یرمیاہ کی طرح دلیر بنیں
یرمیاہ کی طرح دلیر بنیں
”[یہوواہ] کی آس رکھ۔ مضبوط ہو اور تیرا دِل قوی ہو۔ ہاں [یہوواہ] ہی کی آس رکھ۔“—زبور ۲۷:۱۴۔
۱. یہوواہ کے گواہ کن برکات سے فائدہ اُٹھاتے ہیں؟
یہوواہ کے گواہ روحانی فردوس میں رہتے ہیں۔ (یسعیاہ ۱۱:۶-۹) اِس مصیبتزدہ دُنیا میں وہ ایسے ساتھی مسیحیوں کیساتھ ایک منفرد روحانی ماحول سے فائدہ اُٹھاتے ہیں جو یہوواہ خدا اور ایک دوسرے کیساتھ ایک پُرامن رشتہ رکھتے ہیں۔ (زبور ۲۹:۱۱؛ یسعیاہ ۵۴:۱۳) اِسکے علاوہ اُنکا روحانی فردوس وسیع ہو رہا ہے۔ وہ سب جو ’دل سے خدا کی مرضی پوری کرتے ہیں‘ وہ اِسے وسیع کرنے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ (افسیوں ۶:۶) لیکن وہ کیسے وسیع کرتے ہیں؟ وہ بائبل اصولوں کے مطابق زندگی بسر کرنے اور دوسروں کو ایسا کرنے کی تعلیم دینے اور اُنہیں اُس فردوس کی کثیر برکات سے فائدہ اُٹھانے کی دعوت دینے سے ایسا کر رہے ہیں۔—متی ۲۸:۱۹، ۲۰؛ یوحنا ۱۵:۸۔
۲، ۳. سچے مسیحیوں کو کس چیز کی برداشت کرنی پڑتی ہے؟
۲ تاہم، فردوس میں رہنے کا یہ مطلب نہیں کہ ہمیں آزمائشوں کا تجربہ نہیں کرنا پڑتا۔ ہم ابھی تک ناکامل ہیں اور بیماری، بڑھاپے اور موت جیسی تکالیف کا تجربہ کرتے ہیں۔ علاوہازیں، ہم ”اخیر زمانہ“ کے متعلق پیشینگوئیوں کی تکمیل کا بھی تجربہ کر رہے ہیں۔ (۲-تیمتھیس ۳:۱) جنگیں، جرم، بیماری، کال اور دیگر مشکلات تمام نوعِانسان کیلئے تکلیف کا باعث بنتی ہیں اور یہوواہ کے گواہ بھی اِن مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔—مرقس ۱۳:۳-۱۰؛ لوقا ۲۱:۱۰، ۱۱۔
۳ اِسکے علاوہ ہم اِس بات سے بھی بخوبی واقف ہیں کہ روحانی فردوس کے محفوظ ماحول کے باہر مخالفت کی تند ہوائیں چل رہی ہیں۔ یسوع نے اپنے پیروکاروں کو آگاہ کِیا: ”اگر دُنیا تم سے عداوت رکھتی ہے تو تم جانتے ہو کہ اُس نے تم سے پہلے مجھ سے بھی عداوت رکھی ہے۔ اگر تم دُنیا کے ہوتے تو دُنیا اپنوں کو عزیز رکھتی لیکن چونکہ تم دُنیا کے نہیں بلکہ مَیں نے تمکو دُنیا میں سے چن لیا ہے اس واسطے دُنیا تم سے عداوت رکھتی ہے۔ جو بات مَیں نے تم سے کہی تھی اُسے یاد رکھو کہ نوکر اپنے مالک سے بڑا نہیں ہوتا۔ اگر اُنہوں نے مجھے ستایا تو تمہیں بھی ستائینگے۔ اگر اُنہوں نے میری بات پر عمل کِیا تو تمہاری بات پر بھی کرینگے۔ لیکن یہ سب کچھ وہ میرے نام کے سبب سے تمہارے ساتھ کرینگے کیونکہ وہ میرے بھیجنے والے کو نہیں جانتے۔“ (یوحنا ۱۵:۱۸-۲۱) آجکل حالتیں مختلف نہیں ہیں۔ بیشتر لوگ آج بھی ہمارے پرستش کے طریقے کو نہیں سمجھتے اور نہ ہی اِسکی قدر کرتے ہیں۔ بعض ہم پر نکتہچینی کرتے اور ہمیں تمسخر کا نشانہ بناتے ہیں اور یسوع کی آگاہی کے مطابق ہم سے نفرت کرتے ہیں۔ (متی ۱۰:۲۲) اکثر ذرائعِابلاغ کے ذریعے ہمارے خلاف غلط معلومات اور کینہپرور پروپیگنڈے کو ہوا دی جاتی ہے۔ (زبور ۱۰۹:۱-۳) یہ درست ہے کہ ہم سب مشکل حالات کا سامنا کرتے ہیں اور ہم میں سے بعض بےحوصلہ ہو سکتے ہیں۔ ہم کیسے برداشت کر سکتے ہیں؟
۴. ہم برادشت کیلئے مدد کہاں سے حاصل کر سکتے ہیں؟
۴ یہوواہ ہماری مدد کریگا۔ زبورنویس نے الہام سے لکھا: ”صادق کی مصیبتیں بہت ہیں لیکن [یہوواہ] اُسکو اُن سب سے رہائی بخشتا ہے۔“ (زبور ۳۴:۱۹؛ ۱-کرنتھیوں ۱۰:۱۳) ہم میں سے بہتیرے اِس بات کی تصدیق کر سکتے ہیں کہ جب ہم یہوواہ پر مکمل اعتماد رکھتے ہیں تو وہ ہمیں ہر طرح کی مشکل کو برداشت کرنے کی قوت عطا کرتا ہے۔ اس کیلئے ہماری محبت اور ہمارے سامنے رکھی جانے والی خوشی حوصلہشکنی اور خوف پر قابو پانے میں ہماری مدد کرتی ہیں۔ (عبرانیوں ۱۲:۲) اِسطرح ہم مشکلات کے مقابل ثابتقدم رہتے ہیں۔
یرمیاہ نے خدا کے کلام سے قوت پائی
۵، ۶. (ا) ہمارے پاس سچے پرستاروں کی کونسی مثالیں ہیں جو برداشت کرنے کے قابل تھے؟ (ب) جب یرمیاہ کو نبی ہونے کیلئے بلایا گیا تو اُسکا ردِعمل کیسا تھا؟
۵ پوری تاریخ میں یہوواہ کے وفادار خادموں نے مشکل حالات کے باوجود خوشی حاصل کی ہے۔ بعض وفادار خادم اُس دَور میں رہتے تھے جب بیوفا اشخاص کے خلاف یہوواہ کا غصہ بھڑکا۔ ایسے وفادار پرستاروں میں یرمیاہ اور اُسکے چند ہمعصر اور پہلی صدی کے مسیحی شامل تھے۔ ایسے لوگوں کی تاریخی مثالیں ہماری حوصلہافزائی کیلئے بائبل میں قلمبند ہیں اور ہم اُنکا مطالعہ کرنے سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ (رومیوں ۱۵:۴) مثال کے طور پر، یرمیاہ کے نمونے پر غور کریں۔
۶ یرمیاہ کو جوانی ہی میں یہوداہ کے ملک میں نبی کے طور پر خدمت کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ یہ کوئی سہل کام نہیں تھا۔ بہت سے لوگ جھوٹے معبودوں کی پرستش کر رہے تھے۔ اگرچہ یرمیاہ کے اپنی خدمت کا آغاز کرتے وقت وفادار بادشاہ یوسیاہ تھا توبھی اُسکے سب جانشین بادشاہ بیوفا تھے۔ اِسکے علاوہ لوگوں کو تعلیم دینے کی ذمہداری رکھنے والے نبی اور کاہن بھی سچائی پر قائم نہیں تھے۔ (یرمیاہ ۱:۱، ۲؛ ۶:۱۳؛ ۲۳:۱۱) چنانچہ جب یرمیاہ کو نبی ہونے کیلئے بلایا گیا تو اُس نے کیسا محسوس کِیا؟ خوفزدہ! (یرمیاہ ۱:۸، ۱۷) یرمیاہ اپنے ابتدائی ردِعمل کو یاد کرتا ہے: ”تب مَیں نے کہا ہائے [یہوواہ] خدا! دیکھ مَیں بول نہیں سکتا کیونکہ مَیں تو بچہ ہوں۔“—یرمیاہ ۱:۶۔
۷. یرمیاہ کو اپنے علاقے میں کیسے ردِعمل کا سامنا ہوا اور اُس نے کیسا جوابیعمل دکھایا؟
۷ یرمیاہ کے علاقے کے لوگ بڑی حد تک بےحس تھے اور اُسے اکثر سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ ایک موقع پر فشحور کاہن نے یرمیاہ نبی کو مارا اور اُسے کاٹھ میں ڈال دیا۔ یرمیاہ اُس وقت کی بابت اپنے احساسات کو یوں بیان کرتا ہے: ”[مَیں نے کہا] کہ مَیں اُسکا ذکر نہ کرونگا نہ پھر کبھی اُسکے نام سے کلام کرونگا۔“ شاید آپ نے بھی بعضاوقات ایسا ہی محسوس کِیا ہو—منادی کے کام کو چھوڑ دینا چاہتے ہوں۔ غور کریں کہ ثابتقدم رہنے کیلئے کس چیز نے یرمیاہ کی مدد کی۔ اُس نے کہا: ”اُسکا کلام میرے دل میں جلتی آگ کی مانند ہے جو میری ہڈیوں میں پوشیدہ ہے اور مَیں ضبط کرتے کرتے تھک گیا اور مجھ سے رہا نہیں جاتا۔“ (یرمیاہ ۲۰:۹) کیا خدا کا کلام آپ پر بھی ایسا ہی اثر رکھتا ہے؟
یرمیاہ کے ہمعصر
۸، ۹. (ا) اوریاہ نبی نے کیسی کمزوری دکھائی اور اسکا کیا نتیجہ نکلا؟ (ب) باروک کیوں بےحوصلہ ہو گیا تھا اور اُسکی کیسے مدد کی گئی تھی؟
۸ یرمیاہ اپنے نبوّتی کام میں تنہا نہیں تھا۔ اُسکے اَور بھی ساتھی تھے جن سے اُسے ضرور حوصلہ ملا ہوگا۔ تاہم اُسکے ساتھیوں نے بعضاوقات عقلمندی کا مظاہرہ نہیں کِیا تھا۔ مثال کے طور پر، ایک ساتھی نبی اوریاہ ”یرؔمیاہ کی سب باتوں کے مطابق“ یروشلیم اور یہوداہ کے خلاف آگاہیاں دینے میں مصروف تھا۔ تاہم، جب یہویقیم نے اوریاہ کو قتل کرنے کا حکم دیا تو وہ مصر کو بھاگ گیا۔ لیکن ایسا کرنے سے وہ بچ نہیں سکتا تھا۔ بادشاہ کے آدمیوں نے اُسکا پیچھا کِیا اور اُسے پکڑ کر واپس یروشلیم لے آئے جہاں اُسے قتل کر دیا گیا۔ یرمیاہ کیلئے یہ کتنا بڑا دھچکا تھا!—یرمیاہ ۲۶:۲۰-۲۳۔
یرمیاہ ۴۵:۱-۵) جب باروک نے دوبارہ روحانی توازن قائم کر لیا تو یرمیاہ کو کس قدر حوصلہافزائی حاصل ہوئی ہوگی!
۹ یرمیاہ کا ایک دوسرا ساتھی اُسکا منشی باروک تھا۔ باروک یرمیاہ کیلئے ایک اچھا مددگار تھا۔ تاہم ایک موقع پر اُس نے بھی حالات کو روحانی نقطۂنظر سے دیکھنا چھوڑ دیا تھا۔ اُس نے شکایت کرنا شروع کر دی: ”افسوس کہ [یہوواہ] نے میرے دُکھدرد پر غم بھی بڑھا دیا! مَیں کراہتے کراہتے تھک گیا اور مجھے آرام نہ ملا۔“ باروک بےحوصلہ ہو گیا اور اُس نے روحانی چیزوں کی قدر کرنا چھوڑ دی۔ پھربھی یہوواہ نے شفقت کیساتھ باروک کو دانشمندانہ مشورت دی اور اُسکی اصلاح کی گئی۔ اِسکے بعد اُسے یقیندہانی کرائی گئی کہ وہ یروشلیم کی تباہی سے بچ جائیگا۔ (یہوواہ نے اپنے نبی کی مدد کی
۱۰. یہوواہ نے مدد فراہم کرنے کیلئے یرمیاہ سے کیا وعدے کئے تھے؟
۱۰ سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہوواہ اپنے نبی سے دستبردار نہ ہوا۔ وہ سمجھتا تھا کہ اُسکا نبی کیسا محسوس کرتا ہے اور اُسے ضروری قوت اور مدد فراہم کی۔ مثال کے طور پر، یرمیاہ کی خدمتگزاری کے شروع میں جب اُس نے اپنی صلاحیتوں کی بابت شکوشُبے کا اظہار کِیا تو یہوواہ نے اُس سے کہا: ”تُو اُنکے چہروں کو دیکھ کر نہ ڈر کیونکہ [یہوواہ] فرماتا ہے مَیں تجھے چھڑانے کو تیرے ساتھ ہوں۔“ اِسکے بعد اُسکے کام کی بابت تفصیل بیان کرتے ہوئے یہوواہ نے اپنے نبی سے کہا: ”وہ تجھ سے لڑینگے لیکن تجھ پر غالب نہ آئینگے کیونکہ [یہوواہ] فرماتا ہے مَیں تجھے چھڑانے کو تیرے ساتھ ہوں۔“ (یرمیاہ ۱:۸، ۱۹) خدا کا وعدہ کس قدر تسکینبخش تھا اور یہوواہ نے اپنے وعدے کو پورا بھی کِیا۔
۱۱. ہم کیسے جانتے ہیں کہ یہوواہ نے یرمیاہ کو مدد دینے کا اپنا وعدہ پورا کِیا تھا؟
۱۱ چنانچہ کاٹھ میں رہنے اور لوگوں کے تمسخر کا نشانہ بننے کے بعد یرمیاہ نے اعتماد کیساتھ کہا: ”لیکن [یہوواہ] مہیب بہادر کی مانند میری یرمیاہ ۲۰:۱۱) بعدازاں جب یرمیاہ کو ہلاک کرنے کی کوششیں کی گئیں تو یہوواہ اسکے ساتھ رہا اور باروک کی طرح یرمیاہ بھی یروشلیم کی تباہی سے بچ گیا جبکہ اُسکے ستانے والے اور جنہوں نے اُسکی آگاہیوں پر دھیان نہ دیا وہ بھی ہلاک ہو گئے یا بابل کی اسیری میں چلے گئے۔
طرف ہے۔ اِس لئے مجھے ستانے والوں نے ٹھوکر کھائی اور غالب نہ آئے۔ وہ نہایت شرمندہ ہوئے اِسلئےکہ اُنہوں نے اپنا مقصد نہ پایا۔ اُنکی شرمندگی ہمیشہ تک رہیگی۔ کبھی فراموش نہ ہوگی۔“ (۱۲. حوصلہشکنی کے باوجود ہمیں کس بات کو ذہن میں رکھنا چاہئے؟
۱۲ یرمیاہ کی طرح آجکل بہت سے یہوواہ کے گواہ بھی مصیبتیں اُٹھاتے ہیں۔ متذکرہ بیان کے مطابق اِن میں سے بعض ہماری اپنی ناکاملیتوں کا نتیجہ ہوتی ہیں اور دوسری دُنیا کی بےترتیبی کا سبب ہوتی ہیں اِسکے علاوہ کچھ مصیبتیں ہمیں اپنے کام کی مخالفت کی وجہ سے برداشت کرنی پڑتی ہیں۔ ایسی مصیبتیں بےحوصلہ کرنے والی ہو سکتی ہیں۔ یرمیاہ کی طرح ہم شاید یہ سوچنے لگیں کہ آیا ہم اپنی خدمت کو جاری رکھ سکتے ہیں۔ بیشک ہم وقتاًفوقتاً بےحوصلہ ہونے کی توقع کر سکتے ہیں۔ حوصلہشکنی یہوواہ کیلئے ہماری محبت کی گہرائی کی آزمائش کرتی ہے۔ لہٰذا ہمیں پُرعزم رہنا چاہئے کہ اوریاہ کی طرح حوصلہشکنی کو یہوواہ کی خدمت کو ترک کرنے کی اجازت نہ دیں۔ اِسکے برعکس ہمیں یرمیاہ کی نقل کرنی چاہئے اور یہوواہ کی مدد کیلئے پُراعتماد رہنا چاہئے۔
حوصلہشکنی کا مقابلہ کیسے کریں
۱۳. ہم یرمیاہ اور داؤد کے نمونوں کی نقل کیسے کر سکتے ہیں؟
۱۳ یرمیاہ نے یہوواہ خدا کیساتھ باقاعدہ رابطہ قائم رکھا اور اُسے اپنے گہرے جذبات سے آگاہ کرنے کیساتھ ساتھ قوت کی درخواست کی۔ یہ ایک قابلِتقلید عمدہ نمونہ ہے۔ قدیم زمانے کے داؤد نے قوت کے اِسی ماخذ پر بھروسا رکھتے ہوئے لکھا: ”اَے [یہوواہ] میری باتوں پر کان لگا! میری آہوں پر توجہ کر! اَے میرے بادشاہ! اَے میرے خدا! میری فریاد کی آواز کی طرف متوجہ ہو کیونکہ مَیں تجھ ہی سے دُعا کرتا ہوں۔“ (زبور ۵:۱، ۲) داؤد کی زندگی سے متعلق الہامی بیان ظاہر کرتا ہے کہ یہوواہ نے مدد کیلئے داؤد کی دُعاؤں کا باربار جواب دیا۔ (زبور ۱۸:۱، ۲؛ ۲۱:۱-۵) اِسی طرح جب دباؤ ناقابلِبرداشت یا ناقابلِتسخیر محسوس ہوں تو دُعا میں یہوواہ سے رُجوع کرنا اور اُسکے سامنے اپنا دل انڈیل دینا نہایت تسکینبخش ہوتا ہے۔ (فلپیوں ۴:۶، ۷؛ ۱-تھسلنیکیوں ۵:۱۶-۱۸) یہوواہ ہماری سننے سے انکار نہیں کرتا۔ اِسکے برعکس، وہ ہمیں یقیندہانی کراتا ہے کہ ’اُسکو ہماری فکر ہے۔‘ (۱-پطرس ۵:۶، ۷) تاہم، کیا یہ معقول بات ہوگی کہ یہوواہ سے دُعا کریں اور پھر اُسکی نہ سنیں؟
۱۴. یہوواہ کی باتوں کا یرمیاہ پر کیا اثر ہوا تھا؟
۱۴ یہوواہ ہم سے کیسے کلام کرتا ہے؟ پھر یرمیاہ کی مثال پر غور کریں۔ چونکہ یرمیاہ ایک نبی تھا لہٰذا یہوواہ نے اُس کیساتھ براہِراست کلام کِیا۔ یرمیاہ اپنے دل پر خدا کے کلام کے اثرات کی وضاحت کرتا ہے: ”تیرا کلام ملا اور مَیں نے اُسے نوش کِیا اور تیری باتیں میرے دل کی خوشی اور خرمی تھیں کیونکہ اَے [یہوواہ] ربُالافواج! مَیں تیرے نام سے کہلاتا ہوں۔“ (یرمیاہ ۱۵:۱۶) جیہاں، یرمیاہ اِس حقیقت سے خوش تھا کہ وہ خدا کے نام سے کہلاتا تھا اور خدا کی باتیں نبی کیلئے بیشقیمت تھیں۔ چنانچہ، پولس رسول کی طرح یرمیاہ بھی اپنے سپرد پیغام کا اعلان کرنے کا مشتاق تھا۔—رومیوں ۱:۱۵، ۱۶۔
۱۵. ہم یہوواہ کی باتوں کو اپنے دل میں کیسے نقش کر سکتے ہیں اور کن چیزوں پر سوچبچار ہمیں خاموش نہ رہنے کیلئے پُرعزم بنائیگا؟
۱۵ یہوواہ کسی کے ساتھ بھی براہِراست کلام نہیں کرتا۔ تاہم، ہمارے پاس بائبل صفحات میں خدا کی باتیں محفوظ ہیں۔ چنانچہ، اگر ہم خلوصدلی کیساتھ بائبل کا مطالعہ کرتے ہیں اور سیکھی ہوئی باتوں پر غوروفکر کرتے ہیں تو خدا کی باتیں ہمارے دل کی ”خوشی اور خرمی“ بن جائینگی۔ اِسکے ساتھ ساتھ ہم جوش سے بھر جائینگے کہ جب ہم دوسروں کو خدا کی باتیں بتاتے ہیں تو یہوواہ کے نام سے کہلاتے ہیں۔ اِس حقیقت کو کبھی فراموش نہ کریں کہ آجکل پوری دُنیا میں کوئی یہوواہ کے نام کا اعلان نہیں کرتا۔ صرف اُسکے گواہ ہی خدا کی قائمشُدہ بادشاہت کی خوشخبری کا اعلان کرتے ہیں اور حلیم لوگوں کو یسوع مسیح کا شاگرد بننے کیلئے تعلیم دیتے ہیں۔ (متی ۲۸:۱۹، ۲۰) ہم کتنے خوشنصیب ہیں! جب ہم سوچتے ہیں کہ یہوواہ نے پُرمحبت طریقے سے ہمیں کتنا بڑا شرف عطا کِیا ہے تو ہم کیسے خاموش رہ سکتے ہیں؟
اپنی رفاقتوں کی بابت محتاط رہیں
۱۶، ۱۷. صحبتوں کی بابت یرمیاہ کا کیا نظریہ تھا اور ہم کیسے اُسکی نقل کر سکتے ہیں؟
۱۶ یرمیاہ ایک اَور چیز کا بھی ذکر کرتا ہے جس سے دلیری دکھانے کیلئے اُسکی مدد ہوئی تھی۔ اُس نے کہا: ”نہ مَیں خوشی منانے والوں کی محفل میں بیٹھا اور نہ شادمان ہوا۔ تیرے ہاتھ کے سبب سے مَیں تنہا بیٹھا کیونکہ تُو نے مجھے قہر سے لبریز کر دیا ہے۔“ (یرمیاہ ۱۵:۱۷) یرمیاہ نے بُرے ساتھیوں کے ذریعے خراب ہونے کی بجائے تنہا رہنے کو ترجیح دی۔ ہم بھی آجکل معاملات کو اُسی طریقے سے دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہمیں پولس رسول کی آگاہی کو کبھی نہیں بھولنا چاہئے کہ ”بُری صحبتیں اچھی عادتوں کو بگاڑ دیتی ہیں،“ حتیٰکہ کئی سالوں کی اچھی عادات بھی بگڑ سکتی ہیں۔—۱-کرنتھیوں ۱۵:۳۳۔
۱۷ بُری صحبتیں ہماری سوچ کو آلودہ کرنے کیلئے دُنیا کی رُوح کو اجازت دے سکتی ہیں۔ (۱-کرنتھیوں ۲:۱۲؛ افسیوں ۲:۲؛ یعقوب ۴:۴) پس ہمیں نقصاندہ صحبتوں کی شناخت کرنے اور اُنہیں مکمل طور پر چھوڑ دینے کیلئے اپنے حواس کو تیز کرنے کی ضرورت ہے۔ (عبرانیوں ۵:۱۴) اگر پولس آجکل زمین پر زندہ ہوتا تو آپکے خیال میں وہ بداخلاق یا پُرتشدد فلمیں یا کھیلیں دیکھنے والے ایک مسیحی سے کیا کہتا؟ وہ انٹرنیٹ پر اجنبیوں کیساتھ دوستی رچانے والے کسی بھائی کو کیا مشورت دیتا؟ وہ ذاتی مطالعے کی عادات سے عاری کسی ایسے مسیحی کی بابت کیا سوچتا جو ویڈیو گیمز کھیلنے یا ٹیلیویژن دیکھنے کے لئے گھنٹوں صرف کرتا ہے؟—۲-کرنتھیوں ۶:۱۴؛ افسیوں ۵:۳-۵، ۱۵، ۱۶۔
روحانی فردوس میں رہیں
۱۸. روحانی طور پر مضبوط رہنے کیلئے کیا چیز ہماری مدد کریگی؟
۱۸ ہم اپنے روحانی فردوس کی قدر کرتے ہیں۔ آجکل دُنیا میں اِس روحانی فردوس جیسی کوئی چیز نہیں ہے۔ بےایمان لوگ بھی اُس محبت، پاسولحاظ اور مہربانی کی تعریف کرتے ہیں جو مسیحی ایک دوسرے کیلئے رکھتے ہیں۔ (افسیوں ۴:۳۱، ۳۲) پھربھی پہلے سے کہیں زیادہ ہمیں حوصلہشکنی کے خلاف لڑنے کی ضرورت ہے۔ اچھی رفاقت، دُعا اور مطالعے کی اچھی عادات روحانی طور پر مضبوط رہنے کیلئے ہماری مدد کر سکتی ہیں۔ وہ یہوواہ پر مکمل اعتماد کیساتھ ہر آزمائش کا مقابلہ کرنے کیلئے ہمیں تقویت دینگی۔—۲-کرنتھیوں ۴:۷، ۸۔
۱۹، ۲۰. (ا) کیا چیز برداشت کرنے کیلئے ہماری مدد کریگی؟ (ب) اگلا مضمون بالخصوص کن لوگوں کی بابت بات کریگا اور اِسکے علاوہ اَور کن کیلئے دلچسپ ثابت ہوگا؟
۱۹ ہمارے بائبل پیغام سے نفرت کرنے والوں سے گھبرا کر اپنے ایمان پر کبھی مصالحت نہ کریں۔ یرمیاہ کو اذیت پہنچانے والے دشمنوں کی طرح ہمارے خلاف لڑنے والے بھی درحقیقت خدا کے خلاف لڑتے ہیں۔ وہ غالب نہیں آئینگے۔ یہوواہ ہمارے مخالفوں سے کہیں زیادہ زورآور ہے، وہ ہمیں بتاتا ہے: ”[یہوواہ] کی آس رکھ۔ مضبوط ہو اور تیرا دل قوی ہو۔ ہاں [یہوواہ] ہی کی آس رکھ۔“ (زبور ۲۷:۱۴) یہوواہ پر اپنی پُختہ اُمید کیساتھ ہمیں نیک کام کرنے کی خاطر ہمت نہ ہارنے کیلئے پُرعزم رہنا چاہئے۔ یرمیاہ اور باروک کی طرح ہمیں پُراعتماد رہنا چاہئے کہ اگر بےدل نہ ہونگے تو عین وقت پر کاٹینگے۔—گلتیوں ۶:۹۔
۲۰ بہتیرے مسیحیوں کیلئے حوصلہشکنی کے خلاف لڑنا ایک مستقل کشمکش ہے۔ تاہم، نوجوان مخصوص مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔ لیکن اُنہیں شاندار مواقع بھی حاصل ہیں۔ اگلا مضمون ہمارے درمیان موجود نوجوانوں کی بابت براہِراست بات کریگا۔ یہ والدین اور کلیسیا میں تمام مخصوص بالغوں کیلئے بھی دلچسپ ثابت ہوگا جو اپنے کلام، نمونے اور براہِراست تعاون سے کلیسیا میں نوجوانوں کی مدد کرنے کے قابل ہیں۔
آپ کیسے جواب دینگے؟
• ہم بےحوصلہ کرنے والے حالات کی توقع کیوں کر سکتے ہیں اور ہمیں مدد کیلئے کس پر آس لگانی چاہئے؟
• یرمیاہ نے مشکل کام کرنے کی ذمہداری کے باوجود کس طرح حوصلہشکنی پر قابو پایا؟
• مشکلات میں بھی ہمارے دل کو کونسی چیز ”خوشی اور خرمی“ بخش سکتی ہے؟
[مطالعے کے سوالات]
[صفحہ ۹ پر تصویر]
یرمیاہ نے سوچا کہ نبی ہونے کیلئے وہ ابھی لڑکا اور ناتجربہکار ہے
[صفحہ ۱۰ پر تصویر]
یرمیاہ اذیت کے دوران بھی اِس بات سے واقف تھا کہ یہوواہ ”مہیب بہادر“ کی طرح اُسکے ساتھ تھا