مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

یہوواہ —‏’‏مصیبت کے وقت ہمارا محکم قلعہ ہے‘‏

یہوواہ —‏’‏مصیبت کے وقت ہمارا محکم قلعہ ہے‘‏

یہوواہ —‏’‏مصیبت کے وقت ہمارا محکم قلعہ ہے‘‏

‏”‏صادقوں کی نجات [‏یہوواہ]‏ کی طرف سے ہے۔‏ مصیبت کے وقت وہ اُنکا محکم قلعہ ہے۔‏“‏—‏زبور ۳۷:‏۳۹‏۔‏

۱،‏ ۲.‏ (‏ا)‏ اپنے شاگردوں کیلئے یسوع نے کیا دُعا کی تھی؟‏ (‏ب)‏ اپنے لوگوں کے بارے میں یہوواہ کی کیا مرضی ہے؟‏

یہوواہ قادرِمطلق ہے۔‏ وہ ہر طرح سے اپنے وفادار پرستاروں کو بچانے کی قدرت رکھتا ہے۔‏ وہ جسمانی طور پر بھی اپنے خادموں کو دیگر لوگوں کی نظروں سے اوجھل کر سکتا اور اُنہیں ایک محفوظ اور پُرامن ماحول میں رکھ سکتا ہے۔‏ تاہم،‏ اپنے شاگردوں کی بابت یسوع نے اپنے آسمانی باپ سے دُعا کی تھی:‏ ”‏مَیں یہ درخواست نہیں کرتا کہ تُو اُنہیں دُنیا سے اُٹھا لے بلکہ یہ کہ اُس شریر سے اُنکی حفاظت کر۔‏“‏—‏یوحنا ۱۷:‏۱۵‏۔‏

۲ یہوواہ نے ہمیں ”‏دُنیا سے اُٹھا“‏ نہیں لیا ہے۔‏ بلکہ وہ چاہتا ہے کہ ہم اس دُنیا میں رہیں اور لوگوں کو یہوواہ کی طرف سے اُمید اور تسلی کا پیغام دیں۔‏ (‏رومیوں ۱۰:‏۱۳-‏۱۵‏)‏ لیکن جیسے یسوع نے اپنی دُعا میں بیان کِیا،‏ اس دُنیا میں رہنے کی وجہ سے ہم ”‏اُس شریر“‏ کا نشانہ بنتے ہیں۔‏ نافرمان انسان اور شریر روحانی فوجیں بہت زیادہ تکلیف اور پریشانی پھیلاتی ہیں اور مسیحی بھی اس تکلیف سے مستثنیٰ نہیں ہیں۔‏—‏۱-‏پطرس ۵:‏۹‏۔‏

۳.‏ یہوواہ کے وفادار پرستاروں کو بھی کس حقیقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے،‏ لیکن خدا کے کلام میں کونسی تسلی پائی جاتی ہے؟‏

۳ ایسی مشکلات کے تحت،‏ بےحوصلہ ہو جانا ایک فطری امر ہے۔‏ (‏امثال ۲۴:‏۱۰‏)‏ بائبل کی سرگزشتوں میں ایسے وفادار اشخاص کی بیشمار مثالیں موجود ہیں جنہوں نے مصیبتوں کا سامنا کِیا۔‏ زبورنویس کہتا ہے:‏ ”‏صادق کی مصیبتیں بہت ہیں لیکن [‏یہوواہ]‏ اُسکو اُن سب سے رہائی بخشتا ہے۔‏“‏ (‏زبور ۳۴:‏۱۹‏)‏ جی‌ہاں،‏ ”‏صادق“‏ پر بھی مصیبت آ سکتی ہے۔‏ زبورنویس داؤد کی مانند ہم بھی کبھی‌کبھار ”‏نحیف اور نہایت کچلا ہوا“‏ محسوس کر سکتے ہیں۔‏ (‏زبور ۳۸:‏۸‏)‏ تاہم،‏ یہ جاننا اطمینان‌بخش ہے کہ یہوواہ ”‏شکستہ دلوں کے نزدیک ہے اور خستہ‌جانوں کو محفوظ رکھتا ہے۔‏“‏—‏زبور ۳۴:‏۱۸؛‏ ۹۴:‏۱۹‏۔‏

۴،‏ ۵.‏ (‏ا)‏ امثال ۱۸:‏۱۰ کی مطابقت میں،‏ ہمیں خدا کے تحفظ سے استفادہ کرنے کیلئے کیا کرنا چاہئے؟‏ (‏ب)‏ خدا کی مدد حاصل کرنے کیلئے ہم کونسے خاص اقدام اُٹھا سکتے ہیں؟‏

۴ یسوع کی دُعا کے مطابق،‏ یہوواہ یقیناً ہم پر نگاہ رکھتا ہے۔‏ وہ ‏’‏مصیبت کے وقت ہمارا محکم قلعہ ہے۔‏‘‏ (‏زبور ۳۷:‏۳۹‏)‏ امثال کی کتاب بھی اسی طرح کے الفاظ استعمال کرتے ہوئے بیان کرتی ہے:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ کا نام محکم بُرج ہے۔‏ صادق اُس میں بھاگ جاتا ہے اور امن میں رہتا ہے۔‏“‏ (‏امثال ۱۸:‏۱۰‏)‏ صحائف آشکارا کرتے ہیں کہ یہوواہ اپنی مخلوق کی بابت گہری فکر رکھتا ہے۔‏ خدا بالخصوص اُن راستباز لوگوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے جو سرگرمی سے اُسکی تلاش کرتے ہیں گویا پناہ کیلئے کسی محفوظ قلعے کی جانب بھاگ رہے ہوں۔‏

۵ مسائل کی صورت میں ہم کیسے تحفظ کیلئے یہوواہ کی طرف رُجوع کر سکتے ہیں؟‏ آئیے تین اہم اقدام پر غور کریں جو ہم یہوواہ سے مدد حاصل کرنے کیلئے اُٹھا سکتے ہیں۔‏ سب سے پہلے،‏ ہمیں اپنے آسمانی باپ سے دُعا کرنی چاہئے۔‏ دوسرا یہ کہ ہمیں اُسکی رُوح‌اُلقدس کی مطابقت میں کام کرنا چاہئے۔‏ تیسری بات یہ کہ یہوواہ کے انتظام کی اطاعت کرتے ہوئے ہمیں ساتھی مسیحیوں کیساتھ رفاقت کے خواہاں ہونا چاہئے جو ہمیں مصیبت سے چھٹکارا پانے میں مدد دے سکتے ہیں۔‏

دُعا کی طاقت

۶.‏ سچے مسیحی دُعا کی بابت کیا نظریہ رکھتے ہیں؟‏

۶ صحت کے بعض ماہرین مایوسی اور دباؤ کے علاج کے طور پر دُعا کرنے کی سفارش کرتے ہیں۔‏ یہ سچ ہے کہ دُعائیہ غوروفکر کے پُرسکون لمحے دباؤ کو کم کر سکتے ہیں تاہم،‏ فطرت کی پیداکردہ چیزوں کی آوازیں یا آہستہ آہستہ اپنی کمر کو سہلانا بھی مایوسی اور دباؤ کو کم کرنے میں معاون ہو سکتا ہے۔‏ سچے مسیحی دُعا کو محض ایک علاج خیال کرنے کی بجائے اسے خالق کیساتھ ایک بااحترام رابطہ سمجھتے ہیں۔‏ دُعا خدا کیلئے ہماری عقیدت اور اُس پر ہمارے بھروسے کو ظاہر کرتی ہے۔‏ جی‌ہاں،‏ دُعا ہماری عبادت کا ایک حصہ ہے۔‏

۷.‏ اعتماد کیساتھ دُعا مانگنے کا کیا مطلب ہے اور ایسی دُعائیں مصیبت کا مقابلہ کرنے میں کیسے ہماری مدد کرتی ہیں؟‏

۷ ہماری دُعاؤں میں یہوواہ پر بھروسا اور توکل شامل ہونا چاہئے۔‏ یوحنا رسول نے لکھا:‏ ”‏ہمیں جو اُسکے سامنے دلیری ہے اُسکا سبب یہ ہے کہ اگر اُسکی مرضی کے موافق کچھ مانگتے ہیں تو وہ ہماری سنتا ہے۔‏“‏ (‏۱-‏یوحنا ۵:‏۱۴‏)‏ حاکمِ‌اعلیٰ یہوواہ،‏ واحد سچا اور قادرِمطلق خدا واقعی اپنے پرستاروں کی دُعاؤں پر خاص توجہ دیتا ہے۔‏ یہ جاننا بھی تسلی‌بخش ہے کہ جب ہم دُعا میں اپنے مسائل اور پریشانیاں اپنے شفیق خالق کے حضور لیکر جاتے ہیں تو وہ ہماری سنتا ہے۔‏—‏فلپیوں ۴:‏۶‏۔‏

۸.‏ وفادار مسیحیوں کو یہوواہ سے دُعا کرتے وقت خود کو کمزور یا نااہل کیوں خیال نہیں کرنا چاہئے؟‏

۸ دُعا میں یہوواہ تک رسائی کرتے وقت وفادار مسیحیوں کو کبھی بھی خود کو کمزور،‏ نااہل یا کم اعتقاد ظاہر نہیں کرنا چاہئے۔‏ سچ ہے کہ جب ہم مایوس یا بہت زیادہ مسائل میں گھرے ہوتے ہیں تو شاید ہم یہوواہ سے دُعا کرنے کی طرف مائل نہ ہوں۔‏ ایسے موقعوں پر ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ یہوواہ نے ”‏اپنے لوگوں کو تسلی بخشی ہے“‏ اور یہ کہ وہ ”‏اپنے رنجوروں پر رحم فرمائیگا۔‏“‏ (‏یسعیاہ ۴۹:‏۱۳؛‏ ۲-‏کرنتھیوں ۷:‏۶‏)‏ خاص طور پر مشکل اور مصیبت کے وقت ہمیں مکمل بھروسے کیساتھ اپنے آسمانی باپ اور محکم قلعے کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے۔‏

۹.‏ خدا تک دُعائیہ رسائی میں ایمان کیا کردار ادا کرتا ہے؟‏

۹ دُعا کے شرف سے بھرپور فائدہ اُٹھانے کیلئے ہمیں حقیقی ایمان کی ضرورت ہے۔‏ بائبل بیان کرتی ہے کہ ”‏خدا کے پاس آنے والے کو ایمان لانا چاہئے کہ وہ موجود ہے اور اپنے طالبوں کو بدلہ دیتا ہے۔‏“‏ (‏عبرانیوں ۱۱:‏۶‏)‏ ایمان محض یہ اعتقاد رکھنے سے کہ خدا موجود ہے زیادہ کا تقاضا کرتا ہے۔‏ ”‏سچے ایمان میں خدا کی ہماری وفادارانہ روش کا اَجر دینے کی خواہش اور لیاقت پر مضبوط اعتقاد شامل ہے۔‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ کی نظر راستبازوں کی طرف ہے اور اُسکے کان اُنکی دُعا پر لگے ہیں۔‏“‏ (‏۱-‏پطرس ۳:‏۱۲‏)‏ ہمارے لئے یہوواہ کی پُرمحبت فکرمندی کی بابت علم حاصل کرنا ہماری دُعاؤں کو خاص طور پر پُرمطلب بنا دیگا۔‏

۱۰.‏ اگر ہم نے یہوواہ سے روحانی تقویت حاصل کرنی ہے تو ہماری دُعاؤں کی بابت کیا سچ ہونا چاہئے؟‏

۱۰ جب ہم پورے دل سے یہوواہ سے دُعا کرتے ہیں تو وہ ہماری سنتا ہے۔‏ زبورنویس نے لکھا:‏ ”‏مَیں پورے دل سے دُعا کرتا ہوں۔‏ اَے [‏یہوواہ]‏!‏ مجھے جواب دے۔‏“‏ (‏زبور ۱۱۹:‏۱۴۵‏)‏ بیشتر مذاہب کی رسمی دُعاؤں کے برعکس،‏ ہماری دُعائیں نہ تو محض رسمی ہوتی ہیں اور نہ ہی یہ خلوص سے عاری ہوتی ہیں۔‏ جب ہم ”‏اپنے سارے دل“‏ سے یہوواہ سے دُعا کرتے ہیں تو ہمارے الفاظ پُرمعنی اور بامقصد بن جاتے ہیں۔‏ ایسی مخلص دُعاؤں کے بعد،‏ ہم ایسا سکون محسوس کرنے لگتے ہیں جو ’‏اپنا سارا بوجھ [‏یہوواہ]‏ پر ڈال دینے‘‏ سے حاصل ہوتا ہے۔‏ جیسےکہ بائبل وعدہ کرتی ہے،‏ ”‏وہ تجھے سنبھالیگا۔‏“‏—‏زبور ۵۵:‏۲۲؛‏ ۱-‏پطرس ۵:‏۶،‏ ۷‏۔‏

خدا کی رُوح ہماری مددگار ہے

۱۱.‏ جب ہم مدد کیلئے مسلسل درخواست کرتے ہیں تو یہوواہ جس طریقے سے ہمیں جواب دیتا ہے اُس میں سے ایک کیا ہے؟‏

۱۱ یہوواہ نہ صرف دُعاؤں کا سننے والا ہے بلکہ جواب بھی دیتا ہے۔‏ (‏زبور ۶۵:‏۲‏)‏ داؤد نے لکھا:‏ ”‏مَیں اپنی مصیبت کے دن تجھ سے دُعا کرونگا۔‏ کیونکہ تُو مجھے جواب دیگا۔‏“‏ (‏زبور ۸۶:‏۷‏)‏ اسی طرح،‏ یسوع نے اپنے شاگردوں کی حوصلہ‌افزائی کی تھی کہ یہوواہ سے مدد ’‏مانگتے رہو‘‏ کیونکہ ”‏آسمانی باپ اپنے مانگنے والوں کو رُوح‌اُلقدس .‏ .‏ .‏ دیگا؟‏“‏ (‏لوقا ۱۱:‏۹-‏۱۳‏)‏ جی‌ہاں،‏ خدا کی سرگرم قوت خدا کے لوگوں کو ایک مددگار یا تسلی دینے والے کے طور پر کام کرتی ہے۔‏—‏یوحنا ۱۴:‏۱۶‏۔‏

۱۲.‏ جب مسائل برداشت سے باہر دکھائی دیتے ہیں تو خدا کی رُوح کیسے ہماری مدد کر سکتی ہے؟‏

۱۲ جب ہمیں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے تو خدا کی رُوح ہمیں ”‏حد سے زیادہ قدرت“‏ عطا کر سکتی ہے۔‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۴:‏۷‏)‏ پولس رسول جس نے مختلف طرح کی مشکل صورتحال کا سامنا کِیا اُس نے نہایت اعتماد کیساتھ کہا:‏ ”‏جو مجھے طاقت بخشتا ہے اُس میں مَیں سب کچھ کر سکتا ہوں۔‏“‏ (‏فلپیوں ۴:‏۱۳‏)‏ اسی طرح،‏ آجکل بہتیرے مسیحیوں نے اپنی درخواستوں کے جواب میں روحانی اور جذباتی تقویت حاصل کی ہے۔‏ اکثر،‏ جب ہم خدا کی رُوح کی مدد حاصل کرتے ہیں تو پھر ہمیں پریشان‌کُن مسائل بھی زیادہ کٹھن محسوس نہیں ہوتے۔‏ اس خداداد طاقت کی وجہ سے ہم پولس کی مانند کہہ سکتے ہیں:‏ ”‏ہم ہر طرف سے مصیبت تو اُٹھاتے ہیں لیکن لاچار نہیں ہوتے۔‏ حیران تو ہوتے ہیں مگر نااُمید نہیں ہوتے۔‏ ستائے تو جاتے ہیں مگر اکیلے نہیں چھوڑے جاتے۔‏ گرائے تو جاتے ہیں لیکن ہلاک نہیں ہوتے۔‏“‏—‏۲-‏کرنتھیوں ۴:‏۸،‏ ۹‏۔‏

۱۳،‏ ۱۴.‏ (‏ا)‏ یہوواہ اپنے تحریری کلام کے ذریعے کیسے ہمارا محکم قلعہ ثابت ہوا ہے؟‏ (‏ب)‏ بائبل اُصولوں کے اطلاق نے آپکو ذاتی طور پر کیسے مدد دی ہے؟‏

۱۳ رُوح‌اُلقدس نے ہمارے فائدے کیلئے خدا کے تحریری کلام کو لکھنے کا الہام بخشا اور اسے محفوظ بھی رکھا۔‏ اپنے کلام کے ذریعے یہوواہ کیسے مصیبت کے اوقات میں ہمارا محکم قلعہ ثابت ہوا ہے؟‏ ایک طریقہ عملی حکمت اور فہم عطا کرنے سے۔‏ (‏امثال ۳:‏۲۱-‏۲۴‏)‏ بائبل ہماری ذہنی لیاقتوں کو تربیت دیتی اور ہماری قوتِ‌استدلال کو بہتر بناتی ہے۔‏ (‏رومیوں ۱۲:‏۱‏)‏ خدا کے کلام کی باقاعدہ پڑھائی،‏ مطالعے اور اسے استعمال میں لانے سے ہمارے ”‏حواس کام کرتے کرتے نیک‌وبد میں امتیاز کرنے کیلئے تیز ہو گئے ہیں۔‏“‏ (‏عبرانیوں ۵:‏۱۴‏)‏ ممکن ہے آپکو ذاتی طور پر بھی اس بات کا تجربہ ہوا ہو کہ بائبل اُصولوں نے کیسے آپکو مشکل حالات کے تحت دانشمندانہ فیصلے کرنے میں مدد دی ہے۔‏ بائبل ہمیں ایسی دانائی بخشتی ہے جو ہمیں کٹھن حالات کا عملی حل تلاش کرنے میں مدد دیتی ہے۔‏—‏امثال ۱:‏۴‏۔‏

۱۴ خدا کا کلام ہمیں ایک اَور طریقے—‏نجات کی اُمید—‏سے بھی تقویت بخشتا ہے۔‏ (‏رومیوں ۱۵:‏۴‏)‏ بائبل ہمیں بتاتی ہے کہ بدی ہمیشہ نہ رہیگی۔‏ جو بھی مشکلات ہم آج برداشت کرتے ہیں وہ سب عارضی ہیں۔‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۴:‏۱۶-‏۱۸‏)‏ ہمیں ’‏اُس ہمیشہ کی زندگی کی اُمید پر جسکا وعدہ ازل سے خدا نے کِیا ہے جو جھوٹ نہیں بول سکتا“‏ بھروسا ہے۔‏ (‏ططس ۱:‏۲‏)‏ اگر ہم روشن مستقبل کی بابت یہوواہ کے وعدوں سے متواتر باخبر رہتے ہوئے اپنی اُمید سے خوش رہتے ہیں تو ہم مصیبت کو برداشت کر سکتے ہیں۔‏—‏رومیوں ۱۲:‏۱۲؛‏ ۱-‏تھسلنیکیوں ۱:‏۳‏۔‏

کلیسیا—‏خدا کی محبت کا ایک اظہار

۱۵.‏ مسیحی ایک دوسرے کیلئے کیسے باعثِ‌برکت ثابت ہو سکتے ہیں؟‏

۱۵ یہوواہ کی طرف سے ایک اور فراہمی جو ہمیں مصیبت کے اوقات میں مدد دے سکتی ہے وہ مسیحی کلیسیا کی رفاقت ہے جس سے ہم مستفید ہوتے ہیں۔‏ بائبل بیان کرتی ہے:‏ ”‏دوست ہر وقت محبت دکھاتا ہے اور بھائی مصیبت کے دن کیلئے پیدا ہوا ہے۔‏“‏ (‏امثال ۱۷:‏۱۷‏)‏ خدا کا کلام کلیسیا کے تمام لوگوں کی حوصلہ‌افزائی کرتا ہے کہ ایک دوسرے کیلئے محبت دکھائیں اور عزت سے پیش آئیں۔‏ (‏رومیوں ۱۲:‏۱۰‏)‏ پولس رسول نے لکھا،‏ ”‏کوئی اپنی بہتری نہ ڈھونڈے بلکہ دوسرے کی۔‏“‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۱۰:‏۲۴‏)‏ ایسا ذہنی میلان ہمیں اپنی ذاتی مشکلات کی بجائے دوسروں کی ضروریات پر دھیان دینے میں مدد دے سکتا ہے۔‏ جب ہم خود کو دوسروں کیلئے وقف کر دیتے ہیں تو اس سے نہ صرف ہم اُن کیلئے مددگار ثابت ہوتے ہیں بلکہ ہمیں خود بھی اس سے کسی حد تک اطمینان اور خوشی حاصل ہوتی ہے جوکہ ہمارے تفکرات کو قابلِ‌برداشت بنا دیتا ہے۔‏—‏اعمال ۲۰:‏۳۵‏۔‏

۱۶.‏ ایک مسیحی کیسے حوصلہ‌افزائی کا باعث بن سکتا ہے؟‏

۱۶ روحانی طور پر پُختہ مرد اور عورتیں ایک دوسرے کی حوصلہ‌افزائی کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔‏ ایسا کرنے کے لئے،‏ وہ خود کو قابلِ‌رسائی بناتے اور دوسروں کیلئے دستیاب رکھتے ہیں۔‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۶:‏۱۱-‏۱۳‏)‏ جب سب لوگ نوجوانوں کی تعریف کرنے،‏ نئے ساتھی ایمانداروں کے ایمان کو مضبوط کرنے اور مایوسی کا شکار اشخاص کی حوصلہ‌افزائی کرنے کیلئے وقت نکالتے ہیں تو کلیسیا واقعی اس سے مستفید ہوتی ہے۔‏ (‏رومیوں ۱۵:‏۷‏)‏ برادرانہ محبت ہمیں ایک دوسرے سے بدگمان ہونے سے بچنے میں بھی مدد دیگی۔‏ ہمیں فوراً اس نتیجے پر پہنچنے سے گریز کرنا چاہئے کہ ذاتی کوتاہیاں روحانی کمزوری کی علامت ہیں۔‏ پولس نے موزوں طور پر مسیحیوں کو نصیحت کی تھی کہ ”‏کم‌ہمتوں کو دلاسا دو۔‏“‏ (‏۱-‏تھسلنیکیوں ۵:‏۱۴‏)‏ بائبل بیان کرتی ہے کہ وفادار مسیحیوں کو بھی مصیبت کا سامنا ہوتا ہے۔‏—‏اعمال ۱۴:‏۱۵‏۔‏

۱۷.‏ ہمارے پاس مسیحی بھائی‌چارے کے بندھن کو مضبوط کرنے کے کونسے مواقع ہوتے ہیں؟‏

۱۷ مسیحی اجلاس ہمارے لئے ایک دوسرے کو تسلی دینے اور حوصلہ‌افزائی کرنے کے شاندار مواقع فراہم کرتے ہیں۔‏ (‏عبرانیوں ۱۰:‏۲۴،‏ ۲۵‏)‏ یہ پُرمحبت میل‌ملاپ صرف مسیحی اجلاسوں تک ہی محدود نہیں ہے۔‏ بلکہ خدا کے لوگ ایسے مواقعوں کی تلاش میں رہتے ہیں جب وہ غیررسمی طور پر ایک دوسرے کی رفاقت سے خوش ہو سکتے ہیں۔‏ جب پریشان‌کُن صورتحال پیدا ہو جاتی ہے تو دوستی کے اس مضبوط بندھن کی بدولت ہم فوری طور پر ایک دوسرے کی مدد کرنے کیلئے تیار ہونگے۔‏ پولس رسول نے لکھا:‏ ”‏بدن میں تفرقہ نہ پڑے بلکہ اعضا ایک دوسرے کی برابر فکر رکھیں۔‏ پس اگر ایک عضو دُکھ پاتا ہے تو سب اعضا اُسکے ساتھ دُکھ پاتے ہیں اور اگر ایک عضو عزت پاتا ہے تو سب اعضا اُسکے ساتھ خوش ہوتے ہیں۔‏“‏—‏۱-‏کرنتھیوں ۱۲:‏۲۵،‏ ۲۶‏۔‏

۱۸.‏ جب ہم شکستہ‌دلی کا شکار ہوں تو ہمیں کس میلان سے گریز کرنا چاہئے؟‏

۱۸ بعض‌اوقات،‏ شاید ہم اپنی شکستہ‌دلی کی وجہ سے ساتھی مسیحیوں کیساتھ رفاقت سے استفادہ کرنے کیلئے تیار نہ ہوں۔‏ ہمیں ایسے احساسات پر قابو پانے کی کوشش کرنی چاہئے تاکہ ہم خود کو اُس تسلی اور مدد سے محروم نہ کر لیں جو ساتھی مسیحی پیش کر سکتے ہیں۔‏ بائبل ہمیں آگاہ کرتی ہے:‏ ”‏جو اپنے آپ کو سب سے الگ رکھتا ہے اپنی خواہش کا طالب ہے اور ہر معقول بات سے برہم ہوتا ہے۔‏“‏ (‏امثال ۱۸:‏۱‏)‏ ہمارے بہن بھائی خدا کی ہمارے لئے فکرمندی کا ایک اظہار ہیں۔‏ اگر ہم اس پُرمحبت فراہمی کی قدر کرتے ہیں تو ہم مصیبت کے اوقات میں تسلی پائینگے۔‏

مثبت میلان قائم رکھیں

۱۹،‏ ۲۰.‏ صحائف ہمیں منفی رُجحانات کو مسترد کرنے میں کیسے مدد دیتے ہیں؟‏

۱۹ جب حوصلہ‌شکنی اور اُداسی طاری ہوتی ہے تو منفی سوچ میں مبتلا ہو جانا بہت آسان ہوتا ہے۔‏ مثال کے طور پر،‏ جب مخالفت کا سامنا ہوتا ہے تو بعض شاید اپنی ہی روحانیت کی بابت مشکوک ہو جائیں اور یہ سمجھنے لگیں کہ مشکل دراصل خدا کی ناپسندیدگی کی علامت ہے۔‏ تاہم یاد رکھیں کہ یہوواہ کسی کو ”‏بدی سے“‏ نہیں آزماتا۔‏ (‏یعقوب ۱:‏۱۳‏)‏ بائبل بیان کرتی ہے،‏ ”‏[‏خدا]‏ بنی‌آدم پر خوشی سے دُکھ مصیبت نہیں بھیجتا۔‏“‏ (‏نوحہ ۳:‏۳۳‏)‏ اسکے برعکس،‏ یہوواہ اپنے خادموں کو مشکل میں دیکھ کر بہت افسردہ ہوتا ہے۔‏—‏یسعیاہ ۶۳:‏۸،‏ ۹؛‏ زکریاہ ۲:‏۸‏۔‏

۲۰ یہوواہ ”‏رحمتوں کا باپ اور ہر طرح کی تسلی کا خدا ہے۔‏“‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۱:‏۳‏)‏ وہ ہماری فکر رکھتا ہے اور وقت آنے پر وہ ہمیں سربلند بھی کریگا۔‏ (‏۱-‏پطرس ۵:‏۶،‏ ۷‏)‏ ہمارے لئے خدا کی شفقت سے متواتر آگاہ رہنا ہمیں مثبت میلان رکھنے اور خوش ہونے میں مدد دیگا۔‏ یعقوب نے لکھا:‏ ”‏اَے میرے بھائیو!‏ جب تُم طرح طرح کی آزمایشوں میں پڑو۔‏“‏ (‏یعقوب ۱:‏۲‏)‏ مگر کیوں؟‏ وہ خود ہی جواب دیتا ہے ”‏کیونکہ جب مقبول ٹھہرا تو زندگی کا وہ تاج حاصل کریگا جسکا [‏یہوواہ]‏ نے اپنے محبت کرنے والوں سے وعدہ کِیا ہے۔‏“‏—‏یعقوب ۱:‏۱۲‏۔‏

۲۱.‏ ہمیں جو بھی مشکلات درپیش ہیں اُن سے قطع‌نظر،‏ یہوواہ اپنے وفادار لوگوں کو کس بات کی ضمانت دیتا ہے؟‏

۲۱ جیسےکہ یسوع نے آگاہ کِیا اس دُنیا میں ہم مشکلات اُٹھائینگے۔‏ (‏یوحنا ۱۶:‏۳۳‏)‏ لیکن بائبل وعدہ کرتی ہے کہ ”‏مصیبت یا تنگی یا ظلم یا کال یا ننگاپن یا خطرہ“‏ ہمیں یہوواہ اور اُسکے بیٹے کی محبت سے جُدا نہیں کر سکتا ہے۔‏ (‏رومیوں ۸:‏۳۵،‏ ۳۹‏)‏ یہ جاننا کسقدر اطمینان‌بخش ہے کہ جو بھی مصیبت ہم برداشت کرتے ہیں یہ محض عارضی ہے!‏ کیونکہ جب ہم انسانی تکالیف کے خاتمے کا انتظار کرتے ہیں تو ہمارا شفیق آسمانی باپ یہوواہ ہمیں دیکھتا ہے۔‏ اگر ہم تحفظ کیلئے اُسکی طرف رجوع کرتے ہیں تو وہ ”‏مظلوموں کیلئے اُونچا بُرج ہوگا۔‏ مصیبت کے ایّام میں اُونچا بُرج“‏ ثابت ہوگا۔‏—‏زبور ۹:‏۹‏۔‏

ہم نے کیا سیکھا؟‏

‏• اس شریر نظام میں رہتے ہوئے مسیحیوں کو کس چیز کی توقع کرنی چاہئے؟‏

‏• جب ہمیں آزمائشوں کا سامنا ہوتا ہے تو ہماری مخلص دُعائیں کیسے تقویت‌بخش ثابت ہو سکتی ہیں؟‏

‏• خدا کی رُوح کیسے ایک مددگار ہے؟‏

‏• ایک دوسرے کی مدد کرنے کیلئے ہم کیا کر سکتے ہیں؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۱۸ پر تصویر]‏

ہمیں یہوواہ کی تلاش ایسے کرنی چاہئے گویا کہ ہم ایک محکم بُرج میں پناہ لینے کیلئے دوڑ رہے ہوں

‏[‏صفحہ ۲۰ پر تصویر]‏

روحانی طور پر پُختہ لوگ دوسروں کی تعریف کرنے اور اُنکی حوصلہ‌افزائی کرنے کے کسی موقع کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتے