مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

ایک خود ایثارانہ،‏ مطمئن اور مسرور زندگی

ایک خود ایثارانہ،‏ مطمئن اور مسرور زندگی

میری کہانی میری زبانی

ایک خود ایثارانہ،‏ مطمئن اور مسرور زندگی

از میرین اور روسا زومیگا

زبور ۵۴:‏۶ بیان کرتا ہے:‏ ”‏مَیں تیرے حضور رضا کی قربانی چڑھاؤنگا۔‏“‏ فرانس میں رہنے والے میرین زومیگا اور اُسکی بیوی روسا کی زندگی کا یہی خاصا تھا۔‏ اُنہوں نے حال میں یہوواہ کی خدمت میں اپنی زندگی کی بعض اہم اور اطمینان بخش باتوں کا اظہار کِیا ہے۔‏

میرین:‏ میرے والدین رومن کیتھولک تھے۔‏ وہ پولینڈ سے ہجرت کرکے یہاں آئے تھے۔‏ میرے والد کا تعلق ایک ادنیٰ خاندان سے تھا۔‏ اِسلئے اُنہیں کبھی سکول جانے کا موقع نہ ملا۔‏ تاہم پہلی عالمی جنگ کے دوران اُنہوں نے ایک فوجی سپاہی کے طور پر مورچوں میں پڑھنا لکھنا سیکھ لیا تھا۔‏ میرے والد خداپرست شخص تھے لیکن چرچ نے اُنہیں اکثر مایوس کِیا۔‏

ایک واقعہ تو اُنہیں ہمیشہ یاد رہا۔‏ جنگ کے دنوں میں ایک دن فوجی چھاؤنی کا پادری میرے والد کے یونٹ میں گیا۔‏ جب ایک گولہ نزدیک آکر گرا تو پادری پریشانی کے عالم میں سرپٹ دوڑ پڑا۔‏ اُس نے اپنے گھوڑے کو تیز دوڑانے کیلئے اُسے صلیب سے مارا۔‏ میرے والد کو بہت بُرا لگا کہ ایک ”‏خدا کے نمائندے“‏ نے وہاں سے بھاگ نکلنے کیلئے ایک ”‏مُقدس“‏ چیز کا اِسطرح استعمال کِیا تھا۔‏ ایسے تجربات اور جنگ کے دہشتناک واقعات کے باوجود ہمارے والد کا خدا پر ایمان کبھی کمزور نہ پڑا۔‏ اُس نے جنگ سے صحیح‌سلامت واپس لوٹنے کو ہمیشہ خدا سے منسوب کِیا۔‏

‏”‏پولینڈ کلاں“‏

میرے والد نے ایک قریبی دیہات سے ایک لڑکی کیساتھ ۱۹۱۱ میں شادی کر لی۔‏ اُسکا نام اینا سیسوواسکی تھا۔‏ میرے والد اور والدہ نے جنگ سے تھوڑی دیر بعد ۱۹۱۹ میں پولینڈ سے فرانس میں نقل‌مکانی کر لی اور ہمارے والد کو کوئلے کی کان میں ملازمت مل گئی۔‏ میری پیدائش مارچ ۱۹۲۶ میں جنوب‌مغربی فرانس کے علاقے میں کانیاکلک‌مین میں ہوئی۔‏ اِسکے بعد میرے والدین نے شمالی فرانس میں لنز کے نزدیک لوساگوئیل میں ایک ایسے علاقے میں رہائش اختیار کر لی جہاں سب پولینڈ کے باشندے آباد تھے۔‏ اِسی وجہ سے یہ علاقہ پولینڈ کلاں کہلاتا تھا۔‏ میرے والدین فلاحی کاموں میں پیش‌پیش رہتے تھے۔‏ میرے والد اکثر سٹیج شو،‏ موسیقی اور گانوں کے پروگرام کراتے تھے۔‏ اِسکے علاوہ پادری کیساتھ بھی انکی گفتگو چلتی رہتی تھی۔‏ مگر وہ پادری کے اِس عام جواب سے کبھی مطمئن نہیں ہوئے کہ ”‏بہت سی باتیں بھید ہیں۔‏“‏

یہ سن ۱۹۳۰ کی بات ہے کہ ایک دن دو عورتوں نے ہمارا دروازہ کھٹکھٹایا۔‏ وہ بائبل سٹوڈنٹس تھیں۔‏ اُس زمانے میں یہوواہ کے گواہ بائبل سٹوڈنٹس کہلاتے تھے۔‏ میرے والد نے اُن سے ایک بائبل کی کاپی حاصل کی جسے وہ عرصۂ‌دراز سے پڑھنا چاہتا تھا۔‏ میرے ماں باپ نے بائبل کیساتھ ساتھ بائبل پر مبنی اُن کتابوں کو بھی پڑھا جو وہ خواتین اُنکے پاس چھوڑ گئی تھیں۔‏ میرے والدین اُن کتابوں کی معلومات سے بہت متاثر ہوئے۔‏ ہمارے والدین نے اپنی سخت مصروفیت کے باوجود بائبل سٹوڈنٹس کی طرف سے ترتیب دئے جانے والے اجلاسوں پر جانا شروع کر دیا۔‏ پادری کیساتھ مباحثے زیادہ اختلاف اختیار کرتے جا رہے تھے کہ ایک دن اُس پادری نے دھمکی دے دی کہ اگر میرے والدین نے بائبل سٹوڈنٹس کیساتھ میل‌جول بند نہ کِیا تو میری بہن سٹیفنی کو مذہبی تعلیم حاصل کرنے سے روک دیا جائیگا۔‏ ”‏آپ ایسا کرنے کی تکلیف نہ کریں،‏“‏ میرے والد نے جواب دیا،‏ ”‏آئندہ سے میری بیٹی اور دوسرے بچے ہمارے ساتھ بائبل سٹوڈنٹس کے اجلاسوں پر جائینگے۔‏“‏ میرے والد نے چرچ کو چھوڑ دیا اور ۱۹۳۲ کے شروع ہی میں میرے والدین نے بپتسمہ لے لیا۔‏ اُس وقت پورے فرانس میں کُل ۸۰۰ بادشاہتی مناد تھے۔‏

روسا:‏ میرے والدین کا تعلق ہنگری سے تھا اور میرین کے خاندان کی طرح وہ فرانس کے شمالی علاقے میں رہائش‌پذیر ہو گئے تھے۔‏ وہاں اُنہیں کوئلے کی کانوں میں کام کرنے کا موقع مل سکتا تھا۔‏ میری پیدائش سن ۱۹۲۵ میں ہوئی تھی۔‏ سن ۱۹۳۷ میں ایک یہوواہ کا گواہ ہنگری زبان میں میرے والدین کے پاس مینارِنگہبانی لیکر آنے لگا۔‏ اُسکا نام اوگاستی تھا اور ہم اُسے پاپا اوگاستی کہتے تھے۔‏ اگرچہ میرے والدین نے رسالوں کو بڑا دلچسپ پایا لیکن اُن میں سے کوئی بھی یہوواہ کا گواہ نہ بنا۔‏

اگرچہ مَیں نوعمر ہی تھی توبھی مینارِنگہبانی کی معلومات نے میرے دل پر گہرا اثر کِیا۔‏ اِسکے ساتھ ہی ساتھ پاپا اوگاستی کی بہو،‏ سوزین بیوگن نے میرے لئے گہری دلچسپی دکھائی۔‏ میرے والدین نے مجھے اُس کیساتھ اجلاسوں پر جانے کی اجازت دے دی۔‏ بعدازاں،‏ جب مَیں نے ملازمت شروع کی تو میرا والد میرے اتوار کے اجلاس پر جانے کی وجہ سے ناراض ہوا۔‏ میرے والد اچھی طبیعت کے مالک تھے تو بھی اُنہوں نے شکایت کی کہ ”‏آپ پورا ہفتہ بھی گھر سے باہر ہوتی ہیں اور اتوار کو بھی اجلاسوں پر چلی جاتی ہیں۔‏“‏ بہرکیف،‏ مَیں نے اجلاسوں پر جانا بند نہ کِیا۔‏ چنانچہ ایک دن میرے والد نے کہا کہ ”‏اپنی چیزیں اُٹھاؤ اور اِس گھر سے چلی جاؤ۔‏“‏ شام کا وقت تھا اور میری عمر صرف ۱۷ برس تھا۔‏ مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کہاں جاؤں۔‏ مَیں روتی ہوئی سوزین کے گھر پہنچ گئی۔‏ مَیں ہفتہ‌بھر سوزین کے گھر رہی۔‏ اِسکے بعد میرے والد نے میری بہن کو مجھے واپس گھر لانے کیلئے بھیجا۔‏ مَیں طبیعتاً شرمیلی واقع ہوئی ہوں اِسکے باوجود ۱-‏یوحنا ۴:‏۱۸ میں پائے جانے والے خیال نے ثابت‌قدم رہنے میں میری مدد۔‏ صحیفہ بیان کرتا ہے کہ ”‏کامِل محبت خوف کو دور کر دیتی ہے۔‏“‏ مَیں نے ۱۹۴۲ میں بپتسمہ لے لیا۔‏

ایک بیش‌قیمت روحانی میراث

میرین:‏ مَیں نے اپنی بہنوں سٹیفنی اور میلین اور اپنے بھائی سٹیفن کیساتھ ۱۹۴۲ میں بپتسمہ لیا تھا۔‏ ہمارا گھرانہ بڑا خداپرست تھا اور خدا کا کلام ہماری خاندانی زندگی کا محور تھا۔‏ جب شام کے وقت ہم سب میز کے گرد بیٹھ جاتے تو ہمارے والد پولینڈ کی زبان میں ہمیں بائبل پڑھکر سناتے تھے۔‏ ہم اکثر شام کے وقت اپنے والدین سے بادشاہت کی منادی کے سلسلے میں اُنکے تجربات سنا کرتے تھے۔‏ ہمارے والد نے صحت کی خرابی کی وجہ سے ملازمت کرنا چھوڑ دی اِسکے باوجود اُنہوں نے روحانی اور جسمانی طور پر ہماری دیکھ‌بھال کرنا جاری رکھی۔‏

ملازمت چھوڑدینے کے بعد والد کے پاس کافی وقت تھا۔‏ اِسلئے وہ ہفتے میں ایک مرتبہ کلیسیا کے نوجوانوں کیساتھ پولینڈ کی زبان میں بائبل کا مطالعہ کراتے تھے۔‏ اِسی بندوبست کے تحت مَیں نے اس زبان پڑھنا سیکھ لی۔‏ ہمارے والد نے نوجوانوں کی دیگر طریقوں سے بھی مدد کی۔‏ ایک مرتبہ بھائی گستاؤ ضوفر نے ہماری کلیسیا کا دَورہ کِیا۔‏ اُس وقت وہ فرانس میں یہوواہ کے گواہوں کے کام کی نگرانی پر معمور تھے۔‏ اُنکے دَورے کے دوران ہمارے والد نے مذہبی گیتوں اور بیلشضر بادشاہ کی ضیافت کے دوران دیوار پر لکھی جانے والی ہاتھ کی تحریر کے واقعہ کو ڈرامے کی صورت میں پیش کرنے کا بندوبست کِیا۔‏ (‏دانی‌ایل ۵:‏۱-‏۳۱‏)‏ دانی‌ایل کا کردار لوئس پیہوتا نے ادا کِیا جو بعدازاں نازیوں کے خلاف ثابت‌قدم رہا۔‏ * ہماری پرورش ایسے مذہبی ماحول میں ہوئی تھی۔‏ ہم نے اِس بات کا مشاہدہ کِیا کہ ہمارے والدین ہمیشہ روحانی معاملات میں مصروف رہتے تھے۔‏ آج مَیں محسوس کرتا ہوں کہ ہمارے والدین نے کیا بیش‌قیمت میراث چھوڑی ہے!‏

جب ۱۹۳۹ میں دوسری عالمی جنگ چھڑ گئی تو فرانس میں یہوواہ کے گواہوں کے کام پر پابندی تھی۔‏ ایک موقع پر ہمارے گاؤں کی تلاشی لی گئی۔‏ جرمن فوجیوں نے سب گھروں کو گھیرے میں لے لیا تھا۔‏ ہمارے والد نے کپڑوں کی الماری کے نچلے خانے کے نیچے ایک خفیہ خانہ بنا رکھا تھا۔‏ ہم وہاں پر مختلف بائبل مطبوعات چھپا دیتے تھے۔‏ تاہم،‏ فسطائیت یا آزادی ‏(‏انگریزی)‏ نامی ایک کتابچے کی بہت سی کاپیاں برتنوں کی الماری سے مل گئیں۔‏ ہمارے والد نے فوری طور پر اُنہیں ڈیوڑھی میں لٹکے ہوئے کوٹ کی جیب میں چھپا دیا۔‏ دو فوجی سپاہیوں اور فرانسیسی پولیس نے ہمارے گھر کی پوری تلاشی لی۔‏ ہم بڑے خوفزدہ تھے۔‏ ایک فوجی نے ڈیوڑھی میں لٹکے ہوئے کپڑوں کی تلاشی لینا شروع کر دی۔‏ اِسکے فورا بعد وہ کتابچوں کو ہاتھ میں تھامے باورچی‌خانے میں داخل ہو گیا جہاں پر ہم خوفزدہ بیٹھے تھے۔‏ اُس نے ہمیں غصے سے دیکھا اور کتابچوں کو میز پر رکھ کر دوسری جگہ پر اپنی تلاشی شروع کر دی۔‏ مَیں نے فوراً کتابچوں کو اُٹھا اُس دراز میں رکھ دیا جس کی فوجی سپاہی پہلے ہی تلاشی لے چکے تھے۔‏ اُس فوجی نے کتابچوں کی بابت کچھ نہ پوچھا گویا وہ اُن کی بابت بالکل بھول گیا تھا!‏

کُل‌وقتی خدمت اختیار کرنا

مَیں نے ۱۹۴۸ میں یہ فیصلہ کِیا کہ مَیں خود کو یہوواہ کی خدمت کرنے کیلئے کُل‌وقتی پائنیر خدمت کیلئے پیش کرونگا۔‏ اِسکے چند دن بعد،‏ مجھے فرانس میں یہوواہ کے گواہوں کے برانچ دفتر کی طرف سے ایک خط ملا۔‏ اُس خط میں بیلجیئم کے نزدیک سیڈن کی کلیسیا میں ایک پائنیر کے طور پر خدمت کرنے کیلئے میرے واسطے ایک تفویض تھی۔‏ میرے والدین اِس طریقے سے خدمت کرنے کے میرے فیصلے سے بہت خوش تھے۔‏ لیکن میرے والد نے اس بات کی نشاندہی کر دی تھی کہ پائنیر خدمت اتنی آسان نہیں ہوگی۔‏ یہ محنت والا کام ہوگا۔‏ تاہم،‏ میرے والد نے مجھے یہ یقین‌دہانی کرائی کہ میرے گھر کے دروازے ہمیشہ کھلے رہینگے۔‏ اِسکے علاوہ جب کبھی کوئی مشکل ہو تو اُسکی مدد پر بھروسا کرے۔‏ میرے والدین نے زیادہ امیر نہ ہونے کے باوجود مجھے ایک نئی بائیسکل خرید کر دے دی۔‏ میرے پاس اُس بائیسکل کی رسید ابھی تک موجود ہے۔‏ مَیں جب بھی اُس رسید پر نظر ڈالتا ہوں تو میری آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے ہیں۔‏ میرے ماں باپ نے ۱۹۶۱ میں وفات پائی۔‏ لیکن مجھے اپنے والد کی دانشمندانہ باتیں ابھی تک یاد ہیں۔‏ مَیں نے اپنے تمام خدمتی سالوں میں اُن سے حوصلہ‌افزائی اور تسلی پائی ہے۔‏

میرے لئے حوصلہ‌افزائی کا ایک اَور ذریعہ سیڈن کی کلیسیا میں ایلز موٹ نامی ایک ۷۵ سالہ مسیحی بہن بھی تھی۔‏ گرمیوں کے دوران مَیں دُوردراز کے دیہاتوں میں اپنی بائیسکل پر جاکر منادی کرتا اور ایلز ٹرین کے ذریعے آکر میرے ساتھ منادی کرتی تھی۔‏ لیکن ایک دن ٹرین انجینئرز ہڑتال پر تھے اور ایلز گھر نہیں آ سکتی تھی۔‏ میرے ذہن میں ایک ہی حل تھا کہ اُسے اپنی سائیکل کے پیچھے بٹھا کر اُسے گھر پہنچاؤں۔‏ اُس بہن کیلئے یہ کوئی آرام‌دہ سفر نہیں تھا۔‏ اگلے روز مَیں ایک گدی لیکر آیا اور ایلز کو اُسکے گھر سے اُٹھایا۔‏ اُس نے ٹرین پر سفر کرنا بند کر دیا۔‏ لہٰذا جو کرائے کے پیسے بچتے تھے اُس سے وہ دوپہر کے کھانے کے وقت کوئی گرم مشروب خرید لیتی تھی۔‏ کسی نے کب سوچا ہوگا کہ میری بائیسکل ہی سواری کا کام دیگی؟‏

زیادہ ذمہ‌داریاں

سن ۱۹۵۰ میں مجھے شمالی فرانس میں سرکٹ اوورسیئر کے طور پر خدمت انجام دینے کیلئے کہا گیا۔‏ صرف ۲۳ سال کی عمر میں اتنی بڑی ذمہ‌داری قبول کرنے کیلئے مَیں بڑا خوفزدہ تھا۔‏ میرے خیال میں برانچ دفتر سے شاید کوئی غلطی ہو گئی تھی!‏ میرے ذہن میں بہت سے سوال گردش کر رہے تھے:‏ ’‏کیا مَیں روحانی اور جسمانی طور پر یہ کام کرنے کی لیاقت رکھتا ہوں؟‏ مَیں ہر ہفتے مختلف رہائش کیسے اختیار کر پاؤنگا؟‏‘‏ علاوہ‌ازیں،‏ مَیں چھ سال کی عمر سے بھینگا تھا۔‏ مجھے اِس بات کی ہمیشہ فکر رہتی تھی کہ دوسرے میری بابت کیا سوچینگے۔‏ خدا کا شکر ہے کہ اُس موقع پر مجھے گلئیڈ سکول سے تربیت‌یافتہ ایک مشنری سٹیفن بیہونیک سے بہت مدد ملی۔‏ بھائی بیہونیک کو منادی کرنے کی وجہ سے پولینڈ سے نکال دیا گیا تھا۔‏ چنانچہ اُنہیں دوبارہ فرانس میں بھیج دیا گیا تھا۔‏ اُسکے حوصلے نے مجھے واقعی بہت متاثر کِیا۔‏ یہوواہ اور سچائی کیلئے اُسکے دل میں گہری محبت تھی۔‏ بعض سوچتے تھے کہ وہ میرے ساتھ سختی سے پیش آتا ہے،‏ لیکن مَیں نے اُن سے بہت کچھ سیکھا۔‏ اُسکی دلیری نے میرے اندر اعتماد پیدا کر دیا۔‏

سرکٹ اوورسیئر کے طور پر خدمت انجام دینے سے مجھے میدانی خدمت سے بعض بڑے شاندار تجربے حاصل ہوئے۔‏ سن ۱۹۵۳ میں مجھے جنوبی پیرس میں رہنے والے ایک شخص پاؤلی سے ملنے کیلئے کہا گیا۔‏ وہ مینارنگہبانی کا سالانہ خریدار تھا۔‏ مجھے اُس شخص سے ملنے کے بعد پتہ چلا کہ وہ ایک ریٹائر فوجی تھا۔‏ اُسے مینارنگہبانی بہت دلچسپ لگتا تھا۔‏ اُس نے مجھے بتایا کہ مسیح کی موت کی یادگار کی بابت ایک مضمون پڑھنے کے بعد اُس نے تنہا مسیح کی موت کی یادگار منائی اور ساری شام زبور پڑھتا رہا۔‏ ہم نے پوری سہ‌پہر بات‌چیت میں گزار دی۔‏ واپس لوٹنے سے پہلے ہم نے مختصراً بپتسمے کی بابت بھی بات‌چیت کی۔‏ اِسکے بعد مَیں نے اُسے ۱۹۵۴ کے شروع میں منعقد ہونے والی سرکٹ اسمبلی پر حاضر ہونے کیلئے دعوت دی۔‏ وہ سرکٹ اسمبلی پر آیا اور مسٹر پاؤلی بپتسمہ پانے والے ۲۶ اشخاص میں شامل تھا۔‏ اِسطرح کے تجربات مجھے آج تک یاد ہیں اور اُن سے مجھے بہت خوشی حاصل ہوتی ہے۔‏

روسا:‏ مَیں نے اکتوبر ۱۹۴۸ میں پائنیر کے طور پر خدمت انجام دینا شروع کی۔‏ بیلجیئم کے نزدیک آنور میں خدمت انجام دینے کے بعد مجھے ایک اَور پائنیر کیساتھ پیرس میں خدمت کرنے کی ذمہ‌داری دی گئی۔‏ اُسکا نام آئرین کولان‌سکی تھا جو اب لیرؤے کہلاتی ہے۔‏ ہم شہر کے مرکز میں سینٹ-‏جرمین-‏ڈیس پرس کے علاقے کے ایک چھوٹھے سے کمرے میں رہتی تھیں۔‏ مَیں ایک دیہاتی لڑکی کے طور پر پیرس کے باشندوں سے بہت زیادہ متاثر تھی۔‏ مَیں سمجھتی تھی کہ وہ سب بڑے شائستہ اور ذہین تھے۔‏ لیکن اُنکے درمیان منادی کرنے سے مجھے جلد ہی معلوم ہو گیا کہ دوسرے لوگوں میں اور اُن میں کوئی فرق نہیں تھا۔‏ ہمیں اکثر اپارٹمنٹس کے چوکیدار بھگا دیتے تھے اور بائبل مطالعے شروع کرنا بہت مشکل تھا۔‏ اِسکے باوجود کچھ لوگوں نے ہمارے پیغام کو سنا۔‏

سن ۱۹۵۱ میں ایک سرکٹ اسمبلی پر ہماری پائنیر خدمت کی بابت آئرین کا اور میرا انٹرویو کرایا گیا۔‏ آپ حیران ہونگے کہ انٹرویو کرانے والا میرین زومیگا ایک جوان سرکٹ اوورسیئر تھا۔‏ ہم ایکدوسرے کو جانتے تھے لیکن اُس اسمبلی کے بعد ہم نے خط‌وکتابت شروع کر دی۔‏ میرین اور میری بہت سی باتیں مشترک تھیں۔‏ ہم نے ایک ہی سال میں بپتسمہ لیا تھا اور ایک ہی سال میں پائنیر خدمت شروع کی تھی۔‏ سب سے بڑھکر ہم دونوں کل وقتی خدمت میں رہنا چاہتے تھے۔‏ پس ہم نے دُعائیہ غوروفکر کے بعد جولائی ۳۱،‏ ۱۹۵۶ میں شادی کر لی۔‏ شادی کے بعد میرے لئے ایک نئی طرزِزندگی شروع ہو گئی تھی۔‏ مجھے بیوی کی ذمہ‌داریاں پورا کرنے کے علاوہ سرکٹ کے کام میں میرین کیساتھ جانے کی وجہ سے ہر ہفتے نئے گھر کا عادی بھی ہونا تھا۔‏ شروع شروع میں تو مجھے بہت مشکل لگا لیکن اِسکے ساتھ بہت خوشیاں بھی آنی تھیں۔‏

ایک معنی‌خیز زندگی

میرین:‏ سالوں کے دوران ہمیں کئی کنونشنوں کی تیاری میں مدد دینے کا منفرد موقع حاصل ہوا ہے۔‏ سن ۱۹۶۶ میں بورڈو میں منعقد ہونے والے کنونشن کی یادیں میرے دل میں ہیں۔‏ اُس وقت پُرتگال میں یہوواہ کے گواہوں کی سرگرمیوں پر پابندی تھی۔‏ چنانچہ اسمبلی پروگرام کو اُن گواہوں کیلئے پُرتگالی زبان میں بھی پیش کِیا گیا جو فرانس آ سکتے تھے۔‏ پُرتگال سے سینکڑوں بہن بھائی آئے۔‏ لیکن ایک مشکل بھی تھی کہ اتنے زیادہ بہن‌بھائیوں کو کہاں ٹھہرائیں گے۔‏ ہم نے بورڈو میں گواہوں کے گھروں میں آنے والے بہن بھائیوں کو ٹھہرانے کی گنجائش نہ ہونے کی وجہ سے اُنکے سونے کیلئے ایک خالی تھیئٹر کرائے پر حاصل کر لیا۔‏ ہم نے تمام نشستیں باہر نکال دیں اور سٹیج کے پردے کو ہال کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کیلئے استعمال کِیا تاکہ ایک حصے میں بھائی اور دوسرے میں بہنیں سو سکیں۔‏ ہم نے غسلخانوں اور بیت‌الخلاؤں کا بھی بندوبست کِیا اور سیمنٹ کے فرش پر سوکھی گھاس بچھا کر اُسکے اوپر کینوس بچھا دیا۔‏ سب اِس بندوبست سے مطمئن تھے۔‏

کنونشن سیشنوں کے بعد ہم سونے کی جگہ پر بہن بھائیوں سے جاکر ملتے۔‏ وہاں بہت ہی شاندار ماحول تھا۔‏ ہم نے مخالفت برداشت کرنے کے باوجود سالوں کے دوران اُنہیں حاصل ہونے والے تجربات سے بہت ہی حوصلہ‌افزائی حاصل کی۔‏ جب اسمبلی کے بعد جانے لگے کہ ہم سب کی آنکھیں پُرنم تھیں۔‏

اِس سے دو سال پہلے ایک اَور شرف حاصل ہوا تھا اُس وقت مجھے ڈسٹرکٹ اوورسیئر کے طور پر خدمت انجام دینے کیلئے کہا گیا تھا۔‏ ایک مرتبہ مَیں پھر حیران تھا کہ آیا مَیں اِس ذمہ‌داری کو پورا کرنے کے لائق تھا۔‏ تاہم مَیں نے سوچا کہ اگر ذمہ‌دار بھائی مجھے یہ کام انجام دینے کیلئے کہہ رہے ہیں تو ظاہر ہے کہ اُنہوں نے یہ ضرور سوچا ہوگا کہ مَیں یہ کام کرنے کے لائق ہوں۔‏ دوسرے سفری نگہبانوں کی قربت میں خدمت کرنے کا یہ عمدہ تجربہ تھا۔‏ مَیں نے اُن سے بہت کچھ سیکھا۔‏ اُن میں سے زیادہ‌تر صبر اور ثابت‌قدمی کے زندہ نمونے تھے۔‏ یہی وہ صفات ہیں جنکی یہوواہ کی نظر میں بڑی قدر ہے۔‏ مَیں نے یہ سیکھ لیا ہے کہ اگر ہم صبر کرنا سیکھ لیں تو یہوواہ جانتا ہے کہ وہ ہمیں کہاں پائیگا۔‏

سن ۱۹۸۲ میں برانچ آفس نے ہمیں پیرس سے دور ایک علاقے میں پولینڈ کے ۱۲ بھائیوں کے ایک چھوٹے سے گروپ کی بھی دیکھ‌بھال کرنے کیلئے کہا۔‏ یہ ایک اچنبھا تھا۔‏ مَیں پولینڈ کی زبان میں تھیوکریٹک الفاظ سے واقف تھا لیکن میرے لئے جملے بنانا مشکل تھا۔‏ بہرکیف،‏ بھائیوں کی مہربانی اور رضامندانہ تعاون نے میری بڑی مدد کی۔‏ آجکل اُس کلیسیا میں کوئی ۶۰ پائنیروں سمیت لگ‌بھگ ۱۷۰ مبشر ہیں۔‏ اِسکے بعد روسا اور مَیں نے آسٹریا،‏ ڈنمارک اور جرمنی میں پولینڈ کی زبان بولنے والے گروپوں کے بھی دورے کئے۔‏

حالات کی تبدیلی

مختلف کلیسیاؤں کے دَورے کرنا ہماری زندگی کا حصہ تھا۔‏ لیکن وقت کیساتھ ساتھ میری صحت اچھی نہ رہی اور ہم نے ۲۰۰۱ میں سفری خدمت بند کر دی۔‏ ہم نے پٹیوی میں ایک اپارٹمنٹ حاصل کر لیا۔‏ میری بہن روت بھی وہیں رہتی تھی۔‏ برانچ آفس نے ہمارے ساتھ مہربانی کی اور ہمیں سپیشل پائنیر مقرر کر دیا۔‏ اِسکے علاوہ ہمیں اپنے حالات کے مطابق گھنٹوں کے تقاضے کو پورا کرنے کی اجازت بھی تھی۔‏

روسا:‏ سرکٹ کا کام بند کرنے کے بعد پہلا سال میرے لئے بہت مشکل تھا۔‏ یہ اتنی بڑی تبدیلی تھی کہ مَیں نے خود کو نارکارہ محسوس کرنا شروع کر دیا۔‏ پھر مَیں نے خود کو دلاسا دیا کہ ’‏روسا تم ابھی تک اپنے وقت اور قوت کو ایک پائنیر کے طور پر صرف کر سکتی ہو۔‏‘‏ آجکل مَیں اپنی کلیسیا میں دوسرے پائنیروں کیساتھ کام کرکے بہت خوش ہوں۔‏

یہوواہ نے ہمیشہ ہمارا خیال رکھا ہے

مَیں یہوواہ کا بڑا احسانمند ہوں کہ روسا پچھلے ۴۸ سالوں سے میری دُکھ‌سکھ کی ساتھی رہی ہے۔‏ سفری خدمت کی تمام مدت میں وہ میرے لئے بڑی مدد کرتی رہی ہے۔‏ مَیں نے اُسکے مُنہ سے کبھی یہ نہیں سنا،‏ ’‏کاش تم سفری کام چھوڑ دو اور ایک جگہ اپنے گھر میں بیٹھ جاؤ۔‏‘‏

روسا:‏ بعض‌اوقات کچھ لوگ مجھ کہتے تھے کہ ”‏آپکی زندگی نارمل زندگی نہیں ہے۔‏ آپ ہمیشہ دوسروں کیساتھ رہتی ہیں۔‏ لیکن ایک ”‏نارمل زندگی“‏ کیا ہے؟‏ اکثر ہمیں بہت سے کام کرنے پڑتے ہیں جو ہماری روحانی کارگزاریوں کی راہ میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔‏ ہمیں درحقیقت ایک بستر،‏ ایک میز اور چند ضروری چیزوں کے علاوہ اَور کیا چاہئے؟‏ اگرچہ پائنیروں کے طور ہمارے پاس مالی لحاظ سے کچھ نہیں تھا توبھی یہوواہ کی مرضی بجا لانے کیلئے ہر ضروری چیز ہمارے پاس تھی۔‏ بعض اوقات ہم سے یہ کہا جاتا تھا کہ ”‏جب آپ بوڑھے ہو جائینگے اور آپکا کوئی اپنا گھر بھی نہیں ہوگا اور پینشن کا بھی بندوبست نہیں ہوگا تو آپ کیا کرینگے؟‏“‏ اُس وقت مَیں زبور ۳۴:‏۱۰ کے الفاظ کا حوالہ دیتا تھا:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ کے طالب کسی نعمت کے محتاج نہ ہونگے۔‏“‏ (‏زبور ۳۴:‏۱۰‏)‏ یہوواہ نے ہمیشہ ہماری دیکھ‌بھال کی ہے۔‏

میرین:‏ بیشک یہوواہ نے ہمیشہ ہماری دیکھ‌بھال کی ہے!‏ درحقیقت،‏ یہوواہ نے ہمیں ہماری ضرورت سے زیادہ دیا ہے۔‏ مثال کے طور پر،‏ ۱۹۵۸ میں،‏ میرا انتخاب کِیا گیا تاکہ مَیں نیویارک میں انٹرنیشنل کنونشن پر اپنے سرکٹ کی نمائندگی کروں۔‏ تاہم،‏ ہمارے پاس روسا کیلئے ٹکٹ خریدنے کیلئے فنڈز نہیں تھے۔‏ ایک شام ایک بھائی نے ہمیں ایک لفافہ دیا جس پر ”‏نیویارک“‏ لکھا تھا۔‏ اُسکے اندر تحفے کی بدولت روسا میرے ساتھ سفر کر سکی!‏

روسا کو اور مجھے یہوواہ کی خدمت میں صرف کئے جانے والے سالوں پر کوئی پچھتاوا نہیں ہے۔‏ ہم نے کچھ کھونے کی بجائے بہت کچھ پایا ہے۔‏ ہم نے کل‌وقتی خدمت میں ایک معنی‌خیز اور مسرور زندگی گزاری ہے۔‏ یہوواہ ایک عجیب خدا ہے۔‏ ہم نے وقت گزرنے کیساتھ ساتھ اُس پر مکمل بھروسا کرنا سیکھا ہے اور اُس کیلئے ہماری محبت اَور گہری ہوئی ہے۔‏ ہمارے بعض مسیحی بھائیوں نے اپنی وفاداری کیلئے موت کی سزا پائی ہے۔‏ تاہم،‏ میرے خیال میں سالوں کے دوران ایک شخص روزبروز آہستہ آہستہ اپنی زندگی قربان کرتا ہے۔‏ مَیں نے اور روسا نے آج دن تک یہی کرنے کی کوشش کی ہے اور ہم مستقبل میں بھی یہی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 14 لوئس پیہوتا کی سوانح‌عمری اگست ۱۵،‏ ۱۹۸۰ کے واچ‌ٹاور میں شائع ہوئی تھی جسکا عنوان تھا:‏ ”‏مَیں موت کے سفر سے بچ گیا۔‏“‏

‏[‏صفحہ ۲۰ پر تصویر]‏

سن ۱۹۳۰ میں فرانکوئس اور اینا زومیگا اور اُنکے بچے،‏ سٹیفنی،‏ سٹیفن،‏ میلین اور میرین۔‏ میرین سٹول پر کھڑا ہے۔‏

‏[‏صفحہ ۲۲ پر تصویر]‏

اوپر:‏ سن ۱۹۵۰ میں شمالی فرانس کے علاقے آرمینٹریز میں ایک مارکیٹ سٹال پر بائبل مطبوعات پیش کی جا رہیں ہیں

‏[‏صفحہ ۲۲ پر تصویر]‏

دائیں:‏ سن ۱۹۵۰ میں میرین کیساتھ سٹیفن بیہونیک

‏[‏صفحہ ۲۳ پر تصویر]‏

میرین اور روسا اپنی شادی سے ایک دن پہلے

‏[‏صفحہ ۲۳ پر تصویر]‏

روسا (‏بائیں طرف سے پہلی)‏ اپنی پائنیر ساتھی آئرین کیساتھ (‏بائیں طرف سے چوتھی)‏ ،‏ ۱۹۵۱ میں ایک اسمبلی کی تشہیر کر رہی ہیں

‏[‏صفحہ ۲۳ پر تصویر]‏

سرکٹ کے دَوروں کے دوران سواری عام طور پر بائیسکل تھی