مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

خدا کے لوگوں کو رحمدلی کو عزیز رکھنا چاہئے

خدا کے لوگوں کو رحمدلی کو عزیز رکھنا چاہئے

خدا کے لوگوں کو رحمدلی کو عزیز رکھنا چاہئے

‏”‏[‏یہوواہ]‏ تجھ سے اسکے سوا کیا چاہتا ہے کہ تُو انصاف کرے اور رحمدلی کو عزیز رکھے اور اپنے خدا کے حضور فروتنی سے چلے؟‏“‏—‏میکاہ ۶:‏۸‏۔‏

۱،‏ ۲.‏ (‏ا)‏ ہمیں اس بات سے کیوں حیران نہیں ہونا چاہئے کہ یہوواہ اپنے لوگوں سے رحمدلی کی توقع کرتا ہے؟‏ (‏ب)‏ رحمدلی کے سلسلے میں کونسے سوالات ہماری توجہ کے مستحق ہیں؟‏

یہوواہ رحمدل خدا ہے۔‏ (‏رومیوں ۲:‏۴؛‏ ۱۱:‏۲۲‏)‏ پہلے جوڑے آدم اور حوا نے اس حقیقت کی کتنی قدر کی ہوگی!‏ باغِ‌عدن میں اُنکے اردگرد ایسی تخلیق تھی جو انسانوں کے لئے خدا کی رحمدلی کا واضح ثبوت تھی جو اس سے لطف‌اندوز ہونے کے قابل تھے۔‏ مگر یہوواہ تو سب پر بلکہ ناشکرے اور بدکار لوگوں پر بھی مہربان ہے۔‏

۲ خدا کی صورت پر ہونے کی وجہ سے انسانوں کے اندر خدائی خوبیاں ظاہر کرنے کی صلاحیت ہے۔‏ (‏پیدایش ۱:‏۲۶‏)‏ پس اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں کہ یہوواہ ہم سے رحمدلی ظاہر کرنے کی توقع کرتا ہے۔‏ جیسےکہ میکاہ ۶:‏۸ بیان کرتی ہے،‏ خدا کے لوگوں کو ”‏رحمدلی“‏ ظاہر کرنی چاہئے۔‏ مگر رحمدلی دراصل ہے کیا؟‏ اسکا دیگر خدائی صفات سے کیا تعلق ہے؟‏ اگرچہ انسان رحمدلی ظاہر کرنے کے قابل ہیں توبھی دُنیا اسقدر ظالم اور بےرحم کیوں ہے؟‏ مسیحیوں کے طور پر ہمیں کیوں دوسروں کیساتھ اپنے تعلقات میں رحمدلی ظاہر کرنی چاہئے؟‏

رحمدلی کیا ہے؟‏

۳.‏ آپ رحمدلی کو کیسے بیان کرینگے؟‏

۳ دوسروں کی بہتری میں گہری دلچسپی لینے سے رحمدلی کا مظاہرہ کِیا جا سکتا ہے۔‏ یہ مہربان کاموں اور قدردان الفاظ سے ظاہر کی جا سکتی ہے۔‏ مہربان ہونے کا مطلب کسی کو نقصان پہنچانے کی بجائے اُس کے ساتھ نیکی کرنا ہے۔‏ ایک رحمدل شخص بامروت،‏ سنجیدہ،‏ ہمدرد اور شفیق ہوتا ہے۔‏ وہ دوسروں کے لئے فیاضی اور مروت کا میلان رکھتا ہے۔‏ پولس رسول نے مسیحیوں کو نصیحت کی تھی:‏ ”‏پس خدا کے برگزیدوں کی طرح جو پاک اور عزیز ہیں دردمندی اور مہربانی اور فروتنی اور حلم اور تحمل کا لباس پہنو۔‏“‏ (‏کلسیوں ۳:‏۱۲‏)‏ لہٰذا،‏ رحمدلی ہر سچے مسیحی کے علامتی لباس کا حصہ ہے۔‏

۴.‏ انسانوں کیلئے رحم ظاہر کرنے میں یہوواہ نے کیسے پہل کی ہے؟‏

۴ یہوواہ نے رحم ظاہر کرنے میں پیشوائی کی ہے۔‏ جیسے پولس بیان کرتا ہے کہ ”‏جب ہمارے مُنجی خدا کی مہربانی اور انسان کیساتھ اُسکی اُلفت ظاہر ہوئی۔‏ تو اُس نے .‏ .‏ .‏ اپنی رحمت کے مطابق نئی پیدایش کے غسل اور رُوح‌اُلقدس کے ہمیں نیا بنانے کے وسیلہ سے“‏ نجات دی۔‏ (‏ططس ۳:‏۴،‏ ۵‏)‏ خدا مسیح کے فدیے کی قربانی کے فوائد کا اطلاق کرتے ہوئے ممسوح مسیحیوں کو یسوع کے خون سے صاف کرتا یا ’‏غسل‘‏ دیتا ہے۔‏ وہ رُوح‌اُلقدس کے ذریعے بھی پاک‌صاف کئے جاتے اور خدا کے رُوح سے مسیح‌شُدہ بیٹوں کے طور پر ’‏نئی مخلوق‘‏ بن جاتے ہیں۔‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۵:‏۱۷‏)‏ علاوہ‌ازیں،‏ خدا اپنا رحم اور محبت ”‏بڑی بِھیڑ“‏ کے لئے بھی ظاہر کرتا ہے جنہوں نے ”‏اپنے جامے برّہ کے خون سے دھو کر سفید کئے ہیں۔‏“‏—‏مکاشفہ ۷:‏۹،‏ ۱۴؛‏ ۱-‏یوحنا ۲:‏۱،‏ ۲‏۔‏

۵.‏ خدا کی رُوح سے ہدایت پانے والوں کو کیوں رحم ظاہر کرنا چاہئے؟‏

۵ رحم خدا کی پاک رُوح یا سرگرم قوت کے پھلوں میں سے بھی ایک ہے۔‏ پولس نے لکھا:‏ ”‏مگر رُوح کا پھل محبت۔‏ خوشی۔‏ اطمینان۔‏ تحمل۔‏ مہربانی۔‏ نیکی۔‏ ایمانداری۔‏ حلم۔‏ پرہیزگاری ہے۔‏ ایسے کاموں کی کوئی شریعت مخالف نہیں۔‏“‏ (‏گلتیوں ۵:‏۲۲،‏ ۲۳‏)‏ پس کیا خدا کی رُوح سے ہدایت پانے والے لوگوں کو دوسروں کیلئے رحم ظاہر نہیں کرنا چاہئے؟‏

حقیقی رحم ایک کمزوری نہیں

۶.‏ کب رحم ایک کمزوری بن جاتا ہے اور کیوں؟‏

۶ بعض لوگ رحم کو ایک کمزوری خیال کرتے ہیں۔‏ وہ سوچتے ہیں کہ ایک شخص کو کبھی‌کبھار سخت‌گیر یا متکبر بھی ہونا چاہئے تاکہ دوسرے اُسکی خوبیوں کو جان سکیں۔‏ تاہم،‏ حقیقی معنوں میں رحمدل ہونے اور محض رحمدلی کا دکھاوا نہ کرنے کیلئے قوت درکار ہے۔‏ چونکہ حقیقی رحم خدا کی رُوح کے پھلوں میں سے ایک ہے اسلئے یہ کوئی خامی یا کمزوری یا غلط چال‌چلن کیلئے مصالحت کرنے والا میلان نہیں ہو سکتا۔‏ اسکے برعکس،‏ غلط قسم کا رحم ایک کمزوری ہے جو غلط‌کاری سے چشم‌پوشی کرنے کا باعث بنتی ہے۔‏

۷.‏ (‏ا)‏ عیلی نے کیسے رواداری کا ثبوت دیا؟‏ (‏ب)‏ بزرگوں کو رحم کا غلط استعمال کرنے سے کیوں خبردار رہنا چاہئے؟‏

۷ اسرائیل کے سردار کاہن عیلی کی مثال پر غور کریں۔‏ وہ اپنے بیٹوں حُفنی اور فینحاس کی تربیت کرنے میں ناکام رہا جو خیمۂ‌اجتماع میں کاہنوں کے طور پر خدمت کرنے پر مامور تھے۔‏ شریعت کے مطابق اُنہیں قربانی کا جو حصہ ملتا تھا وہ اُس پر اکتفا کرنے کی بجائے لوگوں سے قربانی گزراننے سے پہلے ہی کچا گوشت مانگتے تھے۔‏ عیلی کے بیٹے خیمۂ‌اجتماع کے دروازے پر خدمت کرنے والی عورتوں کیساتھ جنسی بدفعلی بھی کرتے تھے۔‏ تاہم حُفنی اور فینحاس کو اُن کی خدمت سے ہٹانے کی بجائے،‏ عیلی نے اُنہیں محض ڈانٹ‌ڈپٹ کرنے پر ہی اکتفا کِیا۔‏ (‏۱-‏سموئیل ۲:‏۱۲-‏۲۹‏)‏ اسی لئے ”‏اُن دِنوں [‏یہوواہ]‏ کا کلام گران قدر تھا“‏!‏ (‏۱-‏سموئیل ۳:‏۱‏)‏ مسیحی بزرگوں کو احتیاط برتنے کی ضرورت ہے کہ وہ غلط‌کاری کے مرتکب اشخاص کیلئے غلط قسم کی رحمدلی ظاہر کرنے کے خطرے میں نہ پڑ جائیں جوکہ کلیسیا کی روحانیت کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔‏ حقیقی رحم خدا کے معیاروں کو توڑنے والے خراب قول‌وفعل کو نظرانداز نہیں کرتا۔‏

۸.‏ یسوع نے کیسے حقیقی رحمدلی کا مظاہرہ کِیا؟‏

۸ ہمارے لئے عمدہ نمونہ قائم کرنے والے یسوع مسیح نے کبھی غلط قسم کا رحم ظاہر نہیں کِیا تھا۔‏ بلکہ وہ حقیقی رحم کی بہترین مثال تھا۔‏ مثال کے طور پر،‏ اُسے ’‏لوگوں پر ترس آتا تھا کیونکہ وہ اُن بھیڑوں کی مانند جنکا چرواہا نہ ہو خستہ‌حال اور پراگندہ تھے۔‏‘‏ خلوصدل لوگ یسوع کے پاس آنے سے گھبراتے نہیں تھے بلکہ اپنے بچوں کو بھی اُسکے پاس لاتے تھے۔‏ ذرا سوچیں کہ اُس نے ’‏بچوں کو اپنی گود میں لیکر اُنکو برکت دینے سے‘‏ کسقدر رحم اور شفقت کا مظاہرہ کِیا تھا۔‏ (‏متی ۹:‏۳۶؛‏ مرقس ۱۰:‏۱۳-‏۱۶‏)‏ اگرچہ یسوع رحمدل تھا توبھی وہ اپنے آسمانی باپ کی نظروں میں درست کام کرنے کی بابت مستقل‌مزاج بھی تھا۔‏ یسوع نے کبھی بدکاری سے چشم‌پوشی نہیں کی تھی؛‏ اُسے ریاکار مذہبی پیشواؤں کی مذمت کرنے کا خداداد حوصلہ حاصل تھا۔‏ متی ۲۳:‏۱۳-‏۲۶ کے مطابق اُس نے کئی مرتبہ اس اظہار کو دہرایا:‏ ”‏اَے ریاکار فقیہو اور فریسیو تم پر افسوس!‏“‏

رحم اور دیگر خدائی خوبیاں

۹.‏ مہربانی یا رحمدلی کا تحمل اور نیکی سے کیا تعلق ہے؟‏

۹ رحمدلی کا تعلق خدا کی رُوح سے پیدا ہونے والی دیگر خوبیوں کیساتھ بھی ہے۔‏ اسکا ذکر ”‏تحمل“‏ اور ”‏نیکی“‏ کے بیچ میں کِیا گیا ہے۔‏ بِلاشُبہ،‏ جو شخص اپنے اندر رحمدلی کی خوبی پیدا کرتا ہے وہ تحمل کا مظاہرہ بھی کرتا ہے۔‏ وہ نامہربان لوگوں کیساتھ بھی تحمل سے پیش آتا ہے۔‏ مہربانی کا ذکر نیکی کیساتھ اسلئے کِیا گیا ہے کیونکہ اسکا مظاہرہ اکثر دوسروں کیلئے مفید کام کرنے کیساتھ کِیا گیا ہے۔‏ بعض‌اوقات بائبل میں ”‏مہربانی“‏ کیلئے استعمال ہونے والے یونانی لفظ کا ترجمہ ”‏نیکی“‏ بھی کِیا جا سکتا ہے۔‏ ابتدائی مسیحیوں کے درمیان پائی جانے والی اس خوبی نے غیرقوموں کو اسقدر حیران کر دیا کہ طرطلیان کے مطابق،‏ غیرقوم لوگ یسوع کے پیروکاروں کو ’‏رحیم لوگ‘‏ کہتے تھے۔‏

۱۰.‏ رحمدلی اور محبت میں کیا تعلق ہے؟‏

۱۰ رحمدلی اور محبت کے مابین بھی تعلق ہے۔‏ اپنے پیروکاروں کی بابت یسوع نے فرمایا:‏ ”‏اگر آپس میں محبت رکھو گے تو اس سے سب جانینگے کہ تم میرے شاگرد ہو۔‏“‏ (‏یوحنا ۱۳:‏۳۵‏)‏ نیز اس محبت کی بابت پولس نے لکھا:‏ ”‏محبت صابر ہے اور مہربان۔‏“‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۱۳:‏۴‏)‏ لفظ شفقت میں بھی رحمدلی اور محبت دونوں کا عنصر پایا جاتا ہے اور یہ لفظ صحائف میں کافی مرتبہ استعمال ہوا ہے۔‏ یہ وہ رحمدلی ہے جو وفادارانہ محبت سے جنم لیتی ہے۔‏ ”‏شفقت“‏ کیلئے مستعمل عبرانی اسم میں پاس‌ولحاظ سے زیادہ کچھ شامل ہے۔‏ یہ رحمدلی ہی ہے جو اُس وقت تک کسی چیز سے جڑی رہتی ہے جبتک اُسکا مقصد پورا نہیں ہو جاتا۔‏ یہوواہ کی شفقت یا محبت مختلف طریقوں سے ظاہر ہوتی ہے۔‏ مثال کے طور،‏ یہ رہائی بخشنے اور تحفظ فراہم کرنے کے اُسکے مختلف کاموں سے نظر آتی ہے۔‏—‏زبور ۶:‏۴؛‏ ۴۰:‏۱۱؛‏ ۱۴۳:‏۱۲‏۔‏

۱۱.‏ خدا کی شفقت ہمیں کیا یقین‌دہانی کراتی ہے؟‏

۱۱ یہوواہ کی شفقت لوگوں کو اُسکی طرف مائل کرتی ہے۔‏ (‏یرمیاہ ۳۱:‏۳‏)‏ جب خدا کے وفادار خادموں کو رہائی یا مدد درکار ہوتی ہے تو وہ جانتے ہیں کہ وہ ضرور اُن پر اپنی شفقت ظاہر کریگا۔‏ وہ اُنہیں مایوس نہیں ہونے دیگا۔‏ اسلئے وہ زبورنویس کی طرح ایمان کیساتھ دُعا کر سکتے ہیں:‏ ”‏مَیں نے تو تیری رحمت پر توکل کِیا ہے۔‏ میرا دل تیری نجات سے خوش ہوگا۔‏“‏ (‏زبور ۱۳:‏۵‏)‏ یہوواہ اپنی محبت میں سچا ہے اسلئے اُسکے خادم اُس پر مکمل بھروسا رکھ سکتے ہیں۔‏ اُنہیں یہ یقین‌دہانی حاصل ہے:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ اپنے لوگوں کو ترک نہیں کریگا اور وہ اپنی میراث کو نہیں چھوڑیگا۔‏“‏—‏زبور ۹۴:‏۱۴‏۔‏

دُنیا اسقدر ظالم کیوں ہے؟‏

۱۲.‏ ظالمانہ حکومت کا آغاز کب اور کیسے ہوا؟‏

۱۲ اس سوال کے جواب کا تعلق باغِ‌عدن میں ہونے والے واقعات سے ہے۔‏ انسانی تاریخ کے شروع ہی میں،‏ خودغرض اور باغی ہو جانے والے ایک روحانی مخلوق نے دُنیا کا حاکم بننے کا منصوبہ تیار کر لیا تھا۔‏ اپنے منصوبے کے مطابق،‏ وہ اس ”‏دُنیا کا سردار“‏ تو بن گیا مگر اُسکی حکمرانی بہت ظالمانہ تھی۔‏ (‏یوحنا ۱۲:‏۳۱‏)‏ وہ خدا اور انسان کے اہم مخالف کے طور پر شیطان اِبلیس کے نام سے مشہور ہو گیا۔‏ (‏یوحنا ۸:‏۴۴؛‏ مکاشفہ ۱۲:‏۹‏)‏ یہوواہ کی مشفقانہ حکمرانی کی مخالفت میں اُسکی خودغرضانہ حکمرانی کا منصوبہ حوا کی تخلیق کے بعد جلد ہی منظرِعام پر آ گیا۔‏ جی‌ہاں،‏ بدکار حکومت کا آغاز اُس وقت ہوا جب آدم نے خدا سے آزاد خودمحتارانہ حکومت کا انتخاب کِیا اور خدا کی شفقت کو یکسر نظرانداز کر دیا۔‏ (‏پیدایش ۳:‏۱-‏۶‏)‏ اپنے اُوپر حکومت کرنے کی بجائے،‏ آدم اور حوا اِبلیس کے خودغرضانہ اور متکبرانہ نظام کے تحت آ گئے اور اُسکے مطیع بن گئے۔‏

۱۳-‏۱۵.‏ (‏ا)‏ یہوواہ کی راست حکمرانی کو مسترد کرنے کے بعض کونسے نتائج نکلے؟‏ (‏ب)‏ یہ دُنیا سنگدل کیوں ہے؟‏

۱۳ اسکے چند نتائج پر غور کریں۔‏ آدم اور حوا کو فردوسی زمین سے بےدخل کر دیا گیا تھا۔‏ وہ صحت‌بخش نباتات اور پھل تک بآسانی رسائی سے محروم ہوکر باغِ‌عدن کے باہر مشکل حالات میں پھنس گئے۔‏ خدا نے آدم سے فرمایا:‏ ”‏چونکہ تُو نے اپنی بیوی کی بات مانی اور اُس درخت کا پھل کھایا جسکی بابت مَیں نے تجھے حکم دیا تھا کہ اُسے نہ کھانا اِسلئے زمین تیرے سبب سے لعنتی ہوئی۔‏ مشقت کیساتھ تُو اپنی عمربھر اُسکی پیداوار کھائیگا۔‏ اور وہ تیرے لئے کانٹے اور اُونٹکٹارے اُگائیگی۔‏“‏ زمین کے لعنتی ہونے کا مطلب یہ تھا کہ اب اُسکی کاشت کرنا مشکل ہو جائیگی۔‏ اُونٹ‌کٹاروں والی اس لعنتی زمین کی بابت آدم کی اولاد،‏ نوح کے باپ لمک نے اپنے دُکھ کا اظہار یوں کِیا:‏ ”‏یہ ہمارے ہاتھوں کی محنت اور مشقت سے جو زمین کے سبب سے ہے جس پر خدا نے لعنت کی ہے۔‏“‏—‏پیدایش ۳:‏۱۷-‏۱۹؛‏ ۵:‏۲۹‏۔‏

۱۴ آدم اور حوا نے بھی اس وجہ سے کافی تکلیف اُٹھائی۔‏ خدا نے حوا سے کہا:‏ ”‏مَیں تیرے دردِحمل کو بہت بڑھاؤنگا۔‏ تُو درد کے ساتھ بچے جنے گی اور تیری رغبت اپنے شوہر کی طرف ہوگی اور وہ تجھ پر حکومت کریگا۔‏“‏ بعدازاں،‏ آدم اور حوا کے پہلوٹھے بیٹے قائن نے اپنے بھائی ہابل کو قتل کر دیا۔‏—‏پیدایش ۳:‏۱۶؛‏ ۴:‏۸‏۔‏

۱۵ یوحنا رسول نے بیان کِیا،‏ ”‏ساری دُنیا اُس شریر کے قبضہ میں پڑی ہوئی ہے۔‏“‏ (‏۱-‏یوحنا ۵:‏۱۹‏)‏ اپنے حاکم کی طرح،‏ آجکل کی دُنیا بھی بدکار خصلتیں ظاہر کرتی ہے جس میں خودغرضی اور تکبر شامل ہے۔‏ بِلاشُبہ یہ سنگدلی اور ظلم سے بھری ہوئی ہے!‏ مگر یہ ہمیشہ ایسے ہی نہ رہیگا۔‏ یہوواہ اس بات کو یقینی بنائیگا کہ اُسکی بادشاہی کے تحت سنگدلی اور ظلم کی بجائے رحمدلی اور شفقت کا دَوردورا ہو۔‏

خدا کی بادشاہی میں رحمدلی کا دَوردورا ہوگا

۱۶.‏ یسوع مسیح کے ذریعے یہوواہ کی حکمرانی کا وصف رحمدلی کیوں ہے اور اس وجہ سے ہم پر کیا کرنا فرض ہے؟‏

۱۶ یہوواہ اور اُسکی بادشاہی کا مُتعیّنہ بادشاہ یسوع مسیح یہ چاہتے ہیں کہ اُنکی رعایا اپنی رحمدلی کی وجہ سے مشہور ہو۔‏ (‏میکاہ ۶:‏۸‏)‏ یسوع مسیح نے ہمیں اس بات کی جھلک پیش کی تھی کہ اُسکے باپ کی طرف سے عطاکردہ اُسکی حکمرانی میں کسقدر رحمدلی پائی جائیگی۔‏ (‏عبرانیوں ۱:‏۳‏)‏ اسکا مشاہدہ یسوع کے اُن الفاظ سے کِیا جا سکتا ہے جس میں اُس نے لوگوں پر بھاری بوجھ ڈالنے والے مذہبی پیشواؤں کو بےنقاب کِیا تھا۔‏ اُس نے کہا:‏ ”‏اَے محنت اُٹھانے والو اور بوجھ سے دبے ہوئے لوگو سب میرے پاس آؤ۔‏ مَیں تمکو آرام دُونگا۔‏ میرا جؤا اپنے اُوپر اُٹھا لو اور مجھ سے سیکھو۔‏ کیونکہ مَیں حلیم ہوں اور دل کا فروتن۔‏ تو تمہاری جانیں آرام پائینگی۔‏ کیونکہ میرا جؤا ملائم ہے اور میرا بوجھ ہلکا۔‏“‏ (‏متی ۱۱:‏۲۸-‏۳۰‏)‏ بیشتر زمینی حکمران اور مذہبی پیشوا لوگوں کو کبھی نہ ختم ہونے والے بھاری بوجھوں اور بیکار کاموں سے تھکا دیتے ہیں۔‏ تاہم،‏ جوکچھ یسوع اپنے پیروکاروں سے تقاضا کرتا ہے وہ اُنکی ضروریات اور لیاقتوں کے عین مطابق ہے۔‏ واقعی ایک ملائم اور ہلکا جؤا!‏ کیا ہم اُسکی مانند لوگوں کیساتھ رحمدل ہونے کی تحریک نہیں پاتے؟‏—‏یوحنا ۱۳:‏۱۵‏۔‏

۱۷،‏ ۱۸.‏ ہم یہ یقین کیوں رکھ سکتے ہیں کہ مسیح کیساتھ آسمان میں حکومت کرنے والے اور اُسکے زمینی نمائندے رحمدلی ظاہر کرینگے؟‏

۱۷ اپنے رسولوں سے یسوع کے الفاظ ظاہر کرتے ہیں کہ خدا کی بادشاہتی حکمرانی انسانی حکمرانی سے کتنی مختلف ہے۔‏ بائبل بیان کرتی ہے:‏ ”‏اُن میں یہ تکرار بھی ہوئی کہ ہم میں سے کون بڑا سمجھا جاتا ہے؟‏ اُس نے اُن سے کہا کہ غیرقوموں کے بادشاہ اُن پر حکومت چلاتے ہیں اور جو اُن پر اختیار رکھتے ہیں خداوندِنعمت کہلاتے ہیں۔‏ مگر تم ایسے نہ ہونا بلکہ جو تم میں بڑا ہے وہ چھوٹے کی مانند اور جو سردار ہے وہ خدمت کرنے والے کی مانند بنے۔‏ کیونکہ بڑا کون ہے؟‏ وہ جو کھانا کھانے بیٹھا یا وہ جو خدمت کرتا ہے؟‏ کیا وہ نہیں جو کھانا کھانے بیٹھا ہے؟‏ لیکن مَیں تمہارے درمیان خدمت کرنے والے کی مانند ہوں۔‏“‏—‏لوقا ۲۲:‏۲۴-‏۲۷‏۔‏

۱۸ دُنیاوی حکمران لوگوں پر اپنا اختیار جتاتے اور بڑے بڑے لقب اختیار کرکے بڑا بننے کی کوشش کرتے ہیں۔‏ لیکن یسوع نے فرمایا کہ حقیقی بڑائی تو مستعدی اور مستقل‌مزاجی کیساتھ دوسروں کی خدمت کرنے سے ہوتی ہے۔‏ وہ تمام لوگ جو مسیح کیساتھ آسمان میں حکومت کرینگے یا جو اُسکے زمینی نمائندے ہونگے اُن سب کو فروتنی اور مہربانی کے اُسکے نمونے کی نقل کرنی چاہئے۔‏

۱۹،‏ ۲۰.‏ (‏ا)‏ یسوع نے یہوواہ کی رحمدلی کی انتہا کو کیسے ظاہر کِیا؟‏ (‏ب)‏ رحمدلی ظاہر کرنے کے سلسلے میں ہم یہوواہ کی نقل کیسے کر سکتے ہیں؟‏

۱۹ آئیے یسوع کی پیش‌کردہ ایک دوسری مشفقانہ مشورت پر غور کریں۔‏ یہوواہ کی رحمدلی کو بیان کرتے ہوئے یسوع نے کہا:‏ ”‏اگر تم اپنے محبت رکھنے والوں ہی سے محبت رکھو تو تمہارا کیا احسان ہے؟‏ کیونکہ گنہگار بھی اپنے محبت رکھنے والوں سے محبت رکھتے ہیں۔‏ اور اگر تم اُن ہی کا بھلا کرو جو تمہارا بھلا کریں تو تمہارا کیا احسان ہے؟‏ کیونکہ گنہگار بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔‏ اور اگر تم اُن ہی کو قرض دو جن سے وصول ہونے کی اُمید رکھتے ہو تو تمہارا کیا احسان ہے؟‏ گنہگار بھی گنہگاروں کو قرض دیتے ہیں تاکہ پورا وصول کر لیں۔‏ مگر تم اپنے دشمنوں سے محبت رکھو اور بھلا کرو اور بغیر نااُمید ہوئے قرض دو تو تمہارا اجر بڑا ہوگا اور تم خداتعالےٰ کے بیٹے ٹھہرو گے کیونکہ وہ ناشکروں اور بدوں پر بھی مہربان ہے۔‏ جیسا تمہارا باپ رحیم ہے تم بھی رحمدل ہو۔‏“‏—‏لوقا ۶:‏۳۲-‏۳۶‏۔‏

۲۰ خدائی رحمدلی خودغرضی سے پاک ہے۔‏ یہ نہ تو کچھ طلب کرتی ہے اور نہ ہی کسی چیز کی توقع کرتی ہے۔‏ یہوواہ اپنی رحمدلی کی بدولت ”‏اپنے سورج کو بدوں اور نیکوں دونوں پر چمکاتا ہے اور راستبازوں اور ناراستوں دونوں پر مینہ برساتا ہے۔‏“‏ (‏متی ۵:‏۴۳-‏۴۵؛‏ اعمال ۱۴:‏۱۶،‏ ۱۷‏)‏ اپنے آسمانی باپ کے نمونے پر چلتے ہوئے ہم ناشکرے لوگوں کو نقصان نہیں پہنچاتے بلکہ اُنکے ساتھ نیکی ہی کرتے ہیں بلکہ اپنے دُشمنوں کیساتھ بھی بھلائی کرتے ہیں۔‏ رحمدلی دکھانے سے،‏ ہم یہوواہ اور یسوع پر ظاہر کرتے ہیں کہ ہم خدا کی بادشاہی کے تحت رہنا چاہتے ہیں جب رحمدلی جیسی دیگر خوبیاں تمام نسلِ‌انسانی کے مابین رشتوں میں سرایت کر جائینگی۔‏

رحمدلی کیوں ظاہر کریں؟‏

۲۱،‏ ۲۲.‏ ہمیں رحمدلی کیوں ظاہر کرنی چاہئے؟‏

۲۱ ایک سچے مسیحی کیلئے رحمدل ہونا کیوں ضروری ہے۔‏ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ خدا کی رُوح ہمارے اندر کام کر رہی ہے۔‏ علاوہ‌ازیں،‏ جب ہم حقیقی رحمدلی ظاہر کرتے ہیں تو ہم یہوواہ خدا اور یسوع مسیح کی نقل کرتے ہیں۔‏ جو لوگ خدا کی بادشاہت کی رعایا بننا چاہتے ہیں اُن کیلئے بھی یہ ایک ضروری تقاضا ہے۔‏ اسلئے ہمیں رحمدلی کو عزیز رکھنا اور اسکا مظاہرہ کرنا چاہئے۔‏

۲۲ ہماری روزمرّہ زندگی میں رحمدلی ظاہر کرنے کے چند عملی طریقے کونسے ہیں؟‏ اگلا مضمون اس موضوع پر بات کریگا۔‏

آپ کیسے جواب دینگے؟‏

‏• رحمدلی کیا ہے؟‏

‏• دُنیا سنگدل اور ظالم کیوں ہے؟‏

‏• ہم یہ کیسے جانتے ہیں کہ خدا کی حکومت میں ہر جگہ رحمدلی ظاہر کی جائیگی؟‏

‏• اُن لوگوں کیلئے رحمدلی ظاہر کرنا کیوں ضروری ہے جو خدا کی بادشاہت کے تحت رہنا چاہتے ہیں؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۱۳ پر تصویر]‏

مسیحی بزرگ گلّے کیساتھ اپنے برتاؤ میں رحمدل بننے کی کوشش کرتے ہیں

‏[‏صفحہ ۱۵ پر تصویر]‏

یہوواہ کی شفقت اُسکے خادموں کو مشکل‌اوقات میں تنہا نہیں چھوڑتی

‏[‏صفحہ ۱۶ پر تصویر]‏

یہوواہ رحمدلی کی بدولت اپنا سورج سب پر چمکاتا اور اپنی بارش سب پر برساتا ہے