مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

ویسٹ‌فیلیا کا اَمن معاہدہ—‏یورپ میں ایک نقطۂ‌انقلاب

ویسٹ‌فیلیا کا اَمن معاہدہ—‏یورپ میں ایک نقطۂ‌انقلاب

ویسٹ‌فیلیا کا اَمن معاہدہ—‏یورپ میں ایک نقطۂ‌انقلاب

‏”‏جسطرح آج یورپ کے اتنے زیادہ ممالک کے سربراہ اکٹھے جمع ہوئے ہیں ایسا حقیقت میں بہت کم واقع ہوتا ہے۔‏“‏ اکتوبر ۱۹۹۸ میں فیڈرل ریپبلک آف جرمنی کے سابق صدر،‏ رومن ہرٹسوک نے یہ بیان دیا تھا۔‏ جب اُس نے یہ بیان دیا تو اُس وقت چار بادشاہ،‏ چار رانیاں،‏ دو شہزادے،‏ ایک ڈیوکِ‌اعظم اور کئی صدور موجود تھے۔‏ اِس خاص اجلاس کا بندوبست کونسل آف یورپ نے کِیا تھا جو جدید جرمنی کی ۵۰ سالہ تاریخ میں بہت ہی اہم واقعہ تھا۔‏ یہ کونسا موقع تھا؟‏

اکتوبر ۱۹۹۸ ویسٹ‌فیلیا اَمن معاہدے کی ۳۵۰ ویں سالگرہ تھی۔‏ اَمن معاہدے اکثر تاریخ پر گہرے اثرات مرتب کرنے والے نقطۂ‌انقلاب ہوتے ہیں،‏ چنانچہ ویسٹ‌فیلیا اَمن معاہدہ اِس سلسلے میں خاص اہمیت رکھتا ہے۔‏ اِس معاہدے پر ۱۶۴۸ میں دستخط ہوئے اور تیس سالہ جنگ اپنے اختتام کو پہنچی۔‏ اِس معاہدے کے بعد خودمختار ریاستوں پر مشتمل جدید یورپ معرضِ‌وجود میں آیا۔‏

ایک پُرانا نظام تہ‌وبالا

قرونِ‌وسطیٰ کے دوران یورپ میں رومن کیتھولک چرچ اور ہولی رومن امپائر نہایت ہی طاقتور قوتیں تھیں۔‏ مُقدس رومی سلطنت مختلف وسعت کی حامل سینکڑوں ریاستوں پر مشتمل تھی اور موجودہ آسٹریا،‏ چیک ریپبلک،‏ مشرقی فرانس،‏ جرمنی،‏ سوئٹزرلینڈ،‏ زریں علاقوں اور اٹلی کے علاقوں تک پھیلی ہوئی تھی۔‏ اِس کا بڑا حصہ جرمن ریاستوں پر مشتمل تھا لہٰذا یہ سلطنت ہولی رومن امپائر آف دی جرمن نیشن کہلانے لگی۔‏ ہر ریاست نیم‌خودمختار تھی۔‏ شہنشاہ خود رومن کیتھولک تھا جس کا تعلق آسٹریائی ہابس‌برگ خاندان سے تھا۔‏ چنانچہ پاپائیت اور شہنشائیت کے اقتدار میں ہونے کی وجہ سے یورپ رومن کیتھولک ہاتھوں میں خوب مضبوط تھا۔‏

تاہم،‏ ۱۶ ویں اور ۱۷ ویں صدی کے دوران ایک مستحکم نظام تہ‌وبالا ہو گیا۔‏ پورے یورپ میں رومن کیتھولک چرچ کی بےاعتدالیوں کی وجہ سے بڑی بےاطمینانی پائی جاتی تھی۔‏ مارٹن لوتھر اور جان کیلون جیسے مصلحین نے بائبل معیاروں کی پابندی کرنے پر زور دیا۔‏ لوتھر اور کیلون کو بڑی شہرت حاصل ہوئی اور اِس تحریک سے سولہویں صدی کے مذہبی انقلاب اور پروٹسٹنٹ مذاہب نے جنم لیا۔‏ مذہبی انقلاب کی وجہ سے رومی سلطنت تین مذاہب—‏کیتھولک،‏ لوتھرن اور کیلونسٹ میں تقسیم ہو گئی۔‏

کیتھولک مذہب کے لوگ پروٹسٹنٹ مذہب کے لوگوں کو شک کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور پروٹسٹنٹ مذہب کے لوگ اپنے حریف کیتھولک مذہب کے لوگوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔‏ یہ صورتحال ۱۷ ویں صدی کے شروع میں پروٹسٹنٹ یونین اور کیتھولک لیگ کے وجود میں آنے کا سبب بنی۔‏ رومی سلطنت کے بعض حکمران یونین کے ممبر بن گئے اور دیگر نے لیگ کی شمولیت اختیار کر لی۔‏ یورپ—‏بالخصوص رومی سلطنت—‏شک‌وشبہات کا شکار تھی اور ایسی صورتحال میں ذرا سی غلط‌فہمی کی چنگاری سے غصے کی آگ بھڑک سکتی تھی۔‏ جب اُس چنگاری نے زور پکڑا تو ایک ایسی جنگ کی آگ بھڑکی جو اگلے ۳۰ سال تک جاری رہی۔‏

ایک چنگاری نے یورپ میں آگ لگا دی

پروٹسٹنٹ حکمرانوں نے پرستش کے سلسلے میں زیادہ آزادی حاصل کرنے کیلئے کیتھولک ہابس‌برگ کو متاثر کرنے کی کوشش کی۔‏ پرستش کی آزادی دینے کیلئے بڑی حیل‌وحجت سے کام لیا گیا اور ۱۶۱۷-‏۱۶۱۸ کے دوران بوہمیا (‏چیک ریپبلک)‏ میں دو لوتھرن چرچ زبردستی بند کرا دئے گئے۔‏ اِس عمل سے پروٹسٹنٹ حکام سخت ناراض ہوئے اور اُنہوں نے پراگ کے ایک محل میں داخل ہوکر تین کیتھولک اہلکاروں کو پکڑ کر کھڑکی سے باہر پھینک دیا۔‏ اِس کارروائی سے یورپ میں نفرت کی آگ بھرک اُٹھی۔‏

سلامتی کے شہزادے،‏ یسوع مسیح کے پیروکار ہونے کا دعویٰ کرنے کے باوجود مخالف مذاہب کے اراکین ایکدوسرے کے جانی دشمن تھے۔‏ (‏یسعیاہ ۹:‏۶‏)‏ وائٹ ماؤنٹین کی لڑائی میں کیتھولک لیگ نے پروٹسٹنٹ یونین کو شکست دیکر کر ٹکڑےٹکڑے کر دیا۔‏ پروٹسٹنٹ حکام کو پراگ کے بھرے بازار میں موت کے گھاٹ اُتارا دیا گیا۔‏ پورے بوہمیا میں پروٹسٹنٹ مذہب سے توبہ نہ کرنے والوں کی جائیدادیں ضبط کرکے کیتھولکوں میں تقسیم کر دی گئیں۔‏ کتاب ۱۶۴۸—‏کریگ انڈ فریڈن اِن یورپ ‏(‏۱۶۴۸—‏وار اینڈ پیس اِن یورپ)‏ نے جائیدادیں ضبط کرنے کی اِس کارروائی کو ”‏وسطی یورپ میں جائیداد کے مالکانہ حقوق کی وسیع تبدیلی کا نام دیا۔‏“‏

بوہمیا میں شروع ہونے والی مذہبی لڑائی نے بین‌الاقوامی سیاسی برتری حاصل کرنے کی جنگ کی صورت اختیار کر لی۔‏ اگلے ۳۰ سالوں کے دوران،‏ ڈنمارک،‏ فرانس،‏ نیدرلینڈز،‏ سپین اور سویڈن اِس لڑائی میں شریک ہو گئے۔‏ کیتھولک اور پروٹسٹنٹ حکمران اکثر سیاسی برتری اور مالی نفع کے لالچ اور خواہش سے تحریک پاکر ایسا کرتے تھے۔‏ تیس سالہ لڑائی کو شہنشاہ کے بڑے مخالفین کے نام سے منسوب کرتے ہوئے مختلف مراحل میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔‏ مختلف کتابیں ایسے چار مراحل کا ذکر کرتی ہیں:‏ بوہمیان اور پلاٹین وار،‏ ڈینش-‏لوئر ساکسونی وار،‏ سویڈش وار اور فرنچ-‏سویڈش وار۔‏ بیشتر لڑائیاں ہولی رومن امپائر میں لڑی گئیں۔‏

اُس دَور کے جنگی ہتھیاروں میں پستول،‏ بندوق،‏ چھوٹی اور بڑی توپیں شامل تھیں اور سویڈن ہتھیار فراہم کرنے والا بڑا ملک تھا۔‏ کیتھولک اور پروٹسٹنٹ لڑائی میں اُلجھے ہوئے تھے۔‏ سپاہی ”‏سانٹا ماریا“‏ یا ”‏گاڈ اِز وِد اَس“‏ کے نعرے لگاتے ہوئے لڑائی کیلئے جاتے تھے۔‏ فوجی لشکر مخالفین اور عام شہریوں کیساتھ جانوروں جیسا سلوک کرتے ہوئے جرمن ریاستوں میں لوٹ‌مار کرتے پھرتے تھے۔‏ لڑائی اپنے اصول‌وضوابط کی حدیں پار کرکے بربریت کی شکل اختیا کر گئی تھی۔‏ یہ سب بائبل پیشینگوئی کے بالکل برعکس تھا:‏ ”‏قوم‌قوم پر تلوار نہ چلائیگی اور وہ پھر کبھی جنگ کرنا نہ سیکھینگے۔‏“‏—‏میکاہ ۴:‏۳‏۔‏

ایک جرمن قوم جنگ کی فضا میں پروان چڑھی تھی اور عوام اَمن کے خواہاں تھے۔‏ اگر حکمرانوں کے سیاسی مفادات کی بات نہ ہوتی تو بظاہر اَمن ممکن تھا۔‏ سیاست زیادہ سے زیادہ منظرِعام پر چھانے لگی کیونکہ جنگ اپنے مذہبی مقصد کو کھو کر دُنیاوی شکل اختیار کر چکی تھی۔‏ نہایت عجیب بات تو یہ تھی کہ اِس تبدیلی کو ہوا دینے والا کیتھولک چرچ کا ایک اعلیٰ عہدیدار تھا۔‏

کارڈینل رش‌لیو اختیار کو کام میں لاتا ہے

آرمازہا پلیس‌سس کا باضابطہ خطاب کارڈینل رش‌لیو تھا۔‏ وہ ۱۶۲۴ سے ۱۶۴۲ تک فرانس کا وزیرِاعظم بھی تھا۔‏ رش‌لیو فرانس کو یورپ میں بڑی طاقت بنانا چاہتا تھا۔‏ اِس مقصد کو پورا کرنے کی خاطر اُس نے ہابس‌برگ کی ساتھی کیتھولک طاقت کو اکھاڑ پھینکا۔‏ اُس نے یہ کام کیسے کِیا۔‏ اُس نے جرمن ریاستوں کے پروٹسٹنٹ فوجی لشکروں کو مالی امداد دینے سے ایسے کِیا کیونکہ ڈنمارک،‏ نیدرلینڈز اور سویڈن سب ہابس‌برگ کے خلاف لڑ رہے تھے۔‏

رش‌لیو نے پہلی مرتبہ ۱۶۳۵ میں فرانسیسی فوجوں کو تیس سالہ جنگ میں بھیجا۔‏ کتاب ویوٹ پاکس—‏ایسلاب دا فریڈ!‏ ‏(‏لانگ لو دی پیس!‏)‏ وضاحت کرتی ہے کہ اپنے آخری مرحلے میں ”‏تیس سالہ“‏ جنگ مذہبی گروہوں کے درمیان لڑائی نہیں رہی تھی۔‏ .‏ .‏ .‏ اب جنگ یورپ میں سیاسی برتری کیلئے لڑائی کا روپ دھار چکی تھی۔‏“‏ جو مذہبی لڑائی کیتھولکس اور پروٹسٹنٹ کے مابین شروع ہوئی تھی وہ کیتھولکوں اور پروٹسٹنٹوں کی کیتھولکوں کے خلاف مشترکہ لڑائی کے طور پر ختم ہوئی۔‏ کیتھولک لیگ جو ۱۶۳۰ کی دہائی کے اوائل میں پہلے ہی کمزور پڑ چکی تھی وہ ۱۶۳۵ میں پاش‌پاش ہو گئی۔‏

ویسٹ‌فیلیا میں اَمن کانفرنس

یورپ لوٹ‌کھسوٹ،‏ خونریزی،‏ عصمت‌دری اور بیماری سے تباہ‌حال تھا۔‏ اَمن کیلئے لوگوں کی آرزو اِس احساس سے بتدریج شدت پکڑنے لگی کہ یہ جنگ ایسی ہے جسے کوئی جیت نہیں سکیگا۔‏ کتاب ویوٹ پاکس—‏ایسلاب دا فریڈ!‏ ‏(‏لانگ لو دی پیس!‏)‏ نے بیان کِیا کہ ”‏۱۶۳۰ کی دہائی کے آخر میں حاکموں نے بالآخر یہ سمجھ لیا کہ اُنکے نصب‌العین کے حصول میں فوجی طاقت اُنکی مزید مدد نہیں کریگی۔‏“‏ لیکن سوال یہ تھا وہ اَمن کیسے آئیگا جسکے سب آرزومند تھے؟‏

ہولی رومن امپائر کے شہنشاہ فریڈیناڈ سوم،‏ فرانس کے بادشاہ لوئس ہشتم اور سویڈن کی ملکہ کرس‌ٹینا اِس بات پر متفق ہو گئے کہ ایک کانفرنس منعقد کی جانی چاہئے جہاں جنگ میں حصہ لینے والے تمام فریقین کو اَمن کی شرائط پر بات‌چیت کرنے کیلئے جمع ہونا چاہئے۔‏ مذاکرات کیلئے دو جگہوں—‏اوسنابروک کے قصبات اور جرمن صوبہ ویسٹ‌فیلیا میں مونسٹر کا انتخاب کِیا گیا۔‏ اِن جگہوں کا انتخاب اِسلئے کِیا گیا تھا کیونکہ یہ سویڈن اور فرانس کے داراُلحکومتوں کے وسط میں واقع تھے۔‏ سن ۱۶۴۳ کے شروع ہی میں تقریباً ۱۵۰ مندوبین دو شہروں میں آنا شروع ہو گئے اور بعض کیساتھ تو مشیروں کی بڑی بڑی ٹیمیں تھیں۔‏ کیتھولک نمائندے مونسٹر اور پروٹسٹنٹ نمائندے اوسنابروک میں جمع ہوئے۔‏

سب سے پہلے نمائندوں کے مرتبے،‏ نشست‌وبرخاست کی ترتیب اور طریقِ‌کار جیسے معاملات کو وضع کرنے کے سلسلے میں ایک اخلاقی ضابطہ طے کِیا گیا۔‏ اِسکے بعد مندوبین کی طرف سے نمائندوں کے ذریعے تجاویز پر مبنی اَمن مذاکرات شروع ہو گئے۔‏ تقریباً پانچ سال کے بعد—‏جس دوران جنگ جاری رہی—‏اَمن کی شرائط پر اتفاقِ‌رائے ہو گیا۔‏ ویسٹ‌فیلیا کا معاہدہ ایک سے زیادہ دستاویز پر مشتمل تھا۔‏ ایک معاہدے پر شہنشاہ فریڈیناڈ سوم اور سویڈن نے دستخط کئے اور دوسرے پر شہنشاہ اور فرانس نے دستخط کئے۔‏

جب معاہدے کی بابت خبریں پھیلنے لگیں تو خوشیاں منائی جانے لگیں۔‏ جس جنگ کا آغاز ایک چنگاری کیساتھ ہوا اُسکا انجام آتش‌بازی سے ہوا۔‏ اُس آتش‌بازی سے مختلف شہر روشن ہو گئے۔‏ گرجاگھروں میں گھنٹیاں بجائی گئیں،‏ معاہدے کی تائید میں توپوں کی سلامیاں دی گئیں اور لوگ گلی‌کوچوں میں خوشی کے گیت گانے لگے۔‏ کیا یورپ اب دائمی اَمن کی توقع کر سکتا تھا؟‏

کیا دائمی اَمن ممکن ہے؟‏

ویسٹ‌فیلیا کے اَمن معاہدے کی رُو سے ریاستی خودمختاری کے اصول کو تسلیم کر لیا گیا یعنی معاہدے کے فریقین ایکدوسرے کی علاقائی خودمختاری کا احترام کرنے اور اُنکے داخلی معاملات میں مداخلت نہ کرنے پر متفق ہو گئے تھے۔‏ یوں جدید یورپ خودمختار ریاستوں کے برِاعظم کے طور پر معرضِ‌وجود میں آیا۔‏ اس معاہدے سے اُن ریاستوں میں سے بعض کو دوسروں کی نسبت زیادہ فائدہ پہنچا۔‏

فرانس ایک بڑی طاقت کے طور پر منظرِعام پر آیا اور نیدرلینڈز اور سوئٹزرلینڈ آزاد ریاستیں بن گئیں۔‏ تاہم جنگ سے تباہ‌حال جرمن ریاستوں میں متعدد کو معاہدے سے کوئی فائدہ نہ پہنچا۔‏ کسی حد تک جرمنی کے انجام کا فیصلہ دوسری اقوام نے کرنا تھا۔‏ دی نیو انسائیکلوپیڈیا بریٹینیکا بیان کرتا ہے:‏ ”‏جرمن بادشاہوں کے فائدے اور نقصان کا فیصلہ فرانس،‏ سویڈن اور آسٹریا کی بڑی طاقتوں کی مرضی کے مطابق کِیا گیا۔‏“‏ جرمن ریاستوں کے ایک دوسرے کے قریب آنے اور متحد قوم بننے کی بجائے وہ پہلے کی طرح منقسم تھیں۔‏ علاوہ‌ازیں،‏ جرمنی کے بڑے دریا—‏رائن،‏ البی اور آڈر جیسے کچھ علاقے دوسرے حکمرانوں کے زیرِتسلط ہو گئے۔‏

کیتھولک،‏ لوتھرن اور کیلونسٹ مذاہب کو برابر کے حقوق دئے گئے۔‏ اِس عمل سے سب خوش نہیں تھے۔‏ پوپ انوسینٹ دہم اِس معاہدے کا سخت مخالف تھا اور اُس نے اسے کالعدم قرار دے دیا۔‏ تاہم،‏ جن مذہبی فریقین کو تسلیم کر لیا گیا اُن میں تین صدیوں تک کوئی بڑی تبدیلی نہ آئی۔‏ اگرچہ اس معاہدے سے انفرادی مذہبی آزادی حاصل نہیں ہوئی تھی توبھی یہ معاہدہ اُسکی جانب ایک ترقی‌پسندانہ قدم تھا۔‏

اِس معاہدے کیساتھ تیس سالہ جنگ اور بہت سی دشمنیاں ختم ہو گئیں۔‏ یورپ میں یہ آخری بڑی مذہبی جنگ تھی۔‏ اگرچہ جنگیں تو ختم نہیں ہوئیں لیکن اُنکی مخفی وجہ مذہب سے ہٹ کر سیاست اور تجارت سے وابستہ ہو گئی ہے۔‏ تاہم اِسکا یہ مطلب نہیں کہ یورپی دشمنیوں کے سلسلے میں مذہب کا عمل‌دخل ختم ہو گیا ہے۔‏ پہلی اور دوسری عالمی جنگ میں جرمن سپاہیوں کی بیلٹ کے بکل پر مشہور عبارت کندہ تھی:‏ ”‏خدا ہمارے ساتھ ہے۔‏“‏ اُن خوفناک لڑائیوں میں کیتھولک اور پروٹسٹنٹ ایک مرتبہ پھر ایک دوسرے کے خلاف لڑ رہے تھے۔‏

یہ بات بالکل واضح ہے کہ ویسٹ‌فیلیا کا معاہدہ دائمی اَمن نہیں لایا تھا۔‏ تاہم بہت جلد فرمانبردار انسان دائمی اَمن سے لطف‌اندوز ہونگے۔‏ یہوواہ خدا اپنے بیٹے یسوع مسیح کی مسیحائی بادشاہت کے ذریعے نوعِ‌انسان کیلئے ابدی اَمن لائیگا۔‏ اُس حکومت کے تحت ایک سچا مذہب اختلاف کی بجائے اتحاد کی قوت ثابت ہوگا۔‏ کوئی بھی مذہبی یا کسی دوسری وجہ سے جنگ نہیں کریگا۔‏ زمین پر بادشاہتی حکمرانی کے مکمل تسلط کے وقت کیسا سکون ہوگا اور ”‏سلامتی کی کچھ اِنتہا نہ ہوگی“‏!‏—‏یسعیاہ ۹:‏۶،‏ ۷‏۔‏

‏[‏صفحہ ۲۱ پر عبارت]‏

جو مذہبی لڑائی کیتھولک اور پروٹسٹنٹ کے مابین شروع ہوئی تھی وہ کیتھولکوں اور پروٹسٹنٹوں کی کیتھولکوں کے خلاف مشترکہ لڑائی کے طور پر ختم ہوئی

‏[‏صفحہ ۲۲ پر عبارت]‏

سپاہی ”‏سانٹا ماریا“‏ یا ”‏گاڈ اِز وِد اَس“‏ کے نعرے لگاتے ہوئے لڑائی کیلئے جاتے تھے

‏[‏صفحہ ۲۱ پر تصویر]‏

کارڈینل رش‌لیو

‏[‏صفحہ ۲۳ پر تصویر]‏

لوتھر،‏ کیلون اور پوپ کے مابین مزاحمت کی تصویرکشی کرنے والی سولہویں صدی کی تصویر

‏[‏صفحہ ۲۰ پر تصویر کا حوالہ]‏

Spamers Illustrierte Weltgeschichte VI From the book

‏[‏صفحہ ۲۳ پر تصویروں کے حوالہ‌جات]‏

‏:Religious leaders struggling

‏;Wider die Pfaffenherrschaft From the book

‏/‏The Complete Encyclopedia of Illustration ‏:map

J. G. Heck