مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

زندگی کے تغیروتبدل کا مقابلہ کرنے کیلئے خدا کی رُوح پر بھروسا کریں

زندگی کے تغیروتبدل کا مقابلہ کرنے کیلئے خدا کی رُوح پر بھروسا کریں

زندگی کے تغیروتبدل کا مقابلہ کرنے کیلئے خدا کی رُوح پر بھروسا کریں

‏’‏اپنے آپ کو خدا کے سامنے مقبول بنانے کی کوشش کر۔‏‘‏—‏۲-‏تیمتھیس ۲:‏۱۵‏۔‏

۱.‏ کونسی تبدیلیاں ہماری روحانی صحت کے لئے چیلنج پیش کرتی ہیں؟‏

ہمارے اردگرد کی دُنیا متواتر بدلتی رہتی ہے۔‏ ہم اثرآفریں سائنسی اور تکنیکی ترقی کے ساتھ ساتھ اخلاقی اقدار میں بھی ڈرامائی تنزلی دیکھ رہے ہیں۔‏ پچھلے مضمون کی مطابقت میں مسیحیوں کو خدا کی مخالف دُنیا کی رُوح کی مزاحمت کرنی چاہئے۔‏ تاہم،‏ دُنیا کے تغیروتبدل کے پیشِ‌نظر ہم میں بھی مختلف طریقوں سے تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں۔‏ ہم بچپن سے بلوغت کی طرف بڑھتے ہیں۔‏ ہم دولت،‏ صحت اور رشتے بڑھا سکتے ہیں یا اِن چیزوں کو کھو سکتے ہیں۔‏ ایسی بہت سی تبدیلیاں ہمارے بس میں نہیں ہوتی اور یہ ہماری روحانی صحت کے لئے نئے اور ناگزیر چیلنج پیش کر سکتی ہیں۔‏

۲.‏ داؤد کو اپنی زندگی میں کن تبدیلیوں کا سامنا کرنا پڑا؟‏

۲ بہت کم لوگوں کو یسی کے بیٹے داؤد کی طرح انتہائی تبدیلیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‏ داؤد ایک غیرمعروف چرواہے سے ایک قومی ہیرو بن گیا۔‏ بعدازاں اُسے ایک حاسد بادشاہ کی وجہ سے ایک مفرور اور شکاریوں سے بچنے والے جانوروں کی طرح بھاگنا پڑا۔‏ اس کے بعد داؤد ایک بادشاہ اور فاتح بن گیا۔‏ اُس نے سنگین گُناہ کے تکلیف‌دہ نتائج کا سامنا کِیا۔‏ اُس نے اپنے خاندان کے منقسم ہو جانے کے دردناک المیے کو برداشت کِیا۔‏ اُس نے دولت حاصل کی،‏ بوڑھا ہو گیا اور بڑھاپے کی کمزوریوں کا تجربہ کِیا۔‏ تاہم،‏ زندگی کی ان مختلف تبدیلیوں کے باوجود،‏ داؤد نے یہوواہ اور اُس کی روح پر مکمل بھروسے اور اعتماد کا مظاہرہ کِیا۔‏ اُس نے اپنے آپ کو ’‏خدا کے سامنے مقبول‘‏ کرنے کی بھرپور کوشش کی اور بیشک خدا نے اُسے برکت بخشی۔‏ (‏۲-‏تیمتھیس ۲:‏۱۵‏)‏ اگرچہ ہمارے حالات داؤد سے بالکل مختلف ہیں توبھی اس سے ہم سیکھ سکتے ہیں کہ اُس نے اپنی زندگی میں ان حالات کا مقابلہ کیسے کِیا تھا۔‏ اُس کی مثال ہمیں یہ سمجھنے میں مدد دے سکتی ہے کہ ہم زندگی میں چیلنجوں کا سامنا کرتے وقت خدا کی رُوح کی مدد کیسے حاصل کر سکتے ہیں۔‏

داؤد کی فروتنی—‏ایک عمدہ مثال

۳،‏ ۴.‏ ایک معمولی چرواہے سے داؤد کیسے ایک قومی ہیرو بن گیا؟‏

۳ کمسن لڑکے کے طور پر،‏ داؤد اپنے خاندان میں ممتاز نہیں تھا۔‏ جب سموئیل نبی بیت‌لحم آیا تو داؤد کے باپ نے آٹھ میں سات بیٹوں کو اُس کے سامنے پیش کِیا۔‏ چھوٹے بیٹے داؤد کو بھیڑبکریوں کی رکھوالی کے لئے چھوڑ دیا گیا تھا۔‏ تاہم،‏ یہوواہ نے داؤد کو ہی مستقبل کا بادشاہ ہونے کے لئے چن تھا۔‏ داؤد کو باہر سے بلایا گیا۔‏ اس کے بعد بائبل ریکارڈ بیان کرتا ہے:‏ ”‏سموؔئیل نے تیل کا سینگ لیا اور اُسے اُس کے بھائیوں کے درمیان مسح کِیا اور [‏یہوواہ]‏ کی رُوح اُس دن سے آگے کو داؔؤد پر زور سے نازل ہوتی رہی۔‏“‏ (‏۱-‏سموئیل ۱۶:‏۱۲،‏ ۱۳‏)‏ داؤد نے اپنی ساری زندگی اس پاک رُوح پر بھروسا کِیا۔‏

۴ جلد ہی یہ چرواہا لڑکا قومی شہرت حاصل کر لیتا ہے۔‏ اُسے بادشاہ کی خدمت کرنے اور اُس کے لئے موسیقی بجانے پر مامور کر دیا گیا تھا۔‏ اُس نے جنگجو جولیت کو ہلاک کِیا جوکہ بہت قدآور اور خطرناک تھا کہ اسرائیلی لشکر بھی اُس کا سامنا کرنے سے ڈرتا تھا۔‏ پس فوجی سردار مقرر ہونے پر داؤد نے بڑی کامیابی کے ساتھ فلستیوں کا مقابلہ کِیا۔‏ لوگ اُسے بہت پسند کرتے تھے۔‏ اُنہوں نے اُس کی تعریف میں ایک گیت بھی ترتیب دیا۔‏ اِس سے پہلے ہی ساؤل کے ایک صلاحکار نے داؤد کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ نہ صرف ستار ”‏بجانے میں اُستاد“‏ ہے بلکہ وہ ”‏زبردست سُورما اور جنگی مرد اور گفتگو میں صاحبِ‌تمیز اور خوبصورت آدمی ہے۔‏“‏—‏۱-‏سموئیل ۱۶:‏۱۸؛‏ ۱۷:‏۲۳،‏ ۲۴،‏ ۴۵-‏۵۱؛‏ ۱۸:‏۵-‏۷‏۔‏

۵.‏ کیا چیز داؤد کو مغرور بنا سکتی تھی اور ہم یہ کیسے جانتے ہیں کہ وہ ایسا نہیں تھا؟‏

۵ داؤد کے پاس شہرت،‏ خوبصورتی،‏ جوانی،‏ خوش‌گفتاری،‏ موسیقی کی مہارت،‏ جنگی حکمتِ‌عملی،‏ الہٰی مقبولیت جیسی سب خوبیاں موجود تھیں۔‏ اِن میں سے کوئی بھی چیز اُسے مغرور بنا سکتی تھی مگر ایسا نہ ہوا۔‏ جب بادشاہ ساؤل نے داؤد کو اپنی بیٹی سے شادی کرنے کی پیشکش کی تو اُس کے جواب پر غور کریں۔‏ حقیقی فروتنی کے ساتھ داؤد نے جواب دیا:‏ ”‏مَیں کیا ہوں اور میری ہستی ہی کیا اور اؔسرائیل میں میرے باپ کا خاندان کیا ہے کہ مَیں بادشاہ کا داماد بنوں؟‏“‏ (‏۱-‏سموئیل ۱۸:‏۱۸‏)‏ اس آیت پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک عالم نے لکھا:‏ ”‏داؤد کا مطلب تھا کہ اپنی ذاتی یا معاشرتی حیثیت اور اپنے حسب‌نسب کی وجہ سے وہ بادشاہ کا داماد بننے کا دعویٰ نہیں کر سکتا تھا۔‏“‏

۶.‏ ہمیں فروتنی کیوں پیدا کرنی چاہئے؟‏

۶ داؤد کی فروتنی کا انحصار اس بات کو تسلیم کرنے پر تھا کہ یہوواہ کُل کائنات میں ناکامل انسانوں کے مقابلے میں ہر لحاظ سے اعلیٰ‌وبالا ہے۔‏ داؤد کو تو اس بات پر بھی حیرت تھی کہ خدا انسانوں کو یاد رکھتا ہے۔‏ (‏زبور ۱۴۴:‏۳‏)‏ داؤد یہ بھی جانتا تھا کہ اگر اُسے عظمت بخشی گئی ہے تو اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ یہوواہ نے فروتنی دکھائی،‏ خود کو نیچا کِیا تاکہ اُس کی حفاظت،‏ دیکھ‌بھال کر سکے اور اُسے سنبھال سکے۔‏ (‏زبور ۱۸:‏۳۵‏)‏ ہمارے لئے کیا ہی عمدہ سبق!‏ ہماری مہارتوں،‏ کامرانیوں اور استحقاقات کو ہمیں مغرور نہیں بنانا چاہئے۔‏ پولس رسول نے لکھا:‏ ”‏تیرے پاس کونسی ایسی چیز ہے جو تُو نے دوسرے سے نہیں پائی؟‏ اور جب تُو نے دوسرے سے پائی تو فخر کیوں کرتا ہے کہ گویا نہیں پائی؟‏“‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۴:‏۷‏)‏ خدا کی رُوح‌اُلقدس پانے اور اُس کی مقبولیت حاصل کرنے کے لئے ہمیں فروتنی پیدا کرنی اور اسے برقرار رکھنا چاہئے۔‏—‏یعقوب ۴:‏۶‏۔‏

‏”‏اپنا انتقام نہ لو“‏

۷.‏ داؤد کے پاس ساؤل کو قتل کرنے کا کونسا موقع تھا؟‏

۷ داؤد کی شہرت نے اُس کے دل میں غرور پیدا نہ کِیا تاہم اس نے بادشاہ ساؤل کو جس سے خدا کی رُوح جُدا ہو چکی تھی حاسد ضرور بنا دیا۔‏ اگرچہ داؤد نے کوئی غلطی نہیں کی تھی توبھی اُسے اپنی جان بچانے کے لئے جنگل میں بسیرا کرنا پڑا۔‏ ایک موقع پر،‏ ساؤل بادشاہ داؤد کی تلاش میں تھک‌ہار کر انجانے میں اُسی غار میں چلا گیا جہاں داؤد اور اُس کے آدمی چھپے ہوئے تھے۔‏ داؤد کے آدمیوں نے اُسے مشورہ دیا کہ بظاہر خدا نے ساؤل کو قتل کرنے کا اچھا موقع فراہم کِیا ہے۔‏ ذرا اس بات کا تصور کریں کہ وہ کیسے پریشانی کے عالم میں داؤد کے کان میں پھسپھسا رہے ہیں:‏ ”‏دیکھ یہ وہ دن ہے جس کی بابت [‏یہوواہ]‏ نے تجھ سے کہا تھا کہ دیکھ مَیں تیرے دُشمن کو تیرے ہاتھ میں کر دُونگا اور جو تیرا جی چاہے سو تُو اُس سے کرنا۔‏“‏—‏۱-‏سموئیل ۲۴:‏۲-‏۶‏۔‏

۸.‏ داؤد انتقام لینے سے کیوں باز رہا؟‏

۸ داؤد نے ساؤل کو نقصان پہنچانے سے انکار کر دیا۔‏ ایمان اور تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے،‏ وہ معاملات کو یہوواہ کے ہاتھوں میں سونپ کر مطمئن تھا۔‏ جب بادشاہ غار سے نکل گیا تو داؤد نے پکار کر اُس سے کہا:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ میرے اور تیرے درمیان اِنصاف کرے اور [‏یہوواہ]‏ تجھ سے میرا انتقام لے پر میرا ہاتھ تجھ پر نہیں اُٹھے گا۔‏“‏ (‏۱-‏سموئیل ۲۴:‏۱۲‏)‏ اگرچہ وہ جانتا تھا کہ ساؤل غلطی پر ہے توبھی داؤد نے کبھی بھی انتقام لینے کی بابت نہ سوچا اور نہ ہی اُس نے ساؤل کے سامنے یا اُس کی پیٹھ پیچھے اُس کی بُرائی کی۔‏ کئی دوسرے مواقع پر بھی داؤد نے معاملات کو اپنے ہاتھ میں لینے سے گریز کِیا اور معاملات کو درست کرنے کے لئے یہوواہ پر توکل کِیا۔‏—‏۱-‏سموئیل ۲۵:‏۳۲-‏۳۴؛‏ ۲۶:‏۱۰،‏ ۱۱‏۔‏

۹.‏ جب ہمیں اذیت یا مخالفت کا سامنا ہوتا ہے تو ہمیں بدلہ کیوں نہیں لینا چاہئے؟‏

۹ داؤد کی طرح آپ بھی خود کو مشکل حالات میں محسوس کر سکتے ہیں۔‏ شاید ہم‌مکتب،‏ ساتھی کارکُن،‏ خاندانی افراد یا دیگر ایسے لوگ جو آپ کے ہم‌ایمان نہیں آپ کی مخالفت کرتے ہوں یا آپ کو اذیت پہنچاتے ہوں۔‏ ایسی صورت میں بدلہ نہ لیں۔‏ اپنا بھروسا یہوواہ پر رکھیں اور مدد کے لئے اُس سے پاک رُوح مانگیں۔‏ ممکن ہے وہ بےایمان لوگ آپ کے اچھے چال‌چلن سے متاثر ہوکر ایمان لے آئیں۔‏ (‏۱-‏پطرس ۳:‏۱‏)‏ بہرصورت،‏ اس بات کا یقین رکھیں کہ یہوواہ آپ کی حالت کو سمجھتا ہے اور وقت آنے پر ضرور اس کی بابت کچھ کرے گا۔‏ پولس رسول نے لکھا:‏ ”‏اَے عزیزو!‏ اپنا انتقام نہ لو بلکہ غضب کو موقع دو کیونکہ لکھا ہے کہ [‏یہوواہ]‏ فرماتا ہے انتقام لینا میرا کام ہے۔‏ بدلہ مَیں ہی دُونگا۔‏“‏—‏رومیوں ۱۲:‏۱۹‏۔‏

‏”‏تربیت کی بات سنو“‏

۱۰.‏ داؤد کیسے گُناہ کا مُرتکب ہوا اور اُس نے کیسے اپنے گُناہ کو چھپانے کی کوشش کی؟‏

۱۰ کئی سال گزر گئے۔‏ بادشاہ داؤد کو بڑی شہرت ملی۔‏ اُس کا طرزِزندگی انتہائی وفادارانہ تھا۔‏ اُس نے یہوواہ کی حمد میں خوبصورت مزامیر تحریر کئے۔‏ ایسا دکھائی دیتا تھا کہ ایسا شخص کبھی سنگین گُناہ نہیں کرے گا۔‏ تاہم اُس نے ایسا کِیا۔‏ ایک دن بادشاہ نے اپنے محل کی چھت سے ایک خوبصورت عورت کو نہاتے دیکھا۔‏ اُسے دریافت کرنے پر پتہ چلا کہ اُس کا نام بت‌سبع ہے جو اوریاہ کی بیوی ہے جو جنگ کے لئے گیا ہوا تھا۔‏ داؤد نے اُسے بلوا بھیجا اور اُس کے ساتھ صحبت کی۔‏ بعدازاں،‏ بت‌سبع کو حاملہ پایا گیا۔‏ اگر معاملہ توجہ میں آ جاتا ہے تو اُس کی بہت بیعزتی ہوگی!‏ موسوی شریعت کے تحت زناکاری ایک سنگین گُناہ تھا جس کی سزا موت تھی۔‏ بادشاہ نے سوچا کہ اس گُناہ کو چھپایا جا سکتا ہے۔‏ پس اُس نے اپنی فوج کو حکم دیا کہ اوریاہ کو واپس یروشلیم بھیج دیا جائے۔‏ داؤد کا خیال تھا کہ اوریاہ بت‌سبع کے ساتھ رات گزارے گا مگر ایسا نہ ہوا۔‏ اب داؤد پریشان ہوکر اوریاہ کو ایک خط کے ساتھ فوجی سردار یوآب کے پاس واپس جنگ پر بھیج دیتا ہے۔‏ خط میں لکھا تھا کہ اوریاہ کو جنگ میں سب سے آگے رکھا جائے تاکہ وہ مارا جائے۔‏ یوآب نے اس حکم کی تعمیل کی اور اوریاہ مارا گیا۔‏ بت‌سبع کے سوگ کے دن پورے ہو جانے کے بعد،‏ داؤد نے اُسے اپنی بیوی بنا لیا۔‏—‏۲-‏سموئیل ۱۱:‏۱-‏۲۷‏۔‏

۱۱.‏ ناتن نے داؤد کے سامنے کیا صورتحال بیان کی اور اُس کا ردِعمل کیسا تھا؟‏

۱۱ بظاہر یہ منصوبہ کامیاب ثابت ہوا مگر داؤد کو تسلیم کرنا پڑا کہ یہوواہ کی نظر میں کچھ بھی پوشیدہ نہیں۔‏ (‏عبرانیوں ۴:‏۱۳‏)‏ کئی مہینے گزر گئے اور بچہ پیدا ہو گیا۔‏ پھر خدا کی ہدایت پر ناتن نبی کو داؤد کے پاس بھیجا گیا۔‏ نبی نے بادشاہ کے سامنے ایک ایسی صورتحال بیان کی جس میں ایک بڑے ریوڑ کے مالک ایک ادنیٰ شخص کی ایک ہی بھیڑ لیکر ذبح کر دی۔‏ اس کہانی نے داؤد کی انصاف کی حس کو بیدار کر دیا مگر وہ اس کا پوشیدہ مطلب نہ سمجھ سکا۔‏ داؤد نے فوراً اُس شخص کے خلاف فیصلہ دے دیا۔‏ سخت غصے میں اُس نے ناتن نبی سے کہا:‏ ”‏وہ شخص جس نے یہ کام کِیا واجب‌اُلقتل ہے۔‏“‏—‏۲-‏سموئیل ۱۲:‏۱-‏۶‏۔‏

۱۲.‏ یہوواہ نے داؤد کے خلاف کیا فیصلہ سنایا؟‏

۱۲ ناتن نبی نے جواب دیا،‏ ”‏وہ شخص تُو ہی ہے۔‏“‏ داؤد نے خود ہی اپنی بابت فیصلہ سنا دیا تھا۔‏ جلد ہی داؤد کا فعل بہت زیادہ رسوائی اور غم کا باعث بنا۔‏ داؤد دم‌بخود ہوکر ناتن نبی کی معرفت یہوواہ کی طرف سے ناگزیر فیصلہ سنتا رہا۔‏ اُس کے لئے تسلی اور تشفی کے الفاظ نہیں تھے۔‏ داؤد نے یہوواہ کی بات کی تحقیر کرکے اُس کے حضور بدی کی۔‏ کیا اُس نے اوریاہ کو تلوار سے مار کر اُس کی بیوی نہیں لے لی تھی؟‏ اس لئے تلوار داؤد کے گھر سے جُدا نہیں ہوگی۔‏ کیا اُس نے پوشیدگی میں اوریاہ کی بیوی کے ساتھ گُناہ نہیں کِیا تھا؟‏ ایسا ہی گُناہ سرِعام اُس کے گھرانے کے خلاف کِیا جائے گا۔‏—‏۲-‏سموئیل ۱۲:‏۷-‏۱۲‏۔‏

۱۳.‏ داؤد نے یہوواہ کی تنبیہ کے لئے کیسا ردِعمل دکھایا؟‏

۱۳ داؤد کی اچھی بات یہ تھی کہ اُس نے غلطی کو تسلیم کِیا۔‏ وہ ناتن نبی پر ناراض نہ ہوا۔‏ اُس نے دوسروں پر الزام نہ لگایا اور نہ ہی اپنے لئے عذر تلاش کئے۔‏ داؤد نے اپنے گُناہوں کا اقرار کِیا اور کہا:‏ ”‏مَیں نے [‏یہوواہ]‏ کا گُناہ کِیا۔‏“‏ (‏۲-‏سموئیل ۱۲:‏۱۳‏)‏ زبور ۵۱ غلطی پر داؤد کی جھنجھلاہٹ اور اُس کی توبہ کی گہرائی کو بیان کرتا ہے۔‏ اُس نے یہوواہ کے حضور فریاد کی:‏ ”‏مجھے اپنے حضور سے خارج نہ کر اور اپنی پاک رُوح کو مجھ سے جُدا نہ کر۔‏“‏ اُس کا ایمان تھا کہ یہوواہ گُناہ کی وجہ سے اپنے رحم میں ”‏شکستہ اور خستہ دل کو حقیر نہ جانے گا۔‏“‏ (‏زبور ۵۱:‏۱۱،‏ ۱۷‏)‏ داؤد یہوواہ کی رُوح پر بھروسا کرتا رہا۔‏ یہوواہ نے داؤد کو اُس کے گُناہوں کے نتائج سے تو نہ بچایا لیکن اُس نے اُسے معاف ضرور کر دیا تھا۔‏

۱۴.‏ ہمیں یہوواہ کی طرف سے تربیت کے لئے کیسا ردِعمل دکھانا چاہئے؟‏

۱۴ ہم سب ناکامل ہونے کی وجہ سے گُناہ کرتے ہیں۔‏ (‏رومیوں ۳:‏۲۳‏)‏ بعض‌اوقات ہم داؤد کی مانند سنگین گُناہ کے مُرتکب ہوتے ہیں۔‏ جیسے شفیق والد اپنے بچوں کی تربیت کرتا ہے،‏ اُسی طرح یہوواہ اُن لوگوں کو تادیب کرتا ہے جو اُس کی خدمت کرنا چاہتے ہیں۔‏ اگرچہ تربیت ضروری ہے توبھی اسے قبول کرنا اتنا آسان نہیں۔‏ درحقیقت،‏ یہ کبھی‌کبھار ”‏غم“‏ کا باعث ہوتی ہے۔‏ (‏عبرانیوں ۱۲:‏۶،‏ ۱۱‏)‏ تاہم،‏ اگر ہم ’‏تربیت کی بات سنتے‘‏ ہیں تو ہم یہوواہ کے ساتھ میل‌ملاپ کر سکتے ہیں۔‏ (‏امثال ۸:‏۳۳‏)‏ پس یہوواہ کی رُوح کی برکات سے مستفید ہونے کے لئے ہمیں اصلاح کو قبول کرنا اور خدا کی مقبولیت حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔‏

ناپائیدار دولت پر بھروسا نہ کریں

۱۵.‏ (‏ا)‏ بعض لوگ اپنی دولت کو کیسے استعمال کرتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ داؤد اُسے کیسے استعمال کرنا چاہتا تھا؟‏

۱۵ اس کا کوئی ثبوت نہیں کہ داؤد ایک ممتاز یا دولتمند گھرانے سے تعلق رکھتا تھا۔‏ تاہم،‏ اُس کی حکومت کے دوران،‏ داؤد نے بےپناہ دولت جمع کی۔‏ جیساکہ آپ جانتے ہیں،‏ بیشتر لوگ اپنی دولت یا تو ذخیرہ کرتے ہیں،‏ اسے بڑھانے کا لالچ کرتے ہیں یا پھر اسے خرچ کر دیتے ہیں۔‏ دیگر اپنے پیسے کو خودنمائی کے لئے استعمال کرتے ہیں۔‏ (‏متی ۶:‏۲‏)‏ تاہم داؤد نے اپنی دولت کو مختلف طریقے سے استعمال کِیا۔‏ وہ یہوواہ کو جلال دینے کا مشتاق تھا۔‏ داؤد نے ناتن سے کہا کہ وہ یہوواہ کے لئے ہیکل بنانا چاہتا ہے جس میں عہد کا صندوق رکھا جائے گا جو اُس وقت یروشلیم میں ”‏پردوں کے اندر رہتا“‏ تھا۔‏ یہوواہ داؤد کے ارادوں سے بہت خوش ہوا مگر اُس نے ناتن کی معرفت اُسے آگاہ کِیا کہ ہیکل اُس کا بیٹا سلیمان تعمیر کرے گا۔‏—‏۲-‏سموئیل ۷:‏۱،‏ ۲،‏ ۱۲،‏ ۱۳‏۔‏

۱۶.‏ داؤد نے ہیکل کی تعمیر کے لئے کیا تیاریاں کی تھیں؟‏

۱۶ داؤد نے اس بڑے تعمیری پروجیکٹ کے لئے بہت سارا سازوسامان جمع کِیا۔‏ داؤد نے سلیمان سے کہا:‏ دیکھ مَیں نے مشقت سے [‏یہوواہ]‏ کے گھر کے لئے ایک لاکھ قنطار سونا اور دس لاکھ قنطار چاندی اور بےاندازہ پیتل اور لوہا تیار کِیا ہے کیونکہ وہ کثرت سے ہے اور لکڑی اور پتھر بھی مَیں نے تیار کئے ہیں اور تُو اُن کو اَور بڑھا سکتا ہے۔‏“‏ اپنے ذاتی خزانے سے،‏ اُس نے ۰۰۰،‏۳ قنطار سونا اور ۰۰۰،‏۷ قنطار چاندی کا ہدیہ پیش کِیا۔‏ * (‏۱-‏تواریخ ۲۲:‏۱۴؛‏ ۲۹:‏۳،‏ ۴‏)‏ داؤد کی فیاضی محض دکھاوا نہیں تھی بلکہ یہوواہ خدا کے لئے ایمان اور عقیدت کا اظہار تھی۔‏ اپنی دولت کے ماخذ کو تسلیم کرتے ہوئے،‏ اُس نے یہوواہ سے کہا:‏ ”‏سب چیزیں تیری طرف سے ملتی ہیں اور تیری ہی چیزوں میں سے ہم نے تجھے دیا ہے۔‏“‏ (‏۱-‏تواریخ ۲۹:‏۱۴‏)‏ داؤد کے فیاض دل نے اُسے سچی پرستش کو فروغ دینے کی تحریک دی تھی۔‏

۱۷.‏ پہلا تیمتھیس ۶:‏۱۷-‏۱۹ کی مشورت امیر اور غریب دونوں پر کیسے عائد ہوتی ہے؟‏

۱۷ اسی طرح ہم بھی اپنے اثاثوں کو اچھے کام کے لئے استعمال کر سکتے ہیں۔‏ مادہ‌پرستانہ طرزِزندگی اختیار کرنے کی بجائے،‏ خدا کی پسندیدگی حاصل کرنا یعنی حقیقی حکمت اور خوشی حاصل کرنا زیادہ بہتر ہے۔‏ پولس نے لکھا:‏ ”‏اس موجودہ جہان کے دولتمندوں کو حکم دے کہ مغرور نہ ہوں اور ناپایدار دولت پر نہیں بلکہ خدا پر اُمید رکھیں جو ہمیں لطف اُٹھانے کے لئے سب چیزیں افراط سے دیتا ہے۔‏ اور نیکی کریں اور اچھے کاموں میں دولتمند بنیں اور سخاوت پر تیار اور امداد پر مستعد ہوں۔‏ اور آیندہ کیلئے اپنے واسطے ایک اچھی بنیاد قائم کر رکھیں تاکہ حقیقی زندگی پر قبضہ کریں۔‏“‏ (‏۱-‏تیمتھیس ۶:‏۱۷-‏۱۹‏)‏ ہماری معاشی حالت خواہ کیسی بھی ہو،‏ خدا کی رُوح پر بھروسا کریں اور ایسا طرزِزندگی اختیار کریں جو ہمیں ”‏خدا کے نزدیک دولتمند“‏ بنا دے۔‏ (‏لوقا ۱۲:‏۲۱‏)‏ اپنے شفیق آسمانی باپ کے ساتھ مقبول رشتہ قائم کرنے سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں۔‏

خود کو خدا کے سامنے مقبول ثابت کریں

۱۸.‏ داؤد نے کیسے مسیحیوں کے لئے ایک عمدہ نمونہ قائم کِیا؟‏

۱۸ داؤد عمربھر یہوواہ کی مقبولیت کا طالب رہا۔‏ اُس نے یہ گیت گایا:‏ ”‏مجھ پر رحم کر اَے خدا!‏ مجھ پر رحم کر کیونکہ میری جان تیری پناہ لیتی ہے۔‏“‏ (‏زبور ۵۷:‏۱‏)‏ یہوواہ پر اُس کا بھروسا بیکار ثابت نہ ہوا۔‏ داؤد ”‏بڈھا اور عمررسیدہ“‏ ہوا۔‏ (‏۱-‏تواریخ ۲۳:‏۱‏)‏ اگرچہ داؤد نے سنگین غلطیاں کیں توبھی اُس کا شمار اُن بہت سے گواہوں میں ہوتا ہے جنہوں نے غیرمعمولی ایمان کا مظاہرہ کِیا تھا۔‏—‏عبرانیوں ۱۱:‏۳۲‏۔‏

۱۹.‏ ہم اپنے آپ کو خدا کے سامنے کیسے مقبول ثابت کر سکتے ہیں؟‏

۱۹ جب آپ زندگی میں تبدیلیوں کا سامنا کرتے ہیں تو یاد رکھیں کہ جس طرح یہوواہ نے داؤد کو سنبھالا،‏ طاقت بخشی اور اصلاح کی وہ آپ کے لئے بھی ایسا ہی کر سکتا ہے۔‏ داؤد کی مانند پولس رسول نے بھی زندگی میں بہت سی تبدیلیوں کا سامنا کِیا۔‏ تاہم اُس نے بھی خدا کی رُوح پر بھروسا کرنے سے وفاداری کا مظاہرہ کِیا۔‏ اُس نے لکھا:‏ ”‏ہر ایک بات اور سب حالتوں میں مَیں نے سیر ہونا بھوکا رہنا اور بڑھنا گھٹنا سیکھا ہے۔‏ جو مجھے طاقت بخشتا ہے اُس میں مَیں سب کچھ کر سکتا ہوں۔‏“‏ (‏فلپیوں ۴:‏۱۲،‏ ۱۳‏)‏ اگر ہم یہوواہ پر بھروسا کرتے ہیں تو وہ ہمیں کامیاب رہنے میں مدد دے گا۔‏ وہ چاہتا ہے کہ ہم کامیاب رہیں۔‏ اگر ہم اُس کی سنتے اور اُس کے نزدیک جاتے ہیں تو وہ ہمیں اپنی مرضی بجا لانے کی طاقت بخشے گا۔‏ نیز اگر ہم خدا کی رُوح پر بھروسا رکھتے ہیں تو ہم اب اور ابد تک ’‏اپنے آپ کو خدا کے سامنے مقبول پیش کرنے‘‏ کے قابل ہوں گے۔‏—‏۲-‏تیمتھیس ۲:‏۱۵‏۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 16 آجکل کے حساب سے،‏ داؤد کے ہدیے کی مالیت ۰۰۰،‏۰۰،‏۰۰،‏۲۰،‏۱ امریکی ڈالر سے زیادہ تھی۔‏

آپ کیسے جواب دیں گے؟‏

‏• ہم مغرور ہونے سے کیسے بچ سکتے ہیں؟‏

‏• ہمیں انتقام کیوں نہیں لینا چاہئے؟‏

‏• تربیت کی بابت ہمارا کیا نظریہ ہونا چاہئے؟‏

‏• ہمیں دولت کی بجائے خدا پر کیوں بھروسا کرنا چاہئے‏؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۱۷ پر تصویر]‏

داؤد نے خدا کی رُوح پر بھروسا کِیا اور الہٰی مقبولیت کا خواہاں ہوا۔‏ کیا آپ بھی ایسا کر رہے ہیں؟‏

‏[‏صفحہ ۱۸ پر تصویر]‏

‏”‏سب چیزیں تیری طرف سے ملتی ہیں اور تیری ہی چیزوں میں سے ہم نے تجھے دیا ہے“‏