مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

ابرہام اور سارہ—‏آپ اُنکے ایمان کی نقل کر سکتے ہیں!‏

ابرہام اور سارہ—‏آپ اُنکے ایمان کی نقل کر سکتے ہیں!‏

ابرہام اور سارہ—‏آپ اُنکے ایمان کی نقل کر سکتے ہیں!‏

وہ ’‏سب ایمان لانے والوں کا باپ‘‏ کہلایا۔‏ (‏رومیوں ۴:‏۱۱‏)‏ اُسکی چہیتی بیوی میں بھی ایمان کی عمدہ خوبی پائی جاتی تھی۔‏ (‏عبرانیوں ۱۱:‏۱۱‏)‏ یہ خداترس آبائی بزرگ ابرہام اور اُسکی خداپرست بیوی سارہ تھے۔‏ وہ ایمان کی ایسی عمدہ مثالیں کیوں تھے؟‏ اُنہیں کن آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑا؟‏ نیز اُنکی سرگزشت ہمارے لئے کیا اہمیت رکھتی ہے؟‏

جب خدا نے ابرہام کو اپنا وطن چھوڑنے کا حکم دیا تو اُس نے ایمان کا مظاہرہ کِیا۔‏ یہوواہ نے فرمایا:‏ ”‏تُو اپنے وطن اور اپنے ناتےداروں کے بیچ سے اور اپنے باپ کے گھر سے نکل کر اُس مُلک میں جا جو مَیں تجھے دکھاؤنگا۔‏“‏ (‏پیدایش ۱۲:‏۱‏)‏ وفادار آبائی بزرگ نے فرمانبرداری دکھائی کیونکہ اُسکی بابت بیان کِیا گیا ہے:‏ ”‏ایمان ہی کے سبب سے اؔبرہام جب بلایا گیا تو حکم مان کر اُس جگہ چلا گیا جسے میراث میں لینے والا تھا اور اگرچہ جانتا نہ تھا کہ مَیں کہاں جاتا ہوں توبھی روانہ ہو گیا۔‏“‏ (‏عبرانیوں ۱۱:‏۸‏)‏ غور کریں کہ اس نقل‌مکانی میں کیا کچھ شامل تھا۔‏

ابرہام اُور کے مُلک،‏ موجودہ جنوبی عراق میں رہتا تھا۔‏ اُور مسوپتامیہ کا تجارتی مرکز تھا جو خلیج فارس اور وادیِ‌سندھ کے علاقہ‌جات سے تجارت کرتا تھا۔‏ اُور کی باقاعدہ کھدائی کرانے والا سر لیونارڈ وولی اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ابرہام کے زمانے میں زیادہ‌تر گھر اینٹوں کے بنے ہوئے اور اُنکی دیواروں پر پلستر اور چونا کِیا ہوا تھا۔‏ مثال کے طور پر،‏ ایک امیر شہری کا گھر دو منزلہ ہوتا تھا جسکا مرکزی صحن بھی پکا ہوتا تھا۔‏ نیچے جانوروں اور مہمانوں کے رہنے کی جگہ تھی۔‏ پہلی منزل پر دیوار کیساتھ ساتھ چاروں طرف لکڑی کی گیلری ہوتی تھی جو خاندان کے استعمال میں آنے والے کمروں تک لیکر جاتی تھی۔‏ وولی کے مطابق ۱۰ سے ۲۰ کمروں پر مشتمل ایسی رہائش‌گاہیں ”‏خوبصورت اور مشرقی انداز سے بنی ہوئی نسبتاً کشادہ اور آرام‌دہ ہوتی تھیں۔‏“‏ یہ ”‏نمایاں طور پر مہذب لوگوں کی رہائش‌گاہیں تھیں جو شہری زندگی کے تمام تقاضوں کو پورا کرتی تھیں۔‏“‏ اگر ابرہام اور سارہ نے خیموں میں رہنے کیلئے ایسے گھر کو چھوڑنے کا فیصلہ کِیا تو اُنہوں نے واقعی یہوواہ کی فرمانبرداری کیلئے بڑی قربانیاں دی تھیں۔‏

وہاں سے نکلنے کے بعد،‏ سب سے پہلے ابرہام اپنے خاندان کیساتھ حاران پہنچا جو شمالی مسوپتامیہ کا ایک شہر تھا اور پھر اسکے بعد کنعان چلا گیا۔‏ ایک عمررسیدہ جوڑے کیلئے ۶۰۰،‏۱ کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنا واقعی ایک بڑا چیلنج تھا!‏ جب وہ حاران سے چلے تو ابرہام ۷۵ برس کا اور سارہ ۶۵ برس کی تھی۔‏—‏پیدایش ۱۲:‏۴‏۔‏

جب ابرہام نے بتایا ہوگا کہ وہ اُور کو چھوڑ رہے ہیں تو سارہ نے کیسا محسوس کِیا ہوگا؟‏ ایک خوبصورت گھر کو چھوڑ کر ایک غیرمُلک میں جانا اور ادنیٰ معیارِزندگی اختیار کرنا واقعی اُس کیلئے تشویش کا باعث رہا ہوگا۔‏ تاہم،‏ سارہ ابرہام کو اپنا ”‏خداوند“‏ جانتی اور اُسکے تابع رہتی تھی۔‏ (‏۱-‏پطرس ۳:‏۵،‏ ۶‏)‏ بعض علما کا خیال ہے کہ یہ سارہ کے ”‏وہاں کے دستور کے مطابق ابرہام کیلئے عزت اور احترام“‏ کا اظہار تھا جوکہ اُسکی ”‏حقیقی عادات اور سوچ اور احساسات“‏ کا مظہر تھا۔‏ مگر سب سے بڑھ کر سارہ یہوواہ پر توکل کرتی تھی۔‏ اُسکی تابعداری اور ایمان مسیحی بیویوں کیلئے ایک عمدہ مثال ہے۔‏

سچ ہے کہ آجکل خدا ہم سے اپنے گھروں کو چھوڑنے کا تقاضا تو نہیں کرتا،‏ تاہم بعض کُل‌وقتی خادموں نے دوسرے ممالک میں خوشخبری کی مُنادی کرنے کیلئے اپنے آبائی وطن کو چھوڑا ہے۔‏ اس سے قطع‌نظر کہ ہم کہاں خدا کی خدمت کرتے ہیں جبتک ہم روحانی مفادات کو اپنی زندگیوں میں پہلا درجہ دیتے ہیں خدا ہماری تمام ضروریات پوری کریگا۔‏—‏متی ۶:‏۲۵-‏۳۳‏۔‏

ابرہام اور سارہ کو اپنے فیصلے پر کوئی پچھتاوا نہیں تھا۔‏ پولس رسول بیان کرتا ہے،‏ ”‏جس مُلک سے وہ نکل آئے تھے اگر اُسکا خیال کرتے تو اُنہیں واپس جانے کا موقع تھا مگر وہ واپس نہ گئے۔‏“‏ اس بات پر بھروسا رکھتے ہوئے کہ یہوواہ ”‏اپنے طالبوں کو بدلہ دیتا ہے،‏“‏ اُنہوں نے خدا کے وعدوں پر ایمان رکھا۔‏ اسلئے اگر ہم پورے دل‌وجان سے یہوواہ کی خدمت کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں بھی ایسا ہی کرنا ہوگا۔‏—‏عبرانیوں ۱۱:‏۶،‏ ۱۵،‏ ۱۶‏۔‏

روحانی اور مادی دولت

جب ابرہام کنعان پہنچا تو خدا نے اُس سے کہا:‏ ”‏یہی مُلک مَیں تیری نسل کو دونگا۔‏“‏ اسکے جواب میں ابرہام نے یہوواہ کیلئے ایک قربانگاہ بنائی اور ’‏یہوواہ سے دُعا کی۔‏‘‏ (‏پیدایش ۱۲:‏۷،‏ ۸‏)‏ یہوواہ نے ابرہام کو مال‌ودولت سے نوازا اور اُسکے لشکر کو بھی بڑھایا۔‏ ایک وقت تھا جب اُسکے پاس ۳۱۸ تربیت‌یافتہ آدمی اور اُسکے گھر میں پیدا ہونے والے غلام بھی تھے،‏ اسلئے یہ خیال ہے کہ ”‏اُسکی خیمہ‌گاہ میں ایک ہزار سے زیادہ لوگ ہونگے۔‏“‏ اسی وجہ سے لوگ اُسے ’‏خدا کا زبردست سردار‘‏ خیال کرتے تھے۔‏—‏پیدایش ۱۳:‏۲؛‏ ۱۴:‏۱۴؛‏ ۲۳:‏۶‏۔‏

پرستش کے سلسلے میں بھی ابرہام نے پیشوائی کی اور اپنے گھرانے کے لوگوں کو ”‏[‏یہوواہ]‏ کی راہ میں قائم رہ کر عدل اور اِنصاف“‏ کرنے کی تعلیم دی تھی۔‏ (‏پیدایش ۱۸:‏۱۹‏)‏ جدید زمانے میں مسیحی خاندانوں کے سربراہ ابرہام کے نمونے سے حوصلہ‌افزائی حاصل کر سکتے ہیں کہ وہ اپنے گھرانے کو یہوواہ پر بھروسا کرنے اور عدل‌وانصاف کرنے کی تعلیم دینے میں کامیاب ہوا تھا۔‏ اسلئے اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں کہ سارہ کی مصری لونڈی ہاجرہ،‏ ابرہام کا عمررسیدہ نوکر اور اُسکا بیٹا اضحاق یہوواہ خدا پر بھروسا کرتے تھے۔‏—‏پیدایش ۱۶:‏۵،‏ ۱۳؛‏ ۲۴:‏۱۰-‏۱۴؛‏ ۲۵:‏۲۱‏۔‏

ابرہام صلح کا طالب ہوا

ابرہام کی زندگی کے واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ اُس نے خداپرستانہ زندگی بسر کی۔‏ اپنے اور اپنے بھتیجے لوط کے چرواہوں میں جھگڑے کو ختم کرنے کیلئے ابرہام نے اپنی خیمہ‌گاہوں کو الگ کرنے کی تجویز پیش کی اور جگہ کے انتخاب کے سلسلے میں اپنے بھتیجے لوط کو پہلا موقع دیا۔‏ واقعی ابرہام صلح‌پسند تھا۔‏—‏پیدایش ۱۳:‏۵-‏۱۳‏۔‏

اگر ہمیں کبھی اپنے حقوق یا صلح قائم رکھنے کیلئے کچھ مصالحت کرنے کا انتخاب کرنا پڑے تو ہم اس سرگزشت سے سیکھتے ہیں کہ ابرہام کے لوط کے لئے پاس‌ولحاظ دکھانے کی وجہ سے یہوواہ نے اُسے کسی چیز سے محروم نہیں ہونے دیا تھا۔‏ اسکے برعکس،‏ بعدازاں خدا نے ابرہام سے وعدہ کِیا کہ وہ اُسے اور اُسکی نسل کو وہ تمام مُلک دیگا جو ابرہام کو حدِنگاہ تک دکھائی دے رہا تھا۔‏ (‏پیدایش ۱۳:‏۱۴-‏۱۷‏)‏ یسوع نے فرمایا،‏ ”‏مبارک ہیں وہ جو صلح کراتے ہیں کیونکہ وہ خدا کے بیٹے کہلائینگے۔‏“‏—‏متی ۵:‏۹‏۔‏

ابرہام کا وارث کون ہوگا؟‏

نسل کی بابت وعدوں کے باوجود،‏ سارہ بانجھ تھی۔‏ ابرہام نے یہ معاملہ خدا کے حضور رکھا۔‏ کیا اُسکا غلام الیعزر اُسکی ساری میراث کا وارث ہوگا؟‏ بیشک نہیں،‏ کیونکہ یہوواہ نے فرمایا:‏ ”‏یہ تیرا وارث نہ ہوگا بلکہ وہ جو تیرے صلب سے پیدا ہوگا وہی تیرا وارث ہوگا۔‏“‏—‏پیدایش ۱۵:‏۱-‏۴‏۔‏

اُنکی ابھی تک کوئی اولاد نہ تھی اور ۷۵ سالہ سارہ سنِ‌یاس کو پہنچ چکی تھی۔‏ اسلئے اُس نے ابرہام سے کہا:‏ ”‏دیکھ [‏یہوواہ]‏ نے مجھے تو اَولاد سے محروم رکھا ہے سو تُو میری لونڈی کے پاس جا شاید اُس سے میرا گھر آباد ہو۔‏“‏ پس ابرہام نے ہاجرہ کو دوسری بیوی بنا لیا اور وہ حاملہ ہوئی۔‏ جب اُسے معلوم ہوا کہ وہ حاملہ ہے تو اپنی بی‌بی کو حقیر جاننے لگی۔‏ تب سارہ نے ابرہام سے اُسکی شکایت کی اور ہاجرہ پر بھی سختی کرنے لگی اور وہ اُسکے پاس سے بھاگ گئی۔‏—‏پیدایش ۱۶:‏۱-‏۶‏۔‏

ابرہام اور سارہ ایمان کے مطابق چلنے کی کوشش کرتے رہے اور اُس زمانے کے مطابق اچھے چال‌چلن کے مالک تھے۔‏ تاہم،‏ یہوواہ کے وعدے کے مطابق ابرہام کی نسل نے اس طریقے سے نہیں آنا تھا۔‏ ہماری تہذیب‌وثقافت کے بھی بعض ایسے طورطریقے ہو سکتے ہیں جو مختلف حالات کے مطابق بالکل صحیح دکھائی دیں مگر اسکا یہ مطلب نہیں کہ یہوواہ اس سے متفق ہے۔‏ ہماری حالت کی بابت اُسکا نقطۂ‌نظر یکسر مختلف ہو سکتا ہے۔‏ اسلئے ہمیں خدا کی راہنمائی کے طالب ہونے اور یہ دُعا کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ ہمیں اپنی راہیں دکھائے۔‏—‏زبور ۲۵:‏۴،‏ ۵؛‏ ۱۴۳:‏۸،‏ ۱۰‏۔‏

‏’‏یہوواہ کے نزدیک کوئی کام مشکل نہیں‘‏

وقت آنے پر ہاجرہ کے ہاں بیٹا ہوا اور اُنہوں نے اُسکا نام اسمٰعیل رکھا۔‏ تاہم وہ موعودہ نسل نہ تھا۔‏ سارہ ہی کو عمررسیدہ ہونے کے باوجود وارث پیدا کرنا تھا۔‏—‏پیدایش ۱۷:‏۱۵،‏ ۱۶‏۔‏

جب خدا نے ابرہام کو بتایا کہ سارہ سے اُسکے بیٹا ہوگا تو ”‏اؔبرہام سرنگوں ہوا اور ہنس کر دل میں کہنے لگا کہ کیا سو برس کے بڈھے سے کوئی بچہ ہوگا اور کیا ساؔرہ کے جو نوے برس کی ہے اولاد ہوگی؟‏“‏ (‏پیدایش ۱۷:‏۱۷‏)‏ فرشتے کے اس پیغام کو دہرانے پر سارہ بھی ’‏اپنے دل میں ہنسی‘‏ تھی۔‏ مگر ”‏کیا [‏یہوواہ]‏ کے نزدیک کوئی بات مشکل ہے؟‏“‏ ہم یہ یقین رکھ سکتے ہیں کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق سب کچھ کر سکتا ہے۔‏—‏پیدایش ۱۸:‏۱۲-‏۱۴‏۔‏

‏”‏ایمان ہی سے ساؔرہ نے بھی سنِ‌یاس کے بعد حاملہ ہونے کی طاقت پائی اسلئےکہ اُس نے وعدہ کرنے والے کو سچا جانا۔‏“‏ (‏عبرانیوں ۱۱:‏۱۱‏)‏ وقت آنے پر سارہ نے اضحاق کو جنم دیا جسکے نام کا مطلب ہے ”‏ہنسی۔‏“‏

خدا کے وعدوں پر مکمل بھروسا

یہوواہ نے اضحاق کی شناخت ایک ایسی نسل کے طور پر کرائی جسکا مدتوں سے انتظار تھا۔‏ (‏پیدایش ۲۱:‏۱۲‏)‏ پس جب خدا نے ابرہام سے اپنے اس بیٹے کو قربان کرنے کیلئے کہا تو وہ یقیناً حیران ہوا ہوگا۔‏ تاہم،‏ ابرہام کے پاس یہوواہ پر مکمل بھروسا رکھنے کی معقول وجوہات تھیں۔‏ کیا خدا اضحاق کو مُردوں میں سے زندہ کرنے کی طاقت نہیں رکھتا تھا؟‏ (‏عبرانیوں ۱۱:‏۱۷-‏۱۹‏)‏ کیا خدا نے پہلے ہی اضحاق کی پیدایش کے سلسلے میں ابرہام اور سارہ کی اولاد پیدا کرنے کی قوت کو بحال کرنے سے اپنی معجزانہ طاقت کا ثبوت نہیں دیا تھا؟‏ اپنے وعدوں کو پورا کرنے کی خدا کی لیاقت کا یقین رکھتے ہوئے،‏ ابرہام یہ حکم ماننے کو تیار تھا۔‏ سچ ہے کہ اُسے اپنے بیٹے کو قربان کرنے سے روک دیا گیا تھا۔‏ (‏پیدایش ۲۲:‏۱-‏۱۴‏)‏ تاہم،‏ اس سلسلے میں ابرہام نے جو کردار ادا کِیا اُس سے ہمیں یہ سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ یہوواہ خدا کو اپنے اکلوتے بیٹے کو قربان کرنا کتنا مشکل لگا ہوگا،‏ ’‏جس پر ایمان لاکر کوئی بھی ہلاک ہونے کی بجائے ہمیشہ کی زندگی پا سکتا تھا۔‏‘‏—‏یوحنا ۳:‏۱۶؛‏ متی ۲۰:‏۲۸‏۔‏

خدا پر ایمان نے ابرہام پر واضح کر دیا کہ یہوواہ کے وعدوں کا وارث مُلکِ‌کنعان کی جھوٹی پرستش کرنے والی لڑکی سے شادی نہیں کر سکتا تھا۔‏ خداترس والدین کیسے اپنے بیٹے کی شادی کسی ایسی لڑکی سے کر سکتے تھے جو یہوواہ کی خدمت نہیں کرتی تھی؟‏ اسلئے ابرہام نے اضحاق کیلئے موزوں بیوی تلاش کرنے کیلئے وہاں سے ۸۰۰ کلومیٹر دُور مسوپتامیہ میں اپنے رشتہ‌داروں کا انتخاب کِیا۔‏ خدا نے اس کوشش کو برکت دی اور یہ ظاہر کِیا کہ ربقہ ہی وہ لڑکی ہے جسے اضحاق کی دُلہن اور مسیحا کی اُم‌اُلاسلاف ہونے کیلئے منتخب کِیا گیا ہے۔‏ جی‌ہاں،‏ یہوواہ نے ”‏سب باتوں میں اؔبرہام کو برکت بخشی۔‏“‏—‏پیدایش ۲۴:‏۱-‏۶۷؛‏ متی ۱:‏۱،‏ ۲‏۔‏

سب قوموں کیلئے برکت

ابرہام اور سارہ آزمائشوں کی برداشت کرنے اور خدا کے وعدوں پر بھروسا رکھنے میں مثالی تھے۔‏ ایسے وعدوں کی تکمیل انسانوں کیلئے خدا کے دائمی وعدوں کی تکمیل سے وابستہ ہے کیونکہ یہوواہ نے ابرہام سے وعدہ کِیا:‏ ”‏تیری نسل کے وسیلہ سے زمین کی سب قومیں برکت پائینگی کیونکہ تُو نے میری بات مانی۔‏“‏—‏پیدایش ۲۲:‏۱۸‏۔‏

بیشک،‏ ابرہام اور سارہ ہماری طرح ناکامل تھے۔‏ تاہم،‏ جب اُنہیں خدا کی مرضی معلوم ہوئی تو اُنہوں نے نتائج کی پرواہ کئے بغیر اُسکی تابعداری کی۔‏ اسلئے ابرہام کو ”‏خدا کا دوست“‏ اور سارہ کو ”‏خدا پر اُمید رکھنے والی مُقدس“‏ عورت کہا گیا ہے۔‏ (‏یعقوب ۲:‏۲۳؛‏ ۱-‏پطرس ۳:‏۵‏)‏ ابرہام اور سارہ کے ایمان کی نقل کرنے سے ہم بھی خدا کی قربت حاصل کر سکتے ہیں۔‏ ہم بھی اُن قیمتی وعدوں سے مستفید ہو سکتے ہیں جو یہوواہ نے ابرہام سے کئے تھے۔‏—‏پیدایش ۱۷:‏۷‏۔‏

‏[‏صفحہ ۲۶ پر تصویر]‏

ابرہام اور سارہ کے ایمان کی وجہ سے خدا نے اُنہیں بڑھاپے میں بیٹا بخشا

‏[‏صفحہ ۲۸ پر تصویر]‏

ابرہام کی مثال سے ہمیں یہ سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ خدا کیلئے اپنے اکلوتے بیٹے کو قربان کرنا کیا مطلب رکھتا تھا