مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

‏’‏دیانتدار نوکر‘‏ امتحان پر پورا اُترتا ہے!‏

‏’‏دیانتدار نوکر‘‏ امتحان پر پورا اُترتا ہے!‏

‏’‏دیانتدار نوکر‘‏ امتحان پر پورا اُترتا ہے!‏

‏”‏وقت آ پہنچا ہے کہ خدا کے گھر سے عدالت شروع ہو۔‏“‏—‏۱-‏پطرس ۴:‏۱۷‏۔‏

۱.‏ جب یسوع نے ”‏نوکر“‏ کی جانچ کی تو اُس نے اُسے کیسا پایا؟‏

پنتِکُست ۳۳ س.‏ع.‏ کے دن یسوع نے ایک ”‏نوکر“‏ کو مقرر کِیا تاکہ وہ اُسکے ”‏نوکر چاکروں“‏ کو وقت پر کھانا فراہم کریں۔‏ یسوع ۱۹۱۴ میں بادشاہ کے طور پر تخت‌نشین ہوا اور جلد ہی اُس ”‏نوکر“‏ کی جانچ کرنے کا وقت آ پہنچا۔‏ بیشتر صورتوں میں ”‏نوکر“‏ نے خود کو ”‏دیانتدار اور عقلمند“‏ ثابت کِیا۔‏ لہٰذا،‏ اُس نے اُسے ”‏اپنے سارے مال کا مختار“‏ بنا دیا۔‏ (‏متی ۲۴:‏۴۵-‏۴۷‏)‏ تاہم،‏ ایک خراب نوکر بھی تھا جو نہ دیانتدار اور نہ ہی عقلمند تھا۔‏

‏”‏وہ خراب نوکر“‏

۲،‏ ۳.‏ ”‏وہ خراب نوکر“‏ کہاں سے نکلا اور کیسے بڑھا؟‏

۲ ‏”‏دیانتدار اور عقلمند نوکر“‏ کی بابت گفتگو کرنے کے فوراً بعد یسوع نے خراب نوکر کا ذکر کرتے ہوئے کہا:‏ ”‏لیکن اگر وہ خراب نوکر اپنے دل میں یہ کہہ کر کہ میرے مالک کے آنے میں دیر ہے۔‏ اپنے ہمخدمتوں کو مارنا شروع کرے اور شرابیوں کے ساتھ کھائے پئے۔‏ تو اُس نوکر کا مالک اَیسے دن کہ وہ اُسکی راہ نہ دیکھتا ہو اور اَیسی گھڑی کہ وہ نہ جانتا ہو آ موجود ہوگا۔‏ اور خوب کوڑے لگا کر اُسکو ریاکاروں میں شامل کریگا۔‏ وہاں رونا اور دانت پیسنا ہوگا۔‏“‏ (‏متی ۲۴:‏۴۸-‏۵۱‏)‏ یہ اظہار ‏”‏وہ خراب نوکر“‏ ہماری توجہ یسوع کے اگلے الفاظ یعنی دیانتدار اور عقلمند نوکر پر دلاتا ہے۔‏ جی‌ہاں،‏ ”‏خراب نوکر“‏ دیانتدار نوکر کے سابقہ اراکین میں سے ہی ہے۔‏ * یہ کیسے واقع ہوا؟‏

۳ سن ۱۹۱۴ سے پہلے،‏ دیانتدار نوکر جماعت کے بیشتر اراکین کی یہ اُمید تھی کہ وہ اُسی سال دُلہے کیساتھ آسمان میں چلے جائینگے مگر اُنکی اُمید پوری نہ ہوئی۔‏ اسکے نتیجے میں اور دیگر وجوہات کی بِنا پر بہتیرے مایوس ہو گئے اور چند تو ناراض ہی ہو گئے۔‏ ان میں سے بعض اپنے سابقہ بھائیوں کے خلاف ہو گئے اور دُنیائےمسیحیت کے مذہبی گروہوں،‏ ”‏متوالوں“‏ کیساتھ مل گئے۔‏—‏یسعیاہ ۲۸:‏۱-‏۳؛‏ ۳۲:‏۶‏۔‏

۴.‏ یسوع نے ”‏خراب نوکر“‏ اور ویسا ہی جذبہ ظاہر کرنے والے تمام لوگوں کیساتھ کیسا برتاؤ کِیا؟‏

۴ یہ سابقہ مسیحی انجام‌کار ”‏خراب نوکر“‏ بن گئے اور یسوع نے اُنہیں ’‏خوب کوڑے لگائے۔‏‘‏ وہ کیسے؟‏ اُس نے اُنہیں رد کر دیا اور وہ اپنی آسمانی اُمید بھی کھو بیٹھے۔‏ تاہم،‏ اُنہیں فوری طور پر ہلاک نہیں کِیا گیا تھا۔‏ پہلے تو اُنہیں ”‏اندھیرے میں“‏ یعنی مسیحی کلیسیا سے باہر رونا اور دانت پیسنا برداشت کرنا پڑا۔‏ (‏متی ۸:‏۱۲‏)‏ اُن ابتدائی ایّام سے لیکر،‏ ممسوح اشخاص میں سے چند دیگر نے بھی اسی طرح کا بُرا جذبہ ظاہر کرتے ہوئے اپنی شناخت ”‏خراب نوکر“‏ کے طور پر کرائی ہے۔‏ بعض ’‏دوسری بھیڑوں‘‏ نے بھی اُنکی بیوفائی کی نقل کی ہے۔‏ (‏یوحنا ۱۰:‏۱۶‏)‏ مسیح کے ایسے تمام دُشمن اُسی روحانی ”‏اندھیرے“‏ کا تجربہ کرتے ہیں۔‏

۵.‏ ”‏خراب نوکر“‏ کے برعکس،‏ ”‏دیانتدار اور عقلمند نوکر“‏ نے کیسا ردِعمل ظاہر کِیا؟‏

۵ یاد رکھیں،‏ ۱۹۱۴ کے بعد ”‏دیانتدار اور عقلمند نوکر“‏ کو بھی اُس ”‏خراب نوکر“‏ جیسی آزمائشوں میں سے گزرنا پڑا۔‏ تاہم،‏ تلخ ہونے کی بجائے،‏ اُنہوں نے اپنی سوچ کو درست کر لیا۔‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۱۳:‏۱۱‏)‏ یہوواہ اور اپنے بھائیوں کیلئے اُنکی محبت نے اُن کو مضبوط کِیا۔‏ نتیجتاً،‏ وہ اس ہنگامہ‌خیز ”‏اخیر زمانہ“‏ کے دوران ”‏حق کا ستون اور بنیاد“‏ ثابت ہوئے ہیں۔‏—‏۱-‏تیمتھیس ۳:‏۱۵؛‏ ۲-‏تیمتھیس ۳:‏۱‏۔‏

عقلمند اور بیوقوف کنواریاں

۶.‏ (‏ا)‏ یسوع نے اپنی دیانتدار نوکر جماعت کی عقلمندی کو کیسے بیان کِیا؟‏ (‏ب)‏ ۱۹۱۴ سے پہلے بہتیرے ممسوح مسیحی کیا اُمید رکھتے تھے؟‏

۶ اُس ”‏خراب نوکر“‏ کا ذکر کرنے کے بعد یسوع نے یہ ظاہر کرنے کے لئے دو تمثیلیں بیان کیں کہ کیوں سب کے سب ممسوح مسیحی دیانتدار اور عقلمند ثابت نہیں ہونگے۔‏ * عقلمندی کو ظاہر کرتے ہوئے اُس نے کہا:‏ ”‏آسمان کی بادشاہی اُن دس کنواریوں کی مانند ہوگی جو اپنی مشعلیں لے کر دُلہا کے استقبال کو نکلیں۔‏ اُن میں پانچ بیوقوف اور پانچ عقلمند تھیں۔‏ بیوقوف کنواریوں نے اپنی مشعلیں تو لیں مگر تیل اپنے ساتھ نہ لیا۔‏ مگر عقلمندوں نے اپنی مشعلوں کے ساتھ اپنی کپیوں میں تیل بھی لے لیا۔‏“‏ (‏متی ۲۵:‏۱-‏۴‏)‏ دس کنواریاں ہمیں ۱۹۱۴ سے پہلے کے ممسوح مسیحیوں کی یاد دلاتی ہیں۔‏ اُنہوں نے اس بات کا اندازہ لگا لیا تھا کہ دُلہے،‏ یسوع مسیح کا ظہور ہونے والا ہے۔‏ پس وہ دلیری کیساتھ یہ منادی کرتے ہوئے کہ ”‏غیرقوموں کی میعاد“‏ ۱۹۱۴ میں ختم ہو جائیگی یسوع کے ’‏استقبال کو نکلے۔‏‘‏—‏لوقا ۲۱:‏۲۴‏۔‏

۷.‏ کب اور کیوں ممسوح مسیحی ’‏سو گئے؟‏‘‏

۷ وہ صحیح کہہ رہے تھے۔‏ غیرقوموں کی میعاد ۱۹۱۴ میں ختم ہو گئی اور خدا کی بادشاہی نے مسیح یسوع کے تحت کام کرنا شروع کر دیا۔‏ مگر یہ سب کچھ آسمان پر آنکھوں سے اوجھل ہوا تھا۔‏ زمین پر انسانوں نے پیشینگوئی کے مطابق ’‏مصیبت‘‏ کا سامنا کرنا شروع کر دیا۔‏ (‏مکاشفہ ۱۲:‏۱۰،‏ ۱۲‏)‏ آزمائش کا وقت شروع ہو گیا۔‏ ممسوح مسیحیوں نے معاملات کو واضح طور پر نہ سمجھتے ہوئے سوچا کہ ’‏دُلہے کو آنے میں دیر‘‏ ہو گئی ہے۔‏ پریشانیوں اور دُنیا کی رقابت کا سامنا کرتے ہوئے،‏ وہ سُست پڑ گئے اور منظم منادی کا کام بند کر دیا۔‏ تمثیل کی کنواریوں کی مانند،‏ وہ روحانی طور پر ’‏اُونگھنے لگے اور سو گئے‘‏ بالکل اُسی طرح جیسے یسوع کے رسولوں کی وفات کے بعد بیوفا نام‌نہاد مسیحیوں نے کِیا تھا۔‏—‏متی ۲۵:‏۵؛‏ مکاشفہ ۱۱:‏۷،‏ ۸؛‏ ۱۲:‏۱۷‏۔‏

۸.‏ سن ۱۹۱۹ میں،‏ کیا چیز ”‏دیکھو دُلہا آ گیا!‏“‏ کی دھوم کا باعث بنی اور اس وقت ممسوح مسیحیوں کو کیا کرنے کی ضرورت تھی؟‏

۸ پھر ۱۹۱۹ میں کچھ غیرمتوقع واقعات رونما ہوئے۔‏ ہم پڑھتے ہیں:‏ ”‏آدھی رات کو دھوم مچی کہ دیکھو دُلہا آ گیا!‏ اُسکے استقبال کو نکلو۔‏ اُس وقت وہ سب کنواریاں اُٹھ کر اپنی اپنی مشعل درست کرنے لگیں۔‏“‏ (‏متی ۲۵:‏۶،‏ ۷‏)‏ جب صورتحال بظاہر مایوس‌کُن دکھائی دے رہی تھی تو اچانک سرگرم ہونے کا شور مچ گیا!‏ سن ۱۹۱۸ میں،‏ ’‏عہد کے رسول‘‏ یسوع کو یہوواہ کی روحانی ہیکل کا جائزہ لینے اور خدا کی کلیسیا کو صاف کرنے کیلئے آنا پڑا۔‏ (‏ملاکی ۳:‏۱‏)‏ اُس وقت،‏ ممسوح مسیحیوں کو باہر جا کر ہیکل کے زمینی صحنوں میں اُسے ملنا تھا۔‏ یہ اُن کیلئے ”‏منور“‏ ہونے کا وقت تھا۔‏—‏یسعیاہ ۶۰:‏۱؛‏ فلپیوں ۲:‏۱۴،‏ ۱۵‏۔‏

۹،‏ ۱۰.‏ سن ۱۹۱۹ میں،‏ بعض مسیحی ”‏عقلمند“‏ اور بعض ”‏بیوقوف“‏ کیسے ثابت ہوئے؟‏

۹ ذرا ٹھہریں!‏ تمثیل میں بعض کنواریوں کو مشکل کا سامنا کرنا پڑا تھا۔‏ یسوع بیان کرتا ہے:‏ ”‏بیوقوفوں نے عقلمندوں سے کہا کہ اپنے تیل میں سے کچھ ہمکو بھی دیدو کیونکہ ہماری مشعلیں بجھی جاتی ہیں۔‏“‏ (‏متی ۲۵:‏۸‏)‏ تیل کے بغیر چراغوں نے بجھ جانا تھا۔‏ پس تیل ہمیں خدا کے کلام اور اُسکی پاک رُوح کی یاد دلاتا ہے جو سچے پرستاروں کو چراغوں کی مانند چمکتے رہنے کی قوت بخشتے ہیں۔‏ (‏زبور ۱۱۹:‏۱۳۰؛‏ دانی‌ایل ۵:‏۱۴‏)‏ سن ۱۹۱۹ سے پہلے،‏ عقلمند ممسوح مسیحی اپنی کمزور حالت کے باوجود،‏ مستعدی کیساتھ خدا کی مرضی کو جاننے میں لگے رہے۔‏ پس جب روشنی چمکانے کا وقت آیا تو وہ بالکل تیار تھے۔‏—‏۲-‏تیمتھیس ۴:‏۲؛‏ عبرانیوں ۱۰:‏۲۴،‏ ۲۵‏۔‏

۱۰ تاہم،‏ بعض ممسوح مسیحی قربانیاں کرنے یا ذاتی کوشش کرنے کیلئے تیار نہیں تھے—‏اگرچہ وہ دُلہے کیساتھ جانے کی شدید خواہش رکھتے تھے۔‏ لہٰذا جب خوشخبری کی منادی کرنے کا وقت آیا تو وہ اس کیلئے تیار نہیں تھے۔‏ (‏متی ۲۴:‏۱۴‏)‏ اِسکی بجائے اُنہوں نے تو اپنے سرگرم ساتھیوں سے تیل مانگتے ہوئے اُنہیں بھی سُست کرنے کی کوشش کی تھی۔‏ یسوع کی تمثیل میں عقلمند کنواریوں نے کیسا جوابی‌عمل دکھایا؟‏ اُنہوں نے کہا:‏ ”‏شاید ہمارے تمہارے دونوں کے لئے کافی نہ ہو۔‏ بہتر یہ ہے کہ بیچنے والوں کے پاس جاکر اپنے واسطے مول لے لو۔‏“‏ (‏متی ۲۵:‏۹‏)‏ اسی طرح،‏ ۱۹۱۹ میں وفادار ممسوح مسیحیوں نے ہر وہ کام کرنے سے انکار کر دیا جو اُنکی روشنی کو ماند کر سکتا تھا۔‏ وہ امتحان پر پورے اُترے۔‏

۱۱.‏ قوف کنواریوں کیساتھ کیا واقع ہوا؟‏

۱۱ آخر میں یسوع بیان کرتا ہے:‏ ”‏جب وہ [‏بیوقوف کنواریاں]‏ مول لینے جا رہی تھیں تو دُلہا آ پہنچا اور جو تیار تھیں وہ اُسکے ساتھ شادی کے جشن میں اندر چلی گئیں اور دروازہ بند ہوگیا۔‏ پھر وہ باقی کنواریاں بھی آئیں اور کہنے لگیں اَے خداوند!‏ اَے خداوند!‏ ہمارے لئے دروازہ کھول دے۔‏ اُس نے جواب میں کہا مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ مَیں تمکو نہیں جانتا۔‏“‏ (‏متی ۲۵:‏۱۰-‏۱۲‏)‏ جی‌ہاں،‏ بعض دُلہے کی آمد کیلئے بالکل تیار نہیں تھے۔‏ لہٰذا وہ امتحان میں ناکام ہو گئے اور آسمان پر شادی کی ضیافت میں شریک ہونے کا موقع گنوا بیٹھے۔‏ کسقدر افسوسناک!‏

توڑوں کی تمثیل

۱۲.‏ (‏ا)‏ وفاداری کو ظاہر کرنے کیلئے یسوع نے کونسی تمثیل پیش کی؟‏ (‏ب)‏ ”‏پردیس“‏ جانے والا شخص کون تھا؟‏

۱۲ عقلمندی کی بابت تمثیل بیان کرنے کے بعد،‏ یسوع نے وفاداری کی بابت تمثیل پیش کی۔‏ اُس نے بیان کِیا:‏ ”‏یہ اُس آدمی کا سا حال ہے جس نے پردیس جاتے وقت اپنے گھر کے نوکروں کو بلا کر اپنا مال اُنکے سپرد کِیا۔‏ اور ایک کو پانچ توڑے دئے۔‏ دوسرے کو دو اور تیسرے کو ایک یعنی ہر ایک کو اُسکی لیاقت کے مطابق دیا اور پردیس چلا گیا۔‏“‏ (‏متی ۲۵:‏۱۴،‏ ۱۵‏)‏ تمثیل میں بیان‌کردہ آدمی خود یسوع ہے،‏ جو ۳۳ س.‏ع.‏ میں آسمان پر یعنی ”‏پردیس“‏ چلا گیا۔‏ لیکن آسمان پر جانے سے پہلے یسوع نے ”‏اپنا مال“‏ اپنے وفادار شاگردوں کے سپرد کر دیا۔‏ مگر کیسے؟‏

۱۳.‏ یسوع نے کیسے کارگزاری کے وسیع میدان کو تیار کِیا اور اپنے ”‏نوکروں“‏ کو لین‌دین کرنے کا اختیار بخشا؟‏

۱۳ اپنی زمینی خدمتگزاری کے دوران،‏ یسوع نے اسرائیل کے سارے ملک میں بادشاہی کی خوشخبری کی منادی کرنے سے کارگزاری کے ایک وسیع میدان کا آغاز کِیا تھا۔‏ (‏متی ۹:‏۳۵-‏۳۸‏)‏ ”‏پردیس“‏ جانے سے پہلے،‏ اُس نے یہ میدان اپنے وفادار شاگردوں کو سونپتے ہوئے کہا:‏ ”‏پس تم جاکر سب قوموں کو شاگرد بناؤ اور اُنکو باپ اور بیٹے اور رُوح‌اُلقدس کے نام سے بپتسمہ دو۔‏ اور اُنکو یہ تعلیم دو کہ اُن سب باتوں پر عمل کریں جنکا مَیں نے تم کو حکم دیا۔‏“‏ (‏متی ۲۸:‏۱۸-‏۲۰‏)‏ اِن الفاظ کیساتھ یسوع نے اپنے واپس لوٹنے تک ”‏نوکروں“‏ کو ”‏ہر ایک کو اُسکی لیاقت کے مطابق“‏ لین‌دین کرنے کا اختیار بخشا۔‏

۱۴.‏ سب سے ایک جیسا لین‌دین کرنے کی توقع کیوں نہیں کی جا رہی تھی؟‏

۱۴ یہ اظہار ظاہر کرتا ہے کہ پہلی صدی کے مسیحیوں کو یکساں استحقاق یا ذمہ‌داریاں نہیں سونپی گئی تھیں۔‏ پولس اور تیمتھیس کی طرح،‏ بعض کو اپنے حالات کے مطابق منادی کرنے اور تعلیم دینے کے کام میں بھرپور شرکت کرنے کی اجازت تھی۔‏ دیگر کے حالات نے شاید کام کرنے کی اُنکی آزادی کو بڑی حد تک محدود کر دیا تھا۔‏ مثال کے طور پر،‏ بعض مسیحی غلام تھے،‏ دیگر بیمار،‏ عمررسیدہ یا خاندانی ذمہ‌داریوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے تھے۔‏ بِلاشُبہ،‏ بعض کلیسیائی ذمہ‌داریاں سب شاگردوں کو نہیں سونپی گئی تھیں۔‏ ممسوح عورتیں اور بعض ممسوح آدمی کلیسیا میں تعلیم نہیں دیتے تھے۔‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۱۴:‏۳۴؛‏ ۱-‏تیمتھیس ۳:‏۱؛‏ یعقوب ۳:‏۱‏)‏ اپنے حالات سے قطع‌نظر،‏ مسیح کے تمام ممسوح شاگردوں نے لین‌دین کرنا تھا اور اپنے استحقاق اور حالات کو مسیحی خدمتگزاری کے سلسلے میں بھرپور طریقے سے استعمال کرنا تھا۔‏ زمانۂ‌جدید کے شاگرد بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔‏

ملاحظے کا وقت شروع ہوتا ہے!‏

۱۵،‏ ۱۶.‏ (‏ا)‏ حساب کب لیا گیا تھا؟‏ (‏ب)‏ وفادار اشخاص کو ’‏لین‌دین کرنے‘‏ کے کونسے نئے مواقع دئے گئے تھے؟‏

۱۵ تمثیل مزید بیان کرتی ہے:‏ ”‏بڑی مدت کے بعد اُن نوکروں کا مالک آیا اور اُن سے حساب لینے لگا۔‏“‏ (‏متی ۲۵:‏۱۹‏)‏ سن ۱۹۱۴ میں،‏ مسیح یسوع نے اپنی شاہانہ موجودگی کا آغاز کِیا جوکہ یقیناً ۳۳ س.‏ع.‏ کے طویل عرصہ بعد ایسا ہوا تھا۔‏ ساڑھے تین سال بعد،‏ ۱۹۱۸ میں وہ اپنی روحانی ہیکل میں آیا اور پطرس کے اِن الفاظ کی تکمیل ہوئی:‏ ”‏وہ وقت آ پہنچا ہے کہ خدا کے گھر سے عدالت شروع ہو۔‏“‏ (‏۱-‏پطرس ۴:‏۱۷؛‏ ملاکی ۳:‏۱‏)‏ یہ حساب لینے کا وقت تھا۔‏

۱۶ ‏”‏نوکروں“‏ یعنی یسوع کے ممسوح بھائیوں نے بادشاہ کے ”‏توڑوں“‏ کیساتھ کیا کِیا تھا؟‏ بہتیرے نوکر ۳۳ س.‏ع.‏ سے سن ۱۹۱۴ تک یسوع کے ”‏لین‌دین“‏ میں سخت محنت کر رہے تھے۔‏ (‏متی ۲۵:‏۱۶‏)‏ پہلی عالمی جنگ کے دوران بھی،‏ اُنہوں نے مالک کی خدمت کرنے کی شدید خواہش کا اظہار کِیا تھا۔‏ اب وفادار اشخاص کو لین‌دین کرنے کے نئے مواقع دینا بالکل موزوں تھا۔‏ اس نظام‌العمل کے خاتمے کا وقت آ گیا تھا۔‏ خوشخبری کی منادی پوری دُنیا میں کی جانی تھی۔‏ ”‏زمین کی فصل“‏ کی کٹائی کی جانی تھی۔‏ (‏مکاشفہ ۱۴:‏۶،‏ ۷،‏ ۱۴-‏۱۶‏)‏ گیہوں جماعت کے آخری اراکین کو اور دوسری بھیڑوں کی ”‏بڑی بِھیڑ“‏ کو جمع کِیا جانا تھا۔‏—‏مکاشفہ ۷:‏۹؛‏ متی ۱۳:‏۲۴-‏۳۰‏۔‏

۱۷.‏ وفادار ممسوح مسیحی ’‏اپنے مالک کی خوشی میں‘‏ کیسے شریک ہوئے تھے؟‏

۱۷ کٹائی کا وقت خوشی کا وقت ہوتا ہے۔‏ (‏زبور ۱۲۶:‏۶‏)‏ پس جب ۱۹۱۹ میں یسوع نے اپنے وفادار ممسوح بھائیوں کو اضافی ذمہ‌داری سونپی تو اُن سے یہ کہنا موزوں تھا:‏ ”‏اَے اچھے اور دیانتدار نوکر شاباش!‏ تُو تھوڑے میں دیانتدار رہا۔‏ مَیں تجھے بہت چیزوں کا مختار بناؤنگا۔‏ اپنے مالک کی خوشی میں شریک ہو۔‏“‏ (‏متی ۲۵:‏۲۱،‏ ۲۳‏)‏ علاوہ‌ازیں،‏ خدا کی بادشاہت کے نئے تخت‌نشین بادشاہ کے طور پر مالک کی خوشی ہمارے تصور سے بھی زیادہ ہے۔‏ (‏زبور ۴۵:‏۱،‏ ۲ ۶،‏ ۷)‏ وفادار نوکر جماعت زمین پر بادشاہ کی نمائندگی کرنے اور اُسکے مفادات کو بڑھانے سے اُس کی خوشی میں شریک ہوئے تھے۔‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۵:‏۲۰‏)‏ اُنکی خوشی یسعیاہ ۶۱:‏۱۰ کے نبوّتی الفاظ سے عیاں ہے:‏ ”‏مَیں [‏یہوواہ]‏ سے بہت شادمان ہونگا۔‏ میری جان میرے خدا میں مسرور ہوگی کیونکہ اُس نے مجھے نجات کے کپڑے پہنائے۔‏“‏

۱۸.‏ بعض ملاحظہ کے وقت امتحان پر کیوں پورے نہیں اُترے تھے؟‏

۱۸ افسوس کی بات ہے کہ بعض ملاحظہ کے وقت امتحان پر پورے نہیں اُترے تھے۔‏ ہم پڑھتے ہیں:‏ ”‏جسکو ایک توڑا ملا تھا وہ بھی پاس آکر کہنے لگا اَے خداوند مَیں تجھے جانتا تھا کہ تُو سخت آدمی ہے اور جہاں نہیں بویا وہاں سے کاٹتا ہے اور جہاں نہیں بکھیرا وہاں سے جمع کرتا ہے۔‏ پس مَیں ڈرا اور جاکر تیرا توڑا زمین میں چھپا دیا۔‏ دیکھ جو تیرا ہے وہ موجود ہے۔‏“‏ (‏متی ۲۵:‏۲۴،‏ ۲۵‏)‏ اسی طرح بعض ممسوح مسیحیوں نے بھی ”‏لین‌دین“‏ میں حصہ نہیں لیا تھا۔‏ اُنہوں نے ۱۹۱۴ سے پہلے گرمجوشی کیساتھ دوسروں کو اپنی اُمید میں شریک نہیں کِیا تھا اور وہ ۱۹۱۹ میں بھی اِس کام کو شروع کرنا نہیں چاہتے تھے۔‏ یسوع نے اُنکی گستاخی کا جواب کیسے دیا؟‏ اُس نے اُن سے تمام استحقاقات چھین لئے۔‏ اُنہیں ”‏باہر اندھیرے میں ڈال“‏ دیا جہاں ”‏رونا اور دانت پیسنا ہوگا۔‏“‏—‏متی ۲۵:‏۲۸،‏ ۳۰‏۔‏

ملاحظہ جاری رہتا ہے

۱۹.‏ کس لحاظ سے ملاحظے کا عمل جاری رہتا ہے اور تمام ممسوح مسیحی کس بات کیلئے پُرعزم ہیں؟‏

۱۹ بِلاشُبہ،‏ جب یسوع نے ۱۹۱۸ میں ملاحظہ شروع کِیا تو جنہوں نے آخری ایّام میں مسیح کے ممسوح خادم بننا تھا وہ یہوواہ کی خدمت نہیں کر رہے تھے۔‏ کیا اُنہوں نے ملاحظہ کئے جانے کے موقع کو کھو دیا۔‏ ہرگز نہیں۔‏ ملاحظے کا عمل ۱۹/‏۱۹۱۸ میں ابھی شروع ہی ہوا تھا اور اُس وقت دیانتدار اور عقلمند نوکر ایک جماعت کے طور پر آزمائش پر پورا اُترا تھا۔‏ انفرادی ممسوح مسیحیوں کا ملاحظہ اُس وقت تک جاری رہتا ہے جبتک کہ اُن پر مستقل مہر نہیں ہو جاتی۔‏ (‏مکاشفہ ۷:‏۱‏)‏ اِس اصول کو سمجھتے ہوئے مسیح کے ممسوح بھائی وفاداری کیساتھ ’‏لین‌دین‘‏ کرنے کا عزمِ‌مُصمم رکھتے ہیں۔‏ وہ دیانتدار رہنے کیلئے پُرعزم ہیں اور اپنے ساتھ وافر مقدار میں تیل رکھتے ہیں تاکہ روشنی تیز رہے۔‏ وہ جانتے ہیں کہ جب ہر ایک وفاداری کیساتھ اپنی زندگی کی دَوڑ مکمل کر لیتا ہے تو یسوع اُسے آسمانی مقاموں میں جگہ دیگا۔‏—‏متی ۲۴:‏۱۳؛‏ یوحنا ۱۴:‏۲-‏۴؛‏ ۱-‏کرنتھیوں ۱۵:‏۵۰،‏ ۵۱‏۔‏

۲۰.‏ (‏ا)‏ آجکل دوسری بھیڑیں کیا کرنے کیلئے پُرعزم ہیں؟‏ (‏ب)‏ ممسوح مسیحی کس بات سے پوری طرح واقف ہیں؟‏

۲۰ دوسری بھیڑوں کی بڑی بِھیڑ نے اپنے ممسوح بھائیوں کی نقل کی ہے۔‏ وہ بھی اِس بات سے واقف ہیں کہ خدا کے مقاصد کا علم اُن پر بڑی بھاری ذمہ‌داری لاتا ہے۔‏ (‏حزقی‌ایل ۳:‏۱۷-‏۲۱‏)‏ لہٰذا یہوواہ کے کلام اور پاک روح کی مدد سے وہ بھی مطالعے اور رفاقت کے ذریعے اپنے تیل کی رسد کو قائم رکھتے ہیں۔‏ چنانچہ وہ منادی اور تعلیم دینے کے کام میں حصہ لینے سے اپنی روشنی چمکاتے ہیں اور یوں اپنے ممسوح بھائیوں کیساتھ ’‏لین‌دین‘‏ کرتے ہیں۔‏ تاہم،‏ ممسوح مسیحی اِس بات سے پوری طرح واقف ہیں کہ توڑے اُنکی ذمہ‌داری میں دئے گئے تھے۔‏ جس طریقے سے خداوند کے اثاثوں کو زمین پر کام میں لایا جاتا ہے وہ اُس کیلئے جوابدہ ہیں۔‏ وہ اپنی محدود تعداد کے باوجود اپنی ذمہ‌داری کو بڑی بِھیڑ کے حوالے نہیں کر سکتے۔‏ اِس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ”‏دیانتدار اور عقلمند نوکر“‏ بادشاہ کے مال کی دیکھ‌بھال کرنے میں پیشوائی کرنا جاری رکھتا ہے اور بڑی بِھیڑ کے عقیدتمند اراکین کی مدد کیلئے شکرگزار ہے۔‏ بڑی بِھیڑ کے اراکین اپنے ممسوح بھائیوں کی ذمہ‌داری کو سمجھتے ہیں اور اُنکی زیرِنگرانی کام کرنے کو ایک اعزاز خیال کرتے ہیں۔‏

۲۱.‏ ہمارے زمانے تک تمام مسیحیوں پر کس تاکید کا اطلاق ہوتا ہے؟‏

۲۱ اگرچہ یہ دو تمثیلیں ۱۹۱۹ اور اِس سے پہلے اور بعد کے واقعات پر روشنی ڈالتی ہیں توبھی اصولی طور پر یہ دونوں تمثیلیں آخری دنوں کے دوران تمام مسیحیوں پر عائد ہوتی ہیں۔‏ اِس طریقے سے،‏ اگرچہ دس کنواریوں کی تمثیل کے آخر پر یسوع کی تاکید کا اطلاق بنیادی طور پر ۱۹۱۹ سے پہلے کے ممسوح مسیحیوں پر ہوتا ہے توبھی اصولی طور پر اسکا اطلاق ہر مسیحی پر ہوتا ہے۔‏ پس ہم سب کو یسوع کے الفاظ پر دھیان دینا چاہئے:‏ ”‏پس جاگتے رہو کیونکہ تم نہ اُس دن کو جانتے ہو نہ اُس گھڑی کو۔‏“‏—‏متی ۲۵:‏۱۳‏۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 2 جیسے رسولوں کی وفات کے بعد ہوا تھا ویسے ہی ممسوح مسیحی بزرگوں میں سے ”‏پھاڑنے والے بھیڑئے“‏ اُٹھ کھڑے ہوئے تھے۔‏—‏اعمال ۲۰:‏۲۹،‏ ۳۰‏۔‏

^ پیراگراف 6 یسوع کی تمثیل پر ایک اَور بحث کیلئے یہوواہ کے گواہوں کی شائع‌کردہ کتاب ورلڈوائڈ سیکورٹی انڈر دی ”‏پرنس آف پیس“‏ کے باب ۵ اور ۶ کا مطالعہ کریں۔‏

کیا آپ وضاحت کر سکتے ہیں؟‏

‏• یسوع نے اپنے پیروکاروں کا ملاحظہ کب کِیا اور اُس نے کیا پایا؟‏

‏• بعض ممسوح مسیحیوں نے ”‏شریر نوکر“‏ کا رویہ کیوں اپنایا تھا؟‏

‏• ہم خود کو روحانی طور پر عقلمند کیسے ظاہر کر سکتے ہیں؟‏

‏• یسوع کے دیانتدار ممسوح بھائیوں کی نقل کرتے ہوئے ہم کس مفہوم میں ’‏لین‌دین‘‏ کر سکتے ہیں؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۱۶ پر بکس]‏

یسوع کب آتا ہے؟‏

متی کی انجیل کے ۲۴ اور ۲۵ باب میں یسوع کے ”‏آنے“‏ کا حوالہ مختلف سیاق‌وسباق میں دیا گیا ہے۔‏ اُسے ”‏آنے“‏ کیلئے نقل‌مکانی کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔‏ اِسکے برعکس،‏ وہ اکثر عدالت کیلئے نوعِ‌انسان یا اپنے پیروکاروں پر توجہ دینے کے مفہوم میں آتا ہے۔‏ لہٰذا،‏ وہ ۱۹۱۴ میں تخت‌نشین بادشاہ کے طور پر اپنی موجودگی کے مفہوم میں ”‏آیا۔‏“‏ (‏متی ۱۶:‏۲۸؛‏ ۱۷:‏۱؛‏ اعمال ۱:‏۱۱‏)‏ وہ ۱۹۱۸ میں عہد کے رسول کے طور پر ”‏آیا“‏ اور یہوواہ کی خدمت کرنے کا دعویٰ کرنے والوں کی عدالت شروع کی۔‏ (‏ملاکی ۳:‏۱-‏۳؛‏ ۱-‏پطرس ۴:‏۱۷‏)‏ وہ ہرمجدون پر یہوواہ کے دشمنوں کو سزا دینے کیلئے ”‏آئے“‏ گا۔‏—‏مکاشفہ ۱۹:‏۱۱-‏۱۶‏۔‏

متی ۲۴:‏۲۹-‏۴۴ اور ۲۵:‏۳۱-‏۴۶ میں آنے (‏یا پہنچنے)‏ کا کئی مرتبہ حوالہ ”‏بڑی مصیبت“‏ کی طرف اشارہ کرتا ہے۔‏ (‏مکاشفہ ۷:‏۱۴‏)‏ اِسکے علاوہ متی ۲۴:‏۲۵ سے ۲۵:‏۳۰ تک کئی مرتبہ ۱۹۱۸ کے بعد اپنے دعویدار شاگردوں کی عدالت کیلئے آنے کا حوالہ دیا گیا ہے۔‏ مثال کے طور پر،‏ یہ کہنا معقول نہیں ہوگا کہ جب یسوع بڑی مصیبت کے وقت ”‏آتا“‏ ہے تو وہ دیانتدار نوکر کو اَجر دیتا ہے،‏ بیوقوف کنواریوں اور سُست نوکر کی عدالت کرتا ہے جس نے مالک کے توڑے کو چھپا دیا تھا۔‏ اِس سے یہ مفہوم لیا جا سکتا ہے کہ اُس وقت ممسوح اشخاص میں سے بہت سے بیوفا ثابت ہونگے اور اُنکی جگہ دوسروں کو دی جائیگی۔‏ تاہم،‏ مکاشفہ ۷:‏۳ اشارہ کرتی ہے کہ اُس وقت تک مسیح کے تمام ممسوح نوکروں پر مستقل ”‏مہر“‏ ہو چکی ہوگی۔‏

‏[‏صفحہ ۱۴ پر تصویر]‏

‏”‏شریر نوکر“‏ کو ۱۹۱۹ میں‌اَجر نہ ملا

‏[‏صفحہ ۱۵ پر تصویر]‏

جب دُلہے کی آمد ہوئی تو عقلمند کنواریاں تیار تھیں

‏[‏صفحہ ۱۷ پر تصویر]‏

دیانتدار نوکر ”‏لین‌دین“‏ میں مصروف رہا

سُست نوکر نے ایسا نہیں کِیا

‏[‏صفحہ ۱۸ پر تصویر]‏

ممسوح اور بڑی بِھیڑ اپنی روشنی مسلسل چمکاتے ہیں