مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

تنگ‌وتاریک کوٹھڑیوں سے سوئس الپس تک

تنگ‌وتاریک کوٹھڑیوں سے سوئس الپس تک

میری کہانی میری زبانی

تنگ‌وتاریک کوٹھڑیوں سے سوئس الپس تک

از لوتھار والتھر

مَیں آزادی حاصل کرنے پر کتنا خوش تھا!‏ مَیں نے تین سال کیمونسٹ قیدخانہ میں سزا کاٹی تھی اور اب مجھ سے اپنے خاندان سے ملنے کیلئے مزید انتظار نہیں ہو رہا تھا۔‏

اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں تھی کہ میرے چھ سالہ بیٹے یوہنس نے مجھے پہچانا ہی نہیں۔‏ اسلئےکہ مَیں بہت عرصہ تک اُس سے دُور رہا تھا۔‏ اُس کیلئے مَیں بالکل اجنبی تھا۔‏

میرا بیٹا تو تین سال میرے پیار سے محروم رہا مگر مَیں اپنے والدین کے لاڈ پیار میں پلا بڑھا تھا۔‏ مَیں ۱۹۲۸ میں جرمنی کے شہر کیم‌نٹس میں پیدا ہوا۔‏ ہمارے گھر میں ہمیشہ رونق رہتی تھی۔‏ میرے والد مذہبی باتوں میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔‏ وہ ہمیں بتایا کرتے تھے کہ پہلی عالمی جنگ میں کرسمس کے دِن مختلف ملکوں کے ”‏مسیحی“‏ فوجی ۲۵ دسمبر کو ایک دوسرے کو ”‏کرسمس‌مبارک“‏ کہا کرتے تھے۔‏ لیکن اگلے ہی روز یہی فوجی ایک دوسرے کو توپوں کے ذریعے اُڑا دیتے تھے۔‏ اسلئے میرے والد کی نظر میں مسیحی مذہب سراسر ریاکاری تھا۔‏

مایوسی کی بجائے اُمید

مَیں کتنا خوش ہوں کہ مسیحی مذہب کے بارے میں میرا اپنا تجربہ کچھ اَور ہی رہا ہے۔‏ دوسری عالمی جنگ ختم ہونے کے وقت میری عمر ۱۷ سال تھی جسکی وجہ سے مَیں فوج میں بھرتی ہونے سے بچ گیا۔‏ لیکن میرے دِل میں طرح طرح کے سوال اُٹھ رہے تھے مثلاً ’‏جنگیں کیوں ہوتی ہیں اور لوگ کیوں مرتے ہیں؟‏ اس دُنیا میں کس پر بھروسا کِیا جا سکتا ہے؟‏ کیا مَیں کبھی امن اور سلامتی میں رہ سکونگا؟‏‘‏ ہم مشرقی جرمنی میں رہ رہے تھے۔‏ یہ سوویت حکومت کے قبضے میں آ چکا تھا۔‏ کمیونسٹ پارٹی کے فلسفہ کے مطابق ہر شخص کیلئے انصاف،‏ برابری،‏ اتحاد اور ہر جگہ امن اور سلامتی ہونی چاہئے۔‏ مشرقی جرمنی کے باشندوں کو یہ باتیں بہت پسند آئیں کیونکہ وہ جنگ سے بیزار تھے۔‏ لیکن جلد ہی اُنکی اُمیدوں کو دوبارہ خاک میں مِل جانا تھا۔‏ فرق صرف یہ تھا کہ اس دفعہ اُنہیں مذہب سے نہیں بلکہ سیاست سے مایوس ہونا تھا۔‏

اُنہی دنوں میں میری خالہ نے مجھے اپنے مذہب کے بارے میں بتانا شروع کر دیا۔‏ وہ یہوواہ کی ایک گواہ تھی۔‏ میری خالہ نے مجھے بائبل کے بارے میں ایک کتاب دی جو مجھے بہت پسند آئی۔‏ اِس کتاب میں تمام باتیں بڑی اچھی طرح سے سمجھائی گئی تھیں۔‏ اسکو پڑھ کر مَیں نے زندگی میں پہلی بار متی کی انجیل کا ۲۴ باب پڑھا۔‏ مجھے پتہ چلا کہ ہمارے زمانے میں ہونے والے بُرے واقعات ”‏دُنیا کے آخر ہونے“‏ کا نشان ہیں اور یہ بھی کہ اس دُنیا میں ہمیں اتنی مشکلات کا سامنا کیوں کرنا پڑتا ہے۔‏—‏متی ۲۴:‏۳؛‏ مکاشفہ ۱۲:‏۹‏۔‏

مَیں نے یہوواہ کے گواہوں کی اَور کتابیں بھی منگوائیں اور اُنہیں بڑے شوق سے پڑھا۔‏ آخرکار مجھے وہ سچائی مل گئی جسکی مجھے تلاش تھی۔‏ مَیں یہ جان کر کتنا خوش ہوا کہ ۱۹۱۴ میں یسوع مسیح کو آسمان میں بادشاہ بنا دیا گیا تھا اور یہ کہ وہ جلد ہی اس زمین سے بُرائی ختم کرنے والا ہے جسکے نتیجے میں انسان ہمیشہ کیلئے سُکھ کا سانس لیگا۔‏ ایک اَور اہم بات جو مجھے اچھی طرح سے سمجھ آ گئی تھی کہ یسوع مسیح کی قربانی کی وجہ سے ہمیں گُناہ اور موت سے چھٹکارا ملیگا۔‏ یہ جان کر مَیں یہوواہ خدا سے اپنے گُناہوں کی معافی کیلئے دِل سے دُعا مانگنے لگا۔‏ مجھے یعقوب ۴:‏۸ کے یہ الفاظ بہت اچھے لگے:‏ ”‏خدا کے نزدیک جاؤ تو وہ تمہارے نزدیک آئیگا۔‏“‏

مَیں تو ان باتوں کو سیکھ کر بہت ہی خوش تھا۔‏ لیکن میرے ماں‌باپ اور بڑی بہن نے شروع میں میری باتوں کو نہ مانا۔‏ اس بات سے میرا جوش ٹھنڈا نہیں ہوا۔‏ مَیں نے شہر کیم‌نٹس میں یہوواہ کے گواہوں کے اجلاسوں پر حاضر ہونے کا اِرادہ کر لیا۔‏ جب میرے ماں‌باپ اور میری بہن میرے ساتھ اجلاس پر جانے کیلئے تیار ہو گئے تو میری حیرانی کی انتہا نہ رہی!‏ یہ ۱۹۴۵ کے موسمِ‌سرما کی بات ہے۔‏ پھر جب شہر ہرٹاؤ میں جہاں ہم رہتے تھے بائبل مطالعہ کا ایک گروپ قائم کِیا گیا تو ہمارا پورا خاندان وہاں پر اجلاسوں پر حاضر ہونے لگا۔‏

‏”‏مَیں تو بچہ ہوں“‏

بائبل کا مطالعہ اور اجلاسوں پر حاضر ہونے کی وجہ سے میرے دِل میں یہوواہ کی خدمت کرنے کی خواہش بڑھتی گئی۔‏ لہٰذا مَیں نے ۲۵ مئی ۱۹۴۶ کو بپتسمہ لے لیا۔‏ مَیں بہت ہی خوش ہوں کہ وقت گزرنے کیساتھ ساتھ میرا پورا خاندان بھی یہوواہ کی خدمت میں میرے ساتھ شریک ہو گیا۔‏ میری بہن آج تک شہر کیم‌نٹس کی ایک کلیسیا میں خدمت کر رہی ہے۔‏ میری والدہ نے ۱۹۶۵ میں اور میرے والد نے ۱۹۸۶ میں وفات پائی۔‏ دونوں نے آخر تک وفاداری سے یہوواہ کی خدمت کی۔‏

مَیں نے بپتسمہ لینے کے ۶ مہینے بعد سپیشل پائنیر کے طور پر خدمت کرنا شروع کر دی۔‏ تب سے مَیں نے ”‏وقت اور بےوقت“‏ یعنی اچھے اور بُرے زمانے میں یہوواہ کی خدمت جاری رکھی ہے۔‏ (‏۲-‏تیمتھیس ۴:‏۲‏)‏ تھوڑی ہی دیر بعد مجھے خدمت کرنے کے اَور مواقع ملے۔‏ مشرقی جرمنی کے ایک دُور دَراز علاقے میں کُل‌وقتی خادموں کی بہت ضرورت تھی۔‏ ایک دوسرے بھائی کیساتھ مَیں بھی وہاں جا کر خدمت تو کرنا چاہتا تھا لیکن مَیں اپنے آپکو اس خدمت کے لائق نہیں سمجھتا تھا۔‏ میری عمر اس وقت محض ۱۸ سال تھی اور مَیں اتنی بڑی ذمہ‌داری قبول کرنے سے ہچکچاتا تھا۔‏ مَیں یرمیاہ نبی کی طرح محسوس کر رہا تھا جس نے کہا:‏ ”‏ہائے [‏یہوواہ]‏ خدا!‏ دیکھ مَیں بول نہیں سکتا کیونکہ مَیں تو بچہ ہوں۔‏“‏ (‏یرمیاہ ۱:‏۶‏)‏ لیکن تجربہ‌کار بھائیوں نے ہم پر بھروسا ظاہر کرکے ہمیں وہاں بھیج دیا۔‏ اسطرح ہم برینڈین‌برگ کی ریاست میں بیلزگ نامی ایک چھوٹے سے شہر میں مُنادی کرنے کیلئے پہنچ گئے۔‏

اس علاقے میں لوگوں کو مُنادی کرنا آسان نہیں تھا لیکن یہ میرے لئے تجربہ حاصل کرنے کا عمدہ موقع ثابت ہوا۔‏ کچھ وقت گزرنے کے بعد کئی کاروباری عورتوں نے بادشاہتی پیغام کو قبول کر لیا اور یہوواہ کی گواہ بن گئیں۔‏ بیلزگ کے لوگ اپنے رسم‌ورواج کے پکے تھے۔‏ اُنہیں یہ بات بالکل گوارا نہ تھی کہ ان عورتوں نے اپنا مذہب بدل لیا ہے۔‏ وہاں کے کیتھولک اور پروٹسٹنٹ پادریوں نے ہمارا جینا مشکل کر دیا۔‏ وہ ہماری مُنادی کی وجہ سے ہم پر جھوٹے الزام لگانے لگے۔‏ لیکن ہم نے یہوواہ پر تکیہ کِیا۔‏ ہم جانتے تھے کہ وہی ہماری راہنمائی کریگا اور ہمیں محفوظ رکھیگا۔‏ نتیجتاً کئی لوگوں نے سچائی قبول کی۔‏

اذیت کی کالی گھٹائیں

سن ۱۹۴۸ میں میری زندگی میں طرح طرح کی خوشیوں کے ساتھ ساتھ مصیبتیں بھی آئیں۔‏ پہلے مجھے شہر روڈل‌سٹاٹ بھیجا گیا جہاں مَیں نے پائنیر خدمت انجام دی۔‏ وہاں کئی محنتی بہن‌بھائی تھے جنکے ساتھ مَیں نے دوستی کر لی۔‏ اسی سال جولائی میں مجھے ایک اور برکت ملی کیونکہ یہوواہ کی ایک وفادار اور محنتی خادمہ ایریکا اُلمن کے ساتھ میری شادی ہو گئی۔‏ مَیں اُسے تب سے جانتا تھا جب سے مَیں نے اجلاسوں پر حاضر ہونا شروع کِیا تھا۔‏ ہم دونوں اپنے میرے آبائی شہر ہرٹاؤ جا کر پائنیر کے طور پر خدمت کرنے لگے۔‏ کچھ عرصے بعد ایریکا صحت کے مسائل اور دیگر وجوہات کی بِنا پر اس خدمت کو جاری نہ رکھ سکی۔‏

یہ یہوواہ کے گواہوں کیلئے مشکل ایّام تھے۔‏ حکومت نے مجھے منادی چھوڑنے اور کُل‌وقتی ملازمت کرنے پر مجبور کرنے کی کوشش کی۔‏ اُنہوں نے میرا راشن کارڈ بھی رکھ لیا۔‏ بھائیوں نے میرے مقدمے کو عدالت میں دائر کرکے یہوواہ کے گواہوں کے کام کی قانونی منظوری حاصل کرنے کی کوشش کی۔‏ البتہ وہ ایسا کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔‏ عدالت نے ۲۳ جون ۱۹۵۰ کو فیصلہ سنایا کہ مجھے یا تو جُرمانہ بھرنا پڑیگا یا پھر ۳۰ دن تک قید میں رہنا ہوگا۔‏ ہم نے اس فیصلے پر اپیل کی لیکن عدالت نے ہماری اپیل کو مسترد کرتے ہوئے مجھے جیل بھیج دیا۔‏

یہ سب کچھ مخالفت کے اُس بڑے طوفان کا پیش‌خیمہ تھا جو کہ جلد آنے والا تھا۔‏ کمیونسٹ حکومت نے یہوواہ کے گواہوں کے خلاف جھوٹی خبریں پھیلانا شروع کر دیں۔‏ بہت سے لوگ یہوواہ کے گواہ بن رہے تھے۔‏ اس کے علاوہ ہم سیاسی بحث‌وتکرار میں کسی کی طرفداری نہیں کرتے تھے۔‏ اسلئے حکومت نے ہماری بدنامی کرنے کے لئے یہ کہا کہ ہم خطرناک جاسوس ہیں جو مذہب کی آڑ میں مغربی حکومتوں کے لئے کام کرتے ہیں۔‏ میری قید کو ابھی مہینہ نہیں ہوا تھا کہ ستمبر ۱۹۵۰ میں ہمارے کام پر پابندی لگا دی گئی۔‏ جس دن پابندی عائد ہوئی اُسی دن میرا بیٹا یوہنس پیدا ہوا جبکہ مَیں قیدخانہ میں تھا۔‏ حکومت کے الزامات کے لئے ثبوت حاصل کرنے کی خاطر پولیس کے ایک خاص عملے نے ہمارے گھر پر چھاپا مارا۔‏ میرے بیٹے کی نرس نے اُنہیں روکنے کی بہت کوشش کی لیکن وہ نہ رُکے۔‏ البتہ اُنہیں کوئی ثبوت نہ ملا۔‏ اس کے کچھ عرصے بعد ایک شخص ہمارے اجلاسوں پر حاضر ہونے لگا۔‏ ہم نہیں جانتے تھے کہ وہ دراصل پولیس کا افسر تھا۔‏ اُس نے اکتوبر ۱۹۵۳ میں تمام ذمہ‌دار بھائیوں کو گرفتار کروا دیا۔‏ ان میں مَیں بھی شامل تھا۔‏

تنگ‌وتاریک کوٹھریوں میں!‏

ہمیں تین تا چھ سال قید کی سزا سنائی گئی۔‏ اسکے بعد ہمیں شہر سوِک‌آؤ کے قلعہ میں بند کر دیا گیا جہاں ہمارے اَور بھائی بھی تھے۔‏ اس گندے غلیظ قلعے میں بند ہونے کے باوجود ہم نے بائبل پر مبنی مطبوعات کی کوئی کمی محسوس نہیں کی۔‏ حالانکہ حکومت نے مینارِنگہبانی اور جاگو!‏ رسالوں پر پابندی لگائی ہوئی تھی پھر بھی یہ رسالے قلعے میں ہم تک پہنچتے تھے!‏ یہ کیسے ممکن تھا؟‏

کچھ بھائیوں کو کوئلے کی کانوں میں کام کرنے کیلئے قلعے سے باہر بھیجا جاتا تھا۔‏ وہاں وہ بہن‌بھائیوں سے مل سکتے تھے جو اُنہیں رسالے دے دیا کرتے تھے۔‏ قلعے میں واپس آتے وقت یہ بھائی بڑی ہوشیاری سے رسالے اپنے ساتھ لے آتے اور تمام بھائیوں میں تقسیم کر دیتے تھے۔‏ اسطرح یہوواہ نے ہماری مدد کی اور ہمیں سنبھالے رکھا!‏

شہر تھورگاؤ کے قیدخانہ کا نام سنتے ہی لوگوں کے دِل دہل جاتے تھے۔‏ سن ۱۹۵۴ کے آخر میں ہمیں وہاں بھیج دیا گیا۔‏ وہاں پہلے سے ہی کچھ بھائی قید تھے۔‏ ہم سے ملکر وہ بہت خوش ہوئے۔‏ وہ اپنی وفاداری پر کیسے قائم رہے؟‏ یہ بھائی ایسے مضامین کے بارے میں بات‌چیت کِیا کرتے تھے جو انہوں نے قید ہونے سے پہلے مینارِنگہبانی کے رسالوں میں پڑھے تھے۔‏ لیکن وہ تازہ روحانی معلومات کیلئے کتنے بےچین تھے!‏ ہم اُنکو وہ باتیں بتانا چاہتے تھے جو ہم نے سوِک‌آؤ کے قلعے میں رہتے ہوئے مینارِنگہبانی کے رسالوں میں پڑھی تھیں۔‏ ہمیں روزانہ ورزش کرنے کیلئے جمع کِیا جاتا لیکن چلتے پھرتے وقت ہمیں ایک دوسرے سے بات‌چیت کرنا منع تھا۔‏ لیکن ہم پہلے سے ہی ایسے طریقے سیکھ چکے تھے جنکے ذریعے ہم اس صورتحال میں ایک دوسرے سے رابطہ رکھ سکتے تھے۔‏ ایسا کرتے وقت یہوواہ نے ہماری حفاظت کی۔‏ اس تجربے سے ہم آزادی کے دوران بائبل کا مطالعہ کرنے اور غوروخوض کرنے کی اہمیت کو جان گئے۔‏

اہم فیصلوں کا وقت

یہوواہ کی مدد سے ہم اُسکے وفادار رہے۔‏ سن ۱۹۵۶ کے آخر میں حکومت نے ہم میں سے کئی بھائیوں کو رِہا کر دیا۔‏ قیدخانہ کے پھاٹک اچانک کھل جانے پر ہم بہت خوش ہوئے!‏ ایریکا کو دیکھ کر میرا دِل شاد ہو گیا۔‏ میرا بیٹا یوہنس چھ سال کا ہو چکا تھا۔‏ اب مَیں بھی اسکی پرورش میں شامل ہو سکتا تھا۔‏ شروع میں مَیں اپنے بیٹے کیلئے ایک اجنبی تھا۔‏ لیکن جلد ہی ہم دونوں ایک دوسرے کے نزدیک ہو گئے۔‏

مشرقی جرمنی میں یہوواہ کے گواہ بہت سی مصیبتوں کا سامنا کر رہے تھے۔‏ منادی کے کام میں ہماری مخالفت کی جا رہی تھی۔‏ سیاست میں حصہ نہ لینے کی وجہ سے ہمیں دھمکیاں دی جا رہی تھیں۔‏ روزانہ خطروں اور پریشانیوں کا سامنا کرتے کرتے ہم تھک گئے تھے۔‏ ہم نے اسکے بارے میں یہوواہ سے دُعا کی۔‏ ایریکا اور مَیں آزادی سے یہوواہ کی خدمت میں ترقی کرنا چاہتے تھے۔‏ آخرکار ہم نے فیصلہ کر لیا کہ پریشانیوں میں دب جانے کی بجائے ہمیں مشرقی جرمنی سے کہیں اَور منتقل ہو جانا چاہئے۔‏

سن ۱۹۵۷ میں ہم مغربی جرمنی کے شہر سٹوٹگارڈ میں منتقل ہو گئے۔‏ وہاں منادی کے کام پر پابندی نہیں تھی لہٰذا ہم اپنے بہن‌بھائیوں سے آزادی کیساتھ میل‌جول رکھ سکتے تھے۔‏ اُنہوں نے ہماری بہت مدد کی۔‏ ہم نے سات سال اُس کلیسیا میں خدمت کی۔‏ ہم نے اپنے بیٹے کو وہاں سکول میں داخل کروا دیا۔‏ وہ بھی یہوواہ کی راہ میں ترقی کرنے لگا۔‏ ستمبر ۱۹۶۲ میں مجھے بادشاہتی خدمتی سکول میں حاضر ہونے کی دعوت ملی۔‏ سکول میں بھائیوں نے کہا کہ جرمنی اور سوئٹزرلینڈ کے کئی علاقوں میں جرمنی بولنے والے بائبل استادوں کی خاص ضرورت ہے۔‏ اُنہوں نے میری وہاں منتقل ہونے کیلئے حوصلہ‌افزائی کی۔‏

سوئس الپس میں

لہٰذا ۱۹۶۳ میں ہم سوئٹزرلینڈ کے شہر برونن چلے گئے۔‏ یہ شہر اُونچے پہاڑوں کی گود میں ایک خوبصورت جھیل کے کنارے واقع ہے۔‏ برونن میں ایک چھوٹی سی کلیسیا تھی۔‏ وہاں کے لوگ ایک خاص طریقے سے جرمن زبان بولتے ہیں اور انکے رہن‌سہن کا طریقہ بھی فرق ہے۔‏ لیکن ان امن‌پسند لوگوں کیساتھ مِل کر رہنا اور وہاں منادی کرنا ہمیں بہت ہی اچھا لگا۔‏ ہم ۱۴ سال تک اس شہر میں رہے۔‏ ہمارے بیٹے نے اپنی جوانی وہیں گزاری۔‏

سن ۱۹۷۷ میں،‏ جب مَیں تقریباً ۵۰ سال کا تھا ہمیں سوئٹزرلینڈ کے بیت‌ایل میں خدمت کرنے کی دعوت ملی۔‏ ہم نے اس بڑے شرف کو خوشی سے قبول کر لیا۔‏ ہم نے نو سال بیت‌ایل میں خدمت کی۔‏ وہاں ہم نے بہت سے اہم سبق سیکھے جنکی وجہ سے ہم یہوواہ کے اَور بھی نزدیک ہو گئے ہیں۔‏ اس علاقے میں رہنے والے بہن‌بھائیوں کیساتھ مُنادی کے کام میں حصہ لے کر ہمیں بڑا مزہ آتا تھا۔‏ منادی کے دوران ہمیں چاروں طرف برف‌پوش پہاڑوں کی چوٹیاں نظر آتیں جو یہوواہ کے ’‏عجیب کام‘‏ کا ایک حصہ ہیں۔‏—‏زبور ۹:‏۱‏۔‏

ایک اَور نقل‌مکانی

سن ۱۹۸۶ کے اوائل میں ہمیں ایک اَور نقل‌مکانی کرنی پڑی۔‏ ہمیں مشرقی سوئٹزرلینڈ کی بوکس کلیسیا میں خاص پائنیروں کے طور پر بھیج دیا گیا۔‏ ایک بار پھر ہمیں ایک نئے ماحول کا عادی ہونا پڑا۔‏ ہماری خواہش تھی کہ جہاں بھی ہمیں بھیجا جائے ہم پورے دِل سے یہوواہ کی خدمت کریں اور یہوواہ نے ہمیں اپنی برکت سے نوازا۔‏ کبھی کبھی مَیں متبادل سفری نگہبان کے طور پر کلیسیاؤں کا دورہ کرتا ہوں۔‏ ہمیں یہاں رہتے ہوئے ۱۸ سال ہو چکے ہیں اور ہمیں منادی کے کام میں بڑے اچھے تجربے ہوئے ہیں۔‏ جب کلیسیا بہت بڑی ہو گئی تو ہمیں ایک نئے کنگڈم ہال کی ضرورت پڑی۔‏ لہٰذا پانچ سال سے ہم ایک خوبصورت نئے کنگڈم ہال میں جمع ہوتے ہیں۔‏

ہم نے اپنی زندگی کے زیادہ‌تر سال کُل‌وقتی خدمت میں گزارے ہیں۔‏ اس پورے وقت کے دوران ہم نے کسی چیز کی کمی محسوس نہیں کی۔‏ ہم بہت خوش ہیں کہ ہمارا بیٹا،‏ اُسکی بیوی،‏ ہمارے پوتےپوتیاں اور اُنکی اولاد یہوواہ کی راہ پر چل رہے ہیں۔‏

ہم نے ”‏وقت اور بےوقت“‏ یعنی اچھے اور بُرے زمانے میں بھی یہوواہ کی خدمت انجام دی ہے۔‏ کمیونسٹ کی تنگ‌وتاریک کوٹھریوں سے لے کر سوئس الپس تک مَیں نے اپنی مسیحی خدمت میں بہت سی منزلیں طے کی ہیں۔‏ ہر صورتحال میں مجھے یہوواہ کی خدمت میں خوشی حاصل ہوئی۔‏

‏[‏صفحہ ۲۸ پر بکس]‏

‏”‏دو حکومتوں کا شکار“‏ اذیت کے تحت وفادار

مشرقی جرمنی یعنی جرمن ڈیموکریٹک ریپبلک میں حکومت نے یہوواہ کے گواہوں کو وحشیانہ اذیت کا نشانہ بنایا۔‏ کیوں؟‏ کیونکہ وہ منادی کے کام میں سرگرم تھے اور سیاست میں حصہ نہیں لیتے تھے۔‏ اسلئے ۰۰۰،‏۵ سے زیادہ گواہوں کو لیبر کیمپوں اور جیلوں میں قید کر دیا گیا۔‏—‏یسعیاہ ۲:‏۴‏۔‏

ان میں سے کئی گواہ ”‏دو حکومتوں کا شکار“‏ ہوئے۔‏ سن ۱۹۵۰ کے بعد مشرقی جرمنی کی پولیس کا ایک خاص عملہ (‏سٹاسی‏)‏ گواہوں کا پیچھا کرکے اُنہیں قید کرنے لگا۔‏ ان گواہوں میں سے کم‌ازکم ۳۲۵ ہٹلر کے زمانے میں نازی جیلوں اور قیدی کیمپوں میں بند رہ چکے تھے۔‏ جن جیلوں میں یہوواہ کے گواہوں کو نازی افسروں نے قید کِیا تھا بعدازاں اُنہی جیلوں میں مشرقی جرمنی کی حکومت نے بھی ایسا ہی کِیا۔‏

سن ۱۹۵۰ سے لے کر ۱۹۶۱ تک ان جیلوں میں ۶۰ سے زیادہ گواہ دم توڑ گئے۔‏ اُنہیں ماراپیٹا گیا،‏ وہ خوراک کی کمی،‏ بیماریوں اور بڑھاپے کی کمزوریوں کی وجہ سے مر گئے۔‏ بارہ گواہوں کو عمر قید سنائی گئی لیکن بعد میں یہ سزا ۱۵ سال کی قید میں تبدیل ہو گئی۔‏

آجکل شہر برلن میں سٹاسی پولیس کے سابقہ ہیڈکوارٹر میں ایک نمائش لگی ہوئی ہے۔‏ نمائش میں اس اذیت کے بارے میں بتایا جاتا ہے جو مشرقی جرمنی کے یہوواہ کے گواہوں نے ۴۰ سال تک سہی تھی۔‏ تصویروں اور گواہوں کے ذاتی بیانات کے ذریعے اُنکی دلیری واضح ہوتی ہے۔‏ واقعی،‏ اُنہوں نے اذیت کی آگ میں خدا پر اپنا ایمان مضبوط رکھا!‏

‏[‏صفحہ ۵۴،‏ ۲۴ پر نقشہ]‏

‏(‏تصویر کے لئے چھپے ہوئے صفحے کو دیکھیں)‏

مشرقی جرمنی

روڈل‌سٹاٹ

بیلزگ

تھورگاؤ

کیم‌نٹس

سوِک‌آؤ

‏[‏صفحہ ۲۵ پر تصویر]‏

سوِک‌آؤ کا قلعہ

‏[‏تصویر کا حوالہ]‏

Fotosammlung des Stadtarchiv

Zwickau, Deutschland

‏[‏صفحہ ۲۶ پر تصویر]‏

اپنی بیوی ایریکا کیساتھ