مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

قدیم کھیلیں اور جیتنے کی اہمیت

قدیم کھیلیں اور جیتنے کی اہمیت

قدیم کھیلیں اور جیتنے کی اہمیت

‏”‏ہر پہلوان سب طرح کا پرہیز کرتا ہے۔‏“‏ ”‏دنگل میں مقابلہ کرنے والا بھی اگر اُس نے باقاعدہ مقابلہ نہ کِیا ہو تو سہرا نہیں پاتا۔‏“‏—‏۱-‏کرنتھیوں ۹:‏۲۵؛‏ ۲-‏تیمتھیس ۲:‏۵‏۔‏

پولس رسول نے جن کھیلوں کا ذکر کِیا وہ قدیم یونانی تہذیب کا اہم حصہ تھیں۔‏ ایسے مقابلوں اور ذہنی رُجحان کی بابت تاریخ کیا بیان کرتی ہے؟‏

حال ہی میں،‏ روم کے کولوسیم میں یونانی کھیلوں کی ایک نمائش،‏ نیکے—‏ال جیوکو آلا ویٹوریا ‏(‏”‏نیکے—‏کھیل اور فتح“‏)‏ منعقد ہوئی۔‏ * اس نمائش کے منتظمین نے اس سوال کے کچھ جواب دینے کیساتھ ساتھ کھیلوں کی بابت ایک قابلِ‌غور مسیحی نظریہ بھی پیش کِیا۔‏

ایک قدیم دستور

یونانی تہذیب ہی کھیلوں میں حصہ لینے والی پہلی تہذیب نہیں تھی۔‏ تقریباً آٹھویں صدی ق.‏س.‏ع.‏ میں یونانی شاعر ہومر نے زندہ معاشرے کی مردانگی اور مقابلہ‌بازی کی رُوح کی وضاحت کرتے ہوئے فوجی شجاعت اور کسرتی کھیلوں کا بالخصوص ذکر کِیا تھا۔‏ اس نمائش سے پتہ چلا کہ یونانی تقریبات کا آغاز،‏ جنگجو اشخاص کے جنازوں پر دیوتاؤں کو تعظیم دینے کی مذہبی رسومات سے ہوا تھا۔‏ مثال کے طور پر،‏ قدیم یونانی شاعر ہومر کے الیئڈ کے مطابق بہادر جنگجو،‏ آکلیز کے ساتھیوں نے کیسے پیٹروکولز کی تدفینی رسومات کے دوران اپنے ہتھیار ایک طرف رکھکر مکےبازی،‏ کشتی،‏ گولا اور نیزہ پھینکنے اور رتھوں کی دوڑ کے ذریعے اپنی بہادری کا مظاہرہ کِیا تھا۔‏

وقت گزرنے کیساتھ ساتھ ایسی تقریبات پورے یونان میں منعقد کی جانے لگیں۔‏ نمائش کے متعلق ایک دستی‌کتاب بیان کرتی ہے:‏ ”‏یہ تقریبات ایک بنیادی موقع فراہم کرتی تھیں جس میں یونانی اپنے دیوتاؤں کی تعظیم میں اپنے لڑائی جھگڑوں اور مقابلہ‌بازی کی رُوح کو ترک کرکے امن کی جستجو میں کھیلوں کے مقابلے میں کامیابی کے خواہاں ہوتے تھے۔‏“‏

مختلف شہری ریاستوں کے لوگ ملکر پرستش کے باہمی مقامات پر اپنے دیوتاؤں کی تعظیم میں کھیلوں کے مقابلے کراتے تھے۔‏ تاہم وقت کیساتھ ساتھ چار ایسے تہوار وجود میں آ گئے جن میں سے زیوس کیلئے اولمپک اور نیمیا مخصوص اور اپالو اور پوسیڈان کیلئے پائی‌تھیان اور استھامیان مخصوص تھے اور انکی اہمیت اُس وقت تک بڑھتی رہی جبتک انہوں نے یونانی قومی تہواروں کا درجہ حاصل نہ کر لیا۔‏ اِن میں پوری یونانی دُنیا کے لوگ حصہ لے سکتے تھے۔‏ یہ تہوار قربانی اور دُعا پر زور دینے کے علاوہ اعلیٰ کھیل یا فنکارانہ مقابلہ‌بازی کے ذریعے دیوتاؤں کی تعظیم بھی کرتے تھے۔‏

ایک رائے کے مطابق ان میں سب سے اہم اور قدیم تہوار کا آغاز ۷۷۶ ق.‏س.‏ع.‏ میں ہوا اور یہ زیوس کی تعظیم میں اولمپیا کے مقام پر ہر چوتھے سال منعقد کِیا جاتا تھا۔‏ دوسرا اہم تہوار پائی‌تھایان تھا۔‏ اِسے قدیم دُنیا کے مشہور دارالاستخارہ،‏ ڈیلفی کے نزدیک منعقد کِیا جاتا تھا اور اِس میں بھی کھیلوں کے مقابلے کرائے جاتے تھے۔‏ لیکن موسیقی اور شاعری کے سرپرست اپالو کی یاد میں گیت اور ناچ‌رنگ کی محفلوں پر زیادہ زور دیا جاتا تھا۔‏

کھیلوں کے مقابلے

جدید کھیلوں کے مقابلے میں اُس وقت کھیلوں کی تعداد بڑی محدود ہوتی تھی اور صرف مرد اس میں حصہ لیتے تھے۔‏ قدیم اولمپکس میں دس سے زیادہ کھیلوں کو شامل نہیں کِیا تھا۔‏ اسلئے کولوسیم میں مورتیوں،‏ سنگ‌تراشی،‏ پچی‌کاری اور ٹیراکوٹا کے مرتبانوں پر مصوری کے بہت کم نمونے نمائش میں رکھے گئے تھے۔‏

مختلف فاصلوں کی تین دوڑیں—‏تقریباً ۲۲۰ گز؛‏ اور زمانۂ‌جدید کے ۴۴۰ گز کے برابر دوہری دوڑ؛‏ اور ۰۰۰،‏۵ گز کی لمبی دوڑ—‏ہوتی تھیں۔‏ کھلاڑی لباس سے بےنیاز ہوکر دوڑ میں حصہ لیتے اور ورزش کرتے تھے۔‏ کھلاڑیوں کو پانچ روشی اور میدانی مدّات کے کھیلوں میں حصہ لینا پڑتا تھا:‏ دوڑنا،‏ لمبی جست لگانا،‏ گولا پھینکنا،‏ نیزہ پھینکنا اور کشتی لڑنا۔‏ دوسرے مقابلوں میں مکابازی اور مکابازی‌وکشتی شامل ہوتی تھی جسے ”‏ظالمانہ کھیل کا نام دیا گیا ہے جو دستانوں کے بغیر مکابازی‌وکشتی پر مشتمل ہوتا تھا۔‏ اِسکے علاوہ اُوپر اور پیچھے سے کھلے اور چھوٹے پہیوں والے دو یا چار گھوڑوں والے رتھوں کی ۶۰۰،‏۱ میٹر کی دوڑیں ہوتی تھیں۔‏

مکابازی نہایت پُرتشدد اور بعض‌اوقات مہلک ثابت ہوتی تھی۔‏ مکابازوں کے مکوں پر سخت چمڑے کی پٹیوں پر لوہے کی تہس‌نہس کرنے والی میخیں لگی ہوتی تھیں۔‏ آپ تصور کر سکتے ہیں کہ سٹراٹوفانٹو نامی ایک مکاباز چار گھنٹوں کی باکسنگ کے بعد آئینے میں خود کو بھی نہیں پہچان سکا تھا۔‏ قدیم مجسّمے اور پچی‌کاری کے نمونے اِس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ مکابازوں کی شکل بُری طرح بگڑ جاتی تھی۔‏

کشتی کے اصولوں کے مطابق پہلوان صرف اپنے حریفوں کے بالائی حصے کو ہاتھ لگا سکتے تھے اور جیتنے والے کو اپنے حریف کو تین مرتبہ پہلے زمین پر چت کرنا پڑتا تھا۔‏ تاہم مکابازی‌وکشتی کے مجموعی مقابلے میں کوئی پابندی نہیں ہوتی تھی۔‏ پہلوان لاتوں اور گھونسوں کا استعمال کر سکتے اور جوڑ بھی مروڑ سکتے تھے۔‏ تاہم،‏ آنکھیں نکالنے،‏ کسی تیزدھار چیز سے کاٹنے اور دانت کاٹنے کی ممانعت تھی۔‏ تاہم بنیادی مقصد اپنے حریف کو زمین پر چت کرنا اور اُسے ہار ماننے پر مجبور کرنا ہوتا تھا۔‏ بعض اِسے ”‏تمام اولمپکس کا بہترین نظارہ“‏ خیال کرتے تھے۔‏

ایک خیال کے مطابق قدیم زمانے کا نہایت مشہور مکابازی‌وکشتی کا مقابلہ ۵۶۴ ق.‏س.‏ع.‏ میں فیصلہ‌کُن اولمپکس میں دیکھنے میں آیا تھا۔‏ اریشیون،‏ جسکا گلا گھونٹا جا رہا تھا،‏ اُسے اتنی ہوش تھی کہ اُس نے اپنے حریف کی ایک پاؤں کی انگلی مروڑ دی۔‏ اُسکے حریف نے درد سے مغلوب ہوکر اریشیون کی موت سے پہلے ہار مان لی۔‏ منصفین نے اریشیون کی لاش کو فاتح قرار دیا!‏

رتھوں کی دوڑ اُن کھیلوں میں نمایاں اور اُمرا میں نہایت مقبول تھی کیونکہ جیتنے والا رتھ‌بان نہیں بلکہ رتھ یا گھوڑوں کا مالک ہوتا تھا۔‏ مقابلے کے فیصلہ‌کُن لمحے دوڑ کے آغاز میں ہوتے تھے کیونکہ رتھ‌بانوں کو روش کو سیدھا اور سب سے بڑھکر مڑنے کی جگہوں پر موڑ کاٹتے وقت احتیاط کرنی پڑتی تھی۔‏ ذرا سی بھول‌چوک یا ضابطہ‌شکنی حادثات کا سبب بن سکتے تھے جو اِس مقبول تقریب کو زیادہ قابلِ‌دید بنا دیتے تھے۔‏

انعام

‏”‏دوڑ میں دوڑنے والے دوڑتے تو سب ہی ہیں،‏“‏ پولس رسول نے کہا،‏ ”‏مگر انعام ایک ہی لے جاتا ہے۔‏“‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۹:‏۲۴‏)‏ جیتنا سب سے اہم بات تھی۔‏ کوئی چاندی یا کانسی کے تمغے نہیں ہوتے تھے اور نہ ہی کوئی دوم یا سوم ہوتا تھا۔‏ نمائش سے پتہ چلا کہ ”‏کھلاڑی کا حتمی نشانہ فتح،‏ ’‏نیکے،‏‘‏ حاصل کرنا ہوتا تھا۔‏ فتح ہی اہم چیز تھی کیونکہ فتح جسمانی اور اخلاقی دونوں لحاظ سے اُسکے ذاتی تشخص کا عکس اور اُسکے پورے شہر کیلئے فخر کا باعث ہوتی تھی۔‏“‏ ہومر کی شاعری سے یہ مختصر سی تحریر اِس رُجحان کا خلاصہ پیش کرتی ہے:‏ ”‏مَیں نے ہمیشہ سبقت لے جانا سیکھا ہے۔‏“‏

یونانی کھیلوں میں جیتنے والے کو ملنے والا انعام کلیتہً علامتی—‏پتوں کا سہرا ہوتا تھا۔‏ اِسی لئے پولس اسے ”‏مرجھانے والا سہرا“‏ کہتا ہے۔‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۹:‏۲۵‏)‏ اِسکے باوجود،‏ انعام کو بڑی اہمیت دی جاتی تھی۔‏ یہ فطرت کی اُسی قدرت کی نمائندگی کرتا تھا جو جیتنے والے پر اُسکی قوتوں نے نچھاور کی تھی۔‏ مستقل‌مزاجی کیساتھ حاصل‌کردہ فتح کو دیوتاؤں کی نظرِکرم سے کم خیال نہیں کِیا جاتا تھا۔‏ نمائش کے بعض حصوں نے عیاں کِیا کہ مجسّمہ‌ساز اور مصور نیکے،‏ جیتنے والے کو سہرا پیش کرنے والی پَردار فتح کی یونانی دیوی کو کیسا خیال کرتے تھے۔‏ اولمپیا میں فتح حاصل کرنا کسی بھی کھلاڑی کی ترقی کی انتہا تھی۔‏

اولمپک سہرے جنگلی زیتون کے پتوں—‏خاکنائے کورنتھ کے صنوبر،‏ پائی‌تھایان کے لارل،‏ نیمیان کی ٹیپ گھاس کے بنے ہوتے تھے۔‏ دوسری جگہوں پر کھیلوں کے منتظمین بہترین کھلاڑیوں کو راغب کرنے کیلئے پیسے یا دوسرے انعامات بھی دیتے تھے۔‏ نمائش میں رکھے گئے کئی منقش مرتبان دیوی اتھینے کے اعزاز میں منعقد ہونے والے پاناتھنائیک گیمز کے انعام تھے۔‏ اِن مرتبانوں میں دراصل بیش‌قیمت اٹیکی تیل رکھا جاتا تھا۔‏ ایک مرتبان پر ایک طرف اتھینے کی دیوی کی تصویر بنائی گئی تھی جس پر ”‏اتھینے کے مقابلوں میں حصہ لینے والوں کیلئے انعام“‏ کی عبارت تحریر تھی۔‏ دوسری طرف کھیلوں کے خاص مقابلے،‏ غالباً کسی ایسے مقابلے کی تصویر تھی جس میں کھلاڑی کو فتح حاصل ہوئی تھی۔‏

یونانی شہر بھی اپنے کھلاڑیوں کی شہرت سے خوشی حاصل کرتے تھے جنکی فتوحات اُنہیں اُنکے آبائی حلقوں میں ہیرو بنا دیتی تھیں۔‏ جیتنے والے کی واپسی پر فاتحانہ جلوس نکالے جاتے تھے۔‏ اُنکے اعزاز میں دیوتاؤں کی شکرگزاری میں قربانیوں کے طور پر مجسّمے نصب کئے جاتے تھے—‏ایسی عزت عام طور پر انسانوں کو نہیں دی جاتی تھی—‏اور شاعر اُنکی بہادری کے قصیدے پڑھتے تھے۔‏ اِسکے بعد جیتنے والوں کو عوامی رسومات میں صدرنشینی اور حکومت کی طرف سے پینشن دی جاتی تھی۔‏

جمنازیم اور اُنکے کھلاڑی

کسرتی مقابلوں کو شہریوں کو جنگی سپاہی بنانے کیلئے ضروری خیال کِیا جاتا تھا۔‏ یونان کے تمام شہروں میں جمنازیم ہوتے تھے،‏ جہاں پر جوان مردوں کو جسمانی تربیت کے علاوہ ذہنی اور روحانی تعلیم بھی دی جاتی تھی۔‏ جمنازیم کی عمارتوں کو کسرت کیلئے بڑی اور کھلی جگہوں کے چوگرد تعمیر کِیا جاتا تھا،‏ جنکے چاروں طرف جلوخانے اور بارہ‌دریاں ہوتی تھیں جنہیں لائبریوں اور درس‌وتدریس کیلئے استعمال کِیا جاتا تھا۔‏ ایسے اداروں میں لاتعداد لوگوں کے علاوہ دولتمند خاندانوں کے جوان مرد آتے تھے جو فکرِمعاش کی بجائے تعلیم حاصل کرنے کیلئے وقت صرف کر سکتے تھے۔‏ یہاں پر کسرت کرنے والے تربیت دینے والوں کی مدد سے کھیلوں کی تیاری کیلئے طویل اور سخت تربیت حاصل کرتے تھے جو اُن کیلئے خوراک تجویز کرتے اور اُنہیں جنسی کاموں سے دُور رکھنے کا یقین کرتے تھے۔‏

کولوسیم کی نمائش نے مندوبین کو قدیم کھلاڑیوں کی عمدہ علامتوں کی تعریف کرنے کا موقع فراہم کِیا جو اصلی یونانی مجسّموں کی رومی دَور میں بنائی جانے والی نقلیں تھیں۔‏ چونکہ قدیم یونان میں جسمانی کاملیت اخلاقی کاملیت کی آئینہ‌دار تھی اور اِس پر مکمل طور پر اُمرا کا حق سمجھا جاتا تھا لہٰذا جیتنے والے کھلاڑیوں کے متناسب ابدان نے ایک بہترین فلسفے کی نمائندگی کی۔‏ رومیوں نے اُنکے فنی نمونوں کی قدر کی،‏ جن سے سٹیڈیم،‏ غسلخانوں،‏ بنگلوں اور محلوں کو سجایا گیا ہے۔‏

رومیوں میں پُرتشدد نظاروں کو ہمیشہ پسند کِیا جاتا تھا،‏ لہٰذا یونانیوں کے تمام کسرتی کھیلوں کو روم میں دکھایا گیا اور مکابازی،‏ کشتی اور مکابازی‌وکشتی کے مجموعی کھیلوں نے زیادہ شہرت حاصل کی۔‏ رومیوں نے ایسے کھیلوں کو اپنے ہم‌پلہ کھلاڑیوں کی خوبی کا اندازہ لگانے کیلئے مقابلے کی بجائے محض تفریح خیال کِیا۔‏ تعلیم‌وتربیت کے جزو کے طور پر ممتاز جنگجو کھلاڑیوں کی اجتماعی شرکت کے کھیلوں کا ابتدائی تصور ختم ہو گیا تھا۔‏ اِسکی بجائے،‏ رومیوں نے یونانی کھیلوں کو غسل کرنے سے پہلے صحتمندانہ کسرت یا شمشیرزنی کے مقابلوں میں حصہ لینے والے ادنیٰ طبقے کے پیشہ‌ور لوگوں کی طرف سے دکھائے جانے والے کھیلوں تک محدود کر دیا تھا۔‏

مسیحی اور کھیل

کھیلوں کی مذہبی نوعیت پہلی صدی کے مسیحیوں کے کھیلوں سے دُور رہنے کی ایک وجہ تھی کیونکہ ”‏خدا کے مقدس کو بُتوں سے کیا مناسبت ہے؟‏“‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۶:‏۱۴،‏ ۱۶‏)‏ آجکل کے کھیلوں کی بابت کیا ہے؟‏

واضح طور پر،‏ جدید کھیل جھوٹے معبودوں کی تعظیم نہیں کرتے۔‏ تاہم،‏ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ بعض کھیلوں کے سلسلے میں قدیم وقتوں کے کھیلوں کی طرح مذہبی جوش‌وخروش پایا جاتا ہے؟‏ علاوہ‌ازیں،‏ گزشتہ چند سالوں کی رپورٹس کے مطابق جیتنے کی خاطر بعض کھلاڑی کارکردگی کو بڑھانے والی ادویات لینے کی حد تک چلے گئے ہیں جو اُنکی صحت اور زندگی کیلئے خطرناک تھیں۔‏

مسیحیوں کیلئے جسمانی کامیابی بہت کم معنی رکھتی ہے۔‏ ”‏پوشیدہ انسانیت“‏ کی روحانی صفات ہمیں خدا کی نظر میں زیادہ مقبول بناتی ہیں۔‏ (‏۱-‏پطرس ۳:‏۳،‏ ۴‏)‏ ہم سمجھتے ہیں کہ آجکل کھیلوں میں حصہ لینے والے سب لوگ وحشیانہ مقابلہ‌بازی کی روح نہیں رکھتے،‏ لیکن کچھ رکھتے ہیں۔‏ کیا اُنکے ساتھ میل‌جول ’‏تفرقے اور بیجا فخر کے باعث کچھ نہ کرنے بلکہ فروتنی سے ایک دوسرے کو اپنے سے بہتر سمجھنے‘‏ کی صحیفائی نصیحت پر چلنے کیلئے ہماری مدد کریگا؟‏ یا کیا ایسا میل‌جول ’‏عداوتوں،‏ جھگڑوں،‏ حسد،‏ غصے،‏ تفرقوں،‏ جدائیوں،‏ بدعتوں‘‏ پر منتج نہیں ہوگا؟‏—‏فلپیوں ۲:‏۳؛‏ گلتیوں ۵:‏۱۹-‏۲۱‏۔‏

بہت سے جدید کھیل جن میں کھلاڑی ایک دوسرے کی قربت میں کھیلتے ہیں اُن میں تشدد کا امکان ہے۔‏ ایسے کھیلوں کو پسند کرنے والا کوئی بھی شخص زبور ۱۱:‏۵ کے الفاظ کو یاد رکھکر اچھا کرتا ہے:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ صادق کو پرکھتا ہے پر شریر اور ظلم دوست سے اُسکی رُوح کو نفرت ہے۔‏“‏

اگر کھیلوں کو اُنکے جائز مقام پر رکھا جائے تو اِنکی مشق پُرلطف ہو سکتی ہے،‏ لیکن پولس رسول کے مطابق ”‏جسمانی ریاضت کا فائدہ کم ہے۔‏“‏ (‏۱-‏تیمتھیس ۴:‏۷-‏۱۰‏)‏ تاہم پولس نے یونانی کھیلوں کا ذکر کرتے ہوئے مناسب طور پر مسیحیوں کو محض پرہیزگاری اور برداشت کی اہمیت سمجھانے کیلئے اُنکا حوالہ دیا تھا۔‏ سب سے بڑھکر پولس جس نشانے تک پہنچنے کی کوشش کر رہا تھا وہ خدا کی طرف سے ہمیشہ کی زندگی کا ”‏سہرا“‏ حاصل کرنا تھا۔‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۹:‏۲۴-‏۲۷؛‏ ۱-‏تیمتھیس ۶:‏۱۲‏)‏ اِس سلسلے میں اُس نے ہمارے لئے ایک عمدہ نمونہ قائم کِیا ہے۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 4 نیکے ‏”‏فتح“‏ کیلئے یونانی لفظ ہے۔‏

 

ایک مکاباز لڑائی کے بعد

چوتھی صدی ق.‏س.‏ع.‏ کا یہ کانسی کا مجسّمہ قدیم زمانے کی مکابازی کے تباہ‌کُن اثرات کو ظاہر کرتا ہے جس میں روم کی نمائش کی دستاویز کے مطابق ”‏تھکا دینے والی لڑائی میں ملوث مکاباز کی مزاحمت کے دوران آنے والے زخموں کو ”‏زخم کے بدلے زخم“‏ کی عمدہ مثال کے طور پر تعریف کی گئی تھی۔‏“‏ ”‏تھوڑی دیر پہلے ختم ہونے والی لڑائی کے نشانات نے گزشتہ مقابلوں کے زخموں میں اضافہ کر دیا ہے،‏“‏ وضاحت جاری ہے۔‏

‏[‏صفحہ ۲۹ پر تصویر]‏

رتھوں کی دوڑ قدیم کھیلوں کے مقابلوں میں سب سے زیادہ نمایاں کھیل تھا

‏[‏صفحہ ۳۰ پر تصویر]‏

قدیمی مصور نیکے،‏ فتح کی پَردار دیوی کو جیتنے والے کو انعام دیتے ہوئے تصور کرتے ہیں