تغیرپذیر دُنیا کی رُوح کی مزاحمت کریں
تغیرپذیر دُنیا کی رُوح کی مزاحمت کریں
”ہم نے نہ دُنیا کی رُوح بلکہ وہ رُوح پایا جو خدا کی طرف سے ہے۔“—۱-کرنتھیوں ۲:۱۲۔
۱. حوا کو کن طریقوں سے بہکایا گیا تھا؟
”سانپ نے مجھکو بہکایا۔“ (پیدایش ۳:۱۳) اس بات سے پہلی عورت حوا نے یہ بتانے کی کوشش کی کہ اُس نے کیوں یہوواہ خدا سے سرکشی کی تھی۔ جوکچھ اُس نے کہا وہ سچ تھا لیکن اس سے اُس کی غلطی کا عذر نہیں ملتا۔ بعدازاں پولس کو یہ لکھنے کا الہام ہوا: ’عورت نے فریب کھایا۔‘ (۱-تیمتھیس ۲:۱۴) اُسے یہ یقین دِلا کر فریب دیا گیا کہ نافرمانی یعنی ممنوعہ پھل کھانے سے اُسے فائدہ پہنچے گا اور وہ خدا کی مانند بن جائے گی۔ اُسے فریب دینے والے کی شناخت سے بھی بےخبر رکھا گیا تھا۔ اُسے تو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ سانپ تو محض شیطان اِبلیس کا ایک آلۂکار ہے۔—پیدایش ۳:۱-۶۔
۲. (ا) آجکل شیطان لوگوں کو کیسے گمراہ کرتا ہے؟ (ب) ”دُنیا کی رُوح“ کیا ہے اور اب ہم کن سوالات پر غور کریں گے؟
۲ آدم اور حوا کے وقت سے لیکر شیطان لوگوں کو گمراہ کرتا آیا ہے۔ درحقیقت وہ ”سارے جہان کو گمراہ کر“ رہا ہے۔ (مکاشفہ ۱۲:۹) اُس کی حکمتِعملی تبدیل نہیں ہوئی۔ اگرچہ وہ اب سانپ کو آلۂکار کے طور پر تو استعمال نہیں کرتا توبھی وہ ابھی تک اپنی اصلیت چھپاتا ہے۔ تفریحی صنعت، ذرائعابلاغ اور دیگر ذرائع سے شیطان لوگوں کو بہکاتا اور اُنہیں یہ یقین دلاتا ہے کہ اُنہیں نہ تو خدا کی پُرمحبت ہدایت کی ضرورت ہے اور نہ ہی وہ اس سے فائدہ اُٹھا سکتے ہیں۔ فریب دینے کی شیطان کی مہم نے ہر جگہ لوگوں کے اندر بائبل قوانین اور اُصولوں کے خلاف بغاوتی رُوح پیدا کر دی ہے۔ بائبل اسے ”دُنیا کی رُوح“ کہتی ہے۔ (۱-کرنتھیوں ۲:۱۲) یہ رُوح پوری طرح خدا سے بےبہرہ لوگوں کے عقائد، رُجحانات اور رویوں کو متاثر کرتی ہے۔ یہ رُوح کیسے ظاہر ہوتی ہے اور ہم اس کے خراب اثر سے کیسے بچ سکتے ہیں؟ آئیے معلوم کریں۔
اخلاقی اقدار کی تنزلی
۳. جدید زمانے میں ”دُنیا کی رُوح“ اتنی زیادہ نمایاں کیوں ہے؟
۳ جدید زمانے میں، ”دُنیا کی رُوح“ بہت نمایاں ہے۔ (۲-تیمتھیس ۳:۱-۵) غالباً آپ نے بھی غور کِیا ہے کہ اخلاقی اقدار تنزلی کا شکار ہیں۔ صحائف بیان کرتے ہیں کہ ایسا کیوں ہے۔ سن ۱۹۱۴ میں خدا کی بادشاہت کے قائم ہونے کے ساتھ ہی آسمان پر ایک لڑائی ہوئی۔ شیطان اور اُس کے فرشتوں کو شکست ہوئی اور اُنہیں زمین پر پھینک دیا گیا۔ شیطان نے قہر میں آکر دھوکا دینے کی اپنی مہم کو تیز کر دیا۔ (مکاشفہ ۱۲:۱-۹، ۱۲، ۱۷) ہر ممکنہ طریقے سے وہ ”برگزیدوں کو بھی گمراہ“ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ (متی ۲۴:۲۴) خدا کے لوگوں کے طور پر ہم اُس کا خاص نشانہ ہیں۔ وہ ہماری روحانیت کو تباہ کرنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ ہم خدا کی خوشنودی اور ہمیشہ کی زندگی کا امکان کھو دیں۔
۴. یہوواہ کے خادم بائبل کو کیسا خیال کرتے ہیں اور دُنیا اس کی بابت کیا نظریہ رکھتی ہے؟
۴ شیطان بائبل کو بھی بدنام کرنے کی کوشش کرتا ہے جوکہ ہمارے شفیق خالق کی بابت ہمیں تعلیم دینے والی بیشقیمت کتاب ہے۔ یہوواہ کے خادم بائبل کی عزت اور قدر کرتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ انسانوں کی بجائے خدا کا الہامی کلام ہے۔ (۱-تھسلنیکیوں ۲:۱۳؛ ۲-تیمتھیس ۳:۱۶) تاہم، شیطان کی دُنیا چاہتی ہے کہ ہم اس کے متعلق فرق سوچ رکھیں۔ مثال کے طور پر، بائبل کو تنقید کا نشانہ بنانے والی ایک کتاب کا دیباچہ بیان کرتا ہے: ”بائبل کی بابت کچھ بھی ’مُقدس‘ نہیں اور نہ ہی یہ ’خدا کا کلام‘ ہے۔ اِسے خدا کے الہامیافتہ لوگوں کی بجائے اقتدار کے بھوکے پادریوں نے تحریر کِیا ہے۔“ ایسے دعوؤں کا یقین کرنے والے لوگ آسانی سے ایسے نقطۂنظر کا شکار ہو جاتے ہیں کہ وہ اپنی مرضی سے خدا کی پرستش کر سکتے ہیں یا بالکل بھی پرستش نہیں کرتے۔—امثال ۱۴:۱۲۔
۵. (ا) ایک مصنف نے بائبل سے وابستہ مذاہب کی بابت کیا بیان کِیا؟ (ب) بعض لوگ عام دُنیاوی نظریات کا بائبل کی باتوں کے ساتھ کیسے موازنہ کرتے ہیں؟ (اگلے صفحہ کے بکس کو دیکھیں۔)
۵ بائبل پر بِلاواسطہ اور بالواسطہ حملے اور اس کی حمایت کرنے کا دعویٰ کرنے والوں کی مذہبی ریاکاری بائبل سے تعلق رکھنے والے مذہب کے لئے بڑھتی ہوئی ناپسندیدگی پر منتج ہوئی ہے۔ ذرائعابلاغ اور پڑھےلکھے لوگ مذہب کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ ایک مصنف بیان کرتا ہے: ”یہودیت اور مسیحیت کی بابت عام نظریہ آجکل منفی ہے۔ یہودیت اور مسیحیت کو قدیم، پُرانے نظریات کے حامی خیال کِیا جاتا ہے جو تعلیمی پختگی اور سائنسی ترقی کی راہ میں رُکاوٹ ہے۔ حالیہ برسوں میں اس بےحرمتی نے تمسخر اور علانیہ مخالفت کا رُوپ دھار لیا ہے۔“ یہ مخالفت اکثر ایسے لوگوں کی طرف سے دکھائی جاتی ہے جو خدا کے وجود سے انکار کرتے ہیں اور جو ”باطل خیالات میں پڑ گئے“ ہیں۔—رومیوں ۱:۲۰-۲۲۔
۶. دُنیا خدا کی طرف سے رد کئے جانے والے جنسی کاموں کو کیسا خیال کرتی ہے؟
۶ پس یہ کوئی حیرانی کی بات نہیں کہ لوگ کیوں چالچلن کی بابت خدائی نظریات سے دُور جا رہے ہیں۔ مثال کے طور پر، بائبل ہمجنسپسندی کو ”روسیاہی کے کام“ قرار دیتی ہے۔ (رومیوں ۱:) بائبل یہ بھی بیان کرتی ہے کہ حرامکار اور زناکار خدا کی بادشاہی کے وارث نہیں ہوں گے۔ ( ۲۶، ۲۷۱-کرنتھیوں ۶:۹) اس کے باوجود بہتیرے ممالک میں نہ صرف ان جنسی کاموں کو جائز خیال کِیا جاتا ہے بلکہ کتابوں، رسالوں، گانوں، فلموں اور ٹیوی شوز میں بھی انہیں پسندیدہ رویے کے طور پر دکھایا جاتا ہے۔ جو لوگ ان کاموں کے خلاف بولتے ہیں اُنہیں تنگنظر، متعصّب اور جدید سوچ سے بےبہرہ خیال کِیا جاتا ہے۔ خدا کے معیاروں کو پُرمحبت فکرمندی کا اظہار خیال کرنے کی بجائے، دُنیا اُنہیں ذاتی آزادی اور احساسِتکمیل کی راہ میں رُکاوٹ خیال کرتی ہے۔—امثال ۱۷:۱۵؛ یہوداہ ۴۔
۷. ہمیں خود سے کونسے سوال پوچھنے چاہئیں؟
۷ خدا کی مخالفت کرنے والی دُنیا میں رہتے ہوئے یہ اچھا ہوگا کہ ہم اپنے رویوں اور اقدار کا جائزہ لیتے رہیں۔ وقتاًفوقتاً ہمیں اس بات کا یقین کرنے کے لئے عقیدتمندی اور دیانتداری کے ساتھ اپنا جائزہ لینا چاہئے کہ ہم کہیں آہستہ آہستہ بہ کر یہوواہ کے نقطۂنظر اور معیاروں سے دُور تو نہیں جا رہے۔ مثال کے طور پر، ہمیں خود سے پوچھنا چاہئے: ’کیا مَیں اب ایسے مواد کو دلچسپ اور تفریحی پاتا ہوں جسے مَیں نے چند سال پہلے مسترد کر دیا تھا؟ کیا مَیں ایسے کاموں کی بابت رواداری دکھاتا ہوں جنہیں خدا رد کرتا ہے؟ کیا مَیں ماضی کی نسبت روحانی معاملات کو کم سنجیدہ خیال کرنے لگا ہوں؟ کیا میرے رہنسہن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مَیں بادشاہتی مفادات کو اپنی زندگی میں پہلا درجہ دے رہا ہوں؟‘ (متی ۶:۳۳) ایسا غوروفکر ہمیں دُنیا کی رُوح کی مزاحمت کرنے میں مدد دے گا۔
”بہ کر . . . دُور نہ چلے جائیں“
۸. ایک شخص کیسے بہ کر یہوواہ سے دُور جا سکتا ہے؟
۸ پولس رسول نے ساتھی مسیحیوں کو لکھا: ”اس لئے جو باتیں ہم نے سنیں اُن پر اَور بھی دل لگا کر غور کرنا چاہئے تاکہ بہ کر اُن سے دُور نہ چلے جائیں۔“ (عبرانیوں ۲:۱) دُور نکل جانے والا جہاز کبھی اپنی منزل پر نہیں پہنچتا۔ اگر کپتان ہوا اور پانی کے بہاؤ کا خیال نہیں رکھتا تو اس کا جہاز بآسانی بہ کر بندرگاہ سے دُور اور چٹانی ساحل پر پہنچ سکتا ہے۔ اسی طرح، اگر ہم خدا کے کلام کی قیمتی سچائیوں پر دھیان نہیں دیتے تو ہم بھی یہوواہ سے دُور اور روحانی تباہی کا شکار ہو سکتے ہیں۔ ایسا نقصان اُٹھانے کے لئے ضروری نہیں کہ ہم سچائی کو یکسر مسترد کر دیں۔ واقعی بیشتر لوگ یہوواہ کو اچانک اور جانبوجھ کر رد نہیں کرتے۔ وہ اکثر آہستہ آہستہ، ایسے کاموں میں پڑ جاتے ہیں جو اُنہیں خدا کے کلام پر توجہ دینے سے روکتے ہیں۔ وہ انجانے میں گُناہ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ایسے اشخاص ایک سوئے ہوئے کپتان کی مانند ہیں جو اُس وقت جاگتا ہے جب بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔
۹. یہوواہ نے سلیمان کو کن مختلف برکات سے نوازا؟
۹ سلیمان کے طرزِزندگی پر غور کریں۔ یہوواہ نے اُسے اسرائیل پر حاکم مقرر کِیا۔ خدا نے اُسے ہیکل تعمیر کرنے اور بائبل کے حصے لکھنے کے لئے ہدایت بخشی۔ دو مرتبہ یہوواہ نے اُس سے کلام کِیا اور اُسے دولت، شہرت اور پُراَمن حکمرانی عطا کی۔ سب سے بڑھ کر یہوواہ نے سلیمان کو حکمت سے نوازا۔ بائبل بیان کرتی ہے: ”خدا نے سلیماؔن کو حکمت اور سمجھ بہت ہی زیادہ اور دل کی وسعت بھی عنایت کی جیسی سمندر کے کنارے کی ریت ہوتی ہے۔ اور سلیماؔن کی حکمت سب اہلِمشرق کی حکمت اور مصرؔ کی ساری حکمت پر فوقیت رکھتی تھی۔“ (۱-سلاطین ۴:۲۱، ۲۹، ۳۰؛ ۱۱:۹) یقیناً کوئی بھی شخص یہ سوچ سکتا ہے کہ اگر خدا کے وفادار رہنے کی بات ہے تو سلیمان سے بڑھ کر کوئی نہیں۔ تاہم، سلیمان برگشتگی کا شکار ہو گیا تھا۔ یہ کیسے واقع ہوا؟
۱۰. سلیمان کونسی ہدایت کی فرمانبرداری کرنے میں ناکام رہا اور اس کا کیا نتیجہ نکلا؟
۱۰ سلیمان مکمل طور پر خدا کی شریعت سے واقف تھا اور اسے بخوبی سمجھتا بھی تھا۔ بیشک اُس نے اسرائیل کے بادشاہوں کے لئے درج ہدایات کو بھی خاص طور پر دیکھا ہوگا۔ اُن ہدایات میں سے ایک ہدایت یہ تھی: ”[بادشاہ] بہت سی بیویاں بھی نہ رکھے تانہ ہو کہ اُس کا دل پھر جائے۔“ (استثنا ۱۷:۱۴، ۱۷) اس واضح ہدایت کے باوجود، سلیمان بادشاہ کی سات سو بیویاں اور تین سو حرمیں تھیں۔ ان میں سے بیشتر عورتیں غیرمعبودوں کی پرستش کرتی تھیں۔ ہم یہ تو نہیں جانتے کہ سلیمان نے اتنی شادیاں کیوں کیں اور نہ ہی یہ جانتے ہیں کہ اس کے پاس ایسا کرنے کا کیا جواز تھا۔ لیکن جوکچھ ہم جانتے ہیں وہ یہ ہے کہ سلیمان خدا کی واضح ہدایت کی فرمانبرداری کرنے میں ناکام رہا۔ اس کا نتیجہ وہی نکلا جو یہوواہ پہلے بتا چکا تھا۔ ہم پڑھتے ہیں: ”[سلیمان] کی بیویوں نے اُس کے دل کو غیرمعبودوں کی طرف مائل کر لیا۔“ (۱-سلاطین ۱۱:۳، ۴) یہ سچ ہے کہ اُس کی خداداد حکمت ”آہستہ آہستہ“ اپنا اثر کھو بیٹھی تھی۔ وہ بہ کر دُور چلا گیا۔ وقت آنے پر، سلیمان خدا کی فرمانبرداری کرنے اور اُسے خوش کرنے کی بجائے اپنی بیویوں کو خوش کرنے لگا۔ سلیمان کے لئے یہ کسقدر افسوسناک تھا کیونکہ سلیمان ہی نے پہلے لکھا تھا: ”اَے میرے بیٹے! دانا بن اور میرے دل کو شاد کر تاکہ مَیں اپنے ملامت کرنے والے کو جواب دے سکوں۔“—امثال ۲۷:۱۱۔
دُنیا کی رُوح طاقتور ہے
۱۱. جوکچھ ہم اپنے ذہنوں میں لیجاتے ہیں وہ کیسے ہماری سوچ پر اثرانداز ہوتا ہے؟
۱۱ سلیمان کی مثال سے ہم سیکھتے ہیں کہ سچائی کا علم رکھنے کی وجہ سے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ دُنیاوی اثر ہماری سوچ کو متاثر نہیں کر سکتا۔ جس طرح جسمانی خوراک ہمارے بدن کو متاثر کرتی ہے، اُسی طرح ذہنی خوراک ہمارے دماغ پر اثرانداز ہوتی ہے۔ جس چیز سے ہم اپنے ذہن کو بھرتے ہیں وہ ہماری سوچ اور رویے کو متاثر کر سکتا ہے۔ اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے کارپوریشنز ہر سال کروڑوں ڈالر اپنی مصنوعات کی تشہیر پر خرچ کرتی ہیں۔ کامیاب اشتہار ایسے ترغیب دینے والے الفاظ اور تصاویر استعمال کرتے ہیں جو صارفین کے اشتیاق اور خواہشات کو بڑھاتے ہیں۔ مشتہر یہ بھی جانتے ہیں کہ ایک یا دو بار کسی اشتہار کو دیکھ کر لوگ چیزیں خریدنے کی طرف مائل نہیں ہوں گے۔ تاہم، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ، باربار ان اشتہاروں کو دیکھنا صارفین کے ان چیزوں کو پسند کرنے پر منتج ہوتا ہے۔ اشتہاربازی کامیاب ہتھیار ہے ورنہ لوگ اس کاروبار میں سرمایہ کیوں لگائیں گے۔ یہ عوام کی سوچ اور رویے کو بہت زیادہ متاثر کرتی ہے۔
۱۲. (ا) شیطان لوگوں کی سوچ کو کیسے متاثر کرتا ہے؟ (ب) کیا چیز ظاہر کرتی ہے کہ مسیحی بھی متاثر ہو سکتے ہیں؟
۱۲ ایک مشتہر کی طرح، شیطان بھی یہ جانتے ہوئے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ لوگوں کو اپنی سوچ سے متاثر کر لے گا، پُرکشش طریقوں سے اپنے نظریات کو فروغ دیتا ہے۔ تفریح اور دیگر یسعیاہ ۵:۲۰) سچے مسیحی بھی شیطان کے غلط پروپیگنڈے کا شکار ہو گئے ہیں۔ بائبل آگاہ کرتی ہے: ”رُوح صاف فرماتا ہے کہ آئندہ زمانوں میں بعض لوگ گمراہ کرنے والی رُوحوں اور شیاطین کی تعلیم کی طرف متوجہ ہوکر ایمان سے برگشتہ ہو جائیں گے۔ یہ اُن جھوٹے آدمیوں کی ریاکاری کے باعث ہوگا جن کا دل گویا گرم لوہے سے داغا گیا ہے۔“—۱-تیمتھیس ۴:۱، ۲؛ یرمیاہ ۶:۱۵۔
طریقوں سے، شیطان لوگوں کو یہ یقین دلانے کے لئے فریب دیتا ہے کہ اچھائی کو بُرائی اور بُرائی کو اچھائی کہتے ہیں۔ (۱۳. بُری صحبتیں کیا ہیں اور ہماری صحبتیں ہمیں کیسے متاثر کرتی ہیں؟
۱۳ ہم سب دُنیا کی رُوح سے متاثر ہو سکتے ہیں۔ شیطان کی دُنیا کی ہوائیں اور قوتیں بہت طاقتور ہیں۔ بائبل دانشمندی سے ہمیں نصیحت کرتی ہے: ”فریب نہ کھاؤ۔ بُری صحبتیں اچھی عادتوں کو بگاڑ دیتی ہیں۔“ (۱-کرنتھیوں ۱۵:۳۳) کوئی بھی چیز اور شخص بُری صحبت کا روپ دھار سکتا ہے—کلیسیا کے اندر بھی دُنیا کی رُوح منعکس کرنے والی بُری صحبتیں ہو سکتی ہیں۔ اگر ہم یہ دلیل دیتے ہیں کہ بُری صحبتیں ہمیں نقصان نہیں پہنچا سکتیں تو پھر ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اچھی صحبتیں ہمیں فائدہ نہیں پہنچا سکتیں؟ یہ کتنی غلط بات ہوگی! بائبل یہ کہتے ہوئے اس بات کو واضح کرتی ہے: ”جو داناؤں کے ساتھ چلتا ہے دانا ہوگا پر احمقوں کا ساتھی ہلاک کِیا جائے گا۔“—امثال ۱۳:۲۰۔
۱۴. ہم دُنیا کی رُوح کا مقابلہ کیسے کر سکتے ہیں؟
۱۴ دُنیا کی رُوح کا مقابلہ کرنے کے لئے، ہمیں دانا لوگوں کے ساتھ رفاقت رکھنی چاہئے جو یہوواہ کی خدمت کرتے ہیں۔ ہمیں اپنے ذہن کو ایسی باتوں پر لگانا چاہئے جو ہمارے ایمان کو بڑھاتی ہیں۔ پولس رسول نے لکھا: ”غرض اَے بھائیو! جتنی باتیں سچ ہیں اور جتنی باتیں شرافت کی ہیں اور جتنی باتیں واجب ہیں اور جتنی باتیں پاک ہیں اور جتنی باتیں پسندیدہ ہیں اور جتنی باتیں دلکش ہیں غرض جو نیکی اور تعریف کی باتیں ہیں اُن پر غور کیا کرو۔“ (فلپیوں ۴:۸) آزاد مرضی کے ساتھ خلق کئے جانے کی وجہ سے ہم اپنے لئے خود انتخاب کر سکتے ہیں۔ ہمیں ہمیشہ ایسی چیزوں کا انتخاب کرنا چاہئے جو ہمیں یہوواہ کے قریب لے جائیں۔
خدا کی رُوح زیادہ طاقتور ہے
۱۵. قدیم کرنتھس کے مسیحی اس شہر کے دیگر باشندوں سے کیسے فرق تھے؟
۱۵ دُنیا کی رُوح سے گمراہ ہو جانے والے لوگوں کی نسبت سچے مسیحی خدا کی پاک رُوح سے راہنمائی حاصل کرتے ہیں۔ پولس نے کرنتھس کی کلیسیا کو لکھا: ”ہم نے نہ دُنیا کی رُوح بلکہ وہ رُوح پایا جو خدا کی طرف سے ہے تاکہ اُن باتوں کو جانیں جو خدا نے ہمیں عنایت کی ہیں۔“ (۱-کرنتھیوں ۲:۱۲) قدیم کرنتھس کا شہر دُنیا کی رُوح کا شکار تھا۔ اس کے بیشتر باشندے اسقدر عیاش تھے کہ ”کرنتھی“ کی اصطلاح کا مطلب ”بداخلاقی کو عمل لانا“ پڑ گیا۔ شیطان نے لوگوں کی عقلوں کو اندھا کر دیا تھا۔ نتیجتاً وہ سچے خدا کی بابت کچھ نہیں جانتے تھے۔ (۲-کرنتھیوں ۴:۴) تاہم، اپنی پاک رُوح کے ذریعے، یہوواہ نے بعض کرنتھیوں کی آنکھیں کھولیں اور وہ سچائی کا علم حاصل کرنے کے قابل ہوئے۔ اُس کی رُوح نے اُنہیں اپنی زندگیوں میں بڑی بڑی تبدیلیاں لانے کی تحریک دی تاکہ وہ خدا کی مقبولیت اور برکات حاصل کر سکیں۔ (۱-کرنتھیوں ۶:۹-۱۱) اگرچہ دُنیا کی رُوح کافی اثر رکھتی تھی مگر یہوواہ کی رُوح زیادہ بااثر تھی۔
۱۶. ہم خدا کی رُوح کیسے حاصل کر سکتے ہیں؟
۱۶ آج بھی یہی سچ ہے۔ یہوواہ کی پاک رُوح کائنات کی سب سے طاقتور قوت ہے اور جو ایمان سے مانگتے ہیں وہ بِلاامتیاز اُن سب کو اپنی پاک رُوح دیتا ہے۔ (لوقا ۱۱:۱۳) تاہم، خدا کی رُوح حاصل کرنے کے لئے ہمیں دُنیا کی رُوح کی مزاحمت کرنے سے زیادہ کچھ کرنا چاہئے۔ ہمیں باقاعدگی کے ساتھ خدا کے کلام کو پڑھنا اور اس کا اطلاق اپنی زندگی میں کرنا چاہئے تاکہ ہمارا ذہنی میلان اُس کی سوچ سے ہمآہنگ ہو جائے۔ اگر ہم ایسا کرتے ہیں تو یہوواہ ہمیں شیطان کے ہر اُس ہتھکنڈے کا مقابلہ کرنے کی طاقت دے گا جو وہ ہماری روحانیت کو تباہ کرنے کے لئے استعمال کر سکتا ہے۔
۱۷. لوط کی مثال کس طرح ہمارے لئے تسلی کا باعث بن سکتی ہے؟
۱۷ مسیحی دُنیا کا حصہ نہ ہوتے ہوئے بھی اسی دُنیا میں رہتے ہیں۔ (یوحنا ۱۷:۱۱، ۱۶) ہم میں سے کوئی بھی مکمل طور پر دُنیا کی رُوح سے بچ نہیں سکتا کیونکہ ہم ایسے لوگوں کے ساتھ کام کرتے یا رہتے ہیں جو خدا یا اُس کے طریقوں سے محبت نہیں رکھتے۔ کیا ہم لوط کی مانند محسوس کرتے ہیں جو سدوم اور عمورہ کے لوگوں کے درمیان رہتا اور اُن کے بےدین کاموں کی وجہ سے ”دق“ تھا۔ (۲-پطرس ۲:۷، ۸) اگر ایسا ہے تو ہم اطمینان رکھ سکتے ہیں۔ یہوواہ نے لوط کو محفوظ رکھا اور بچایا چنانچہ وہ ہمارے لئے بھی ایسا کر سکتا ہے۔ ہمارا شفیق باپ ہمارے حالات سے بخوبی واقف ہے اور وہی ہمیں اپنی روحانیت کو برقرار رکھنے کے لئے درکار مدد اور طاقت عطا کر سکتا ہے۔ (زبور ۳۳:۱۸، ۱۹) اگر ہم اُس پر بھروسا رکھتے، اُس پر آس لگاتے اور اُس سے درخواست کرتے ہیں تو وہ ہمیں ہر مشکل سے مشکل صورتحال میں بھی دُنیا کی رُوح کی مزاحمت کرنے میں مدد دے گا۔—یسعیاہ ۴۱:۱۰۔
۱۸. ہمیں یہوواہ کے ساتھ اپنے رشتے کو کیوں عزیز جاننا چاہئے؟
۱۸ خدا سے جُدا اور شیطان سے فریبخوردہ دُنیا کے اندر یہوواہ کے لوگوں کے طور پر ہمیں سچائی کے علم کی برکت حاصل ہے۔ اس طرح ہم اُس خوشی اور اطمینان کا تجربہ کرتے ہیں جو دُنیا کو حاصل نہیں ہے۔ (یسعیاہ ۵۷:۲۰، ۲۱؛ گلتیوں ۵:۲۲) ہمیں فردوسی زمین پر زندگی کی اُمید حاصل ہے جہاں اس مٹنے والی دُنیا کی رُوح نہیں ہوگی۔ پس دُعا ہے کہ ہم خدا کے ساتھ اپنے اس قیمتی رشتے کو عزیز رکھتے ہوئے روحانی طور پر بہ کر دُور نکل جانے کے ہر میلان کا مستعدی سے مقابلہ کرتے رہیں۔ ہمیں یہوواہ کے نزدیک جانا چاہئے اور وہ ہمیں دُنیا کی رُوح کی مزاحمت کرنے کے قابل بنائے گا۔—یعقوب ۴:۷، ۸۔
کیا آپ وضاحت کر سکتے ہیں؟
• شیطان نے کن طریقوں سے لوگوں کو دھوکا دیکر گمراہ کِیا ہے؟
• ہم یہوواہ سے دُور ہو جانے سے کیسے بچ سکتے ہیں؟
• کیا چیز ظاہر کرتی ہے کہ دُنیا کی رُوح طاقتور ہے؟
• ہم خدا کی رُوح کیسے حاصل کر سکتے اور اس کا دفاع کر سکتے ہیں؟
[مطالعے کے سوالات]
[صفحہ ۱۱ پر چارٹ]
دُنیاوی حکمت بالمقابل خدائی حکمت
لوگوں کے نزدیک سچائی نسبتی ہے—وہ اپنے لئے خود سچائی وضع کر لیتے ہیں۔
خدا کا ”کلام سچائی ہے۔“ —یوحنا ۱۷:۱۷۔
غلط اور صحیح کے مابین فرق کرنے کے لئے اپنے احساسات پر بھروسا کریں۔
”دل سب چیزوں سے زیادہ حیلہباز اور لاعلاج ہے۔“—یرمیاہ ۱۷:۹۔
اپنی مرضی سے کام کریں۔
”انسان اپنی روش میں اپنے قدموں کی راہنمائی نہیں کر سکتا۔“—یرمیاہ ۱۰:۲۳۔
دولت خوشی کی کُنجی ہے۔
”زر کی دوستی ہر قسم کی بُرائی کی جڑ ہے۔“—۱-تیمتھیس ۶:۱۰۔
[صفحہ ۱۰ پر تصویر]
سلیمان سچی پرستش سے منحرف ہو گیا اور جھوٹے معبودوں کی پیروی کرنے لگا
[صفحہ ۱۲ پر تصویر]
ایک مشتہر کی مانند، شیطان دُنیا کی رُوح کو فروغ دیتا ہے۔ کیا آپ اس کی مزاحمت کرتے ہیں؟