کیا مذہبی راہنماؤں کو سیاست میں حصہ لینا چاہئے؟
کیا مذہبی راہنماؤں کو سیاست میں حصہ لینا چاہئے؟
”کینیڈا کے ایک آرچبشپ نے زائرین سے کہا کہ غریبوں کی مدد کرنے کیلئے مسیحیوں کو سیاست میں حصہ لینا چاہئے۔ . . . اگر مُلک کا سیاسی نظام خدا کی مرضی پر نہیں چلتا تو غریبوں کو انصاف دلانے کی خاطر ہمارے لئے سیاست میں حصہ لینا لازمی ہے۔“—حوالہ کیتھولک نیوز رسالے سے لیا گیا ہے۔
خبروں میں اکثر بتایا جاتا ہے کہ نامور مذہبی راہنما یا تو لوگوں کو سیاست میں حصہ لینے کی تاکید کرتے ہیں یا پھر خود کسی سیاسی عہدے پر فائز ہوتے ہیں۔ اُن میں سے بعض سیاسی نظام میں بہتری لانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کئی مذہبی راہنما نسلپرستی اور غلامی کے خلاف تحریکیں چلانے کیلئے مشہور ہیں۔
جب مذہبی راہنما سیاستدانوں کی طرفداری کرتے ہیں تو اُنکے چرچ کے اکثر اراکین اِس بات سے بالکل خوش نہیں ہوتے۔ ایک مذہبی رسالے میں یوں لکھا ہے: ”حیرانی کی بات ہے کہ پروٹسٹنٹ چرچ کے ارکان نے اپنے مذہبی راہنماؤں کی سیاسی سرگرمیوں پر اعتراض کِیا ہے۔“ بہتیرے مذہبی لوگوں کے خیال میں چرچ جیسی مُقدس جگہ میں سیاسی باتیں نہیں ہونی چاہئے۔
کیا مذہبی راہنما واقعی سیاست میں بہتری لا سکتے ہیں؟ * کیا خدا سیاست میں حصہ لینے والے مسیحیوں کے ذریعے دُنیا میں بہتری لائیگا؟ کیا یسوع کے ابتدائی پیروکاروں نے سیاست میں حصہ لیا تھا؟ اگر ہم دُنیا کے مسائل کا حل چاہتے ہیں تو ہمیں اِن سوالوں کے جواب تلاش کرنے ہونگے۔
مذہب اور سیاست کا جوڑ
مصنف ہنری چیدوِک کی کتاب دی ارلی چرچ میں لکھا ہے کہ مسیحی شروع سے اِس بات کیلئے مشہور ہیں کہ ”وہ دُنیا میں اختیار حاصل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے . . . وہ سیاست میں حصہ نہیں لیتے، بغاوت نہیں کرتے اور امنپسند بھی ہیں۔“ مسیحی تاریخ کے بارے میں ایک کتاب بیان کرتی ہے: ”زیادہتر مسیحیوں کا خیال تھا کہ ایک سچے مسیحی کو کسی قسم کا سیاسی عہدہ قبول نہیں کرنا چاہئے۔ . . . تیسری صدی کے آغاز میں چرچ کے ایک پیشوا ہپولائٹس نے کہا کہ اگر کوئی سیاستدان کلیسیا کا رُکن بننا چاہتا ہے تو اُسے مسیحی دستور کے مطابق استعفیٰ دینا پڑیگا۔“ پھر آہستہ آہستہ کلیسیا میں ایسے اشخاص اُٹھنے لگے جو دوسروں پر رُعب جمانے لگے۔ وہ خود کو بڑے بڑے القاب دینے لگے۔ (اعمال ۲۰:۲۹، ۳۰) یہ لوگ کلیسیا پر رُعب جمانے سے ہی خوش نہیں تھے بلکہ وہ سیاسی اختیار بھی چاہتے تھے۔ اُنکی یہ خواہش اُس وقت پوری ہوئی جب روم کے سیاسی نظام میں اچانک تبدیلی واقع ہوئی۔ یہ کس قسم کی تبدیلی تھی؟
روم کا بُتپرست شہنشاہ قسطنطین ۳۱۲ س.ع. میں نامنہاد مسیحیت کا ہمدرد بن گیا۔ چرچ کے بشپوں نے اس بُتپرست شہنشاہ کیساتھ معاہدے کئے جنکی بِنا پر اُس نے اِنہیں بہت سی مراعات دیں۔ ہنری چیدوِک کے مطابق، ”اُس وقت سے سیاسی معاملات میں چرچ کی شمولیت بڑھتی گئی۔“ اِس قسم کی شرکت سے پادریوں پر کیسا اثر پڑا؟
سیاسی اختیار نے مذہبی راہنماؤں کو کیسے متاثر کِیا
آگسٹین پانچویں صدی کا ایک بااختیار مسیحی عالم تھا۔ اُس نے اِس خیال کو فروغ دیا کہ خدا چاہتا ہے کہ مذہبی طبقہ سیاست میں حصہ لے۔ آگسٹین یہ اُمید رکھتا تھا کہ چرچ کی حکومت کے ذریعے دُنیا میں اَمن آ سکتا ہے۔ لیکن اُسکی یہ تمنا پوری نہیں ہوئی۔ تاریخدان ایچ. جی. ویلز نے لکھا: ”پانچویں صدی سے لے کر پندرھویں صدی تک یورپ کی تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ پوری دُنیا کی بہتری کیلئے مذہبی حکومت قائم کرنے کی کوشش کامیاب نہیں رہی۔“ جب مسیحی دُنیا تو یورپ میں اَمن نہیں لا سکی تو پوری دُنیا میں اَمن کیسے لا سکتی ہے۔ اسلئے آجکل بہتیرے لوگ مسیحیت پر شک کرنے لگے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟
بہتیرے مسیحی اچھی نیت کے ساتھ سیاست میں حصہ لینے لگے لیکن بعدازاں بگڑ گئے۔ مارٹن لوتھر ایک پادری تھا جس نے بائبل کا ترجمہ بھی کِیا۔ وہ کیتھولک چرچ کے نظام میں تبدیلیاں لانے کی اپنی کوششوں سے مشہور ہوا۔ چنانچہ لوتھر نے چرچ کی خلافورزی کی اسلئے وہ لوگ جو حکومت کے خلاف بغاوت کرنے پر آمادہ تھے اُسے پسند کرتے تھے۔ لیکن جب لوتھر نے سیاست میں حصہ لینا شروع کِیا تو یہ لوگ اُسکے خلاف ہو گئے۔ مثال کے طور پر جب کسانوں نے زمینداروں کے خلاف آواز اُٹھائی تو لوتھر نے اُنکا ساتھ دیا لیکن جب کسانوں نے زمینداروں کے خلاف جنگ لڑنا شروع کر دی تو لوتھر نے زمینداروں سے کہا کہ وہ بغاوت ختم کرنے کیلئے کسانوں کو کچل ڈالیں۔ اسطرح ہزاروں کسان مارے گئے اور لوتھر کسانوں کی نظروں میں غدار ٹھہرا۔ اسکے بعد جب زمینداروں نے شہنشاہ کے خلاف بغاوت کی تو لوتھر نے اُنکی حمایت کی۔ دراصل لوتھر کے پیروکاروں کو ”پروٹسٹنٹ“ کہا جاتا ہے جسکا مطلب ”کسی کے خلاف آواز اُٹھانے والا“ ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ابتدا ہی سے لوتھر کی تحریک مذہبی ہونے کیساتھ ساتھ ایک سیاسی تحریک بھی تھی۔ لوتھر لوگوں پر اختیار رکھنے کی وجہ سے بگڑ گیا۔ مثال کے طور پر شروع میں لوتھر یہ نہیں چاہتا تھا کہ لوگوں کو اپنے مذہبی عقائد بدلنے پر مجبور کِیا جائے۔ لیکن بعد میں اُس نے اپنے سیاسی دوستوں سے کہا کہ وہ اُن لوگوں کو زندہ جلا دیں جو بچوں کے بپتسمہ کے خلاف ہیں۔
جان کیلون ایک مشہور پادری تھا جو جنیوا سے تعلق رکھتا تھا۔ وہ بڑے پیمانے پر سیاسی اختیار بھی رکھتا تھا۔ جب مائیکل سرویٹس نے پاک صحائف سے ثابت کِیا کہ تثلیث کا عقیدہ جھوٹا ہے تو جان کیلون نے اپنے سیاسی اثرورسوخ کی بِنا پر اُسے زندہ جلوا دیا۔ یہ یسوع کی تعلیمات کی سراسر توہین تھی!
شاید یہ پادری ۱-یوحنا ۵:۱۹ میں درج اِن الفاظ کو بھول چکے تھے: ”ساری دُنیا اُس شریر کے قبضہ میں پڑی ہوئی ہے۔“ کیا وہ واقعی سیاسی نظام میں بہتری لانے کے خواہشمند تھے؟ یا کیا وہ صرف اعلیٰ مقام اور نامور دوست رکھنے کے شوقین تھے؟ ہر صورت میں اُنہیں یسوع کے شاگرد یعقوب کے اِن الہامی الفاظ کو یاد رکھنا چاہئے تھا: ”کیا تمہیں نہیں معلوم کہ دُنیا سے دوستی رکھنا خدا سے دشمنی کرنا ہے؟ پس جو کوئی دُنیا کا دوست بننا چاہتا ہے وہ اپنے آپ کو خدا کا دشمن بناتا ہے۔“ (یعقوب ۴:۴) یعقوب جانتا تھا کہ یسوع نے اپنے پیروکاروں کے بارے میں یہ کہا تھا: ”جسطرح مَیں دُنیا کا نہیں وہ بھی دُنیا کے نہیں۔“—یوحنا ۱۷:۱۴۔
بہتیرے مسیحی یسوع کے اِن الفاظ سے واقف تو ہیں لیکن اُنکے خیال میں یسوع کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ مسیحیوں کو دُنیا کی بُرائیوں میں شریک نہیں ہونا چاہئے۔ اُنکے خیال میں سیاست میں حصہ لینے سے ہی دوسروں کیلئے محبت دکھائی جا سکتی ہے۔ اُنکے خیال میں مذہبی طبقے کو بُرائی کے خلاف آواز اُٹھانی چاہئے اور رشوت اور ناانصافی کو ختم کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ کیا سیاست میں حصہ لینے سے ہی دوسروں کیلئے محبت دکھائی جا سکتی ہے؟ کیا ایک مسیحی سیاسی بحثوتکرار سے دُور رہ کر بھی دوسروں کی مدد کر سکتا ہے؟ اگلے مضمون میں اِن سوالات پر غور کِیا جائیگا۔
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 5 ایک لغت میں سیاست کی تعریف یوں کی گئی ہے: ”ایک مُلک یا علاقے پر حکومت کرنے کی سرگرمیاں، خاص طور پر مختلف اشخاص یا پارٹیوں کے درمیان بحثوتکرار جو اقتدار حاصل کرنے یا برسرِاقتدار رہنے کی کوشش میں ہیں۔“
[صفحہ ۴ پر تصویر]
سیاسی اختیار حاصل کرنے کیلئے مذہبی راہنماؤں نے شہنشاہ قسطنطین جیسے حکمرانوں کیساتھ معاہدے کئے
[تصویر کا حوالہ]
Louvre, Paris du Musée
[صفحہ ۵ پر تصویر]
نامور مذہبی راہنماؤں نے سیاست میں حصہ لینا کیوں شروع کر دیا؟
آگسٹین
مارٹن لوتھر
جان کیلون
[تصویر کا حوالہ]
;Augustine: ICCD Photo
,Calvin: Portrait by Holbein
from the book
(Vol. II) The History of Protestantism