مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

وہ بِلاوجہ نفرت کا نشانہ بنے

وہ بِلاوجہ نفرت کا نشانہ بنے

وہ بِلاوجہ نفرت کا نشانہ بنے

‏”‏اُنہوں نے مجھ سے عداوت رکھی۔‏“‏—‏یوحنا ۱۵:‏۲۵‏۔‏

۱،‏ ۲.‏ (‏ا)‏ جب مسیحیوں کے خلاف باتیں کی جاتی ہیں تو بعض کیوں پریشان ہو جاتے ہیں مگر ہمیں ایسی باتوں سے کیوں حیران نہیں ہونا چاہئے؟‏ (‏ب)‏ اس مضمون میں ہم لفظ ”‏نفرت“‏ کے کس مفہوم پر غور کرینگے؟‏ (‏فٹ‌نوٹ کو دیکھیں۔‏)‏

یہوواہ کے گواہ خدا کے کلام میں پائے جانے والے اُصولوں کے مطابق زندگی بسر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔‏ اسکے نتیجے میں،‏ وہ بہتیرے ممالک میں عمدہ شہرت رکھتے ہیں۔‏ تاہم،‏ بعض‌اوقات انکی غلط نمائندگی کی جاتی ہے۔‏ مثال کے طور،‏ چند سال پہلے روس کے شہر،‏ سینٹ پیٹرزبرگ میں،‏ ایک سرکاری اہلکار نے بیان کِیا:‏ ”‏یہوواہ کے گواہوں کو ہمارے سامنے ایک قسم کے خفیہ گروہ کے طور پر پیش کِیا گیا جو پوشیدہ طور پر بچوں اور خود کو قتل کرتے ہیں۔‏“‏ لیکن ایک بین‌الاقوامی کنونشن کے سلسلے میں یہوواہ کے گواہوں کیساتھ کام کرنے کے بعد اُسی سرکاری افسر نے بیان کِیا:‏ ”‏اب مَیں عام اور مسکراتے لوگوں کو دیکھتا ہوں .‏ .‏ .‏ یہ پُرامن اور پُرسکون لوگ ہیں اور ایک دوسرے سے بہت پیار کرتے ہیں۔‏“‏ اس نے مزید کہا،‏ ”‏مجھے واقعی سمجھ نہیں آتی کہ لوگ کیوں انکی بابت ایسے جھوٹ بولتے ہیں۔‏“‏—‏۱-‏پطرس ۳:‏۱۶‏۔‏

۲ جب لوگ خدا کے خادموں پر خراب کام کرنے والوں کے طور پر تہمت لگاتے ہیں تو وہ اس سے خوش نہیں ہوتے مگر جب لوگ انکے خلاف باتیں کرتے ہیں تو یہ اُن کیلئے کوئی حیرانی کی بات نہیں ہے۔‏ یسوع نے اپنے شاگردوں کو پہلے ہی آگاہ کر دیا تھا:‏ ”‏اگر دُنیا تم سے عداوت رکھتی ہے تو تم جانتے ہو کہ اُس نے تم سے پہلے مجھ سے بھی عداوت رکھی ہے .‏ .‏ .‏ یہ اسلئے ہوا کہ وہ قول پورا ہو کہ جو اُنکی شریعت میں لکھا ہے کہ اُنہوں نے مجھ سے مُفت عداوت رکھی۔‏“‏ * (‏یوحنا ۱۵:‏۱۸-‏۲۰،‏ ۲۵؛‏ زبور ۳۵:‏ ۱۹؛‏ ۶۹:‏۴‏)‏ اس سے پہلے بھی اُس نے اُنہیں بتایا تھا:‏ ”‏جب اُنہوں نے گھر کے مالک کو بعلزبول کہا تو اسکے گھرانے کے لوگوں کو کیوں نہ کہینگے؟‏“‏ (‏متی ۱۰:‏۲۵‏)‏ مسیحی اس بات کو سمجھتے ہیں کہ ایسی رسوائی اُس ”‏صلیب“‏ کا حصہ ہے جو اُنہوں نے مسیح کا شاگرد بنتے وقت قبول کی تھی۔‏—‏متی ۱۶:‏۲۴‏۔‏

۳.‏ سچے پرستاروں کو کس حد تک اذیت دی گئی ہے؟‏

۳ سچے پرستاروں کی اذیت کوئی نئی بات نہیں ہے،‏ یہ ہمیں انسانی تاریخ میں پیچھے ”‏راستباز ہابل“‏ تک لے جاتی ہے۔‏ (‏متی ۲۳:‏۳۴،‏ ۳۵‏)‏ یہ محض چند اِکادُکا واقعات تک محدود نہیں ہے۔‏ یسوع نے اپنے پیروکاروں کو پہلے ہی بتا دیا تھا کہ یسوع کے نام کی وجہ سے ‏”‏سب لوگ اُن سے عداوت رکھینگے۔‏“‏ (‏متی ۱۰:‏۲۲‏)‏ مزیدبرآں،‏ پولس رسول نے لکھا کہ خدا کے سب خادموں کو—‏جس میں ہم سب بھی شامل ہیں—‏اذیت کی توقع کرنی چاہئے۔‏ (‏۲-‏تیمتھیس ۳:‏۱۲‏)‏ اسکی کیا وجہ ہے؟‏

بےبنیاد نفرت کا ماخذ

۴.‏ بائبل بِلاوجہ نفرت کے ماخذ کو کیسے ظاہر کرتی ہے؟‏

۴ خدا کا کلام آشکارا کرتا ہے کہ شروع ہی سے ایک نادیدہ ورغلانے والا ہے۔‏ ذرا پہلے وفادار آدمی ہابل کے بہیمانہ قتل پر غور کریں۔‏ بائبل بیان کرتی ہے کہ اُسکا قاتل بھائی قائن ”‏اُس شریر“‏ شیطان ابلیس سے تھا۔‏ (‏۱-‏یوحنا ۳:‏۱۲‏)‏ قائن نے شیطان کے رُجحان کو اپنایا اور ابلیس نے اُسے اپنے بُرے ارادے پورے کرنے کیلئے استعمال کِیا۔‏ بائبل ایوب اور یسوع مسیح پر شدید حملوں کے سلسلے میں بھی شیطان کے کردار پر روشنی ڈالتی ہے۔‏ (‏ایوب ۱:‏۱۲؛‏ ۲:‏۶،‏ ۷؛‏ یوحنا ۸:‏۳۷،‏ ۴۴؛‏ ۱۳:‏۲۷‏)‏ مکاشفہ کی کتاب یسوع کے شاگردوں پر اذیت کے ماخذ کی بابت کسی قسم کے شک‌وشبہ کی گنجائش نہیں چھوڑتی۔‏ یہ بیان کرتی ہے:‏ ”‏ابلیس تم میں سے بعض کو قید میں ڈالنے کو ہے تاکہ تمہاری آزمایش ہو۔‏“‏ (‏مکاشفہ ۲:‏۱۰‏)‏ جی‌ہاں،‏ شیطان ہی خدا کے لوگوں کے خلاف بِلاوجہ نفرت کا ماخذ ہے۔‏

۵.‏ سچے پرستاروں کے خلاف شیطان کی نفرت کے درپردہ کیا ہے؟‏

۵ سچے پرستاورں سے نفرت کے درپردہ شیطان کا مقصد کیا ہے؟‏ ایک سازش کی وجہ سے جو کہ بہت زیادہ تکبّر پر مبنی تھی شیطان نے خود کو ”‏ابدیت کے بادشاہ“‏ یہوواہ خدا کے خلاف کھڑا کر لیا۔‏ (‏۱-‏تیمتھیس ۱:‏۱۷؛‏ ۳:‏۶‏)‏ وہ حجت کرتا ہے کہ خدا اپنی مخلوق پر حکمرانی کرنے میں بےجا سختی کر رہا ہے نیز یہ کہ کوئی بھی انسان خالص نیت سے یہوواہ کی خدمت نہیں کرتا بلکہ یہ کہ وہ خودغرضانہ مقاصد کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں۔‏ شیطان نے دعویٰ کِیا کہ اگر اُسے انسانوں کی آزمائش کرنے کی اجازت دی جائے تو وہ ہر ایک کو خدا کی خدمت کرنے سے ہٹا سکتا ہے۔‏ (‏پیدایش ۳:‏۱-‏۶؛‏ ایوب ۱:‏۶-‏۱۲؛‏ ۲:‏۱-‏۷‏)‏ یہوواہ کو ایک ظالم حاکم،‏ جھوٹا اور ناکام ٹھہراتے ہوئے شیطان خود کو یہوواہ کے مدِمقابل حاکم بنانا چاہتا ہے۔‏ لہٰذا پرستش کی اس خواہش نے اُسے خدا کے خادموں کے خلاف قہرآلودہ کر دیا ہے۔‏—‏متی ۴:‏۸،‏ ۹‏۔‏

۶.‏ (‏ا)‏ یہوواہ کی حاکمیت کے مسئلے میں ہم ذاتی طور پر کیسے اُلجھے ہوئے ہیں؟‏ (‏ب)‏ اس مسئلے کی سمجھ ہمیں اپنی راستی پر قائم رہنے میں کیسے مدد دیتی ہے؟‏ (‏صفحہ ۱۶ کے بکس کو دیکھیں۔‏)‏

۶ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ مسئلہ آپکی زندگی کو کیسے متاثر کرتا ہے؟‏ یہوواہ کے ایک خادم کے طور پر،‏ آپ شاید جان گئے ہیں کہ خدا کی مرضی پوری کرنا اگرچہ سنجیدہ کوشش کا تقاضا کرتا ہے توبھی ایسا کرنے کے فوائد بہت زیادہ ہیں۔‏ تاہم،‏ اُس صورت میں کیا ہے اگر آپکے حالات آپ کیلئے یہوواہ کے آئین‌وقوانین پر چلنا مشکل بلکہ تکلیف‌دہ بنا دیتے ہیں؟‏ اُس وقت کیا ہے اگر آپکو اسکے بدلے میں کوئی فائدہ نہیں ہوتا؟‏ کیا آپ یہ نتیجہ نکالینگے کہ یہوواہ کی خدمت کرتے رہنا سودمند نہیں ہے؟‏ یا کیا یہوواہ کیلئے محبت اور اسکی شاندار صفات کیلئے گہری قدردانی آپکو اسکی تمام راہوں پر چلنے کی تحریک دیتی ہے؟‏ (‏استثنا ۱۰:‏۱۲،‏ ۱۳‏)‏ شیطان کو ہم پر کسی حد تک مشکلات لانے کی اجازت دینے سے یہوواہ نے ہم سب کو موقع دیا ہے کہ ہم ذاتی طور پر شیطان کے چیلنج کا جواب دیں۔‏—‏امثال ۲۷:‏۱۱‏۔‏

‏’‏جب لوگ تم پر لعن‌طعن کرتے ہیں‘‏

۷.‏ ہمیں یہوواہ سے دُور کرنے کیلئے شیطان کونسا حربہ آزمانے کی کوشش کرتا ہے؟‏

۷ آئیے اب قریب سے ان مکارانہ کاموں میں ایک پر غور کریں جو شیطان یہوواہ کے خلاف اپنے مؤقف کو سچ ثابت کرنے کیلئے استعمال کرتا ہے اور وہ ہے اُسکا جھوٹی تہمت لگانا۔‏ یسوع نے شیطان کو ”‏جھوٹ کا باپ“‏ کہا۔‏ (‏یوحنا ۸:‏۴۴‏)‏ نام اِبلیس کا مطلب ”‏تہمت لگانے والا“‏ ہے اور یہ اُسکی شناخت خدا پر،‏ اُسکے پاک کلام اور اُسکے پاک نام پر سب سے بڑے تہمت لگانے والے کے طور پر کراتا ہے۔‏ شیطان یہوواہ کی حکمرانی کو چیلنج کرنے میں طعن‌آمیز باتیں،‏ جھوٹے الزامات اور براہ‌راست جھوٹ استعمال کرتا ہے اور خدا کے وفادار خادموں پر تہمت لگانے کیلئے بھی یہی ترکیبیں استعمال کرتا ہے۔‏ ان گواہوں پر بدنامی لاکر وہ شدید مشکلات کو اور زیادہ ناقابلِ‌برداشت بنا سکتا ہے۔‏

۸.‏ شیطان ایوب پر کیسے رسوائی لایا اور اسکا کیا نتیجہ نکلا؟‏

۸ جوکچھ ایوب کے ساتھ واقع ہوا اُس پر غور کریں۔‏ اُس کے نام کا مطلب ہے ”‏دُشمنی کا نشانہ۔‏“‏ ایوب کے ذریعۂ‌معاش،‏ اُسکے بچوں،‏ اُسکی صحت کو نقصان پہنچانے کے علاوہ،‏ شیطان نے ایوب کو ایک گنہگار کے طور پر پیش کِیا جسے خدا کی طرف سے سزا مل رہی تھی۔‏ اگرچہ ایوب ایک عزت‌دار شخص تھا،‏ توبھی اُسکے رشتہ‌داروں اور دوستوں نے اُسکی تحقیر کی۔‏ (‏ایوب ۱۹:‏۱۳-‏۱۹؛‏ ۲۹:‏۱،‏ ۲،‏ ۷-‏۱۱‏)‏ مزیدبرآں،‏ اُسکے جھوٹے تسلی دینے والوں کے ذریعے شیطان نے ایوب کو ”‏باتوں سے چُور چُور کر دیا۔‏ سب سے پہلے تو مکاری کیساتھ اُس نے یہ کہلوایا کہ ایوب نے ضرور کوئی گُناہ کِیا ہے اور پھر براہ‌راست ایک بدکار شخص کے طور پر اُسے لعنت‌ملامت کرائی۔‏ (‏ایوب ۴:‏۶-‏۹؛‏ ۱۹:‏۲؛‏ ۲۲:‏۵-‏۱۰‏)‏ ایوب کیلئے یہ سب کچھ کسقدر مایوس‌کُن رہا ہوگا!‏

۹.‏ یسوع کو بظاہر کیسے گنہگار کے طور پر پیش کِیا گیا تھا؟‏

۹ یہوواہ کی حاکمیت کو سربلند کرنے والے کے طور پر،‏ سب سے زیادہ خدا کا بیٹا شیطان کی مخالفت کا نشانہ بنا۔‏ جب یسوع زمین پر آیا تو شیطان نے اُسے بھی ایوب کی مانند روحانی طور پر داغدار کرنے اور گنہگار ٹھہرانے کی کوشش کی۔‏ (‏یسعیاہ ۵۳:‏۲-‏۴؛‏ یوحنا ۹:‏۲۴‏)‏ لوگ اُسے کھاؤ اور شرابی کہنے کے علاوہ یہ بھی کہتے تھے کہ اُس میں ”‏بدرُوح“‏ ہے۔‏ (‏متی ۱۱:‏۱۸،‏ ۱۹؛‏ یوحنا ۷:‏۲۰؛‏ ۸:‏۴۸؛‏ ۱۰:‏۲۰‏)‏ اُس پر خدا کے خلاف کفر بکنے کا جھوٹا الزام بھی لگایا گیا۔‏ (‏متی ۹:‏۲،‏ ۳؛‏ ۲۶:‏۶۳-‏۶۶؛‏ یوحنا ۱۰:‏۳۳-‏۳۶‏)‏ اس سے یسوع پریشان ہو گیا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اس سے اُسکے باپ کی رسوائی ہوگی۔‏ (‏لوقا ۲۲:‏۴۱-‏۴۴‏)‏ آخر میں یسوع کو ایک لعنتی مجرم کے طور پر سولی دے دیا گیا۔‏ (‏متی ۲۷:‏۳۸-‏۴۴‏)‏ کامل راستی برقرار رکھتے ہوئے،‏ یسوع نے ”‏گنہگاروں کی کسقدر مخالفت“‏ برداشت کی تھی۔‏—‏عبرانیوں ۱۲:‏۲،‏ ۳‏۔‏

۱۰.‏ جدید وقتوں میں جو ممسوح باقی رہ گئے ہیں وہ کیسے شیطان کا نشانہ بنے ہیں؟‏

۱۰ جدید وقتوں میں،‏ مسیح کے ممسوح پیروکار بھی اسی طرح اِبلیس کی رقابت کا نشانہ بن رہے ہیں۔‏ شیطان کو مسیح کے ”‏بھائیوں پر الزام لگانے“‏ والے کے طور پر بیان کِیا گیا ہے جو ”‏رات‌دن ہمارے خدا کے آگے الزام لگایا کرتا ہے۔‏“‏ (‏مکاشفہ ۱۲:‏۹،‏ ۱۰‏)‏ جب سے شیطان کو آسمان سے گرا کر زمین کے گردونواح میں محددو کر دیا گیا ہے اُس وقت سے شیطان نے مسیح کے بھائیوں کو قابلِ‌نفرت اشخاص کے طور پر پیش کرنے کی اپنی کوششوں کو تیز کر دیا ہے۔‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۴:‏۱۳‏)‏ بعض ممالک میں اُن پر ایک خطرناک گروہ ہونے کا الزام لگایا گیا ہے جیساکہ پہلی صدی کے مسیحیوں کیساتھ بھی کِیا گیا تھا۔‏ (‏اعمال ۲۴:‏۵،‏ ۱۴؛‏ ۲۸:‏۲۲‏)‏ جیساکہ شروع میں بیان کِیا گیا اُنہیں جھوٹے پروپیگنڈا کے ذریعے تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔‏ تاہم،‏ ”‏عزت اور بیعزتی کے وسیلے سے۔‏ بدنامی اور نیک‌نامی کے وسیلے سے،‏“‏ مسیح کے ممسوح بھائیوں نے اپنی ساتھی ”‏دوسری بھیڑوں“‏ کی حمایت کیساتھ فروتنی سے ”‏خدا کے حکموں پر عمل کرنے اور یسوع کی گواہی دینے‘‏ کے کام کو پورا کرنے کی کوشش کی ہے۔‏—‏۲-‏کرنتھیوں ۶:‏۸؛‏ یوحنا ۱۰:‏۱۶؛‏ مکاشفہ ۱۲:‏۱۷‏۔‏

۱۱،‏ ۱۲.‏ (‏ا)‏ جس رسوائی کا مسیحی سامنا کرتے ہیں اسکی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟‏ (‏ب)‏ اپنے ایمان کی وجہ سے بھی ایک مسیحی کیسے بِلاوجہ تکلیف اُٹھا سکتا ہے؟‏

۱۱ بیشک،‏ تمام رسوائی جو خدا کے خادم برداشت کرتے ہیں وہ ”‏راستبازی“‏ کی خاطر نہیں ہے۔‏ (‏متی ۵:‏۱۰‏)‏ بعض مسائل ہماری اپنی ناکاملیت کا نتیجہ بھی ہو سکتے ہیں۔‏ اگر ہم ’‏گناہ کرکے مکے کھاتے اور صبر کرتے ہیں‘‏ تو اسکا کوئی فائدہ نہیں ہے۔‏ تاہم،‏ اگر ایک مسیحی ”‏خدا کے خیال سے بےانصافی کے باعث دُکھ اُٹھا کر تکلیفوں کو برداشت کرے تو یہ [‏یہوواہ]‏ کے نزدیک پسندیدہ ہے۔‏“‏ (‏۱-‏پطرس ۲:‏۱۹،‏ ۲۰‏)‏ ایسا کن حالات کے تحت واقع ہو سکتا ہے؟‏

۱۲ بعض کیساتھ اس وجہ سے بدسلوکی کی گئی ہے کہ انہوں نے غیرصحیفائی رسومات میں شرکت کرنے سے انکار کِیا ہے۔‏ (‏استثنا ۱۴:‏۱‏)‏ نوجوان گواہوں کو یہوواہ کے اخلاقی معیاورں کی پابندی کرنے کی وجہ سے تحقیرآمیز ناموں سے پکارا گیا ہے۔‏ (‏۱-‏پطرس ۴:‏۴‏)‏ بعض مسیحی والدین کو ”‏غافل“‏ یا ”‏بدسلوکی“‏ کرنے والے قرار دیا ہے کیونکہ انہوں نے اپنے بچوں کو خون کے بغیر طبّی علاج فراہم کرنے کی کوشش کی تھی۔‏ (‏اعمال ۱۵:‏۲۹‏)‏ رشتہ‌داروں اور پڑوسیوں نے صرف اس وجہ سے بھی مسیحیوں سے نفرت کی ہے کیونکہ وہ یہوواہ کے خادم بن گئے ہیں۔‏ (‏متی ۱۰:‏۳۴-‏۳۷‏)‏ ایسے تمام اشخاص بےانصافی کے باعث دُکھ اُٹھانے میں نبیوں اور یسوع کے قائم‌کردہ نمونے کی پیروی کر رہے ہیں۔‏—‏متی ۵:‏۱۱،‏ ۱۲؛‏ یعقوب ۵:‏۱۰؛‏ ۱-‏پطرس ۲:‏۲۱‏۔‏

لعن‌طعن برداشت کرنا

۱۳.‏ شدید رسوائی کا سامنا کرنے کے باوجود کیا چیز ہمیں روحانی توازن قائم رکھنے میں مدد دے سکتی ہے؟‏

۱۳ جب ہمیں اپنے ایمان کی وجہ سے شدید لعن‌طعن اُٹھانی پڑتی ہے تو ہم یرمیاہ نبی کی مانند بےحوصلہ ہو سکتے اور یہ محسوس کر سکتے ہیں کہ ہم خدا کی خدمت کرنا جاری نہیں رکھ سکتے۔‏ (‏یرمیاہ ۲۰:‏۷-‏۹‏)‏ کیا چیز ہمیں اپنا روحانی توازن برقرار رکھنے میں مدد دے سکتی ہے؟‏ معاملے کو یہوواہ کے نقطۂ‌نظر سے دیکھنے کی کوشش کریں۔‏ وہ آزمائش کے دوران وفادار رہنے والوں کو فاتح خیال کرتا ہے۔‏ (‏رومیوں ۸:‏۳۷‏)‏ ان اشخاص کا تصور کرنے کی کوشش کریں جنہوں نے شیطان کی طرف سے لائی جانے والی ہر طرح کی رسوائی کا سامنا کرتے ہوئے یہوواہ کی حاکمیت کو سربلند رکھا ہے۔‏ ایسے آدمیوں اور عورتوں میں ہابل،‏ ایوب اور قدیم وقتوں کے دیگر اشخاص کے علاوہ ہمارے زمانے کے ساتھی خادم بھی شامل ہیں۔‏ (‏عبرانیوں ۱۱:‏۳۵-‏۳۷؛‏ ۱۲:‏۱‏)‏ انکی راستی کی روش پر غور کریں۔‏ وفادار خادموں کا یہ بڑا بادل ہمیں ایسے فاتح لوگوں کیساتھ شامل ہونے کی دعوت دیتا ہے جو اپنے ایمان کے ذریعے دُنیا پر غالب آئے ہیں۔‏—‏۱-‏یوحنا ۵:‏۴‏۔‏

۱۴.‏ وفادار رہنے میں پُرجوش دُعا کیسے ہماری مدد کر سکتی ہے؟‏

۱۴ اگر ’‏ہمارے دل کی فکریں بڑھ جاتی ہیں،‏‘‏ تو ہم یہوواہ سے پُرجوش دُعا کر سکتے ہیں اور وہ ہمیں تسلی اور تقویت بخشے گا۔‏ (‏زبور ۵۰:‏۱۵؛‏ ۹۴:‏۱۹‏)‏ وہ ہمیں آزمائش کا مقابلہ کرنے کیلئے درکار حکمت عطا کرنے کیساتھ ساتھ ہماری مدد کریگا کہ اپنی توجہ یہوواہ کی حاکمیت اُس عظیم مسئلے پر مرکوز رکھیں جو خدا کے خادموں کے خلاف دکھائی جانے والی بےسبب نفرت کے پسِ‌پُشت ہے۔‏ (‏یعقوب ۱:‏۵‏)‏ یہوواہ ہمیں ”‏خدا کا اطمینان جو سمجھ سے بالکل باہر ہے“‏ عطا کر سکتا ہے۔‏ (‏فلپیوں ۴:‏۶،‏ ۷‏)‏ یہ خداداد اطمینان ہمیں شدید دباؤ کے تحت پُرسکون رہنے اور ہر طرح کے شدید دباؤ کی صورت میں شکوک یا خوف سے بچنے کے قابل بناتا ہے۔‏ اپنی پاک رُوح کے ذریعے یہوواہ ہمیں اُن تمام حالات میں قائم رہنے میں مدد دے سکتا ہے جنکی وہ اجازت دیتا ہے۔‏—‏۱-‏کرنتھیوں ۱۰:‏۱۳‏۔‏

۱۵.‏ جب ہم دُکھ اُٹھاتے ہیں تو کیا چیز ہمیں تلخ ہونے سے گریز کرنے میں مدد دے سکتی ہے؟‏

۱۵ جو لوگ ہم سے بِلاوجہ نفرت رکھتے ہیں انکی بابت تلخ نہ ہونے کے سلسلے میں کون سی چیز ہماری مدد کر سکتی ہے؟‏ یاد رکھیں کہ ہمارے بنیادی دُشمن شیطان اور شیاطین ہیں۔‏ (‏افسیوں ۶:‏۱۲‏)‏ اگرچہ بعض انسان جان‌بوجھ کر ہمیں اذیت پہنچاتے ہیں توبھی بہتیرے کچھ نہ جانتے ہوئے یا دوسروں کی باتوں میں آکر ایسا کرتے ہیں۔‏ (‏دانی‌ایل ۶:‏۴-‏۱۶‏؛‏ ۱ تیمتھیس ۱:‏۱۲،‏ ۱۳)‏ یہوواہ چاہتا ہے کہ ”‏سب آدمی نجات پائیں اور سچائی کی پہچان تک پہنچیں۔‏“‏ (‏۱-‏تیمتھیس ۲:‏۴‏)‏ سچ ہے کہ بعض سابقہ مخالفیں ہمارے پاکیزہ چال‌چلن کو دیکھ کر اس وقت ہمارے بہن بھائی بن چکے ہیں۔‏ (‏۱-‏پطرس ۲:‏۱۲‏)‏ علاوہ‌ازیں،‏ ہم یعقوب کے بیٹے یوسف سے سبق حاصل کر سکتے ہیں۔‏ اگرچہ یوسف نے اپنے بھائیوں کے ہاتھوں کافی تکلیف برداشت کی توبھی اُس نے اپنے دل میں اُن کیلئے رقابت نہ رکھی۔‏ کیوں نہیں؟‏ کیونکہ اُس نے دیکھ لیا تھا کہ اس معاملے میں یہوواہ کا ہاتھ ہے اور وہ حالات کو اپنے مقصد کی تکمیل کیلئے ترتیب دے رہا ہے۔‏ (‏پیدایش ۴۵:‏۴-‏۸‏)‏ اسی طرح یہوواہ ہمیں بھی ناانصافی کا سامنا کرنے دے سکتا ہے تاکہ اس سے اپنے نام کو جلال دے سکے۔‏—‏۱-‏پطرس ۴:‏۱۶‏۔‏

۱۶،‏ ۱۷.‏ مخالفین کی مُنادی کے کام کو روکنے کی کوششوں کو دیکھ کر ہمیں حد سے زیادہ پریشان کیوں نہیں ہونا چاہئے؟‏

۱۶ اگر مخالفین خوشخبری کی راہ میں رُکاوٹ ڈالنے میں کامیاب نظر آتے ہیں توبھی ہمیں حد سے زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔‏ یہوواہ عالمگیر گواہی کے ذریعے قوموں کو ہلا رہا ہے اور مرغوب چیزیں آ رہی ہیں۔‏ (‏حجی ۲:‏۷‏)‏ اچھے چرواہے یسوع مسیح نے کہا:‏ ”‏میری بھیڑیں میری آواز سنتی ہیں اور مَیں اُنہیں جانتا ہوں اور وہ میرے پیچھے پیچھے چلتی ہیں اور مَیں اُنہیں ہمیشہ کی زندگی بخشتا ہوں .‏ .‏ .‏ اور کوئی اُنہیں میرے میرے ہاتھ سے چھین نہ لیگا۔‏“‏ ‏(‏یوحنا ۱۰:‏۲۷-‏۲۹‏)‏ پاک فرشتے بھی عظیم روحانی کٹائی میں شریک ہیں۔‏ (‏متی ۱۳:‏۳۹،‏ ۴۰؛‏ مکاشفہ ۱۴:‏۶،‏ ۷‏)‏ لہٰذا،‏ مخالفین کا کوئی کام یا بات خدا کے مقصد کی راہ میں حائل نہیں ہو سکتی۔‏—‏یسعیاہ ۵۴:‏۱۷؛‏ اعمال ۵:‏۳۸،‏ ۳۹‏۔‏

۱۷ مخالفین کی کوششیں اکثر ناکام ہو جاتی ہیں۔‏ ایک افریقی مُلک میں یہوواہ کے گواہوں کے خلاف بہت سی جھوٹی باتیں پھیلائی گئی تھیں جن میں سے ایک بات یہ بھی تھی کہ وہ شیطان کے پرستار ہیں۔‏ اس وجہ سے جب بھی گواہ آتے تو گریس اپنے گھر کے پیچھے چھپ جاتی اور جبتک وہ چلے نہ جاتے وہیں رہتی۔‏ ایک دن اسکے چرچ کے پادری نے ہماری مطبوعات میں سے ایک کو پکڑ کر تمام حاضرین کو اسے پڑھنے سے منع کِیا کیونکہ یہ انکے اپنے ایمان سے برگشتہ ہونے کا سبب بن سکتا ہے۔‏ اس سے گریس کا تجسّس بہت بڑھ گیا۔‏ اگلی مرتبہ جب گواہ آئے تو چھپنے کی بجائے اُس نے ان کیساتھ بات‌چیت کی اور مطبوعات کی ذاتی کاپی حاصل کی۔‏ بائبل مطالعہ شروع ہو گیا اور ۱۹۹۶ میں اُس نے بپتسمہ لے لیا۔‏ اس وقت گریس اپنا وقت ایسے لوگوں کو تلاش کرنے میں صرف کرتی ہے جنہیں گواہوں کی بابت غلط معلومات دی گئی ہیں۔‏

اپنے ایمان کو مضبوط کریں

۱۸.‏ شدید آزمائشوں کے آنے سے پہلے ہی اپنے ایمان کو مضبوط کرنے کی ضرورت کیوں ہے،‏ اور ہم یہ کیسے کر سکتے ہیں؟‏

۱۸ چونکہ شیطان کسی بھی وقت بِلاوجہ ہمارے خلاف اذیت کو بھڑکا سکتا ہے اسلئے یہ ضروری ہے کہ ہم اس وقت اپنے ایمان کو مضبوط کریں۔‏ ہم یہ کیسے کر سکتے ہیں؟‏ ایک ایسے مُلک کی رپورٹ جہاں یہوواہ کے گواہوں کو اذیت دی گئی تھی بیان کرتی ہے:‏ ”‏ایک بات تو بالکل واضح ہو گئی ہے کہ جب آزمائشیں آتی ہیں تو اچھی روحانی عادات اور سچائی کیلئے گہری قدردانی رکھنے والے لوگوں کو سچائی میں قائم رہنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔‏ لیکن جو سازگار حالات میں اجلاسوں سے غیرحاضر ہوتے ہیں،‏ میدانی خدمت میں بےقاعدہ ہیں اور چھوٹے مسائل میں سمجھوتہ کر لیتے ہیں وہ اکثر ’‏بڑی آزمائشوں میں کمزور پڑ جاتے ہیں۔‏‘‏ اگر آپ ایسے حلقے دیکھتے ہیں جہاں آپکو بہتری لانے کی ضرورت ہے تو بِلاتاخیر ایسا کرنے کی کوشش کریں۔‏—‏زبور ۱۱۹:‏۶۰‏۔‏

۱۹.‏ بِلاوجہ مخالفت کی صورت میں خدا کے خادموں کی راستی کیا انجام دیتی ہے؟‏

۱۹ شیطانی نفرت کے تحت سچے پرستاروں کی راستی یہوواہ کی حاکمیت کے درست،‏ جائز اور راست ہونے کی زندہ شہادت ہے۔‏ انکی وفاداری خدا کے دل کو شاد کرتی ہے۔‏ اگرچہ انسان ان کی تحقیر کرتے ہیں توبھی جس کی عظمت زمین آسمان سے بلند ہے وہ ”‏انکا خدا کہلانے سے نہیں شرماتا۔‏“‏ واقعی،‏ ایسے وفاداروں کے متعلق بجا طور پر یہ کہا جا سکتا ہے:‏ ”‏دُنیا اُنکے لائق نہ تھی۔‏“‏—‏عبرانیوں ۱۱:‏۱۶،‏ ۳۸‏۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 2 صحائف میں لفظ ”‏نفرت“‏ کے کئی مختلف معنی ہیں۔‏ بعض عبارتوں میں اسکا مطلب محض کم محبت دکھانا ہے۔‏ (‏استثنا ۲۱:‏۱۵،‏ ۱۶‏)‏ ”‏نفرت“‏ شدید ناپسندیدگی کو بھی ظاہر کر سکتی ہے جس میں کسی کو نقصان پہنچائے بغیر اُس سے گریز کرنا اور کراہیت محسوس کرنا شامل ہے۔‏ تاہم،‏ لفظ ”‏نفرت“‏ شدید رقابت کو بھی ظاہر کر سکتا ہے جس میں کینہ اور بغض شامل ہو سکتا ہے۔‏ اس مضمون میں اس لفظ کے اسی مفہوم پر بات کی گئی ہے۔‏

کیا آپ وضاحت کر سکتے ہیں؟‏

‏• سچے پرستاروں کی بِلاوجہ مخالفت کے پیچھے کیا ہے؟‏

‏• شیطان نے ایوب اور یسوع کی راستی توڑنے کیلئے رسوائی کا استعمال کیسے کِیا؟‏

‏• یہوواہ ہمیں شیطانی نفرت کی صورت میں قائم رہنے کی طاقت کیسے بخشتا ہے؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۱۶ پر بکس/‏تصویر]‏

وہ اصل مسئلے کو سمجھ گئے

یوکرئن میں جہاں بادشاہتی منادی کے کام پر تقریباً ۵۰ سال سے پابندی ہے،‏ ایک یہوواہ کے گواہ نے بیان کِیا:‏ ”‏جس صورتحال میں یہوواہ کے گواہ رہ رہے ہیں اُسے محض انسانی نقطہ‌نظر سے نہیں دیکھنا چاہئے۔‏ .‏ .‏ .‏ بیشتر افسران محض اپنی ڈیوٹی پوری کر رہے تھے۔‏ جب حکومت بدلی تو افسران کی وفاداریاں بھی بدل گئیں مگر ہم ویسے کے ویسے ہی رہے۔‏ ہم جانتے تھے کہ ہماری مشکلات کی اصل وجہ بائبل میں بیان کر دی گئی ہے۔‏

”‏ہم خود کو محض ظالم انسانوں کا شکار خیال نہیں کرتے ہیں۔‏ جس چیز نے ہمیں برداشت کرنے میں مدد دی وہ دراصل باغِ‌عدن میں اُٹھنے والے مسئلے—‏خدا کے حکمرانی کرنے کے حق کی واضح سمجھ تھی۔‏ ہم نے ایک ایسے مسئلے کے لئے ثابت قدمی کا مظاہرہ کِیا جوکہ نہ صرف انسانی مفادات سے تعلق رکھتا ہے بلکہ کائنات کے حاکمِ‌اعلیٰ کے مفادات سے جڑا ہوا ہے۔‏ ہمیں اصل مسائل کی بہتر اور واضح سمجھ حاصل ہے۔‏ اس نے ہمیں مضبوط کِیا اور انتہائی مشکل حالات کے تحت بھی راستی قائم رکھنے کے قابل بنایا۔‏“‏

‏[‏تصویر]‏

وکٹر پاپووچ،‏ جسے ۱۹۷۰ میں گرفتار کِیا گیا

‏[‏صفحہ ۱۳ پر تصویر]‏

یسوع پر لائی گئی رسوائی کے پیچھے کون تھا؟‏

‏[‏صفحہ ۱۵ پر تصویر]‏