یہوواہ نے ہمیں طاقت دی
میری کہانی میری زبانی
یہوواہ نے ہمیں طاقت دی
از ارزیبٹ ہافنر
تبور ہافنر نے کہا: ”میرے جیتے ہوئے کوئی تمہیں اِس ملک سے نہیں نکال سکتا!“ پھر اُس نے شفقت بھرے لہجے میں مجھ سے پوچھا ”کیا تُم مجھ سے شادی کرو گی؟ اگر تُم مجھ سے شادی کرو گی تو تُم ہمیشہ یہاں میرے ساتھ رہ سکو گی۔“
شادی؟ یہ لفظ سنکر مَیں ہکابکا رہ گئی۔ مَیں شادی کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی تھی۔ مَیں تو صرف ۱۸ برس کی تھی اور مَیں اپنی جوانی میں تبلیغی کام میں مصروف رہنا چاہتی تھی۔ مَیں نہیں چاہتی تھی کہ میرے اِس کام میں کوئی رُکاوٹ پیدا ہو۔ اسلئے مَیں سوچنے لگی: ”شادی کروں یا نہ کروں؟“ مَیں یہوواہ خدا سے التجا کرنے لگی کہ وہی مجھے راستہ دکھائے۔ پھر اپنے جذبات پر قابو پانے کے بعد مَیں ٹھنڈے دماغ سے سوچنے لگی۔ مَیں جانتی تھی کہ تبور مجھ سے بہت پیار کرتا ہے۔ آخرکار مَیں نے فیصلہ کر ہی لیا۔ اور کچھ ہفتے بعد جنوری ۲۹، ۱۹۳۸ میں ہم دونوں نے شادی کر لی۔
لیکن مجھے ملک سے کیوں نکالا جا رہا تھا؟ مَیں تو چیکوسلواکیہ کی جمہوریت میں رہ رہی تھی۔ اس ملک کی حکومت مذہبی آزادی کو فروغ دینے کا دعویٰ کرتی تھی۔ آئیے مَیں آپکو بتاتی ہوں کہ مجھ پر کیا گزری۔
میری پیدائش ملک ہنگری کے ایک چھوٹے گاؤں میں دسمبر ۲۶، ۱۹۱۹ کو ہوئی۔ میرے والدین کیتھولک مذہب سے تعلق رکھتے تھے۔ میرے والد میرے جنم کے کچھ ہی ماہ قبل گزر چکے تھے۔ اُنکی وفات کے بعد امی نے دوسری شادی کر لی اور ہم اپنا گاؤں چھوڑ کر میرے سوتیلے باپ کیساتھ اسکے شہر میں جا کر بس گئے۔ یہ شہر اُس وقت ملک چیکوسلواکیہ میں واقع تھا۔ میرے سوتیلے باپ کے اپنی پہلی بیوی سے چار بچے تھے۔ گھر میں مَیں سب سے چھوٹی تھی۔ اکثر مجھے ماںباپ کے لاڈ پیار کی کمی محسوس ہوتی تھی۔ اُس زمانے میں معاشی حالات کافی خراب تھے جسکی وجہ سے بھی ہمیں نہایت تکلیفیں برداشت کرنی پڑیں۔
جوابات کی کھوج
۱۶ برس کی عمر میں مَیں سوچنے لگی کہ آخر اِنسان کیوں ایک دوسرے سے نفرت کرتے ہیں، کیوں آپس میں لڑتے ہیں؟ مَیں پہلی عالمی جنگ کی تاریخ کے بارے میں پڑھنے لگی اور پڑھتے پڑھتے حیران رہ گئی۔ اس جنگ میں لوگ جو مسیحی ہونے کا دعویٰ کرتے تھے وہی دوسروں کی جان لینے پر تُلے ہوئے تھے۔ لیکن اب یورپ میں دوسری عالمی جنگ کے چھڑنے کے آثار نظر آ رہے تھے۔ اِسکے ساتھ ساتھ چرچوں میں پیار محبت پر لمبی چوڑی تقریریں کی جا رہی تھیں۔ یہ تو سراسر ریاکاری ہے مَیں نے سوچا۔ آخر یہ سب کیوں ہو رہا ہے؟
یہ سوالات مجھے کھائے جا رہے تھے۔ اسلئے مَیں نے ایک کیتھولک پادری سے پوچھا: ”کیا یسوع نے یہ نہیں کہا تھا کہ مسیحیوں کو آپس میں پیار محبت سے پیش آنا چاہئے؟ تو پھر ہم ایک دوسرے کی جان لینے پر کیوں تُلے ہوئے ہیں؟“ یہ سُن کر پادری نے رُوکھے انداز میں کہا: ”مَیں نہیں جانتا۔ مَیں بس وہی سکھاتا ہوں جو مجھے بتایا جاتا ہے۔“ پھر مَیں وہی سوال لیکر ایک پروٹسٹنٹ پادری کے پاس گئی۔ اُس نے بغیر جواب دئے مجھے بھگا دیا۔ ایک یہودی مذہبی رہنما نے بھی میرے ساتھ کچھ ایسا ہی سلوک کِیا۔ آخرکار، مَیں ایک لوتھرن پادری کے پاس گئی۔ وہ بھی مجھ سے خفا ہوا مگر میرے جاتے جاتے اُس نے کہا: ”تمہیں اِس سوال کا جواب فقط یہوواہ کے گواہ ہی دے سکیں گے۔“
لہٰذا، مَیں یہوواہ کے گواہوں کی کھوج میں لگ گئی مگر کافی عرصے تک ناکام رہی۔ پھر ایک دن جب مَیں ملازمت سے گھر واپس آئی تو کیا دیکھتی ہوں کہ ایک جوان آدمی دہلیز پر کھڑا امی کو بائبل سے کچھ پڑھ کر سنا رہا ہے۔ مَیں نے دل ہی دل میں سوچا ’یقیناً یہ یہوواہ کا ایک گواہ ہے۔‘ ہم نے اُسے اندر آنے کی دعوت دی۔ یہی تبور ہافنر تھا۔ اُس سے مَیں نے وہی سوال پوچھا جو مَیں نے پادریوں سے بھی پوچھا تھا۔ اُس نے مجھے بائبل میں سے اِسکا جواب دیا۔ اُس نے بتایا کہ بائبل کے مطابق ہم آخری دنوں میں رہ رہے ہیں اور جنگیں اِسی بات کی ایک نشانی ہیں۔ اُس نے مجھے یہ بھی دکھایا کہ سچے مسیحیوں کو اُس پیار سے پہچانا جاتا ہے جو وہ آپس میں رکھتے ہیں۔ یہ سُن کر میری آنکھیں کھل گئیں۔—یوحنا ۱۳:۳۴، ۳۵؛ ۲-تیمتھیس ۳:۱-۵۔
اِس واقعہ کے کچھ ہی ماہ بعد مَیں نے بپتسمہ لے لیا اور یہوواہ کی گواہ بن گئی۔ اُس وقت مَیں ۱۷ سال کی بھی نہیں ہوئی تھی۔ مجھے احساس ہوا کہ بائبل سے جو باتیں مَیں نے سیکھی ہیں، اُنہیں دوسروں کو بتانا بےحد ضروری ہے۔ اِسلئے مَیں نے کُلوقتی طور پر تبلیغی کام میں حصہ لینا شروع کر دیا۔ اُن دنوں چیکوسلواکیہ میں منادی کرنا آسان نہیں تھا۔ حالانکہ منادی کرنے کے لئے ہمیں قانون کی طرف سے اجازت تھی پھر بھی کئی پادری ہمارے اِس کام کی خلافورزی کرتے تھے۔
مَیں جیل کی ہوا چکھتی ہوں
میرے بپتسمہ کو تقریباً ایک سال ہو چکا تھا۔ ایک دن مَیں اپنی سہیلی کیساتھ ایک گاؤں میں منادی کر رہی تھی۔ اچانک پولیس آ گئی اور ہمیں گرفتار کرکے قیدخانے لے گئی۔ کوٹھری کا دروازہ بند کرتے ہوئے حوالدار نے تلخ انداز میں ہم سے کہا: ”تُم دونوں یہیں سڑو گی۔“
حوالدار شام کو ہماری کوٹھری میں مزید چار قیدیوں کو لے آیا۔ یہ چاروں عورتیں بہت ہی خوفزدہ تھیں۔ ہم انہیں دلاسا دینا چاہتی تھیں۔ اسلئے ہم انہیں خدا کے شاندار وعدوں کے بارے میں بتانے لگیں۔ ایسی خوشگوار باتیں سنکر اُنکی بہت تسلی ہوئی۔ ہم ساری رات اُنکو یہوواہ خدا کے بارے میں گواہی دیتی رہیں۔
پَو پھٹتے ہی حوالدار مجھے کوٹھری سے لینے آ گیا۔ مَیں نہیں جانتی تھی کہ وہ مجھے کہاں لے جانے والا ہے۔ اسلئے مَیں نے اپنی سہیلی سے کہا: ”ہم دونوں نئی دُنیا میں پھر ملیں گے۔ اگر تُم یہاں سے بچ نکلی تو امی کو بتا دینا کہ مجھ پر کیا گزری۔“ دل میں یہوواہ سے دُعا کرتے ہوئے مَیں حوالدار کیساتھ چل پڑی۔ حوالدار مجھے اپنے مکان لے گیا جو قیدخانے کیساتھ ہی تھا۔ گھر میں داخل ہوتے ہوئے مَیں نے دیکھا کہ اُسکی بیوی بھی وہاں بیٹھی ہے۔ حوالدار نے مجھ سے کہا: ”مجھے تُم سے ایک سوال کرنا ہے۔ کل رات تُم اُن عورتوں سے کہہ رہی تھی کہ خدا کا نام یہوواہ ہے۔ یہ بائبل میں کدھر لکھا ہے؟“ یہ سنکر مَیں دَنگ رہ گئی اور میری جان میں جان آئی۔ حوالدار ایک بائبل لیکر آیا اور مَیں نے اُسے اور اُسکی بیوی کو بائبل میں یہوواہ کا نام دکھایا۔ اُسکے اَور بھی بہت سے
سوال تھے۔ اُن سب کے جوابات پا کر وہ خوش ہوا۔ پھر اُس نے اپنی بیوی سے میرے اور میری سہیلی کیلئے ناشتہ تیار کرنے کو کہا۔چند ہی دنوں کے بعد ہم دونوں کو جیل سے رِہا کر دیا گیا اور عدالت میں پیش کِیا گیا۔ مَیں ملک ہنگری کی شہری تھی اِسلئے جج نے مجھے چیکوسلواکیہ کو چھوڑنے کا فیصلہ سنایا۔ اِسی واقعہ کے بعد تبور نے مجھ سے شادی کی درخواست کی۔ شادی کے بعد ہم دونوں تبور کے والدین کے ہاں رہنے لگے۔
میرے شوہر کی دردناک داستان
ہم دونوں منادی کے کام میں مصروف رہتے تھے حالانکہ تبور کو کلیسیا میں بھی کافی ذمہداریاں سونپی گئی تھیں۔ نومبر ۱۹۳۸ میں ہنگری نے چیکوسلواکیہ پر حملہ کرکے اُسکا زیادہتر حصہ اپنے قبضے میں لے لیا جسکی وجہ سے اس علاقے میں یہوواہ کے گواہوں پر ستم ٹوٹ پڑا۔ اس واقعہ کے چند ہی روز پہلے مَیں نے اپنے بیٹے تبور جونئر کو جنم دیا۔ اُس وقت دوسری عالمی جنگ چھڑنے ہی والی تھی۔
اکتوبر ۱۰، ۱۹۴۲ کا دن آج بھی مجھے اچھی طرح یاد ہے۔ تبور بعض بھائیوں سے ملنے کیلئے پاس ہی ایک شہر کو روانہ ہوا۔ اُسے ایک پُل کے پاس ان بھائیوں سے ملنا تھا۔ مگر پُل پر پولیس اُسکی تاک میں بیٹھی تھی۔ پولیس نے تبور سمیت ایک اَور بھائی کو حراست میں لے لیا۔ اُنہیں تھانے لے جایا گیا جہاں لاٹھی سے اُنکے پیروں کو اِس قدر ماراپیٹا گیا کہ وہ بےہوش ہو گئے۔
پھر اِس حالت میں اُنہیں مجبوراً بُوٹ پہنا کر ریلوے سٹیشن تک پیدل چلنے کا حکم دیا گیا۔ انکے علاوہ ایک اَور بھائی کو بھی سٹیشن پر لایا گیا۔ اُسے اِس قدر مارا گیا تھا کہ اُسکے چہرے پر پٹیاں باندھنی پڑی تھیں جنکے بیچ سے وہ بمشکل دیکھ پا رہا تھا۔ سٹیشن سے میرے شوہر کو ایک قیدخانے پہنچایا گیا۔ تبور کی حالت دیکھ کر ایک سپاہی نے طنزاً کہا: ”اوہ اوہ، یہ کیا ہو گیا بےچارے کو۔ چلو ابھی ٹھیک کر دیتے ہیں تمہیں۔“ اِس پر دو سپاہی تبور کو دوبارہ اُسکے پیروں پر اِس قدر مارنے لگے کہ گردوپیش کی دیواریں خون سے لتپت ہو گئیں۔ تبور وہیں بےہوش ہو گیا۔
کچھ ہی دنوں بعد تبور سمیت ۶۰ بہنوں اور بھائیوں کے خلاف مقدمہ کا سلسلہ جاری ہوا۔ ان میں سے تین بھائیوں کو موت کی سزا اور ایک بھائی کو عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ تبور کو ۱۲ سال کی قید دی گئی۔ آخر اِن تمام بہنبھائیوں کا کیا جرم تھا؟ سرکاری وکیل کے مطابق اِنکے جرائم یہ تھے: وطن کے خلاف بغاوت، فوج میں بھرتی ہونے سے انکار، ملک کے راز فاش کرنا اور چرچ کی توہین۔ بعد میں جن بھائیوں کو موت کی سزا سنائی گئی تھی انکی سزا کو عمر قید میں تبدیل کر دیا گیا۔
شوہر کے نقشقدم پر
جس دن تبور بھائیوں سے ملنے کیلئے روانہ ہوا اُسکے دو دن بعد مَیں صبحسویرے گھر کا کام کاج کر رہی تھی۔ اچانک کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ دروازہ کھلتے ہی ۶ سپاہی اندر گھس آئے اور گھر کی تلاشی لینے لگے۔ پھر وہ ہم سب کو گرفتار کرکے تھانے لے گئے۔ میرا ننھا بیٹا تبور جونئر بھی ہمارے ساتھ تھا۔ پھر ہمیں ملک بدر کرکے ہنگری کے ایک قیدخانے بھیج دیا گیا۔
قیدخانے میں پہنچ کر مَیں بیمار پڑ گئی۔ اسلئے مجھے دوسرے قیدیئوں سے الگ کر دیا گیا۔ جب مَیں صحتیاب ہو گئی تو دو سپاہی میری کوٹھری میں آئے۔ ایک سپاہی نے کہا: ”چلو، مَیں اِسے ابھی گولی سے اُڑا دیتا ہوں۔“ مگر دوسرے نے کہا: ”نہیں، نہیں، پہلے یہ دیکھ لینا چاہئے کہ وہ تندرست ہے یا نہیں۔“ مَیں نے اُن سے اپنی جان کی بھیک مانگی۔ آخرکار وہ چلے گئے۔ اُنکے جانے کے فوراً بعد مَیں اپنے گھٹنے ٹیک کر یہوواہ کا شکر ادا کرنے لگی۔
قیدخانے کے سپاہی یہ جاننا چاہتے تھے کہ میرا شوہر کس سے ملنے کیلئے جا رہا تھا۔ اُنکا پوچھگچھ کرنے کا طریقہ بڑا بےرحم اور خوفناک تھا۔ اُنہوں نے مجھے فرش پر مُنہ کے بل لیٹنے کا حکم دیا۔ پھر اُنہوں نے میرے مُنہ میں موزے گھسیڑ دئے اور میرے ہاتھ پیر باندھ کر مجھے چابک سے اِس قدر مارنے لگے کہ مَیں خون سے لتپت ہو گئی۔ وہ تب ہی رُکے جب وہ مجھے مار مار کر تھک گئے۔ مگر وہ مجھ سے کچھ بھی اُگلوا نہیں سکے۔ اِسلئے وہ مجھے دوبارہ مارنے لگے۔ یہ سلسلہ تین دن تک جاری رہا۔ چوتھے دن مجھے اپنے بیٹے تبی کو اُسکی نانی
کے گھر چھوڑنے کی اجازت مل گئی۔ لیکن مجھے شام تک جیل لوٹ جانے کا حکم دیا گیا۔ باہر شدید ٹھنڈ تھی۔ مَیں نے اپنے ننھے تبور کو اپنی دُکھتی ہوئی پیٹھ پر بٹھا لیا۔ اسطرح آٹھ میل کا فاصلہ پیدل طے کرتے ہوئے ہم دونوں سٹیشن پہنچ گئے۔ سٹیشن سے ریلگاڑی میں سوار ہو کر مَیں نے تبی کو اپنی نانی کے پاس چھوڑ دیا اور خود دوبارہ جیل کا رُخ کِیا۔میرے خلاف مقدمہ دائر کِیا گیا جسکے بعد مجھے شہر بڈاپشٹ کے ایک قیدخانے میں بھیج دیا گیا۔ جب مَیں وہاں پہنچی تو مجھے پتہ چلا کہ میرا شوہر بھی وہیں قید ہے۔کیا آپ ہماری خوشی کا اندازہ لگا سکتے ہیں جب ہمیں کچھ لمحوں کیلئے ایک دوسرے سے ملنے کی اجازت دی گئی؟ یہ لمحات ہمارے لئے انمول تھے اگرچہ ہمارے درمیان لوہے کا ایک لمبا باڑا تھا۔ اِن چند نایاب لمحات کیلئے ہم نے یہوواہ کا شکر ادا کِیا۔ واقعی یہوواہ ہماری دیکھبھال کر رہا تھا۔ ہم نہیں جانتے تھے کہ اگلی ملاقات تک ہمیں کن کن دردناک اذیتوں سے گزرنا پڑیگا۔
قید کی ہوا
اِس قیدخانے کی ایک چھوٹی سی کوٹھری میں تقریباً ۸۰ بہنوں کو کھچاکھچ بھر دیا گیا تھا۔ ہم روحانی خوراک کیلئے ترستے تھے۔ قیدخانے کی لائبریری میں ایک بائبل تھی۔ لیکن ہم اسے کیسے حاصل کر سکتے تھے؟ لائبریری کی ہر کتاب کا نمبر تھا۔ اگر ہمیں لائبریری سے بائبل کا نمبر مل جائے تو اِس نمبر کا استعمال کرکے، ہم بائبل منگوا سکتے۔ مَیں نے قیدخانے کے دفتری ملازموں کی جُرابوں کی مرمت کرنے کی درخواست کی۔ ایک دن مَیں نے کاغذ کے ایک پرزے پر لکھا کہ مجھے بائبل اور دو دیگر کتابوں کے نمبر چاہئیں۔ پھر مَیں نے اِس پرزے کو ایک جُراب کے اندر چھپا دیا۔ مَیں نے دو دیگر کتابوں کے نمبر اِسلئے منگوائے تھے کیونکہ مَیں کسی کو شک نہیں دلانا چاہتی تھی۔
اگلے دن سلائی کیلئے جُرابوں کا ایک ڈھیر آیا۔ اُن میں سے ایک میں ایک کاغذ پر بائبل اور دو کتابوں کے نمبر درج تھے۔ مَیں نے سپاہی کو ان تین کتابوں کے نمبر دے دئے۔ اُسے کچھ شک نہیں ہوا۔ آخرکار جب ہمیں بائبل مل گئی تو ہم خوشی کے مارے اُچھل پڑیں۔ ہم باقی دو کتابوں کے بدلے مزید دو کتابیں منگوایا کرتیں۔ مگر بائبل ہمارے پاس ہی رہتی۔ ایک بار ایک سپاہی نے ہم سے پوچھا کہ تُم لوگ صرف دو کتابوں کو بدلتی رہتی ہو، پر تیسری کو کیوں نہیں بدلتی؟ ہم نے اُسکو جواب دیا کہ یہ بہت موٹی کتاب ہے اور ہم سب کو اسے پڑھنے کا شوق ہے۔ اُسے کوئی شک نہیں ہوا۔
ایک دن قیدخانے کے افسر نے مجھے اپنے دفتر میں بلایا۔ بڑی شائستگی سے اُس نے مجھ سے کہا:
”محترمہ مجھے آپکو ایک خوشخبری سنانی ہے۔ آپ گھر جا سکتی ہیں۔“
”یہ تو واقعی بڑی خوشی کی بات ہے۔“ مَیں نے کہا۔
”ہاں، اور آپکا ایک ننھا بچہ بھی تو ہے۔ وہ آپکو دیکھ کر بہت خوش ہوگا۔ بس یہاں دستخط کر دیجئے۔“
”یہ کیا ہے؟“ مَیں نے پوچھا۔ ”اس پر کیا لکھا ہے؟“
”اوہ، کچھ خاص نہیں۔ بس یہی کہ آپکو منظور ہے کہ آج سے آپ یہوواہ کے گواہوں سے تعلق نہیں رکھینگی۔ پھر گھر جا کر آپ جو جی چاہے کر سکتی ہیں۔ یہاں دستخط کرنے کے بعد آپ فوراً آزاد ہو جائینگی۔“
مَیں پیچھے ہٹ گئی اور دستخط کرنے سے صاف انکار کر دیا۔
”پھر آپ مرتے دم تک اِسی جیل کی ہوا کھاتی رہینگی۔“ وہ بوکھلا کر بولا۔
مئی ۱۹۴۳ میں مجھے شہر بڈاپشٹ کے ایک دوسرے قیدخانے میں منتقل کر دیا گیا۔ کچھ دنوں کے بعد ہمیں ایک خانقاہ میں کام کرنے کیلئے بھیج دیا گیا۔ اُس خانقاہ میں تقریباً ۷۰ راہبائیں رہتی تھیں۔ یہاں کے حالات بھی اچھے نہیں تھے۔ کافی مرتبہ رات کو ہمیں بھوکے پیٹ سونا پڑتا تھا۔ اس صورتحال کے باوجود ہم وہاں کی راہباؤں کو یہوواہ خدا کے بارے میں بتایا کرتی تھیں۔ جب ہم نے ایک راہبہ کو آنے والی نئی دُنیا کے بارے میں بتایا تو اُس نے کہا: ”یہ تو اتنی عمدہ باتیں ہیں جو آپ مجھے سکھا رہی ہیں۔ اسطرح سے تو مجھے کسی نے بھی بائبل نہیں سمجھائی۔“ ایک دن خانقاہ کی صدر راہبہ نے اُسے ہمارے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے رنگے ہاتھ پکڑ لیا۔ نتیجتاً اُسے فوراً سزا دی گئی۔ اُسکے کپڑے اُتار کر اُسے چابک سے مارا گیا۔ جب وہ بعد میں
ہم سے ملی تو سسکیاں بھرتے ہوئے بولی ”یہوواہ سے میرے لئے دُعا کریں کہ مَیں یہاں سے بچ نکلوں۔ مَیں یہاں ایک پل بھی نہیں رہنا چاہتی۔ مَیں بھی آپ لوگوں کی طرح یہوواہ خدا کی خدمت کرنا چاہتی ہوں۔“پھر ہمیں بڈاپشٹ سے تقریباً ۵۰ میل دُور ایک پُرانے قیدخانے منتقل کِیا گیا۔ یہ قیدخانہ اتنا میلا اور غلیظ تھا کہ یہاں جینا دشوار تھا۔ کئی بہنیں بیمار پڑ گئیں۔ مجھے بھی ٹائیفائیڈ ہو گیا۔ مجھے راتبھر خون کی قے آتی رہی۔ میرا پورا جسم پیلا پڑ گیا اور مَیں نہایت کمزور ہو گئی۔ جیل میں دوائیاں دستیاب نہیں تھیں۔ اسلئے مَیں نے سوچا کہ مَیں یقیناً مر جاؤنگی۔ اِس دوران کچھ بہنوں کو پتا چلا کہ جیل کے افسر ایک ایسی عورت کی تلاش میں ہیں جو دفتر کا کامکاج کرنا جانتی ہو۔ اُن بہنوں نے میری سفارِش کی۔ جیل کے افسروں نے فوراً میرے لئے دوائیاں منگوائیں۔ تب جا کر مَیں صحتیاب ہوئی۔
آخرکار بچھڑے ہوئے مل جاتے ہیں
دوسری عالمی جنگ اپنے اختتام پر پہنچنے والی تھی۔ روسی فوج ہنگری پر حملہ کرنے کیلئے مشرقی سمت سے آ رہی تھی۔ اِسلئے سپاہیوں نے تمام قیدیوں کو مغرب کی طرف روانہ ہونے کا حکم دیا۔ اس سفر کے دوران ہم جن خطروں سے گزرے مَیں بیان بھی نہیں کر سکتی۔ میری جان اکثر خطرے میں ہوتی۔ یہوواہ کا شکر ہے کہ مَیں زندہ بچ نکلی۔ آخر جنگ ختم ہو گئی۔ ہر طرف افراتفری مچی ہوئی تھی۔ مزید تین ہفتوں کے بعد ۳۰ مئی ۱۹۴۵ کو مَیں اپنی نند کیساتھ گھر پہنچ گئی۔
مَیں اپنے بیٹے تبی سے ملنے کیلئے بےقرار تھی۔ گھر کے نزدیک پہنچتے ہی مَیں نے دیکھا کہ میری ساس اور تبی باہر باغیچے میں بیٹھے ہیں۔ تبی کو دیکھ کر میرے آنسو بہنے لگے۔ ”تبی بیٹا!“ مَیں نے پکارا۔ تبی فوراً اُٹھا اور میری طرف بھاگ آیا۔ مَیں نے اُسے اپنی بانھوں میں سمیٹ لیا۔ اُس نے کہا: ”امی آپ مجھے دوبارہ تو نہیں چھوڑ کر چلی جائینگی؟“ مَیں آج تک اُسکے یہ الفاظ نہیں بھولی۔
یہوواہ نے اپنے کرم میں میرے شوہر تبور کو بھی صحیحسلامت گھر پہنچا دیا۔ اُسے ۱۶۰ بھائیوں سمیت بڈاپشٹ کے قیدخانے سے ایک لیبرکیمپ میں بھیج دیا گیا تھا۔ وہاں موت اُنکے سر پر سوار رہتی تھی لیکن زیادہتر بھائی یہوواہ کے رحم سے زندہ بچ نکلے۔ آخر، میری رِہائی کے تقریباً ایک ماہ پہلے یعنی ۸ اپریل ۱۹۴۵ کو تبور کو رِہا کر دیا گیا۔
جنگ تو ختم ہو گئی مگر اسکے ساتھ ساتھ آزمایشوں کا ایک نیا دَور شروع ہو گیا۔ چیکوسلواکیہ کیمونسٹ حکومت کے ہاتھوں میں آ گیا۔ تبور کو دوبارہ جیل بھجوا دیا گیا۔ اب مجھے کچھ عرصہ تک تبی کی پرورش اکیلے کرنی پڑی۔ تبور کی رِہائی کے بعد وہ سفری نگہبان کے طور پر بھائیوں کی خدمت کرنے لگا۔ کیمونسٹوں نے ۴۰ سال تک چیکوسلواکیہ پر حکومت کی۔ اس دوران ہم نے لوگوں کو یہوواہ کی بادشاہت کے بارے میں بتانے کے ہر موقعے کا بھرپور فائدہ اُٹھایا۔ ان لوگوں میں سے کئی آج ہمارے ساتھ یہوواہ خدا کی خدمت کر رہے ہیں۔
سن ۱۹۸۹ میں یہوواہ کے گواہوں کی عبادت پر سے پابندیاں اُٹھا دی گئیں۔ لہٰذا، اگلے سال ہی چیکوسلواکیہ میں ایک بڑے کنونشن کا انتظام کِیا گیا۔ اِسکی اطلاع ملتے ہی میرا دل باغ باغ ہو گیا۔ کنونشن کے دن سٹیڈیم بہنبھائیوں سے کھچاکھچ بھرا تھا۔ جب مَیں نے ان ہزاروں بہنبھائیوں کو دیکھا جنہوں نے آگ کی بھٹی سے گزرنے کے باوجود اپنے ایمان کی شہادت دی تھی تو میری آنکھیں بھر آئیں۔ واقعی یہوواہ نے ان تمام اذیتوں میں ہمیں سہارا دیا تھا۔
افسوس کی بات ہے کہ ۱۴ اکتوبر ۱۹۹۳ کو میرے شوہر کا انتقال ہو گیا۔ آجکل مَیں ملک سلواکیہ کے اس شہر میں رہتی ہوں جہاں میرا بیٹا بھی رہتا ہے۔ مَیں جسمانی طور پر ضعیف اور کمزور پڑ گئی ہوں۔ لیکن یہوواہ کی طاقت سے مَیں آج بھی روحانی طور پر مضبوط ہوں۔ مجھے اِس بات پر کوئی شک نہیں کہ اُسکی طاقت سے مَیں ہر طوفان کا سامنا کر سکتی ہوں۔ اب مَیں اُس نئی دُنیا کا انتظار کر رہی ہوں جہاں مَیں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے یہوواہ خدا کی خدمت کر سکونگی۔
[صفحہ ۲۰ پر تصویر]
میرا بیٹا تبور جونئر، ۴ سال کی عمر میں
[صفحہ ۲۱ پر تصویر]
میرا شوہر تبور، کچھ بھائیوں کے ہمراہ
[صفحہ ۲۲ پر تصویر]
مَیں، اپنی نند اور اپنے شوہر کیساتھ
[صفحہ ۲۳ پر تصویر]
”میری جان اکثر خطرے میں ہوتی۔ یہوواہ کا شکر ہے کہ مَیں زندہ بچ نکلی“