چکیاں —جو ہمارے لئے روٹی فراہم کرتی ہیں
چکیاں —جو ہمارے لئے روٹی فراہم کرتی ہیں
روٹی کا ذکر ”زندگی کی بنیادی ضرورت،“ ”سب غذاؤں میں سے اہمترین،“ غذا کے طور پر کِیا گیا ہے۔ جیہاں، ایّامِقدیم سے روٹی بنیادی خوراک سمجھی جاتی ہے۔ درحقیقت، ہمیشہ سے انسان کی سب سے بڑی ضرورت اپنے لئے روز کی روٹی حاصل کرنا رہی ہے۔
روٹی بنانے کیلئے بنیادی چیز آٹا ہے جو کہ مختلف طرح کے اناج کو پیس کر تیار کِیا جاتا ہے۔ لہٰذا پسائی ایک قدیم فن ہے۔ جدید مشینوں سے پہلے اناج کو آٹا بنانے کیلئے پیسنا کتنا مشکل کام ہوتا ہوگا! قدیم وقتوں میں، چکی کی آواز کو پُرسکون زندگی کی علامت خیال کِیا جاتا تھا اور اسکی آواز کے نہ ہونے کو ویرانی کی علامت سمجھا جاتا تھا۔—یرمیاہ ۲۵:۱۰، ۱۱۔
صدیوں کے دوران چکی میں کیا کیا تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں؟ اس میں کونسے طریقے اور اوزار استعمال کئے گئے ہیں؟ نیز آج کسطرح کی چکیاں ہمارے لئے روٹی فراہم کرتی ہیں؟
چکیوں کی ضرورت کیوں؟
پہلے انسانی جوڑے آدم اور حوا سے، یہوواہ خدا نے فرمایا: ”دیکھو مَیں تمام رویِزمین کی کُل بیجدار سبزی اور ہر درخت جس میں اُسکا بیجدار پھل ہو تمکو دیتا ہوں۔ یہ تمہارے کھانے کو ہوں۔“ (پیدایش ۱:۲۹) جو خوراک یہوواہ نے انسانوں کو دی وہ زیادہتر ایسے اناج پر مشتمل تھی جو انسانی زندگی کیلئے نہایت ضروری تھا۔ کیونکہ گندم، جَو، رائی، جئی، چاول، باجرہ، جوار اور مکئی سمیت تمام اناج نشاستہدار ہوتے ہیں جسے جسم اپنی بنیادی توانائی یعنی گلوکوز یا شکر میں تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
تاہم انسان ہر طرح کے کچے اناج کو ہضم کرنے کے قابل نہیں ہے۔ انسانوں کیلئے، اسے اُس وقت ہضم کرنا آسان ہوتا ہے جب اناج کو آٹے میں تبدیل کرکے پکا لیا جاتا ہے۔ اناج کو آٹے میں تبدیل کرنے کا آسان طریقہ اُسے اوکھلی یا کونڈی میں کوٹنا اور پیسنا ہے۔
ہاتھ سے چلنے والی چکیاں
قدیم مصری مقبروں سے ملنے والے مجسّمے اناج پیسنے کی ابتدائی ہتھ چکیوں کے استعمال کا نمونہ پیش کرتے ہیں۔ یہ چکی دو پتھروں پر مشتمل ہوتی تھی جسکے نیچے والے حصے کی سطح قدرے مجوف اور ڈھلوانی تھی جبکہ اُوپر کا پتھر چھوٹا ہوتا تھا۔ اسے چلانے والی عورت عموماً چکی کی پچھلی جانب گھٹنوں کے بل بیٹھی ہوئی اُوپر والے پتھر کو دونوں ہاتھوں سے پکڑے ہوتی تھی۔ پھر وہ پورے زور سے اس پر دباؤ ڈالتی اور اُوپر والے پتھر کو نیچے والے پتھر پر رگڑتی اور دونوں پتھروں کے بیچ موجود اناج کو پیستی تھی۔ کسقدر سادہ سی مشین!
خروج ۱۱:۵) * بعض علما کا خیال ہے کہ جب اسرائیلی مصر سے نکلے تو وہ ایسی ہتھ چکیاں اپنے ساتھ لے گئے تھے۔
تاہم، زیادہ وقت تک گھٹنوں کے بل جھکے رہنا صحت کیلئے نقصاندہ تھا۔ اُوپر والے پتھر کو آخر تک دھکیلنا اور پھر اُسے واپس کھینچنا چکی چلانے والے کے کمر، بازوؤں، رانوں، گھٹنوں اور پنجوں پر متواتر دباؤ ڈالتا تھا۔ قدیم اسور میں ڈھانچوں میں نقائص کی بابت کی جانے والی تحقیق حیاتیات کے ماہرین کے اس نتیجے پر پہنچنے کا باعث بنی ہے کہ اسی طرح کی ہتھ چکیاں چلانے سے جوان عورتیں بارہا زور لگانے کی وجہ سے زخمی ہو جاتی تھیں، اُن کے گھٹنوں کی ہڈی میں خم آ جاتا تھا یا پھر ریڑھ کی ہڈی کو نقصان پہنچتا تھا اور پاؤں کے انگوٹھے میں جوڑوں کا شدید درد ہو جاتا تھا۔ قدیم مصر میں، خادمائیں اکثر ہاتھ سے چکی چلایا کرتی تھیں۔ (بعدازاں لوگ چکیوں کے دونوں پتھروں پر جھری ڈالنے لگے جس سے پیسنے کا کام پہلے سے زیادہ بہتر اور تیزی سے ہونے لگا۔ اُوپر والے پتھر میں ایک قیفنما سوراخ لگا دیا گیا جس سے چکی کو اناج سے بھر دینا اور پھر اناج کا خودبخود پتھروں کے بیچ گرتے رہنا ممکن ہو گیا تھا۔ چوتھی یا پانچویں صدی ق.س.ع. میں یونان نے اناج پیسنے کی ایک سادہ سی مشین ایجاد کی۔ ایک سرے پر لگا ہوا ہینڈل اُوپر والے پتھر سے جڑا ہوتا تھا۔ اس ہینڈل کو آگے پیچھے گھمانے سے اُوپر والا پتھر نیچے والے پتھر سے رگڑ کھاتا تھا۔
تاہم ان تمام چکیوں میں بھی کچھ نہ کچھ کمی ضرور تھی۔ یہ آگے پیچھے حرکت کرتی تھیں اور کسی جانور کا اسطرح سے حرکت کرنا ممکن نہیں تھا۔ پس یہ چکیاں انسانی قوت سے ہی چلائی جا سکتی تھیں۔ اسکے بعد ایک نئی تکنیک نے جنم لیا—دھرے پر گھومنے والی چکی۔ اس میں جانور استعمال کئے جا سکتے تھے۔
گھومنے والی چکی جس نے کام آسان کر دیا
اناج پیسنے کی گھومنے والی چکی غالباً دوسری صدی ق.س.ع. میں بحیرۂروم کے ممالک میں ایجاد ہوئی تھی۔ پہلی صدی ق.س.ع. تک، فلسطین میں رہنے والے یہودی ایسی چکی سے واقف تھے کیونکہ یسوع نے ’ایک بڑی چکی کے پاٹ‘ کا ذکر کِیا تھا۔—مرقس ۹:۴۲۔
جانوروں کی مدد سے چلنے والی چکی بیشتر رومی علاقوں میں استعمال ہوتی تھی۔ ایسی بہت سی چکیاں آج بھی پامپائی میں موجود ہیں۔ ان میں اُوپر والے وزنی پتھر میں قیفنما خانہ ہوتا تھا اور نیچے والا پتھر مخروطی شکل کا ہوتا تھا۔ جب اُوپر والا پتھر نیچے والے پتھر پر گھومتا تو اناج کے دانے دونوں پتھروں کے درمیان اچھی طرح سے پیس جاتے تھے۔ اُوپر والے پتھر کا قطر عام طور پر ۱۸ سے ۳۶ انچ ہوتا تھا۔ یہ چکیاں تقریباً چھ فٹ اُونچی ہوتی تھیں۔
یہ بات ابھی تک واضح نہیں ہو سکی کہ پہلے ہاتھ سے چلنے والی چکیاں ایجاد ہوئی تھیں یا جانوروں سے چلنے والی چکیاں۔ بہرصورت، ہاتھ سے چلنے والی چکیوں کا یہ فائدہ تھا کہ انہیں ایک سے دوسری جگہ لیجانا اور استعمال کرنا بہت آسان تھا۔ یہ دو گول پتھروں پر مشتمل ہوتی تھیں جنکا قطر ۲۱ سے ۲۴ انچ ہوتا تھا۔ نچلے پتھر کی اُوپری سطح قدرے اُبھری ہوئی ہوتی تھی جبکہ اُوپر والے پتھر کی نچلی سطح قدرے کھوکھلی اور قوسی ہوتی تھی تاکہ نچلے پتھر کی اُبھری ہوئی سطح اس میں اچھی طرح فٹ ہو سکے۔ اُوپر والا پتھر مرکزی چُول پر ٹکا ہوتا تھا اور اسے لکڑی کے ہینڈل سے گھمایا جاتا تھا۔ عام طور پر دو عورتیں ہینڈل کو پکڑ کر آمنے سامنے بیٹھ جاتی تھیں تاکہ باری باری اُوپر والے پتھر کو گھماتی رہیں۔ (لوقا ۱۷:۳۵) دوسرے ہاتھ سے دونوں میں سے ایک عورت اُوپر والے پتھر کے سوراخ میں دانے ڈالتی جاتی تھی اور دوسری عورت چکی کی اطراف میں بچھائے گئے کپڑے یا ٹرے سے آٹا جمع کرتی جاتی تھی۔ عام طور پر فوجی، ملاح اور مشینوں سے دُور کے علاقوں میں رہنے والے لوگ ایسی چکیوں کی مدد سے اپنی ذاتی ضروریات پوری کرتے تھے۔
ہوا یا پانی سے چلنے والی چکیاں
تقریباً ۲۷ ق.س.ع. میں وٹرووِیس نامی ایک رومی انجینیئر نے اپنے زمانے کی ایک پن چکی کی بابت بیان کِیا۔ بہتا پانی اُفقی چرخ کیساتھ جڑے ہوئے عمودی پہیے کے پیڈل کو دھکیل کر گھوماتا تھا۔ گراریاں اس حرکت کو عمودی دھرے میں منتقل کرتی تھیں۔ اسکے بدلے میں یہ عمودی دھرا چکی کے اُوپر والے بڑے پاٹ کو حرکت دیتا تھا۔
دیگر چکیوں کے مقابلے میں پن چکی کی کارکردگی کیسی تھی؟ ایک اندازے کے مطابق، ہاتھ سے چلنے والی چکیاں ایک گھنٹے میں ۱۰ کلو اناج پیستی ہیں اور جانوروں کے ذریعے چلنے والی چکیاں تقریباً ۵۰ کلو اناج پیس سکتی ہیں۔ اسکے برعکس، وٹرووِیس کی پن چکی ایک گھنٹے میں ۱۵۰ سے ۲۰۰ کلو پیس سکتی ہے۔ کئی صدیوں تک پن چکیاں بنانے کے ماہر اشخاص مختلف ردوبدل کیساتھ، وٹرووِیس کے بیانکردہ بنیادی اُصول کے مطابق چکیاں بناتے رہے۔
چکی کے پاٹوں کو صرف بہتے پانی ہی سے قدرتی توانائی حاصل نہیں ہوتی۔ اگر پنچرخی کی جگہ پون چکی کے بادبان لگا دئے جائیں تو یہ بھی وہی مقصد انجام دے سکتے تھے۔ یورپ میں پون چکی کا استعمال تقریباً ۱۲ ویں صدی س.ع. میں شروع ہوا اور یہ بیلجیئم، جرمنی، ہالینڈ اور دیگر ممالک میں پسائی کیلئے بڑے پیمانہ پر استعمال ہونے لگیں۔ یہ اُس وقت تک استعمال ہوتی رہیں جبتک بھاپ اور توانائی کے دیگر ذرائع سے چلنے والی چکیاں وجود میں نہ آئیں۔
”ہماری روز کی روٹی“
تمامتر ترقی کے باوجود، آج بھی دُنیا کے مختلف حصوں میں اناج پیسنے کے قدیم طریقے استعمال کئے جا رہے ہیں۔ افریقہ اور بحراُلکاہل کے چند جزائر میں ابھی تک اوکھلی اور ہاون دستے استعمال ہوتے ہیں۔ میکسیکو اور وسطی امریکہ میں مکئی کی روٹی بنانے کیلئے آٹا پیسنے کیلئے ہاتھ کی چکی استعمال کی جاتی ہے۔ اسکے علاوہ مختلف مقامات پر آج بھی پن چکیاں اور پون چکیاں استعمال ہوتی ہیں۔
تاہم، آجکل کی ترقییافتہ دُنیا میں روٹی بنانے کیلئے استعمال ہونے والا آٹا مکمل طور پر خودکار مشینوں کے ذریعے تیار کِیا جاتا ہے۔ مختلف رفتار سے چلنے والے ابھرویں سطح والے سٹیل کے سلنڈروں کے درمیان بار بار اناج کو پیسنے سے بتدریج آٹا تیار کِیا جاتا ہے۔ اس طریقے سے کم قیمت کیساتھ مختلف طرح کا آٹا تیار کرنا ممکن ہو گیا ہے۔
بِلاشُبہ، روٹی بنانے کیلئے آٹا حاصل کرنا اب اتنا مشکل نہیں جتنا کبھی ہوا کرتا تھا۔ جیہاں، ہم اپنے خالق کے شکرگزار ہو سکتے ہیں جس نے ہمیں اناج اور اسے اپنی ”روز کی روٹی“ میں تبدیل کرنے کی ہنرمندی عطا کِیا ہے۔—متی ۶:۱۱۔
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 10 قدیم وقتوں میں، جو دُشمن گرفتار ہو جاتے تھے اُن سے چکی پسوانے کا کام لیا جاتا تھا۔ جیسےکہ سمسون اور دیگر اسرائیلیوں سے بھی یہ کام لیا گیا۔ (قضاۃ ۱۶:۲۱؛ نوحہ ۵:۱۳) لیکن آزاد عورتیں صرف اپنے گھرانے کیلئے اناج پیسا کرتی تھیں۔—ایوب ۳۱:۱۰۔
[صفحہ ۲۳ پر تصویر]
جانور سے چلنے والی چکی
[تصویر کا حوالہ]
Soprintendenza Archeologica
per la Toscana, Firenze
[صفحہ ۲۳ پر تصویر]
مصر کی ہاتھ سے چلنے والی چکی
[صفحہ ۲۲ پر تصویر کا حوالہ]
Self-Pronouncing Edition From the
,of the Holy Bible
containing the King James
and the Revised versions