مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

خدا آپ سے بہت پیار کرتا ہے

خدا آپ سے بہت پیار کرتا ہے

خدا آپ سے بہت پیار کرتا ہے

زندگی کی راہ پر مشکلات کا سامنا کرتے وقت انسان کی آنکھیں اکثر آسمان کی طرف ہوتی ہیں۔‏ انسان خدا سے کیوں فریاد کرتا ہے؟‏ زبور کی کتاب جواب دیتی ہے کہ خدا ”‏بزرگ اور قدرت میں عظیم ہے۔‏ اُسکے فہم کی انتہا نہیں۔‏“‏ (‏زبور ۱۴۷:‏۵‏)‏ مشکل دَور سے گزرتے وقت وہی ہماری مدد کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔‏ اسی لئے زبور کی کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ مصیبت کے وقت میں ”‏اپنے دل کا حال اُسکے سامنے کھول دو۔‏“‏ (‏زبور ۶۲:‏۸‏)‏ مگر بہتیرے لوگ ایسا کیوں محسوس کرتے ہیں کہ خدا اُنکی فریاد نہیں سنتا؟‏ کیا وہ ہماری پرواہ نہیں کرتا؟‏

ایسا نہیں ہے۔‏ آپکو یاد ہوگا کہ جب آپ چھوٹے تھے تو کبھی کبھی آپ کسی چیز کو پانے کی ضد پکڑتے تھے مگر آپکے امی ابو اسے ان‌سنا کر دیتے۔‏ کیا اسکا مطلب ہے کہ وہ آپ سے پیار نہیں کرتے تھے یا یہ کہ وہ آپکی پرواہ نہیں کرتے تھے؟‏ ہرگز نہیں!‏ وہ ہمیشہ آپکی بھلائی ہی چاہتے تھے۔‏ وہ آپکی ہر خواہش کو پورا نہیں کرتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اس میں آپ ہی کی بہتری ہے۔‏

اسی طرح جب یہوواہ خدا ہماری فریادوں کا فوراً جواب نہیں دیتا تو اسکا مطلب یہ نہیں کہ وہ ہماری پرواہ نہیں کرتا۔‏ وہ ہمیشہ ہماری بھلائی ہی چاہتا ہے۔‏

‏’‏اسی نے ہمیں زندگی دی ہے‘‏

خدا نے ہمیں زندگی دی ہے۔‏ کتابِ‌مقدس کہتی ہے کہ ”‏اُسی میں ہم جیتے اور چلتے پھرتے اور موجود ہیں۔‏“‏ (‏اعمال ۱۷:‏۲۸‏)‏ کیا یہ اسکی محبت کا ایک ثبوت نہیں ہے؟‏

خدا ہمیں نہ صرف زندگی دیتا ہے بلکہ وہ ہماری ضروریات بھی پوری کرتا ہے۔‏ زبور کی کتاب کہتی ہے کہ خدا ”‏چوپایوں کیلئے گھاس اُگاتا ہے اور اِنسان کے کام کیلئے سبزہ تاکہ زمین سے خوراک پیدا کرے۔‏“‏ (‏زبور ۱۰۴:‏۱۴‏)‏ وہی ’‏آسمان سے پانی برساتا ہے،‏ پیداوار کا موسم عطا کرتا ہے اور دلوں کو خوراک اور خوشی سے بھرتا ہے۔‏‘‏ (‏اعمال ۱۴:‏۱۷‏)‏ جی‌ہاں،‏ وہی ہمارا پروردگار ہے۔‏

اس پر کئی اشخاص اعتراض کرینگے کہ ’‏اگر خدا ہم سے اتنی محبت رکھتا ہے تو پھر وہ ہمیں تکلیفوں سے گزرنے کیوں دیتا ہے؟‏‘‏ آئیے ہم دیکھتے ہیں۔‏

کیا خدا دُکھ‌تکلیفوں کا ذمہ‌دار ہے؟‏

اصل میں زیادہ‌تر دُکھ‌تکلیفیں انسان خود مول لیتا ہے۔‏ مثلاً کچھ لوگ سگریٹ اور نشہ‌بازی کرکے،‏ منشیات کی لت میں پڑ کر،‏ بدچلن زندگی جی کر یا تیزی سے گاڑی چلا کر موت کے مُنہ میں سر ڈالتے ہیں۔‏ جب لوگ ان حرکتوں کی وجہ سے تکلیف اُٹھاتے ہیں تو پھر کیا خدا کو اس تکلیف کا ذمہ‌دار ٹھہرانا ٹھیک ہوگا؟‏ پاک صحائف میں لکھا ہے:‏ ”‏فریب نہ کھاؤ۔‏ خدا ٹھٹھوں میں نہیں اڑایا جاتا کیونکہ آدمی جو کچھ بوتا ہے وہی کاٹیگا۔‏“‏—‏گلتیوں ۶:‏۷‏۔‏

انسان ہی جنگیں شروع کرتا ہے۔‏ وہی طرح طرح کے جُرائم کرتا ہے۔‏ ایسا کرنے سے وہ اپنے اُوپر بلا لاتا ہے۔‏ کیا خدا کو اسکا ذمہ‌دار ٹھہرایا جا سکتا ہے؟‏ جب ایک ظالم حکمران اپنے ہی ملک کے لوگوں کیساتھ بےرحمی سے پیش آتا ہے اور اُنکا قتلِ‌عام کرتا ہے تو کیا خدا پر اسکے لئے اُنگلی اُٹھانا واجب ہوگا؟‏—‏واعظ ۸:‏۹‏۔‏

جب ملک ملک میں معصوم بچے بھوکے پیٹ تڑپتے ہیں تو اسکا کون ذمہ‌دار ہے؟‏ دراصل زمین کی پیداوار سے دُنیا میں رہنے والا ہر ایک شخص دن میں تین بار پیٹ بھر کر کھا سکتا ہے۔‏ (‏زبور ۱۰:‏۲،‏ ۳؛‏ ۱۴۵:‏۱۶‏)‏ مگر انسان کی خودغرضی اور لالچ کی وجہ سے آج دُنیا بھر میں لاکھوں کروڑوں لوگ دانے دانے کو محتاج ہیں۔‏ ہاں،‏ دُنیا میں پائی جانے والی زیادہ‌تر مصیبتیں انسان ہی کی وجہ سے ہیں۔‏

دُکھ‌تکلیفوں کا اصلی سبب

لیکن بیماری،‏ بڑھاپا اور موت کے بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے؟‏ کیا خدا انکا ذمہ‌دار ہے؟‏ دراصل ان کیلئے بھی خدا پر الزام نہیں لگایا جا سکتا ہے۔‏ کیوں؟‏

خدا نے انسان کو اس لئے نہیں بنایا کہ وہ آہستہ آہستہ بوڑھا ہو اور آخرکار مر جائے۔‏ اُس نے آدم اور حوا کو باغِ‌عدن میں رکھا جہاں وہ ہمیشہ کے لئے زندگی کا لطف اُٹھا سکتے تھے۔‏ وہ چاہتا تھا کہ آدم اور حوا اس فردوس میں بچے پیدا کریں اور ساری زمین کو بھر دیں۔‏ لیکن خدا یہ بھی چاہتا تھا کہ انسان ان برکتوں کے لئے شکرگزار ہو۔‏ وہ اپنی شکرگزاری کا اظہار خدا کے تابعدار رہنے سے کر سکتے تھے۔‏ صرف اس شرط پر اُنہیں یہ تمام برکتیں حاصل ہونی تھیں۔‏—‏پیدایش ۲:‏۱۷؛‏ ۳:‏۲،‏ ۳،‏ ۱۷-‏۲۳‏۔‏

مگر آدم اور حوا خدا کے فرمانبردار نہیں رہے۔‏ شیطان نے حوا کو یہ کہہ کر پھسلایا کہ انسان خدا کی حکومت کے بغیر جی سکتا ہے۔‏ حوا ’‏خدا کی مانند نیک‌وبد کی جاننے والی‘‏ بننا چاہتی تھی۔‏ اسلئے اس نے شیطان کی بات پر یقین کرکے خدا کے حکم کی نافرمانی کی۔‏ بعد میں آدم نے بھی اس بغاوت میں اُسکا ساتھ دیا۔‏—‏پیدایش ۳:‏۵،‏ ۶‏۔‏

اس نافرمانی کی وجہ سے خدا نے اُنہیں باغِ‌عدن سے نکال دیا۔‏ اب وہ اُسکی حکومت کے تحت نہیں رہے۔‏ اسلئے وہ بوڑھے ہو کر مرنے لگے اور اُن پر مشکلات کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔‏ (‏پیدایش ۵:‏۵‏)‏ ہم سب آدم اور حوا کی اولاد ہیں۔‏ انکی نافرمانی کی وجہ سے ہم بھی آج بوڑھے ہو کر مرتے ہیں۔‏ اسی لئے کتابِ‌مقدس کہتی ہے کہ ”‏ایک آدمی [‏آدم]‏ کے سبب سے گُناہ دُنیا میں آیا اور گُناہ کے سبب سے موت آئی اور یوں موت سب آدمیوں میں پھیل گئی اسلئے کہ سب نے گُناہ کیا۔‏“‏—‏رومیوں ۵:‏۱۲‏۔‏

خدا کی محبت کا ثبوت

تو کیا خدا نے انسان کو اپنے حال پر چھوڑ دیا ہے؟‏ نہیں۔‏ وہ ہمیں اس ناکارہ صورتحال سے نجات دلانا چاہتا ہے۔‏ اسلئے اُس نے ہماری خاطر یسوع مسیح کی قربانی دی۔‏ (‏رومیوں ۳:‏۲۴‏)‏ یوحنا رسول نے لکھا:‏ ”‏خدا نے دُنیا سے ایسی محبت رکھی کہ اس نے اپنا اکلوتا بیٹا بخش دیا تاکہ جو کوئی اس پر ایمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے۔‏“‏ (‏یوحنا ۳:‏۱۶‏)‏ پولس رسول نے یسوع کے بارے میں یہ بھی لکھا کہ ”‏ایک ہی کی صداقت کے سبب سے سب آدمیوں نے صادق ٹھہر کر حیات حاصل کی۔‏“‏ (‏رومیوں ۵:‏۱۸‏،‏ کیتھولک ورشن‏)‏ کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ خدا ہم سے بہت محبت رکھتا ہے؟‏

بہت جلد خدا اس زمین کو ایک خوبصورت فردوس میں بدل دیگا جہاں کوئی دُکھ‌تکلیفیں نہیں ہونگی۔‏ مکاشفہ کی کتاب میں یہ وعدہ درج ہے:‏ ”‏دیکھ خدا کا خیمہ آدمیوں کے درمیان ہے اور وہ اُنکے ساتھ سکونت کریگا اور وہ اُسکے لوگ ہونگے اور خدا آپ اُنکے ساتھ رہیگا اور اُنکا خدا ہوگا۔‏ اور وہ اُنکی آنکھوں کے سب آنسو پونچھ دیگا۔‏ اِسکے بعد نہ موت رہیگی اور نہ ماتم رہیگا۔‏ نہ آہ‌ونالہ نہ درد۔‏ پہلی چیزیں جاتی رہیں۔‏“‏ (‏مکاشفہ ۲۱:‏۳،‏ ۴‏)‏ کئی لوگ اب اعتراض کرینگے کہ ’‏جبتک ایسا وقت آئیگا مَیں تو کب کا مر چکا ہونگا!‏‘‏ فکر مت کیجئے۔‏ اگر ایسا ہو بھی جائے تو خدا کا وعدہ ہے کہ وہ ہمیں آنے والی نئی دُنیا میں پھر سے زندہ کر سکتا ہے۔‏ (‏یوحنا ۵:‏۲۸،‏ ۲۹‏)‏ یہ بھی خدا کی محبت کا ایک ثبوت ہے۔‏

‏”‏خدا کے نزدیک جاؤ“‏

کیا آپکو یہ سُن کر خوشی نہیں ہوتی کہ یہوواہ خدا بہت جلد سب دُکھ‌تکلیفوں کو دُور کرنے والا ہے؟‏ مگر ہم ان تکلیفوں سے کیسے نپٹ سکتے ہیں جنکا ہمیں آج سامنا ہے؟‏ کتابِ‌مقدس اسکا جواب یوں دیتی ہے:‏ ”‏خدا کے نزدیک جاؤ تو وہ تمہارے نزدیک آئیگا۔‏“‏ (‏یعقوب ۴:‏۸‏)‏ یہوواہ خدا چاہتا ہے کہ ہم اُسکے نزدیک جائیں یعنی اُسکے ساتھ ایک قریبی رشتہ جوڑیں۔‏ پھر وہ ہمیں سنبھالیگا اور جب ہم تکلیفوں سے گزرینگے تو وہ ہمیں ان سے نپٹنے کی طاقت دیگا۔‏

ہم خدا کے قریب کیسے جا سکتے ہیں؟‏ تین ہزار سال پہلے داؤد بادشاہ نے بھی یہی سوال کِیا۔‏ اُس نے پوچھا:‏ ”‏اَے [‏یہوواہ]‏ .‏ .‏ .‏ تیرے کوہِ‌مُقدس پر کون سکونت کریگا؟‏“‏ داؤد خود جواب دیتا ہے:‏ ”‏وہ جو راستی سے چلتا اور صداقت کا کام کرتا اور دل سے سچ بولتا ہے۔‏ وہ جو اپنی زبان سے بہتان نہیں باندھتا اور اپنے دوست سے بدی نہیں کرتا اور اپنے ہمسایہ کی بدنامی نہیں سنتا۔‏“‏ (‏زبور ۱۵:‏۱-‏۳‏)‏ اسکا مطلب ہے کہ جو بھی خدا کی مرضی کے مطابق چلنا چاہتا ہے وہ اُسکے قریب آ سکتا ہے۔‏—‏استثنا ۶:‏۲۴،‏ ۲۵؛‏ ۱-‏یوحنا ۵:‏۳‏۔‏

ہم خدا کی مرضی پر کیسے چل سکتے ہیں؟‏ سب سے پہلے ہمیں سیکھنا پڑیگا کہ اُسکی نظر میں کیا کچھ ”‏عمدہ اور پسندیدہ ہے۔‏“‏ پھر ہمیں سیکھی ہوئی باتوں پر عمل کرنا ہوگا۔‏ (‏۱-‏تیمتھیس ۲:‏۳‏)‏ ہم خدا اور اُسکی مرضی کے بارے میں بائبل سے سیکھ سکتے ہیں۔‏ (‏یوحنا ۱۷:‏۳؛‏ ۲-‏تیمتھیس ۳:‏۱۶،‏ ۱۷‏)‏ اسلئے ہمیں بائبل کو غور سے پڑھنا چاہئے بالکل اُن لوگوں کی مانند جو بیریہ شہر میں رہتے تھے۔‏ اِنکے بارے میں کتابِ‌مقدس کہتی ہے کہ ”‏انہوں نے بڑے شوق سے کلام کو قبول کِیا اور روزبروز کتابِ‌مُقدس میں تحقیق کرتے تھے کہ آیا یہ باتیں اسی طرح ہیں۔‏“‏—‏اعمال ۱۷:‏۱۱‏۔‏

اسطرح بائبل پڑھنے سے ہمارا ایمان بڑھتا جائیگا اور ہم خدا کے کیساتھ ایک قریبی رشتہ جوڑ سکیں گے۔‏ (‏عبرانیوں ۱۱:‏۶‏)‏ ہم یہ بھی سمجھ سکیں گے کہ یہوواہ خدا کتنا رحمدل ہے اور انسان سے کتنی محبت رکھتا ہے۔‏

سچے مسیحی یہوواہ کے ساتھ اپنے قریبی رشتہ کے بارے میں کیسا محسوس کرتے ہیں؟‏ دنیلا نامی ایک ۱۶ برس کی لڑکی کہتی ہے:‏ ”‏مَیں یہوواہ خدا کی بہت ہی احسانمند ہوں کیونکہ اُس نے مجھے ایسے والدین دئے ہیں جو یہوواہ سے بہت پیار کرتے ہیں اور انہوں نے مجھے بھی اُس سے پیار کرنا سکھایا ہے۔‏“‏ ملک یوراگوئے میں رہنے والا ایک اَور یہوواہ کا گواہ کہتا ہے:‏ ”‏میرے دل میں یہوواہ کی دوستی اور اسکی مہربانی کیلئے شکرگزاری کا احساس اُبھرتا ہے۔‏“‏ بچے بھی یہوواہ کیساتھ قریبی رشتہ جوڑ سکتے ہیں۔‏ ایک سات سالہ لڑکی جسکا نام گابری‌ایلا ہے،‏ کہتی ہے:‏ ”‏مَیں یہوواہ سے اتنا پیار کرتی ہوں جتنا کسی اَور سے نہیں۔‏ میرے پاس اپنی بائبل ہے۔‏ مجھے یہوواہ اور یسوع مسیح کے بارے میں سیکھنا بہت اچھا لگتا ہے۔‏“‏

آج دُنیا بھر میں کروڑوں لوگ ہیں جو یہوواہ خدا کی عبادت کرتے اور اُسکے قریب رہتے ہیں۔‏ وہ بھی زبورنویس آسف کی طرح محسوس کرتے ہیں جس نے لکھا تھا:‏ ”‏میرے لئے یہی بھلا ہے کہ خدا کی نزدیکی حاصل کروں۔‏“‏ (‏زبور ۷۳:‏۲۸‏)‏ یہوواہ کے قریب رہنے سے اُنہیں مصیبتوں کے دوران طاقت اور تسلی ملی ہے۔‏ اُنہیں پورا بھروسہ ہے کہ جب یہوواہ خدا اس زمین کو ایک فردوس میں تبدیل کریگا تو وہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اس پر رہ پائینگے۔‏ (‏۱-‏تیمتھیس ۴:‏۸‏)‏ کیا آپ بھی ’‏خدا کے نزدیک جانا‘‏ چاہتے ہیں؟‏ اُسکا وعدہ ہے کہ ”‏وہ ہم میں سے کسی سے دُور نہیں۔‏“‏ (‏اعمال ۱۷:‏۲۷‏)‏ وہ واقعی آپ سے بہت پیار کرتا ہے۔‏

‏[‏صفحہ ۵ پر تصویر]‏

یہوواہ نے بہت سے مختلف طریقوں سے ہمارے لئے اپنے پیار کا اظہار کِیا ہے

‏[‏صفحہ ۷ پر تصویر]‏

چھوٹے بچے بھی خدا کیساتھ ایک قریبی رشتہ جوڑ سکتے ہیں

‏[‏صفحہ ۷ پر تصویر]‏

آج یہوواہ ہمیں برداشت کرنے کی طاقت دیتا ہے اور وہ وقت آنے والا ہے جب وہ بیماری اور موت کو ہمیشہ کیلئے ختم کر دیگا