مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

سوالات از قارئین

سوالات از قارئین

سوالات از قارئین

اسرائیلی مردوں کو اسیری میں آنے والی غیرقوم عورتوں سے شادی کرنے کی اجازت کیوں تھی جبکہ موسوی شریعت میں مخصوص غیرقوموں کیساتھ بیاہ‌شادی کرنے سے منع کِیا گیا تھا؟‏—‏استثنا ۷:‏۱-‏۳؛‏ ۲۱:‏۱۰،‏ ۱۱‏۔‏

مخصوص حالات میں ایسا کرنے کی اجازت تھی۔‏ اسرائیلیوں کو یہوواہ خدا کی طرف سے کنعان کے ملک میں سات قوموں کے شہروں کو تباہ‌وبرباد کرنے اور اُن شہروں میں بسنے والوں کو قتل کر دینے کی ہدایت تھی۔‏ (‏استثنا ۲۰:‏۱۵-‏۱۸‏)‏ دیگر قوموں کے معاملے میں صرف اسیر کنواری عورتوں کے بچنے کا امکان تھا کیونکہ باقی سب مردوں اور شادی‌شُدہ عورتوں کو قتل کر دینے کا حکم بڑا واضح تھا۔‏ (‏گنتی ۳۱:‏۱۷،‏ ۱۸؛‏ استثنا ۲۰:‏۱۴‏)‏ ایسی کنواری عورتوں کیساتھ اسرائیلی مرد شادی کر سکتے تھے لیکن اِس کیلئے اُن عورتوں کو کچھ کرنا پڑتا تھا۔‏

سوال یہ ہے کہ اُن عورتوں کو کیا کرنا پڑتا تھا؟‏ بائبل بیان کرتی ہے:‏ ”‏تو تُو اُسے اپنے گھر لے آنا اور وہ اپنا سر منڈوائے اور اپنے ناخن ترشوائے۔‏ اور اپنی اسیری کا لباس اُتار کر تیرے گھر میں رہے اور ایک مہینہ تک اپنے ماں باپ کیلئے ماتم کرے۔‏ اسکے بعد تُو اُسکے پاس جاکر اُسکا شوہر ہونا اور وہ تیری بیوی بنے۔‏“‏—‏استثنا ۲۱:‏۱۲،‏ ۱۳‏۔‏

اگر کسی اسیر کنواری عورت سے کوئی اسرائیلی مرد شادی کرنا چاہتا تھا تو اُس عورت کو اپنا سر منڈوانا پڑتا تھا۔‏ کسی شخص کا سر منڈوانا اِس بات کی علامت تھا کہ وہ غمزدہ یا مصیبت‌زدہ ہے۔‏ (‏یسعیاہ ۳:‏۲۴‏)‏ مثال کے طور پر،‏ جب آبائی بزرگ ایوب کے تمام بچے ہلاک ہو گئے اور اُسکا سب کچھ تباہ ہو گیا تو اُس نے اپنے غم کے اظہار میں اپنا سر منڈوایا۔‏ (‏ایوب ۱:‏۲۰‏)‏ غیرقوم اسیر عورتوں کو اپنے ناخن بھی ترشوانے پڑتے تھے تاکہ اُسکے ہاتھ دلکش نہ لگیں۔‏ (‏استثنا ۲۱:‏۱۲‏)‏ اسیر عورتوں کا ”‏اسیری کا لباس“‏ کیا ہے جو اُنہیں اتارنا پڑتا تھا؟‏ غیرقوموں کی عورتوں کا یہ دستور تھا کہ جب اُنہیں نظر آنے لگتا تھا کہ دشمن اُن پر فتح پا لینگے تو وہ اپنا بہترین لباس پہن لیا کرتی تھیں۔‏ وہ اِس اُمید میں ایسا کرتی تھیں کہ وہ اسیر کرنے والوں کو دلکش لگیں۔‏ غمزدہ عورتوں کو ایسے لباس کو اُتارنا پڑتا تھا۔‏

ایک اسیر عورت کو کسی اسرائیلی مرد کی بیوی بننے کیلئے اپنے مُردہ عزیزوں کیلئے ایک مہینے تک ماتم کرنا پڑتا تھا۔‏ فتح‌شُدہ شہروں کو مکمل طور پر نیست‌ونابود کر دیا جاتا تھا اِس حد تک کہ اُس اسیر عورت کے تمام سابقہ خاندانی اور معاشرتی رشتے ختم ہو جاتے تھے۔‏ چونکہ اسرائیلی سپاہی اُس عورت کے دیوتاؤں کی مورتیں بھی تباہ‌وبرباد کر دیتے تھے لہٰذا اُسکے بُت‌پرستی کیساتھ تمام تعلقات بھی ختم ہو جاتے تھے۔‏ اُس اسیر عورت کیلئے وہ ماتم کا مہینہ پاک‌صاف ہونے کا دَور بھی ہوتا تھا جسکے دوران وہ اپنی سابقہ مذہبی وابستگی کے تمام پہلوؤں سے کنارہ‌کشی اختیار کرتی تھی۔‏

تاہم،‏ دوسری غیرقوم عورتوں کے معاملے میں صورتحال مختلف ہوتی تھی۔‏ اِس سلسلے میں اُن کیلئے یہوواہ کا حکم تھا:‏ ”‏تُو اُن سے بیاہ‌شادی بھی نہ کرنا۔‏ نہ اُنکے بیٹوں کو اپنی بیٹیاں دینا اور نہ اپنے بیٹوں کیلئے اُنکی بیٹیاں لینا۔‏“‏ (‏استثنا ۷:‏۳‏)‏ اِس پابندی کی کیا وجہ تھی؟‏ ”‏کیونکہ وہ تیرے بیٹوں کو میری پیروی سے برگشتہ کر دینگے تاکہ وہ اَور معبودوں کی عبادت کریں۔‏“‏ (‏استثنا ۷:‏۴‏)‏ یہ پابندی اسرائیلیوں کو مذہبی آلودگی سے بچانے کیلئے لگائی گئی تھی۔‏ تاہم استثنا ۲۱:‏۱۰-‏۱۳ میں بیان‌کردہ حالات کے تحت کوئی ایسا خطرہ نہیں تھا۔‏ اسیر عورت کے تمام رشتہ‌دار ہلاک اور اُسکے معبودوں کی تمام مورتیں بھی نیست کر دی جاتی تھیں۔‏ کسی بھی قسم کے جھوٹے مذہبی کاموں سے اُسکا رابطہ باقی نہیں رہتا تھا۔‏ ایسے حالات کے تحت ایک اسرائیلی کو ایک غیرقوم عورت سے شادی کرنے کی اجازت تھی۔‏