مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

نوجوانو!‏ کیا آپ مستقبل کی تیاری کر رہے ہیں؟‏

نوجوانو!‏ کیا آپ مستقبل کی تیاری کر رہے ہیں؟‏

نوجوانو!‏ کیا آپ مستقبل کی تیاری کر رہے ہیں؟‏

‏”‏مَیں تمہارے حق میں اپنے خیالات کو جانتا ہوں .‏ .‏ .‏ یعنی سلامتی کے خیالات۔‏ بُرائی کے نہیں تاکہ مَیں تم کو نیک انجام کی اُمید بخشوں۔‏“‏—‏یرمیاہ ۲۹:‏۱۱‏۔‏

۱،‏ ۲.‏ جوانی کے ایّام کو کن مختلف طریقوں سے دیکھا جا سکتا ہے؟‏

بیشتر لوگ جوانی کو زندگی کا بہترین دَور خیال کرتے ہیں۔‏ وہ اپنی جوانی کے دنوں کو یاد کرتے ہیں جب وہ جوش‌وولولے اور طاقت سے بھرپور تھے۔‏ وہ اُس زمانے کا بڑے اشتیاق کے ساتھ ذکر کرتے ہیں جب اُن کی ذمہ‌داریاں بہت کم تھیں اور مزے اُڑانے کے لئے اُن کے پاس زیادہ مواقع تھے اور پوری زندگی اُن کے سامنے تھی۔‏

۲ آپ جوان لوگ زندگی کو غالباً مختلف زاویے سے دیکھتے ہیں۔‏ آپ کو جوانی کے جذباتی اور جسمانی مسائل سے نپٹنے کے سلسلے میں مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔‏ سکول میں آپ کو ہم‌مکتبوں کے شدید دباؤ کا سامنا ہو سکتا ہے۔‏ شاید آپ کو منشیات،‏ الکحل اور بداخلاقی کی مزاحمت کرنے کے لئے سخت کوشش کرنی پڑتی ہے۔‏ آپ میں سے بیشتر کو غیرجانبداری یا ایمان سے تعلق رکھنے والے دیگر مسائل کا سامنا ہے۔‏ جی‌ہاں،‏ جوانی واقعی ایک مشکل دَور ثابت ہو سکتی ہے۔‏ اس کے باوجود،‏ یہ ایک اچھا موقع ہو سکتا ہے۔‏ مگر سوال یہ ہے کہ آپ ان عمدہ مواقع کو کیسے استعمال کریں گے؟‏

اپنی جوانی سے بھرپور فائدہ اُٹھائیں

۳.‏ سلیمان نے کونسی مشورت اور آگاہی دی تھی؟‏

۳ عمررسیدہ لوگ آپ سے کہیں گے کہ جوانی زیادہ دیر قائم نہیں رہتی اور اُن کی یہ بات بالکل سچ ہے۔‏ چند سالوں بعد ہی آپ کی جوانی ختم ہو جائے گی۔‏ اس لئے جب تک یہ ہے اس سے بھرپور فائدہ اُٹھائیں!‏ سلیمان بادشاہ کا بھی یہی مشورہ تھا جب اُس نے لکھا:‏ ”‏اَے جوان تُو اپنی جوانی میں خوش ہو اور اُس کے ایّام میں اپنا جی بہلا اور اپنے دل کی راہوں میں اور اپنی آنکھوں کی منظوری میں چل۔‏“‏ تاہم سلیمان نے نوجوانوں کو آگاہ کِیا:‏ ”‏پس غم کو اپنے دل سے دُور کر اور بدی اپنے جسم سے نکال ڈال۔‏“‏ پھر اُس نے کہا:‏ ”‏لڑکپن اور جوانی دونوں باطل ہیں۔‏“‏—‏واعظ ۱۱:‏۹،‏ ۱۰‏۔‏

۴،‏ ۵.‏ نوجوانوں کے لئے مستقبل کی تیاری کرنا کیوں دانشمندی ہے؟‏ مثال دیں۔‏

۴ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ سلیمان کا کیا مطلب تھا؟‏ مثال کے طور پر،‏ ایک ایسے نوجوان کا تصور کریں جسے ایک بڑا تحفہ،‏ شاید ورثے میں کچھ ملتا ہے۔‏ وہ اس کے ساتھ کیا کرے گا؟‏ وہ یسوع کی تمثیل کے مسرف بیٹے کی مانند شاید اپنا سارا پیسہ عیش‌وعشرت میں اُڑا دے۔‏ (‏لوقا ۱۵:‏۱۱-‏۲۳‏)‏ مگر جب پیسہ ختم ہو جائے گا تو کیا ہوگا؟‏ یقیناً وہ اس بات پر پچھتائیگا کہ اُس نے بڑی غیرذمہ‌داری کا ثبوت دیا!‏ اس کے برعکس،‏ فرض کریں کہ وہ دانشمندی سے اس تحفے کو مستقبل کے لئے کسی منافع‌بخش کاروبار میں لگا دیتا ہے۔‏ اب جب وہ اس منافع‌بخش کاروبار سے فائدہ حاصل کرے گا تو کیا اُسے اس بات کا افسوس ہوگا کہ اُس نے اپنا سارا مال جوانی میں کیوں خرچ نہیں کِیا؟‏ بیشک نہیں!‏

۵ اپنی جوانی کے ایّام کی بابت سوچیں جو خدا کی طرف سے ایک بخشش ہے۔‏ آپ اُنہیں کیسے استعمال کریں گے؟‏ آپ اس طاقت اور جوش‌وجذبے کو مستقبل کی بابت سوچے بغیر اپنی ذات کے لئے بھی صرف کر سکتے ہیں۔‏ تاہم،‏ اگر آپ ایسا کرتے ہیں تو یقیناً آپ کا ”‏لڑکپن اور جوانی دونوں باطل“‏ ثابت ہوں گے۔‏ کتنا اچھا ہوگا اگر ہم اپنی جوانی کو مستقبل کی تیاری کے لئے صرف کریں!‏

۶.‏ (‏ا)‏ سلیمان کی کونسی مشورت نوجوانوں کے لئے راہنمائی فراہم کرتی ہے؟‏ (‏ب)‏ یہوواہ نوجوانوں کے لئے کیا کرنا چاہتا ہے اور ایک نوجوان اس سے کیسے مستفید ہو سکتا ہے؟‏

۶ سلیمان نے ایک اُصول بیان کِیا جو آپ کو اپنی جوانی کو بہترین طریقے سے استعمال کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔‏ اُس نے کہا:‏ ”‏اپنی جوانی کے دنوں میں اپنے خالق کو یاد کر۔‏“‏ (‏واعظ ۱۲:‏۱‏)‏ کامیابی کی کُنجی یہی ہے—‏یہوواہ کی بات سنیں اور اُس کی مرضی پوری کریں۔‏ یہوواہ نے قدیم اسرائیلیوں سے فرمایا کہ وہ اُن سے کیا چاہتا ہے:‏ ”‏مَیں تمہارے حق میں اپنے خیالات کو جانتا ہوں .‏ .‏ .‏ سلامتی کے خیالات۔‏ بُرائی کے نہیں تاکہ مَیں تم کو نیک انجام کی اُمید بخشوں۔‏“‏ (‏یرمیاہ ۲۹:‏۱۱‏)‏ یہوواہ آپ کو بھی ”‏نیک انجام کی اُمید“‏ بخشے گا۔‏ اگر آپ اپنے افعال،‏ خیالات اور فیصلوں میں اُسے یاد رکھتے ہیں تو ہمارا مستقبل اور اُمید دونوں روشن ہو سکتے ہیں۔‏—‏مکاشفہ ۷:‏۱۶،‏ ۱۷؛‏ ۲۱:‏۳،‏ ۴‏۔‏

‏’‏خدا کے نزدیک جائیں‘‏

۷،‏ ۸.‏ ایک نوجوان کیسے خدا کے نزدیک جا سکتا ہے؟‏

۷ یعقوب نے یہ کہتے ہوئے ہمیں یہوواہ کو یاد رکھنے کی تاکید کی:‏ ”‏خدا کے نزدیک جاؤ تو وہ تمہارے نزدیک آئے گا۔‏“‏ (‏یعقوب ۴:‏۸‏)‏ یہوواہ ہمارا خالق،‏ بلندوبالا حاکم اور تمام‌تر پرستش اور تمجید کا مستحق ہے۔‏ (‏مکاشفہ ۴:‏۱۱‏)‏ اس لئے،‏ اگر ہم اُس کے نزدیک جائیں گے تو وہ ہمارے نزدیک آئے گا۔‏ کیا ایسی مشفقانہ دلچسپی آپ کو خوشی نہیں بخشتی؟‏—‏متی ۲۲:‏۳۷‏۔‏

۸ ہم کئی طریقوں سے یہوواہ کے نزدیک جا سکتے ہیں۔‏ مثال کے طور پر،‏ پولس رسول بیان کرتا ہے:‏ ”‏دُعا کرنے میں مشغول اور شکرگذاری کے ساتھ اُس میں بیدار رہو۔‏“‏ (‏کلسیوں ۴:‏۲‏)‏ باالفاظِ‌دیگر،‏ دُعا کرنے کی عادت ڈالیں۔‏ جب آپ کا والد یا مسیحی ساتھی کلیسیائی دُعا میں آپ کی نمائندگی کرتا ہے تو صرف اُس وقت ”‏آمین“‏ کہنے پر اکتفا نہ کریں۔‏ کیا آپ نے کبھی ذاتی طور پر یہوواہ کے سامنے اپنا دل اُنڈیلا ہے اور اُسے یہ بتایا ہے کہ آپ کیا سوچتے ہیں،‏ کس چیز سے ڈرتے ہیں اور آپ کو کن مشکلات کا سامنا ہے؟‏ کیا آپ نے اُسے ایسی باتوں کی بابت بھی بتایا ہے جنہیں آپ کسی دوسرے شخص کے سامنے کہنے سے شرماتے ہیں؟‏ مخلص اور دلی دُعائیں احساسِ‌اطمینان بخشتی ہیں۔‏ (‏فلپیوں ۴:‏۶،‏ ۷‏)‏ یہ ہمیں یہوواہ کے نزدیک جانے اور یہ محسوس کرنے میں مدد دیتی ہیں کہ وہ ہمارے نزدیک ہے۔‏

۹.‏ ایک نوجوان کیسے یہوواہ کی بات سُن سکتا ہے؟‏

۹ مندرجہ‌ذیل الہامی الفاظ میں ہم یہوواہ کے نزدیک جانے کا ایک اَور طریقہ پاتے ہیں:‏ ”‏مشورت کو سُن اور تربیت‌پذیر ہو تاکہ تُو آخرکار دانا ہو جائے۔‏“‏ (‏امثال ۱۹:‏۲۰‏)‏ جی‌ہاں،‏ اگر آپ یہوواہ کی بات سنتے اور اُس کی فرمانبرداری کرتے ہیں تو آپ مستقبل کی بابت تیاری کر رہے ہوں گے۔‏ آپ یہ کیسے ظاہر کر سکتے ہیں کہ آپ یہوواہ کی بات سنتے ہیں؟‏ بِلاشُبہ،‏ آپ باقاعدگی کے ساتھ مسیحی اجلاسوں پر حاضر ہوتے اور پروگرام کو سنتے ہیں۔‏ علاوہ‌ازیں،‏ آپ خاندانی بائبل مطالعے میں شریک ہونے سے ”‏اپنے ماں باپ کے فرمانبردار“‏ بھی ہیں۔‏ (‏افسیوں ۶:‏۱،‏ ۲؛‏ عبرانیوں ۱۰:‏۲۴،‏ ۲۵‏)‏ یہ قابلِ‌تعریف ہے۔‏ تاہم،‏ اس کے ساتھ ساتھ،‏ کیا آپ اجلاسوں کی تیاری کرنے،‏ باقاعدہ بائبل پڑھائی اور تحقیق کرنے کے لئے ’‏وقت کو غنیمت‘‏ جانتے ہیں؟‏ جوکچھ آپ پڑھتے ہیں کیا آپ اُس کا اطلاق کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ آپ ’‏دانا شخص‘‏ کی مانند چل سکیں؟‏ (‏افسیوں ۵:‏۱۵-‏۱۷؛‏ زبور ۱:‏۱-‏۳‏)‏ اگر آپ ایسا کرتے ہیں تو آپ یہوواہ کے نزدیک جا رہے ہیں۔‏

۱۰،‏ ۱۱.‏ جب نوجوان یہوواہ کی بات سنتے ہیں تو اُنہیں کونسے بڑے فوائد حاصل ہوتے ہیں؟‏

۱۰ امثال کی کتاب کے ابتدائی الفاظ میں،‏ الہام سے لکھنے والا مصنف اس بائبل کتاب کے مقصد کو بیان کرتا ہے۔‏ اس کا مقصد ”‏حکمت اور تربیت حاصل کرنے اور فہم کی باتوں کا امتیاز کرنے کے لئے۔‏ عقلمندی اور صداقت اور عدل اور راستی میں تربیت حاصل کرنے کے لئے۔‏ سادہ دلوں کو ہوشیاری۔‏ جوان کو علم اور تمیز“‏ بخشنا ہے۔‏ (‏امثال ۱:‏۱-‏۴‏)‏ اس لئے جب آپ امثال کی کتاب اور دیگر بائبل کتابوں کے الفاظ کو پڑھتے اور ان کا اطلاق کرتے ہیں تو آپ صداقت اور راستی پیدا کر رہے ہوں گے اور یہوواہ آپ کے نزدیک آنے سے خوش ہوگا۔‏ (‏زبور ۱۵:‏۱-‏۵‏)‏ جتنا زیادہ آپ بصیرت،‏ دانشمندی،‏ معرفت اور فہم حاصل کرتے ہیں اُتنے ہی زیادہ آپ کے فیصلے اچھے ہوں گے۔‏

۱۱ کیا ایک نوجوان شخص کو اس طرح دانشمندی سے چلتے دیکھنے کی توقع کرنا بعیدازقیاس ہے؟‏ جی‌نہیں،‏ نوجوان مسیحی ایسا کرتے ہیں۔‏ نتیجتاً،‏ دوسرے لوگ اُن کی عزت کرتے ہیں اور ’‏اُن کی جوانی کی حقارت‘‏ نہیں کرتے۔‏ (‏۱-‏تیمتھیس ۴:‏۱۲‏)‏ اُن کے والدین بھی فخر سے سر اُونچا کر سکتے ہیں اور یہوواہ بھی کہتا ہے کہ وہ اُس کے دل کو شاد کرتے ہیں۔‏ (‏امثال ۲۷:‏۱۱‏)‏ اگرچہ وہ جوان ہیں توبھی وہ یقین رکھ سکتے ہیں کہ ان الفاظ کا اطلاق اُن پر ہوتا ہے:‏ ”‏کامل آدمی پر نگاہ کر اور راستباز کو دیکھ کیونکہ صلح‌دوست آدمی کے لئے اجر ہے۔‏“‏—‏زبور ۳۷:‏۳۷‏۔‏

اچھے انتخاب کریں

۱۲.‏ نوجوانوں کو جو اہم انتخابات کرنے پڑتے ہیں اُن میں سے ایک کیا ہے،‏ نیز اس انتخاب کے دیرپا نتائج کیوں ہیں؟‏

۱۲ جوانی انتخابات کرنے کا وقت ہے جن میں سے بعض کے نتائج دیرپا ہوتے ہیں۔‏ بعض انتخابات جو آپ اب کرتے ہیں وہ آنے والے سالوں میں آپ کو متاثر کریں گے۔‏ دانشمند انتخابات خوشگوار اور کامیاب زندگی کا باعث بنتے ہیں۔‏ غیردانشمندانہ انتخابات ایک شخص کی پوری زندگی کو داغدار بنا سکتے ہیں۔‏ غور کریں کہ دو انتخابات کے سلسلے میں یہ کیسے سچ ہے۔‏ اوّل:‏ آپ کس کے ساتھ رفاقت رکھنے کا انتخاب کرتے ہیں؟‏ یہ کیوں اہم ہے؟‏ الہامی امثال بیان کرتی ہے:‏ ”‏وہ جو داناؤں کے ساتھ چلتا ہے دانا ہوگا پر احمقوں کا ساتھی ہلاک کِیا جائے گا۔‏“‏ (‏امثال ۱۳:‏۲۰‏)‏ باالفاظِ‌دیگر،‏ انجام‌کار ہم اُن ہی لوگوں کی طرح بن جاتے ہیں جن سے ہم رفاقت رکھتے ہیں—‏خواہ دانا خواہ احمق۔‏ آپ کیا بننا پسند کریں گے؟‏

۱۳،‏ ۱۴.‏ (‏ا)‏ لوگوں کے ساتھ براہِ‌راست میل‌جول رکھنے کے علاوہ رفاقت میں کیا کچھ شامل ہے؟‏ (‏ب)‏ نوجوانوں کو کونسی غلطی کرنے سے بچنا چاہئے؟‏

۱۳ جب آپ رفاقت کی بات کرتے ہیں تو آپ یقیناً لوگوں کی بابت سوچتے ہیں۔‏ یہ سچ ہے مگر اس میں اَور بھی بہت کچھ شامل ہے۔‏ جب آپ ٹیلیویژن پروگرام دیکھتے،‏ موسیقی سنتے،‏ ناول پڑھتے،‏ فلم دیکھتے یا انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں تو آپ دراصل رفاقت رکھ رہے ہوتے ہیں۔‏ اگر یہ رفاقت تشدد اور بداخلاق رغبتوں کو تفریح کے طور پر پیش کرتی یا منشیات،‏ نشہ‌بازی یا بائبل اُصولوں کے برعکس چیزوں کی حوصلہ‌افزائی کرتی ہے تو آپ ”‏احمق“‏ سے رفاقت رکھتے ہیں جو یہ کہتا ہے کہ کوئی یہوواہ نہیں۔‏—‏زبور ۱۴:‏۱‏۔‏

۱۴ شاید آپ محسوس کریں کہ آپ مسیحی اجلاسوں پر جاتے اور کلیسیا میں سرگرم ہیں اس لئے آپ پُرتشدد فلم دیکھ سکتے یا ایسی موسیقی سُن سکتے ہیں جس کی دُھن تو اچھی ہے مگر بول قابلِ‌اعتراض ہیں۔‏ شاید آپ محسوس کریں کہ اگر آپ انٹرنیٹ پر تھوڑی دیر کے لئے فحش ویب سائٹ پر کچھ دیکھ لیتے ہیں تو اس سے کچھ نہیں ہوگا۔‏ پولس رسول کہتا ہے کہ ایسی سوچ درست نہیں!‏ وہ بیان کرتا ہے:‏ ”‏بُری صحبتیں اچھی عادتوں کو بگاڑ دیتی ہیں۔‏“‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۱۵:‏۳۳‏)‏ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بہت سے اچھے نوجوان غیردانشمندانہ رفاقتوں کی وجہ سے اپنی اچھی عادتیں بگاڑ چکے ہیں۔‏ لہٰذا ایسی رفاقتوں سے کنارہ کریں۔‏ اگر آپ ایسا کرتے ہیں تو آپ پولس کی اس نصیحت پر عمل کر رہے ہوں گے:‏ ”‏اس جہان کے ہمشکل نہ بنو بلکہ عقل نئی ہو جانے سے اپنی صورت بدلتے جاؤ تاکہ خدا کی نیک اور پسندیدہ اور کامل مرضی تجربہ سے معلوم کرتے رہو۔‏“‏—‏رومیوں ۱۲:‏۲‏۔‏

۱۵.‏ دوسرا کونسا انتخاب ہے جو نوجوانوں کو کرنا پڑتا ہے اور اس سلسلے میں بعض‌اوقات اُنہیں کس دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟‏

۱۵ ایک اَور انتخاب جس کا آپ کو سامنا کرنا پڑتا ہے۔‏ ایک وقت آئے گا جب آپ کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ سکول ختم کرنے کے بعد آپ کیا کریں گے۔‏ اگر آپ ایک ایسے مُلک میں رہتے ہیں جہاں ملازمت کے مواقع بہت کم ہیں تو شاید آپ جو بھی نوکری ملے اُسے ہاتھ سے نہ جانے دیں۔‏ اگر آپ ایک امیر مُلک میں رہتے ہیں تو آپ کو بہت سے انتخابات کا سامنا ہو سکتا ہے جن میں سے بعض انتہائی تحریص‌کُن ہو سکتے ہیں۔‏ بہترین محرکات کے باوجود،‏ آپ کے اساتذہ یا والدین آپ کو مالی تحفظ فراہم کرنے والا پیشہ اختیار کرنے کی نصیحت کر سکتے ہیں۔‏ تاہم،‏ اس پیشے کی تربیت حاصل کرنا آپ کے لئے یہوواہ کی خدمت میں صرف کئے جانے والے وقت کو بہت محدود کر سکتا ہے۔‏

۱۶،‏ ۱۷.‏ واضح کریں کہ کیسے مختلف صحائف ملازمت کی بابت متوازن نظریہ رکھنے میں ہماری مدد کر سکتے ہیں۔‏

۱۶ کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے بائبل سے مشورت حاصل کرنا نہ بھولیں۔‏ بائبل ہماری گزربسر کرنے کے لئے کام کرنے کی حوصلہ‌افزائی کرتی ہے اور یہ ظاہر کرتی ہے کہ ہم اپنی کفالت کے خود ذمہ‌دار ہیں۔‏ (‏۲-‏تھسلنیکیوں ۳:‏۱۰-‏۱۲‏)‏ تاہم،‏ اس میں بہت کچھ شامل ہے۔‏ ہم آپ کی حوصلہ‌افزائی کرتے ہیں کہ مندرجہ‌ذیل صحائف کو پڑھیں اور سوچیں کہ یہ صحائف ایک نوجوان شخص کی پیشہ‌ورانہ مہارت حاصل کرنے کے سلسلے میں کیسے مدد کر سکتے ہیں:‏ امثال ۳۰:‏۸،‏ ۹؛‏ واعظ ۷:‏۱۱،‏ ۱۲؛‏ متی ۶:‏۳۳؛‏ ۱-‏کرنتھیوں ۷:‏۳۱؛‏ ۱-‏تیمتھیس ۶:‏۹،‏ ۱۰‏۔‏ ان آیات کو پڑھنے کے بعد،‏ کیا آپ اس سلسلے میں یہوواہ کے نقطۂ‌نظر کو دیکھ سکتے ہیں؟‏

۱۷ دُنیاوی ملازمت کو کبھی بھی اتنی اہمیت نہیں دینی چاہئے کہ یہ یہوواہ کے لئے ہماری خدمت پر حاوی ہو جائے۔‏ اگر آپ معقول تعلیم کے ساتھ اچھی ملازمت حاصل کر سکتے ہیں تو یہ اچھا ہے۔‏ اگر آپ کو اضافی تربیت کی ضرورت ہے تو پھر اس کی بابت اپنے والدین سے گفتگو کریں۔‏ تاہم،‏ ’‏اہم باتوں یعنی روحانی چیزوں‘‏ کو کبھی پسِ‌پُشت نہ ڈالیں۔‏ (‏فلپیوں ۱:‏۹،‏ ۱۰‏)‏ یرمیاہ کی زبانی کلام کو کتاب میں لکھنے والے باروک جیسی غلطی کبھی نہ کریں۔‏ وہ اپنے خدمتی استحقاق کو کھو بیٹھا اور اپنے لئے ’‏امورِعظیم کی تلاش میں نکل پڑا۔‏‘‏ (‏یرمیاہ ۴۵:‏۵‏)‏ وہ بھول گیا کہ اس دُنیا کی کوئی بھی چیز اُسے نہ تو یہوواہ کی قربت میں لائے گی اور نہ ہی اُسے یروشلیم کی تباہی سے بچا سکے گی۔‏ آجکل ہمارے بارے میں بھی یہی کہا جا سکتا ہے۔‏

روحانی چیزوں کی قدر کریں

۱۸،‏ ۱۹.‏ (‏ا)‏ آپ کے بیشتر پڑوسی کس چیز سے متاثر ہیں اور آپ کو اُن کی بابت کیسا محسوس کرنا چاہئے؟‏ (‏ب)‏ بہتیرے روحانی طور پر کیوں بھوک محسوس نہیں کرتے؟‏

۱۸ کیا آپ نے کبھی قحط‌زدہ ممالک میں متاثرہ بچوں کی تصاویر دیکھی ہیں؟‏ اگر دیکھی ہیں تو آپ کو یقیناً ان بچوں پر ترس آیا ہوگا۔‏ کیا آپ کا دل آپ کے آس‌پڑوس میں رہنے والے لوگوں کی بابت بھی ایسا ہی محسوس کرتا ہے؟‏ آپ کو کیوں ترس آتا ہے؟‏ کیونکہ ان میں سے بیشتر فاقہ‌زدگی کا شکار ہیں۔‏ وہ اُس قحط کا شکار ہیں جس کی پیشینگوئی عاموس نے کی تھی:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ خدا فرماتا ہے دیکھو وہ دن آتے ہیں کہ مَیں اس مُلک میں قحط ڈالوں گا۔‏ نہ پانی کی پیاس اور نہ روٹی کا قحط بلکہ [‏یہوواہ]‏ کا کلام سننے کا۔‏“‏—‏عاموس ۸:‏۱۱‏۔‏

۱۹ سچ ہے کہ روحانی قحط میں رہنے والے بیشتر لوگ ’‏اپنی روحانی ضروریات سے باخبر‘‏ نہیں ہیں۔‏ (‏متی ۵:‏۳‏)‏ بہتیرے روحانی طور پر بھوک محسوس نہیں کرتے۔‏ بعض شاید محسوس کریں کہ اُنہیں کافی خوراک مل رہی ہے۔‏ لیکن اگر ایسا ہے بھی تو یہ ’‏دُنیاوی حکمت ہے،‏‘‏ جس میں مادہ‌پرستی،‏ سائنسی توقعات،‏ اخلاقی نظریات اور ایسی ہی دیگر چیزیں شامل ہیں۔‏ بعض محسوس کرتے ہیں کہ جدید ”‏حکمت“‏ بائبل تعلیمات کو متروک بنا دیتی ہے۔‏ کیونکہ ”‏دُنیا نے اپنی حکمت سے خدا کو نہ جانا۔‏“‏ دُنیاوی حکمت آپ کو خدا کے نزدیک آنے میں مدد نہیں دے گی۔‏ یہ ”‏خدا کے نزدیک بیوقوفی“‏ کے سوا کچھ نہیں ہے۔‏—‏۱-‏کرنتھیوں ۱:‏۲۰،‏ ۲۱؛‏ ۳:‏۱۹‏۔‏

۲۰.‏ یہوواہ کی پرستش نہ کرنے والے لوگوں کی نقل کرنا کیوں معقول نہیں؟‏

۲۰ جب آپ بھوکے بچوں کی ان تصاویر کو دیکھتے ہیں تو کیا آپ کبھی ان کی مانند بننا چاہتے ہیں؟‏ بیشک نہیں!‏ تاہم،‏ مسیحی خاندانوں کے بعض نوجوانوں نے اپنے اردگرد کی دُنیا کے لوگوں کی طرح روحانی قحط کا شکار ہونے کی خواہش کی ہے۔‏ یقیناً،‏ ایسے نوجوان سوچتے ہیں کہ دُنیا کے نوجوان ہر چیز سے بےخبر زندگی سے لطف اُٹھا رہے ہیں۔‏ وہ بھول جاتے ہیں کہ ایسے نوجوان یہوواہ سے دُور ہیں۔‏ (‏افسیوں ۴:‏۱۷،‏ ۱۸‏)‏ وہ روحانی قحط‌سالی کے بُرے اثرات کو بھی بھول جاتے ہیں۔‏ ان میں سے چند ایک نوعمری میں ناخواستہ حمل اور بداخلاقی،‏ تمباکونوشی،‏ نشےبازی اور منشیات کے جسمانی اور جذباتی اثرات ہیں۔‏ روحانی قحط‌سالی باغیانہ جذبے،‏ مایوسی اور زندگی میں راہنمائی کے فقدان کا سبب بنتی ہے۔‏

۲۱.‏ جو لوگ یہوواہ کی پرستش نہیں کرتے ہم اُن کے غلط رُجحانات سے خود کو کیسے بچا سکتے ہیں؟‏

۲۱ پس جب آپ ہم‌مکتبوں کے ساتھ ہوتے ہیں جو یہوواہ کے پرستار نہیں تو اُن کے رُجحانات سے مغلوب نہ ہوں۔‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۴:‏۱۸‏)‏ بعض روحانی چیزوں کی تحقیر بھی کریں گے۔‏ علاوہ‌ازیں میڈیا ایسا پروپیگنڈا پیش کرے گا جوکہ بداخلاقی،‏ نشہ‌بازی یا ناشائستہ زبان کو نارمل کہے گا۔‏ اس اثر کی مذمت کریں۔‏ ایسے لوگوں سے باقاعدہ رفاقت رکھیں جو ’‏ایمان اور نیک نیت پر قائم‘‏ ہیں۔‏ ”‏خداوند کے کام میں ہمیشہ افزایش کرتے“‏ رہیں۔‏ (‏۱-‏تیمتھیس ۱:‏۱۹؛‏ ۱-‏کرنتھیوں ۱۵:‏۵۸‏)‏ کنگڈم ہال کے کاموں اور میدانی خدمت میں مصروف رہیں۔‏ اپنے سکول کے دنوں میں وقتاًفوقتاً امدادی پائنیر خدمت میں حصہ لیں۔‏ اس طرح اپنے روحانی نقطۂ‌نظر کو تقویت بخشتے رہیں اور یوں آپ کا توازن خراب نہیں ہوگا۔‏—‏۲-‏تیمتھیس ۴:‏۵‏۔‏

۲۲،‏ ۲۳.‏ (‏ا)‏ ایک نوجوان مسیحی کیوں ایسے انتخابات کرے گا جسے شاید دوسرے نہ سمجھ سکیں؟‏ (‏ب)‏ نوجوانوں کی کیا کرنے کے لئے حوصلہ‌افزائی کی گئی ہے؟‏

۲۲ چیزوں کی بابت روحانی نقطۂ‌نظر آپ کو ایسے فیصلے کرنے کے قابل بنائے گا جنہیں دوسرے شاید نہ سمجھ سکیں۔‏ مثال کے طور پر،‏ ایک مسیحی نوجوان موسیقی کی خداداد قابلیت رکھتا تھا اور سکول میں ہر مضمون میں اچھے نمبروں سے پاس ہوتا تھا۔‏ جب وہ تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد اپنے والد کے ساتھ کھڑکیاں صاف کرنے کے کاروبار میں لگ گیا تاکہ کُل‌وقتی خدمت یا پائنیر خدمت انجام دے سکے۔‏ تو اُس کے اساتذہ کبھی اُس کے اس فیصلے کو نہ سمجھ سکے لیکن اگر آپ یہوواہ کی قربت میں ہوتے تو یقیناً آپ اس چیز کو سمجھ سکتے۔‏

۲۳ جب آپ اس چیز پر غور کرتے ہیں کہ جوانی کے قیمتی وسائل کو آپ کیسے استعمال کر سکتے ہیں تو ’‏آیندہ کے لئے اپنے واسطے ایک اچھی بنیاد قائم کریں تاکہ حقیقی زندگی پر قبضہ کر سکیں۔‏‘‏ (‏۱-‏تیمتھیس ۶:‏۱۹‏)‏ خاص طور پر اپنی جوانی کے دنوں میں اور اپنی باقی زندگی میں ’‏اپنے خالق کو یاد رکھیں۔‏‘‏ صرف اسی طرح آپ اپنے لئے کبھی نہ ختم ہونے والے کامیاب مستقبل کے لئے بنیاد ڈالیں گے۔‏

آپ کس نتیجے پر پہنچے ہیں؟‏

‏• کونسی الہامی مشورت نوجوانوں کو مستقبل کے لئے منصوبہ‌سازی کرنے میں مدد دیتی ہے؟‏

‏• بعض کونسے طریقے ہیں جن سے ایک نوجوان ”‏خدا کے نزدیک“‏ جا سکتا ہے؟‏

‏• نوجوانوں کو بعض کونسے ایسے فیصلے کرنے پڑتے ہیں جو اُن کے مستقبل پر اثرانداز ہوتے ہیں؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۱۵ پر تصویریں]‏

کیا آپ ذاتی حاصلات کو اپنی جوانی کی تمام‌تر قوت اور جوش پر غالب آنے کی اجازت دیں گے؟‏

‏[‏صفحہ ۱۷،‏ ۱۶ پر تصویر]‏

عقلمند مسیحی نوجوان اپنی روحانی بصیرت کو واضح رکھتے ہیں