مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

‏’‏خدا کے سب ہتھیار باندھ لیں‘‏

‏’‏خدا کے سب ہتھیار باندھ لیں‘‏

‏’‏خدا کے سب ہتھیار باندھ لیں‘‏

‏”‏خدا کے سب ہتھیار باندھ لو تاکہ تُم ابلیس کے منصوبوں کے مقابلہ میں قائم رہ سکو۔‏“‏—‏افسیوں ۶:‏۱۱‏۔‏

۱،‏ ۲.‏ اپنے الفاظ میں بیان کیجئے کہ مسیحیوں کو کن روحانی ہتھیاروں کی ضرورت ہے۔‏

پہلی صدی میں روم اپنی فوج کے بل‌بوتے پر تقریباً تمام جانی‌پہچانی دُنیا پر حکومت کر رہا تھا۔‏ ایک تاریخ‌دان نے رومی فوج کے بارے میں کہا کہ یہ ”‏انسانی تاریخ کی کامیاب‌ترین فوج تھی۔‏“‏ اس لشکر کی کامیابی کا راز ایک تو یہ تھا کہ سپاہیوں کو عمدہ فوجی تربیت دی جاتی تھی جسکی وجہ سے اُنکا ضبط مثالی بن گیا تھا۔‏ اسکے علاوہ رومی فوج کی کامیابی کا انحصار بہترین جنگی ہتھیاروں پر بھی تھا۔‏ پولس رسول نے ایک رومی سپاہی کے ہتھیاروں سے ظاہر کِیا کہ خدا کے خادموں کو شیطان کا مقابلہ کرنے کیلئے کن روحانی ہتھیاروں کی ضرورت ہے۔‏

۲ ہم ان روحانی ہتھیاروں کی فہرست افسیوں ۶:‏۱۴-‏۱۷ میں پاتے ہیں جہاں پولس نے لکھا:‏ ”‏سچائی سے اپنی کمر کس کر اور راستبازی کا بکتر لگا کر۔‏ اور پاؤں میں صلح کی خوشخبری کی تیاری کے جوتے پہن کر۔‏ اور ان سب کے ساتھ ایمان کی سپر لگا کر قائم رہو۔‏ جس سے تُم اس شریر کے سب جلتے ہوئے تیروں کو بجھا سکو۔‏ اور نجات کا خود اور روح کی تلوار جو خدا کا کلام ہے لے لو۔‏“‏ رومی سپاہی کے کچھ ہتھیار تو بچاؤ کے ہتھیار تھے۔‏ لیکن اُس کے پاس ایسے بھی ہتھیار تھے جن سے وہ اپنے دُشمنوں کا مقابلہ کر سکتا تھا۔‏ ان میں سے سب سے اہم ہتھیار اُس کی تلوار تھی۔‏

۳.‏ ہمیں یسوع کی ہدایات پر کیوں عمل کرنا چاہئے اور اسکے نمونے پر کیوں چلنا چاہئے؟‏

۳ لیکن رومی فوج کی کامیابی محض عمدہ تربیت اور اسلح پر مشتمل نہیں تھی۔‏ اس کامیابی کی ایک اَور وجہ یہ تھی کہ روم کے سپاہی اپنے سپہ‌سالاروں کے بالکل تابعدار تھے۔‏ اسی طرح مسیحیوں کو بھی یسوع مسیح کے تابع رہنا چاہئے کیونکہ بائبل میں اُسے ”‏اُمتوں کا پیشوا اور فرمانروا“‏ کہا گیا ہے۔‏ (‏یسعیاہ ۵۵:‏۴‏)‏ اسکے علاوہ یسوع ”‏کلیسیا کا سر“‏ بھی ہے۔‏ (‏افسیوں ۵:‏۲۳‏)‏ یسوع نے ہمیں ہدایات فراہم کی ہیں جن پر عمل کرنے سے ہم شیطان کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔‏ اُس نے روحانی ہتھیاروں کو استعمال کرنے کے سلسلے میں بھی ہمارے لئے مثال قائم کی ہے۔‏ (‏۱-‏پطرس ۲:‏۲۱‏)‏ یہ روحانی ہتھیار بہت سی ایسی خوبیوں پر مشتمل ہیں جو یسوع مسیح کی شخصیت میں بھی پائی جاتی ہیں۔‏ مسیحیوں کے طور پر ہمیں یسوع کی ان خوبیوں سے ”‏مسلح“‏ ہونا یعنی اُسکے نمونے پر چلنا چاہئے۔‏ (‏۱-‏پطرس ۴:‏۱‏،‏ کیتھولک ورشن‏)‏ اسلئے ہم ہر روحانی ہتھیار پر غور کرتے ہوئے یہ بھی دیکھینگے کہ یسوع نے اس ہتھیار کو کیسے استعمال کِیا اور اسکا کیا نتیجہ نکلا۔‏

کمر،‏ سینے اور پاؤں کی حفاظت کرنا

۴.‏ سپاہی کا کمربند کونسا کام انجام دیتا تھا اور اس سے کیا ظاہر ہوتا ہے؟‏

۴ سچائی سے کمر کسنا۔‏ کئی مترجمین کا کہنا ہے کہ اس آیت کا ترجمہ یوں کِیا جانا چاہئے:‏ ”‏سچائی کو ایک کمربند کی طرح اپنی کمر پر کس لو۔‏“‏ قدیم زمانے میں سپاہی چمڑے کا ۲ تا ۶ اِنچ چوڑا کمربند پہنا کرتے تھے۔‏ سپاہی کا کمربند لڑائی کے دوران اُسکی کمر کی حفاظت کرتا اور وہ اس سے اپنی تلوار بھی لٹکا سکتا تھا۔‏ جب ایک سپاہی اپنی کمر پر کمربند کس لیتا تھا تو اسکا مطلب تھا کہ وہ جنگ کرنے کیلئے تیار ہے۔‏ بائبل کی سچائیوں کو کس حد تک ہماری زندگیوں پر اثرانداز ہونا چاہئے؟‏ یہ ظاہر کرنے کیلئے پولس رسول نے ایک سپاہی کے کمربند کی مثال کو استعمال کِیا۔‏ ہمیں ان سچائیوں کو مضبوطی سے اپنی کمر پر کس لینا چاہئے۔‏ اسکا مطلب ہے کہ ہمیں بائبل میں پائی جانے والی سچائیوں پر عمل کرنا اور ہر وقت دوسروں کے سامنے انکا دفاع کرنے کیلئے تیار رہنا چاہئے۔‏ (‏زبور ۴۳:‏۳؛‏ ۱-‏پطرس ۳:‏۱۵‏)‏ ایسا کرنے کیلئے ہمیں بائبل کو پڑھنے اور اس میں پائی جانے والی سچائیوں پر غور کرنا چاہئے۔‏ یسوع نے کہا تھا کہ خدا کی شریعت ”‏میرے دل میں ہے۔‏“‏ (‏زبور ۴۰:‏۸‏)‏ اُسے کئی صحیفے زبانی یاد تھے۔‏ جب اُسکے مخالفین اُسکو آزمانے کیلئے سوال کرتے تھے تو وہ ان صحائف سے جواب دینے کے قابل تھا۔‏—‏متی ۱۹:‏۳-‏۶؛‏ ۲۲:‏۲۳-‏۳۲‏۔‏

۵.‏ اذیت اور آزمائش کے وقت بائبل میں پائی جانے والی سچائیاں ہماری مدد کیسے کر سکتی ہیں؟‏

۵ بائبل میں پائی جانے والی سچائیاں ہماری راہنمائی کرتی ہیں۔‏ ان پر عمل کرنے سے ہم غلط سوچ میں پڑنے کی بجائے اچھے فیصلے کرینگے۔‏ اس راہنمائی کی وجہ سے ہمیں یوں لگے گا جیسے ہم یہوواہ خدا کو دیکھ رہے ہیں اور یہ آواز سن رہے ہیں:‏ ”‏راہ یہی ہے اس پر چل۔‏“‏ (‏یسعیاہ ۳۰:‏۲۰،‏ ۲۱‏)‏ لہٰذا ہم کامیابی سے اذیت اور آزمائش کا سامنا کر سکیں گے۔‏

۶.‏ ہمیں اپنے دل کی حفاظت کیوں کرنی چاہئے اور اس راستبازی کا کیا کردار ہے؟‏

۶ راستبازی کا بکتر۔‏ بکتر سپاہی کے دل کی حفاظت کرتا تھا۔‏ ہمیں بھی اپنے دلی رُجحان کی خاص حفاظت کرنی چاہئے کیونکہ یہ ہمیں بُرائی کرنے کی طرف مائل کرتا ہے۔‏ (‏پیدایش ۸:‏۲۱‏)‏ اسلئے ہمیں یہوواہ خدا کے راست معیاروں کے بارے میں علم حاصل کرنا اور اپنے دل میں انکے لئے محبت پیدا کرنی چاہئے۔‏ (‏زبور ۱۱۹:‏۹۷،‏ ۱۰۵‏)‏ ہمیں راستبازی سے اتنا لگاؤ ہونا چاہئے کہ ہم ہر دُنیاوی سوچ کو رد کرنے کو تیار ہونگے۔‏ اسکے علاوہ،‏ جب ہم نیکی سے محبت اور بدی سے عداوت رکھتے ہیں تو ہم بُری راہ پر چلنے سے گریز کرینگے۔‏ (‏زبور ۱۱۹:‏۹۹-‏۱۰۱؛‏ عاموس ۵:‏۱۵‏)‏ اس سلسلے میں یسوع نے عمدہ مثال قائم کی تھی کیونکہ اُسکے بارے میں صحائف بیان کرتے ہیں کہ ”‏تُو نے راستبازی سے محبت اور بدکاری سے عداوت رکھی۔‏“‏—‏عبرانیوں ۱:‏۹‏۔‏ *

۷.‏ ایک رومی سپاہی کو مضبوط جوتوں کی کیوں ضرورت تھی اور اس سے کیا ظاہر ہوتا ہے؟‏

۷ پاؤں میں صلح کی خوشخبری کی تیاری کے جوتے پہنیں۔‏ جنگ کے دوران رومی سپاہیوں کو روزانہ تقریباً ۲۰ میل [‏۳۰ کلومیٹر]‏ کا فاصلہ پیدل طے کرنا پڑتا تھا۔‏ وہ اپنا جنگی سازوسامان بھی خود اُٹھاتے تھے جسکا وزن ۶۰ پاؤنڈ [‏۲۷ کلوگرام]‏ کے لگ‌بھگ ہوتا تھا۔‏ لہٰذا اُنہیں مضبوط جوتوں کی ضرورت ہوتی تھی۔‏ پولس رسول نے سپاہی کے جوتوں کی تشبیہ دیتے ہوئے ظاہر کِیا کہ مسیحیوں کو ہر وقت دوسروں سے خدا کی بادشاہت کے بارے میں بات کرنے کیلئے تیار رہنا چاہئے۔‏ یہ اسلئے ضروری ہے کیونکہ اگر مسیحی ایسا کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں تو پھر لوگ یہوواہ کی بابت کیسے سیکھینگے؟‏—‏رومیوں ۱۰:‏۱۳-‏۱۵‏۔‏

۸.‏ ہم منادی کے کام کے سلسلے میں یسوع کے نمونے سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

۸ یسوع نے اپنی زندگی میں کس کام کو پہلا درجہ دیا؟‏ اُس نے رومی حاکم پُنطیُس پیلاطُس کو بتایا کہ ’‏مَیں اس واسطے دُنیا میں آیا ہوں کہ حق پر گواہی دوں۔‏‘‏ جب بھی یسوع کو کوئی ایسا شخص ملتا جو سننے کیلئے تیار ہوتا تو وہ اُسے بادشاہی کی خوشخبری سناتا۔‏ یسوع منادی کے کام کو اتنا پسند کرتا تھا کہ اُس نے اس کام کو اپنی ذاتی ضروریات سے بھی زیادہ اہمیت دی۔‏ (‏یوحنا ۴:‏۵-‏۳۴؛‏ ۱۸:‏۳۷‏)‏ اگر ہم یسوع کی مانند دوسروں کو بائبل کی سچائیوں کے بارے میں سنانے کے خواہشمند ہیں تو ہمیں ایسا کرنے کے بہت سے موقعے ملیں گے۔‏ اسکے علاوہ منادی کے کام میں مشغول رہنے سے ہم روحانی طور پر مضبوط رہینگے۔‏—‏اعمال ۱۸:‏۵‏۔‏

سپر،‏ خود اور تلوار

۹.‏ جنگ کے دوران بڑی سپر رومی سپاہی کے کس کام آتی؟‏

۹ ایمان کی سپر۔‏ جس یونانی لفظ کا ترجمہ اس آیت میں ”‏سپر“‏ سے کِیا گیا ہے وہ ایک بڑی سپر یا ڈھال کی طرف اشارہ کرتا ہے۔‏ یہ سپر اتنی بڑی ہوتی تھی کہ سپاہی کے پورے جسم کو ڈھانپ کر اُسکی حفاظت کر سکتی تھی۔‏ ایسی سپر سپاہی کو اُن ”‏جلتے ہوئے تیروں“‏ سے بھی محفوظ رکھ سکتی تھی جنکا ذکر افسیوں ۶:‏۱۶ میں کِیا گیا ہے۔‏ قدیم زمانے میں سپاہی کھوکھلے سرکنڈوں سے بنائے گئے تیر استعمال کرتے تھے۔‏ ان میں لوہے کے کارتوس ہوتے جن میں تیل بھر دیا جاتا تھا۔‏ پھر تیل کو جلایا جاتا اور جلتے ہوئے تیر سے دُشمن پر وار کِیا جاتا تھا۔‏ ایک عالم کا کہنا ہے کہ ایسے تیر ”‏قدیم زمانے کے سب سے خطرناک ہتھیار ہوتے تھے۔‏“‏ اگر ایک سپاہی کے پاس بڑی سپر نہ ہوتی تو وہ ان تیروں سے بُری طرح زخمی ہونے یا جان سے ہاتھ دھونے کے خطرے میں ہوتا تھا۔‏

۱۰،‏ ۱۱.‏ (‏ا)‏ شیطان ہمارے ایمان کو کمزور کرنے کیلئے کن ”‏جلتے ہوئے تیروں“‏ کا استعمال کرتا ہے؟‏ (‏ب)‏ یسوع نے کیسے ثابت کِیا کہ مصیبت کے وقت خدا میں پکا ایمان رکھنا بہت ضروری ہے؟‏

۱۰ شیطان ہمارے ایمان کو کمزور کرنے کیلئے کن ”‏جلتے ہوئے تیروں“‏ کو استعمال کرتا ہے؟‏ وہ ہمارے خاندان کے افراد،‏ ہم‌جماعتوں اور ایسے لوگوں کو جو ہمارے ساتھ ملازمت کرتے ہیں،‏ اُنکو ہماری مخالفت کرنے پر اُکساتا ہے۔‏ شیطان ہمارے دل میں دولت کا لالچ بھی پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے اور وہ ہمیں بداخلاقی کرنے پر اُکساتا ہے جسکی وجہ سے کئی اپنا ایمان کھو بیٹھے ہیں۔‏ شیطان کے ان جلتے ہوئے تیروں سے محفوظ رہنے کیلئے ہمیں ”‏ایمان کی سپر“‏ اُٹھانی ہوگی۔‏ لیکن ہم اپنے ایمان کو کیسے مضبوط بنا سکتے ہیں؟‏ ہمیں یہوواہ کے بارے میں سیکھنے اور اس بات کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے کہ یہوواہ کسطرح سے ہماری حفاظت کرتا اور ہمیں برکت دیتا ہے۔‏ اسکے علاوہ ہمیں باقاعدگی سے دُعا بھی کرنی چاہئے۔‏—‏یشوع ۲۳:‏۱۴؛‏ لوقا ۱۷:‏۵؛‏ رومیوں ۱۰:‏۱۷‏۔‏

۱۱ جب یسوع زمین پر تھا تو اُس نے اس بات کا مظاہرہ کِیا تھا کہ مشکلات اور مصیبتوں کا سامنا کرتے وقت خدا میں پکا ایمان رکھنا بہت ضروری ہے۔‏ یسوع پورے دل سے اپنے آسمانی باپ پر بھروسا کرتا تھا اور اُسکی مرضی بجالانے سے خوش تھا۔‏ (‏متی ۲۶:‏۴۲،‏ ۵۳،‏ ۵۴؛‏ یوحنا ۶:‏۳۸‏)‏ یہاں تک کہ گتسمنی کے باغ میں نہایت تکلیف کی حالت میں بھی اُس نے یوں دُعا کی:‏ ”‏نہ جیسا مَیں چاہتا ہوں بلکہ جیسا تُو چاہتا ہے ویسا ہی ہو۔‏“‏ (‏متی ۲۶:‏۳۹‏)‏ یسوع وفادار رہنے اور اپنے باپ کے دل کو شاد کرنے کی اہمیت کو کبھی نہیں بھولا تھا۔‏ (‏امثال ۲۷:‏۱۱‏)‏ اگر ہم بھی یسوع کی طرح خدا پر بھروسا کرتے ہیں تو لوگ خواہ ہماری کتنی ہی مخالفت کریں ہمارا ایمان کمزور نہیں ہوگا۔‏ اسکی بجائے ایسے واقعات کا سامنا کرنے سے ہمارا ایمان زیادہ مضبوط ہو جائیگا،‏ یہوواہ کیلئے ہماری محبت بڑھیگی اور ہم اُسکے احکام پر چلتے رہینگے۔‏ (‏زبور ۱۹:‏۷-‏۱۱؛‏ ۱-‏یوحنا ۵:‏۳‏)‏ شیطان ہمیں جوکچھ پیش کرتا ہے یہ اُن برکات کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں جن سے یہوواہ اُن لوگوں کو نوازیگا جو اُس سے محبت رکھتے ہیں۔‏—‏امثال ۱۰:‏۲۲‏۔‏

۱۲.‏ روحانی خود کس چیز کی حفاظت کرتا ہے اور یہ اتنا اہم کیوں ہے؟‏

۱۲ نجات کا خود۔‏ سپاہی کا خود اُسکے سر اور دماغ کی حفاظت کرتا تھا۔‏ اسی طرح مسیحیوں کی اُمید ایک خود کی مانند ہے جو اُنکے ذہن یعنی اُنکی سوچنےسمجھنے کی صلاحیت کو محفوظ رکھتا ہے۔‏ (‏۱-‏تھسلنیکیوں ۵:‏۸‏)‏ حالانکہ ہم نے خدا کے کلام کے بارے میں صحیح علم حاصل کرکے اپنی عقل نئی بنا لی ہے پھر بھی ہمیں اپنی سوچنےسمجھنے کی صلاحیت کی حفاظت کرنی پڑیگی۔‏ اسکی وجہ یہ ہے کہ ہم کمزور اور ناکامل انسان ہیں اور ہمارا ذہن بُری باتوں کی طرف مائل ہو سکتا ہے۔‏ اسکے علاوہ ہم دُنیا میں کوئی نہ کوئی رُتبہ حاصل کرنے کی کوشش میں پڑ کر بائبل میں پائی جانے والی اُمید کو بھول سکتے ہیں۔‏ (‏رومیوں ۷:‏۱۸؛‏ ۱۲:‏۲‏)‏ شیطان یسوع کو اسی قسم کے جال میں پھنسانا چاہتا تھا۔‏ اس کوشش میں اُس نے یسوع کو ”‏دُنیا کی سب سلطنتیں اور اُنکی شان‌وشوکت“‏ پیش کی۔‏ (‏متی ۴:‏۸‏)‏ لیکن یسوع نے اس پیشکش کو فوراً رد کر دیا۔‏ اس سلسلے میں پولس کہتا ہے کہ ”‏یسوؔع .‏ .‏ .‏ نے اُس خوشی کیلئے جو اُسکی نظروں کے سامنے تھی شرمندگی کی پروا نہ کرکے صلیب کا دُکھ سہا اور خدا کے تخت کی دہنی طرف جا بیٹھا۔‏“‏—‏عبرانیوں ۱۲:‏۲‏۔‏

۱۳.‏ ہم اُمید میں خوش کیسے رہ سکتے ہیں؟‏

۱۳ یسوع کی طرح ہمیں بھی پورے دل سے خدا پر بھروسا کرنا چاہئے۔‏ لیکن ایسا کرنے میں کوشش درکار ہے۔‏ کیا ہم اس زمانے میں بڑا بننے یا اُونچی حیثیت حاصل کرنے کے سپنے دیکھتے ہیں؟‏ توپھر وقت گزرنے کیساتھ ساتھ خدا کے وعدوں میں ہمارا ایمان کمزور پڑ جائیگا،‏ ہماری اُمید کی کِرن دُھندلی پڑ جائیگی اور آخرکار بالکل ہی مٹ جائیگی۔‏ لیکن اگر ہم خدا کے وعدوں پر باقاعدہ سوچ‌بچار کرتے رہینگے تو ہم اُمید میں خوش رہینگے۔‏—‏رومیوں ۱۲:‏۱۲‏۔‏

۱۴،‏ ۱۵.‏ (‏ا)‏ ہماری روح کی تلوار کیا ہے اور ہم اسے کیسے استعمال کر سکتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ مثال دے کر واضح کریں کہ روح کی تلوار ہمیں آزمائش میں پڑنے سے کیسے بچا سکتی ہے۔‏

۱۴ روح کی تلوار۔‏ خدا کا کلام یعنی بائبل ایک دو دھاری تلوار کی مانند ہے جو جھوٹے مذہبی عقیدوں کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے نیک‌دل اشخاص کو روحانی طور پر آزاد کر سکتی ہے۔‏ (‏یوحنا ۸:‏۳۲؛‏ عبرانیوں ۴:‏۱۲‏)‏ اس روحانی تلوار سے ہم برگشتہ اشخاص کے علاوہ اُن آزمائشوں کا مقابلہ بھی کر سکتے ہیں جو ہمارے ایمان کو تباہ کر سکتی ہیں۔‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۱۰:‏۴،‏ ۵‏)‏ ہم کتنے خوش ہیں کہ ’‏ہر ایک صحیفہ خدا کے الہام سے ہے۔‏‘‏ خدا کے کلام پر عمل کرنے سے ہم ’‏ہر نیک کام کیلئے بالکل تیار ہو جائینگے۔‏‘‏—‏۲-‏تیمتھیس ۳:‏۱۶،‏ ۱۷‏۔‏

۱۵ جب شیطان نے یسوع کو جنگل میں آزمانے کی کوشش کی تو یسوع نے اُسکا مقابلہ کرنے کیلئے روح کی تلوار کا بھرپور استعمال کِیا۔‏ شیطان کی ہر آزمائش کا جواب دینے کیلئے یسوع خدا کے کلام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے:‏ ‏”‏لکھا ہے کہ .‏ .‏ .‏“‏ ‏(‏متی ۴:‏۱-‏۱۱‏)‏ داؤد نامی ایک یہوواہ کے گواہ کی مثال لیجئے جو ملک سپین میں رہتا ہے۔‏ اُس نے بتایا کہ صحائف پر عمل کرنے سے وہ بداخلاقی کے جال میں پڑنے سے بچا رہا۔‏ جب داؤد ۱۹ سال کا تھا تو جس کمپنی میں وہ کام کرتا تھا وہاں ایک نہایت خوبصورت لڑکی بھی کام کرتی تھی۔‏ ایک دن اس لڑکی نے داؤد سے کہا کہ ”‏کیا تُم مجھ سے دوستی کرو گے؟‏“‏ داؤد نے فوراً اسکی پیشکش کو رد کر دیا۔‏ پھر اُس نے اپنے سپروائزر سے درخواست کی کہ وہ اُسے کسی اَور کام پر لگا دے تاکہ ایسا واقعہ دوبارہ پیش نہ آئے۔‏ داؤد نے اس آزمائش کا اتنی کامیابی سے مقابلہ کیسے کِیا؟‏ وہ بتاتا ہے کہ ”‏مجھے یوسف کی مثال یاد آئی جس نے اُس عورت سے ہم‌بستر ہونے سے صاف انکار کر دیا اور اُسے چھوڑ کر فوراً بھاگ گیا تھا۔‏ لہٰذا مَیں نے بھی یوسف کے نمونے کی نقل کی۔‏“‏—‏پیدایش ۳۹:‏۱۰-‏۱۲‏۔‏

۱۶.‏ ہمیں روح کی تلوار کے استعمال میں تربیت حاصل کرنے کی کیوں ضرورت ہے؟‏

۱۶ یسوع روح کی تلوار کو لوگوں کو شیطان کے قبضے سے چھڑانے کیلئے بھی استعمال کرتا تھا۔‏ یسوع ہمیشہ کہتا تھا کہ ”‏میری تعلیم میری نہیں بلکہ میرے بھیجنے والے کی ہے۔‏“‏ (‏یوحنا ۷:‏۱۶‏)‏ جی‌ہاں،‏ یسوع خدا کے کلام کا ماہر اُستاد تھا۔‏ اگر ہم بھی اُس کی طرح ماہر اُستاد بننا چاہتے ہیں تو ہمیں روح کی تلوار کے استعمال میں تربیت حاصل کرنی پڑیگی۔‏ یہودی تاریخ‌دان یوسیفس نے رومی سپاہیوں کے بارے میں یوں لکھا:‏ ”‏ہر سپاہی روزانہ اتنے جوش کیساتھ لڑائی کی مشق کرتا ہے جیسا واقعی جنگ ہو رہی ہو۔‏ اسلئے وہ جنگ کی کشمکش کے دوران جلد تھکنے کی بجائے دیر تک لڑنے کے قابل رہتا ہے۔‏“‏ ہمیں اپنی روحانی جنگ میں بھی بائبل کا بھرپور استعمال کرنا چاہئے۔‏ ہمیں ’‏اپنے آپ کو خدا کے سامنے مقبول اور ایسے کام کرنے والے کی طرح پیش کرنے کی کوشش کرنی چاہئے جسکو شرمندہ ہونا نہ پڑے اور جو حق کے کلام کو دُرستی سے کام میں لاتا ہو۔‏‘‏ (‏۲-‏تیمتھیس ۲:‏۱۵‏)‏ ہمیں اُس وقت کتنی خوشی ہوتی ہے جب ہم کسی شخص کے سوال کا جواب دینے کیلئے صحائف کا استعمال کرتے ہیں!‏

ہر وقت دُعا کرتے رہو

۱۷،‏ ۱۸.‏ (‏ا)‏ شیطان کا مقابلہ کرنے میں دُعا کی کیا اہمیت ہے؟‏ (‏ب)‏ دُعا کی اہمیت واضح کرنے کیلئے ایک مثال پیش کریں۔‏

۱۷ تمام روحانی ہتھیاروں کا ذکر کرنے کے بعد پولس ہمیں ”‏ہر طرح سے روح میں دُعا اور منت کرتے“‏ رہنے کی نصیحت کرتا ہے۔‏ مسیحیوں کو شیطان کا مقابلہ کرنے کیلئے ”‏ہر وقت“‏ دُعا میں مشغول رہنا چاہئے۔‏ (‏افسیوں ۶:‏۱۸‏)‏ چاہے ہمیں آزمائش یا اذیت کا سامنا ہے یا ہم دل‌برداشتہ ہیں،‏ ہر صورتحال میں دُعا ہمیں ایمان میں قائم رہنے میں مدد دے سکتی ہے۔‏ (‏متی ۲۶:‏۴۱‏)‏ یسوع نے بھی ”‏زور زور سے پکار کر اور آنسو بہا بہا کر اُسی سے دُعائیں اور التجائیں کیں جو اُسکو موت سے بچا سکتا تھا اور خداترسی کے سبب سے اُسکی سنی گئی۔‏“‏—‏عبرانیوں ۵:‏۷‏۔‏

۱۸ اس سلسلے میں میلاگروس کی مثال پر غور کریں جو ۱۵ سال سے لگاتار اپنے بیمار خاوند کی تیمارداری کر رہی ہیں۔‏ وہ کہتی ہیں کہ ”‏جب مَیں بہت پریشان ہو جاتی ہوں تو مَیں یہوواہ سے دُعا کرنے لگتی ہوں۔‏ وہی سب سے بہتر طور پر میری مدد کر سکتا ہے۔‏ کبھی‌کبھار مجھے یوں لگتا ہے کہ میری ہمت جواب دینے والی ہے۔‏ پھر جب مَیں یہوواہ سے دُعا مانگتی ہوں تو وہ مجھے طاقت بخش کر میرا حوصلہ بڑھاتا ہے۔‏“‏

۱۹،‏ ۲۰.‏ شیطان پر غالب آنے کیلئے ہمیں کیا کچھ کرنے کی ضرورت ہے؟‏

۱۹ شیطان جانتا ہے کہ اُسکا تھوڑا ہی سا وقت باقی ہے۔‏ اسلئے وہ ہمیں شکست دینے کی پوری کوشش کر رہا ہے۔‏ (‏مکاشفہ ۱۲:‏۱۲،‏ ۱۷‏)‏ ہمیں ’‏ایمان کی اچھی کشتی لڑتے‘‏ ہوئے اس طاقتور دُشمن کا مقابلہ کرنا چاہئے۔‏ (‏۱-‏تیمتھیس ۶:‏۱۲‏)‏ ایسا کرنے کیلئے ہمیں حد سے زیادہ قوت کی ضرورت ہے۔‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۴:‏۷‏)‏ یہوواہ کی روح‌القدس کے بغیر ہم شیطان پر غالب نہیں آ سکتے۔‏ لہٰذا ہمیں اس روح کیلئے دُعا مانگنی چاہئے۔‏ یسوع نے کہا تھا کہ ”‏جب تُم بُرے ہو کر اپنے بچوں کو اچھی چیزیں دینا جانتے ہو تو آسمانی باپ اپنے مانگنے والوں کو روح‌القدس کیوں نہ دیگا؟‏“‏—‏لوقا ۱۱:‏۱۳‏۔‏

۲۰ ان تمام باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمیں خدا کے سب ہتھیار باندھنے چاہئیں۔‏ اسکا مطلب ہے کہ ہمیں ایمان اور راستبازی جیسی خوبیاں پیدا کرنی چاہئیں۔‏ ہمیں بائبل کی سچائی سے اتنی لگن ہونی چاہئے کہ گویا اس سے ہماری کمر کسی ہوئی ہو۔‏ اسکا مطلب یہ بھی ہے کہ ہمیں ہر موقع پر لوگوں کو بادشاہی کی خوشخبری کے بارے میں سنانے کیلئے تیار رہنا چاہئے۔‏ اسکے علاوہ ہمیں اپنی اُمید کو ایسے خیال کرنا چاہئے جیسا کہ ہم اسے پا چکے ہوں اور ہمیں روح کی تلوار کو استعمال کرنے کیلئے مہارت بھی حاصل کرنی چاہئے۔‏ خدا کے سب ہتھیاروں سے لیس ہو کر ہم شرارت کی روحانی فوجوں کا مقابلہ کرنے اور یہوواہ خدا کے پاک نام کو روشن کرنے میں کامیاب رہینگے۔‏—‏رومیوں ۸:‏۳۷-‏۳۹‏۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 6 یسعیاہ نبی کی پیشینگوئی میں یہوواہ خدا کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ”‏اُس نے راستبازی کا بکتر پہنا۔‏“‏ لہٰذا یہوواہ چاہتا ہے کہ کلیسیا کے بزرگ بھی انصاف کریں اور صداقت کی راہ پر چلیں۔‏—‏یسعیاہ ۵۹:‏۱۴،‏ ۱۵،‏ ۱۷‏۔‏

آپکا کیا جواب ہوگا؟‏

‏• خدا کے ہتھیار باندھنے میں کس شخص نے ہمارے لئے مثال قائم کی ہے اور ہمیں اسکی مثال پر غور کیوں کرنا چاہئے؟‏

‏• ہم اپنے ذہن اور اپنے دل کی حفاظت کیسے کر سکتے ہیں؟‏

‏• ہم روح کی تلوار کے استعمال میں مہارت کیسے حاصل کر سکتے ہیں؟‏

‏• ہمیں ہر موقع پر دُعا کیوں کرنی چاہئے؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۱۷ پر تصویریں]‏

دل لگا کر بائبل کا مطالعہ کرنے سے ہم ہر موقع پر بادشاہت کی خوشخبری کے بارے میں بات کرنے کیلئے تیار رہینگے

‏[‏صفحہ ۱۸ پر تصویریں]‏

ہماری اُمید ہمیں آزمائشوں اور اذیتوں کا مقابلہ کرنے میں مدد دیتی ہے

‏[‏صفحہ ۱۹ پر تصویر]‏

کیا آپ ”‏روح کی تلوار“‏ کو منادی کے کام میں استعمال کرتے ہیں؟‏