مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

یہوواہ اپنی شان حلیم لوگوں پر ظاہر کرتا ہے

یہوواہ اپنی شان حلیم لوگوں پر ظاہر کرتا ہے

یہوواہ اپنی شان حلیم لوگوں پر ظاہر کرتا ہے

‏”‏دولت اور عزت‌وحیات [‏یہوواہ]‏ کے خوف اور فروتنی کا اجر ہیں۔‏“‏ —‏امثال ۲۲:‏۴‏۔‏

۱،‏ ۲.‏ (‏ا)‏ اعمال کی کتاب سے ہمیں کیسے پتہ چلتا ہے کہ ستفنس ”‏ایمان اور رُوح‌اُلقدس سے بھرا ہوا تھا“‏؟‏ (‏ب)‏ ہم کیسے جانتے ہیں کہ ستفنس ہرگز مغرور نہ تھا؟‏

ستفنس ”‏ایمان اور رُوح‌اُلقدس سے بھرا ہوا تھا۔‏“‏ اس کے علاوہ اس میں ”‏فضل اور قوت“‏ بھی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔‏ وہ یسوع کے پہلے شاگردوں میں سے ایک تھا۔‏ ستفنس نے لوگوں میں بڑے بڑے معجزے ظاہر کئے۔‏ ایک مرتبہ بعض لوگ اُٹھ کر ستفنس سے بحث کرنے لگے۔‏ مگر وہ لوگ ”‏اُس دانائی اور رُوح کا جس سے [‏ستفنس]‏ کلام کرتا تھا مقابلہ نہ کر سکے۔‏“‏ (‏اعمال ۶:‏۵،‏ ۸-‏۱۰‏)‏ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ستفنس دل لگا کر خدا کے کلام کا مطالعہ کِیا کرتا تھا۔‏ وہ بڑی مہارت اور دلیری سے یہودی مذہبی پیشواؤں کے سامنے خدا کے کلام کی وضاحت کرتا۔‏ اعمال ۷ باب میں اُس گواہی کی تفصیل دی گئی ہے جو ستفنس نے یہودی مذہبی پیشواؤں کو دی تھی۔‏ اِس گواہی سے ہم یہ بھی جان سکتے ہیں کہ ستفنس خدا کے کلام میں پیش کی ہوئی باتوں میں کتنی دلچسپی لیتا تھا۔‏

۲ یہودیوں کے مذہبی پیشواؤں کو اپنے رُتبے اور اپنے علم پر بڑا ناز تھا۔‏ اس کے برعکس ستفنس ہرگز مغرور نہ تھا۔‏ (‏متی ۲۳:‏۲-‏۷؛‏ یوحنا ۷:‏۴۹‏)‏ جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں ستفنس کو پاک صحائف کا بڑا علم تھا۔‏ لیکن جب رسولوں نے ”‏دُعا میں اور کلام کی خدمت میں مشغول“‏ رہنے کی خاطر ستفنس کو بیواؤں کے لئے ”‏کھانےپینے کا انتظام“‏ کرنے کے لئے مقرر کِیا تو اُسے اس کام پر کوئی اعتراض نہ تھا۔‏ غرور کرنے کی بجائے اُس نے اس ذمہ‌داری کو خوشی سے نبھایا۔‏—‏اعمال ۶:‏۱-‏۶‏۔‏

۳.‏ خدا نے ستفنس پر اپنی شفقت کو کس خاص انداز میں ظاہر کِیا؟‏

۳ یہوواہ خدا کو ستفنس کی فروتنی،‏ روحانیت اور دیانتداری پسند آئی۔‏ جب یہودیوں نے جھوٹے الزامات کی بِنا پر ستفنس کو صدرِعدالت کے سامنے پیش کِیا تو سب نے ”‏دیکھا کہ اُس کا چہرہ فرشتہ کا سا ہے۔‏“‏ (‏اعمال ۶:‏۱۵‏)‏ اس کا مطلب ہے کہ اُس کا چہرہ ایک فرشتے کی طرح پُرسکون تھا کیونکہ خدا نے اُسے اطمینان بخشا۔‏ پھر ستفنس نے بڑی دلیری سے صدرِعدالت کے سامنے گواہی دی۔‏ اس کے بعد خدا نے ستفنس پر اپنی شفقت کو ایک خاص انداز میں ظاہر کِیا۔‏ ہم پڑھتے ہیں کہ ستفنس نے ’‏رُوح‌اُلقدس سے معمور ہو کر آسمان کی طرف غور سے نظر کی اور خدا کا جلال اور یسوؔع کو خدا کی دہنی طرف کھڑا دیکھا۔‏‘‏ (‏اعمال ۷:‏۵۵‏)‏ اس شاندار رویا کے ذریعے ستفنس کو ایک مرتبہ پھر سے اس بات کا ثبوت ملا کہ یسوع خدا کا بیٹا اور مسیح ہے۔‏ اس رویا کی بدولت ستفنس نے تسلی پائی کیونکہ وہ جان گیا تھا کہ خدا اُس سے بہت خوش ہے۔‏

۴.‏ خدا اپنی شان کن لوگوں پر ظاہر کرتا ہے؟‏

۴ یہوواہ نے ستفنس کو یہ رویا کیوں دکھایا؟‏ کیونکہ ستفنس ایک خداپرست اور فروتن شخص تھا۔‏ اس سے ہم نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ خدا صرف اُن لوگوں پر اپنے مقاصد اور اپنی شان کو ظاہر کرتا ہے جو ستفنس جیسی خوبیاں رکھتے ہوں۔‏ بائبل میں لکھا ہے کہ ”‏دولت اور عزت‌وحیات [‏یہوواہ]‏ کے خوف اور فروتنی کا اجر ہیں۔‏“‏ (‏امثال ۲۲:‏۴‏)‏ اس لئے یہ سمجھنا بہت اہم ہے کہ فروتن ہونے کا کیا مطلب ہے،‏ ہم فروتن کیسے بن سکتے ہیں اور زندگی کے ہر پہلو میں فروتنی سے کام لینے کے کونسے فائدے ہیں۔‏

خدا کی خوبی

۵،‏ ۶.‏ (‏ا)‏ زبور ۱۸:‏۳۵ میں جس عبرانی لفظ کا ترجمہ ”‏نرمی“‏ سے کِیا گیا ہے اس کا لفظی مطلب کیا ہے؟‏ (‏ب)‏ یہوواہ خدا کس لحاظ سے فروتن ہے؟‏ (‏پ)‏ یہوواہ کی فروتنی کا ہم پر کیسا اثر ہونا چاہئے؟‏

۵ یہوواہ خدا کائنات کی سب سے بڑی اور شاندار ہستی ہے۔‏ اس کے باوجود اُس نے فروتنی ظاہر کرنے کا بہترین نمونہ قائم کِیا ہے۔‏ جی‌ہاں،‏ یہوواہ فروتنی ظاہر کرتا ہے۔‏ بادشاہ داؤد نے یہوواہ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا:‏ ”‏تُو نے مجھ کو اپنی نجات کی سپر بخشی اور تیرے دہنے ہاتھ نے مجھے سنبھالا اور تیری نرمی نے مجھے بزرگ بنایا ہے۔‏“‏ (‏زبور ۱۸:‏۳۵‏)‏ یہاں پر جس عبرانی لفظ کا ترجمہ اُردو زبان میں ”‏نرمی“‏ سے کِیا گیا ہے اس کا لفظی مطلب ”‏جھکنا“‏ ہے۔‏ بالکل اس طرح جیسے ایک بزرگ شخص کسی بچے کی بات سننے کے لئے نیچے کی طرف جھکتا ہے اسی طرح یہوواہ خدا ہم سے تعلقات قائم کرنے کے لئے نیچے یعنی ہماری طرف جھکتا ہے۔‏ اس عبرانی لفظ کا ترجمہ اُردو زبان میں ”‏فروتنی،‏“‏ ”‏خاکساری،‏“‏ ”‏حلم“‏ اور ”‏عاجزی“‏ سے بھی کِیا گیا ہے۔‏ لہٰذا ناکامل داؤد کے ساتھ رابطہ قائم کرتے وقت اور اُسے بادشاہ کے طور پر مقرر کرتے ہوئے یہوواہ نے فروتنی ظاہر کی۔‏ زبور ۱۸ کی تمہید سے ہم جان لیتے ہیں کہ یہوواہ نے داؤد کی حفاظت بھی کی اور اُسے طاقت بھی بخشی۔‏ وہاں لکھا ہے کہ یہوواہ نے داؤد کو ”‏اُس کے سب دشمنوں اور ساؔؤل کے ہاتھ سے بچایا۔‏“‏ داؤد جانتا تھا کہ اگر یہوواہ خدا فروتنی سے اُس کی مدد نہیں کرتا تو بادشاہ کے طور پر اس کی شان اور بڑائی نہ ہوتی۔‏ اس وجہ سے داؤد بھی گھمنڈی نہیں ہوا۔‏

۶ اس لحاظ سے ہماری بابت کیا کہا جا سکتا ہے؟‏ یہوواہ کے کرم سے ہم بائبل کی سچائیوں کے بارے میں سیکھ گئے ہیں۔‏ اور ہو سکتا ہے کہ ہمیں اُس کی تنظیم میں خاص استحقاقات حاصل ہوں یا پھر اُس نے ہمیں اپنے کسی مقصد کو پورا کرنے میں استعمال کِیا ہو۔‏ کیا ہمیں اس بات کے لئے شکرگزار نہیں ہونا چاہئے کہ یہوواہ ہماری طرف جھک کر ہمیں اپنی مرضی پوری کرنے کے لئے استعمال کر رہا ہے؟‏ ہمیں یہوواہ خدا کا شکر ادا کرنا چاہئے کیونکہ وہ ہماری خاطر فروتنی ظاہر کرتا ہے۔‏ ہمیں گھمنڈ کرنے سے بچنا چاہئے کیونکہ گھمنڈ کرنے کا انجام بُرا ہی ہوتا ہے۔‏—‏امثال ۱۶:‏۱۸؛‏ ۲۹:‏۲۳‏۔‏

۷،‏ ۸.‏ (‏ا)‏ یہوواہ نے منسی سے پیش آتے وقت فروتنی کیسے ظاہر کی؟‏ (‏ب)‏ ہم یہوواہ اور منسی سے فروتنی ظاہر کرنے کے بارے میں کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

۷ یہوواہ ناکامل انسانوں کے ساتھ رابطہ کرنے میں بڑی فروتنی ظاہر کرتا ہے۔‏ اس سے بڑھ کر وہ ہم پر رحم بھی کرتا ہے یہاں تک کہ مسکین کو خاک سے بھی اُٹھا لیتا ہے۔‏ (‏زبور ۱۱۳:‏۴-‏۷‏)‏ منسی بادشاہ ہی کی مثال لیجئے۔‏ اُسے یہوداہ کا بادشاہ ہونے کا شرف حاصل تھا لیکن شکرگزاری ظاہر کرنے کی بجائے منسی نے ”‏[‏یہوواہ]‏ کی نظر میں بہت بدکاری کی جس سے [‏یہوواہ کو]‏ غصہ دلایا۔‏“‏ (‏۲-‏تواریخ ۳۳:‏۶‏)‏ آخرکار یہوواہ نے منسی کے غرور کو توڑنا چاہا۔‏ اس لئے شاہِ‌اسور نے منسی کو بیڑیاں ڈالکر بابل میں قید کر لیا۔‏ جب منسی اِس مصیبت میں پڑا تو ”‏اُس نے [‏یہوواہ]‏ اپنے خدا سے منت کی اور اپنے باپ‌دادا کے خدا کے حضور نہایت خاکسار بنا۔‏“‏ یہوواہ نے اُس کی منتیں سُن لیں اور اُسے یروشلیم واپس لے آیا۔‏ تب ”‏منسیؔ نے جان لیا کہ [‏یہوواہ]‏ ہی خدا ہے۔‏“‏ (‏۲-‏تواریخ ۳۳:‏۱۱-‏۱۳‏)‏ جی‌ہاں،‏ یہوواہ منسی کی عاجزی پر خوش ہوا۔‏ اس لئے یہوواہ نے بھی فروتنی ظاہر کرکے منسی کو معاف کر دیا اور اُسے دوبارہ بادشاہ بنا دیا۔‏

۸ منسی نے خاکساری سے اپنی بُری حرکتوں کے لئے یہوواہ سے معافی مانگی۔‏ اور یہوواہ نے منسی کو معاف کر دیا۔‏ دونوں نے اپنے اپنے طور پر فروتنی ظاہر کی۔‏ ہم اس واقعہ سے فروتنی ظاہر کرنے کے بارے میں کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏ ہمیں بھی دوسروں کو معاف کرنا چاہئے اور جب ہم کوئی بُرا کام کرتے ہیں تو غرور کرنے کی بجائے معافی مانگنی چاہئے۔‏ اگر ہم ایسا کریں گے تو یہوواہ ہمارے ساتھ بھی رحم کرے گا۔‏—‏متی ۵:‏۲۳،‏ ۲۴؛‏ ۶:‏۱۲‏۔‏

خدا اپنی شان حلیم لوگوں پر نمایاں کرتا ہے

۹.‏ کیا ایک فروتن شخص کمزور یا بےبس ہوتا ہے؟‏ وضاحت کریں۔‏

۹ ایک فروتن اور حلیم شخص نہ تو کمزور ہوتا ہے اور نہ ہی بےبس۔‏ جب ایک شخص فروتنی سے کام لیتا ہے تو اس کا یہ بھی مطلب نہیں کہ وہ بُرائی کو نظرانداز کرتا ہے۔‏ پاک صحائف میں یہوواہ کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ فروتنی سے کام لیتا ہے۔‏ لیکن ضرورت پڑنے پر وہ اپنی ناراضگی اور طاقت کا بھی اظہار کرتا ہے۔‏ اپنی فروتنی کی بدولت یہوواہ خاکساروں کا خاص خیال رکھتا ہے۔‏ لیکن وہ مغروروں سے دُور رہتا ہے۔‏ (‏زبور ۱۳۸:‏۶‏)‏ یہوواہ اپنے خاکسار خادموں کا خیال کیسے رکھتا ہے؟‏

۱۰.‏ ۱-‏کرنتھیوں ۲:‏۶-‏۱۰ کے مطابق خدا اپنے حلیم خادموں پر کیا آشکارا کرتا ہے؟‏

۱۰ یہوواہ خدا مقررہ وقت پر اپنے مقصد کی تفصیل حلیم لوگوں پر آشکارا کرتا ہے۔‏ البتہ خدا کی حکمت مغروروں سے چھپی رہے گی کیونکہ وہ انسانی حکمت پر تکیہ کرتے ہیں۔‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۲:‏۶-‏۱۰‏)‏ جب حلیم لوگ خدا کے مقصد کو سمجھتے ہیں تو اُن میں شکرگزاری کا احساس بڑھتا ہے اور وہ خدا کی تمجید کرنے لگتے ہیں۔‏

۱۱.‏ پہلی صدی میں کئی اشخاص کیوں غرور میں آئے اور اس کا اُن پر کیا اثر ہوا؟‏

۱۱ پہلی صدی میں کئی اشخاص نے اُن باتوں کو قبول کرنے سے انکار کر دیا جو پولس رسول نے اُنہیں خدا کے مقصد کے بارے میں بتائیں۔‏ مگر کیوں؟‏ خدا نے پولس کو ”‏غیرقوموں کا رسول“‏ مقرر کِیا تھا۔‏ (‏رومیوں ۱۱:‏۱۳‏)‏ جسمانی نقطۂ‌نظر رکھنے والے اشخاص کے خیال میں ایسے استحقاقات ایک شخص کو اپنی قومیت،‏ تعلیم،‏ عمر اور تجربے کی وجہ سے دئے جانے چاہئیں۔‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۱:‏۲۶-‏۲۹؛‏ ۳:‏۱؛‏ کلسیوں ۲:‏۱۸‏)‏ لیکن یہوواہ اپنے خادموں کو ان نکات کی بِنا پر ذمہ‌داریاں نہیں سونپتا۔‏ اُس نے اپنے فضل کی بدولت پولس کو رسول کے طور پر مقرر کِیا تھا۔‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۱۵:‏۸-‏۱۰‏)‏ وہ اشخاص جنہیں پولس نے طنزاً ”‏افضل رسولوں“‏ کا لقب دیا،‏ اُنہوں نے پولس اور اُس کی تعلیم کو قبول نہیں کِیا۔‏ غرور میں آ کر وہ اس بات کو نہ سمجھ سکے کہ یہوواہ کس شاندار طریقے سے اپنے مقصد کو پورا کرتا ہے۔‏ دُعا ہے کہ ہم کبھی ان لوگوں کو حقیر نہ جانیں یا اُنہیں ترک نہ کریں جنہیں یہوواہ اپنے مقصد کو پورا کرنے کے لئے مقرر کرتا ہے۔‏—‏۲-‏کرنتھیوں ۱۱:‏۴-‏۶‏۔‏

۱۲.‏ موسیٰ کی مثال سے ہم کیسے جان سکتے ہیں کہ یہوواہ حلیم لوگوں کو برکتوں سے نوازتا ہے؟‏

۱۲ بائبل میں بہت سے ایسے حلیم لوگوں کا ذکر کِیا گیا ہے جنہیں خدا کی شان کو دیکھنے کا شرف حاصل ہوا۔‏ اس سلسلے میں موسیٰ کی مثال پر غور کریں جو خدا کے ساتھ ایک قریبی رشتہ رکھتا تھا۔‏ وہ ”‏سب آدمیوں سے زیادہ حلیم تھا۔‏“‏ (‏گنتی ۱۲:‏۳‏)‏ موسیٰ جس نے اپنی زندگی کے ۴۰ سال عموماً دشتِ‌عرب میں ایک عام چرواہے کے طور پر گزارے بہت سی برکتوں سے نوازا گیا۔‏ (‏خروج ۶:‏۱۲،‏ ۳۰‏)‏ یہوواہ خدا کی مدد سے موسیٰ بنی‌اسرائیل کا ترجمان بن گیا اور اُس نے اسرائیلیوں کو ایک قوم کے طور پر منتظم بھی کِیا۔‏ خدا موسیٰ سے روبرو باتیں کرتا۔‏ رویا کے ذریعے ”‏اُسے [‏یہوواہ]‏ کا دیدار بھی نصیب ہوتا۔‏“‏ (‏گنتی ۱۲:‏۷،‏ ۸؛‏ خروج ۲۴:‏۱۰،‏ ۱۱‏)‏ جن لوگوں نے یہوواہ کے اس حلیم خادم کو قبول کِیا،‏ اُنہیں بھی برکتوں سے نوازا گیا۔‏ اسی طرح ہمیں بھی موسیٰ سے بڑے نبی یعنی یسوع کو اور اُس کے مقررشُدہ ”‏دیانتدار اور عقلمند نوکر“‏ کو قبول کرکے ان کا کہنا مانا چاہئے۔‏ تب ہمیں بھی برکتیں نصیب ہوں گی۔‏—‏متی ۲۴:‏۴۵،‏ ۴۶؛‏ اعمال ۳:‏۲۲‏۔‏

۱۳.‏ پہلی صدی میں یہوواہ نے اپنی شان حلیم چرواہوں پر کیسے نمایاں کی؟‏

۱۳ ایک اَور مثال پر غور کیجئے:‏ جب یسوع کی پیدائش ہوئی تو فرشتوں نے اعلان کِیا کہ ’‏ایک منجّی یعنی مسیح خداوند‘‏ پیدا ہوا ہے۔‏ اُس وقت ”‏[‏یہوواہ]‏ کا جلال“‏ کن لوگوں کے ”‏چوگرد چمکا؟‏“‏ کیا یہوواہ کی شان گھمنڈ کرنے والے مذہبی پیشواؤں یا پھر عالی رُتبے رکھنے والے لوگوں پر نمایاں ہوئی؟‏ نہیں۔‏ بلکہ یہوواہ نے سب سے پہلے عام چرواہوں کو مسیح کی پیدائش کی خبر دی ”‏جو رات کو میدان میں رہ کر اپنے گلّہ کی نگہبانی کر رہے تھے۔‏“‏ (‏لوقا ۲:‏۸-‏۱۱‏)‏ یہ چرواہے نہ تو زیادہ پڑھےلکھے تھے اور نہ ہی ان کا کوئی عالی رُتبہ تھا۔‏ جی‌ہاں،‏ یہوواہ اپنی شان حلیم لوگوں پر نمایاں کرتا ہے جو اُس کی مرضی پوری کرتے ہیں۔‏

۱۴.‏ خدا حلیم لوگوں کو کن برکتوں سے نوازتا ہے؟‏

۱۴ ان مثالوں سے ہم سیکھ سکتے ہیں کہ یہوواہ حلیم اور فروتن لوگوں سے خوش ہوتا ہے۔‏ یہ اکثر ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کی جسمانی لحاظ سے کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔‏ خدا انہی پر اپنا مقصد آشکارا کرتا ہے۔‏ اور یہی اشخاص دوسروں کو خدا کے مقصد کے بارے میں بتانے کا شرف رکھتے ہیں۔‏ اس لئے ہمیں یہوواہ خدا،‏ اس کے پاک کلام اور اُس کی تنظیم سے راہنمائی حاصل کرتے رہنا چاہئے۔‏ ہمیں پورا یقین رکھنا چاہئے کہ خدا اپنے حلیم خادموں کو اپنے شاندار مقصد کے بارے میں تفصیلات فراہم کرتا رہے گا۔‏ اس سلسلے میں عاموس نبی نے یوں لکھا:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ خدا کچھ نہیں کرتا جب تک کہ اپنا بھید اپنے خدمت‌گزار نبیوں پر پہلے آشکارا نہ کرے۔‏“‏—‏عاموس ۳:‏۷‏۔‏

فروتن لوگ برکت پاتے ہیں

۱۵.‏ ہمیں فروتن کیوں رہنا چاہئے اور اس سلسلے میں ہم بادشاہ ساؤل کی مثال سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

۱۵ اگر ہم خدا کے سایہ میں رہنا چاہتے ہیں تو ہمیں فروتنی ظاہر کرتے رہنا پڑے گا۔‏ کیا ایک فروتن شخص بھی مغرور اور خودپسند بن کر خود کو بربادی کی طرف لے جا سکتا ہے؟‏ ساؤل نے جو بنی‌اسرائیل کا پہلا بادشاہ تھا اُس نے کچھ ایسی ہی روِش اختیار کی۔‏ جب اُسے بادشاہ کے طور پر چُنا گیا تو وہ ”‏اپنی ہی نظر میں حقیر تھا۔‏“‏ (‏۱-‏سموئیل ۱۵:‏۱۷‏)‏ لیکن اسرائیل پر دو سال حکمرانی کرنے کے بعد ساؤل نے غرور میں آ کر خود قربانیاں گزرانی شروع کر دیں۔‏ دراصل یہ شرف صرف خدا کے نبی سموئیل کو حاصل تھا۔‏ جب سموئیل نے ساؤل کو اُس کی حرکت پر ٹوکا تو اُس نے بہانے بنانا شروع کر دئے۔‏ (‏۱-‏سموئیل ۱۳:‏۱،‏ ۸-‏۱۴‏)‏ یہ ساؤل کی شیخی کی شروعات تھی۔‏ لہٰذا یہوواہ نے ساؤل سے اپنی روح اور اپنی برکت کو ہٹا دیا۔‏ آخرکار وہ ذلیل ہو کر مر گیا۔‏ (‏۱-‏سموئیل ۱۵:‏۳-‏۱۹،‏ ۲۶؛‏ ۲۸:‏۶؛‏ ۳۱:‏۴‏)‏ ہمارے لئے اس میں ایک اہم سبق ہے۔‏ ہمیں فروتن اور تابعدار رہنا چاہئے اور خودپسندی سے کنارہ کرنا چاہئے۔‏ اس طرح ہم کوئی ایسی حرکت نہیں کر بیٹھیں گے جس کی وجہ سے ہم یہوواہ کی خوشنودی کھو دیں۔‏

۱۶.‏ خدا اور دوسروں کی نسبت اپنی حیثیت پر غور کرنے سے ہم کیسے فروتن رہ سکتے ہیں؟‏

۱۶ فروتنی اور حلم ایسی خوبیاں ہیں جنہیں ہمیں خود میں پیدا کرنی چاہئیں۔‏ (‏گلتیوں ۵:‏۲۲،‏ ۲۳؛‏ کلسیوں ۳:‏۱۰،‏ ۱۲‏)‏ فروتنی کا تعلق اُس نظریہ سے ہے جو ہم اپنے اور دوسروں کے بارے میں رکھتے ہیں۔‏ لہٰذا ہمیں خود میں فروتنی پیدا کرنے کی بھرپور کوشش کرنی ہوگی۔‏ خدا اور دوسروں کی نسبت اپنی حیثیت پر غور کرنے سے ہم فروتن رہ سکتے ہیں۔‏ خدا کی نظر میں تمام انسان گھاس کی مانند ہیں جو اُگ کر چند دنوں بعد ہی مُرجھا جاتی ہے۔‏ جی‌ہاں،‏ انسان خدا کے نزدیک محض ٹڈوں کی مانند ہے۔‏ (‏یسعیاہ ۴۰:‏۶،‏ ۷،‏ ۲۲‏)‏ اب ذرا سوچیں:‏ کیا گھاس کا ایک پتا اس بات پر فخر کر سکتا ہے کہ وہ دوسرے پتے سے زیادہ بڑا ہے؟‏ یا کیا ایک ٹڈی اس بات پر شیخی مار سکتی ہے کہ وہ دوسری ٹڈیوں کی نسبت زیادہ تیز رفتار سے اُڑ سکتی ہے؟‏ بالکل نہیں۔‏ اس لئے پولس رسول نے مسیحیوں سے مخاطب ہو کر کہا:‏ ”‏تجھ میں اور دوسرے میں کون فرق کرتا ہے؟‏ اور تیرے پاس کونسی ایسی چیز ہے جو تُو نے دوسرے سے نہیں پائی؟‏ اور جب تُو نے دوسرے سے پائی تو فخر کیوں کرتا ہے کہ گویا نہیں پائی؟‏“‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۴:‏۷‏)‏ جب ہم بائبل کے ایسے حوالوں پر غور کریں گے تو فروتنی کو پیدا کرنے اور اسے ظاہر کرنے کی ہماری خواہش بڑھ جائے گی۔‏

۱۷.‏ دانی‌ایل نے خود میں عاجزی کی خوبی کو کیسے پیدا کِیا اور ہم اُس کی کیسے نقل کر سکتے ہیں؟‏

۱۷ دانی‌ایل نبی خدا کے نزدیک بہت ہی ”‏عزیز“‏ تھا کیونکہ وہ ”‏عاجزی“‏ یعنی فروتنی سے کام لیا کرتا تھا۔‏ (‏دانی‌ایل ۱۰:‏۱۱،‏ ۱۲‏)‏ دانی‌ایل نے خود میں عاجزی کی خوبی کو کیسے پیدا کِیا؟‏ اوّل تو دانی‌ایل باقاعدگی سے دُعا کرتا تھا کیونکہ وہ زندگی کے ہر پہلو میں یہوواہ خدا پر بھروسا کرتا تھا۔‏ (‏دانی‌ایل ۶:‏۱۰،‏ ۱۱‏)‏ دوم یہ کہ دانی‌ایل دل لگا کر خدا کے کلام کا مطالعہ کرتا تھا جس کی وجہ سے وہ خدا کے شاندار مقصد کو کبھی نہیں بھولا۔‏ اُس نے نہ صرف اپنی قوم کی غلطیوں بلکہ اپنی غلطیوں کا بھی اقرار کِیا۔‏ اس کے علاوہ دانی‌ایل نے اپنی بڑائی نہیں کی بلکہ وہ خدا کی بڑائی کرتا تھا۔‏ (‏دانی‌ایل ۹:‏۲،‏ ۵،‏ ۷‏)‏ کیا ہم بھی دانی‌ایل کی طرح اپنی زندگی کے ہر پہلو میں عاجزی سے کام لینے کو تیار ہیں؟‏

۱۸.‏ خدا حلیم لوگوں کو کیسے جلال میں قبول فرمائیگا؟‏

۱۸ امثال ۲۲:‏۴ میں بیان کِیا گیا ہے کہ ”‏دولت اور عزت‌وحیات [‏یہوواہ]‏ کے خوف اور فروتنی کا اجر ہیں۔‏“‏ جی‌ہاں،‏ یہوواہ فروتن لوگوں سے خوش ہوتا ہے اور انہیں انعام کے طور پر جلال اور زندگی بخشتا ہے۔‏ زبورنویس آسف خدا کی خدمت کو چھوڑنے ہی والا تھا۔‏ لیکن یہوواہ نے اُس کی اصلاح کی جس کے بعد آسف نے فروتنی ظاہر کرتے ہوئے کہا:‏ ”‏تُو اپنی مصلحت سے میری رہنمائی کرے گا اور آخرکار مجھے جلال میں قبول فرمائیگا۔‏“‏ (‏زبور ۷۳:‏۲۴‏)‏ خدا حلیم لوگوں کو کیسے جلال میں قبول فرمائیگا؟‏ وہ خدا کو خوش کر سکتے ہیں اور اُس کے نزدیک جا سکتے ہیں۔‏ اس کے علاوہ وہ اُس وقت کے منتظر ہیں جس کے بارے میں بادشاہ داؤد نے لکھا کہ ”‏حلیم ملک کے وارث ہوں گے اور سلامتی کی فراوانی سے شادمان رہیں گے۔‏“‏ واقعی،‏ فروتنی اور حلم پیدا کرنے والوں کے لئے کیا ہی شاندار اُمید!‏—‏زبور ۳۷:‏۱۱‏۔‏

کیا آپ کو یاد ہے؟‏

‏• یہوواہ خدا نے ستفنس پر اپنی شان کیوں نمایاں کی؟‏

‏• یہوواہ خدا نے کس طرح سے فروتنی کا اظہار کِیا؟‏

‏• کن لوگوں کی مثال سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ یہوواہ حلیم لوگوں پر اپنی شان نمایاں کرتا ہے؟‏

‏• ہم دانی‌ایل نبی کی مثال سے فروتنی پیدا کرنے کے بارے میں کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۱۲ پر بکس]‏

دل کے فروتن

جب سیدر پوائنٹ،‏ اوہائیو میں،‏ ۱۹۱۹ میں کنونشن ہوا تو بھائی رتھرفورڈ کی عمر ۵۰ سال تھی اور وہ یہوواہ کے گواہوں کے کام کی نگرانی کرتے تھے۔‏ لیکن اس موقعے پر وہ خوشی سے کنونشن پر حاضر ہونے والے بہن‌بھائیوں کا سامان اُٹھا کر اُنہیں اپنے اپنے کمروں تک پہنچاتے۔‏ کنونشن کے آخری دن پر بھائی رتھرفورڈ نے ایک زبردست تقریر دی۔‏ تقریباً ۰۰۰،‏۷ حاضرین کے سامنے اُنہوں نے یہ الفاظ کہے:‏ ”‏آپ بادشاہوں کے بادشاہ اور خداوندوں کے خداوند کے ایلچی ہیں جو لوگوں کو .‏ .‏ .‏ ہمارے خداوند کی جلالی بادشاہت کا پیغام سناتے ہیں۔‏“‏ بھائی رتھرفورڈ ایمان کے مضبوط تھے اور بڑی دلیری سے سچائی کی دفاع کرتے تھے۔‏ اس کے ساتھ ساتھ وہ دل کے فروتن بھی تھے۔‏ یہ بات اُن کی اُن دُعاؤں سے ظاہر ہوتی تھی جو وہ بیت‌ایل میں صبح کی پرستش کے وقت کِیا کرتے تھے۔‏

‏[‏صفحہ ۹ پر تصویر]‏

ستفنس جو پاک صحائف کا بڑا علم رکھتا تھا خوشی سے کھانا تقسیم کرتا تھا

‏[‏صفحہ ۱۰ پر تصویر]‏

یہوواہ خدا منسی کی عاجزی پر بہت خوش ہوا

‏[‏صفحہ ۱۲ پر تصویر]‏

دانی‌ایل نبی خدا کے نزدیک بہت ہی ”‏عزیز“‏ کیوں تھا؟‏