مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

کیا گرجاگھروں کو بچایا جا سکتا ہے؟‏

کیا گرجاگھروں کو بچایا جا سکتا ہے؟‏

کیا گرجاگھروں کو بچایا جا سکتا ہے؟‏

یوگینڈا کے پادری سٹیفن تروموی کے مطابق،‏ ”‏برطانیہ کے لوگ ابھی تک خدا پر ایمان رکھتے ہیں مگر وہ مسیح کیساتھ کوئی عہد نہیں کرنا چاہتے۔‏“‏ کوئی ۲۰ برس پہلے وہ یوگینڈا میں اپنے چرچ پر ہونے والے حملے سے بچ گیا تھا۔‏ آجکل وہ لیڈز،‏ انگلینڈ میں مردوں کے ایک کلب میں بنگو شروع ہونے سے پہلے دس منٹ کا وعظ پیش کرتا ہے۔‏

بحرِاوقیانوس کے دوسری طرف امریکہ میں حال ہی میں منظم ہونے والے اینگلیکن فرقے کو اِسی طرح کے روحانی بحران کا سامنا ہے۔‏ اس فرقے کے باضابطہ ویب سائٹ کے مطابق،‏ ”‏ریاستہائےمتحدہ میں ایک وسیع آبادی چرچ اور روحانیت سے بہت دُور ہے جو انگریزی بولنے والے لوگوں پر مشتمل دُنیا کی ایک بڑی تعداد ہے۔‏ ہم ایک ایسا علاقہ بنتے جا رہے ہیں جہاں مشنری کام کی ضرورت ہے۔‏“‏ اپنے چرچ کے اندر تبدیلیاں لانے کی ناکام کوششوں سے مایوس ہوکر ایک ازسرِنو منظم فرقہ ”‏ریاستہائےمتحدہ میں مشنری کام“‏ شروع کرنے کیلئے روایتی فرقے کو چھوڑ کر ایشیائی اور افریقی لیڈروں کیساتھ مل گیا ہے۔‏

تاہم،‏ افریقی،‏ ایشیائی اور لاطینی امریکہ کے مشنری،‏ یورپ اور شمالی امریکہ کے دعویدار مسیحی ممالک میں منادی کر رہے ہیں؟‏

کون کس کو بچا رہا ہے؟‏

چار صدیوں سے زیادہ عرصہ تک یورپی مشنریوں نے افریقہ،‏ ایشیا اور بحرالکاہل اور جنوبی امریکہ کے ممالک میں نوآبادیات کے عمل کو جاری رکھا۔‏ اُنکا مقصد اُن نام‌نہاد بیدین ممالک میں اپنے مذہب کو پھیلانا تھا۔‏ چنانچہ کچھ عرصے بعد،‏ مبیّنہ طور پر مسیحی اصولوں پر قائم کی جانے والی امریکی نوآبادیاں اُنکے ساتھ مل گئیں اور انجام‌کار یورپی مشنریوں کو پیچھے چھوڑتے ہوئے تمام دُنیا میں اپنی تبلیغی سرگرمیاں شروع کر دیں۔‏ اب صورتحال بدل گئی ہے۔‏

مغربی دُنیا کے باہر مسیحیت کے مطالعہ کے سینٹر کے بانی اور ڈائریکٹر اینڈریو والز کے مطابق ”‏[‏نام‌نہاد مسیحیت]‏ کے فروغ پانے کی جگہ تبدیل ہو گئی ہے۔‏“‏ اِس سے پہلے ۱۹۰۰ میں،‏ دعویدار مسیحیوں کی ۸۰ فیصد آبادی یورپی اور شمالی امریکہ کے لوگوں پر مشتمل تھی۔‏ تاہم،‏ آجکل دعویدار مسیحیوں کی ۶۰ فیصد آبادی افریقہ،‏ ایشیا اور لاطینی امریکہ میں آباد ہے۔‏ ایک حالیہ پریس رپورٹ بیان کرتی ہے:‏ ”‏یورپ میں کیتھولک چرچ مذہبی پیشواؤں کے لئے فلپائن اور انڈیا پر انحصار کرتے ہیں،‏“‏ اور ”‏امریکی کیتھولک پیرشز میں اس وقت چھ فادروں میں سے ایک فادر کو دوسرے ممالک سے درآمد کرتا ہے۔‏“‏ نیدرلینڈز میں زیادہ‌تر گھانا سے افریقی مبلغ خود کو ”‏بیدین برِاعظم میں مشنری چرچ خیال کرتے ہیں۔‏“‏ اِس کے علاوہ اب برطانیہ کے مختلف علاقوں میں برازیل سے مبلغ عبادات کراتے ہیں۔‏ ایک مصنف بیان کرتا ہے:‏ ”‏اب مسیحی تبلیغی کام زوال‌پذیر ہے۔‏“‏

تضاد کا امکان بڑھتا جا رہا ہے

بیدین یورپی ممالک اور شمالی امریکہ میں مشنریوں کی ضرورت بڑھتی جا رہی ہے۔‏ ایک نیوز میگزین بیان کرتا ہے کہ ”‏سکاٹ‌لینڈ میں ۱۰ فیصد سے بھی کم مسیحی باقاعدگی سے چرچ جاتے ہیں۔‏“‏ جرمنی اور فرانس میں تو اِس سے بھی کم لوگ چرچ جاتے ہیں۔‏ ایک پریس رپورٹ بیان کرتی ہے کہ ایک سروے کے مطابق ”‏امریکہ سے تقریباً ۴۰ فیصد اور کینیڈا سے تقریباً ۲۰ فیصد لوگ باقاعدگی سے چرچ جاتے ہیں۔‏“‏ اِسکے برعکس،‏ فلپائن میں تقریباً ۷۰ فیصد حاضری بتائی جاتی ہے اور دیگر ترقی‌پذیر ممالک میں بھی ایسا ہی ہے۔‏

اِس سے بڑھکر،‏ نصف کرۂشمالی کی نسبت نصف کرۂجنوبی کے علاقوں میں چرچ جانے والے روایات کے زیادہ پابند ہیں۔‏ مثال کے طور پر،‏ جب ریاستہائےمتحدہ اور یورپ میں کیتھولک کی رائےشماری کی گئی تو اُنہوں نے باربار پادری طبقے پر اعتماد کی کمی کا اظہار کِیا اور عام لوگوں اور عورتوں کی برابری پر زور دیا۔‏ اِسکے برعکس،‏ نصف کرۂجنوبی کے ممالک میں چرچ کے روایتی مؤقف کی بہت زیادہ حمایت کی۔‏ جب نصف کرۂشمالی کی بجائے نصف کرۂجنوبی میں چرچ کی حمایت بڑھتی جا رہی ہے تو مستقبل کیلئے تضاد کی بنیاد تو پہلے ہی رکھی جا چکی ہے۔‏ تاریخ اور مذہب کا عالم فلپ جین‌کنز پیشگوئی کرتا ہے:‏ ”‏غالباً آئندہ دس یا بیس سال کے اندر عالمی مسیحیت کے دونوں رُکن اپنے حریف کو مکمل یا مستند مسیحی تسلیم نہیں کرینگے۔‏“‏

ایسے رُجحانات کے پیشِ‌نظر،‏ والز کے مطابق اہم سوال یہ ہے کہ ”‏افریقی،‏ ایشیائی،‏ لاطینی امریکی،‏ شمالی امریکی اور یورپی مسیحی کیسے ایک ہی چرچ میں رہتے ہوئے ایک ہی طرح کے ایمان کا مظاہرہ کر سکتے ہیں۔‏“‏ آپ کا کیا خیال ہے؟‏ کیا اس منقسم دُنیا میں گرجاگھر قائم رہ سکتے ہیں؟‏ سچی مسیحیت کے اتحاد کی بنیاد کیا ہے؟‏ اس ثبوت کیساتھ کہ متحد مسیحی برادری عالمی پیمانے پر ترقی کر رہی ہے،‏ اگلا مضمون اسکا صحیفائی جواب پیش کریگا۔‏

‏[‏صفحہ ۴ پر تصویر]‏

یہ سابقہ چرچ اب ایک میوزک کیفے ہے

‏[‏تصویر کا حوالہ]‏

AP Photo/Nancy Palmieri