مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

شان‌وشوکت کے بارے میں مسیح کا نظریہ اپنائیں

شان‌وشوکت کے بارے میں مسیح کا نظریہ اپنائیں

شان‌وشوکت کے بارے میں مسیح کا نظریہ اپنائیں

‏”‏جو تُم میں بڑا ہونا چاہے وہ تمہارا خادم بنے۔‏“‏—‏متی ۲۰:‏۲۶‏۔‏

۱.‏ شان‌وشوکت کے سلسلے میں اس دُنیا میں بہت سے لوگ کس کوشش میں ہیں؟‏

مصر کے شہر قاہرہ سے تقریباً ۳۰۰ میل دُور جنوب کی طرف شہر کارنک واقع ہے۔‏ قدیم زمانے میں اس کا نام تھی‌بس تھا۔‏ تھی‌بس کے قریب فرعون اَمن‌ہوتپ کا ایک ۶۰ فٹ [‏۱۸ میٹر]‏ بڑا مجسّمہ ہے۔‏ اس اُونچے مجسّمے کے سامنے انسان خود کو بہت چھوٹا محسوس کرتا ہے۔‏ فرعون نے اپنا اتنا بڑا مجسّمہ عین اس وجہ سے بنوایا تھا کہ لوگ اس کی شان کو دیکھ کر ڈر جائیں۔‏ آج کی دُنیا میں بھی بہت سے لوگ اپنی بڑائی کرتے ہیں اور وہ دوسروں کو چھوٹا اور حقیر ہونے کا احساس دلاتے ہیں۔‏

۲.‏ یسوع نے اپنے شاگردوں کے لئے کونسا نمونہ قائم کِیا،‏ اور ہمیں اپنے آپ سے کونسے سوال پوچھنے چاہئیں؟‏

۲ شان‌وشوکت کے سلسلے میں دُنیا کا نظریہ یسوع مسیح کے نظریے سے بالکل فرق ہے۔‏ اُس نے تعلیم دی کہ وہی شخص عظیم ہے جو دوسروں کی خدمت کرتا ہے۔‏ یسوع اپنے شاگردوں کا ”‏خداوند اور استاد“‏ تھا لیکن اس کے باوجود اس نے ان کے پاؤں دھوئے۔‏ ایسا کرنے سے یسوع نے اپنی فروتنی ظاہر کی۔‏ (‏یوحنا ۱۳:‏۴،‏ ۵،‏ ۱۴‏)‏ کیا آپ خوشی سے دوسروں کی خدمت کرتے ہیں؟‏ کیا آپ بھی یسوع کے نمونے پر چلتے ہوئے فروتنی ظاہر کرنے کی خواہش رکھتے ہیں؟‏ آئیے ہم دیکھتے ہیں کہ شان‌وشوکت کے سلسلے میں یسوع کے اور دُنیا کے نظریے میں کیا فرق ہے۔‏

شان‌وشوکت کے سلسلے میں دُنیا کے نظریے سے کنارہ کریں

۳.‏ اپنی بڑائی کرنے والوں کا کیا انجام ہوتا ہے؟‏ بائبل سے مثال دیجئے۔‏

۳ بائبل میں بہت سی ایسی مثالیں پائی جاتی ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ اپنی بڑائی کرنا فضول ہوتا ہے۔‏ ہامان کی مثال لیجئے۔‏ آستر اور مردکی کے دنوں میں اُس نے شاہِ‌فارس کے دربار میں بہت شہرت حاصل کی۔‏ لیکن مزید شہرت حاصل کرنے کی کوشش میں ہامان شرمندہ ہوا اور آخرکار ہلاک کر دیا گیا۔‏ (‏آستر ۳:‏۵؛‏ ۶:‏۱۰-‏۱۲؛‏ ۷:‏۹،‏ ۱۰‏)‏ نبوکدنضر بادشاہ بھی اپنی کامیابی پر بڑا فخر کرتا تھا۔‏ شیخی بگھارتے ہوئے اُس نے کہا:‏ ”‏کیا یہ بابلِؔ‌اعظم نہیں جس کو مَیں نے اپنی توانائی کی قدرت سے تعمیر کِیا ہے کہ دارالسلطنت اور میرے جاہ‌وجلال کا نمونہ ہو؟‏“‏ (‏دانی‌ایل ۴:‏۳۰‏)‏ لیکن اپنے راج کے عروج پر وہ دیوانہ ہو گیا۔‏ اس کے علاوہ بادشاہ ہیرودیس اگرپا اوّل کی مثال پر غور کیجئے۔‏ اُس نے خدا کی تمجید کرنے کی بجائے اپنی بڑائی کی۔‏ اس وجہ سے ”‏وہ کیڑے پڑ کر مر گیا۔‏“‏ (‏اعمال ۱۲:‏۲۱-‏۲۳‏)‏ یہ تینوں آدمی اس بات کو سمجھ نہ پائے کہ خدا کی نظر میں کونسا شخص واقعی عظیم ہوتا ہے۔‏ اس لئے خدا نے ان کو شرمندہ کِیا۔‏

۴.‏ ہمارے دل میں کون غرور پیدا کرنا چاہتا ہے؟‏

۴ اگر لوگ ہمارے اچھے چال‌چلن کی وجہ سے ہماری عزت اور احترام کرتے ہیں تو ظاہری بات ہے کہ ہم اس سے خوش ہوتے ہیں۔‏ اور یہ غلط بھی نہیں ہے۔‏ لیکن شیطان ہمارے دل میں غرور پیدا کرنا چاہتا ہے۔‏ یہ کوئی حیرانی کی بات نہیں کیونکہ شیطان خود بھی مغرور ہے۔‏ (‏متی ۴:‏۸،‏ ۹‏)‏ یاد رکھیں کہ شیطان ’‏اِس جہان کا خدا‘‏ ہے۔‏ اس لئے وہ پوری دُنیا میں اپنی غلط سوچ کو فروغ دیتا ہے۔‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۴:‏۴؛‏ افسیوں ۲:‏۲؛‏ مکاشفہ ۱۲:‏۹‏)‏ ایک مسیحی جو شیطان کے فریب سے واقف ہے وہ شان‌وشوکت کے سلسلے میں بھی اس دُنیا کے نظریے سے کنارہ کرے گا۔‏

۵.‏ کیا شہرت اور کامیابی سچی خوشی کا باعث ہیں؟‏ وضاحت کیجئے۔‏

۵ شیطان اس سوچ کو بھی فروغ دیتا ہے کہ شہرت اور مال‌ودولت حاصل کرنے سے ہی ہمیں سچی خوشی حاصل ہوتی ہے۔‏ کیا ایسی سوچ دُرست ہے؟‏ بائبل کہتی ہے کہ ہمیں اس سلسلے میں دھوکا نہیں کھانا چاہئے۔‏ بادشاہ سلیمان نے لکھا:‏ ”‏مَیں نے ساری محنت کے کام اور ہر ایک اچھی دستکاری کو دیکھا کہ اِس کے سبب سے آدمی اپنے ہمسایہ سے حسد کرتا ہے۔‏ یہ بھی بطلان اور ہوا کی چران ہے۔‏“‏ (‏واعظ ۴:‏۴‏)‏ ایسے لوگ جنہوں نے ترقی کرنے کو اپنی زندگی کا واحد مقصد ٹھہرایا ہے وہ اکثر تسلیم کرتے ہیں کہ بائبل کی یہ نصیحت بالکل صحیح ہے۔‏ اس کی ایک مثال پر غور کیجئے۔‏ ایک آدمی جس نے چاند پر اُترنے والے پہلے خلائی جہاز کو تعمیر کرنے میں حصہ لیا،‏ اُس نے کہا:‏ ”‏مَیں نے بہت محنت کی اور آخرکار اپنے کام میں ماہر بن گیا۔‏ لیکن میری کامیابی دراصل فضول تھی کیونکہ مجھے سچی خوشی اور دلی سکون نہیں ملا۔‏“‏ * جی‌ہاں،‏ جب لوگ کسی کاروبار،‏ کھیل یا فن میں کامیاب ہوتے بھی ہیں تو اس شان‌وشوکت سے اُن کو سچی خوشی حاصل نہیں ہوتی۔‏

دل‌وجان سے دوسروں کی خدمت کریں

۶.‏ ہم کس واقعے سے دیکھ سکتے ہیں کہ یعقوب اور یوحنا شان‌وشوکت کے بارے میں غلط نظریہ رکھتے تھے؟‏

۶ یسوع مسیح کی زندگی کے ایک واقعہ سے ہم دیکھ سکتے ہیں کہ خدا کے نزدیک کس قسم کا شخص واقعی عظیم ہے۔‏ یہ ۳۳ س.‏ع.‏ کی بات تھی۔‏ یسوع اپنے شاگردوں سمیت عیدِفسح منانے کے لئے یروشلیم سفر کر رہا تھا۔‏ یسوع کے دو خالہ‌زاد بھائی یعقوب اور یوحنا نے اپنی ماں کے ذریعے یسوع سے یہ درخواست کی:‏ ’‏فرما کہ ہم دونوں تیری بادشاہی میں تیری دہنی اور بائیں طرف بیٹھیں۔‏‘‏ (‏متی ۲۰:‏۲۱‏)‏ یہودی معاشرے میں کسی اہم شخص کے دائیں اور بائیں بیٹھنا ایک بڑا شرف سمجھا جاتا تھا۔‏ (‏۱-‏سلاطین ۲:‏۱۹‏)‏ یسوع کو معلوم تھا کہ یعقوب اور یوحنا دل ہی دل میں کیا چاہتے ہیں۔‏ وہ بہت بڑے اختیار اور بہترین رُتبہ حاصل کرنے کی لالچ میں تھے۔‏ اس لئے یسوع نے شان‌وشوکت کے بارے میں اُن کے نظریے کو دُرست کِیا۔‏

۷.‏ یسوع نے ایک عظیم شخص کی شناخت کیسے کی؟‏

۷ یسوع جانتا تھا کہ اس دُنیا میں وہ شخص عظیم‌اُلشان سمجھا جاتا ہے جو دوسروں پر اختیار رکھ کر اُن پر اپنا حکم جتاتا ہے۔‏ لیکن یسوع کے شاگردوں میں وہ شخص عظیم ہے جو فروتنی سے دوسروں کی خدمت کرتا ہے۔‏ یسوع نے کہا:‏ ”‏جو تُم میں بڑا ہونا چاہے وہ تمہارا خادم بنے۔‏ اور جو تُم میں اوّل ہونا چاہے وہ تمہارا غلام بنے۔‏“‏—‏متی ۲۰:‏۲۶،‏ ۲۷‏۔‏

۸.‏ یونانی لفظ ”‏خادم“‏ کا کیا مطلب ہے،‏ اور ہم خود سے کونسا سوال پوچھ سکتے ہیں؟‏

۸ جس یونانی لفظ کا ترجمہ اس آیت میں ”‏خادم“‏ سے کِیا گیا ہے یہ ایک ایسے شخص کی طرف اشارہ کرتا ہے جو دل‌وجان سے دوسروں کی خدمت کرتا ہے۔‏ یسوع اپنے شاگردوں کو ایک اہم سبق سکھا رہا تھا:‏ دراصل ایک شخص کی بڑائی دوسروں کو حکم دینے میں نہیں ہوتی بلکہ محبت کی بِنا پر ان کی خدمت کرنے میں۔‏ خود سے پوچھیں:‏ ’‏اگر مَیں یعقوب یا یوحنا کی جگہ ہوتا تو کیا مَیں اس بات کو سمجھ جاتا کہ وہ شخص واقعی عظیم ہے جو محبت کے ساتھ دوسروں کی خدمت کرتا ہے؟‏‘‏—‏۱-‏کرنتھیوں ۱۳:‏۳‏۔‏

۹.‏ یسوع کے نمونہ کے مطابق ہمیں دوسروں کے ساتھ کس طرح پیش آنا چاہئے؟‏

۹ یسوع نے صاف ظاہر کِیا کہ عظمت کے سلسلے میں اُس کا نظریہ دُنیا کے نظریے سے بالکل فرق ہے۔‏ اُس نے دوسروں کو ادنیٰ ہونے کا احساس کبھی نہیں دلایا۔‏ اس لئے ہر طرح کے لوگ یسوع کے ساتھ میل‌جول رکھتے تھے:‏ مرد اور عورتیں،‏ بچے اور بوڑھے،‏ امیر اور غریب،‏ طاقتور اور کمزور۔‏ (‏مرقس ۱۰:‏۱۳-‏۱۶؛‏ لوقا ۷:‏۳۷-‏۵۰‏)‏ لوگ اکثر دوسروں کی کمزوریوں کو برداشت کرنا بہت مشکل سمجھتے ہیں۔‏ یسوع ایسا نہیں تھا۔‏ اُس کے شاگرد بار بار غلطیاں کرتے اور آپس میں جھگڑتے رہتے تھے۔‏ لیکن یسوع صبر سے کام لیتے ہوئے اُن کی اصلاح کرتا تھا۔‏ وہ ان کے ساتھ بڑی نرمی سے پیش آتا تھا۔‏ جی‌ہاں،‏ یسوع سچ‌مچ حلیم اور فروتن تھا!‏—‏زکریاہ ۹:‏۹؛‏ متی ۱۱:‏۲۹؛‏ لوقا ۲۲:‏۲۴-‏۲۷‏۔‏

۱۰.‏ دوسروں کی خدمت کرنے کے لئے یسوع کیا کیا کرتا تھا؟‏

۱۰ شان‌وشوکت کے سلسلے میں ہم یسوع کے نمونے سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔‏ اگرچہ وہ خدا کا بیٹا تھا پھر بھی وہ فروتنی سے دوسروں کی خدمت کرتا تھا۔‏ وہ ”‏طرح طرح کی بیماریوں“‏ میں مبتلا لوگوں کو شفا بخشتا اور اُن میں سے بدروحوں کو نکالتا تھا۔‏ ہماری طرح یسوع بھی تھک جاتا تھا۔‏ لیکن تھک جانے کے باوجود بھی اُس نے دل‌برداشتہ لوگوں کو آرام دینے کے لئے وقت نکالا۔‏ (‏مرقس ۱:‏۳۲-‏۳۴؛‏ ۶:‏۳۰-‏۳۴؛‏ یوحنا ۱۱:‏۱۱،‏ ۱۷،‏ ۳۳‏)‏ اُس کے دل میں لوگوں کے لئے محبت بھری ہوئی تھی۔‏ اس لئے وہ بادشاہت کی خوشخبری سنانے کے لئے دُور دُور تک سفر کرتا۔‏ (‏مرقس ۱:‏۳۸،‏ ۳۹‏)‏ اس سے ہم دیکھ سکتے ہیں کہ یسوع کی نظر میں دوسروں کی خدمت کرنا بہت ہی اہم تھا۔‏

یسوع کی طرح دوسروں کی خدمت کریں

۱۱.‏ ذمہ‌داری کے خواہشمند بھائیوں کو کونسی خوبیاں پیدا کرنی چاہئیں؟‏

۱۱ زائنز واچ ٹاور،‏ ستمبر ۱،‏ ۱۸۹۴،‏ میں لکھا ہے کہ ایک سفری نگہبان کو ”‏حلیم ہونا چاہئے تاکہ وہ شیخی میں نہ آئے،‏ .‏ .‏ .‏ دل کا فروتن شخص جو اپنی سوچ کے مطابق تعلیم نہیں دیتا ہو بلکہ مسیح کی سادہ مگر مؤثر تعلیم دیتا ہو۔‏“‏ ایک سچا مسیحی کلیسیا میں زیادہ ذمہ‌داریوں کی خواہش کیوں رکھتا ہے؟‏ اس وجہ سے تو نہیں کہ وہ دوسروں پر اختیار رکھ سکے یا وہ اپنی کامیابی پر فخر کر سکے۔‏ وہ شہرت بھی نہیں چاہتا۔‏ اپنی بڑائی کرنے کی بجائے وہ دوسروں کی خدمت کرنے میں ”‏اچھے کام“‏ کرنا چاہتا ہے۔‏ (‏۱-‏تیمتھیس ۳:‏۱،‏ ۲‏)‏ کلیسیا کے تمام بزرگوں اور خدمتگزار خادموں کو فروتنی سے اپنے بہن‌بھائیوں کی خدمت کرنی چاہئے۔‏ اس طرح وہ یہوواہ کی عبادت میں دوسروں کے لئے ایک اچھا نمونہ قائم کرتے ہیں۔‏—‏۱-‏کرنتھیوں ۹:‏۱۹؛‏ گلتیوں ۵:‏۱۳؛‏ ۲-‏تیمتھیس ۴:‏۵‏۔‏

۱۲.‏ ایک بھائی جو کلیسیا میں ذمہ‌داریوں کا خواہشمند ہوتا ہے اُسے اپنے آپ سے کونسے سوال پوچھنے چاہئیں؟‏

۱۲ ایک بھائی جو کلیسیا میں ذمہ‌داریوں کا خواہشمند ہے اپنے آپ سے یہ سوال پوچھ سکتا ہے:‏ ’‏کیا مَیں خوشی سے دوسروں کی خدمت کرتا ہوں؟‏ یا کیا مَیں چاہتا ہوں کہ دوسرے میری خدمت کریں؟‏ کیا مَیں ایسے کام کرنے کو بھی تیار ہوں جن کے بارے میں دوسرے نہیں جانتے؟‏‘‏ مثال کے طور پر شاید ایک جوان بھائی کو کلیسیا میں تقریر دینا بہت اچھا لگتا ہے لیکن وہ عمررسیدہ بہن‌بھائیوں کی مدد کرنے سے ہچکچاتا ہے۔‏ وہ بڑی خوشی سے کلیسیا میں ذمہ‌داری نبھانے والے بھائیوں کے ساتھ میل‌جول رکھتا ہے لیکن منادی کے کام میں بڑھ‌چڑھ کر حصہ نہیں لیتا۔‏ ایک ایسے بھائی کو خود سے پوچھنا چاہئے کہ ’‏کیا مَیں خدا کی خدمت میں صرف ایسے کام کرتا ہوں جن کی وجہ سے لوگ میری تعریف کریں؟‏ کیا مَیں اپنی بڑائی کرنے کی کوشش میں لگا ہوں؟‏‘‏ اگر ہمارے دل کے خیالات ایسے ہیں تو ہم یسوع کے نمونے پر نہیں چل رہے ہیں۔‏—‏یوحنا ۵:‏۴۱‏۔‏

۱۳.‏ (‏ا)‏ ایک نگہبان کی فروتنی کا دوسروں پر کیا اثر ہو سکتا ہے؟‏ (‏ب)‏ فروتنی پیدا کرنا مسیحیوں کے لئے کیوں لازمی ہے؟‏

۱۳ جب ہم یسوع کی طرح فروتن بننے کی کوشش کرتے ہیں تو ہمارے دل میں دوسروں کی خدمت کرنے کی خواہش پیدا ہو جاتی ہے۔‏ اس سلسلے میں ایک نگہبان کی مثال پر غور کیجئے جو زَون اوورسئیر کی حیثیت سے یہوواہ کے گواہوں کے ایک برانچ دفتر کا معائنہ کر رہے تھے۔‏ اُنہیں بڑی ذمہ‌داری سونپی گئی تھی جس کی وجہ سے وہ بہت مصروف رہتے تھے۔‏ اس کے باوجود جب اُنہوں نے دیکھا کہ ایک جوان بھائی کو اپنی مشین پر کام کرنے میں دِقت ہو رہی ہے تو وہ اس جوان بھائی کی مدد کرنے لگے۔‏ اس جوان بھائی نے اس واقعے کے بارے میں یوں کہا:‏ ”‏مَیں بہت ہی حیران ہوا!‏ بھائی نے مجھے بتایا کہ جب وہ جوان تھے تو اُنہوں نے ایسی ہی ایک مشین پر کام کِیا تھا اور اُن کو بھی اسی قسم کی مشکلات کا سامنا تھا۔‏ بہت مصروف ہونے کے باوجود اُنہوں نے کافی وقت نکال کر میری مدد کی۔‏ اس بات سے مَیں بہت ہی متاثر ہوا۔‏“‏ وہ بھائی آج یہوواہ کے گواہوں کے ایک برانچ دفتر میں خود بھی نگہبان ہیں۔‏ اُنہیں اُس زَون اوورسئیر کی فروتنی ابھی بھی یاد ہے۔‏ ہمیں یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ ہمارا رُتبہ اتنا اُونچا ہے کہ ہمیں معمولی کام کرنے کی ضرورت نہیں۔‏ تمام مسیحیوں کے لئے ”‏نئی انسانیت“‏ کو پہننا لازمی ہے اور ”‏فروتنی“‏ کی خوبی اس کا ایک اہم پہلو ہے۔‏—‏فلپیوں ۲:‏۳؛‏ کلسیوں ۳:‏۱۰،‏ ۱۲؛‏ رومیوں ۱۲:‏۱۶‏۔‏

شان‌وشوکت کے بارے میں مسیح کا نظریہ اپنانا—‏کیسے؟‏

۱۴.‏ ہم شان‌وشوکت کے بارے میں درست نظریہ کیسے اپنا کر سکتے ہیں؟‏

۱۴ ہم شان‌وشوکت کے بارے میں دُرست نظریہ کیسے اپنا سکتے ہیں؟‏ سب سے پہلے ہمیں یہوواہ خدا کی شان پر غور کرنا چاہئے۔‏ وہ طاقت اور حکمت کے لحاظ سے کائنات کی عظیم‌ترین ہستی ہے۔‏ اس کے باوجود وہ انسان کو اپنے نزدیک آنے کا موقع دیتا ہے۔‏ (‏یسعیاہ ۴۰:‏۲۲‏)‏ اس کے علاوہ دوسرے لوگوں کی خوبیوں پر غور کرنے سے بھی ہم اپنے دل میں فروتنی پیدا کر سکتے ہیں۔‏ ہو سکتا ہے کہ ہم ایک خاص ہنر رکھتے ہوں لیکن دوسرے لوگ کسی اَور لحاظ میں ہم سے زیادہ قابل ہوں جو ہمارے ہنر کی نسبت کہیں زیادہ اہم ہو۔‏ یا ہمارے کچھ بہن‌بھائیوں نے ایسی خوبیاں پیدا کی ہیں جو ہم میں نہ ہوں۔‏ درحقیقت خدا ایسے لوگوں کی خاص قدر کرتا ہے جو حلیم اور فروتن ہونے کی وجہ سے زیادہ شہرت نہیں رکھتے۔‏—‏امثال ۳:‏۳۴؛‏ یعقوب ۴:‏۶‏۔‏

۱۵.‏ اذیت سے گزرنے والے بہن‌بھائیوں کی مثال پر غور کرنے سے ہم کیسے فروتن رہ سکتے ہیں؟‏

۱۵ یہ بات ایسے بہن‌بھائیوں کے تجربوں سے بھی واضح ہوتی ہے جنہوں نے اپنے ایمان کی وجہ سے سخت اذیت کا سامنا کِیا ہے۔‏ اکثر ایسے ہی بہن‌بھائی آزمایشوں میں یہوواہ کے وفادار رہے ہیں جو دُنیاوی لحاظ سے کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔‏ ان کی مثالوں پر غور کرنے سے ہم بھی فروتن رہیں گے اور ’‏جیسا سمجھنا چاہیے اُس سے زیادہ اپنے آپ کو نہ سمجھیں گے۔‏‘‏—‏رومیوں ۱۲:‏۳‏۔‏ *

۱۶.‏ کلیسیا کا ہر رُکن شان‌وشوکت کے سلسلے میں یسوع کا نظریہ کیسے ظاہر کر سکتا ہے؟‏

۱۶ چاہے ہم جوان ہوں یا بوڑھے،‏ تمام مسیحیوں کو شان‌وشوکت کے سلسلے میں یسوع کا نظریہ رکھنا چاہئے۔‏ جب کوئی آپ سے ایک معمولی سا کام کرنے کی درخواست کرتا ہے تو کیا آپ خفا ہو جاتے ہیں؟‏ (‏۱-‏سموئیل ۲۵:‏۴۱؛‏ ۲-‏سلاطین ۳:‏۱۱‏)‏ والدین،‏ جب کنگڈم ہال میں،‏ اسمبلی یا کنونشن پر آپ کے بچوں کو ایک کام سونپا جاتا ہے تو کیا آپ ان کی حوصلہ‌افزائی کرتے ہیں تاکہ وہ اس کام کو خوشی سے کریں؟‏ کیا آپ کے بچے آپ کو بھی معمولی کام کرتے ہوئے دیکھتے ہیں؟‏ ایک بھائی جو آج امریکہ میں یہوواہ کے گواہوں کے برانچ دفتر میں کام کرتا ہے اپنے والدین کے بارے میں یوں کہتا ہے:‏ ”‏میرے والدین کنگڈم ہال اور کنونشن ہال کی صفائی کرنے کو بہت اہم خیال کرتے تھے۔‏ وہ اکثر ایسے کام کرتے جنہیں بہت معمولی سمجھا جاتا تھا کیونکہ وہ کلیسیا اور بھائیوں کی بھلائی چاہتے تھے۔‏ اُن کی مثال کی وجہ سے مَیں بھی یہاں بیت‌ایل میں ہر قسم کا کام خوشی سے کر لیتا ہوں۔‏“‏

۱۷.‏ فروتن عورتیں کلیسیا کے لئے ایک نعمت کیسے بن سکتی ہیں؟‏

۱۷ آستر ایک ایسی عورت تھی جو دوسروں کی بھلائی کے لئے اپنی بہتری کو قربان کرنے کے لئے تیار تھی۔‏ وہ پانچویں صدی ق.‏س.‏ع.‏ میں فارسی سلطنت کی ملکہ تھی اور ایک شاندار محل میں رہتی تھی۔‏ اس کے باوجود اس نے خدا کے خادموں کو مصیبت سے بچانے کے لئے اپنی زندگی داؤ پر لگا دی۔‏ (‏آستر ۱:‏۵،‏ ۶؛‏ ۴:‏۱۴-‏۱۶‏)‏ چاہے وہ امیر ہوں یا غریب،‏ آجکل مسیحی عورتیں بھی آستر کی مثال کی نقل کر سکتی ہیں۔‏ وہ دل‌برداشتہ یا بیمار لوگوں کو تسلی دے سکتی ہیں۔‏ وہ تبلیغی کام میں حصہ لیتی اور کلیسیا کے بزرگوں کا ساتھ بھی دیتی ہیں۔‏ ایسی فروتن بہنیں کلیسیا کے لئے ایک نعمت ہیں!‏

مسیح کی طرح دوسروں کی خدمت کرنے کی برکات

۱۸.‏ شان‌وشوکت کے بارے میں مسیح کا نظریہ رکھنے سے کونسی برکتیں ملتی ہیں؟‏

۱۸ شان‌وشوکت کے بارے میں مسیح کا نظریہ رکھنے سے آپ کو بہت سی برکتیں ملتی ہیں۔‏ آپ دوسروں کی خدمت کرنے سے خوشی حاصل کرتے ہیں۔‏ (‏اعمال ۲۰:‏۳۵‏)‏ آپ کے بہن‌بھائی آپ کی محنت کی بہت قدر کرتے ہیں اس لئے وہ آپ سے گہری محبت بھی رکھتے ہیں۔‏ (‏اعمال ۲۰:‏۳۷‏)‏ اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ آپ یہوواہ کو بھی خوش کرتے ہیں۔‏ جب آپ اپنے بہن‌بھائیوں کی خدمت کرتے ہیں تو دراصل آپ حمد کی قربانی دے رہے ہوتے ہیں۔‏—‏فلپیوں ۲:‏۱۷‏۔‏

۱۹.‏ ہمیں کس بات کا عزم رکھنا چاہئے؟‏

۱۹ ہمیں اپنے دل کا خوب جائزہ لینا چاہئے:‏ ’‏کیا مَیں نے شان‌وشوکت کے بارے میں واقعی یسوع کا نظریہ اپنا لیا ہے؟‏ کیا مَیں اس سلسلے میں اَور ترقی کر سکتا ہوں؟‏‘‏ یہوواہ مغرور لوگوں سے نفرت کرتا ہے۔‏ (‏امثال ۱۶:‏۵؛‏ ۱-‏پطرس ۵:‏۵‏)‏ دُعا ہے کہ ہم اپنے اعمال سے ظاہر کریں کہ ہم نے شان‌وشوکت کے سلسلے میں یسوع کا نظریہ اپنا لیا ہے۔‏ اس لئے جو کچھ ہم کلیسیا میں،‏ خاندان میں یا روزمرّہ زندگی میں کرتے ہیں ہم سب کچھ خدا کے جلال کے لئے کرتے ہیں۔‏—‏۱-‏کرنتھیوں ۱۰:‏۳۱‏۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 5 دی واچ‌ٹاور،‏ مئی ۱،‏ ۱۹۸۲،‏ صفحہ ۳-‏۶ کو دیکھیں۔‏

^ پیراگراف 15 ۱۹۹۲ ائیربُک آف جیہوواز وِٹنسز،‏ صفحہ ۱۸۱،‏ ۱۸۲ اور دی واچ‌ٹاور،‏ ستمبر ۱،‏ ۱۹۹۳،‏ صفحہ ۲۷-‏۳۱ پر پائی جانے والی مثالوں کو بھی پڑھیں۔‏

کیا آپ وضاحت کر سکتے ہیں کہ .‏ .‏ .‏

‏• ہمیں شان‌وشوکت کے سلسلے میں کیوں دنیا کے نظریے سے کنارہ کرنا چاہئے؟‏

‏• یسوع نے ایک عظیم شخص کی شناخت کیسے کی؟‏

‏• نگہبان مسیح کی طرح فروتن کیسے ہو سکتے ہیں؟‏

‏• ہم شان‌وشوکت کے سلسلے میں یسوع کا نظریہ کیسے اپنا سکتے ہیں؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۱۷ پر بکس]‏

ان میں سے کون عظیم ہے؟‏

جو دوسروں سے خدمت لیتا ہے یا جو دوسروں کی خدمت کرتا ہے؟‏

جو اپنا نام چمکانا چاہتا ہے یا جو فروتنی کے ساتھ معمولی کام کرتا ہے؟‏

جو اپنی بڑائی کرتا ہے یا جو دوسروں کی بڑائی کرتا ہے؟‏

‏[‏صفحہ ۱۴ پر تصویر]‏

فرعون اَمن‌ہوتپ کا دیونما مجسّمہ

‏[‏صفحہ ۱۵ پر تصویر]‏

کیا آپ جانتے ہیں کہ ہامان کس وجہ سے شرمندہ کِیا گیا؟‏

‏[‏صفحہ ۱۶ پر تصویر]‏

کیا آپ خوشی سے دوسروں کی خدمت کرتے ہیں؟‏