مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

زندگی کا مقصد کیا ہے؟‏

زندگی کا مقصد کیا ہے؟‏

زندگی کا مقصد کیا ہے؟‏

‏”‏عیش کرنا،‏ مرتے دَم تک عیش ہی عیش کرنا!‏“‏ جسے نامی ایک ۱۷ سالہ طالبعلم زندگی کے مقصد کے بارے میں یہ رائے رکھتا ہے۔‏ اسکے برعکس سوزی کہتی ہے کہ ”‏آپ اپنی زندگی کو جو بھی مقصد دینگے وہی اسکا مقصد ہوگا۔‏“‏

ہر شخص کی زندگی میں ایک ایسا مرحلہ ضرور آتا ہے جب وہ خود سے زندگی کے مقصد کے بارے میں پوچھتا ہے۔‏ کیا تمام انسانوں کیلئے زندگی کا مقصد مقرر کِیا گیا ہے؟‏ یا پھر کیا سوزی کی سوچ درست ہے کہ ہم اپنی زندگی کیلئے خود ایک مقصد ٹھہرا سکتے ہیں؟‏ معاشرہ کتنی ہی ترقی کر لے ہم پھر بھی زندگی کے مقصد کی کھوج لگانے کے بغیر مطمئن نہیں ہوتے ہیں۔‏

سائنس‌دانوں نے بھی زندگی کے مقصد کو دریافت کرنے کی کوشش کی ہے۔‏ وہ کس نتیجے پر پہنچے ہیں؟‏ باراش نامی ایک پروفیسر کہتے ہیں کہ ”‏ہم ایک خالق کے وجود کو نہیں مانتے اسلئے زندگی کا کوئی خصوصی مقصد بھی نہیں ہے۔‏“‏ ایسے سائنس‌دان جو خدا کے وجود کا انکار کرتے ہیں انکے نزدیک زندگی کا واحد مقصد زندہ رہنا اور اپنی نسل کو بڑھانا ہے۔‏ لہٰذا پروفیسر باراش کہتے ہیں کہ ”‏اس وسیع کائنات کے وجود کا کوئی مقصد نہیں۔‏ یہ تو ہر انسان کی ذمہ‌داری ہے کہ وہ سوچ‌سمجھ کر اپنے لئے ایک مقصدِزندگی مقرر کرے۔‏“‏

خالق کو نظرانداز نہ کیجئے!‏

کیا یہ واقعی درست ہے کہ زندگی کا واحد مقصد اپنی مرضی بجا لانا ہے؟‏ خدا کے کلام سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ اس نے ہمیں خلق کِیا ہے۔‏ ہم مادے میں تبدیلیاں ہونے کی وجہ سے خودبخود وجود میں نہیں آئے۔‏ ہمارے خالق نے سینکڑوں سال لگا کر زمین کو ہمارے لئے تیار کِیا۔‏ اس نے ہر ایک کام بڑی ترتیب سے کِیا تاکہ سب کچھ ”‏بہت اچھا“‏ ہو۔‏ (‏پیدایش ۱:‏۳۱؛‏ یسعیاہ ۴۵:‏۱۸‏)‏ اس سے ہم جان سکتے ہیں کہ خدا نے انسان کو ایک مقصد کیلئے خلق کِیا تھا۔‏

دلچسپی کی بات ہے کہ خدا نے یہ مقرر نہیں کِیا کہ ہر شخص مستقبل میں کیا کریگا یا اُسکے ساتھ کیا واقع ہوگا۔‏ بعض لوگوں کا دعویٰ ہے کہ ہم پر اپنے آباواجداد کا اثر ہوتا ہے۔‏ یہ دعویٰ ایک حد تک درست ہے لیکن ہم زندگی میں کونسی راہ اختیار کرینگے یہ آخرکار ہمارا اپنا ہی فیصلہ ہوتا ہے۔‏

خدا نے ہمیں اپنی راہ خود اختیار کرنے کی آزادی دی ہے۔‏ لیکن اسکا مطلب یہ نہیں کہ ہمیں فیصلے کرتے وقت اپنے خالق کو نظرانداز کرنا چاہئے۔‏ دراصل بہت لوگوں نے یہ تجربہ کِیا ہے کہ زندگی کا مقصد خدا کے نزدیک جانے میں پایا جاتا ہے۔‏ اس بات کا ثبوت ہمیں خدا کے ذاتی نام یہوواہ سے ملتا ہے جسکا لفظی مطلب ہے ”‏وہ وجود میں لانے کا سبب بنتا ہے۔‏“‏ (‏خروج ۶:‏۳؛‏ زبور ۸۳:‏۱۸‏)‏ یہوواہ خدا کے نام سے پتا چلتا ہے کہ وہ جس بات کا وعدہ کرتا ہے اسے پورا بھی کرتا ہے۔‏ وہ ہر چیز کا مقصد ٹھہرانے والا ہے۔‏ (‏خروج ۳:‏۱۴؛‏ یسعیاہ ۵۵:‏۱۰،‏ ۱۱‏)‏ ذرا سوچئے،‏ خدا کا ذاتی نام اس بات کی ضمانت ہے کہ اس نے ہمیں ایک مقصد کیلئے خلق کِیا ہے۔‏

جب ایک شخص خالق کے وجود کو مان لیتا ہے تو اس سے اسکے نظریے پر گہرا اثر پڑتا ہے۔‏ لی‌نیٹ نامی ایک ۱۹ سالہ لڑکی کہتی ہے کہ ‏”‏یہوواہ نے طرح طرح کی عجیب‌وغریب چیزیں خلق کی ہیں جنکا کوئی نہ کوئی مقصد ضرور ہوتا ہے۔‏ اسلئے مجھے یقین ہے کہ میری زندگی کا بھی ایک مقصد ہے۔‏“‏ ایک اَور لڑکی امبر نے کہا:‏ ”‏کئی لوگ خدا کے وجود میں شک کرتے ہیں۔‏ لیکن مَیں جانتی ہوں کہ خدا موجود ہے۔‏ یہ بات تو اسکی بنائی ہوئی چیزوں سے صاف ظاہر ہوتی ہے۔‏“‏ (‏رومیوں ۱:‏۲۰‏)‏ زندگی کے مقصد کا کھوج لگانے کیلئے خدا کے وجود کو تسلیم کرنا ہی کافی نہیں ہوتا بلکہ ہمیں خدا کے نزدیک بھی جانا چاہئے۔‏ مگر ہم اپنے پروَردگار کے نزدیک کیسے جا سکتے ہیں؟‏

خدا کے نزدیک جانا

ایسا کرنے میں خدا کا کلام ہماری مدد کرتا ہے۔‏ ہم اس میں پڑھتے ہیں کہ یہوواہ خدا ایک ایسے باپ کی مانند ہے جو اپنے بچوں سے بہت پیار کرتا ہے۔‏ اس نے آدم اور حوا کو خلق کرکے اُنہیں تنہا نہیں رہنے دیا۔‏ یہوواہ چاہتا تھا کہ وہ اسکے قریب جائیں۔‏ اسلئے وہ روزانہ ان سے باتیں کرتا تھا۔‏ خدا نے انکی راہنمائی بھی کی تاکہ وہ کامیاب اور خوش ہو سکیں۔‏ اسکے علاوہ خدا نے آدم اور حوا کو ذمہ‌داریاں بھی سونپی اور انہیں اپنے علم میں اضافہ کرنے کے موقعے بھی فراہم کئے۔‏ (‏پیدایش ۱:‏۲۶-‏۳۰؛‏ ۲:‏۷-‏۹‏)‏ ان باتوں سے ہم یہوواہ خدا کے بارے میں کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏ دینی‌ایلی نامی ایک لڑکی کہتی ہے:‏ ”‏مَیں جانتی ہوں کہ خدا ہمیں خوش دیکھنا چاہتا ہے۔‏ اس بات کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ اس نے نہ صرف زمین کو ہمارے لئے تیار کِیا ہے بلکہ ہمیں اس پر زندگی سے لطف‌اندوز ہونے کی صلاحیت بھی دی ہے۔‏“‏

ایک اچھا باپ چاہتا ہے کہ اس کے بچے اسے ایک دوست کی طرح سمجھیں۔‏ اسی طرح یہوواہ خدا بھی چاہتا ہے کہ اسکے خادم بےتکلّفی سے اسکے نزدیک جائیں۔‏ اسلئے اعمال ۱۷:‏۲۷ میں لکھا ہے کہ خدا ”‏ہم میں سے کسی سے دُور نہیں۔‏“‏ اسکا کیا مطلب ہے؟‏ امبر کہتی ہے:‏ ”‏مَیں جانتی ہوں کہ یہوواہ خدا ہمیشہ میرے ساتھ ہے۔‏ چاہے کچھ بھی ہو وہ مجھے سہارا دینے کو تیار ہے۔‏“‏ جوں جوں آپ یہوواہ خدا کی شخصیت سے واقف ہونگے آپ جان جائینگے کہ وہ مہربان اور انصاف‌پسند ہے۔‏ آپ اس پر تکیہ کر سکتے ہیں۔‏ جیف نامی ایک آدمی کہتا ہے کہ ”‏جب مَیں یہوواہ کے نزدیک گیا تو وہ میرے لئے ایک اچھے دوست کی طرح بن گیا۔‏ مَیں جانتا ہوں کہ یہوواہ ہر لمحہ میری مدد کرنے کو تیار ہے۔‏“‏

بہتیرے لوگ خدا کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہی دُکھ اور تکلیفیں لاتا ہے۔‏ اسکے علاوہ خدا کو ایسے لوگوں کی بُری حرکتوں کا بھی ذمہ‌دار ٹھہرایا جاتا ہے جو مذہبی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔‏ اور جب بھی بڑی سطح پر کوئی وحشیانہ خون‌ریزی ہوتی ہے تو لوگ کہتے ہیں کہ یہ خدا کی مرضی سے ہوا ہے۔‏ لیکن یہ الزامات غلط ہیں۔‏ استثنا ۳۲:‏۴،‏ ۵ میں لکھا ہے کہ خدا ”‏کی سب راہیں انصاف کی ہیں۔‏ .‏ .‏ .‏ لوگ اُسکے ساتھ بُری طرح سے پیش آئے۔‏ یہ اُسکے فرزند نہیں۔‏ یہ اُنکا عیب ہے۔‏“‏ ہم ان وحشیانہ حرکتوں کیلئے کس کو ذمہ‌دار ٹھہرائینگے؟‏—‏استثنا ۳۰:‏۱۹،‏ ۲۰‏۔‏

خدا کے مقصد کی تکمیل

چاہے ہم اس سلسلے میں کوئی بھی فیصلہ کریں ایک بات اٹل ہے اور وہ یہ کہ خدا کا ہاتھ کوئی نہیں روک سکتا۔‏ یہوواہ خدا نے اس زمین اور انسان کیلئے جو مقصد مقرر کِیا ہے وہ اسے پورا بھی کریگا۔‏ لیکن یہ مقصد ہے کیا؟‏ یسوع مسیح نے اس مقصد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اپنے پہاڑی وعظ میں کہا کہ ”‏مبارک ہیں وہ جو حلیم ہیں کیونکہ وہ زمین کے وارث ہونگے۔‏“‏ اسکے کچھ عرصہ بعد یسوع نے اپنے شاگرد یوحنا سے کہا کہ خدا ”‏زمین کے تباہ کرنے والوں کو تباہ“‏ کریگا۔‏ (‏متی ۵:‏۵؛‏ مکاشفہ ۱۱:‏۱۸‏)‏ جس وقت یہوواہ خدا نے کائنات کو خلق کِیا یسوع اسکے پاس ہی تھا۔‏ اسلئے وہ جانتا ہے کہ خدا نے انسان کو عیب کے بغیر بنایا تھا۔‏ یسوع یہ بھی جانتا ہے کہ خدا نے انسان کو ایک فردوس‌نما زمین پر ہمیشہ کیلئے زندہ رہنے کیلئے بنایا ہے۔‏ (‏پیدایش ۱:‏۲۶،‏ ۲۷؛‏ یوحنا ۱:‏۱-‏۳‏)‏ اور خدا لاتبدیل ہے۔‏ (‏ملاکی ۳:‏۶‏)‏ وہ وعدہ کرتا ہے کہ ”‏یقیناً جیسا مَیں نے چاہا ویسا ہی ہو جائیگا اور جیسا مَیں نے ارادہ کِیا ہے ویسا ہی وقوع میں آئیگا۔‏“‏—‏یسعیاہ ۱۴:‏۲۴‏۔‏

آجکل زیادہ‌تر لوگ خودغرض اور لالچی ہیں۔‏ لیکن یہوواہ خدا ایک ایسی برادری کی بنیاد ڈال رہا ہے جسکے تمام رُکن خدا اور اپنے پڑوسی کیلئے محبت رکھتے ہیں۔‏ اس وجہ سے ان میں اتحاد بھی ہے۔‏ (‏یوحنا ۱۳:‏۳۵؛‏ افسیوں ۴:‏۱۵،‏ ۱۶؛‏ فلپیوں ۲:‏۱-‏۴‏)‏ یہ ایسے لوگوں کی ایک تنظیم ہے جو خدا میں ایمان رکھتے اور اسکے مقصد کو پورا کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔‏ اسلئے وہ جوش‌وخروش سے خدا کی بادشاہت کی منادی کر رہے ہیں اور اس بُرے نظام کے خاتمے تک ایسا کرتے رہینگے۔‏ (‏متی ۲۴:‏۱۴؛‏ ۲۸:‏۱۹،‏ ۲۰‏)‏ دُنیا کے ۲۳۰ سے زائد ممالک میں ۶۰ لاکھ سے زیادہ مسیحی ایک متحد برادری کے طور پر خدا کی عبادت کر رہے ہیں۔‏

اپنی زندگی کو بامقصد بنائیں

خدا چاہتا ہے کہ آپ بھی اس ”‏صادق قوم“‏ یعنی برادری کیساتھ اسکی عبادت کریں۔‏ (‏یسعیاہ ۲۶:‏۲‏)‏ اسطرح آپکی زندگی بھی بامقصد بن جائیگی۔‏ لیکن شاید آپ سوچ رہے ہوں کہ یہ مسیحی برادری خدا کی عبادت کیسے کرتی ہے؟‏ کیا مَیں واقعی انکا ساتھ دینا چاہتا ہوں؟‏ کچھ نوجوانوں نے اس سلسلے میں جو تبصرے کئے ہیں ان پر غور کریں۔‏

کوینٹن:‏ ‏”‏کلیسیا میرے لئے اس طوفانی دُنیا میں ایک پناہ‌گاہ کی مانند ہے۔‏ مَیں نے خود پر خدا کا سایہ محسوس کِیا ہے اسلئے مَیں جانتا ہوں کہ اسے میری پرواہ ہے اور وہ مجھے خوش دیکھنا چاہتا ہے۔‏“‏

جیف:‏ ‏”‏کلیسیا کے بہن‌بھائی مجھے اپنے خاندان کی طرح عزیز ہیں۔‏ جب بھی مجھے تسلی کی ضرورت ہوتی ہے وہ میرا سہارا بن کر میری حوصلہ‌افزائی کرتے ہیں۔‏“‏

لی‌نیٹ:‏ ‏”‏جب ایک شخص بائبل کی سچائیوں کو قبول کرکے یہوواہ خدا کی عبادت کرنے کا فیصلہ کرتا ہے تو مَیں بہت ہی خوش ہوتی ہوں۔‏ ایسے واقعات سے میری زندگی بامقصد بن جاتی ہے۔‏“‏

کوڈی:‏ ‏”‏اگر مَیں خدا کی راہ پر نہ چلتا تو مَیں خوشی کی تلاش میں اِدھراُدھر بھٹکتا پھرتا۔‏ لیکن خوشی میرے ہاتھ نہ آتی۔‏ یہوواہ نے مجھے اسکے قریب جانے کا شرف دیا ہے۔‏ اسکی قُربت میری زندگی کو مقصد دیتی ہے۔‏“‏

کیا آپ بھی ایک بامقصد زندگی کی تلاش میں ہیں؟‏ اگر ایسا ہے تو اپنے خالق یہوواہ خدا کے نزدیک جائیں۔‏ تب آپکی زندگی بھی بامقصد ہو جائیگی۔‏

‏[‏صفحہ ۳۱ پر تصویر]‏

خدا کے قریب جانے سے ہماری زندگی بامقصد ہو جاتی ہے

‏[‏تصویر کا حوالہ]‏

NASA photo