مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

صدمے کے باوجود خوشیاں بھری زندگی

صدمے کے باوجود خوشیاں بھری زندگی

میری کہانی میری زبانی

صدمے کے باوجود خوشیاں بھری زندگی

از آڈری ہائیڈ

مَیں پچھلے ۶۳ سال سے کُل‌وقتی طور پر یہوواہ خدا کی خدمت کرتی آ رہی ہوں۔‏ اِن میں سے ۵۹ سال مَیں نے بیت‌ایل میں خدمت کی ہے۔‏ میرے پہلے شوہر کینسر سے اور میرے دوسرے شوہر الزیمیز کی بیماری کی وجہ سے گزر گئے۔‏ اُنکو اِن بیماریوں میں ترپتا دیکھ کر میرے دل کو سخت صدمہ پہنچا۔‏ اِن آفتوں کے باوجود مَیں نے اپنی زندگی میں خوشی کو برقرار رکھا ہے۔‏ آئیے مَیں آپکو بتاتی ہوں کہ یہ میرے لئے کیسے ممکن تھا۔‏

میرا بچپن کولوراڈو کے ہرےبھرے میدانوں کے بیچ ایک فارم پر گزرا جہاں ہم کھیتی‌باڑی کرتے اور مویشی پالتے تھے۔‏ ہم چھ بہن‌بھائی ہیں۔‏ پہلے چار بچے رسل،‏ ویئن،‏ کلارا اور آردِس ۱۹۱۳ اور ۱۹۲۰ کے عرصے میں پیدا ہوئے۔‏ میری پیدائش ۱۹۲۱ میں ہوئی اور سب سے چھوٹا بھائی کرٹس ۱۹۲۵ میں پیدا ہوا۔‏

سن ۱۹۱۳ میں میری والدہ یہوواہ کی ایک گواہ بن گئی۔‏ اس کے کچھ عرصے بعد ہمارا پورا خاندان یہوواہ کی خدمت کرنے لگا۔‏

بچپن کی یادیں میرے والد نئے ایجادات کو عمل میں لانے کی کوشش کِیا کرتے۔‏ اسلئے ہمارے گھر میں بجلی تھی حالانکہ اُس وقت کم ہی گھروں میں بجلی استعمال ہوتی تھی۔‏ ہم مُرغیاں اور مویشی پالتے تھے جن سے ہم انڈے،‏ دودھ،‏ ملائی اور مکھن حاصل کرتے تھے۔‏ ہل چلانے کیلئے ہمارے پاس گھوڑے تھے۔‏ ہم اپنی زمین پر سٹابری،‏ آلو،‏ گندم اور مکئی اُگاتے۔‏

میرے والد ہم بچوں میں محنت کرنے کی اچھی عادت ڈالنا چاہتے تھے۔‏ سکول شروع کرنے سے پہلے ہی مجھے کھیتوں میں کام کرنا سکھایا گیا۔‏ مجھے آج بھی وہ دن یاد ہیں جب تپتی دھوپ میں مَیں باغ کی کیاریوں میں سے گھاس‌پھوس نکالتی تھی۔‏ میرا پسینہ پانی کی طرح بہ رہا ہوتا تھا اور شہد کی مکھیاں مجھے کاٹی جاتی تھیں۔‏ اُس وقت مجھے اپنے آپ پر بہت ترس آتا کیونکہ دوسرے بچوں کو ہماری طرح اتنا کام نہیں کرنا پڑتا تھا۔‏ لیکن اب مَیں شکرگزار ہوں کہ بچپن میں ہی ہمیں محنت کرنا سکھایا گیا۔‏

ہم سب کو الگ الگ گھریلو کام سونپے گئے۔‏ آردِس گائے کا دودھ دوہتی تھی کیونکہ وہ یہ کام مجھ سے بہتر کر سکتی تھی۔‏ مَیں گھوڑوں کے رہنے کی جگہ سے گوبر نکال کر اسے صاف کرتی تھی۔‏ فارم پر کام کرنے کے باوجود ہمیں کھیلنے کودنے کا بھی وقت ملتا تھا۔‏

ہمارے گھر کے اِردگِرد ہرے میدانوں سے نظر اُٹھاتے ہی خوبصورت شفاف آسمان دکھائی دیتا تھا۔‏ رات کے وقت آسمان پر ہزاروں ستارے دیکھ کر مجھے زبور ۱۴۷ کی چوتھی آیت یاد آتی تھی،‏ جہان لکھا ہے:‏ ”‏وہ ستاروں کو شمار کرتا ہے اور اُن سب کے نام رکھتا ہے۔‏“‏ جب مَیں شام کو باہر بیٹھی ستارے تک رہی ہوتی تو ہمارا کتا جج اپنا سر میری گود میں رکھ کر میرے ساتھ بیٹھ جاتا تھا۔‏ دن میں مَیں اکثر دہلیز پر بیٹھ کر ہرے کھیتوں کی خوبصورتی کو دیکھتی۔‏ جب ہوا کا جھونکا گندم سے گزرتا تو سورج کی کرنوں میں گندم چاندنی کی طرح چمکتی تھی۔‏

ماں کی بہترین مثال

میری والدہ میرے والد کا بہت ہی احترام کرتی تھیں۔‏ انہوں نے ہم بچوں کو بھی والد کی عزت کرنا سکھائی۔‏ سن ۱۹۳۹ میں میرے والد بھی یہوواہ کے گواہ بن گئے۔‏ میرے والد نے ہمیں محنت کرنا سکھائی۔‏ اُنہوں نے ہمیں کبھی بگاڑا نہیں۔‏ اِسکے باوجود ہم جانتے تھے کہ وہ ہم سے بہت پیار کرتے ہیں۔‏ سردی کے موسم میں وہ ہمیں اکثر برف گاڑی میں سیر کیلئے لے جاتے جس سے ہمیں بہت مزہ آتا۔‏

ماں نے ہمیں یہوواہ کے بارے میں سکھا کر خدا کے کلام کیلئے ہمارے دل میں احترام پیدا کِیا۔‏ ہم نے سیکھا کہ خدا کا نام یہوواہ ہے اور وہی زندگی کا سرچشمہ ہے۔‏ (‏زبور ۳۶:‏۹؛‏ ۸۳:‏۱۸‏)‏ ہم نے یہ بھی سیکھا کہ خدا نے اخلاقی معیار مقرر کئے ہیں جو ہماری بھلائی کیلئے ہیں نہ کہ ہماری زندگی کو مشکل بنانے کیلئے۔‏ (‏یسعیاہ ۴۸:‏۱۷‏)‏ ماں نے ہمیں یہ بھی سکھایا کہ منادی کا کام بہت ہی اہم ہے۔‏ وہ ہمیں یسوع کے ان الفاظ کے بارے میں بتاتی تھی جو اس نے اپنے شاگردوں سے کہے تھے:‏ ”‏بادشاہی کی اِس خوشخبری کی منادی تمام دُنیا میں ہوگی تاکہ سب قوموں کیلئے گواہی ہو۔‏ تب خاتمہ ہوگا۔‏“‏—‏متی ۲۴:‏۱۴‏۔‏

جب مَیں چھوٹی تھی تو سکول سے گھر واپس آتے ہی مَیں ماں کے پاس جاتی۔‏ اگر وہ گھر میں نہیں ہوتی تو مَیں اُسے ڈھونڈنے نکلتی۔‏ ایک دن جب مَیں ماں کو ڈھونڈ رہی تھی تو وہ باڑے میں تھی۔‏ اچانک تیز بارش شروع ہو گئی۔‏ مَیں نے ماں سے پوچھا کہ کیا خدا پھر سے سیلاب لا رہا ہے؟‏ اس نے مجھے تسلی دی اور کہا کہ خدا نے وعدہ کِیا ہے کہ وہ زمین کو سیلاب سے دوبارہ تباہ نہیں کریگا۔‏ کبھی کبھی سخت آندھیاں آتی تھیں جنکی وجہ سے ہمیں تہ‌خانے میں پناہ لینی پڑتی تھی۔‏

ماں نے میری پیدائش سے پہلے ہی منادی کے کام میں حصہ لینا شروع کر دیا۔‏ ممسوح مسیحیوں کا ایک گروہ ہمارے گھر میں جمع ہوتا تھا۔‏ ماں کو تبلیغ کرنا مشکل لگتا تھا۔‏ لیکن اُسکے دل میں یہوواہ کیلئے اتنا پیار تھا کہ اُس نے اِس خوف پر قابو پا لیا۔‏ سن ۱۹۶۹ میں،‏ ۸۴ سال کی عمر میں میری ماں گزر گئی۔‏ وہ آخر تک یہوواہ کی وفادار رہی۔‏ ماں کی زندگی کے آخری لمحوں میں مَیں اُنکے پاس تھی۔‏ اس وقت مَیں دھیرے سے ماں کے کان میں بولی:‏ ”‏اب آپ جلد ہی آسمان میں ہونگی۔‏“‏ اُنہوں نے مجھ سے کہا:‏ ”‏تُم بہت اچھی ہو۔‏“‏ مَیں اس بات پر خوش ہوں کہ اُس موقع پر مَیں ماں کے پاس تھی۔‏

یہوواہ کے خدمت میں بھرپور حصہ لینا

سن ۱۹۳۹ میں میرے بھائی رسل نے پائنیر خدمت شروع کی یعنی کُل‌وقتی طور پر تبلیغی کام میں حصہ لینے لگا۔‏ اس نے ۱۹۴۴ تک اس خدمت کو جاری رکھا۔‏ اسکے بعد اسکو یہوواہ کے گواہوں کے دفتر میں جسے بیت‌ایل کہا جاتا ہے خدمت کرنے کی دعوت ملی۔‏ مَیں نے ۲۰ ستمبر،‏ ۱۹۴۱ میں پائنیر خدمت شروع کی اور اسے امریکا کے مختلف علاقوں میں جاری رکھا۔‏ اس خدمت میں مجھے بہت سی خوشیاں حاصل ہوئیں کیونکہ مَیں لوگوں کو یہوواہ کے بارے میں سکھا رہی تھی۔‏ اِس دوران مَیں نے یہوواہ پر پورا بھروسا رکھنا سیکھا۔‏

جب رسل نے پائنیر خدمت شروع کی اُس وقت میرے دوسرے بھائی ویئن نے کچھ دیر نوکری کرنے کے بعد کالج میں داخلہ لے لیا۔‏ بعد میں اُسکو بھی بیت‌ایل میں خدمت کرنے کی دعوت ملی اور وہ بیت‌ایل کے فارم پر خدمت کرنے لگا۔‏ ویئن بہت سال تک جی لگا کر یہوواہ کی خدمت کرتا رہا اور پھر ۱۹۸۸ میں فوت ہو گیا۔‏

میری بہن آردِس کی شادی ہو گئی اور اُسکے پانچ بچے ہوئے۔‏ وہ ۱۹۹۷ میں گزر گئی۔‏ میری دوسری بہن کلارا آج تک یہوواہ کی خدمت کر رہی ہے اور مَیں اپنی چھٹیاں اسکے ساتھ کولوراڈو میں گزارتی ہوں۔‏ میرے سب سے چھوٹے بھائی کرٹس نے ۱۹۴۷ میں بیت‌ایل میں خدمت کرنا شروع کر دی۔‏ وہ وہاں ٹرک چلاتا تھا۔‏ اُس نے کبھی شادی نہیں کی اور ۱۹۷۱ میں وہ بھی فوت ہو گیا۔‏

بیت‌ایل میں خدمت میری دلی خواہش

میرے تینوں بھائی پہلے سے ہی بیت‌ایل میں خدمت کر رہے تھے اور ایسا کرنا میری بھی خواہش تھی۔‏ مجھے یقین ہے کہ بیت‌ایل میں اُنکے اچھے چال‌چلن کی وجہ سے مجھے بھی وہاں خدمت کرنے کا موقع ملا۔‏ ماں اکثر ہمیں خدا کی تنظیم کے بارے میں بتاتی تھی۔‏ اسکے علاوہ مَیں نے بائبل کی پیشینگویوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے پورا ہوتے ہوئے دیکھا۔‏ اسلئے مجھ میں بیت‌ایل میں خدمت کرنے کی خواہش پیدا ہوئی۔‏ مَیں نے یہوواہ سے وعدہ کِیا کہ اگر مجھے بیت‌ایل میں خدمت کرنے کا موقع ملا تو مَیں اس خدمت کو کبھی نہیں چھوڑونگی سوا اسکے کہ مجھے کوئی ایسی مسیحی ذمہ‌داری نبھانی پڑے جسکی وجہ سے مَیں یہ خدمت جاری نہ رکھ سکوں۔‏

مَیں نے ۲۰ جون،‏ ۱۹۴۵ میں بیت‌ایل میں خدمت کرنا شروع کر دی۔‏ مجھے ۱۳ کمروں کی صفائی کرنے،‏ روزانہ ۲۶ بستر بنانے اور سیڑھیوں اور کھڑکیوں کی بھی صفائی کرنے کا کام سونپا گیا۔‏ مجھے بہت محنت کرنی پڑتی تھی جسکی وجہ سے مَیں تھک کر چُور ہو جاتی تھی۔‏ لیکن پھر مَیں دل ہی دل میں سوچتی کہ ”‏مَیں واقعی بہت تھک جاتی ہوں لیکن آخر مَیں خدا کی خدمت کرتے ہوئے تھک رہی ہوں۔‏“‏

ناتھن نار سے میری شادی

سن ۱۹۲۰ سے لے کر ۱۹۵۰ تک اگر کوئی بیت‌ایل میں خدمت کرنے والا شخص شادی کرتا تو وہ بیت‌ایل میں اپنی خدمت جاری نہیں رکھ سکتا تھا۔‏ کئی بہن‌بھائی بیت‌ایل میں بہت سالوں سے کام کرتے آ رہے تھے۔‏ سن ۱۹۵۰ میں اِنکو شادی کرنے کے بعد بیت‌ایل میں رہنے کی اجازت مل گئی۔‏ ناتھن نار دُنیابھر میں منادی کے کام کی نگرانی کر رہے تھے۔‏ جب اُنہوں نے مجھ سے شادی کرنے کی خواہش ظاہر کی تو مَیں نے سوچا کہ وہ ضرور بیت‌ایل میں ہی رہنا چاہینگے۔‏

ناتھن کی بہت سی ذمہ‌داریاں تھیں۔‏ اُنہوں نے مجھ سے کہا کہ شادی کیلئے ہاں کرنے سے پہلے اچھی طرح سے سوچ لیں کیونکہ مجھے دوسرے ملکوں کے برانچ دفتر بھی جانا ہوتا ہے جسکی وجہ سے ہمیں کبھی کبھی کچھ ہفتوں کیلئے جدا رہنا پڑیگا۔‏

جب مَیں چھوٹی تھی تو مَیں موسمِ‌بہار میں شادی کرنے اور ملک ہوائی میں ہنی‌مون منانے کے خواب دیکھا کرتی تھی۔‏ لیکن ہماری شادی ۱۹۵۳ میں جنوری کے مہینے میں ہوئی اور ہم نے نیو جرسی میں دو دن کی ہنی‌مون منائی۔‏ پھر ہم نے ایک ہفتے کیلئے بیت‌ایل میں کام کِیا۔‏ اسکے بعد ہم مزید ایک ہفتے کیلئے ہنی‌مون پر گئے۔‏

ایک محنتی ساتھی

ناتھن نے ۱۹۲۳ میں ۱۸ سال کی عمر میں بیت‌ایل میں خدمت شروع کی تھی۔‏ اُس وقت جوزف رتھرفورڈ دُنیابھر میں منادی کے کام کی نگرانی اور رابرٹ مارٹن چھپائی کے کام کی نگرانی کر رہے تھے۔‏ ناتھن نے ان تجربہ‌کار بھائیوں کیساتھ خدمت کرنے سے بہت کچھ سیکھا۔‏ جب ۱۹۳۲ میں بھائی رابرٹ مارٹن وفات پا گئے تو ناتھن نے انکا کام سنبھال لیا۔‏ اُس سے اگلے سال جب بھائی رتھرفورڈ نے یورپ میں یہوواہ کے گواہوں کے برانچ دفتروں کا دورہ کِیا تو وہ ناتھن کو ساتھ لے گئے۔‏ بھائی جوزف رتھرفورڈ ۱۹۴۲ میں گزر گئے۔‏ اسکے بعد دُنیابھر میں منادی کے کام کی نگرانی ناتھن کو سونپی گئی۔‏

ناتھن ہمیشہ مستقبل کا سوچ کر منصوبے باندھتے رہتے تھے۔‏ کئی بھائیوں کا خیال تھا کہ ایسا کرنا مناسب نہیں کیونکہ ہم آخری دنوں میں رہ رہے ہیں۔‏ ایک بھائی نے ناتھن سے کہا:‏ ”‏یہ کیا،‏ بھائی نار؟‏ کیا آپ ایمان نہیں رکھتے کہ ہم آخری دنوں میں رہ رہے ہیں؟‏“‏ اُنہوں نے جواب دیا کہ ”‏جی‌ہاں،‏ لیکن ہم نہیں جانتے کہ یہ دَور کب تک جاری رہیگا اسلئے ہمیں مزید کام کرنے کیلئے تیار رہنا چاہئے۔‏“‏

ناتھن ایک ایسا سکول قائم کرنا چاہتے تھے جہاں بہن‌بھائیوں کو مشنری بننے کی تعلیم دی جائے۔‏ یکم فروری ۱۹۴۳ میں ایک ایسے سکول کا آغاز ہوا۔‏ مشنری سکول بیت‌ایل کے فارم پر منعقد کِیا گیا جہاں میرا بھائی وئین خدمت کر رہا تھا۔‏ اِس سکول میں طالبعلم پانچ مہینوں کیلئے بائبل کا خوب مطالعہ کرتے تھے۔‏ ناتھن چاہتے تھے کہ سکول کے طالبعلموں کو تفریح کا بھی وقت ملے۔‏ اسلئے انہوں نے مختلف کھیلوں کا بندوبست کِیا۔‏ پہلے پہلے تو ناتھن خود بھی ان کھیلوں میں شامل ہوتے تھے لیکن بعد میں اُنہوں نے حصہ لینا بند کر دیا۔‏ انکو اندیشہ تھا کہ اگر وہ کھیل کے دوران زخمی ہو جائیں تو شاید وہ کنونشنوں پر حاضر نہ ہو پائیں۔‏ اِسلئے ناتھن کھیل کے اَمپائر بن گئے۔‏ جب ناتھن کھیل کے دوران غیرملکی طالبعلموں کو ترجیح دے کر انکے حق میں فیصلہ کرتے تو تمام طالبعلم بہت خوش ہوتے۔‏

ہمارے سفر

شادی کے کچھ عرصے بعد جب ناتھن دوسرے ملکوں کا دورہ کرتے تو مَیں انکے ساتھ سفر کرنے لگی۔‏ دوسرے برانچ دفتروں میں کام کرنے والے بہن‌بھائیوں اور مشنریوں کے تجربے سُن کر مجھے بہت مزہ آتا۔‏ مَیں نے ذاتی طور پر اِنکا پیار اور اِنکی لگن محسوس کی۔‏ مَیں نے دیکھا کہ یہ بہن‌بھائی کن حالات میں رہ کر اپنی خدمت انجام دے رہے ہیں۔‏ مجھے کئی سال تک ایسے خط ملتے رہے جن میں بہن‌بھائیوں نے ان ملاقاتوں کیلئے میرا شکریہ ادا کِیا۔‏

جب مَیں اُن دنوں کے بارے میں سوچتی ہوں تو بہت سے واقعات میرے من میں آتے ہیں۔‏ مثال کے طور پر جب ہم پولینڈ گئے تو مَیں نے دیکھا کہ دو بہنیں ایک دوسرے سے بہت ہی دھیمی آواز میں بات کر رہی تھیں۔‏ جب مَیں نے اِن سے اِسکی وجہ پوچھی تو وہ بتانے لگیں کہ جب پولینڈ میں یہوواہ کے گواہوں کے کام پر پابندی تھی تو سرکاری ملازموں نے انکے گھروں میں مائیکروفون چھپا دئے تھے۔‏ انکے ذریعے وہ اُنکی ہر بات سُن سکتے تھے۔‏ اسلئے وہ بہنیں دھیمی آواز میں بات کرنے کی عادی ہو گئی تھیں۔‏

ایک بہن جسکا نام ایدا تھا اُس وقت پولینڈ میں خدمت کر رہی تھی جب وہاں ہمارے کام پر پابندی لگی ہوئی تھی۔‏ اسکے گھنگرالے بال تھے۔‏ جب اُس نے اپنی پیشانی سے بال ہٹائے تو مجھے ایک گہرے زخم کا نشان نظر آیا جو اُسے ایذا دینے والوں سے ملا تھا۔‏ مجھے ایسے ظالمانہ سلوک کے بارے میں سُن کر بہت صدمہ ہوا۔‏

بیت‌ایل کے علاوہ میری سب سے پسندیدہ جگہ ہوائی کا جزیرہ ہے۔‏ ہم ۱۹۵۷ میں ہوائی کے شہر ہیلو کے کنونشن پر حاضر ہوئے تھے۔‏ یہ ایک بہت ہی یادگار وقت تھا۔‏ کنونشن پر حاضر ہونے والوں کی تعداد ہوائی کے یہوواہ کے گواہوں کی کُل تعداد سے زیادہ تھی۔‏ شہر کے صدر نے ناتھن کو شہر کی چابی دی جو صرف خاص لوگوں کو خوش‌آمدید کہنے کے طور پر دی جاتی ہے۔‏ بہت سے لوگوں نے ہمارا استقبال کرتے ہوئے ہمیں پھولوں کے ہار پہنائے۔‏

ایک اَور یادگار کنونشن جرمنی کے شہر نرن‌برگ میں ۱۹۵۵ میں عین اُس جگہ منعقد ہوا جہان کچھ سال پہلے ہٹلر کے فوجی دستے پریڈ کِیا کرتے تھے۔‏ ہٹلر نے اسی جگہ پر قسم کھائی تھی کہ وہ جرمنی سے یہوواہ کے گواہوں کے نام‌ونشان کو ہمیشہ کیلئے مٹا دیگا۔‏ اور اب اسی جگہ پر ۰۰۰،‏۰۷،‏۱ یہوواہ کے گواہ حاضر تھے۔‏ یہ دیکھ کر میری آنکھیں نم ہو گئیں۔‏ وہاں کا پلیٹ‌فارم بہت بڑا تھا اور اسکے پیچھے ۱۴۴ ستون تھے۔‏ جب مَیں اس پلیٹ‌فارم پر کھڑی تھی تو سٹیڈیم میں اتنے لوگ تھے کہ مجھے پچھلی نشستوں پر بیٹھے ہوئے لوگ نظر نہیں آ رہے تھے۔‏

جرمنی میں رہنے والے یہ بہن‌بھائی ہٹلر کی ظالمانہ حکومت کے دوران یہوواہ کی مدد سے اُسکے وفادار رہے۔‏ اِنکی مثال نے یہوواہ کے وفادار رہنے کے ہمارے اِرادے کو اَور بھی مضبوط بنا دیا۔‏ ناتھن نے کنونشن کی آخری تقریر کے بعد خداحافظ کہنے کیلئے ہاتھ ہلائے اور جواب میں تمام حاضرین اپنے اپنے رُومال ہلانے لگے۔‏ مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے ہزاروں پھول ہوا میں لہرا رہے ہوں۔‏

ناتھن اور مَیں دسمبر ۱۹۷۴ میں ملک پُرتگال کے بھائیوں سے ملنے گئے۔‏ وہاں بھی ہم نے بہت ہی یادگار وقت گزارا۔‏ پچھلے ۵۰ سال سے اس ملک میں ہمارے کام پر پابندی تھی۔‏ جب یہ پابندیاں ہٹا دی گئیں تو وہاں ایک بڑا اجلاس منعقد کِیا گیا جس پر ہم بھی حاضر ہوئے۔‏ اگرچہ اُس وقت ملک میں صرف ۰۰۰،‏۱۴ گواہ تھے لیکن دو اجلاسوں کو ملا کر حاضرین کی کُل تعداد ۰۰۰،‏۴۶ تھی۔‏ جب مَیں نے بھائیوں کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ”‏اب ہمیں چھپ چھپ کر نہیں ملنا پڑیگا کیونکہ ہم آزاد ہیں“‏ تو میری آنکھیں بھر آئیں۔‏

مَیں جہاں کہیں بھی جاتی ہوں اپنے ساتھ رسالے وغیرہ ضرور لے جاتی ہوں۔‏ چاہے مَیں سڑک پر چل رہی ہوں یا پھر کسی ریسٹورنٹ میں کھانا کھا رہی ہوں مَیں ہمیشہ لوگوں سے یہوواہ کے بارے میں بات کرتی ہوں۔‏ ایک مرتبہ جب ہم ہوائی‌اڈے پر جہاز کا انتظار کر رہے تھے تو ایک عورت نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کہاں کام کرتی ہیں؟‏ اِس پر ہماری بات‌چیت شروع ہو گئی اور اِردگِرد کھڑے لوگ بھی ہماری گفتگو سُن رہے تھے۔‏ مَیں بیت‌ایل میں خدمت کرنے اور منادی کے کام میں مصروف رہنے سے بہت ہی خوش رہتی ہوں۔‏

ناتھن کی بیماری

سن ۱۹۷۶ میں ناتھن کو کینسر ہو گیا۔‏ اس بیماری سے نپٹنے کیلئے میرے ساتھ ساتھ بیت‌ایل کے بہن‌بھائیوں نے ناتھن کی تیمارداری کی۔‏ ناتھن کی طبیعت خراب ہونے کے باوجود ہم دوسرے برانچ دفتروں سے آئے ہوئے بہن‌بھائیوں کو اپنے کمرے میں آنے کی دعوت دیا کرتے تھے۔‏ خاص‌کر اُن بھائیوں کے تجربوں کو سُن کر ہم بہت متاثر ہوتے تھے جو پابندیوں کے باوجود یہوواہ کی خدمت کر رہے تھے۔‏

جب ناتھن کو یقین ہو گیا کہ اُنکی موت قریب ہے تو اُنہوں نے مجھ سے کہا:‏ ”‏ہماری شادی بہت کامیاب اور خوشیوں سے بھرپور رہی ہے۔‏ یہ تمام لوگوں کے نصیب میں نہیں ہوتا۔‏“‏ ہماری شادی کی کامیابی کی ایک وجہ یہ تھی کہ ناتھن دوسروں کے احساسات کا خیال رکھتے تھے۔‏ مثال کے طور پر ایک بار ناتھن نے مجھ سے کہا:‏ ”‏اگر کسی سے ہماری ملاقات ہوتی ہے اور مَیں تُم سے اُنکا تعارف نہیں کراتا تو یہ اِسلئے ہے کیونکہ مَیں اُنکا نام بھول گیا ہوں۔‏“‏ مَیں اُنکی بہت شکرگزار تھی کہ وہ مجھے پہلے سے ہی ایسی باتیں بتا دیا کرتے تھے۔‏

ناتھن نے مجھے یاد دِلایا کہ ”‏چاہے ہم آسمان میں یا زمین پر جی‌اُٹھنے کی اُمید رکھتے ہیں ہمیں کبھی دوبارہ تکلیف برداشت نہیں کرنی پڑیگی۔‏“‏ مرنے سے پہلے ناتھن نے مجھے اپنے بیوہ ہونے کے وقت کیلئے بہت اچھے مشورے دئے۔‏ اُنہوں نے کہا:‏ ”‏نظر آگے کی طرف رکھو کیونکہ وہاں تمہارا انعام ہے۔‏ یادیں تو ہونگی لیکن گزرے ہوئے کل کی یادوں میں مت جینا۔‏ اپنے دل کو غم سے مت بھرنا۔‏ وقت گزرنے کیساتھ ساتھ جدائی کا درد کم ہو جائیگا۔‏ گزرے ہوئے عرصے میں تُم نے بہت ساری خوشیاں اور برکتیں حاصل کی ہیں۔‏ ایسی یادیں یہوواہ کی طرف سے ایک تحفہ ہیں۔‏ اپنی زندگی دوسروں کیلئے صرف کرنا۔‏ اِس سے تمہیں خوشی حاصل ہوگی۔‏“‏ ناتھن ۱۹۷۷ میں جون کے آٹھویں روز اس دُنیا سے رخصت ہو گئے۔‏

گلن ہائیڈ سے شادی

ناتھن نے مجھ سے کہا تھا کہ تُم اپنے گزرے ہوئے کل کی یادوں میں مت جینا۔‏ اِسلئے ۱۹۷۸ میں مَیں نے گلن ہائیڈ سے شادی کر لی۔‏ وہ بہت ہی خوش‌شکل اور نرم مزاج شخص تھے۔‏ یہوواہ کے گواہ بننے سے پہلے وہ امریکی بحریہ میں تھے۔‏ یہ اس وقت کی بات ہے جب امریکہ جاپان کیساتھ جنگ لڑ رہا تھا۔‏

تب گلن ایک سمندری جہاز پر اس کمرے میں کام کرتے تھے جہاں انجن تھا۔‏ انجن کے شور کی وجہ سے اُنکو کم سنائی دینے لگا تھا۔‏ جنگ کے بعد انہوں نے آگ بجھانے کا پیشہ اختیار کِیا۔‏ جنگ میں اُنہوں نے جو کچھ دیکھا تھا اسکی وجہ سے اُنکو بعد میں کئی سال تک بُرے خواب آتے رہے۔‏ اُنہوں نے اپنی سکریٹری سے بائبل کی سچائیوں کے بارے میں سیکھا۔‏

سن ۱۹۶۸ میں گلن کو بیت‌ایل آ کر آگ بجھانے کا کام کرنے کی دعوت دی گئی۔‏ جب بیت‌ایل فارم کو آگ بجھانے والی گاڑی ملی تو گلن وہاں کام کرنے لگے۔‏ بعد میں اُنکو الزیمز کی بیماری ہو گئی۔‏ ہماری شادی کو دس ہی سال ہوئے تھے کہ گلن بھی گزر گئے۔‏

مَیں اِس صورتحال سے کیسے نپٹ سکتی تھی؟‏ ناتھن نے مجھے اپنے بیوہ ہونے کے وقت کیلئے جو مشورے دئے تھے ان سے مجھے دوبارہ بہت تسلی ملی۔‏ آج بھی مَیں اُن لوگوں کو یہ باتیں سناتی ہوں جنکی بیوی یا جنکا خاوند فوت ہو گئے ہوں۔‏ جی‌ہاں،‏ جیسے ناتھن نے کہا تھا آگے کی طرف دیکھنا بہت اچھی بات ہوتی ہے۔‏

ایک بہت پیارا بھائی‌چارا

بیت‌ایل میں میرے بہت سے دوست ہیں جنکی وجہ سے مَیں نے اپنی زندگی میں خوشیاں اور تسلی پائی ہے۔‏ میری ایک خاص سہیلی کا نام آستر لوپز ہے۔‏ اس نے ۱۹۴۴ میں مشنری کے سکول میں تعلیم حاصل کی تھی۔‏ آستر ۱۹۵۰ میں بیت‌ایل آ گئی اور وہاں ہمارے رسالوں اور کتابوں کا ترجمہ ہسپانوی زبان میں کرنے لگی۔‏ جب ناتھن برانچ دفتروں کا دورہ کرتے تھے تو مَیں آستر کیساتھ اپنا وقت گزارتی تھی۔‏ اب آستر تقریباً ۹۵ سال کی ہے اور وہ بیت‌ایل فارم پر رہتی ہے جہان اُسکی دیکھ‌بھال کی جاتی ہے۔‏

میرے خاندان میں سے صرف رسل اور کلارا ابھی تک زندہ ہیں۔‏ رسل اب ۹۰ سال کے ہیں اور بیت‌ایل میں خدمت کر رہے ہیں۔‏ رسل نے ۱۹۵۲ میں جین سے شادی کر لی جو اُس وقت خود بیت‌ایل میں خدمت کر رہی تھیں۔‏ انکو بھی شادی کرنے کے بعد بیت‌ایل میں رہنے کی اجازت ملی تھی۔‏ جین کے بھائی میکس ۱۹۳۹ میں بیت‌ایل آئے اور ناتھن کے بعد وہ چھپائی کے کام کو سنبھالنے لگے۔‏ میکس آج بھی بہت سی ذمہ‌داریاں نمٹا رہے ہیں اور اسکے ساتھ ساتھ اپنی بیوی ہیلن کی دیکھ‌بھال کرتے ہیں جو سخت بیمار ہیں۔‏

مَیں پچھلے ۶۳ سال سے کُل‌وقتی طور پر یہوواہ کی خدمت کر رہی ہوں اور ایسا کرنے سے مجھے بہت سی خوشیاں ملی ہیں۔‏ بیت‌ایل میرا گھر بن چکا ہے اور مَیں دلی خوشی سے یہاں خدمت کر رہی ہوں۔‏ مَیں اپنے والدین کی شکرگزار ہوں کہ انہوں نے ہمیں محنت کرنے کی اہمیت سکھائی اور یہوواہ خدا کی خدمت کرنے کی ہمارے دل میں خواہش پیدا کی۔‏ ہمارا بھائی‌چارا کتنا ہی اچھا ہے!‏ اسکی وجہ سے ہمیں زندگی کی اونچ‌نیچ میں تسلی ملتی ہے۔‏ اور یہ اُمید کتنی حوصلہ‌افزا ہے کہ ایک دن ہم اپنے پیارے بہن‌بھائیوں کیساتھ ملکر ہمیشہ کیلئے اپنے عظیم خالق یہوواہ کی خدمت کرینگے۔‏

‏[‏صفحہ ۲۴ پر تصویر]‏

میرے والدین اپنی شادی کے موقع پر (‏جون ۱۹۱۲)‏

‏[‏صفحہ ۲۴ پر تصویر]‏

بائیں سے دائیں:‏ رسل،‏ وئین،‏ کلارا،‏ آردِس،‏ مَیں اور کرٹس (‏۱۹۲۷ میں)‏

‏[‏صفحہ ۲۵ پر تصویر]‏

۱۹۴۴ میں جب مَیں پائنیر تھی،‏ مَیں دو سہیلیوں کے درمیان کھڑی ہوں

‏[‏صفحہ ۲۵ پر تصویر]‏

سن ۱۹۵۱،‏ بیت‌ایل میں۔‏ بائیں سے دائیں:‏ مَیں،‏ آستر اور میری بھابی جین

‏[‏صفحہ ۲۶ پر تصویر]‏

مَیں،‏ ناتھن اور اُسکے والدین کیساتھ

‏[‏صفحہ ۲۶ پر تصویر]‏

۱۹۵۵ میں ناتھن کیساتھ

‏[‏صفحہ ۲۷ پر تصویر]‏

ناتھن کیساتھ ملک ہوائی میں

‏[‏صفحہ ۲۹ پر تصویر]‏

اپنے دوسرے شوہر گلن کے ہم‌راہ