مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

خروج کی کتاب سے اہم نکات

خروج کی کتاب سے اہم نکات

یہوواہ کا کلام زندہ ہے

خروج کی کتاب سے اہم نکات

خروج کی کتاب اُن لوگوں کی رہائی کی سچی داستان ہے جن سے ’‏تشدد کرکے کام کرایا گیا تھا۔‏‘‏ (‏خروج ۱:‏۱۳‏)‏ یہ ایک قوم کی پیدایش کی بابت ایک دلچسپ سرگزشت بھی ہے۔‏ غیرمعمولی معجزات،‏ اعلیٰ قوانین اور خیمۂ‌اجتماع کی تعمیر اسکے دلکش مضامین میں سے چند ایک ہیں۔‏ بنیادی طور پر خروج کی کتاب ان ہی موضوعات کا احاطہ کرتی ہے۔‏

عبرانی نبی موسیٰ کے ذریعے تحریرکردہ خروج کی کتاب اسرائیلیوں کے ۱۶۵۷ ق.‏س.‏ع.‏ میں یوسف کی وفات سے لیکر ۱۵۱۲ ق.‏س.‏ع.‏ میں خیمۂ‌اجتماع کے مکمل ہونے تک کے تقریباً ۱۴۵ سال کا احاطہ کرتی ہے۔‏ تاہم،‏ یہ سرگزشت محض تاریخی معلومات سے زیادہ کچھ بیان کرتی ہے۔‏ یہ انسانوں کیلئے خدا کے کلام یا پیغام کا ایک حصہ ہے۔‏ اسی لئے اسے ”‏زندہ اور مؤثر“‏ کہا جاتا ہے۔‏ (‏عبرانیوں ۴:‏۱۲‏)‏ پس خروج کی کتاب واقعی ہمارے لئے پُرمطلب ہے۔‏

‏’‏اُنکا رونا خدا تک پہنچا‘‏

‏(‏خروج ۱:‏۱–‏۴:‏۳۱‏)‏

مصر میں رہنے والی یعقوب کی اولاد اتنی تیزی سے بڑھنے لگی کہ اُنہیں سرکاری حکم کے مطابق غلام بنا دیا گیا۔‏ فرعون بادشاہ نے تو اسرائیلی نر بچوں کے قتل کا حکم دے دیا۔‏ اس سے بچ جانے میں کامیاب تین ماہ کے موسیٰ کو فرعون کی بیٹی گود لے لیتی ہے۔‏ اگرچہ وہ شاہی گھرانے میں پرورش پاتا ہے،‏ توبھی ۴۰ برس کی عمر میں موسیٰ اپنی قوم کے لوگوں کی حمایت میں ایک مصری کو ہلاک کر دیتا ہے۔‏ (‏اعمال ۷:‏۲۳،‏ ۲۴‏)‏ وہاں سے فرار ہو کر وہ مدیان بھاگ جاتا ہے۔‏ وہاں وہ شادی کر لیتا ہے اور ایک چرواہے کے طور پر کام کرنے لگتا ہے۔‏ ایک جلتی ہوئی جھاڑی میں سے یہوواہ موسیٰ کو مصر واپس جانے اور اسرائیلیوں کو مصر کی غلامی سے رہائی دلانے کا حکم دیتا ہے۔‏ اُسکے بھائی ہارون کو اُسکا نمائندہ مقرر کر دیا جاتا ہے۔‏

صحیفائی سوالات کے جواب:‏

۳:‏۱‏—‏یترو کس قسم کا کاہن تھا؟‏ سرقبائلی دَور میں خاندان کا سربراہ اپنے خاندان کا کاہن ہوا کرتا تھا۔‏ بدیہی طور پر،‏ یترو بھی مدیانی قبیلے کا سرقبائلی سردار تھا۔‏ چونکہ مدیانی ابرہام کی بیوی قطورہ کی اولاد تھے شاید اسلئے وہ یہوواہ کی پرستش سے واقف تھے۔‏—‏پیدایش ۲۵:‏۱،‏ ۲‏۔‏

۴:‏۱۱‏—‏کس مفہوم میں یہوواہ ’‏گونگا،‏ بہرا یا اندھا‘‏ کرتا ہے؟‏ اگرچہ بعض موقعوں پر یہوواہ نے دیکھنے اور بولنے کی قوت سے محروم کِیا توبھی وہ ایسی معذوریوں کا ذمہ‌دار نہیں ہے۔‏ (‏پیدایش ۱۹:‏۱۱؛‏ لوقا ۱:‏۲۰-‏۲۲،‏ ۶۲-‏۶۴‏)‏ یہ سب کچھ موروثی گُناہ کی وجہ سے ہے۔‏ (‏ایوب ۱۴:‏۴؛‏ رومیوں ۵:‏۱۲‏)‏ چونکہ خدا نے اس حالت کی اجازت دی ہے،‏ اسلئے وہ اپنے بارے میں یہ کہہ سکتا ہے کہ اُس نے گونگا،‏ بہرا یا اندھا کِیا ہے۔‏

۴:‏۱۶‏—‏موسیٰ ہارون کیلئے ”‏گویا خدا“‏ کیسے تھا؟‏ موسیٰ خدا کا نمائندہ تھا۔‏ اسلئے موسیٰ ہارون کیلئے ”‏گویا خدا“‏ تھا کیونکہ ہارون نے موسیٰ کی نمائندگی کرنا تھی۔‏

ہمارے لئے سبق:‏

۱:‏۷،‏ ۱۴‏۔‏ جب یہوواہ کے لوگ مصر میں ظلم کا شکار تھے تو یہوواہ نے اُنکی مدد کی تھی۔‏ اسی طرح وہ آجکل بھی زمانۂ‌جدید کے اپنے گواہوں کی بھی شدید مخالفت کے وقت میں مدد کرتا ہے۔‏

۱:‏۱۷-‏۲۱‏۔‏ یہوواہ ہمیں ”‏بھلائی“‏ کیلئے یاد رکھتا ہے۔‏—‏نحمیاہ ۱۳:‏۳۱‏۔‏

۳:‏۷-‏۱۰‏۔‏ یہوواہ اپنے لوگوں کے رونے کو فوراً سنتا ہے۔‏

۳:‏۱۴‏۔‏ یہوواہ اپنے مقاصد میں کامیاب رہتا ہے۔‏ اسلئے ہم اعتماد رکھ سکتے ہیں کہ وہ بائبل پر مبنی ہماری اُمیدوں کو پورا کریگا۔‏

۴:‏۱۰،‏ ۱۳‏۔‏ موسیٰ بولنے کی اپنی لیاقت کی بابت اتنی بےیقینی کا شکار تھا کہ جب اُسے الہٰی مدد کا یقین دلایا گیا وہ پھر بھی خدا سے درخواست کرتا ہے کہ اُسکی جگہ کسی اَور کو فرعون کے پاس بھیج دے۔‏ اسکے باوجود،‏ یہوواہ نے موسیٰ کو استعمال کِیا اور اس کام کو پورا کرنے کیلئے اُسے قوت اور دانش بخشی۔‏ اپنی ناکامیوں پر سوچتے رہنے کی بجائے،‏ ہمیں مُنادی کرنے اور تعلیم دینے کے اپنے کام کو پورا کرنے کیلئے وفاداری کیساتھ یہوواہ پر بھروسا کرنا چاہئے۔‏—‏متی ۲۴:‏۱۴؛‏ ۲۸:‏۱۹،‏ ۲۰‏۔‏

تعجب‌خیز معجزات رہائی پر منتج ہوتے ہیں

‏(‏خروج ۵:‏۱–‏۱۵:‏۲۱‏)‏

موسیٰ اور ہارون فرعون کے پاس جاکر کہتے ہیں کہ وہ اسرائیلیوں کو جانے دے تاکہ وہ بیابان میں یہوواہ کیلئے عید کریں۔‏ مصری حاکم سختی سے منع کر دیتا ہے۔‏ یہوواہ موسیٰ کے ذریعے یکےبعددیگرے سخت آفتیں لاتا ہے۔‏ صرف دسویں آفت کے بعد فرعون اسرائیلیوں کو جانے دیتا ہے۔‏ تاہم،‏ جلد ہی فرعون اور اُسکے عسکری لشکر اُنکے پیچھے بھاگ نکلتے ہیں۔‏ لیکن یہوواہ نے اپنے لوگوں کے بچ نکلنے کیلئے بحرِقلزم کے دو ٹکڑے کرکے ایک راستہ بنا دیا اور اُنکا تعاقب کرنے والے مصری پھر سے ایک ہو جانے والے سمندر میں ڈوب گئے۔‏

صحیفائی سوالات کے جواب:‏

۶:‏۳‏—‏کس مفہوم میں خدا کا نام ابرہام،‏ اضحاق اور یعقوب پر ظاہر نہیں کِیا گیا تھا؟‏ اِن آبائی بزرگوں نے الہٰی نام کو استعمال کِیا اور یہوواہ نے اُن سے وعدے بھی کئے تھے۔‏ تاہم،‏ اُنہیں اِس بات کا علم یا تجربہ نہیں ہوا تھا کہ یہوواہ اپنے وعدوں کو کیسے پورا کرتا ہے۔‏—‏پیدایش ۱۲:‏۱،‏ ۲؛‏ ۱۵:‏۷،‏ ۱۳-‏۱۶؛‏ ۲۶:‏۲۴؛‏ ۲۸:‏۱۰-‏۱۵‏۔‏

۷:‏۱‏—‏موسیٰ کو ”‏فرعون کیلئے گویا خدا“‏ کیسے ٹھہرایا گیا تھا؟‏ موسیٰ کو فرعون کے خلاف الہٰی غلبہ اور بالادستی عطا کی گئی تھی۔‏ لہٰذا بادشاہ سے خوفزدہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔‏

۷:‏۲۲‏—‏مصری جادوگروں نے وہ پانی کہاں سے حاصل کِیا جو خون میں تبدیل نہیں ہوا تھا؟‏ غالباً اُنہوں نے وہ پانی دریائےنیل سے اِس آفت سے پہلے حاصل کر رکھا تھا۔‏ وہ قابلِ‌استعمال پانی دریائےنیل کے قریب نرم مٹی میں کنویں کھود کر بھی حاصل کِیا جا سکتا تھا۔‏—‏خروج ۷:‏۲۴‏۔‏

۸:‏۲۶،‏ ۲۷‏—‏موسیٰ نے یہ کیوں کہا کہ جو قربانیاں اسرائیلی کرینگے اُن سے ”‏مصری نفرت رکھتے ہیں“‏؟‏ مصر میں مختلف جانوروں کی پرستش کی جاتی تھی۔‏ قربانیوں کے ذکر نے موسیٰ کے اصرار کو جائز اور مدلل بنا دیا تھا تاکہ اسرائیلیوں کو یہوواہ کے حضور قربانی کرنے کیلئے جانے کی اجازت مل جائے۔‏

۱۲:‏۲۹‏—‏کن کو پہلوٹھے خیال کِیا گیا تھا؟‏ صرف نر بچوں ہی کو پہلوٹھوں میں شمار کِیا گیا تھا۔‏ (‏گنتی ۳:‏۴۰-‏۵۱‏)‏ فرعون بھی پہلوٹھا ہونے کے باوجود مارا نہیں گیا تھا۔‏ اُسکا اپنا خاندان تھا۔‏ دسویں آفت کے نتیجے میں خاندان کے سربراہ کی بجائے پہلوٹھا بیٹا مارا گیا تھا۔‏

۱۲:‏۴۰‏—‏اسرائیلیوں نے کتنے عرصہ تک ملکِ‌مصر میں بودوباش کی؟‏ جن ۴۳۰ برسوں کا ذکر کِیا گیا ہے اُن میں وہ تمام عرصہ شامل ہے جو اُنہوں نے ملکِ‌مصر اور ملکِ‌کنعان میں گزارا تھا۔‏ ابرہام نے پچھتّر برس کی عمر میں ۱۹۴۳ ق.‏س.‏ع.‏ میں ملکِ‌کنعان میں داخل ہونے کیلئے دریائےفرات کو عبور کِیا تھا۔‏ (‏پیدایش ۱۲:‏۴‏)‏ اُس وقت سے لیکر ۱۳۰ برس کی عمر میں یعقوب کے مصر میں داخل ہونے تک ۲۱۵ برس کا عرصہ بنتا ہے۔‏ (‏پیدایش ۲۱:‏۵؛‏ ۲۵:‏۲۶؛‏ ۴۷:‏۹‏)‏ اِسکا مطلب یہ ہے کہ اسرائیلیوں نے ۲۱۵ برس تک مصر میں بودوباش کی تھی۔‏

۱۵:‏۸‏—‏کیا بحرِقلزم کا ”‏جم“‏ جانے والا پانی واقعی منجمد ہو گیا تھا؟‏ جس عبرانی لفظ کا ترجمہ ”‏جم“‏ جانا کِیا گیا ہے اُس کا مطلب سکڑ جانا یا گاڑھا ہو جانا ہے۔‏ ایوب ۱۰:‏۱۰ میں دودھ کے جمنے اور دہی بننے کی اصطلاح استعمال ہوئی ہے۔‏ لہٰذا جم جانے والے پانی کا ضروری طور پر یہ مطلب نہیں کہ وہ منجمد یعنی برف بن گیا تھا۔‏ اگر خروج ۱۴:‏۲۱ میں متذکرہ ”‏تُند پوربی آندھی“‏ پانی کو منجمد کرنے کیلئے کافی سرد تھی تو بِلاشُبہ اِسکا مطلب انتہائی سرد بھی ہو سکتا ہے۔‏ جب کوئی واضح چیز پانی کو روکے ہوئے نہیں تھی تو انہیں یہ جما ہوا،‏ منجمد یا گاڑھا دکھائی دیتا ہوگا۔‏

ہمارے لئے سبق:‏

۷:‏۱۴–‏۱۲:‏۳۰‏۔‏ دس آفتیں محض اتفاق نہیں تھیں۔‏ اُن کی پیشگوئی کی گئی تھی اور جسطرح بتایا گیا تھا یہ بالکل ویسے ہی واقع ہوئی تھیں۔‏ یہوواہ کی طرف سے اُن آفات کا آنا واضح طور پر ظاہر کرتا ہے کہ خالق کا پانی،‏ سورج کی روشنی،‏ کیڑےمکوڑوں،‏ جانوروں اور انسانوں پر مکمل اختیار ہے!‏ آفتوں سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ خدا مصیبت لاتے وقت انتخابی رُجحان کو کام میں لاتے ہوئے اپنے دشمنوں پر آفت لا سکتا ہے اور اپنے پرستاروں کو محفوظ رکھ سکتا ہے۔‏

۱۱:‏۲؛‏ ۱۲:‏۳۶‏۔‏ یہوواہ اپنے لوگوں کو برکت بخشتا ہے۔‏ بدیہی طور پر اُس نے اِس بات کو یقینی بنایا کہ اسرائیلیوں کو مصر میں اپنی مشقت کا اَجر ملے۔‏ وہ کوئی جنگی قیدیوں کے طور پر غلام بننے کیلئے نہیں بلکہ آزاد قوم کے طور پر ملک میں آئے تھے۔‏

۱۴:‏۳۰‏۔‏ ہم اعتماد رکھ سکتے ہیں کہ یہوواہ اپنے پرستاروں کو آنے والی ”‏بڑی مصیبت“‏ سے بچائیگا۔‏—‏متی ۲۴:‏۲۰-‏۲۲؛‏ مکاشفہ ۷:‏۹،‏ ۱۴‏۔‏

یہوواہ ایک تھیوکریٹک قوم کو تشکیل دیتا ہے

‏(‏خروج ۱۵:‏۲۲–‏۴۰:‏۳۸‏)‏

مصر سے رہائی پانے کے تین ماہ بعد اسرائیلی کوہِ‌سینا کے دامن میں خیمہ‌زن ہیں۔‏ وہاں اُنہیں دس احکام اور دوسرے قوانین دئے جاتے ہیں،‏ وہ یہوواہ کیساتھ عہد میں شریک ہوتے ہیں اور یوں ایک تھیوکریٹک قوم بن جاتے ہیں۔‏ موسیٰ پہاڑ پر ۴۰ دن گزارتا ہے اور سچی پرستش اور یہوواہ کے مسکن کی تعمیر کی بابت ہدایات حاصل کرتا ہے جوکہ ایک منقولہ ہیکل ہے۔‏ اِسی اثنا میں،‏ اسرائیلی ایک سونے کا بچھڑا بناکر اُسکی پرستش کرنے لگتے ہیں۔‏ موسیٰ پہاڑ سے اُترتے وقت یہ سب کچھ دیکھکر اسقدر غصے میں آ جاتا ہے کہ اُن دونوں لوحوں کو توڑ ڈالتا ہے جو خدا نے اُسے دی تھیں۔‏ خطاکاروں کو مناسب سزا دئے جانے کے بعد وہ دوبارہ پہاڑ پر چڑھ جاتا ہے اور لوحوں کا ایک اَور سیٹ حاصل کرتا ہے۔‏ موسیٰ کی واپسی پر مسکن کی تعمیر شروع ہو جاتی ہے۔‏ اسرائیل کی آزادی کے پہلے سال کے آخر تک اُس حیرت‌انگیز خیمے اور اُسکے تمام سازوسامان کی تعمیر مکمل ہو جانے کے بعد اُسے کھڑا کر دیا جاتا ہے۔‏ اسکے بعد یہوواہ اس خیمے کو اپنے جلال سے معمور کرتا ہے۔‏

صحیفائی سوالات کے جواب:‏

۲۰:‏۵‏—‏یہوواہ ”‏باپ‌دادا کی بدکاری کی سزا“‏ آنے والی نسلوں کو کیونکر دیتا ہے؟‏ جب ایک شخص بالغ ہو جاتا ہے تو اُسکے چال‌چلن اور رویے کے مطابق اُسکا انصاف کِیا جاتا ہے۔‏ لیکن جب بنی‌اسرائیل بُت‌پرستی میں پڑ گیا تو اُسکے بعد اُسکی کئی نسلوں کو اِسکے نتائج بھگتنے پڑے۔‏ وفادار اسرائیلیوں نے بھی اِسکے اثرات کو محسوس کِیا کیونکہ قوم کے مذہبی جُرم نے اُن کیلئے وفاداری کی روش پر قائم رہنا مشکل بنا دیا تھا۔‏

۲۳:‏۱۹؛‏ ۳۴:‏۲۶‏—‏حلوان کو اُسکی ماں کے دودھ میں نہ پکانے کے حکم کی کیا اہمیت تھی؟‏ ایک رپورٹ کے مطابق حلوان (‏بھیڑ،‏ بکری یا کسی دوسرے جانور کا دودھ پیتا بچہ)‏ کو اُسکی ماں کے دودھ میں پکانا بارش مانگنے کی ایک بُت‌پرستانہ رسم تھی۔‏ علاوہ‌ازیں،‏ ماں کا دودھ چونکہ اُسکے بچے کو غذا بخشتا ہے اِسلئے اُسکے بچے کو اُسی کے دودھ میں پکانا بیرحمی کا عمل ہے۔‏ اِس حکم نے خدا کے لوگوں کو یہ سمجھنے میں مدد دی کہ اُنہیں رحمدل ہونا چاہئے۔‏

۲۳:‏۲۰-‏۲۳‏—‏یہاں کس فرشتے کا ذکر کِیا گیا ہے اور کس مفہوم میں یہوواہ کا نام ”‏اُس میں رہتا“‏ تھا؟‏ غالباً یہ فرشتہ انسان بننے سے پہلے یسوع تھا۔‏ اُسے اسرائیلیوں کیلئے ملکِ‌موعود کی راہ میں راہنمائی کرنے کیلئے استعمال کِیا گیا تھا۔‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۱۰:‏۱-‏۴‏)‏ یہوواہ کا نام اُس میں ”‏رہتا ہے،‏“‏ کا مطلب یہ ہے کہ یسوع اپنے باپ کے نام کو سربلند رکھنے اور پاک ٹھہرانے میں پیش‌پیش ہے۔‏

۳۲:‏۱-‏۸،‏ ۲۵-‏۳۵‏—‏ہارون کو سونے کا بچھڑا بنانے کی سزا کیوں نہیں دی گئی تھی؟‏ ہارون دل سے بُت‌پرستی کا حامی نہیں تھا۔‏ بعدازاں،‏ وہ بدیہی طور پر خدا کی حمایت کرنے اور موسیٰ کی مزاحمت کرنے والوں کی مخالفت میں کھڑے ہونے والے لاویوں کیساتھ مل گیا تھا۔‏ جب گنہگاروں کو قتل کر دیا گیا تو موسیٰ نے لوگوں کو یاددہانی کرائی کہ اُنہوں نے بہت بڑا گناہ کِیا تھا،‏ جس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ یہوواہ نے ہارون کے علاوہ دوسرے لوگوں کو بھی معاف کر دیا تھا۔‏

۳۳:‏۱۱،‏ ۲۰‏—‏خدا کس مفہوم میں ”‏روبُرو“‏ ہو کر موسیٰ سے باتیں کرتا تھا؟‏ اِس اظہار سے دو طرفہ دوستانہ گفتگو کا اشارہ ملتا ہے۔‏ موسیٰ خدا کے نمائندے سے ہمکلام ہوا تھا اور اُسکی معرفت یہوواہ سے ہدایت پائی تھی۔‏ لیکن موسیٰ نے یہوواہ کو دیکھا نہیں تھا کیونکہ ’‏کوئی انسان خدا کو دیکھ کر زندہ نہیں رہ سکتا۔‏‘‏ درحقیقت،‏ خدا نے بذاتِ‌خود موسیٰ سے کلام نہیں کِیا تھا۔‏ گلتیوں ۳:‏۱۹ بیان کرتی ہے کہ شریعت ”‏فرشتوں کے وسیلہ سے ایک درمیانی کی معرفت مقرر کی گئی“‏ تھی۔‏

ہمارے لئے سبق:‏

۱۵:‏۲۵؛‏ ۱۶:‏۱۲‏۔‏ یہوواہ اپنے لوگوں کی ضروریات کو پورا کرتا ہے۔‏

۱۸:‏۲۱‏۔‏ مسیحی کلیسیا میں ذمہ‌دار مرتبوں کیلئے منتخب مردوں کو بھی لائق،‏ خداترس اور بےغرض ہونا چاہئے۔‏

۲۰:‏۱–‏۲۳:‏۳۳‏۔‏ یہوواہ اعلیٰ‌وبالا شریعت دینے والا ہے۔‏ جب شریعت کی پیروی کی گئی تو اسرائیلی قوانین کی بدولت ایک منظم اور پُرمسرت طریقے سے اُسکی پرستش کرنے کے لائق ٹھہرے۔‏ یہوواہ آجکل بھی ایک تھیوکریٹک قوم کا حاکم ہے۔‏ اُسکے ساتھ تعاون کرنے سے ہمیں خوشی اور تحفظ حاصل ہوتا ہے۔‏

ہمارے لئے حقیقی مطلب

خروج کی کتاب یہوواہ کی بابت کیا آشکارا کرتی ہے؟‏ خروج کی کتاب اُسے پُرمحبت طریقے سے کفالت کرنے والے،‏ بیمثال چھڑانے والے اور اپنے وعدوں کو پورا کرنے والے کے طور پر پیش کرتی ہے۔‏ خروج کی کتاب اُسے ایک ایسے خدا کے طور پر پیش کرتی ہے جو اپنے لوگوں کو اعلیٰ‌وبالا حاکم کے طور پر اپنے تحت منظم کرتا ہے۔‏

بِلاشُبہ،‏ جب آپ مسیحی خدمتی سکول کی تیاری کرنے کیلئے ہفتہ‌وار بائبل پڑھائی کرتے ہیں تو آپ خروج کی کتاب سے سیکھی ہوئی باتوں سے بہت زیادہ تحریک پائینگے۔‏ جب آپ ”‏صحیفائی سوالات کے جواب“‏ کے حصے میں بیان کی جانے والی باتوں پر غوروخوض کرینگے تو آپ بعض صحیفائی اقتباسات کی گہری سمجھ حاصل کرینگے۔‏ ”‏ہمارے لئے سبق“‏ کے تحت بات‌چیت سے آپ سیکھینگے کہ آپ اُس ہفتے کی پڑھائی سے کیسے فائدہ اُٹھا سکتے ہیں۔‏

‏[‏صفحہ ۲۵،‏ ۲۴ پر تصویر]‏

یہوواہ نے حلیم مردِخدا موسیٰ کو اسرائیلیوں کو غلامی سے چھڑانے کیلئے پیشوائی کرنے کا حکم دیا

‏[‏صفحہ ۲۵ پر تصویر]‏

دس آفات نے ظاہر کِیا کہ خالق کو پانی،‏ سورج کی روشنی،‏ کیڑےمکوڑوں،‏ جانوروں اور انسانوں پر اختیار حاصل ہے

‏[‏صفحہ ۲۷ ،‏۶۷ پر تصویر]‏

یہوواہ نے موسیٰ کے ذریعے اسرائیلیوں کو ایک تھیوکریٹک قوم کے طور پر منظم کِیا