”‏نورانی فرشتہ“‏

بائبل اس سوال کا بہت آسان جواب دیتی ہے۔‏ شیطان نے اپنے آپکو ایک ”‏نورانی فرشتہ“‏ کے طور پر ظاہر کرتے ہوئے خدا کی بجائے اپنی تعلیمات کی پیروی کیلئے لاکھوں لوگوں کو گمراہ کر رکھا ہے۔‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۱۱:‏۱۴‏)‏ یوحنا رسول نے کہا کہ شیطان کا اختیار اس حد تک پھیل گیا ہے کہ ‏”‏ساری دُنیا اُس شریر کے قبضہ میں پڑی ہوئی ہے۔‏“‏ (‏۱-‏یوحنا ۵:‏۱۹‏)‏ یوحنا جانتا تھا کہ شیطان ”‏سارے جہان کو گمراہ کر دیتا ہے۔‏“‏—‏مکاشفہ ۱۲:‏۹‏۔‏

اس گمراہی کا کیا انجام رہا ہے؟‏ شیطان نے ایسے مذہبی نظام کو متعارف کرایا ہے جو بظاہر پارسا نظر آتا ہے۔‏ اسکی ”‏ظاہری شکل ’‏مذہب‘‏ کی سی ہے،‏“‏ لیکن اسکی اصلی حالت اسکے بُرے پھلوں سے پہچانی جا سکتی ہے۔‏ (‏۲-‏تیمتھیس ۳:‏۵‏،‏ جے۔‏ بی۔‏ فلپس؛‏ متی ۷:‏۱۵-‏۲۰‏)‏ انسانی مسائل حل کرنے کی بجائے مذہب دراصل خود ایک مسئلہ بن گیا ہے۔‏

اس نظریے کو نامعقول یا بعیدازقیاس سمجھتے ہوئے رد نہ کر دیں۔‏ یاد رکھیں کہ عام طور پر لوگ اس بات سے بےخبر ہوتے ہیں کہ اُنہیں دھوکے میں رکھا جا رہا ہے۔‏ پولس رسول نے اسکی ایک مثال دیتے ہوئے لکھا:‏ ”‏جو قربانی غیرقومیں کرتی ہیں شیاطین کیلئے قربانی کرتی ہیں نہ کہ خدا کیلئے۔‏“‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۱۰:‏۲۰‏)‏ یہ غیرقومیں یہ سوچ کر ہی حیران رہ گئی ہونگی کہ وہ دراصل شیاطین کی عبادت کر رہی ہیں۔‏ اُنکا خیال تھا کہ وہ کسی اچھے خدا یا خداؤں کی پرستش کر رہے ہیں۔‏ جبکہ حقیقت میں وہ ’‏شرارت کی ایسی روحانی فوجوں کی حمایت کر رہے تھے جو آسمانی مقاموں میں رہتی ہیں۔‏‘‏—‏افسیوں ۶:‏۱۲‏۔‏

مثال کے طور پر،‏ ہمیں دیکھنا چاہئے کہ شیطان نے کیسے بہتیرے ایسے نام‌نہاد مسیحیوں کو دھوکا دیا اور گمراہ کِیا جنہوں نے شیطان کے بُرے اثر کے بارے میں یوحنا رسول کی آگاہی کو نظرانداز کِیا تھا۔‏—‏۱-‏کرنتھیوں ۱۰:‏۱۲‏۔‏

یسوع کی تعلیم خدا کی طرف سے تھی

یسوع نے کہا:‏ ”‏میری تعلیم میری نہیں بلکہ میرے بھیجنے والے کی ہے۔‏“‏ (‏یوحنا ۷:‏۱۶‏)‏ جی‌ہاں،‏ یسوع نے لوگوں کو جو تعلیم دی وہ کائنات کے خالق کی طرف سے تھی۔‏ چنانچہ یسوع کی تعلیمات نے لوگوں کی زندگی پر اچھا اثر ڈالا۔‏ اِس اثر نے ’‏لوگوں کو ایک ایسے نشے میں نہیں ڈالا جس سے اُنکا ضمیر سُن ہو گیا ہو‘‏ اور جسکی وجہ سے ”‏وہ دُنیا میں ہونے والے تمام ہولناک واقعات کو نظرانداز کر رہے ہوں۔‏“‏ اسکے برعکس،‏ یسوع کی تعلیمات نے ایسے لوگوں کو جھوٹے مذہب اور انسانی فیلسوفیوں سے آزاد کِیا جنکی ’‏عقل کو شیطان کے فریب نے تاریک‘‏ کر دیا تھا۔‏—‏افسیوں ۴:‏۱۸؛‏ متی ۱۵:‏۱۴؛‏ یوحنا ۸:‏۳۱،‏ ۳۲‏۔‏

سچے مسیحیوں کی شناخت دینداری کا دعویٰ کرنے سے نہیں ہوتی بلکہ اُن عمدہ خوبیوں کی وجہ سے جو خدا کی رُوح اُن میں پیدا کر رہی تھی۔‏ (‏گلتیوں ۵:‏۲۲،‏ ۲۳؛‏ یعقوب ۱:‏۲۲؛‏ ۲:‏۲۶‏)‏ اِن خوبیوں میں سے سب سے اہم خوبی محبت ہے جوکہ سچی مسیحیت کی شناخت کراتی ہے۔‏—‏یوحنا ۱۳:‏۳۴،‏ ۳۵‏۔‏

تاہم،‏ اس اہم نکتے پر غور کریں کہ یسوع اور اُس کے رسولوں نے یہ توقع نہیں کی تھی کہ مسیحی کلیسیا پہلے کی طرح کام کرتی رہیگی۔‏ وہ جانتے تھے کہ کلیسیا میں برگشتگی پھوٹ نکلے گی اور کچھ عرصہ کیلئے سچے مذہب کی شناخت غیرواضح ہو جائیگی۔‏

سچے مذہب کی شناخت غیرواضح

یسوع نے گیہوں اور کڑوے دانوں کی تمثیل کے ذریعے یہ پیشینگوئی کی کہ کچھ عرصہ کیلئے سچے مذہب کی شناخت غیرواضح ہو جائیگی۔‏ متی ۱۳:‏۲۴-‏۳۰،‏ ۳۶-‏۴۳ کے بیان کو پڑھیں۔‏ تمثیل میں یسوع وہ آدمی ہے جس نے اپنے کھیت میں گیہوں یعنی ”‏اچھا بیج“‏ بویا۔‏ ’‏اچھے بیج‘‏ سے مُراد یسوع کے وہ ابتدائی وفادار شاگرد ہیں جنہوں نے اصلی مسیحی کلیسیا کی بنیاد رکھی۔‏ یسوع نے آگاہ کِیا کہ ”‏دُشمن“‏ سے مُراد شیطان ہے جو گیہوں میں ”‏کڑوے دانے“‏ بو دیگا۔‏ ’‏کڑوے دانوں‘‏ سے مُراد ایسے لوگ ہیں جو یسوع مسیح کے پیروکار ہونے کا دعویٰ تو کرتے ہیں لیکن حقیقت میں اُسکی تعلیمات پر عمل نہیں کرتے۔‏

یسوع کی موت کے فوراً بعد ہی ایسے لوگ نمودار ہونے لگے جنہوں نے خود کو یسوع کی تمثیل کے ”‏کڑوے دانے“‏ ثابت کِیا۔‏ وہ ’‏یہوواہ کے کلام‘‏ کی بجائے انسانی تعلیمات کی حمایت کرتے تھے۔‏ (‏یرمیاہ ۸:‏۸،‏ ۹؛‏ اعمال ۲۰:‏۲۹،‏ ۳۰‏)‏ اسطرح برگشتہ اور جھوٹا مسیحی مذہب وجود میں آیا جسکی راہنمائی ”‏بےدین“‏ پادری طبقہ کر رہا تھا۔‏ یہ طبقہ لوگوں کو ”‏ہر طرح کے دھوکے“‏ میں رکھتا ہے۔‏ (‏۲-‏تھسلنیکیوں ۲:‏۶-‏۱۰‏)‏ لیکن یسوع نے پیشینگوئی کی کہ ’‏دُنیا کے آخر‘‏ میں یہ مذہبی تاریکی اُجالے میں بدل جائیگی۔‏ کیونکہ ”‏گیہوں“‏ یعنی سچے مسیحی ایک جگہ جمع کئے جائینگے اور ”‏کڑوے دانے“‏ یعنی جھوٹے مسیحیوں کو ختم کر دیا جائیگا۔‏

اِس جھوٹے مسیحی مذہب نے ایک ایسے دَور کو جنم دیا جس میں لوگ مذہبی تاریکی کا شکار تھے اور ”‏بربریت بڑھ گئی تھی۔‏“‏ پطرس رسول نے پیشینگوئی کی کہ مذہب کے نام پر ظلم‌وتشدد ہوگا اور جھوٹے مسیحیوں کے ”‏سبب سے راہِ‌حق کی بدنامی ہوگی۔‏“‏—‏۲-‏پطرس ۲:‏۱،‏ ۲‏۔‏

‏”‏طیش اور نفرت کی تعلیم“‏

صرف مسیحیت نے ہی مذہب کو بدنام نہیں کِیا ہے۔‏ ایک عورت جو ایک عرصے کیلئے راہبہ رہی ہے اُس نے لکھا:‏ ”‏ہر بڑے مذہب میں ایسے فرقے ہوتے ہیں جنکے ارکان اپنے ایمان کی خاطر لڑنے کیلئے تیار ہوتے ہیں۔‏“‏ اِس عورت کا کہنا ہے کہ ایک اچھے مذہب کے لوگ ”‏رحم کو عمل میں لاتے ہیں۔‏ .‏ .‏ .‏ لیکن چاہے یہ فرقے یہودی،‏ مسلمان یا مسیحی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں اگر وہ طیش اور نفرت کی تعلیم دیتے ہیں تو وہ رحم کو عمل میں نہیں لا رہے ہوتے۔‏“‏ کیا محض انتہاپسند فرقے ہی ”‏طیش اور نفرت کی تعلیم“‏ دیتے ہیں؟‏ مذہب کی تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ ایسا بالکل نہیں ہے۔‏

شیطان نے پوری دُنیا میں جھوٹے مذہبی نظام کو فروغ دیا ہے جسکی شناخت ہمیشہ تشدد،‏ نفرت اور کشت‌وخون سے ہوتی ہے۔‏ بائبل میں اس نظام کو ”‏بڑا شہر بابلؔ .‏ .‏ .‏ زمین کی مکروہات کی ماں“‏ کہا گیا ہے۔‏ اِسے ایک کسبی سے تشبیہ دی گئی ہے جو ایک ”‏حیوان“‏ پر سوار ہے۔‏ اِس ”‏حیوان“‏ سے مُراد دُنیا کا سیاسی نظام ہے۔‏ ذرا غور کریں کہ کسبی کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ ’‏زمین کے سب مقتولوں کے خون‘‏ کی ذمہ‌دار ہے۔‏—‏مکاشفہ ۱۷:‏۴-‏۶؛‏ ۱۸:‏۲۴‏۔‏

ہر کوئی دھوکے میں نہیں آتا

تاہم،‏ تاریخ ثابت کرتی ہے کہ تمام لوگ شیطان کے دھوکے میں نہیں آئے۔‏ میلون بریگ نے کہا کہ اُس زمانے میں بھی جب حالات حد سے زیادہ بگڑ چکے تھے ”‏بہت سے لوگوں نے نیکی کی راہ اختیار کی جبکہ اُنکے چاروں طرف بُرائی ہی بُرائی تھی۔‏“‏ ان مشکل حالات کے تحت بھی سچے مسیحی ”‏[‏خدا]‏ کی پرستش روح اور سچائی سے“‏ کرتے رہے۔‏ (‏یوحنا ۴:‏۲۱-‏۲۴‏)‏ اُنہوں نے اپنے آپکو دُنیا کے جھوٹے مذاہب سے الگ رکھا ہے اور وہ سیاست سے دُور ہیں۔‏ جبکہ جھوٹے مذاہب نے اپنے آپکو ایک کسبی کی طرح دُنیا کے سیاسی نظام کے ہاتھوں بیچ دیا جس نے اُسے جنگ کو فروغ دینے کیلئے استعمال کِیا۔‏ مذہب اور سیاست کے اِس گٹھ‌جوڑ کو ”‏یسوع نے نہیں بلکہ شیطان نے وجود دیا ہے۔‏“‏

جدید زمانے میں یہوواہ کے گواہ نیکی کرنے کی شہرت رکھتے ہیں۔‏ جھوٹے مذہب سے علیحدہ رہنے کیلئے اُنکی تعلیمات خدا کے الہامی کلام بائبل پر مبنی ہیں۔‏ (‏۲-‏تیمتھیس ۳:‏۱۶،‏ ۱۷‏)‏ پہلی صدی کے مسیحیوں کی طرح یہوواہ کے گواہ بھی ’‏دُنیا کا حصہ نہیں ہیں۔‏‘‏ (‏یوحنا ۱۵:‏۱۷-‏۱۹؛‏ ۱۷:‏۱۴-‏۱۶‏)‏ مثال کے طور پر،‏ نازی جرمنی میں مسیحیوں نے اصولوں پر قائم رہنے کو ترجیح دی حالانکہ اِس وجہ سے ہٹلر اور نازیوں نے انکو اذیت کا نشانہ بنایا۔‏ ایک درسی کتاب میں لکھا ہے:‏ ”‏یہوواہ کے گواہوں نے بائبل کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے جنگ میں حصہ لینے سے انکار کِیا۔‏ اِسلئے اُنہوں نے نازیوں کا ساتھ نہیں دیا۔‏ جسکی وجہ سے نازیوں نے یہوواہ کے گواہوں کے پورے کے پورے خاندانوں کو قید میں ڈال دیا۔‏“‏ نازی کیمپوں میں سینکڑوں یہوواہ کے گواہوں کو وحشیانہ طور پر قتل کر دیا گیا۔‏

دوسرے مذاہب کے کچھ نڈر لوگوں نے بھی اپنے ایمان کے سبب سے مشکلات کا سامنا کِیا۔‏ لیکن یہوواہ کے گواہوں کی بابت خاص بات یہ تھی کہ انہیں ایک تنظیم کے طور پر اذیت کا نشانہ بنایا گیا۔‏ انکی اکثریت نے ”‏آدمیوں کے حکم کی نسبت خدا کا حکم ماننا زیادہ فرض“‏ سمجھا۔‏—‏اعمال ۵:‏۲۹؛‏ مرقس ۱۲:‏۱۷‏۔‏

مسئلے کی جڑ

لہٰذا ہم جزوی طور پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ مذہب انسان کے مسائل کی جڑ ہے۔‏ جی‌ہاں جھوٹا مذہب ہی تمام مسائل کی جڑ ہے۔‏ بہت جلد خدا جھوٹے مذہب کا خاتمہ کر دیگا۔‏ (‏مکاشفہ ۱۷:‏۱۶،‏ ۱۷؛‏ ۱۸:‏۲۱‏)‏ خدا انصاف اور راستبازی سے محبت رکھنے والے ہر شخص کو حکم دیتا ہے:‏ ”‏اُس [‏بڑے بابل،‏ جھوٹے مذہب کی عالمی مملکت]‏ میں سے نکل آؤ تاکہ تم اُسکے گناہوں میں شریک نہ ہو اور اُسکی آفتوں میں سے کوئی تُم پر نہ آ جائے۔‏ کیونکہ اُسکے گناہ آسمان تک پہنچ گئے ہیں اور اُسکی بدکاریاں خدا کو یاد آ گئی ہیں۔‏“‏ (‏مکاشفہ ۱۸:‏۴،‏ ۵‏)‏ جی‌ہاں،‏ خدا کو ایسے مذہب سے سخت نفرت ہے جو ’‏لوگوں کو جنگ میں حصہ لینے کی ترغیب دیتا ہے اور اُنکو ایک ایسے نشے میں ڈالتا ہے جس سے اُنکا ضمیر بےحس ہو جاتا ہے؛‏ جو لوگوں کو دُنیا میں ہونے والے تمام ہولناک واقعات کو نظرانداز کرنے دیتا ہے اور اُنکو نفرت سے بھرتے ہوئے وہمی اور خوف‌زدہ بناتا اور اُنکے اندر تنگ‌نظری پیدا کرتا ہے۔‏‘‏

اس وقت،‏ خدا سچائی سے محبت رکھنے والے لوگوں کو سچے مذہب میں جمع کر رہا ہے۔‏ یہ ایک ایسا مذہب ہے جو ایک پُرمحبت،‏ انصاف‌پسند اور رحیم خدا کے اصولوں اور تعلیمات پر قائم ہے۔‏ (‏میکاہ ۴:‏۱،‏ ۲؛‏ صفنیاہ ۳:‏۸،‏ ۹؛‏ متی ۱۳:‏۳۰‏)‏ اگر آپ سچے مذہب کی شناخت کے بارے میں مزید جاننا چاہتے ہیں تو پھر اِس رسالے کے ناشرین کو لکھیں یا یہوواہ کے گواہوں سے مدد حاصل کریں۔‏

‏[‏صفحہ ۷ پر تصویر]‏

ہر نسل اور قوم کے لوگ سچے مذہب سے خوشی حاصل کر رہے ہیں