مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

‏”‏یک‌زبان“‏ ہو کر خدا کی تمجید کریں

‏”‏یک‌زبان“‏ ہو کر خدا کی تمجید کریں

‏”‏یک‌زبان“‏ ہو کر خدا کی تمجید کریں

‏”‏تُم یک‌دل اور یک‌زبان ہو کر ہمارے خداوند یسوع مسیح کے خدا اور باپ کی تمجید کرو۔‏“‏ —‏رومیوں ۱۵:‏۶‏۔‏

۱.‏ پولس نے پہلی صدی کے مسیحیوں کو کونسی اہم بات سمجھائی؟‏

زندگی کی راہ پر چلنے والے تمام مسیحیوں کو متحد ہونا چاہئے۔‏ لیکن ہر شخص کی پسند ایک جیسی نہیں ہوتی اور ہم ہر بات پر ایک ہی رائے بھی نہیں رکھتے۔‏ اسکے باوجود اگر ہم ان باتوں کو اپنی راہ میں رُکاوٹ نہیں بننے دینگے تو ہمارا اتحاد برقرار رہیگا۔‏ یہی بات پولس رسول پہلی صدی کے مسیحیوں کو سمجھا رہا تھا۔‏ اُس نے اس اہم بات کو کیسے واضح کِیا؟‏ اور ہم پولس کی نصیحت کا آج کیسے اطلاق کر سکتے ہیں؟‏

عبادت میں اتحاد کی اہمیت

۲.‏ پولس نے اتحاد کی اہمیت کو کیسے نمایاں کِیا؟‏

۲ پولس رسول اتحاد کی اہمیت کو اچھی طرح سے جانتا تھا۔‏ اس لئے وہ مسیحیوں کو محبت سے ایک دوسرے کا برداشت کرنے کی ہدایت دیتا۔‏ (‏افسیوں ۴:‏۱-‏۳؛‏ کلسیوں ۳:‏۱۲-‏۱۴‏)‏ لیکن پولس یہ بھی جانتا تھا کہ اتحاد برقرار رکھنا بہت مشکل ہوتا ہے۔‏ اُسے اس بات کا کافی تجربہ تھا کیونکہ وہ ۲۰ سال سے کلیسیاؤں کا دورہ کرتا آ رہا تھا۔‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۱:‏۱۱-‏۱۳؛‏ گلتیوں ۲:‏۱۱-‏۱۴‏)‏ لہٰذا اُس نے روم میں رہنے والے مسیحیوں کو یوں تاکید کی:‏ ”‏خدا صبر اور تسلی کا چشمہ تُم کو یہ توفیق دے کہ .‏ .‏ .‏ تُم یک‌دل اور یک‌زبان ہو کر ہمارے خداوند یسوؔع مسیح کے خدا اور باپ کی تمجید کرو۔‏“‏ (‏رومیوں ۱۵:‏۵،‏ ۶‏)‏ اسی طرح آج بھی ہمیں ”‏یک‌زبان“‏ ہو کر یعنی متحد ہو کر یہوواہ خدا کی تمجید کرنی چاہئے۔‏ کیا ہم واقعی ایسا کر رہے ہیں؟‏

۳،‏ ۴.‏ (‏ا)‏ رومی کلیسیا کے ارکان مسیحی بننے سے پہلے کن کن مذاہب سے تعلق رکھتے تھے؟‏ (‏ب)‏ روم کے مسیحی ”‏یک‌زبان“‏ ہو کر خدا کی خدمت کیسے کر سکتے تھے؟‏

۳ روم میں رہنے والے بہتیرے مسیحی پولس کے اچھے دوست بن گئے تھے۔‏ (‏رومیوں ۱۶:‏۳-‏۱۶‏)‏ یہ مسیحی عمر،‏ معاشی حیثیت اور تعلیم وغیرہ کے لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف تھے۔‏ لیکن پولس جانتا تھا کہ یہ تمام مسیحی ”‏خدا کے پیارے“‏ ہیں۔‏ اُس نے لکھا:‏ ”‏مَیں تُم سب کے بارے میں یسوؔع مسیح کے وسیلہ سے اپنے خدا کا شکر کرتا ہوں کہ تمہارے ایمان کا تمام دُنیا میں شہرہ ہو رہا ہے۔‏“‏ جی‌ہاں،‏ روم کے مسیحی اپنے نیک کاموں کیلئے مشہور تھے۔‏ (‏رومیوں ۱:‏۷،‏ ۸؛‏ ۱۵:‏۱۴‏)‏ روم کی کلیسیا میں مسیحی کئی معاملوں میں مختلف نظریے رکھتے تھے۔‏ آج بھی کلیسیا میں بہن‌بھائیوں کے معاشرتی حالات مختلف ہوتے ہیں اور وہ اکثر مختلف تہذیبوں سے تعلق رکھتے ہیں۔‏ لہٰذا وہ بھی کئی معاملوں میں مختلف نظریے رکھتے ہیں۔‏ اسکے باوجود انہیں ”‏یک‌زبان“‏ ہو کر خدا کی تمجید کرنی چاہئے۔‏ ایسا کرنے میں پولس رسول کی وہ ہدایت جو اُس نے روم کے مسیحیوں کو دی تھی ہمارے بھی کام آ سکتی ہے۔‏

۴ روم کی کلیسیا میں کئی مسیحی پہلے یہودی مذہب سے تعلق رکھتے تھے جبکہ دوسرے مسیحی غیرقوموں میں سے تھے۔‏ (‏رومیوں ۴:‏۱؛‏ ۱۱:‏۱۳‏)‏ یہودی مذہب سے تعلق رکھنے والے مسیحیوں میں سے کچھ موسیٰ کی شریعت کے احکام پر عمل کرتے تھے حالانکہ وہ جانتے تھے کہ ایسا کرنے سے وہ نجات حاصل نہیں کر سکتے ہیں۔‏ لیکن ان میں سے بہتیروں نے موسوی شریعت پر عمل کرنا چھوڑ دیا تھا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ یسوع کی قربانی کی بِنا پر وہ شریعت کے پابند نہیں رہے تھے۔‏ (‏گلتیوں ۴:‏۸-‏۱۱‏)‏ اس صورتحال کے باوجود پولس نے کہا کہ رومی کلیسیا میں سب کے سب ”‏خدا کے پیارے“‏ ہیں۔‏ اور اگر وہ ایک دوسرے کی قدر کرینگے تو وہ ”‏یک‌زبان“‏ ہو کر خدا کی خدمت کر سکیں گے۔‏ پولس رسول نے اس اہم اصول کی خوب وضاحت کی۔‏ ہو سکتا ہے کہ ہم بھی کچھ معاملوں میں دوسرے بہن‌بھائیوں سے فرق نظریہ رکھتے ہوں۔‏ اسلئے ہمیں بھی پولس کی اس وضاحت پر غور کرنا چاہئے۔‏—‏رومیوں ۱۵:‏۴‏۔‏

‏”‏ایک دوسرے کو قبول کرو“‏

۵،‏ ۶.‏ روم میں رہنے والے مسیحی فرق نظریہ کیوں رکھتے تھے؟‏

۵ روم کے مسیحیوں کو خط لکھتے ہوئے پولس نے ایک ایسے معاملے کا ذکر کِیا تھا جسکے بارے میں مسیحی فرق نظریہ رکھتے تھے۔‏ اُس نے لکھا کہ ”‏ایک کو اعتقاد ہے کہ ہر چیز کا کھانا روا ہے اور کمزور ایمان والا ساگپات ہی کھاتا ہے۔‏“‏ اسکی کیا وجہ تھی؟‏ جیسا کہ آپ جانتے ہیں موسوی شریعت کے تحت یہودیوں کو سوأر کا گوشت کھانا منع تھا۔‏ (‏رومیوں ۱۴:‏۲؛‏ احبار ۱۱:‏۷‏)‏ لیکن یسوع کی موت کے بعد یہودی موسوی شریعت کے پابند نہیں رہے تھے۔‏ (‏افسیوں ۲:‏۱۵‏)‏ اس واقعہ کے ساڑھے تین سال بعد ایک فرشتے نے پطرس رسول کو کہا کہ خدا کی نظر میں کسی قسم کی خوراک حرام نہیں رہی۔‏ (‏اعمال ۱۱:‏۷-‏۱۲‏)‏ ایسے مسیحی جو پہلے یہودی مذہب سے تعلق رکھتے تھے ان میں سے بعض نے ان باتوں پر غور کرنے کے بعد شاید سوأر کا گوشت کھانا شروع کر دیا تھا۔‏

۶ لیکن ان میں ایسے بھی مسیحی تھے جنہیں سوأر کا گوشت کھانے کے خیال ہی سے کوفت تھی اور اپنے مسیحی بھائیوں کو سوأر کا گوشت کھاتے دیکھ کر اُنکا دل خراب ہوا ہوگا۔‏ اسکے علاوہ کلیسیا میں ایسے بھی مسیحی تھے جنکا تعلق غیرقوموں سے تھا۔‏ انکو کھانے کے سلسلے میں یہ بحث بڑی عجیب لگی ہوگی کیونکہ مسیحی بننے سے پہلے وہ جن مذاہب سے تعلق رکھتے تھے ان میں ہر قسم کی خوراک جائز تھی۔‏ دراصل اگر کسی شخص نے فیصلہ کِیا تھا کہ وہ سوأر کا گوشت نہیں کھائیگا تو یہ غلط بھی نہیں تھا بشرطیکہ وہ یہ نہ سوچے کہ ایسا کرنے سے ہی اُسے نجات حاصل ہوگی۔‏ لیکن ان مختلف نظریات کی وجہ سے کلیسیا میں بحث‌وتکرار ہونے کا خطرہ تھا۔‏ لہٰذا روم میں رہنے والے مسیحیوں کو احتیاط برتنی تھی کہ انکا اتحاد ختم نہ ہو جائے جسکے نتیجے میں وہ ”‏یک‌زبان“‏ ہو کر خدا کی خدمت کرنے کے قابل نہ رہیں۔‏

۷.‏ روم کے مسیحی سبت کے روز کو پاک ماننے کے معاملے میں کونسے مختلف نظریے رکھتے تھے؟‏

۷ پولس نے ایک اَور معاملے کے بارے میں یوں لکھا:‏ ”‏کوئی تو ایک دِن کو دوسرے سے افضل جانتا ہے اور کوئی سب دنوں کو برابر جانتا ہے۔‏“‏ (‏رومیوں ۱۴:‏۵ الف)‏ موسیٰ کی شریعت کے مطابق سبت کا دن پاک تھا۔‏ اُس روز کسی قسم کی محنت‌مزدوری کرنا جائز نہیں تھا۔‏ یہاں تک کہ یہودیوں کو اُس روز زیادہ دُور سفر کرنے کی بھی اجازت نہیں تھی۔‏ (‏خروج ۲۰:‏۸-‏۱۰؛‏ متی ۲۴:‏۲۰؛‏ اعمال ۱:‏۱۲‏)‏ یسوع کی موت کے بعد شریعت کیساتھ ساتھ سبت کو پاک ماننے کے حکم کو بھی ختم کر دیا گیا۔‏ لیکن شاید کچھ مسیحی جو پہلے یہودی مذہب سے تعلق رکھتے تھے سبت کے روز کام کرنے یا لمبا سفر کرنے سے ہچکچاتے تھے۔‏ ہو سکتا ہے کہ مسیحی مذہب اپنانے کے بعد بھی وہ ہفتہ کے ساتویں دن کام نہیں کرتے تھے بلکہ اسے روحانی باتوں کیلئے وقف کرتے تھے۔‏ کیا اُنکے لئے ایسا کرنا غلط تھا؟‏ نہیں،‏ لیکن انہیں یاد رکھنا تھا کہ خدا نے سبت کی پابندی کو ختم کر دیا تھا لہٰذا ساتواں دن خدا کی نظر میں پاک نہیں رہا۔‏ پولس نے اپنے مسیحی بہن‌بھائیوں کے ضمیر کا لحاظ کرتے ہوئے یوں لکھا:‏ ”‏ہر ایک اپنے ہی اعتماد سے عمل کرے۔‏“‏—‏رومیوں ۱۴:‏۵ ب،‏ کیتھولک ورشن۔‏

۸.‏ پولس نے روم کی کلیسیا میں کن مسیحیوں کی سختی سے ملامت کی؟‏

۸ پولس مسیحیوں کو اُن بہن‌بھائیوں کیساتھ صبر سے پیش آنے کی حوصلہ‌افزائی کر رہا تھا جنکا ضمیر ابھی کمزور تھا۔‏ لیکن اگر ایک مسیحی دوسروں کو موسوی شریعت پر پورا اُترنے پر مجبور کرتا اور اُن سے کہتا کہ ایسا کرنے سے ہی وہ نجات پا سکتے ہیں تو پولس اُسکی سختی سے ملامت کرتا تھا۔‏ پولس نے ۶۱ س.‏ع.‏ میں عبرانیوں کی کتاب ایسے مسیحیوں کے نام لکھی تھی جو پہلے یہودی مذہب سے تعلق رکھتے تھے۔‏ اس کتاب میں پولس واضح کرتا ہے کہ موسیٰ کی شریعت پر پورا اُترنے سے اُنکو کوئی فائدہ نہیں ہے کیونکہ مسیحیوں کو یسوع کی قربانی کی بِنا پر ہی نجات حاصل ہو سکتی ہے۔‏—‏گلتیوں ۵:‏۱-‏۱۲؛‏ ططس ۱:‏۱۰،‏ ۱۱؛‏ عبرانیوں ۱۰:‏۱-‏۱۷‏۔‏

۹،‏ ۱۰.‏ جب مسیحی ایک دوسرے سے فرق نظریہ رکھتے ہیں تو اُنہیں کیسا ردِعمل دکھانا چاہئے؟‏ وضاحت کریں۔‏

۹ پولس واضح کرنا چاہتا تھا کہ اگر مسیحی کئی معاملوں میں فرق نظریہ رکھتے ہیں تو اس میں کوئی ہرج نہیں ہے۔‏ اُنہیں صرف خدا کے کلام کے کسی اصول کی خلاف‌ورزی کرنے سے خبردار رہنا چاہئے۔‏ اسلئے پولس کمزور ضمیر رکھنے والے مسیحیوں سے یوں سوال کرتا ہے:‏ ”‏تُو اپنے بھائی پر کس لئے الزام لگاتا ہے؟‏“‏ اور روحانی طور پر مضبوط مسیحیوں سے جنہوں نے شریعت پر عمل کرنا چھوڑ دیا تھا اُن سے وہ پوچھتا ہے:‏ ”‏تُو بھی کس لئے اپنے بھائی کو حقیر جانتا ہے؟‏“‏ (‏رومیوں ۱۴:‏۱۰‏)‏ پولس کمزور ضمیر رکھنے والے مسیحیوں سے کہہ رہا تھا کہ وہ اُنکی مزاحمت نہ کریں جنہوں نے موسیٰ کی شریعت پر عمل کرنا چھوڑ دیا ہے۔‏ اور وہ روحانی طور پر مضبوط مسیحیوں کو کہہ رہا تھا کہ وہ اُن بھائیوں کو حقیر نہ جانیں جنکا ضمیر ایک حد تک کمزور ہے۔‏ تمام مسیحیوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ اُنکے بہن‌بھائی اچھی نیت رکھ کر خدا کی خدمت کرتے ہیں۔‏ پولس نصیحت دیتا ہے کہ ہر شخص کو خود کو ’‏جیسا سمجھنا چاہئے اُس سے زیادہ نہیں سمجھنا‘‏ چاہئے۔‏ لہٰذا ہمیں کسی شخص کو حقیر جاننے کا حق نہیں۔‏—‏رومیوں ۱۲:‏۳،‏ ۱۸‏۔‏

۱۰ پولس وضاحت کرتا ہے کہ ”‏کھانے والا اُسکو جو نہیں کھاتا حقیر نہ جانے اور جو نہیں کھاتا وہ کھانے والے پر الزام نہ لگائے کیونکہ خدا نے اُسکو قبول کر لیا ہے۔‏“‏ پولس یہ بھی کہتا ہے کہ ”‏مسیح نے تُم کو خدا کے جلال کیلئے قبول کر لیا ہے۔‏“‏ خدا اور یسوع نے تمام مسیحیوں کو قبول کر لیا ہے چاہے اُنکا ضمیر کمزور یا مضبوط ہو۔‏ لہٰذا ہمیں بھی چاہئے کہ ہم ’‏ایک دوسرے کو قبول کر لیں۔‏‘‏—‏رومیوں ۱۴:‏۳؛‏ ۱۵:‏۷‏،‏ کیتھولک ورشن‏۔‏

اتحاد کی بنیاد محبت ہے

۱۱.‏ پولس نے روم کے مسیحیوں کو کس خاص صورتحال کی وجہ سے خط لکھا تھا؟‏

۱۱ پولس نے روم میں رہنے والے مسیحیوں کو ایک خاص صورتحال کی وجہ سے خط لکھا تھا۔‏ تھوڑا ہی عرصہ پہلے خدا نے موسوی شریعت کے پُرانے عہد کو ختم کر دیا تھا۔‏ اب مسیحی نئے عہد کے تحت تھے۔‏ کئی مسیحیوں کو اس تبدیلی سے نپٹنا مشکل لگ رہا تھا۔‏ آجکل ہم اس صورتحال کا سامنا تو نہیں کر رہے ہیں۔‏ لیکن ہم بھی اُس نصیحت سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں جو پولس نے روم کے مسیحیوں کو دی تھی۔‏

۱۲،‏ ۱۳.‏ آجکل مسیحیوں کو کن معاملات میں اپنے بہن‌بھائیوں کے ضمیر کا خیال رکھنا چاہئے؟‏

۱۲ فرض کریں کہ ایک عورت ایک ایسے مذہب سے تعلق رکھتی تھی جس میں بناؤسنگھار کرنے کی اجازت نہ تھی۔‏ اب یہ عورت یہوواہ کی ایک گواہ بن جاتی ہے اور اُسے بننےسورنے اور ہلکا سا میک‌اپ لگانے کی اجازت ہے۔‏ لیکن اُسے یہ بات بہت عجیب لگتی ہے اور وہ سادگی کو ترجیح دیتی ہے۔‏ ایسا کرنے سے وہ بائبل کے کسی اصول کی خلاف‌ورزی نہیں کرتی۔‏ لہٰذا اس بہن کو بننےسورنے اور میک‌اپ لگانے پر مجبور نہیں کِیا جانا چاہئے۔‏ لیکن اسکے ساتھ ساتھ اس بہن کو بھی دوسری مسیحی عورتوں کی نکتہ‌چینی نہیں کرنی چاہئے جنکا ضمیر اُنہیں حیادار انداز میں بننےسورنے کی اجازت دیتا ہے۔‏

۱۳ ایک اَور مثال پر غور کریں۔‏ شاید ایک شخص نے ایک ایسے ماحول میں پرورش پائی ہو جس میں شراب پینا بُرا سمجھا جاتا تھا۔‏ لیکن بائبل کی سچائیوں پر غور کرنے سے اُس نے جان لیا کہ مے ایک نعمت ہے جو خدا اپنے بندوں کو خوش کرنے کیلئے دیتا ہے۔‏ (‏زبور ۱۰۴:‏۱۵‏)‏ وہ شخص اس بات کو قبول کر لیتا ہے لیکن ذاتی طور پر شراب سے کنارہ کرنے کا فیصلہ کرتا ہے۔‏ اسکے باوجود وہ ایسے لوگوں کی نکتہ‌چینی نہیں کرتا جو مناسب مقدار میں شراب پیتے ہیں۔‏ ایسا کرنے سے یہ شخص پولس رسول کے اس بیان پر پورا اُترتا ہے:‏ ”‏پس ہم ان باتوں کے طالب رہیں جن سے میل‌ملاپ اور باہمی ترقی ہو۔‏“‏—‏رومیوں ۱۴:‏۱۹‏۔‏

۱۴.‏ مسیحی آج کن معاملات میں پولس کی ہدایت پر عمل کر سکتے ہیں؟‏

۱۴ پولس رسول نے روم کی کلیسیا کو جو ہدایت دی تھی اس پر مسیحی آج بھی عمل کر سکتے ہیں۔‏ مسیحی کلیسیا میں بہت سے مختلف لوگ ہوتے ہیں اور اُنکی پسند بھی ایک دوسرے سے فرق ہوتی ہے۔‏ لہٰذا اُنکے لباس کا فیشن اور اُنکا بناؤسنگھار بھی ایک جیسا نہیں ہوتا۔‏ البتہ بناؤسنگھار کے سلسلے میں بھی بائبل میں کچھ اصول پائے جاتے ہیں۔‏ مثال کے طور پر ہمیں ایسے کپڑے نہیں پہننے چاہئیں جن سے لوگ ہم پر متوجہ ہوں یا جن میں بےحیائی اور دُنیاوی سوچ کی جھلک نمایاں ہو۔‏ (‏۱-‏یوحنا ۲:‏۱۵-‏۱۷‏)‏ مسیحی ہمیشہ،‏ یہاں تک کہ تفریح کے وقت بھی،‏ یاد رکھتے ہیں کہ وہ کائنات کے حاکمِ‌اعلیٰ کے خادم ہیں۔‏ (‏یسعیاہ ۴۳:‏۱۰؛‏ یوحنا ۱۷:‏۱۶؛‏ ۱-‏تیمتھیس ۲:‏۹،‏ ۱۰‏)‏ لیکن بہت سے معاملات میں مسیحی اپنی پسند کے مطابق فیصلہ کر سکتے ہیں۔‏ *

دوسروں کیلئے ٹھوکر کا باعث نہ بنیں

۱۵.‏ ایک مسیحی اپنی من‌مانی کرنے سے کب گریز کریگا؟‏

۱۵ جو ہدایت پولس نے روم کی کلیسیا کو دی تھی ہم اس سے ایک اَور نہایت اہم اصول حاصل کر سکتے ہیں۔‏ اگر ہم ایک معاملے میں ذاتی فیصلہ کرنے کا حق رکھتے بھی ہیں تو ہمیں ان لوگوں کا خیال رکھنا چاہئے جو ہماری وجہ سے ٹھوکر کھانے کے خطرے میں ہیں۔‏ پولس یہ مشورہ دیتا ہے:‏ ”‏یہی اچھا ہے کہ تُو نہ گوشت کھائے۔‏ نہ مے پئے۔‏ نہ اَور کچھ ایسا کرے جسکے سبب سے تیرا بھائی ٹھوکر کھائے۔‏“‏ (‏رومیوں ۱۴:‏۱۴،‏ ۲۰،‏ ۲۱‏)‏ لہٰذا ”‏ہم زورآوروں کو چاہئے کہ ناتواں کی کمزوریوں کی رعایت کریں نہ کہ اپنی خوشی کریں۔‏ ہم میں ہر شخص اپنے پڑوسی کو اُسکی بہتری کے واسطے خوش کرے تاکہ اُسکی ترقی ہو۔‏“‏ (‏رومیوں ۱۵:‏۱،‏ ۲‏)‏ اگر ہماری کسی بات یا حرکت سے ہمارا بھائی ٹھوکر کھا سکتا ہے تو ہمیں اپنی من‌مانی کرنے کی بجائے اُس بھائی کی خاطر اس بات سے گریز کرنا چاہئے۔‏ یہ حقیقی برادرانہ محبت کا ثبوت ہے۔‏ اسکی ایک مثال شراب کا استعمال ہے۔‏ ایک مسیحی کو مناسب مقدار میں مے پینے کی اجازت ہے۔‏ لیکن اگر اُسکا مسیحی بھائی اس وجہ سے ٹھوکر کھا سکتا ہے تو وہ اُسکا لحاظ کرتے ہوئے مے نہیں پیئے گا۔‏

۱۶.‏ ہم اپنے پڑوسیوں کا لحاظ کیسے کر سکتے ہیں؟‏

۱۶ اس اصول کا اطلاق صرف مسیحی کلیسیا میں ہمارے تعلقات پر نہیں ہوتا بلکہ ہمیں اپنے پڑوسیوں کا بھی لحاظ کرنا چاہئے۔‏ مثال کے طور پر ہو سکتا ہے کہ ہم ایک ایسے علاقے میں رہتے ہوں جہاں لوگ اپنے مذہب کے عقائد کی وجہ سے ہفتے کے ایک دن کو خاص خیال کرتے ہیں۔‏ وہ اس دن پر کسی قسم کا کام نہیں کرتے اور نہ ہی اُن سے گوارا ہوتا ہے کہ کوئی اَور اس دن پر کام کرے۔‏ لہٰذا ہمیں بھی اس دن کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہئے جس پر ہمارے پڑوسیوں کو اعتراض ہو۔‏ ایسا کرنے سے ہم اُنکے دل جیت سکتے ہیں۔‏ ایک اَور مثال لیجئے۔‏ ایک دولتمند مسیحی منادی کے کام کی خاطر ایک ایسے علاقے میں جا کر رہنے لگتا ہے جہاں لوگ مشکل سے اپنے گھر کا خرچہ پورا کرتے ہیں۔‏ یہ مسیحی اپنے پڑوسیوں کی خاطر خود بھی سادہ لباس پہننے اور سادہ زندگی گزارنے کا فیصلہ کر لیتا ہے۔‏

۱۷.‏ اپنی من‌مانی کی بجائے ہمیں دوسروں کا لحاظ کیوں کرنا چاہئے؟‏

۱۷ کیا روحانی طور پر ”‏زورآوروں“‏ سے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ کمزور ضمیر رکھنے والوں کا لحاظ کریں؟‏ جی بالکل!‏ اس سلسلے میں ایک مثال پر غور کریں۔‏ جیسا کہ آپ کو معلوم ہوگا ہائی‌وے پر تیز رفتار میں گاڑی چلانے کی اجازت ہوتی ہے۔‏ فرض کریں کہ آپ ہائی‌وے پر گاڑی چلا رہے ہیں اور اچانک سڑک کے کنارے آپ کو کچھ بچے دکھائی دیتے ہیں جو کھیل میں مگن ہیں۔‏ آپ کو اندیشہ ہے کہ کہیں بچے کھیلتے کھیلتے آپ کی گاڑی کے نیچے نہ آ جائیں۔‏ کیا اس صورتحال میں آپ گاڑی کی رفتار کم نہیں کریں گے؟‏ اسی طرح ہمیں اپنے مسیحی بہن‌بھائیوں اور دوسرے لوگوں کا بھی لحاظ رکھنا چاہئے۔‏ ہو سکتا ہے کہ ہم جو کچھ کر رہے ہیں وہ غلط نہیں اور ایسا کرنا ہمارا حق بھی ہے۔‏ لیکن اگر کمزور ضمیر رکھنے والے لوگ اسے بُرا مان لیتے ہیں یا پھر یہ اُن کے لئے ٹھوکر کا باعث بن سکتا ہے تو ہم ان کا لحاظ کریں گے۔‏ ایسا کرنے سے ہم برادرانہ محبت کے قاعدہ پر چلیں گے۔‏ (‏رومیوں ۱۴:‏۱۳،‏ ۱۵‏)‏ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ کلیسیا کے اتحاد کو برقرار رکھنا اور خدا کی بادشاہت کو فروغ دینا اپنی من‌مانی سے زیادہ اہم ہوتا ہے۔‏

۱۸،‏ ۱۹.‏ (‏ا)‏ جب ہم دوسروں کے ضمیر کا لحاظ رکھتے ہیں تو ہم یسوع کے نمونے پر کیسے چل رہے ہوتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ ہم کس سلسلے میں بالکل متحد ہیں اور ہم کن سوالات کے جواب اگلے مضمون میں حاصل کرینگے؟‏

۱۸ جب ہم دوسروں کے ضمیر کی خاطر اُنکا لحاظ کرتے ہیں تو دراصل ہم یسوع کے نمونے پر چل رہے ہوتے ہیں۔‏ پولس نے کہا کہ ”‏مسیح نے بھی اپنی خوشی نہیں کی بلکہ یوں لکھا ہے کہ تیرے لعن‌طعن کرنے والوں کے لعن‌طعن مجھ پر آ پڑے۔‏“‏ جب یسوع مسیح نے ہماری خاطر اپنی جان تک قربان کر دی تو کیا ہم اپنے ”‏ناتواں“‏ بہن‌بھائیوں کے لئے اپنے حقوق قربان نہیں کر سکتے ہیں؟‏ اسطرح وہ خوشی سے ہمارے ساتھ مل کر خدا کی تمجید کرینگے۔‏ اگر ہم کمزور ضمیر رکھنے والے مسیحیوں کا لحاظ کرینگے اور ان کی رضامندی حاصل کرنے کی کوشش کرینگے تو ہم ”‏مسیح یسوؔع کے مطابق“‏ چلنے کا ثبوت دے رہے ہوں گے۔‏—‏رومیوں ۱۵:‏۱-‏۵‏۔‏

۱۹ جہاں تک ایسے معاملوں کا تعلق ہے جن میں کسی صحیفائی اصول کی خلاف‌ورزی نہیں ہو رہی ہوتی ہم مختلف نظریے رکھ سکتے ہیں۔‏ لیکن عبادت کے سلسلے میں ہم بالکل متحد ہیں۔‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۱:‏۱۰‏)‏ اس اتحاد کا ثبوت اس بات سے ملتا ہے کہ ہم اُن لوگوں کیساتھ کیسے پیش آتے ہیں جو سچی عبادت کی مخالفت کرتے ہیں۔‏ خدا کے کلام میں ایسے مخالفین کو غیرشخص یعنی اجنبی کہا گیا ہے اور ہمیں ”‏غیروں کی آواز“‏ سے خبردار رہنے کی آگاہی دی گئی ہے۔‏ (‏یوحنا ۱۰:‏۵‏)‏ لیکن ہم ان ”‏غیروں“‏ کو کیسے پہچان سکتے ہیں؟‏ اور ہمیں انکے ساتھ کیسے پیش آنا چاہئے؟‏ ان سوالات کے جواب آپ اگلے مضمون میں حاصل کر سکتے ہیں۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 14 بناؤسنگھار کے سلسلے میں کم‌سن بچے اپنے والدین کی بات پر عمل کرینگے۔‏

آپکا کیا جواب ہوگا؟‏

‏• مسیحی ذاتی معاملوں میں فرق نظریہ رکھنے کے باوجود متحد کیوں ہو سکتے ہیں؟‏

‏• مسیحیوں کو ایک دوسرے کا لحاظ کیوں رکھنا چاہئے؟‏

‏• پولس رسول نے اتحاد کے سلسلے میں جو ہدایت دی تھی ہم اسکا اطلاق کیسے کر سکتے ہیں اور ہمیں ایسا کیوں کرنا چاہئے؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۹ پر تصویر]‏

پولس رسول نے رومی کلیسیا کو اتحاد کے سلسلے میں نہایت اہم ہدایت دی

‏[‏صفحہ ۱۰ پر تصویر]‏

مسیحی مختلف قسم کی تہذیب اور ممالک سے تعلق رکھنے کے باوجود بھی متحد ہیں

‏[‏صفحہ ۱۲ پر تصویر]‏

ایسی صورتحال میں گاڑی چلانے والے کو کیا کرنا چاہئے؟‏