مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

چسٹر بیٹی کے خزانوں کا جائزہ

چسٹر بیٹی کے خزانوں کا جائزہ

چسٹر بیٹی کے خزانوں کا جائزہ

ڈبلن،‏ آئرلینڈ میں واقع چسٹر بیٹی لائبریری کے سابق نگران رِچرڈ جیمز ہیز نے لائبریری کی خصوصیات کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے کہا:‏ ”‏یہ پُرانی تہذیبوں کی یادگار .‏ .‏ .‏ خوبصورتی کا شاندار نمونہ اور شاہکار ہے۔‏“‏ یہاں پر قدیم زمانے کی نوادرات کا وسیع مجموعہ،‏ شاندار فن‌پارے اور نادر کتابوں کے علاوہ بڑی انمول دستاویز موجود ہیں۔‏ تاہم ذہن میں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ چسٹر بیٹی کون تھا اور اس نے کیا کیا قیمتی چیزیں جمع کی تھیں؟‏

الفریڈ چسٹر بیٹی سن ۱۸۷۵ میں نیو یارک،‏ ریاستہائےمتحدہ امریکہ میں پیدا ہوا۔‏ اُسکے آباؤاجداد کا تعلق سکاٹ‌لینڈ،‏ آئرلینڈ اور انگلینڈ سے تھا۔‏ اُس نے ۳۲ سال کی عمر تک کان‌کنی کے ماہر انجینیئر اور مشیر کے طور پر کافی دولت جمع کر لی تھی۔‏ وہ اپنی دولت سے خوبصورت اور قیمتی چیزیں خریدنے کا شوقین تھا اور وہ عمربھر ایسی چیزیں جمع کرنے میں لگا رہا۔‏ جب اُس نے ۹۲ سال کی عمر میں سن ۱۹۶۸ میں وفات پائی تو بیٹی نے اپنی تمام چیزیں آئرلینڈ کے عوام کے نام کر دیں۔‏

اُس نے کیا کچھ جمع کِیا؟‏

بیٹی کے پاس ہر طرح کی چیزیں تھیں۔‏ جب بھی اُسکی چیزوں کی نمائش کی گئی تو اُسکے صرف ایک فیصد مجموعے کو منظرِعام پر لایا گیا ہے۔‏ اُس نے قدیم تہذیبوں سے تعلق رکھنے والی نادر اور انمول چیزوں کو اکٹھا کِیا تھا۔‏ اُن چیزوں میں قدیم زمانہ کی یورپی،‏ ایشیائی اور افریقی ممالک سے واسطہ رکھنے والی چیزیں شامل تھیں۔‏ مثال کے طور پر،‏ بیٹی کی جمع‌کردہ چیزوں میں لکڑی کے چھاپوں کی مدد سے چھاپی ہوئی جاپانی تصویریں بھی شامل ہیں جنہیں دُنیا کا بہترین فنی شاہکار خیال کِیا جاتا ہے۔‏

ان فنی شاہکاروں کے علاوہ سو سے زیادہ قدیم میخی خط والی بابلی اور سومیری مٹی کی تختیاں ایک دلکش ذخیرہ ہیں۔‏ کوئی ۰۰۰،‏۴ سال سے زیادہ عرصہ پہلے مسوپتامیہ میں رہنے والے لوگ اپنی سوانحِ‌حیات کو گیلی مٹی کی تختیوں پر لکھ کر اُنہیں بعدازاں آگ میں پکاتے تھے۔‏ ایسی بہت سی تختیاں آج تک موجود ہیں اور ہمارے لئے قدیم زمانے کے تحریری فن کی واضح شہادت فراہم کرتی ہیں۔‏

کتابوں کی دلکشی

ایسے لگتا ہے کہ چسٹر بیٹی عمدہ کتابوں کی تشکیل میں شامل فنی مہارتوں کی طرف راغب تھا۔‏ اُس نے ہزاروں دُنیاوی اور مذہبی کتابیں بھی جمع کیں جن میں خوبصورت مگر پیچیدہ تحریروں والے قرآن بھی شامل ہیں۔‏ ایک مصنف لکھتا ہے کہ بیٹی ”‏عربی رسم‌الخط کے لفظی تناسب کا شیدائی تھا .‏ .‏ .‏ اور صفحوں پر سونے،‏ چاندی اور دیگر رنگین مادوں سے کی جانے والی کتابت کی دلکشی نے اُسکے رنگوں کی سمجھ کو بڑھا دیا تھا۔‏“‏

قدیم زمانوں کے بعض چینی شہنشاہوں کی طرح چسٹر بیٹی کو بھی یشب [‏یعنی سبز رنگ کا پتھر]‏ بہت پسند تھا۔‏ چینی شہنشاہوں کے خیال میں یشب تمام معدنی چیزوں سے زیادہ بیش‌قیمت اور سونے سے بھی زیادہ قیمتی تھا۔‏ اِن حکمرانوں نے ماہر کاریگروں کو یشب کے پتھروں کو تراش کر باریک تختیوں میں تبدیل کرنے کی ذمہ‌داری سونپی۔‏ اِسکے بعد ماہر کاتبوں نے یشب کے اِن تختیوں پر خوبصورت سنہری کتابت اور مصوری کی اور یوں نہایت حیران‌کُن کتابیں بنائی گئی جنکی مثال نہیں ملتی۔‏ بیٹی کا ایسی کتابوں کا مجموعہ ساری دُنیا میں مشہور ہے۔‏

بائبل کے انمول قلمی نسخے

بائبل سے محبت رکھنے والے اس بات میں بھی دلچسپی رکھتے ہیں کہ چسٹر بیٹی کے عظیم خزانوں میں بائبل کے قدیم اور قرونِ‌وسطیٰ کے زمانے کے قلمی نسخے موجود ہیں۔‏ خوبصورت قلمی نسخے اُن نقل‌نویسوں کے صبر اور فنکارانہ صلاحیت کو ظاہر کرتے ہیں جنہوں نے ہاتھ سے اُنکو نقل کِیا تھا۔‏ جو کتابیں چھاپی گئی وہ قدیم زمانے کے جِلدسازوں اور ناشرین کی کاریگری اور مہارت کی عکاسی کرتی ہیں۔‏ مثال کے طور پر،‏ انٹون کوبرگر نے سن ۱۴۷۹ میں شہر نیورمبرگ میں بِبلیّا لاطینیا نامی بائبل کی چھپائی کی تھی۔‏ وہ یوہانس گوٹنبرگ کا ہمعصر تھا۔‏ کوبرگر کی بابت کہا جاتا ہے کہ وہ ”‏قدیم ناشرین میں سے ایک نہایت اہم اور سرگرم شخص تھا۔‏“‏

چسٹر بیٹی لائبریری کی ایک اَور غیرمعمولی دستاویز کی مثال لے لیجئے۔‏ یہ ایک تحریر ہے جسے شام کے عالم افراہیم نے چوتھی صدی میں چمڑے پر درج کِیا تھا۔‏ افراہیم دوسری صدی کی ایک دستاویز سے اکثر حوالہ دیتا ہے جسے ڈیاٹسارون کہا جاتا ہے۔‏ اِس دستاویز کے مصنف طاشیان نے یسوع مسیح کی زندگی سے متعلق چار اناجیل کے بیانات کو ایک ہم‌آہنگ تحریر میں بیان کِیا ہے۔‏ اِسکے بعد مختلف مصنّفین نے ڈیاٹسارون سے حوالہ‌جات دئے ہیں لیکن اِسکی کوئی جِلد باقی نہیں بچی۔‏ بعض ۱۹ ویں صدی کے علما نے اِسکے وجود پر بھی شک کِیا ہے۔‏ تاہم،‏ ۱۹۵۶ میں بیٹی نے طاشیان کے ڈیاٹسارون پر افراہیم کی تشریح کو دریافت کِیا ہے۔‏ یہ تشریح بائبل کے مستند ہونے کے موجودہ ثبوت میں اضافہ کرتی ہے۔‏

پائپرس مسودوں کا قیمتی خزانہ

بیٹی نے بڑی تعداد میں پائپرس مسودے بھی جمع کئے جو مذہبی اور دُنیاوی نوعیت کے تھے۔‏ کوئی ۵۰ سے زیادہ پائپرس مسودے چوتھی صدی س.‏ع.‏ سے بھی پہلے کے ہیں۔‏ بعض پائپرس طومار ایسی قدیم رَدّی کے بڑے بڑے ڈھیروں سے نکالے گئے ہیں جو مصر کے صحرا میں صدیوں تک پوشیدہ تھے۔‏ جب ان پائپرس مسودوں کو فروخت کیلئے لایا گیا تو اُن میں سے بیشتر خستہ حالت میں تھے۔‏ تاجر پائپرس کے ٹکڑوں کو کارڈبورڈ کے ڈبوں میں رکھتے تھے۔‏ چسٹر بیٹی لائبریری کے مغربی مجموعے کے نگران چارلس ہارٹن بیان کرتے ہیں کہ ”‏خریدار محض ڈبوں میں ہاتھ ڈالکر مسودوں کے بڑے بڑے ٹکڑے نکال لیتے تھے۔‏“‏

ہارٹن کے مطابق چسٹر بیٹی کی ”‏سب سے زیادہ حیران‌کُن دریافت“‏ بائبل کی وہ کتابیں ہیں جن میں ”‏پُرانے اور نئے عہدنامے کی بعض بہت پُرانی کاپیاں شامل تھیں۔‏“‏ تاجر ان کتابوں کی قدروقیمت سے واقف تھے۔‏ لہٰذا وہ زیادہ نفع کمانے کی خاطر ان پائپرس کو مختلف خریداروں کو بیچنے کیلئے اُنکے کئی ٹکڑے کر دیتے تھے۔‏ تاہم،‏ بیٹی نے بیشتر ٹکڑے خرید لئے تھے۔‏ لیکن وہ کتابیں کس قدر اہم ہیں؟‏ سر فریڈرک قینان اُنکی دریافت کو کوڈیکس سینیائےٹیکس کے بعد (‏جسے عالم ٹیشن‌ڈورف نے ۱۸۴۴ میں دریافت کِیا)‏ ”‏سب سے اہم دریافت“‏ قرار دیتا ہے۔‏

بائبل کی یہ کتابیں دوسری اور چوتھی صدی س.‏ع.‏ کی ہیں۔‏ ان میں عبرانی صحائف کا یونانی ترجمہ بھی شامل ہے جسے سپتواجنتا کہا جاتا ہے۔‏ قینان کے مطابق ان میں سے پیدایش کی کتاب کی دو کاپیاں خاص قدروقیمت کی حامل ہیں کیونکہ ”‏[‏پیدایش کی]‏ تقریباً پوری کتاب ویٹیکانس اور سینیائےٹیکس کے مسودوں میں موجود نہیں ہے۔‏“‏ (‏یہ چوتھی صدی کے چمڑے پر لکھے گئے مسودے ہیں)‏ بیٹی کے تین مسودوں میں مسیحی یونانی صحائف بھی شامل ہیں۔‏ ایک میں چار اناجیل اور اعمال کی کتاب کا بیشتر حصہ موجود ہے۔‏ دوسرے مسودے میں اضافی صفحے شامل ہیں جو بیٹی نے بعدازاں حاصل کئے تھے اُس میں عبرانیوں کے نام خط سمیت پولس رسول کے تقریباً تمام خطوط شامل ہیں۔‏ تیسرے مسودے میں مکاشفہ کی کتاب کا تقریباً ایک تہائی حصہ شامل ہے۔‏ قینان کے مطابق،‏ اِن پائپرس مسودوں نے ”‏نئے عہدنامے کے موجودہ متن پر ہمارے اعتماد کو اَور بھی زیادہ مضبوط کر دیا ہے۔‏“‏

چسٹر بیٹی کے پائپرس مسودے ظاہر کرتے ہیں کہ مسیحیوں نے غالباً پہلی صدی کے آخر تک طوماروں کی جگہ کتابوں کو استعمال کرنا شروع کر دیا تھا کیونکہ طوماروں کا استعمال خاصا مشکل تھا۔‏ پائپرس کی دستاویز سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ تحریر کیلئے استعمال میں آنے والے مواد کی کمیابی کی وجہ سے نقل‌نویس اکثر پائپرس کے صفحوں کا دوبارہ استعمال کرتے تھے۔‏ مثال کے طور پر،‏ قدیم مصری زبان میں یوحنا کی انجیل کا ایک مسودہ ”‏کسی سکول کے بچے کی کاپی پر لکھا گیا ہے کیونکہ اُس میں یونانی زبان میں ریاضی کے سوال حل کئے گئے نظر آتے ہیں۔‏“‏

پائپرس کے یہ مسودے دیکھنے میں خوبصورت نہیں لگتے لیکن یہ انمول ہیں۔‏ یہ ابتدائی مسیحیت کے دیدنی اور ٹھوس ثبوت ہیں۔‏ چارلس ہارٹن بیان کرتا ہے کہ ”‏یہاں آپ اپنی آنکھوں سے ایسی کتابیں دیکھ سکتے ہیں جنہیں قدیم مسیحیوں نے پڑھا اور دیکھا۔‏ وہ کتابیں اُن کیلئے بڑی انمول تھیں۔‏“‏ (‏امثال ۲:‏۴،‏ ۵‏)‏ اگر آپکو کبھی چسٹر بیٹی لائبریری کے بعض خزانے دیکھنے کا موقع ملے تو آپ بھی اُنہیں ایسا ہی پائینگے۔‏

‏[‏صفحہ ۳۱ پر تصویر]‏

جاپانی فنکار کٹسوشیکا ہوکوسائی کی تصویر جو لکڑی کے چھاپے کی مدد سے چھاپی گئی ہے

‏[‏صفحہ ۳۱ پر تصویر]‏

چھاپی جانے والی ابتدائی بائبل کی کاپیوں میں سے ایک ”‏بِبلیّا لاطینیا“‏ ہے

‏[‏صفحہ ۳۱ پر تصویر]‏

طاشیان کی ”‏ڈیاٹسارون“‏ پر افراہیم کی تشریح بائبل کے مستند ہونے کیلئے مزید ثبوت فراہم کرتی ہے

‏[‏صفحہ ۳۱ پر تصویر]‏

چسٹر بیٹی پی۴۵،‏ ایک قدیم صحیفائی مسودہ ہے جسکی ایک ہی جِلد میں چار اناجیل اور اعمال کی کتاب ہے

‏[‏صفحہ ۲۹ پر تصویر کا حوالہ]‏

Reproduced by kind permission

of The Trustees of the

Chester Beatty Library, Dublin

‏[‏صفحہ ۳۱ پر تصویر کا حوالہ]‏

‏:All images

Reproduced by kind permission

of The Trustees of the

Chester Beatty Library, Dublin