’وہ وہاں سے جہاز پر کُپرس کو چلے‘
’وہ وہاں سے جہاز پر کُپرس کو چلے‘
ان الفاظ سے کتابِمقدس میں پولس، برنباس اور مرقس کے ایک سفر کا بیان شروع ہوتا ہے۔ وہ ۴۷ س.ع. میں خدا اور اُسکی بادشاہت کے بارے میں مُنادی کرنے کیلئے کُپرس یعنی قبرص روانہ ہوئے جو بحیرۂروم میں واقع ایک جزیرہ ہے۔ (اعمال ۱۳:۴) مگر اس سفر کے بارے میں پڑھنے سے پہلے آئیے اِس جزیرے کی تاریخ پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
قبرص کی تاریخ سے پتا چلتا ہے کہ یہ بہت سی قوموں کے قبضے میں رہ چکا تھا۔ رومی سلطنت نے ۵۸ ق.س.ع. میں اِس ٹاپو کو اپنے قبضے میں لے لیا اور یہ پولس رسول کے زمانے میں بھی رومیوں کے اختیار میں تھا۔ رومی سلطنت کے بعد بھی کئی ملکوں نے اس پر اپنی حکومت چلائی۔ آخرکار ۱۹۱۴ میں برطانیہ نے اس جزیرے کی عملداری اپنے ہاتھوں میں لے لی اور ۱۹۶۰ میں قبرص کی آزادی تک اسکی باگڈور سنبھالی۔
آجکل بہت سے سیاح اس خوبصورت جزیرے کی سیر کرنے آتے ہیں اور یہ قبرص کی آمدنی کا خاص ذریعہ ہے۔ لیکن پولس کے زمانے میں قبرص تانبا کی کانوں کیلئے مشہور تھا۔ رومی سلطنت نے ان کانوں کا پوراپورا فائدہ اُٹھایا۔ کچھ تاریخدانوں کے مطابق رومیوں نے قبرص سے تقریباً ۰۰۰،۵۰،۲ ٹن تانبا نکالا۔ تانبے کو بھٹوں میں پگھلوانے کیلئے کروڑوں درختوں کو ایندھن کے طور پر استعمال
کِیا گیا۔ نتیجتاً پولس کے دنوں تک اس جزیرے کے گھنے جنگلات نیست ہو چکے تھے۔رومی سلطنت کا دَور
رومی قیصر جولیس نے قبرص کو مصر کے حکمران کو تحفے کے طور پر دے دیا۔ مگر رومی شہنشاہ اوگوستُس کے زمانے میں قبرص ایک بار پھر رومی سلطنت کے قبضے میں آ گیا۔ رومی سلطنت نے وہاں صوبہداروں کو ٹھہرایا۔ جب پولس اس جزیرے پر پہنچا تب وہاں کے رومی صوبہدار کا نام سرگیس پولس تھا۔—اعمال ۱۳:۷۔
رومی سلطنت نے اپنے سبھی صوبوں میں خوشحالی اور امن کو بڑھایا۔ رومی فوج کے سائے میں قبرص میں تانبے کے بےشمار کارخانے اُبھرنے لگے۔ اسطرح ملک کی آمدنی بڑھتی گئی۔ آمدنی کا ایک اَور ذریعہ وہ لوگ تھے جو افروڈائٹی دیوی کے مندر کی زیارت کیلئے قبرص آتے تھے۔ افروڈائٹی کے علاوہ یہاں اپالو اور زیوس دیوتاؤں کی بھی پوجا ہوتی تھی۔ نتیجتاً یہاں لمبی چوڑی سڑکیں، بڑی بڑی بندرگاہیں اور عالیشان عمارتیں بنائی گئیں۔ روم کے شہنشاہ کو بھی ایک دیوتا مانا جاتا تھا۔ رومی اختیار میں ہونے کے باوجود قبرص میں یونانی زبان سرکاری زبان رہی۔ عام طور پر لوگ یہاں عیشوآرام کی زندگی بسر کرتے تھے۔
پولس انہی لوگوں کو یسوع مسیح کے بارے میں بتانے کیلئے اس جزیرے پر آیا۔ مگر پولس کے آنے سے پہلے بھی یہاں مسیح کی منادی ہو رہی تھی۔ کتابِمقدس بتاتی ہے کہ ستفنس کی موت کے بعد یروشلیم میں مسیحیوں پر ظلم ٹوٹ پڑا۔ اس اذیت سے بچنے کیلئے کچھ مسیحی وہاں سے قبرص آئے اور تبلیغ کرنے لگے تھے۔ (اعمال ۱۱:۱۹) دراصل پولس کا ساتھی برنباس اُسی جزیرے کا شہری تھا۔ وہ اس علاقے سے اچھی طرح سے واقف تھا اور اسلئے اس سفر میں پولس کے بہت کام آیا ہوگا۔—اعمال ۴:۳۶؛ ۱۳:۲۔
پولس کا دورہ
پولس نے قبرص میں کہاں کہاں سفر کِیا اسکا ہم محض اندازہ لگا سکتے ہیں۔ لیکن رومی حکومت کے دوران یہاں پر بڑی بڑی شاہراہیں تعمیر کی گئیں جو آج تک موجود ہیں۔ عموماً پولس نے انہی شاہراہوں پر سفر کِیا ہوگا۔ اسلئے تاریخدان ایک حد تک اندازہ لگا سکتے ہیں کہ پولس نے اپنا سفر کن مرحلوں میں طے کِیا ہوگا۔
اُس وقت قبرص کا دارالحکومت پافس تھا جو اس جزیرے کی سب سے بڑی بندرگاہ بھی تھی۔ مگر پولس اور اُسکے ساتھی ملک سوریہ (ارام) سے روانہ ہو کر سیدھا پافس نہیں آئے بلکہ وہ شہر سلامس کی بندرگاہ پر اُترے۔ کیوں؟ اسلئے کہ سلامس سوریہ سے صرف اعمال ۱۳:۵۔
۱۲۰ میل کی دُوری پر تھا۔ سلامس تعلیموتہذیب کا مرکز تھا اور یہاں کافی یہودی بھی آباد تھے۔ اسلئے پولس اور اُسکے ساتھی پہلے سلامس آ کر ’یہودیوں کے عبادتخانوں میں خدا کا کلام سنانے لگے۔‘—آج سلامس کے کھنڈرات ہی باقی بچے ہیں۔ مگر پولس کے زمانے میں یہ ایک بہت ہی شاندار شہر تھا۔ یہاں کا بازار تمام رومی سلطنت کا سب سے بڑا بازار تھا۔ اس کے علاوہ یہاں شاہانہ محل، عوام کے لئے شاندار غسلخانے، بڑی بڑی ورزشگاہیں اور ایک بڑا سٹیڈیم بھی تھا۔ شہر کا تھیئٹر اتنا بڑا تھا کہ اس میں تقریباً ۰۰۰،۱۵ لوگ بیٹھ سکتے تھے۔ پاس ہی زیوس دیوتا کا ایک عالیشان مندر بھی تھا۔
مگر زیوس دیوتا اس شہر کو زلزلوں سے بچا نہیں سکا۔ سن ۱۵ ق.س.ع. میں ایک بڑے زلزلے نے اس شہر کو تہسنہس کر دیا۔ رومی شہنشاہ اوگوستُس نے اسے دوبارہ تعمیر کِیا۔ لیکن ۷۷ س.ع. میں ایک اَور زلزلے نے اس شہر میں تباہی مچا دی۔ اسکے بعد اس شہر کو ایک بار پھر بنوایا گیا۔ آخرکار چوتھی صدی میں ایک کے بعد ایک زلزلے کی وجہ سے سلامس شہر میں نیستی چھا گئی۔ کچھ صدیوں بعد اسکی بندرگاہ بھی ریت اور میل سے اٹ کر بیکار پڑ گئی۔
کتابِمقدس یہ نہیں بتاتی ہے کہ سلامس میں کتنے لوگ پولس کی بات سُن کر مسیحی بنے۔ سلامس سے پولس نے کس راہ سے پافس جانے کا انتخاب کِیا؟ وہ شمالی شاہراہ پر سفر کر سکتا تھا لیکن یہ پہاڑی علاقہ خاصا دشوار تھا۔ ایک دوسری شاہراہ مغرب کی سمت میں تھی جو میدانی علاقہ تھا۔ لیکن تاریخدانوں کا خیال ہے کہ پولس ایک اَور شاہراہ سے پافس پہنچا۔
وہ کہتے ہیں کہ پولس پہلے تو سلامس سے شہر لرنکا گیا جو قبرص کے جنوبی ساحل پر واقع ہے۔ یہ علاقہ اپنی لال مٹی کیلئے مشہور ہے۔ شاہراہ ہرےبھرے کھیتوں سے گزرتی ہوئی لرنکا تک پہنچتی تھی۔
تمام ٹاپو کا دورہ
تاریخدانوں کا اندازہ ہے کہ پولس اور اُسکے ساتھی شہر لرنکا سے ہوتے ہوئے ٹاپو کے بیچ لیدرا نامی شہر پہنچے تھے۔ ایک کتاب کے مطابق ”وہ قبرص کی تمام یہودی بستیوں میں منادی کرنے گئے تمام ٹاپو میں ہوتے ہوئے پافسؔ تک پہنچے۔“ (اعمال ۱۳:۶) لیدرا جو آج نکوسیا کہلاتا ہے جدید قبرص کا دارالحکومت ہے۔ نکوسیا میں آج تک ایک سڑک ہے جو ”لیدرا سٹریٹ“ کہلاتی ہے۔ اس شہر کی اُونچی شہرپناہ ۱۶ویں صدی میں بنائی گئی تھی۔
ہونگے۔“ کتابِمقدس بھی کہتی ہے کہ پولس اور اُسکے ساتھی ”اُسہم جانتے ہیں کہ پولس بہت سے لوگوں کو بادشاہت کے بارے میں سنانا چاہتا تھا۔ اسلئے ہو سکتا ہے کہ وہ لیدرا سے اماتھس اور کوریون کی طرف گئے ہوں۔ یہ بھی بڑے بڑے شہر تھے۔
کوریون سمندر کے کنارے بسا ایک مالدار اور مشہور شہر تھا۔ یہاں کے عالیشان بنگلوں کے کھنڈروں سے اس شہر کی شانوشوکت کی ایک جھلک ملتی ہے۔ یہ شہر بھی ۷۷ س.ع. میں اُسی زلزلے کا شکار ہوا جس میں سلامس شہر کی تباہی ہوئی تھی۔ یہاں اپالو دیوتا کا ایک مندر اور ایک ایسا بڑا سٹیڈیم بھی تھا جس میں تقریباً ۰۰۰،۶ لوگ بیٹھ سکتے تھے۔
پافس کی طرف
شہر پافس کوریون کی مغربی سمت میں واقع ہے۔ پولس اور اُسکے ساتھی انگور کے تاکستانوں سے گزرتے ہوئے اس ساحلی علاقے سے پافس تک پہنچے ہونگے۔ یونانی کہانیوں کے مطابق پافس کے سمندر کے کنارے افروڈائٹی دیوی کا جنم ہوا تھا۔
دراصل پافس کو افروڈائٹی دیوی کا شہر مانا جاتا تھا اور وہاں موسمِبہار میں اس کی عید منائی جاتی تھی۔ لوگ ترکی، مصر، یونان اور ایران سے یہاں زیارت کے لئے آتے تھے۔ جب قبرص مصر کے بطلیموس کے ہاتھ میں آیا تو یہاں کے لوگوں نے فرعون کی پوجہ کرنی شروع کر دی۔
رومی زمانے میں پافس قبرص کا دارالحکومت تھا۔ یہیں روم کا صوبہدار بھی رہتا تھا۔ یہاں تانبے کے سکے بنائے جاتے تھے۔ یہ ایک ایسا حق تھا جو صرف خاص شہروں کو حاصل تھا۔ سلامس کی طرح ۱۵ ق.س.ع. میں یہاں بھی زلزلے نے تباہی مچا دی تھی اور رومی شہنشاہ اوگوستُس نے اسے دوبارہ تعمیر کِیا۔ یہاں کے لوگ بہت امیر تھے اور عیشوآرام کی زندگی گزارتے تھے۔ لمبی چوڑی سڑکیں، بڑے بڑے بنگلے، موسیقی کے سکول، ورزشگاہیں اور ایک بڑا تھیئٹر اس شہر کی شان بڑھاتے تھے۔
پافس میں ہی پولس اور اُسکے ساتھیوں کی ملاقات رومی صوبہدار سرگیس پولس کیساتھ ہوئی۔ کتابِمقدس کہتی ہے کہ وہ ایک عقلمند اور ”صاحبِتمیز آدمی“ تھا۔ ”اس نے برؔنباس اور ساؔؤل کو بلا کر خدا کا کلام سننا چاہا۔“ الیماس نام کے ایک جادوگر نے صوبہدار کو ایمان لانے سے روکنے کی کوشش کی لیکن وہ کامیاب نہ رہا۔ صوبہدار ’یہوواہ کی تعلیم سے حیران ہو کر ایمان لے آیا۔‘—اعمال ۱۳:۶-۱۲۔
قبرص میں اپنا تبلیغی دورہ ختم کرنے کے بعد پولس اور اُسکے ساتھیوں نے ترکی کا رُخ کِیا۔ ایک کتاب کے مطابق یہ ”پولس کے تبلیغی دوروں کا پہلا دورہ تھا اور قبرص اس دورے کا پہلا مرحلہ تھا۔ . . . قبرص تمام سمندری شاہراہوں کا مرکز تھا اسلئے حیرانی کی بات نہیں کہ پولس نے اس جزیرے کو اپنے پہلے دورے کیلئے چنا۔“ آج اس واقعہ کے ۲۰ صدیوں بعد یہوواہ کے گواہ پولس کے نقشِقدم پر چلتے ہوئے قبرص میں یہوواہ اور اُسکی سلطنت کے بارے میں منادی جاری رکھ رہے ہیں۔ واقعی بادشاہت کی خوشخبری ”زمین کی انتہا تک“ سنائی جا رہی ہے۔—اعمال ۱:۸۔
[صفحہ ۲۰ پر نقشے]
(تصویر کے لئے چھپے ہوئے صفحے کو دیکھیں)
قبرص
نکوسیا (لیدرا)
سلامس
پافس
کوریون
اماتھس
لرنکا
کیرینیا کے پہاڑ
میساؤریا کی سطح
ٹروُدَوس کے پہاڑ
[صفحہ ۲۱ پر تصویر]
پولس نے پافس میں رُوحاُلقدس کی مدد سے الیماس نامی جادوگر کو اندھا کر دیا