مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

استثنا کی کتاب سے اہم نُکات

استثنا کی کتاب سے اہم نُکات

یہوواہ کا کلام زندہ ہے

استثنا کی کتاب سے اہم نُکات

یہ ۱۴۷۳ ق.‏س.‏ع.‏ کی بات ہے۔‏ چالیس سال پہلے یہوواہ نے بنی‌اسرائیل کو مصر کی غلامی سے رِہا کِیا تھا۔‏ اِس عرصے کے دوران بنی‌اسرائیل بیابان میں پھرتے رہے کیونکہ ابھی تک اُنکی اپنی سرزمین نہیں ہے۔‏ آخرکار اسرائیلی ملکِ‌موعود کی سرحد پر پہنچ جاتے ہیں۔‏ اِس ملک پر قبضہ کرتے وقت اُنکو کون سی مشکلات کا سامنا کرنا ہوگا اور وہ اِن سے کیسے نپٹ سکیں گے؟‏

دریائےیردن کو پار کرنے اور ملکِ‌کنعان میں داخل ہونے سے پہلے موسیٰ اسرائیلیوں کو اپنی ذمہ‌داری نبھانے کیلئے تیار کرتا ہے۔‏ وہ کیسے؟‏ تقریروں کے ذریعے وہ اسرائیلیوں کی حوصلہ‌افزائی کرنے کیساتھ ساتھ اُنہیں تاکید کرتا،‏ نصیحت کرتا اور آگاہ بھی کرتا ہے۔‏ موسیٰ اُنہیں یاد دلاتا ہے کہ اُنہیں پورے دل‌وجان سے یہوواہ کی عبادت کرنی چاہئے اور دوسری قوموں کے غلط طریقوں کو نہیں اپنانا چاہئے۔‏ موسیٰ کی یہ تقریریں بائبل کی کتاب استثنا کا ایک بڑا حصہ ہیں۔‏ اِن تقریروں میں پائی جانے والی اصلاح ہمارے لئے بھی فائدہ‌مند ہے کیونکہ ہم ایسی دُنیا میں رہتے ہیں جہاں دل‌وجان سے خدا کی خدمت کرنا آسان نہیں۔‏—‏عبرانیوں ۴:‏۱۲‏۔‏

استثنا کی کتاب تقریباً دو مہینوں کے واقعات کا احاطہ کرتی ہے۔‏ (‏استثنا ۱:‏۳؛‏ یشوع ۴:‏۱۹‏)‏ آخری باب کے سوا،‏ موسیٰ نے اِس پوری کتاب کو لکھا تھا۔‏  * آئیے ہم دیکھتے ہیں کہ اِس کتاب میں پائی جانے والی اصلاح پر عمل کرنے سے ہم پورے دل‌وجان سے یہوواہ خدا کی خدمت کیسے کر سکتے ہیں۔‏

‏’‏وہ باتیں جو تُو نے اپنی آنکھ سے دیکھی ہیں بھول نہ جانا‘‏

‏(‏استثنا ۱:‏۱–‏۴:‏۴۹‏)‏

اسرائیلی اب ملکِ‌موعود پر قبضہ کرنے کے لئے تیاری باندھ رہے ہیں۔‏ اُن کی حوصلہ‌افزائی کرنے کے لئے موسیٰ اپنی پہلی تقریر میں بیابان میں ہونے والے کچھ واقعات کی یاد تازہ کرتا ہے۔‏ موسیٰ بتاتا ہے کہ یہوواہ نے اسرائیلیوں کے مقدمات کو نپٹانے کے لئے لائق اشخاص مقرر کئے۔‏ یہ ان کی راہنمائی کرنے کا ایک پُرمحبت انتظام تھا۔‏ پھر موسیٰ انہیں یاد دلاتا ہے کہ دس جاسوسوں کی بُری رپورٹ کی وجہ سے پچھلی نسل ملکِ‌موعود میں داخل ہونے سے پہلے ہی مر گئی تھی۔‏ ذرا سوچیں کہ ان مثالوں کا اسرائیلیوں پر کیسا اثر پڑا ہوگا جو ملکِ‌موعود کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔‏

یہوواہ نے اسرائیلیوں کو اب تک اپنے دُشمنوں پر فتح سے نوازا تھا۔‏ اسلئے اسرائیلیوں میں ملکِ‌موعود پر قبضہ کرنے کی ہمت ہے۔‏ کنعان کے تمام لوگ بُت‌پرست ہیں اس وجہ سے موسیٰ اسرائیلیوں کو بُت‌پرستی سے آگاہ کرتا ہے۔‏

صحیفائی سوالات کے جواب:‏

۲:‏۴-‏۶،‏ ۹،‏ ۱۹،‏ ۲۴،‏ ۳۱-‏۳۵؛‏ ۳:‏۱-‏۶‏—‏اسرائیلیوں نے یردن کے مشرق میں رہنے والے کچھ لوگوں کو تباہ تو کِیا لیکن دوسروں کو کیوں زندہ چھوڑ دیا؟‏ یہوواہ نے حکم دیا تھا کہ اُنہیں بنی‌عیسو کیساتھ جنگ نہیں کرنی تھی۔‏ کیوں؟‏ کیونکہ وہ یعقوب کے بھائی کی نسل تھی۔‏ اسرائیلیوں کو نہ موآبیوں اور نہ عمونیوں سے لڑنا تھا کیونکہ وہ ابرہام کے بھتیجے لوط کی نسل تھے۔‏ لیکن اموری بادشاہ سیحون اور عوج کا بنی‌اسرائیل سے کوئی خونی رشتہ نہیں تھا اسلئے وہ ملکِ‌موعود پر کوئی حق نہیں رکھتے تھے۔‏ اِسکے علاوہ سیحون نے اسرائیلیوں کو اپنے ملک سے گزرنے کی اجازت نہیں دی تھی اور عوج لڑائی پر اُتر آیا تھا۔‏ اِسلئے یہوواہ نے اسرائیلیوں کو حکم دیا کہ وہ اِن بادشاہوں کے شہروں کو اور اِن میں رہنے والے تمام لوگوں کو تباہ کر دیں۔‏

۴:‏۱۵-‏۲۰،‏ ۲۳،‏ ۲۴‏—‏مورتوں کو تراشنا منع کِیا گیا ہے۔‏ کیا فن کے طور پر مجسّمے بنانا بھی اس حکم میں شامل ہے؟‏ جی‌نہیں۔‏ یہاں ایسی مورتوں کا بنانا منع کِیا گیا ہے جو ”‏سجدہ اور عبادت کرنے“‏ کیلئے استعمال کی جاتی ہیں۔‏ خدا کے کلام میں مجسّمہ‌سازی کرنے اور تصویریں بنانے کیلئے منع نہیں کِیا گیا ہے۔‏—‏۱-‏سلاطین ۷:‏۱۸،‏ ۲۵‏۔‏

ہمارے لئے سبق:‏

۱:‏۲،‏ ۱۹‏۔‏ بنی اسرائیل نے ۳۸ سال بیابان میں گزارے تھے حالانکہ ’‏کوہِ‌شعیرؔ کی راہ سے حورب سے قادس‌برنیع تک محض گیارہ دن‘‏ کا سفر تھا۔‏ اسرائیلیوں نے یہوواہ خدا سے نافرمانی کرنے کی کتنی بڑی قیمت چکائی۔‏—‏گنتی ۱۴:‏۲۶-‏۳۴‏۔‏

۱:‏۱۶،‏ ۱۷‏۔‏ یہوواہ کے معیار نہیں بدلتے۔‏ جو بھائی آج کسی کلیسیا کی عدالتی کمیٹی کا حصہ ہیں،‏ وہ طرفداری یا کسی کے ڈر کی بِنا پر فیصلہ نہیں کرتے۔‏

۴:‏۹‏۔‏ اسرائیلی تب ہی کامیاب ہو سکتے تھے جب وہ اُن ’‏باتوں کو جو اُنہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھی تھیں‘‏ یاد رکھتے۔‏ آج نئی دُنیا بہت قریب ہے۔‏ اِسلئے ہمارے لئے بھی یہوواہ خدا کے کلام سے اُسکے شاندار کاموں کے بارے میں سیکھنا اور انہیں یاد رکھنا بہت اہم ہے۔‏

یہوواہ سے پیار کریں اور اُسکے احکام پر عمل کریں

‏(‏استثنا ۵:‏۱–‏۲۶:‏۱۹‏)‏

اپنی دوسری تقریر میں موسیٰ اسرائیلیوں کو کوہِ‌سینا پر دی گئی شریعت کی یاد دلاتا ہے۔‏ وہ اُس میں سے دس احکام کو دہراتا ہے۔‏ شریعت میں سات قوموں کے نام بھی دئے گئے تھے جو تباہی کیلئے مقرر کی گئی تھیں۔‏ بنی‌اسرائیل کو ایک اَور اہم سبق کی یاد دلائی جاتی ہے جو اُنہوں نے بیابان میں سیکھا تھا:‏ ”‏انسان صرف روٹی ہی سے جیتا نہیں رہتا بلکہ ہر بات سے جو [‏یہوواہ]‏ کے مُنہ سے نکلتی ہے وہ جیتا رہتا ہے۔‏“‏ اب اُنہیں ”‏ان سب حکموں کو ماننا“‏ تھا۔‏—‏استثنا ۸:‏۳؛‏ ۱۱:‏۸‏۔‏

جب اسرائیلیوں نے ملکِ‌موعود میں آباد ہونا تھا تو اُنہیں اس شریعت کی ضرورت تھی۔‏ شریعت میں پائے جانے والے قوانین عبادت کے علاوہ عدالت،‏ حکومت،‏ جنگ اور معاشرتی اور گھریلو معاملوں میں بھی اسرائیل کی راہنمائی کرینگے۔‏ موسیٰ ان تمام قوانین کو دہراتا ہے اور یہوواہ سے پیار کرنے اور اُسکے فرمانبردار ہونے پر زور دیتا ہے۔‏

صحیفائی سوالات کے جواب:‏

۸:‏۳،‏ ۴‏—‏یہ کیسے ممکن تھا کہ بیابان میں اسرائیلیوں کے کپڑے پُرانے نہیں ہوئے اور نہ ہی اُنکے پاؤں سوجے؟‏ جسطرح یہوواہ نے اسرائیلیوں کو معجزانہ طور پر کھانے کیلئے من دیا تھا اُسی طرح یہوواہ نے اُنکے کپڑے پُرانے نہیں ہونے دئے اور نہ ہی اُنکے پاؤں سوجنے دئے۔‏ اسرائیلیوں نے وہی کپڑے اور جوتے استعمال کئے جو مصر سے بیابان میں آتے وقت اُنکے پاس تھے۔‏ غالباً جب ایک بالغ مر جاتا تو اُسکے کپڑے کسی جوان کو دے دئے جاتے تھے۔‏ اسرائیل کا شمار بیابان میں آتے وقت اور وہاں سے جاتے وقت بھی کِیا گیا تھا اور اُس دوران اسرائیلیوں کی تعداد میں اِضافہ نہیں ہوا تھا۔‏ اِسکا مطلب ہے کہ جتنے کپڑے اور جوتے اُنکے پاس تھے وہ اُن سب کیلئے کافی تھے۔‏—‏گنتی ۲:‏۳۲؛‏ ۲۶:‏۵۱‏۔‏

۱۴:‏۲۱‏—‏اسرائیلی ایسے جانوروں کا گوشت نہیں کھا سکتے تھے جن کا خون بہایا نہ گیا ہو۔‏ پھر انہیں یہ گوشت پردیسیوں کو دینے یا بیچنے کی اجازت کیوں دی گئی تھی؟‏ بائبل میں ”‏پردیسی“‏ اُن کو کہا جاتا ہے جو اسرائیلی نہیں تھے۔‏ ان میں نومرید بھی شامل تھے۔‏ یہ لوگ شریعت کے ماتحت تھے اس لئے وہ ایسے جانوروں کا گوشت نہیں کھا سکتے تھے جن کا خون بہایا نہ گیا ہو۔‏ (‏احبار ۱۷:‏۱۰‏)‏ تاہم ان پردیسیوں میں ایسے لوگ بھی شامل تھے جو اسرائیلیوں کے بیچ تو رہتے تھے لیکن یہوواہ کی عبادت نہیں کرتے تھے۔‏ انہیں اسرائیل کے بنیادی قاعدے اور قوانین کے مطابق زندگی بسر کرنی تھی لیکن وہ شریعت کے ماتحت نہیں تھے۔‏ اس لئے وہ ایسے جانوروں کا گوشت استعمال کر سکتے تھے۔‏ اسرائیلیوں کو اِن لوگوں کو ایسا گوشت دینے یا بیچنے کی اجازت تھی۔‏

۲۴:‏۶‏—‏‏”‏چکی کو یا اُس کے اُوپر کے پاٹ کو گرو“‏ رکھنا ”‏آدمی کی جان کو گرو“‏ رکھنے کے برابر کیوں تھا؟‏ چکی یا اُس کے اُوپر کا پاٹ خوراک تیار کرنے کے لئے نہایت ضروری تھا۔‏ اس لئے یہ چیزیں آدمی کی ”‏جان“‏ کے برابر تھیں۔‏ اگر کوئی اِن دونوں میں سے کسی ایک کو گرو رکھتا تو وہ ایک خاندان کو اپنی زندگی برقرار رکھنے والی چیز سے محروم کر دیتا۔‏

۲۵:‏۹‏—‏جب ایک آدمی اپنے بھائی کی بیوہ سے شادی کرنے سے انکار کر دیتا تو اُسکے پاؤں سے جوتی اُتار کر اُسکے مُنہ پر تھوکا جاتا۔‏ اِسکی کیا اہمیت تھی؟‏ اسرائیل میں ”‏چھڑانے .‏ .‏ .‏ کے بارے میں یہ معمول تھا کہ مرد اپنی جوتی اُتار کر اپنے پڑوسی کو دے دیتا تھا۔‏“‏ (‏روت ۴:‏۷‏)‏ جب ایک آدمی اپنے بھائی کی بیوہ سے شادی کرنے سے انکار کر دیتا تو اُسکی جوتی اُتاری جاتی۔‏ اس سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ اپنے مُردہ بھائی کیلئے وارث پیدا کرنے سے انکار کر رہا ہے۔‏ یہ بہت ہی شرمناک بات تھی۔‏ (‏استثنا ۲۵:‏۱۰‏)‏ اُسکی بےعزتی کرنے کیلئے اُسکے مُنہ پر تھوکا جاتا۔‏—‏گنتی ۱۲:‏۱۴‏۔‏

ہمارے لئے سبق:‏

۶:‏۶-‏۹‏۔‏ اسرائیلیوں کی طرح ہمیں بھی یہوواہ کے قوانین کو اچھی طرح سے جاننا چاہئے۔‏ اسکے علاوہ اپنے بچوں کو بھی خدا کے قوانین کے بارے میں سکھانا بہت اہم ہے۔‏ ہمیں چاہئے کہ ہم خدا کے قوانین کو ’‏اپنے ہاتھ پر باندھیں۔‏‘‏ اِسکا مطلب ہے کہ ہمیں ہر کام میں یہوواہ کا فرمانبردار ہونا چاہئے۔‏ ہماری فرمانبرداری ہماری ”‏پیشانی پر ٹیکوں کی مانند“‏ ہونی چاہئے یعنی سب کو صاف ظاہر ہونا چاہئے کہ ہم یہوواہ کے فرمانبردار ہیں۔‏

۶:‏۱۶‏۔‏ ایسا کبھی نہ ہو کہ ہم یہوواہ خدا کو آزمائیں جیسے اسرائیلیوں نے مسہ میں کِیا تھا،‏ جہاں پانی نہ ہونے کی وجہ سے وہ بڑبڑائے تھے۔‏—‏خروج ۱۷:‏۱-‏۷‏۔‏

۸:‏۱۱-‏۱۸‏۔‏ دولت کے لالچ میں ہم یہوواہ کو بھول سکتے ہیں۔‏

۹:‏۴-‏۶‏۔‏ اپنے نیک کاموں کا ڈھنڈورا پیٹنے سے بچیں۔‏

۱۳:‏۶‏۔‏ ہمیں کسی کے بہکانے پر یہوواہ کی عبادت سے مُنہ نہیں موڑنا چاہئے۔‏

۱۴:‏۱‏۔‏ اپنے آپ کو زخمی کرنا منع ہے کیونکہ ہمارا جسم یہوواہ کی طرف سے ایک تحفہ ہے اور ہمیں اِسکی اچھی طرح سے دیکھ‌بھال کرنی چاہئے۔‏ اسکے علاوہ یہ رواج جھوٹے مذہب سے بھی تعلق رکھتا ہے۔‏ (‏۱-‏سلاطین ۱۸:‏۲۵-‏۲۸‏)‏ ہم جانتے ہیں کہ وہ لوگ جو مر چکے ہیں پھر سے جی اُٹھینگے۔‏ اسلئے ماتم کا ایسا اظہار کرنا مناسب نہیں ہے۔‏

۲۰:‏۵-‏۷؛‏ ۲۴:‏۵‏۔‏ شاید ہمیں ایک بہت ہی اہم کام انجام دینے میں کسی شخص کی مدد درکار ہو۔‏ لیکن پھر بھی ہمیں اسکی ذاتی صورتحال کا لحاظ کرنا چاہئے۔‏

۲۲:‏۲۳-‏۲۷‏۔‏ اگر کوئی کسی عورت کی عصمت‌دری کرنے کی کوشش کرتا ہے تو عورت کو اپنے دفاع میں چیخنا چلّانا چاہئے۔‏

‏”‏زندگی کو اختیار کر“‏

‏(‏استثنا ۲۷:‏۱–‏۳۴:‏۱۲‏)‏

اپنی تیسری تقریر میں موسیٰ بتاتا ہے کہ یردن کو پار کرنے کے بعد اسرائیلیوں کو بڑے پتھروں پر شریعت کی سب باتیں لکھنا ہونگی۔‏ پھر انہیں ان لعنتوں کو سنانا ہوگا جو نافرمانوں پر آئینگی اور اُن برکتوں کا ذکر کرنا ہوگا جو فرمانبرداروں پر نازل ہونگی۔‏ چوتھی تقریر کے آغاز میں اُس عہد کو دہرایا جاتا ہے جو یہوواہ اور اسرائیلیوں کے درمیان باندھا گیا تھا۔‏ موسیٰ اسرائیلیوں کو نافرمانی سے بچنے کی تاکید کرتا ہے اور اُنہیں ”‏زندگی کو اختیار“‏ کرنے کی حوصلہ‌افزائی بھی کرتا ہے۔‏—‏استثنا ۳۰:‏۱۹‏۔‏

اِن چار تقاریر کے بعد موسیٰ اسرائیلیوں کو بتاتا ہے کہ وہ مرنے والا ہے لہٰذا اُنکا پیشوا بدل جائیگا۔‏ موسیٰ اُنہیں ایک بہت ہی خوبصورت گیت بھی سکھاتا ہے۔‏ گیت میں یہوواہ خدا کی حمد کے علاوہ بیوفائی کرنے کی سزا کا ذکر بھی کِیا جاتا ہے۔‏ موسیٰ ۱۲۰ سال کی عمر میں ہر قبیلے کو برکت دینے کے بعد مر جاتا ہے۔‏ اُسکا ماتم تیس دن تک جاری رہتا ہے۔‏

صحیفائی سوالات کے جواب:‏

۳۲:‏۱۳،‏ ۱۴‏۔‏ اسرائیلیوں کیلئے چربی کھانا منع تھا۔‏ پھر یہ کیوں کہا گیا ہے کہ وہ ”‏بّروں کی چربی“‏ کھاتے تھے؟‏ یہاں ”‏بّروں کی چربی“‏ کو علامتی طور پر استعمال کِیا گیا ہے،‏ جسکا مطلب ہے کہ وہ گلّے کے سب سے اچھے جانور کھاتے تھے۔‏ اُسی حوالے میں علامتی طور پر کہا جاتا ہے کہ اسرائیلی ”‏گندم کا گودا“‏ کھاتے اور ”‏خونِ‌انگور“‏ پیتے تھے۔‏ (‏کیتھولک ورشن‏)‏

۳۳:‏۱-‏۲۹‏—‏موسیٰ نے جس دُعایِ‌خیر کے ذریعے بنی‌اسرائیل کو برکت دی تھی اُس میں شمعون کو کیوں شامل نہیں کِیا گیا؟‏ کیونکہ شمعون اور اُسکا بھائی لاوی ’‏تُندخو اور سخت قہرآلود‘‏ اشخاص تھے۔‏ (‏پیدایش ۳۴:‏۱۳-‏۳۱؛‏ ۴۹:‏۵-‏۷‏)‏ شمعون اور لاوی کی میراث دوسرے قبیلوں سے فرق تھی۔‏ بنی‌لاوی کی میراث کا حصہ ۴۸ شہر تھے۔‏ بنی‌شمعون کی میراث بنی‌یہوداہ کے حصہ میں سے لی گئی تھی۔‏ (‏یشوع ۱۹:‏۹؛‏ ۲۱:‏۴۱،‏ ۴۲‏)‏ اِسلئے موسیٰ نے اس قبیلے کو خاص طور پر برکت نہیں دی لیکن وہ اُس برکت میں شامل تھا جو موسیٰ نے مجموعی طور پر بنی‌اسرائیل کو دی تھی۔‏

ہمارے لئے سبق:‏

۳۱:‏۱۲‏۔‏ بچوں اور نوجوانوں کو چاہئے کہ وہ بالغوں سمیت کلیسیا کے اجلاسوں کے پروگرام کو غور سے سنیں اور اسے سمجھنے کی کوشش کریں۔‏

۳۲:‏۴‏۔‏ یہوواہ خدا کے سب کام شاندار ہیں۔‏ اور وہ انصاف،‏ حکمت،‏ محبت اور قوت کی خوبیوں کو پورے توازن کیساتھ ظاہر کرتا ہے۔‏

استثنا کی کتاب ہمارے لئے بہت ہی قیمتی ہے

استثنا کی کتاب میں بیان کِیا جاتا ہے کہ ’‏یہوواہ خدا ایک ہی ہے۔‏‘‏ (‏استثنا ۶:‏۴‏)‏ یہ کتاب اُس اُمت کے بارے میں ہے جسکو یہوواہ کے قریب ہونے کا شرف حاصل تھا۔‏ استثنا کی کتاب ہمیں بُت‌پرستی سے خبردار کرتی اور صرف یہوواہ خدا کی عبادت کرنے کی ہدایت دیتی ہے۔‏

واقعی استثنا کی کتاب آج بھی ہمارے لئے بہت اہم ہے۔‏ اگرچہ موسیٰ کی شریعت تو ہم پر لاگو نہیں ہوتی پھر بھی ہم استثنا کی کتاب سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔‏ یہ کتاب ہمیں ”‏اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری طاقت سے [‏یہوواہ]‏ اپنے خدا سے محبت“‏ کرنے میں مدد دے سکتی ہے۔‏—‏استثنا ۶:‏۵‏۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 5 ہو سکتا ہے کہ یشوع یا سردار کاہن الیعزر نے آخری باب لکھا ہو جس میں موسیٰ کی موت کا ذکر ہے۔‏

‏[‏صفحہ ۲۴ پر نقشہ]‏

‏(‏تصویر کے لئے چھپے ہوئے صفحے کو دیکھیں)‏

شعیر

قادس‌برنیع

کوہِ‌سینا (‏حورب)‏

بحرِقلزم

‏[‏تصویر کا حوالہ]‏

Based on maps copyrighted

by Pictorial Archive

‏(‎Near Eastern History‎)‏

Est. and Survey of Israel

‏[‏صفحہ ۲۴ پر تصویر]‏

استثنا کی کتاب کا زیادہ‌تر حصہ موسیٰ کی تقریروں پر مشتمل ہے

‏[‏صفحہ ۲۶ پر تصویر]‏

یہوواہ نے اسرائیلیوں کو خوراک کے طور پر من دیا تھا۔‏ اِس سے ہم کیا سبق سیکھ سکتے ہیں؟‏

‏[‏صفحہ ۲۶ پر تصویر]‏

چکی کو یا اُسکے اُوپر کے پاٹ کو گرو رکھنا ”‏آدمی کی جان کو گرو“‏ رکھنے کے برابر تھا