مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

انابپٹسٹ کون تھے؟‏

انابپٹسٹ کون تھے؟‏

انابپٹسٹ کون تھے؟‏

اگر آپ کو جرمنی،‏ ویسٹ‌فیلیا کے شہر منسٹر جانے کا اتفاق ہو تو آپ چرچ کے مینار سے تین پنجرے لٹکے ہوئے دیکھ سکتے ہیں۔‏ یہ پنجرے تقریباً ۵۰۰ سال سے اُسی مینار سے لٹک رہے ہیں۔‏ ایک زمانے میں ان پنجروں میں تین آدمیوں کی لاشیں رکھی گئی تھیں جنہیں ظالمانہ طریقے سے اذیت پہنچائی گئی اور پھر سرِعام قتل کِیا گیا تھا۔‏ تینوں آدمی انابپٹسٹ کے فرقے سے تعلق رکھتے تھے اور پنجرے اُنکے فرقے کی یادگار ہیں۔‏

انابپٹسٹ کون تھے؟‏ اس فرقے کا آغاز کیسے ہوا؟‏ اس کی تعلیمات کیا تھیں؟‏ ان تین آدمیوں کو کیوں قتل کِیا گیا؟‏ نیز پنجروں کا اُنکے فرقے سے کیا تعلق ہے؟‏

اصلاحِ‌کلیسیا—‏مگر کیسے؟‏

پندرھویں صدی میں تمام یورپ کیتھولک چرچ کے زیرِاثر تھا۔‏ مگر چرچ کی تعلیمات بائبل کے مطابق نہیں تھیں۔‏ اسکے علاوہ رشوت‌خوری اور بدچلنی چرچ کے پادریوں کی عادت بن چکی تھی۔‏ اسلئے سارے یورپ میں چرچ کے خلاف آواز اُٹھنے لگی۔‏ لوگ چاہتے تھے کہ چرچ بائبل کی تعلیمات کو عمل میں لائے۔‏ آخرکار ۱۵۱۷ میں،‏ مارٹن لوتھر نامی ایک پادری نے اصلاحِ‌کلیسیا کے حق میں آواز بلند کی اور دوسروں نے بھی اِس بات کی حمایت کی۔‏ جلد ہی یہ آواز سارے یورپ میں پھیل گئی۔‏

لوتھر اور اُسکے ساتھی بائبل کی تعلیمات پر عمل کرنا چاہتے تھے تاہم تبدیلیاں لانے کے سلسلے میں اُنکی کوئی واضح حکمتِ‌عملی نہیں تھی کہ وہ کیسے اور کس حد تک ایسا کریں گے۔‏ وہ تو بائبل کی بنیادی تعلیمات پر بھی متفق نہیں تھے۔‏ بعض نے محسوس کِیا کہ اصلاح کا عمل بہت سُست ہے۔‏ اس افراتفری کی وجہ سے کئی لوگ ابتری کا شکار ہو گئے۔‏ چنانچہ انہی لوگوں میں سے انابپٹسٹ فرقے نے جنم لیا۔‏

ایک مصنف اپنی کتاب میں بیان کرتا ہے کہ ”‏تھوڑے ہی عرصے میں یورپ کے ہر کونے میں انابپٹسٹوں کی مختلف جماعتیں پائی جانے لگیں۔‏“‏ مثال کے طور پر،‏ ۱۵۲۱ میں زیوکاؤ نبیوں کے طور پر چار آدمی وٹنبرگ میں انابپٹسٹ تعلیمات کا پرچار کرنے لگے۔‏ لیکن یہ جماعتیں ایک دوسرے سے متفق نہیں تھیں۔‏ پس ۱۵۲۵ میں،‏ سوئٹزرلینڈ،‏ جرمنی،‏ نیدرلینڈز،‏ موراویہ اور دیگر جگہوں پر انابپٹسٹ فرقوں نے اپنا کام شروع کر دیا۔‏

بپتسمہ—‏ چھوٹے بچوں یا بالغوں کو دیا جانا چاہئے؟‏

عام طور پر اس فرقے سے تعلق رکھنے والے لوگ بہت ہی امن‌پسند تھے۔‏ وہ اپنی تعلیمات کو پوشیدہ رکھنے کی بجائے اُسکی منادی کرتے تھے۔‏ وہ یہ بھی مانتے تھے کہ جنگوں اور سیاسی معاملوں میں حصہ لینا بائبل کے خلاف ہے۔‏ اگر انکے فرقے میں کوئی بُرا کام کرتا تو وہ اُسے اپنی جماعت سے خارج کر دیتے تھے۔‏ انکا سب سے اہم عقیدہ یہ تھا کہ چھوٹے بچوں کو بپتسمہ دینا بائبل کی تعلیمات کے خلاف ہے۔‏ * اسی عقیدے کی بِنا پر وہ دوسروں سے فرق تھے۔‏

کیتھولک اور لوتھر کے چرچوں میں چھوٹے بچوں کو بپتسمہ دیا جاتا تھا۔‏ ایک بچے کے بپتسمے کے بعد وہ بچہ چرچ کا رُکن بن جاتا تھا۔‏ اسطرح چرچ کے پادری تمام لوگوں پر اپنی حکومت جتا سکتے تھے۔‏ اسلئے یہ نہ صرف ایک مذہبی بلکہ ایک سیاسی معاملہ بھی تھا۔‏ کیونکہ اگر ایک شخص بالغ ہونے سے پہلے بپتسمہ نہیں لے سکتا تھا تو یہ بھی ہو سکتا تھا کہ وہ کبھی نہ بپتسمہ لیتا اور اسطرح وہ چرچ کے اختیار سے چھوٹ جاتا۔‏

مگر کیتھولک اور لوتھر چرچ کے پادری نہیں چاہتے تھے کہ انابپٹسٹ بالغوں کے بپتسمہ کا چرچا کریں۔‏ یہاں تک کہ ۱۵۲۹ میں کیتھولک چرچ نے ایک فرمان جاری کِیا کہ بالغوں کو بپتسمہ دینے والوں اور بپتسمہ لینے والوں کو موت کی سزا دی جائیگی۔‏ ایک اخبارنویس کہتا ہے کہ اس فرمان کی وجہ سے ”‏جرمن قوم کے مقدس رومی سلطنت میں انابپٹسٹوں کو سخت اذیت پہنچائی گئی۔‏“‏ منسٹر میں اذیت اپنے عروج کو پہنچی۔‏

قرونِ‌وسطیٰ کا منسٹر تبدیلی کا متلاشی

قرونِ‌وسطیٰ کے منسٹر کی آبادی تقریباً ۰۰۰،‏۱۰ تھی۔‏ اسکی اُونچی فصیل ۳۰۰ فٹ چوڑی تھی اور اس کے گھیرے کی لمبائی پانچ کلومیٹر تھی۔‏ یہ شہر واقعی محفوظ تھا۔‏ لیکن شہر کے اندر کچھ اَور ہی ماجرا تھا۔‏ ایک کتاب کے مطابق ”‏شہر کے حاکموں اور پیشہ‌ورانہ تنظیموں کے درمیان سیاسی بحث‌وتکرار ہو رہی تھی۔‏“‏ اسکے علاوہ شہر کے باشندے کیتھولک چرچ کے پادریوں کے رویے پر سخت ناراض تھے۔‏ کیتھولک چرچ کے خلاف بلوا شروع ہو گیا۔‏ اسلئے مارٹن لوتھر کی تعلیمات اس شہر میں زور پکڑنے لگیں۔‏ آخرکار ۱۵۳۳ میں یہ شہر مارٹن لوتھر کے شاگردوں کے اختیار میں آ گیا۔‏

مارٹن لوتھر کے شاگردوں میں سے ایک شہر منسٹر کا رہنے والا برنارڈ روتھ‌مین تھا۔‏ اس کے بارے میں ایک تاریخ‌دان کہتا ہے کہ وہ ”‏بڑی گرمجوشی سے انابپٹسٹوں کی تعلیمات کی منادی کرنے اور ننھے بچوں کو بپتسمہ دینے سے انکار کرنے لگا۔‏“‏ اس کی تعلیمات سارے شہر میں مشہور ہونے لگیں اور بہت سے لوگ اس فرقے میں شامل ہو گئے۔‏ ”‏لیکن کئی لوگ روتھ‌مین کی انتہاپسندی سے خوفزدہ ہوکر شہر چھوڑنے لگے۔‏ روتھ‌مین کی کامیابی کے بارے میں سن کر منسٹر شہر میں سب جگہ سے انابپٹسٹوں کی بِھیڑ لگنے لگی۔‏ بہت جلد پورا شہر انابپٹسٹوں سے بھر گیا۔‏“‏ لیکن جلد ہی انابپٹسٹوں کے اس اجتماع پر آفت آن پڑنی تھی۔‏

نئے یروشلیم کا محاصرہ

یورپ کے دوسرے شہروں سے آنے والوں میں سے دو آدمیوں کا نام یان ماتس اور یان آف لائیڈن تھا۔‏ یان ماتس نے ایک نبی ہونے کا دعویٰ کِیا اور اعلان کِیا گیا کہ اپریل ۱۵۳۴ میں مسیحا کی آمدِثانی ہوگی۔‏ اس سے سارے شہر میں کھلبلی مچ گئی۔‏ انابپٹسٹوں نے شہر کو نیا یروشلیم کہنا شروع کر دیا جیسےکہ بائبل میں بیان کِیا گیا ہے۔‏ روتھ‌مین نے فیصلہ کِیا کہ شہریوں کی جائیداد انکی ملکیت نہیں رہے گی بلکہ عوام کے قبضہ میں آئے گی۔‏ شہر کے تمام بالغ باشندوں کو انابپٹسٹ بننے کا آخری موقع دیتے ہوئے کہا گیا کہ بپتسمہ لے لیں یا شہر چھوڑ دیں۔‏ بہت لوگ اپنا گھر اور مال‌واسباب نہیں چھوڑنا چاہتے تھے اسلئے وہ بپتسمہ لے کر انابپٹسٹ بن گئے۔‏

اب سارے یورپ میں صرف منسٹر ہی ایک ایسا شہر تھا جسکی باگڈور کیتھولک چرچ کے ہاتھ سے نکلکر انابپٹسٹوں کے ہاتھ میں چلی گئی تھی۔‏ ایک کتاب کے مطابق ”‏شہر منسٹر پوری جرمن قوم کے قہر کا نشانہ بن گیا۔‏“‏ فرانس ون والڈیک ایک پادری اور نواب آگ‌بگولہ ہو گیا۔‏ اس نے ایک بڑی فوج جمع کرکے منسٹر کا محاصرہ کر لیا۔‏ اس فوج میں کیتھولک چرچ سے تعلق رکھنے والوں کے علاوہ لوتھر کے شاگرد بھی بھرتی تھے۔‏ ان دونوں مذاہب کے لوگ پہلے ایک دوسرے سے سخت نفرت رکھتے تھے جو بعدازاں تیس سال تک ایک دوسرے کے خلاف لڑتے رہے،‏ مگر اب ساتھ ملکر انہوں نے انابپٹسٹوں کا مقابلہ کِیا۔‏

انابپٹسٹ شہر کی تباہی

شہریوں کو فوجی محاصرے کی کوئی پرواہ نہیں تھی۔‏ اپریل ۱۵۳۴ میں،‏ مسیح کی مبیّنہ آمدِثانی کے دن یان ماتس اپنے سفید گھوڑے پر سوار ہوکر دُشمن کی فوج کا سامنا کرنے کیلئے بڑی دلیری سے شہرپناہ کے باہر گیا۔‏ اسکا دعویٰ تھا کہ اس لڑائی میں خدا اسکا ساتھ دیگا۔‏ مگر جب ماتس کے حامیوں نے شہرپناہ کے باہر فوج کو اسکے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کرتے اور اسکے سر کو کاٹ کر سولی پر چڑھاتے دیکھا تو اُنکی بدحواسی کا تصور کریں۔‏

شہر کے اندر اسی شام یان آف لائیڈن نے خود کو بادشاہ ٹھہرا کر اعلان کِیا کہ وہ یان ماتس کا وارث ہے۔‏ بادشاہ یان نے فرمان جاری کِیا کہ ہر مرد ایک سے زیادہ بیوی رکھ سکتا ہے کیونکہ شہر میں عورتوں کی آبادی مردوں کی آبادی سے زیادہ تھی۔‏ لیکن اسکے ساتھ ساتھ حرامکاری اور زِناکاری پر سزائےموت قرار دی گئی۔‏ بادشاہ یان نے خود ۱۶ عورتوں سے شادی کر رکھی تھی۔‏ جب اسکی ایک بیوی نے اس سے شہر چھوڑنے کی اجازت مانگی تو یان نے خود اپنی ہی تلوار سے بازار میں سرِعام اُسکا سر کاٹ ڈالا۔‏

شہر کا محاصرہ تقریباً ۱۴ مہینے تک جاری رہا۔‏ آخرکار جون ۱۵۳۵ کو منسٹر شہر والڈیک کے قبضے میں آ گیا۔‏ فوج نے شہر کے اندر تباہی مچا دی،‏ ایسی تباہی جو منسٹر میں دوسری عالمی جنگ تک دوبارہ نہیں دیکھی گئی۔‏ روتھ‌مین وہاں سے فرار ہو گیا۔‏ مگر فوج نے یان اور اسکے دو ساتھیوں کو پکڑ لیا اور ان تینوں کو اذیت دیکر قتل کر دیا گیا تھا۔‏ انکی لاشوں کو لوہے کے تین بڑے بڑے پنجروں میں رکھ کر ان پنجروں کو سینٹ لمبرٹس چرچ کے مینار سے لٹکایا گیا۔‏ کیوں؟‏ جواب میں ایک تاریخ‌دان بیان کرتا ہے ”‏تاکہ سب لوگ انہیں دیکھ کر یہ سبق سیکھیں کہ سیاسی معاملوں میں دخل‌اندازی کرنے کا کیا انجام ہوتا ہے۔‏“‏

یورپ کے باقی انابپٹسٹ جماعتوں کیساتھ کیا واقع ہوا؟‏ زیادہ‌تر انابپٹسٹ امن‌پسند تھے۔‏ وہ منسٹر شہر کے انابپٹسٹوں کی طرح اپنا بھروسا تلوار پر نہیں رکھتے تھے۔‏ پھر بھی منسٹر شہر پر آنے والی تباہی کے بعد سارے یورپ میں ان پر ظلم ٹوٹ پڑا۔‏ اسکے کچھ عرصے بعد ایک سابقہ پادری مینو سیمونس نے انابپٹسٹس کی قیادت سنبھال لی۔‏ اسکے بعد یہ فرقہ مینونائٹس کے نام سے مشہور ہو گیا۔‏

تین پنجروں کی گواہی

دراصل انابپٹسٹ بائبل اصولوں کی پابندی کرنے والے مذہبی لوگ تھے۔‏ لیکن چند انتہاپسند انابپٹسٹوں کے اِس روش کو چھوڑنے اور سیاست میں حصہ لینے کا سبب بنے۔‏ اِسکے بعد تحریک نے انقلابی قوت حاصل کر لی۔‏ یہی چیز انابپٹسٹس تحریک اور قرونِ‌وسطیٰ کے شہر منسٹر کی تباہی کا سبب بنی۔‏

یہ کوئی ۵۰۰ سال پہلے کا واقعہ ہے۔‏ لیکن آج تک چرچ کے مینار سے لٹکے یہ تین پنجرے ۵۰۰ سال پہلے رونما ہونے والی اس تباہی کی یاد تازہ کرتے ہیں۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 9 اس مضمون میں ہم چھوٹے بچوں کے بپتسمہ کی حمایت یا مخالفت پر بحث نہیں کر رہے ہیں۔‏ اگر آپ اس موضوع پر مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو براہِ‌مہربانی مارچ ۱۵،‏ ۱۹۸۶ کے واچ‌ٹاور میں ”‏کیا بچوں کو بپتسمہ دیا جانا چاہئے؟‏“‏ کے مضمون کو دیکھیں۔‏

‏[‏صفحہ ۱۳ پر تصویر]‏

بادشاہ یان کو اذیت پہنچائی گئی،‏ اُسے قتل کِیا گیا اور پھر سینٹ لمبرٹس کے مینار سے لٹکایا گیا