مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

تھکے ہوئے پر ماندہ نہیں

تھکے ہوئے پر ماندہ نہیں

تھکے ہوئے پر ماندہ نہیں

‏”‏[‏یہوواہ]‏ خدایِ ابدی‌وتمام زمین کا خالق .‏ .‏ .‏ تھکے ہوئے کو زور بخشتا ہے اور ناتوان کی توانائی کو زیادہ کرتا ہے۔‏“‏—‏یسعیاہ ۴۰:‏۲۸،‏ ۲۹‏۔‏

۱،‏ ۲ (‏ا)‏ ایسے تمام لوگوں کو جو سچی پرستش کو عمل میں لانا چاہتے ہیں کیا حوصلہ‌افزا دعوت دی گئی ہے؟‏ (‏ب)‏ کیا چیز ہماری روحانیت کیلئے انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے؟‏

یسوع کے شاگردوں کے طور پر ہم سب اسکی اس حوصلہ‌افزا دعوت سے بخوبی واقف ہیں:‏ ”‏اَے محنت اُٹھانے والے اور بوجھ سے دبے ہوئے لوگو سب میرے پاس آؤ۔‏ مَیں تمکو آرام دونگا .‏ .‏ .‏ کیونکہ میرا جؤا ملائم ہے اور میرا بوجھ ہلکا۔‏“‏ (‏متی ۱۱:‏۲۸-‏۳۰‏)‏ مسیحیوں کو بھی ”‏[‏یہوواہ]‏ کے حضور سے تازگی“‏ پانے کی پیشکش کی گئی ہے۔‏ (‏اعمال ۳:‏۱۹‏)‏ یقیناً آپ نے بھی ذاتی طور پر بائبل سچائی سیکھنے کے تازگی‌بخش اثرات،‏ مستقبل کی بابت روشن اُمید اور یہوواہ کے معیاروں کا اپنی زندگی میں اطلاق کرنے کا تجربہ کِیا ہوگا۔‏

۲ تاہم،‏ یہوواہ کے بعض پرستار جذباتی تھکاوٹ کا شکار ہو جاتے ہیں۔‏ بعض معاملات میں حوصلہ‌شکنی کا دورانیہ مختصر ہوتا ہے۔‏ دیگر اوقات میں پریشان‌کُن احساسات طویل عرصہ تک قائم رہ سکتے ہیں۔‏ وقت گزرنے کیساتھ ساتھ بعض شاید محسوس کریں کہ انکی مسیحی ذمہ‌داریاں یسوع کے تازگی بخشنے کے وعدہ کے برعکس ایک بھاری بوجھ بن گئی ہیں۔‏ ایسے منفی احساسات یہوواہ کیساتھ ہمارے رشتے کے لئے انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔‏

۳.‏ یسوع نے یوحنا ۱۴:‏۱ میں پائی جانے والی مشورت کیوں پیش کی تھی؟‏

۳ اپنے پکڑوائے جانے اور مصلوب ہونے سے کچھ دیر پہلے یسوع نے اپنے شاگردوں سے کہا،‏ ”‏تمہارا دل نہ گھبرائے۔‏ تم خدا پر ایمان رکھتے ہو مجھ پر بھی ایمان رکھو۔‏“‏ (‏یوحنا ۱۴:‏۱‏)‏ یسوع نے یہ الفاظ اپنے شاگردوں سے اُس وقت کہے جب وہ تکلیف‌دہ واقعات کا سامنا کرنے والے تھے۔‏ اسکے بعد اُنہیں سخت اذیت کا مقابلہ کرنا ہوگا۔‏ یسوع جانتا تھا کہ شدید حوصلہ‌شکنی کے باعث اُسکے رسول ٹھوکر کھا سکتے تھے۔‏ (‏یوحنا ۱۶:‏۱‏)‏ اگر تکلیف‌دہ احساسات پر قابو نہ پایا جائے تو یہ روحانی طور پر تباہ‌کُن ثابت ہو سکتے اور یہوواہ پر اُنکے بھروسے کے ختم ہو جانے کا باعث بن سکتے تھے۔‏ یہ آجکل کے مسیحیوں کی بابت بھی سچ ہے۔‏ طویل حوصلہ‌شکنی بہت زیادہ تکلیف‌دہ ہو سکتی ہے اور اس سے ہمارے دل بوجھل ہو سکتے ہیں۔‏ (‏یرمیاہ ۸:‏۱۸‏)‏ ہم باطنی طور پر کمزور ہو سکتے ہیں۔‏ اس دباؤ کے تحت،‏ ہو سکتا ہے کہ ہم جذباتی اور روحانی طور پر ناکارہ ہو جائیں،‏ حتیٰ‌کہ یہوواہ کی پرستش کرنے کی ہماری خواہش بھی ختم ہو سکتی ہے۔‏

۴.‏ کیا چیز ہمیں اپنے علامتی دل کو ماندہ ہونے سے بچانے میں مدد دے سکتی ہے؟‏

۴ بائبل کی مشورت واقعی موزوں ہے:‏ ”‏اپنے دل کی خوب حفاظت کر کیونکہ زندگی کا سرچشمہ وہی ہے۔‏“‏ (‏امثال ۴:‏۲۳‏)‏ بائبل ہمیں عملی مشورت پیش کرتی ہے جو ہمیں اپنے علامتی دل کو حوصلہ‌شکنی اور روحانی تھکن سے محفوظ رکھنے میں مدد دیتی ہے۔‏ سب سے پہلے،‏ ہمیں اپنی تھکان کی وجہ جاننے کی ضرورت ہے۔‏

مسیحیت استبدادی نہیں ہے

۵.‏ مسیحی شاگردی کے متعلق کونسی واضح حقیقت موجود ہے؟‏

۵ یہ سچ ہے کہ ایک مسیحی بننا انتھک کوشش کا تقاضا کرتا ہے۔‏ (‏لوقا ۱۳:‏۲۴‏)‏ یسوع نے بھی یہ کہا:‏ ”‏جو کوئی اپنی صلیب اُٹھاکر میرے پیچھے نہ آئے وہ میرا شاگرد نہیں ہو سکتا۔‏“‏ (‏لوقا ۱۴:‏۲۷‏)‏ بظاہر یہ الفاظ یسوع کے اس بیان کی تردید کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ میرا بوجھ ہلکا اور ملائم ہے مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔‏

۶،‏ ۷.‏ یہ کیوں کہا جا سکتا ہے کہ ہمارا طرزِعبادت تھکا دینے والا نہیں ہے؟‏

۶ انتھک کوشش اور سخت کام اگرچہ جسمانی تھکن کا باعث ہے توبھی جب یہ اچھے مقصد کے لئے کِیا جاتا ہے تو ہم اس سے اطمینان اور تازگی حاصل کر سکتے ہیں۔‏ (‏واعظ ۳:‏ ۱۳،‏ ۲۲‏)‏ لیکن کیا اس سے کوئی بہتر وجہ ہو سکتی ہے کہ ہم اپنے پڑوسیوں کو بائبل کی شاندار سچائیوں میں شریک کرتے ہیں؟‏ علاوہ‌ازیں،‏ خدا کے اعلیٰ اخلاقی معیاروں کے مطابق زندگی گزارنے کی ہماری جدوجہد اُس وقت زیادہ سخت نہیں لگتی جب ہم اسکا مقابلہ اُن نتائج سے کرتے ہیں جن سے ہم مستفید ہوتے ہیں۔‏ (‏امثال ۲:‏۱۰-‏۲۰‏)‏ یہانتک کہ جب ہمیں اذیت دی جاتی ہے تو ہم خدا کی بادشاہت کیلئے تکلیف اُٹھانے کو فخر کی بات سمجھتے ہیں۔‏—‏۱-‏پطرس ۴:‏۱۴‏۔‏

۷ یسوع کا بوجھ بیشک تازگی‌بخش ہے بالخصوص جب اسکا موازنہ جھوٹے مذہب کے جوئے کے تحت رہنے والے لوگوں کی روحانی تاریکی کی حالت سے کِیا جاتا ہے۔‏ خدا ہم سے مشفقانہ محبت رکھتا ہے اس لئے وہ ہم سے نامعقول تقاضے نہیں کرتا۔‏ یہوواہ کے ”‏حکم سخت نہیں۔‏“‏ (‏۱-‏یوحنا ۵:‏۳‏)‏ سچی مسیحیت،‏ جیسےکہ صحائف میں بیان کِیا گیا ہے استبدادی نہیں ہے۔‏ بدیہی طور پر،‏ ہمارا طرزِعبادت تھکن اور حوصلہ‌شکنی کا باعث نہیں بنتا ہے۔‏

‏’‏ہر ایک بوجھ کو دُور کر دیں‘‏

۸.‏ اکثر روحانی تھکن کی وجہ کیا ہوتی ہے؟‏

۸ اگر ہمیں کسی طرح کی روحانی تھکن کا تجربہ ہوتا ہے تو یہ اکثر اُس اضافی بوجھ کی وجہ سے ہوتا ہے جو یہ خراب نظام‌اُلعمل ہم پر ڈالتا ہے۔‏ کیونکہ ”‏ساری دُنیا اُس شریر کے قبضہ میں پڑی ہوئی ہے،‏“‏ اس لئے ہم منفی قوتوں کے گھیرے میں ہیں جو ہمیں تھکا سکتی اور ہمارے مسیحی توازن کو بگاڑ سکتی ہیں۔‏ (‏۱-‏یوحنا ۵:‏۱۹‏)‏ غیرضروری کام ہماری مسیحی کارگزاریوں کے معمول میں خلل ڈال سکتے ہیں۔‏ یہ اضافی بوجھ ہمیں تھکا سکتے اور ہمارے جذبے کو ماند کر سکتے ہیں۔‏ موزوں طور پر بائبل ہمیں تاکید کرتی ہے،‏ ’‏ہر ایک بوجھ کو دُور کر دیں۔‏‘‏—‏عبرانیوں ۱۲:‏۱-‏۳‏۔‏

۹.‏ مادی حاصلات کیسے ہمیں بوجھ تلے دبا سکتے ہیں؟‏

۹ مثال کے طور پر،‏ دُنیا کی شہرت،‏ دولت،‏ تفریح،‏ سیاحت اور دیگر مادی حاصلات کی جستجو ہماری سوچ کو متاثر کر سکتی ہے۔‏ (‏۱-‏یوحنا ۲:‏۱۵-‏۱۷‏)‏ پہلی صدی کے بعض مسیحی جنہوں نے مال‌ودولت کے حصول کو اپنا مقصد بنایا اُنہوں نے اپنی زندگیوں کو بہت مشکل بنا لیا تھا۔‏ پولس رسول بیان کرتا ہے:‏ ”‏جو دولتمند ہونا چاہتے ہیں وہ ایسی آزمایش اور پھندے اور بہت سی بیہودہ اور نقصان پہنچانے والی خواہشوں میں پھنستے ہیں جو آدمیوں کو تباہی اور ہلاکت کے دریا میں غرق کر دیتی ہیں۔‏ کیونکہ زر کی دوستی ہر قسم کی بُرائی کی جڑ ہے جسکی آرزو میں بعض نے ایمان سے گمراہ ہو کر اپنے دلوں کو طرح طرح کے غموں سے چھلنی کر لیا۔‏“‏—‏۱-‏تیمتھیس ۶:‏۹-‏۱۰‏۔‏

۱۰.‏ بیج بونے والے کی یسوع کی تمثیل سے ہم دولت کی بابت کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

۱۰ جب ہم خدا کی خدمت میں تھکا ہوا اور بےحوصلہ محسوس کرتے ہیں تو کیا اسکی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ مادی چیزوں کی جستجو ہماری روحانیت پر حاوی ہو رہی ہے؟‏ جیسے یسوع کی بیج بونے والے کی تمثیل سے ظاہر ہوتا ہے اسکا بہت زیادہ امکان ہے۔‏ یسوع نے ”‏دُنیا کی فکر اور دولت کا فریب اور اَور چیزوں کا لالچ“‏ کا موازنہ ایسے کانٹوں کیساتھ کِیا جو ہمارے دلوں میں ”‏داخل ہو کر“‏ خدا کے کلام کو دبا دیتے ہیں۔‏ (‏مرقس ۴:‏۱۸،‏ ۱۹‏)‏ لہٰذا بائبل ہمیں مشورت دیتی ہے:‏ ”‏زر کی دوستی سے خالی رہو اور جو تمہارے پاس ہے اُسی پر قناعت کرو کیونکہ اُس نے خود فرمایا ہے کہ مَیں تجھ سے ہرگز دست‌بردار نہ ہونگا اور کبھی تجھے نہ چھوڑونگا۔‏“‏—‏عبرانیوں ۱۳:‏۵‏۔‏

۱۱.‏ ہم ایسی چیزوں سے کیسے چھٹکارا پا سکتے ہیں جو ہمیں تھکا سکتی ہیں؟‏

۱۱ بعض‌اوقات جو چیز ہماری زندگیوں کو کٹھن بنا دیتی ہے وہ مادی چیزوں کا حصول نہیں بلکہ ہم ان چیزوں کیساتھ کیا کرتے ہیں جو ہمارے پاس ہیں۔‏ صحت کے تشویشناک مسائل،‏ کسی عزیز کی وفات یا دیگر پریشان‌کُن مسائل کی وجہ سے بعض لوگ جذباتی تھکن کا شکار ہو سکتے ہیں۔‏ اُنہوں نے وقتاًفوقتاً ردوبدل کرتے رہنے کی ضرورت کو دیکھ لیا ہے۔‏ ایک شادی‌شُدہ جوڑے نے فیصلہ کِیا کہ وہ اپنے بعض مشاغل اور غیرضروری ذاتی کاموں کو ختم کر دینگے۔‏ اُنہوں نے اپنے سامان کا جائزہ لیا اور ایسی تمام چیزیں نکال دیں جنکا ان مشاغل سے تعلق تھا۔‏ ہم سب کبھی‌کبھار اپنی چیزوں اور عادات کا جائزہ لینے اور پھر غیرضروری بوجھ کو نکال دینے سے مستفید ہو سکتے ہیں تاکہ ہم تھکاوٹ کا شکار نہ ہوں۔‏

معقولیت اور منکسرالمزاجی ضروری ہے

۱۲.‏ ہمیں اپنی غلطیوں کی بابت کیا تسلیم کرنا چاہئے؟‏

۱۲ معمولی معاملات میں بھی ہماری اپنی کوتاہیاں انجام‌کار ہماری زندگیوں کو بوجھل بنا سکتی ہیں۔‏ داؤد کے الفاظ کسقدر سچ ہیں:‏ ”‏میری بدی میرے سر سے گذر گئی اور وہ بڑے بوجھ کی مانند میرے لئے نہایت بھاری ہے۔‏“‏ (‏زبور ۳۸:‏۴‏)‏ اکثر چند عملی ردوبدل ہمیں بھاری بوجھ سے رہائی دے سکتے ہیں۔‏

۱۳.‏ معقول‌پسندی ہمیں اپنی خدمتگزاری کی بابت متوازن نظریہ قائم کرنے میں کیسے مدد دے سکتی ہے؟‏

۱۳ بائبل ہماری ”‏دانائی اور تمیز“‏ پیدا کرنے کیلئے حوصلہ‌افزائی کرتی ہے۔‏ (‏امثال ۳:‏۲۱،‏ ۲۲‏)‏ بائبل بیان کرتی ہے،‏ ’‏جو حکمت اُوپر سے آتی ہے وہ معقول‌پسند ہوتی‘‏ ہے۔‏ (‏یعقوب ۳:‏۱۷‏)‏ بعض لوگ مسیحی خدمتگزاری کے سلسلے میں دوسروں کی برابری کرنے میں دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں۔‏ تاہم،‏ بائبل نصیحت کرتی ہے:‏ ”‏ہر شخص اپنے ہی کام کو آزما لے۔‏ اس صورت میں اُسے اپنی ہی بابت فخر کرنے کا موقع ہوگا نہ کہ دوسرے کی بابت۔‏ کیونکہ ہر شخص اپنا ہی بوجھ اُٹھائیگا۔‏“‏ (‏گلتیوں ۶:‏۴،‏ ۵‏)‏ سچ ہے کہ ساتھی مسیحیوں کا عمدہ نمونہ ہمیں پورے دل سے یہوواہ کی خدمت کرنے کی تحریک دیتا ہے مگر عملی حکمت اور معقول‌پسندی ہمیں اپنے حالات کے مطابق حقیقت‌پسندانہ نصب‌اُلعین قائم کرنے میں مدد دیگی۔‏

۱۴،‏ ۱۵.‏ اپنی جذباتی اور جسمانی ضروریات کا خیال رکھنے کے سلسلے میں ہم کیسے عملی حکمت کا مظاہرہ کر سکتے ہیں؟‏

۱۴ بظاہر کم‌اہم دکھائی دینے والے حلقوں میں بھی ہماری معقول‌پسندی تھکن کے احساسات کو دُور کرنے میں معاون ہو سکتی ہے۔‏ مثال کے طور پر،‏ کیا ہم ایسی متوازن عادات پیدا کرتے ہیں جو اچھی جسمانی صحت کا سبب بن سکتی ہیں؟‏ ایک بیاہتا جوڑے کی مثال پر غور کریں جو یہوواہ کے گواہوں کے برانچ دفاتر میں سے ایک میں کام کرتا ہے۔‏ اُنہوں نے تھکاوٹ سے بچنے کی عملی حکمت کی اہمیت کو جان لیا ہے۔‏ بیوی کہتی ہے:‏ ”‏ہمارے پاس خواہ کتنا ہی کام کیوں نہ ہو ہم ہر رات تقریباً اُسی وقت سونے کی کوشش کرتے ہیں۔‏ ہم باقاعدگی کیساتھ ورزش بھی کرتے ہیں۔‏ اس سے ہمیں واقعی مدد ملی ہے۔‏ ہم سمجھ گئے ہیں کہ ہم کتنا کچھ کر سکتے ہیں اور ہم اسکے مطابق ہی کام کرتے ہیں۔‏ ہم کوشش کرتے ہیں کہ اپنا موازنہ ایسے لوگوں کیساتھ نہ کریں جن میں بہت زیادہ طاقت ہے۔‏“‏ کیا ہم باقاعدہ صحت‌بخش کھانا کھاتے اور کافی آرام کرتے ہیں؟‏ اپنی صحت پر معقول توجہ عمومی طور پر جذباتی اور روحانی تھکان کے احساسات کو کم کر سکتی ہے۔‏

۱۵ ہم میں سے بعض کی منفرد ضروریات ہوتی ہیں۔‏ مثال کے طور پر،‏ ایک مسیحی بہن نے کئی ایک مشکل تفویضات میں کُل‌وقتی خدمت انجام دی ہے۔‏ اُسے کینسر سمیت صحت کے مختلف مسائل کا سامنا تھا۔‏ کیا چیز اُسے ایسی مشکل صورتحال کا مقابلہ کرنے میں مدد دیتی ہے؟‏ وہ بیان کرتی ہے:‏ ”‏یہ بہت ضروری ہے کہ میرے پاس سکون کے چند لمحے ہوں۔‏ مَیں جتنا زیادہ دباؤ اور تھکان کو بڑھتا ہوا محسوس کرتی ہوں،‏ اُتنا ہی زیادہ مجھے سکون اور تنہائی کی ضرورت ہوتی ہے جب مَیں آرام اور پڑھائی کر سکتی ہوں۔‏“‏ عملی حکمت اور ادراک ہمیں اپنی ذاتی ضروریات کو سمجھنے اور پورا کرنے میں مدد دیتی ہے اور یوں ہم روحانی تھکان سے بچ جاتے ہیں۔‏

یہوواہ خدا ہمیں طاقت بخشتا ہے

۱۶،‏ ۱۷.‏ (‏ا)‏ اپنی روحانی صحت کا خیال رکھنا کیوں اتنا ضروری ہے؟‏ (‏ب)‏ ہمیں کس چیز کو اپنے روزانہ کے معمول میں شامل کرنا چاہئے؟‏

۱۶ اپنی روحانی صحت کا خیال رکھنا بھی بہت ضروری ہے۔‏ جب ہمارا یہوواہ خدا کیساتھ قریبی رشتہ ہوتا ہے تو ہم جسمانی طور پر تو تھکاوٹ کا شکار ہو سکتے ہیں مگر ہم کبھی بھی اُسکی پرستش کرنے سے نہیں تھکیں گے۔‏ یہوواہ ہی ”‏تھکے ہوئے کو زور بخشتا ہے اور ناتوان کی توانائی کو زیادہ کرتا ہے۔‏“‏ (‏یسعیاہ ۴۰:‏۲۸،‏ ۲۹‏)‏ پولس رسول جس نے ذاتی طور پر ان الفاظ کی صداقت کا تجربہ کِیا یوں تحریر کرتا ہے:‏ ”‏ہم ہمت نہیں ہارتے بلکہ گو ہماری ظاہری انسانیت زائل ہوتی جاتی ہے پھر بھی ہماری باطنی انسانیت روزبروز نئی ہوتی جاتی ہے۔‏“‏—‏۲-‏کرنتھیوں ۴:‏۱۶‏۔‏

۱۷ اظہار ”‏روزبروز“‏ پر غور کریں۔‏ اسکا مطلب روزانہ یہوواہ کی فراہمیوں سے مستفید ہونا ہے۔‏ ایک مشنری جس نے ۴۳ سال تک وفاداری سے یہوواہ کی خدمت کی اُسے جسمانی تھکن اور حوصلہ‌شکنی کا سامنا کرنا پڑا۔‏ مگر وہ ماندہ نہیں ہوئی۔‏ وہ بیان کرتی ہے:‏ ”‏مَیں نے جلدی اُٹھنے کی عادت بنائی ہوئی ہے تاکہ اپنا کوئی بھی کام شروع کرنے سے پہلے مَیں یہوواہ سے دُعا کرنے اور اُسکا کلام پڑھنے کیلئے وقت صرف کر سکوں۔‏ روزانہ کے اس معمول نے مجھے آج تک برداشت کرنے کے قابل بنایا ہے۔‏“‏ بِلاشُبہ اگر ہم باقاعدگی سے،‏ جی‌ہاں،‏ ”‏روزبروز“‏ یہوواہ سے دُعا کرتے اور اُسکی اعلیٰ صفات اور وعدوں پر غوروخوض کرتے ہیں تو ہم اُسکی قائم رکھنے کی قوت پر بھروسا رکھ سکتے ہیں۔‏

۱۸.‏ بائبل عمررسیدہ یا بیمار وفادار اشخاص کیلئے کونسی تسلی فراہم کرتی ہے؟‏

۱۸ یہ بالخصوص اُن کیلئے مفید ہے جو بڑھتی ہوئی عمر یا ناقص صحت کی وجہ سے بےحوصلہ محسوس کرتے ہیں۔‏ ایسے اشخاص دل شکستہ بھی ہو سکتے ہیں محض اسلئے نہیں کہ وہ اپنا مقابلہ دیگر لوگوں کیساتھ کرتے ہیں بلکہ اسلئے بھی کہ وہ اپنا مقابلہ ماضی کی اپنی کارکردگی سے کرتے ہیں۔‏ یہ جاننا کسقدر اطمینان‌بخش ہے کہ یہوواہ عمررسیدہ اشخاص کی قدر کرتا ہے!‏ بائبل بیان کرتی ہے:‏ ”‏سفید سر شوکت کا تاج ہے۔‏ وہ صداقت کی راہ پر پایا جائیگا۔‏“‏ (‏امثال ۱۶:‏۳۱‏)‏ یہوواہ ہماری کمزوریوں کو جانتا ہے اور وہ ہماری پورے دل سے کی جانے والی پرستش کی تمام‌تر کمزوریوں کے باوجود قدر کرتا ہے۔‏ علاوہ‌ازیں جو بھی نیک کام ہم نے پہلے کئے ہیں وہ بھی خدا کی یاد میں ہیں۔‏ صحائف ہمیں یقین‌دہانی کراتے ہیں:‏ ”‏خدا بےانصاف نہیں جو تمہارے کام اور اُس محبت کو بھول جائے جو تُم نے اُسکے نام کے واسطے اسطرح ظاہر کی کہ مُقدسوں کی خدمت کی اور کر رہے ہو۔‏“‏ (‏عبرانیوں ۶:‏۱۰‏)‏ ہم اپنے درمیان ایسے لوگوں کو دیکھ کر کتنے خوش ہیں جو کئی سال سے یہوواہ کے وفادار رہے ہیں!‏

ہمت نہ ہاریں

۱۹.‏ نیکی کرنے میں مصروف رہنے سے ہم کیسے مستفید ہو سکتے ہیں؟‏

۱۹ بہتیرے لوگوں کا خیال ہے کہ باقاعدگی کے ساتھ سرگرم جسمانی کارگزاری تھکن کو ختم کر سکتی ہے۔‏ اسی طرح،‏ باقاعدہ روحانی کارگزاری جذباتی یا روحانی تھکان کے احساسات سے چھٹکارا پانے میں مدد دے سکتی ہے۔‏ بائبل بیان کرتی ہے:‏ ”‏ہم نیک کام کرنے میں ہمت نہ ہاریں کیونکہ اگر بےدل نہ ہونگے تو عین وقت پر کاٹینگے۔‏ پس جہاں تک موقع ملے سب کیساتھ نیکی کریں خاصکر اہل ایمان کیساتھ۔‏“‏ ‏(‏گلتیوں ۶:‏۹،‏ ۱۰‏)‏ ”‏نیک کام کرنے میں“‏ اور ”‏نیکی کریں“‏ کے اظہارات پر غور کریں۔‏ یہ ہمیں کچھ کرنے کی تحریک دیتے ہیں۔‏ دوسروں کیساتھ نیکی کرنا بلاشُبہ ہمیں یہوواہ کی خدمت میں ماندہ ہونے سے بچا سکتا ہے۔‏

۲۰.‏ حوصلہ‌شکنی کا مقابلہ کرنے کیلئے ہمیں کن کی رفاقت سے گریز کرنا چاہئے؟‏

۲۰ اسکے برعکس،‏ خدا کے قوانین کی بےحرمتی کرنے والے لوگوں کیساتھ رفاقت رکھنا اور اُنکی سرگرمیوں میں شریک ہونا ایک تھکا دینے والا بوجھ بن سکتا ہے۔‏ بائبل ہمیں آگاہ کرتی ہے:‏ ”‏پتھر بھاری ہے اور ریت وزن‌دار ہے لیکن احمق کا جھنجھلانا اِن دونوں سے گران‌تر ہے۔‏“‏ (‏امثال ۲۷:‏۳‏)‏ حوصلہ‌شکنی اور تھکان کے احساسات پر غالب آنے کیلئے ہمیں ایسے لوگوں کی رفاقت سے گریز کرنا چاہئے جو منفی سوچ رکھتے اور دوسروں میں غلطیاں تلاش کرنے اور اُن پر نکتہ‌چینی کرنے کی طرف مائل ہیں۔‏

۲۱.‏ مسیحی اجلاسوں پر ہم کیسے دوسروں کیلئے حوصلہ‌افزائی کا باعث بن سکتے ہیں؟‏

۲۱ مسیحی اجلاس یہوواہ کی ایک ایسی فراہمی ہے جو ہمیں روحانی قوت سے معمور کرتے ہیں۔‏ یہاں ہمارے پاس ایک دوسرے کی تازگی‌بخش تعلیم اور رفاقت کے ذریعے حوصلہ‌افزائی کرنے کا شاندار موقع ہوتا ہے۔‏ (‏عبرانیوں ۱۰:‏۲۵‏)‏ کلیسیا کے سب لوگوں کو اجلاسوں پر تبصرے کرتے اور پلیٹ‌فارم سے حصے پیش کرتے وقت حوصلہ‌افزا بننے کی کوشش کرنی چاہئے۔‏ جو اُستادوں کے طور پر پیشوائی کا کام کرتے ہیں وہ بالخصوص دوسروں کی حوصلہ‌افزائی کرنے کی ذمہ‌داری رکھتے ہیں۔‏ (‏یسعیاہ ۳۲:‏۱،‏ ۲‏)‏ جب نصیحت کرنے یا تنبیہ کرنے کی ضرورت پڑتی ہے تو اُس وقت بھی جس آواز میں مشورت دی جاتی ہے وہ تازگی‌بخش ہونی چاہئے۔‏ (‏گلتیوں ۶:‏۱،‏ ۲‏)‏ دوسروں کیلئے محبت بھی ہمیں بغیر تھکے یہوواہ کی خدمت کرنے میں مدد دیگی۔‏—‏زبور ۱۳۳:‏۱؛‏ یوحنا ۱۳:‏۳۵‏۔‏

۲۲.‏ اپنی ناکامل انسانی فطرت کے باوجود،‏ ہم کیوں دلیر بن سکتے ہیں؟‏

۲۲ اس آخری زمانے میں یہوواہ کی پرستش کرنے میں بہت سا کام شامل ہے۔‏ علاوہ‌ازیں مسیحی دماغی تھکن کے اثرات،‏ جذباتی تکلیف اور پریشان‌کُن حالات کے اثرات سے واقف ہوتے ہیں۔‏ ہماری ناکامل انسانی فطرت مٹی کے برتن کی مانند نازک ہوتی ہے۔‏ تاہم،‏ بائبل بیان کرتی ہے:‏ ”‏ہمارے پاس یہ خزانہ مٹی کے برتنوں میں رکھا ہے تاکہ یہ حد سے زیادہ قدرت ہماری طرف سے نہیں بلکہ خدا کی طرف سے معلوم ہو۔‏“‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۴:‏۷‏)‏ سچ ہے کہ ہم تھکن کا شکار ہونگے لیکن خدا کرے کہ ہم کبھی ماندہ نہ ہوں اور ہمت نہ ہاریں۔‏ بلکہ ہمیں دلیری کیساتھ یہ کہنا چاہئے،‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ میرا مددگار ہے۔‏“‏—‏عبرانیوں ۱۳:‏۶‏۔‏

مختصر اعادہ

‏• کونسے ایسے بھاری بوجھ ہو سکتے ہیں جنہیں ہمیں اُتارنے کی ضرورت ہے؟‏

‏• ہم اپنے ساتھی مسیحیوں کیساتھ کیسے ”‏نیکی“‏ کر سکتے ہیں؟‏

‏• جب ہم تھکن یا حوصلہ‌شکنی کا شکار ہوتے ہیں تو یہوواہ کیسے ہمیں سنبھالتا ہے؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۲۳ پر تصویر]‏

یسوع جانتا تھا کہ کونسی طویل مایوسی رسولوں کو پریشان کر سکتی تھی

‏[‏صفحہ ۲۴ پر تصویر]‏

بعض نے مخصوص مشاغل اور غیرضروری ذاتی کاموں کو ترک کر دیا ہے

‏[‏صفحہ ۲۶ پر تصویر]‏

ہماری کمزوریوں کے باوجود،‏ یہوواہ ہماری دل‌وجان سے پرستش کی بہت قدر کرتا ہے