مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

زندہ خدا کی راہنمائی قبول کریں

زندہ خدا کی راہنمائی قبول کریں

زندہ خدا کی راہنمائی قبول کریں

‏”‏اُس زندہ خدا کی طرف پِھرو جس نے آسمان اور زمین اور سمندر اور جوکچھ اُن میں ہے پیدا کِیا۔‏“‏ —‏اعمال ۱۴:‏۱۵‏۔‏

۱،‏ ۲.‏ یہوواہ کو ”‏زندہ خدا“‏ کیوں کہا گیا ہے؟‏

پولس اور برنباس نے شہر لسترہ میں ایک آدمی کو شفا بخشی۔‏ اس معجزے کو دیکھ کر اِردگِرد کھڑے لوگوں نے سوچا کہ وہ دیوتا ہیں۔‏ اس پر پولس نے اُن سے کہا:‏ ”‏ہم بھی تمہارے ہم‌طبیعت انسان ہیں اور تمہیں خوشخبری سناتے ہیں تاکہ ان باطل چیزوں سے کنارہ کرکے اُس زندہ خدا کی طرف پھرو جس نے آسمان اور زمین اور سمندر اور جوکچھ اُن میں ہے پیدا کِیا۔‏“‏—‏اعمال ۱۴:‏۱۵‏۔‏

۲ یہ بالکل سچ ہے کہ یہوواہ بےجان بُت نہیں بلکہ ”‏زندہ خدا“‏ ہے۔‏ (‏یرمیاہ ۱۰:‏۱۰؛‏ ۱-‏تھسلنیکیوں ۱:‏۹،‏ ۱۰‏)‏ خود زندگی رکھنے کے علاوہ،‏ یہوواہ ہماری زندگی کا سرچشمہ ہے۔‏ وہ ”‏سب کو زندگی اور سانس اور سب کچھ دیتا ہے۔‏“‏ (‏اعمال ۱۷:‏۲۵‏)‏ وہ چاہتا ہے کہ ہم حال اور مستقبل میں بھی ایک خوشحال زندگی گزار سکیں۔‏ پولس نے وضاحت کی کہ ”‏اُس نے اپنے آپ کو بےگواہ نہ چھوڑا۔‏ چنانچہ اُس نے مہربانیاں کیں اور آسمان سے تمہارے لئے پانی برسایا اور بڑی بڑی پیداوار کے موسم عطا کئے اور تمہارے دلوں کو خوراک اور خوشی سے بھر دیا۔‏“‏—‏اعمال ۱۴:‏۱۷‏۔‏

۳.‏ ہم خدا کی راہنمائی پر بھروسا کیوں رکھ سکتے ہیں؟‏

۳ یہوواہ خدا ہماری زندگی کو بہت اہم خیال کرتا ہے۔‏ یہ جان کر ہم اُسکی راہنمائی پر بھروسا رکھ سکتے ہیں۔‏ (‏زبور ۱۴۷:‏۸؛‏ متی ۵:‏۴۵‏)‏ بعض لوگ خدا کی راہنمائی کو نظرانداز کرتے ہیں۔‏ وہ یا تو یہ نہیں سمجھتے کہ خدا نے یہ حکم کیوں دیا ہے یا پھر انہیں اس پر عمل کرنا مشکل لگتا ہے۔‏ اسکے باوجود خدا کی راہنمائی پر چلنا سب سے اچھا راستہ ہے۔‏ اس سلسلے میں ایک مثال پر غور کیجئے۔‏ شریعت میں بنی‌اسرائیل کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ کسی لاش کو نہ چھوئیں۔‏ شاید کوئی اسرائیلی اس حکم کی وجہ کو نہ سمجھتا ہو۔‏ لیکن اس پر عمل کرنے سے اُنہیں خدا کی خوشنودی حاصل ہو سکتی تھی اور یہ انکی صحت کیلئے بھی فائدہ‌مند تھا۔‏—‏احبار ۵:‏۲؛‏ ۱۱:‏۲۴‏۔‏

۴،‏ ۵.‏ (‏ا)‏ مسیحی دَور سے پہلے خدا نے خون کے بارے میں کیا ہدایت دی؟‏ (‏ب)‏ ہم کیسے جانتے ہیں کہ خون کی بابت خدا کی ہدایت مسیحیوں پر بھی عائد ہوتی ہے؟‏

۴ اسی طرح خون کے بارے میں خدا کے احکام بھی ہمارے لئے فائدہ‌مند ہیں۔‏ خدا نے نوح کو حکم دیا کہ کوئی انسان خون نہ کھائے۔‏ پھر موسیٰ کی شریعت میں خون کو صرف مذبح پر گناہوں کی معافی کیلئے چڑھایا جانا تھا۔‏ خون کو پاک قرار دے کر خدا نے یسوع کے خون کی طرف اشارہ کِیا جسے ہمارے گناہوں کی معافی کیلئے بہایا جانا تھا۔‏ (‏عبرانیوں ۹:‏۱۴‏)‏ یہوواہ ہماری زندگی اور خوشحالی میں دلچسپی رکھتا ہے اسلئے اس نے یہ حکم دیا۔‏ اُنیسویں صدی کے عالم ایڈم کلارک نے پیدایش ۹:‏۴ کی تفسیر کرتے ہوئے یوں لکھا:‏ ”‏آج بھی مشرقی آرتھوڈکس چرچ کے رُکن اس حکم کی [‏جو نوح کو دیا گیا تھا]‏ پابندی کرتے ہیں۔‏ .‏ .‏ .‏ موسوی شریعت کے تحت خون کھانا ممنوع تھا کیونکہ اِس نے اس خون کی طرف توجہ دلائی تھی جو مستقبل میں تمام انسانوں کے گناہوں کیلئے بہایا جانا تھا؛‏ انجیل میں بھی خون کھانے سے منع کِیا گیا ہے کیونکہ اِسے اُس خون کی علامت خیال کِیا جانا چاہئے جو ہمارے گناہوں کی معافی کیلئے بہایا جا چکا ہے۔‏“‏

۵ یہ عالم غالباً انجیل کے ان صحائف کی بات کر رہا تھا جن میں واضح کِیا گیا ہے کہ خدا نے یسوع کو ہماری خاطر اپنا خون بہانے کیلئے بھیجا تھا تاکہ ہم ہمیشہ کی زندگی حاصل کر سکیں۔‏ (‏متی ۲۰:‏۲۸؛‏ یوحنا ۳:‏۱۶؛‏ رومیوں ۵:‏۸،‏ ۹‏)‏ یہ عالم اُس صحیفہ کے بارے میں بھی بات کر رہا تھا جس میں مسیحیوں کو بعدازاں خون سے پرہیز کرنے کی ہدایت دی گئی تھی۔‏

۶.‏ مسیحیوں کو خون کے بارے میں کونسی ہدایات دی گئی تھیں اور کیوں؟‏

۶ خدا نے بنی‌اسرائیل کو بہت سے احکام دئے تھے۔‏ لیکن یسوع کی موت کے بعد مسیحی موسوی شریعت کے پابند نہ رہے۔‏ (‏رومیوں ۷:‏۴،‏ ۶؛‏ کلسیوں ۲:‏۱۳،‏ ۱۴،‏ ۱۷؛‏ عبرانیوں ۸:‏۶،‏ ۱۳‏)‏ کچھ عرصے کے بعد ایک بنیادی تقاضے کی بابت سوال اُٹھا کہ آیا غیریہودی مسیحیوں کو یسوع کے خون سے فائدہ اُٹھانے کیلئے ختنہ کروانا چاہئے؟‏ مسیحی گورننگ باڈی نے ۴۹ س.‏ع.‏ میں اس سوال پر بحث کی۔‏ (‏اعمال ۱۵ باب)‏ رُوح‌اُلقدس کی مدد سے رسول اور بزرگ اس نتیجے پر پہنچے کہ مسیحی شریعت کے تحت نہیں رہے اسلئے انہیں ختنہ کروانے کی بھی ضرورت نہیں۔‏ تاہم خدا کے کچھ ایسے احکام بھی تھے جن پر مسیحیوں کو پورا اُترنا تھا۔‏ لہٰذا گورننگ باڈی نے اپنے فیصلے کے بارے میں کلیسیاؤں کو یوں لکھا:‏ ”‏رُوح‌اُلقدس نے اور ہم نے مناسب جانا کہ ان ضروری باتوں کے سوا تُم پر اَور بوجھ نہ ڈالیں۔‏ کہ تُم بُتوں کی قربانیوں کے گوشت سے اور لہو اور گلا گھونٹے ہوئے جانوروں اور حرامکاری سے پرہیز کرو۔‏ اگر تُم ان چیزوں سے اپنے آپ کو بچائے رکھو گے تو سلامت رہو گے۔‏“‏—‏اعمال ۱۵:‏۲۸،‏ ۲۹‏۔‏

۷.‏ ’‏خون سے پرہیز کرنے‘‏ کا حکم مسیحیوں کیلئے کتنا سنجیدہ ہے؟‏

۷ اس صحیفے سے واضح ہوتا ہے کہ گورننگ باڈی نے ’‏خون سے پرہیز نہ کرنے‘‏ کو بُت‌پرستی اور حرامکاری کے برابر سنگین گناہ خیال کِیا تھا۔‏ ایسے مسیحی جو بُت‌پرستی اور حرامکاری کرنے پر توبہ نہیں کرتے وہ ”‏خدا کی بادشاہی کے وارث نہ ہونگے“‏ اور ’‏انکا حصہ دوسری موت ہوگا۔‏‘‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۶:‏۹،‏ ۱۰؛‏ مکاشفہ ۲۱:‏۸؛‏ ۲۲:‏۱۵‏)‏ جو شخص خون کے بارے میں خدا کے نظریے کو نظرانداز کرتا ہے اُسکو بھی ہمیشہ کی موت کی سزا دی جائیگی۔‏ اسکے برعکس وہ شخص جو یسوع کی قربانی کی قدر کرتا ہے ہمیشہ کی زندگی حاصل کریگا۔‏

۸.‏ ابتدائی مسیحیوں نے کس حد تک خون سے پرہیز کرنے کے حکم پر عمل کِیا؟‏

۸ ابتدائی مسیحیوں نے کس حد تک اس حکم پر عمل کِیا تھا؟‏ عالم کلارک کے اس بیان پر دوبارہ غور کریں:‏ ‏”‏انجیل میں بھی خون کھانے سے منع کِیا گیا ہے کیونکہ اِسے اُس خون کی علامت خیال کِیا جانا چاہئے جو ہمارے گناہوں کی معافی کیلئے بہایا جا چکا ہے۔‏“‏ تاریخ ثابت کرتی ہے کہ مسیحیوں نے خون سے پرہیز کرنے کے حکم کو بہت سنجیدہ خیال کِیا تھا۔‏ مسیحی مصنف طرطلیان نے لکھا:‏ ”‏جب رومی تماشاگاہوں (‏ارینا)‏ میں کوئی مجرم مارا جاتا تھا تو بعض لوگ مرگی سے شفا پانے کیلئے اُسکا تازہ خون پیتے تھے۔‏“‏ اُس زمانے میں غیرمسیحی خون کھاتے تھے۔‏ لیکن طرطلیان نے مسیحیوں کے بارے میں لکھا کہ وہ ”‏اپنی غذا میں جانوروں کا خون نہیں ملاتے۔‏ .‏ .‏ .‏ تُم اپنی عدالتوں میں اسکا کھوج لگانے کیلئے کہ آیا کوئی شخص مسیحی ہے یا نہیں اُسے خون ملی ہوئی غذا کھانے کو دیتے ہو۔‏ کیونکہ تُم اچھی طرح سے جانتے ہو کہ مسیحیوں کیلئے خون کھانا منع ہے۔‏“‏ خون کھانے سے انکار کرنے پر مسیحیوں کو موت کے گھاٹ اُتارا جا سکتا تھا۔‏ اسکے باوجود وہ خدا کے حکم کو اتنا اہم خیال کرتے تھے کہ وہ کسی صورت میں بھی خون کھانے کو تیار نہیں تھے۔‏

۹.‏ خون سے پرہیز کرنے کے حکم میں کیا کچھ شامل تھا؟‏

۹ بعض لوگ سوچ سکتے ہیں کہ شاید گورننگ باڈی کا مطلب تھا کہ مسیحیوں کو نہ تو براہِ‌راست خون کھانا یا پینا تھا اور نہ ہی ایسا گوشت کھانا تھا جسکا خون نہ بہایا گیا ہو یا ایسی غذا جس میں خون ملایا گیا ہو۔‏ یہ درست ہے کہ جو حکم نوح اور ابتدائی مسیحیوں کو دیا گیا تھا وہ خون نہ کھانے کے بارے میں تھا۔‏ مثال کے طور پر ’‏گلا گھونٹے ہوئے جانوروں‘‏ کا خون گوشت میں رہ جاتا ہے اسلئے مسیحیوں کو ’‏ایسے گوشت سے پرہیز کرنے‘‏ کا حکم دیا گیا تھا۔‏ (‏پیدایش ۹:‏۳،‏ ۴؛‏ اعمال ۲۱:‏۲۵‏)‏ لیکن مسیحی جانتے تھے کہ خون کو علاج کے طور پر بھی استعمال نہیں کِیا جانا تھا۔‏ طرطلیان نے لکھا کہ غیرمسیحی مرگی سے شفا پانے کیلئے تازہ خون پیا کرتے تھے۔‏ شاید اُس زمانے میں علاج کے دوسرے طریقوں میں بھی خون کو استعمال کِیا جاتا تھا۔‏ لیکن ابتدائی مسیحی خون کو علاج کے طور پر بھی استعمال نہیں کرتے تھے۔‏ اُنہوں نے خدا کے اس حکم کی تعمیل کی خواہ ایسا کرنے سے انکی جان خطرے میں بھی پڑ جاتی تھی۔‏

خون سے علاج

۱۰.‏ خون کو علاج کیلئے کیسے استعمال کِیا جا رہا ہے اور اس سلسلے میں مسیحیوں کیلئے کونسا سوال اُٹھتا ہے؟‏

۱۰ آجکل خون سے علاج کرنا عام ہو گیا ہے۔‏ کافی عرصہ پہلے ڈاکٹر کسی کا خون لے کر اُسے ذخیرہ کر لیتے اور پھر حادثے یا جنگ میں زخمی ہونے والے اشخاص کو یہ خون دیتے تھے۔‏ لیکن وقت گزرنے کیساتھ ساتھ سائنسدانوں نے دریافت کِیا کہ خون کو چار بنیادی حصوں میں تقسیم کِیا جا سکتا ہے۔‏ اسطرح وہ ایک شخص سے حاصل‌کردہ خون کے بنیادی حصوں کو مختلف اشخاص کو دے سکتے تھے شاید ایک شخص کو صرف خون کے سُرخ خلیے اور دوسرے کو محض پلازمہ دیا جا سکتا ہے۔‏ پھر سائنسدانوں نے مزید تحقیق سے دیکھا کہ خون کے بنیادی حصوں سے مختلف کیمیائی جُز حاصل کئے جا سکتے ہیں۔‏ آجکل خون سے حاصل کئے گئے کیمیائی اجزا کو نت‌نئے طریقوں سے استعمال کِیا جاتا ہے۔‏ ایک مسیحی کو خون کے اجزا کے استعمال کے سلسلے میں کیسا ردِعمل دکھانا چاہئے؟‏ وہ کسی حال میں بھی خون نہیں لیگا۔‏ وہ جانتے ہیں کہ خون پاک ہے اور صرف یسوع کا خون جانیں بچا سکتا ہے۔‏ لیکن شاید ڈاکٹر اسکا علاج خون کے ایک بنیادی حصے مثلاً سُرخ خلیوں سے کرنا چاہتا ہے۔‏ یا پھر وہ ایک مسیحی کا علاج خون سے حاصل کئے گئے ایک کیمیائی جُز سے کرنا چاہتے ہیں۔‏ ایسی صورتحال میں مسیحی کیا کرنے کا فیصلہ کر سکتے ہیں؟‏

۱۱.‏ یہوواہ کے گواہ خون کے بارے میں کونسا نظریہ رکھتے ہیں اور یہ طبّی تحقیقات سے کیسے متفق ہے؟‏

۱۱ یہوواہ کے گواہوں نے بہت عرصہ پہلے خون کے بارے میں اپنا نظریہ پیش کِیا۔‏ مثال کے طور پر،‏ ۱۹۸۱ میں اُنہوں نے ایک میڈیکل رسالے میں ایک مضمون شائع کِیا۔‏ (‏اس مضمون کو بروشر ہاؤ کین بلڈ سیف یور لائف،‏ صفحہ ۲۷-‏۲۹ میں بھی شامل کِیا گیا ہے۔‏)‏  * اس مضمون میں پیدایش،‏ احبار اور اعمال کی کتابوں سے حوالہ‌جات دئے گئے ہیں۔‏ مضمون میں کہا گیا:‏ ”‏ان صحائف میں کسی طبّی علاج کا ذکر تو نہیں ہے لیکن یہوواہ کے گواہ ان سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ وہ خون،‏ سُرخ خلیے،‏ پلازمہ،‏ سفید خلیے اور پلیٹ‌لیٹس سے اپنا علاج نہیں کروا سکتے۔‏“‏ ابتدائی طبّی امداد پر ۲۰۰۱ میں شائع ہونے والی ایک درسی کتاب بیان کرتی ہے:‏ ”‏خون مختلف حصوں پر مشتمل ہے:‏ پلازمہ،‏ سُرخ اور سفید خلیے اور پلیٹ‌لیٹس۔‏“‏ اس وجہ سے یہوواہ کے گواہ نہ صرف خون بلکہ اسکے چاروں بنیادی حصوں کا انتقال کرانے سے بھی گریز کرتے ہیں۔‏

۱۲.‏ (‏ا)‏ خون کے بنیادی حصوں سے حاصل کئے گئے اجزا کے بارے میں یہوواہ کے گواہوں کا کیا نظریہ ہے؟‏ (‏ب)‏ اس سلسلے میں ہم مزید معلومات کہاں سے حاصل کر سکتے ہیں؟‏

۱۲ سن ۱۹۸۱ میں شائع ہونے والے مضمون میں یہ بھی کہا گیا ہے:‏ ”‏بائبل کے اپنے مطالعے سے یہوواہ کے گواہوں نے یہ نتیجہ اخذ کِیا ہے کہ خون کے بنیادی حصوں سے حاصل کئے گئے اجزا کو قبول کرنا یا نہ کرنا ہر ایک کا ذاتی فیصلہ ہے۔‏ ان اجزا میں البومین،‏ امیون گلوبولن اور خون کو جمانے والے عنصر وغیرہ شامل ہیں۔‏“‏ سن ۱۹۸۱ سے لے کر آج تک خون کے بنیادی حصوں سے بہت سے کیمیائی اجزا حاصل کئے گئے ہیں جن سے مختلف دوائیاں تیار کی جاتی ہیں۔‏ اس معاملے پر مینارِنگہبانی جون ۱۵،‏ ۲۰۰۰ کے ”‏سوالات از قارئین“‏ میں مزید وضاحت کی گئی تھی۔‏ لاکھوں نئے قارئین کے فائدے کیلئے اس مضمون کو مینارِنگہبانی کے اس شمارے میں صفحہ ۲۹ تا ۳۱ پر دوبارہ شائع کِیا گیا ہے۔‏ یہ مضمون ۱۹۸۱ میں شائع ہونے والے مضمون سے بالکل متفق ہے۔‏

آپکے ضمیر کی آواز

۱۳،‏ ۱۴.‏ (‏ا)‏ ضمیر کیا ہے اور خون کے معاملے میں یہ کیا کردار ادا کرتا ہے؟‏ (‏ب)‏ خدا نے بنی‌اسرائیل کو گوشت کھانے کے بارے میں کونسا حکم دیا تھا لیکن اسکے بارے میں کونسے سوالات اُٹھے ہونگے؟‏

۱۳ مسیحی جانتے ہیں کہ انہیں خدا کے احکام پر پورا اُترنا ہے۔‏ لیکن کبھی‌کبھار بائبل کسی ایک معاملے کے بارے میں واضح حکم نہیں دیتی۔‏ ایسی صورت میں ہر مسیحی کو اپنے ضمیر کو کام میں لاتے ہوئے ذاتی طور پر فیصلہ کرنا پڑتا ہے۔‏ ضمیر وہ فطری صلاحیت ہے جسکی مدد سے ہم معاملات کی قدروقیمت کا اندازہ لگا کر کوئی فیصلہ کرتے ہیں۔‏ (‏رومیوں ۲:‏۱۴،‏ ۱۵‏)‏ ہر شخص اپنے اپنے ضمیر کے مطابق فیصلہ کرتا اور پھر مختلف قسم کی روِش اختیار کرتا ہے۔‏ * بائبل بیان کرتی ہے کہ بعض اشخاص ”‏کمزور ضمیر“‏ رکھتے ہیں۔‏ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بعض لوگ پُختہ ضمیر کے مالک بھی ہوتے ہیں۔‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۸:‏۱۲‏؛‏ کیتھولک ورشن‏)‏ ہر مسیحی خدا کے بارے میں علم حاصل کرنے،‏ اس کی مرضی کو سمجھنے اور اسکو عمل میں لانے میں مختلف حد تک ترقی کر چکا ہے۔‏ یہ اس حکم سے ظاہر ہوتا ہے جو یہودیوں کو گوشت کھانے کے بارے میں دیا گیا تھا۔‏

۱۴ بائبل صاف صاف بیان کرتی ہے کہ خدا کی فرمانبرداری کرنے والا شخص ایسا گوشت نہیں کھائیگا جسکا خون نہ بہایا گیا ہو۔‏ مثال کے طور پر ایک دفعہ اسرائیلی سپاہیوں نے خون بہائے بغیر گوشت کھایا۔‏ اُنہوں نے سوچا کہ ہنگامی صورت میں ایسا کرنا واجب ہے۔‏ لیکن یہ ایک سنگین گناہ تھا اور انہیں قصوروار ٹھہرایا گیا۔‏ (‏استثنا ۱۲:‏۱۵،‏ ۱۶؛‏ ۱-‏سموئیل ۱۴:‏۳۱-‏۳۵‏)‏ لیکن ایک یہودی کے ذہن میں جانور ذبح کرنے کے سلسلے میں بہت سے سوال اُٹھے ہونگے۔‏ مثلاً بکری ذبح کرنے کے بعد کتنی جلدی خون نکالا جانا چاہئے؟‏ کیا جانور کا گلا کاٹنے کی ضرورت تھی؟‏ کیا خون نکالنے کیلئے اُسے اُلٹا لٹکایا جانا تھا؟‏ نیز کتنی دیر تک ایسا کِیا جانا تھا؟‏ وہ گائے یا بیل کا خون نکالنے کیلئے کیا کریگا؟‏ ذبح کرکے گوشت سے خون نکالنے کے بعد بھی تھوڑا بہت خون باقی رہ سکتا ہے۔‏ کیا وہ ایسا گوشت کھا سکتا تھا؟‏ کون فیصلہ کریگا؟‏

۱۵.‏ بعض یہودیوں نے گوشت کھانے کے سلسلے میں کیا فیصلہ کِیا،‏ لیکن خدا نے اس سلسلے میں کونسی ہدایت فراہم کی؟‏

۱۵ فرض کریں کہ ایک یہودی کو ان سوالات کا سامنا تھا۔‏ وہ بازار سے گوشت نہ خریدنے کا فیصلہ کر سکتا ہے کیونکہ جانور اُسکی نظر کے سامنے ذبح نہیں ہوا تھا۔‏ اُس زمانے میں اکثر کسی دیوتا کے سامنے جانور ذبح کِیا جاتا تھا،‏ اس وجہ سے بھی شاید وہ بازار سے گوشت نہ خریدتا۔‏ بعض یہودی گوشت صرف اس صورت میں کھاتے تھے اگر اسے رسمی طریقے سے ذبح کِیا گیا ہو۔‏ * (‏متی ۲۳:‏۲۳،‏ ۲۴‏)‏ آپ لوگوں کے مختلف ردِعمل کی بابت کیا سوچتے ہیں؟‏ خدا نے یہودیوں کو جانور ذبح کرنے کے بارے میں تفصیلات فرہم نہیں کی تھیں۔‏ کیا اس صورتحال میں یہودیوں کی صدر عدالت کو ان تفصیلات کے بارے میں فیصلہ کرنا تھا؟‏ اُنہوں نے تو ایسا کِیا لیکن خوشی کی بات ہے کہ یہوواہ اپنے سچے پرستاروں سے ایسا کرنے کی توقع نہیں رکھتا۔‏ اسکی بجائے اُس نے جانور ذبح کرنے اور اسکا خون نکالنے کے بارے میں محض بنیادی ہدایات فراہم کیں۔‏—‏یوحنا ۸:‏۳۲‏۔‏

۱۶.‏ خون کے اجزا سے بنے ٹیکوں سے اپنا علاج کروانے کے بارے میں بعض مسیحی مختلف نظریات کیوں رکھتے ہیں؟‏

۱۶ پیراگراف ۱۱ اور ۱۲ میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ یہوواہ کے گواہ خون اور اسکے چار بنیادی حصوں یعنی پلازمہ،‏ سُرخ خلیے،‏ سفید خلیے اور پلیٹ‌لیٹس کا انتقال قبول نہیں کرتے۔‏ لیکن خون کے چار بنیادی حصوں سے سیرم جیسے اجزا بھی حاصل کئے جاتے ہیں۔‏ ان سے اُن لوگوں کا علاج کِیا جاتا ہے جنکو سانپ ڈس گیا ہو یا پھر انکو دیگر بیماریوں کے ٹیکے بنانے کیلئے بھی استعمال کِیا جاتا ہے۔‏ کیا یہوواہ کے گواہ خون کے ان اجزا سے اپنا علاج کروا سکتے ہیں؟‏ (‏اِس رسالے کے صفحہ ۳۰ کے پیراگراف ۴ کو دیکھیں۔‏)‏ کئی گواہوں کے خیال میں یہ اجزا خون نہیں ہیں اور ’‏لہو سے پرہیز کرنے‘‏ کے حکم میں شامل نہیں ہیں۔‏ اسلئے وہ ان اجزا سے اپنا علاج کروانا جائز سمجھتے ہیں۔‏ (‏اعمال ۱۵:‏۲۹؛‏ ۲۱:‏۲۵‏؛‏ صفحہ ۳۱،‏ پیراگراف ۱)‏ یہ انکا ذاتی فیصلہ ہے۔‏ اسکے برعکس بعض لوگ خون سے بنی ہوئی ہر چیز کو ردّ کرتے ہیں خواہ اس میں خون کے ایک بنیادی حصے کا چھوٹا ہی جُز کیوں نہ شامل ہو۔‏ * ایسے یہوواہ کے گواہ بھی ہیں جو شاید خون کے اجزا سے بنائے گئے بیماریوں سے بچاؤ کے ٹیکوں کو یا سانپ کے زہر سے بچنے والے ٹیکوں کو جائز سمجھتے ہیں۔‏ لیکن وہ خون کے دوسرے اجزا سے بنی ہوئی دوائیوں کو قبول نہیں کرتے۔‏ وہ کہتے ہیں کہ ایسے اجزا بالکل خون کی مانند ہوتے ہیں۔‏

۱۷.‏ (‏ا)‏ جب ہمیں خون کے اجزا کی بابت سوالات کا سامنا ہوتا ہے تو اس سلسلے میں ضمیر کیسے ہماری مدد کر سکتا ہے؟‏ (‏ب)‏ خون سے حاصل کئے گئے اجزا سے اپنا علاج کروانا اتنا سنجیدہ فیصلہ کیوں ہے؟‏

۱۷ ایسے فیصلے کرتے وقت بائبل ضمیر کے بارے میں جوکچھ کہتی ہے اس پر غور کرنا بہت فائدہ‌مند ہے۔‏ اگر ہم ایک معاملے میں ضمیر کی بِنا پر فیصلہ کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں سب سے پہلے خدا کے کلام سے اس معاملے کے بارے میں علم حاصل کرنا چاہئے۔‏ اسطرح ہم اپنے ضمیر کو خدا کے کلام کے مطابق ڈھال سکیں گے۔‏ ایسا کرنے سے ہم کسی دوسرے شخص کی رائے کی بجائے خدا کی مرضی کو جان کر اسکے مطابق فیصلہ کر سکیں گے۔‏ (‏زبور ۲۵:‏۴،‏ ۵‏)‏ بعض نے سوچا کہ ’‏اگر خون کے اجزا قبول کرنا یا نہ کرنا ضمیر کا معاملہ ہے تو پھر اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ مَیں کیا فیصلہ کرتا ہوں؟‏‘‏ ایسی سوچ غلط ہے۔‏ اگر ایک بات ضمیر کا معاملہ ہے تو اسکا یہ مطلب نہیں کہ ہمیں اس پر غور نہیں کرنا چاہئے۔‏ اگر ہم ایک ایسا فیصلہ کرتے ہیں جس سے ہمارے کسی بھائی کو ٹھوکر لگتی ہے تو یہ ایک نہایت سنجیدہ معاملہ ہے۔‏ اس سلسلے میں ہمیں پولس کی نصیحت پر غور کرنا چاہئے۔‏ اسکے زمانے میں ایسا گوشت بھی بازاروں میں فروخت ہوتا تھا جسے شاید کسی دیوتا کے سامنے ذبح کِیا گیا ہوتا تھا۔‏ اسکے باوجود کئی مسیحی بازار سے گوشت خریدنے کو غلط نہیں سمجھتے تھے۔‏ لیکن پولس نے کہا کہ انکو کسی بھائی کے ’‏کمزور ضمیر کو گھایل نہیں کرنا چاہئے۔‏‘‏ اگر ایک مسیحی کسی کیلئے ٹھوکر کا باعث بنتا ہے تو وہ قصوروار ٹھہرایا جائیگا کیونکہ اسکی وجہ سے ”‏وہ بھائی جسکی خاطر مسیح مرا ہلاک ہو جائیگا۔‏“‏ اسی طرح خون سے حاصل کئے گئے اجزا سے اپنا علاج کروانا ایک بہت سنجیدہ فیصلہ ہے جس میں ہمیں دوسروں کے ضمیر کا بھی خیال رکھنا چاہئے۔‏—‏۱-‏کرنتھیوں ۸:‏۸،‏ ۱۱-‏۱۳؛‏ ۱۰:‏۲۵-‏۳۱‏؛‏ کیتھولک ورشن۔‏

۱۸.‏ ایک مسیحی کو اپنے ضمیر کی آواز کو نظرانداز کیوں نہیں کرنا چاہئے؟‏

۱۸ خون سے حاصل کئے گئے اجزا سے اپنا علاج کروانا ایک اَور وجہ سے بھی بہت سنجیدہ فیصلہ ہے۔‏ اگر ضمیر آپکو یہ احساس دلاتا ہے کہ ایسا کرنا غلط ہے اور آپ اسے نظرانداز کرتے ہیں تو شاید آپ کا ضمیر خاموش ہو جائے۔‏ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ اس معاملے میں کوئی شخص آپکو یقین دلانے کی کوشش کرتے ہوئے بیان کرتا ہے:‏ ”‏فکر مت کرو،‏ بہت سے بھائیوں نے ایسا کرنے کا فیصلہ کِیا ہے۔‏ اس میں کوئی حرج نہیں۔‏“‏ اگر آپ اسکی بات کو مان کر اپنے ضمیر کی آواز کو نظرانداز کرتے ہیں تو یہ بھی آپکے لئے نقصاندہ ہوگا۔‏ جب ہم ایک بار اپنے ضمیر کی آواز پر دھیان نہیں دیتے تو ہمیں اسکی عادت پڑ جاتی ہے۔‏ آجکل لاکھوں لوگ ایسا کرکے جھوٹ بولتے اور طرح طرح کے بُرے کام کرتے ہیں۔‏ مسیحی ہرگز ایسی روش پر چلنا نہیں چاہتے۔‏—‏۲-‏سموئیل ۲۴:‏۱۰؛‏ ۱-‏تیمتھیس ۴:‏۱،‏ ۲‏۔‏

۱۹.‏ خون سے علاج کروانے کے معاملے میں ہمیں کس بات کو سب سے زیادہ اہمیت دینی چاہئے؟‏

۱۹ اس شمارے میں دوبارہ شائع ہونے والا مضمون اپنے اختتام پر بیان کرتا ہے:‏ ”‏کیا نظریات اور ضمیر کے مطابق فیصلے مختلف ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس مسئلے کی کوئی اہمیت ہی نہیں ہے؟‏ ہرگز نہیں۔‏ یہ نہایت سنجیدہ معاملہ ہے۔‏“‏ اس معاملے کا ”‏زندہ خدا“‏ کیساتھ ہمارے رشتے پر گہرا اثر پڑتا ہے۔‏ اگر خدا کیساتھ ہمارا رشتہ قریبی ہے تو ہم یسوع کے خون کی بِنا پر ہمیشہ کی زندگی پا سکتے ہیں۔‏ اسلئے ہمیں خون کو پاک سمجھ کر اسکی قدر کرنی چاہئے۔‏ پولس نے اس سلسلے میں یوں لکھا:‏ ”‏[‏تُم]‏ مسیح سے جُدا اور اسرائیل کی سلطنت سے خارج اور وعدہ کے عہدوں سے ناواقف اور نااُمید اور خدا سے جُدا تھے۔‏ مگر تُم جو پہلے دُور تھے اب مسیح یسوؔع میں مسیح کے خون کے سبب سے نزدیک ہو گئے ہو۔‏“‏—‏افسیوں ۲:‏۱۲،‏ ۱۳‏۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 11 یہوواہ کے گواہوں کا شائع‌کردہ۔‏

^ پیراگراف 13 ایک دفعہ پولس رسول اور چار دیگر مسیحی خود کو روایتی طور پر پاک‌صاف کرنے کیلئے ہیکل میں گئے۔‏ اس زمانے میں مسیحی شریعت کے تابع نہیں تھے،‏ پھر بھی پولس نے یروشلیم کے بزرگوں کی نصیحت پر عمل کِیا۔‏ (‏اعمال ۲۱:‏۲۳-‏۲۵‏)‏ تاہم،‏ بعض مسیحیوں نے سوچا ہو کہ مَیں ایسا کبھی نہ کرتا۔‏ اُس زمانے کی طرح آجکل بھی لوگ اپنے ضمیر کی بِنا پر مختلف فیصلے کرتے ہیں۔‏

^ پیراگراف 15 انسائیکلوپیڈیا جوڈیکا جوڈیکا بیان کرتا ہے کہ ”‏یہودی بہت ہی پیچیدہ طریقے سے گوشت حلال کرتے تھے۔‏“‏ وہ گوشت کو ایک مقررہ وقت کیلئے پانی میں بھگوتے اور پھر ایک لکڑی کے تختے پر اس سے پانی نچوڑتے۔‏ اسکے بعد وہ گوشت پر ایک خاص قسم کا نمک لگاتے اور اسے کئی مرتبہ پانی سے دھوتے تھے۔‏

^ پیراگراف 16 آجکل زیادہ‌تر ٹیکے خون سے نہیں بنتے لیکن کبھی‌کبھار ان میں تھوڑی مقدار میں خون سے حاصل‌کردہ اجزا ہو سکتے ہیں۔‏—‏دی واچ‌ٹاور،‏ اکتوبر ا،‏ ۱۹۹۴ میں ”‏سوالات از قارئین“‏ کو دیکھیں۔‏

کیا آپکو یاد ہے؟‏

‏• خدا نے خون کے بارے میں نوح کو،‏ بنی‌اسرائیل کو اور مسیحیوں کو کونسے احکام دئے؟‏

‏• یہوواہ کے گواہ خون سے علاج کروانے کے کونسے طریقوں سے ہر حال میں انکار کرتے ہیں؟‏

‏• خون کے بنیادی حصوں سے حاصل کئے گئے کیمیائی اجزا سے اپنا علاج کروانا کس حد تک ذاتی فیصلہ ہوتا ہے؟‏

‏• خون سے علاج کروانے کے معاملے میں ہمیں خدا کے ساتھ اپنے رشتے کو سب سے زیادہ اہمیت کیوں دینی چاہئے؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۲۲ پر چارٹ]‏

‏(‏تصویر کے لئے چھپے ہوئے صفحے کو دیکھیں)‏

خون کے معاملے میں یہوواہ کے گواہوں کا بنیادی نظریہ

خون

▾ ▾ ▾ ▾

ناقابلِ‌قبول سُرخ خلیے سفید خلیے پلیٹ‌لیٹس پلازمہ

مسیحیوں کا ▾ ▾ ▾ ▾

ذاتی فیصلہ سُرخ خلیوں سفید خلیوں پلیٹ‌لیٹس پلازمہ

سے حاصل سے حاصل سے حاصل سے حاصل

کئے گئے اجزا کئے گئے اجزا کئے گئے اجزا کئے گئے اجزا

‏[‏صفحہ ۲۰ پر تصویر]‏

گورننگ باڈی نے یہ فیصلہ کِیا کہ مسیحیوں کو ’‏خون سے پرہیز‘‏ کرنا چاہئے

‏[‏صفحہ ۲۳ پر تصویر]‏

خون سے حاصل کئے گئے کسی جُز سے اپنا علاج کروانے کا فیصلہ کرتے وقت اپنے ضمیر کو نظرانداز نہ کریں