مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

‏”‏ایک دوسرے کو پیار کرو“‏

‏”‏ایک دوسرے کو پیار کرو“‏

‏”‏ایک دوسرے کو پیار کرو“‏

‏”‏برادرانہ محبت سے آپس میں ایک دوسرے کو پیار کرو۔‏“‏—‏رومیوں ۱۲:‏۱۰‏۔‏

۱،‏ ۲.‏ پولس رسول اور ایک مشنری کی مثال دے کر دکھائیں کہ کلیسیا کے بہن‌بھائیوں کا آپس میں کتنا پیار ہوتا ہے۔‏

ڈان نامی ایک مشنری نے ملک کوریا میں ۴۳ سال تک خدمت کی تھی۔‏ وہ اپنی نرم‌مزاجی اور محبت کی وجہ سے بہن‌بھائیوں میں کافی مشہور تھے۔‏ جب وہ زندگی کی آخری سانسیں لے رہے تھے تو ایسے بہن‌بھائی جنکے ساتھ ڈان نے بائبل کا مطالعہ کِیا تھا دُور دُور سے اُنکے پاس آئے۔‏ غم سے بھرے دلوں سے یہ بہن‌بھائی ڈان سے کہتے:‏ ”‏شکریہ!‏ آپکا بہت،‏ بہت شکریہ!‏“‏ جی‌ہاں،‏ ڈان کے پیار نے انکے دلوں کو چُھو لیا تھا۔‏

۲ اس مثال کے علاوہ پولس رسول کی مثال پر بھی غور کیجئے۔‏ اس نے بھی اپنے بہن‌بھائیوں کو بہت ہی عزیز رکھا۔‏ وہ ان کیلئے قربانیاں دینے کو تیار تھا۔‏ اگرچہ پولس خاص طور پر اپنے مضبوط ایمان کیلئے مشہور تھا لیکن وہ اپنے بہن‌بھائیوں سے اتنی نرمی سے پیش آتا ’‏جسطرح ایک ماں جو اپنے بچوں کو پالتی ہے۔‏‘‏ اُس نے تھسلنیکے کی کلیسیا کو لکھا کہ ”‏ہم تمہارے بہت مشتاق ہو کر نہ فقط خدا کی خوشخبری بلکہ اپنی جان تک بھی تمہیں دے دینے کو راضی تھے۔‏ اِس واسطے کہ تُم ہمارے پیارے ہو گئے تھے۔‏“‏ (‏۱-‏تھسلنیکیوں ۲:‏۷،‏ ۸‏)‏ ایک اَور موقعے پر جب پولس نے افسس کے کچھ بھائیوں کو کہا کہ وہ اسے پھر سے نہ دیکھینگے تو ”‏وہ سب بہت روئے اور پولسؔ کے گلے لگ لگ کر اُسکے بوسے لئے۔‏“‏ (‏اعمال ۲۰:‏۲۵،‏ ۳۷‏)‏ اس سے پتہ چلتا ہے کہ پولس اور کلیسیا کے بہن‌بھائی نہ صرف ایک ہی ایمان رکھتے تھے بلکہ وہ ایک دوسرے سے پیار بھی کرتے تھے۔‏

لفظ ”‏پیار“‏ کا مطلب

۳.‏ محبت کے چند پہلو کونسے ہیں؟‏

۳ صحیفوں کے مطابق مسیحیوں کو ایک دوسرے کیلئے پیارومحبت،‏ برادرانہ محبت اور ہمدردی ظاہر کرنی چاہئے۔‏ (‏۱-‏تھسلنیکیوں ۲:‏۸؛‏ ۲-‏پطرس ۱:‏۷‏)‏ محبت کے ان مختلف پہلوؤں کو اپنانے کے بہت عمدہ نتائج حاصل ہوتے ہیں۔‏ ان تمام خوبیوں کی بِنا پر مسیحی نہ صرف ایک دوسرے کے بلکہ خدا کے بھی نزدیک جا سکتے ہیں۔‏ اسلئے پولس رسول نے مسیحیوں کی تاکید کی کہ انکی ”‏محبت بےریا ہو۔‏“‏ اس نے یہ بھی کہا کہ ”‏برادرانہ محبت سے آپس میں ایک دوسرے کو پیار کرو۔‏“‏—‏رومیوں ۱۲:‏۹،‏ ۱۰‏۔‏

۴.‏ جس لفظ کا ترجمہ رومیوں ۱۲:‏۱۰ میں ”‏پیار“‏ سے کِیا گیا ہے یونانی زبان میں اسکا کیا مطلب ہے؟‏

۴ پولس نے لفظ ”‏پیار“‏ کے لئے یونانی زبان میں ایک ایسا اظہار استعمال کِیا جو دو الفاظ پر مشتمل ہے۔‏ ایک کا مطلب ”‏دوستی“‏ اور دوسرے کا مطلب ”‏فطرتی محبت“‏ ہے۔‏ ان الفاظ کی وضاحت کرتے ہوئے ایک عالم کا کہنا ہے کہ مسیحیوں کو ”‏ایک دوسرے سے اتنی گہری محبت رکھنی چاہئے جتنی خاندان کے افراد آپس میں رکھتے ہیں جو ایک دوسرے سے دل‌وجان سے پیار کرتے اور ایک دوسرے کا سہارا بنتے ہیں۔‏“‏ کیا آپ اپنے مسیحی بہن‌بھائیوں کو اتنا ہی عزیز رکھتے ہیں؟‏ مسیحی کلیسیا کو ایک پُرمحبت بھائی‌چارا ہونا چاہئے۔‏ (‏گلتیوں ۶:‏۱۰‏)‏ اسلئے بائبل کے چند ترجموں میں رومیوں ۱۲:‏۱۰ کا ترجمہ یوں کِیا گیا ہے:‏ ”‏سگے بہن‌بھائیوں کی طرح ایک دوسرے سے پیار کرو۔‏“‏ اسکا مطلب ہے کہ ہم محض اسلئے ایک دوسرے سے محبت نہیں رکھتے ہیں کیونکہ ایسا کرنا ہمارا فرض ہے یا اس میں ہمارا کوئی فائدہ ہے۔‏ اس وجہ سے پطرس رسول نے لکھا کہ ’‏بھائیوں کی محبت بےریا‘‏ ہونی چاہئے۔‏ اس نے یہ بھی لکھا کہ ”‏دل‌وجان سے آپس میں بہت محبت رکھو۔‏“‏—‏۱-‏پطرس ۱:‏۲۲‏۔‏

خدا ہم کو ’‏آپس میں محبت کرنا‘‏ سکھاتا ہے

۵،‏ ۶.‏ (‏ا)‏ یہوواہ نے کنونشنوں کے ذریعے اپنے لوگوں کو محبت کرنا کیسے سکھایا ہے؟‏ (‏ب)‏ وقت گزرنے کیساتھ ساتھ مسیحیوں کا آپس میں بندھن مضبوط کیوں بن جاتا ہے؟‏

۵ آج کی دُنیا میں ’‏بہتیروں کی محبت ٹھنڈی پڑ گئی ہے۔‏‘‏ لیکن خدا اپنے خادموں کو ’‏آپس میں محبت کرنا‘‏ سکھاتا ہے۔‏ (‏متی ۲۴:‏۱۲؛‏ ۱-‏تھسلنیکیوں ۴:‏۹‏)‏ یہ بات یہوواہ کے گواہوں کے بین‌الاقوامی کنونشنوں سے ثابت ہوتی ہے۔‏ ان کنونشنوں پر مقامی یہوواہ کے گواہ دُوردراز ممالک سے آنے والے بہن‌بھائیوں کو اپنے گھروں میں ٹھہراتے ہیں۔‏ حال ہی میں ایک کنونشن پر ایسے بہن‌بھائی بھی شامل ہوئے جنکا تعلق ایک ایسے مُلک سے ہے جہاں لوگ عموماً اپنے جذبات کا اظہار کھلے طور پر نہیں کرتے۔‏ ایک مسیحی بتاتا ہے کہ ”‏جب یہ بہن‌بھائی یہاں پہنچے تو وہ کافی پریشان اور شرمیلے تھے۔‏ لیکن ۶ دن بعد جب وہ اپنے ملک روانہ ہونے والے تھے تو وہ اپنے میزبانوں سے گلے لگ لگ کر رو رہے تھے۔‏ انہیں یہاں پر آ کر ایک ایسے مسیحی پیار کا تجربہ ہوا تھا جسے وہ کبھی نہیں بھول پائینگے۔‏“‏ جی‌ہاں،‏ اپنے بہن‌بھائیوں کی مہمان‌نوازی کرنے سے مہمان اور میزبان دونوں کو فائدہ ہوتا ہے۔‏—‏رومیوں ۱۲:‏۱۳‏۔‏

۶ ایسا پیارومحبت نہ صرف کنونشنوں پر نظر آتا ہے۔‏ کچھ عرصے تک ایک دوسرے کیساتھ ساتھ یہوواہ کی خدمت کرنے سے مسیحیوں میں ایک مضبوط بندھن وجود میں آتا ہے۔‏ جوں جوں ہم اپنے بہن‌بھائیوں سے اچھی طرح سے واقف ہو جاتے ہیں تو ہم انکی خوبیوں کی زیادہ قدر بھی کرنے لگتے ہیں،‏ مثلاً انکی دیانتداری،‏ وفاداری،‏ مہربانی،‏ فیاضی،‏ ہمدردی اور دوسروں کیلئے انکا پاس‌ولحاظ۔‏ (‏زبور ۱۵:‏۳-‏۵؛‏ امثال ۱۹:‏۲۲‏)‏ مارک نے مغربی افریقہ میں مشنری کے طور پر خدمت کی۔‏ وہ کہتا ہے:‏ ”‏جب بہن‌بھائی ایک دل ہو کر خدا کی خدمت کرتے ہیں تو انکا بندھن اٹوٹ ہوتا ہے۔‏“‏

۷.‏ مسیحی کلیسیا کے پیار سے مستفید ہونے کیلئے ہمیں کیا کرنا چاہئے؟‏

۷ کلیسیا کے افراد میں ایک ایسا مضبوط بندھن صرف اس وقت ممکن ہوتا ہے جب وہ ایک دوسرے کے قریب ہوتے ہیں۔‏ مسیحی اجلاسوں پر باقاعدہ حاضر ہونے سے ہم اپنے بہن‌بھائیوں کیساتھ محبت کو اَور زیادہ بڑھاتے ہیں۔‏ لیکن محض حاضر ہونے کے علاوہ اگر ہم اپنے بہن‌بھائیوں سے بات‌چیت کرتے اور اجلاسوں میں حصہ بھی لیتے ہیں تو ہم ”‏محبت اور نیک کاموں کی ترغیب“‏ دیتے ہیں۔‏ (‏عبرانیوں ۱۰:‏۲۴،‏ ۲۵‏)‏ امریکہ سے ایک بزرگ بتاتے ہیں:‏ ”‏مجھے اپنے بچپن کی یاد آتی ہے جب اجلاسوں کے بعد میرا خاندان بہن‌بھائیوں سے بات‌چیت کرنے میں اتنا مگن رہتا تھا کہ ہم ہی ہمیشہ کنگڈم‌ہال کو تالا لگاتے تھے۔‏“‏

کیا آپ ”‏کشادہ دل“‏ ہیں؟‏

۸.‏ (‏ا)‏ جب پولس نے کرنتھیوں کو ”‏کشادہ دل“‏ ہونے کی نصیحت کی تو اِسکا کیا مطلب تھا؟‏ (‏ب)‏ ہم کلیسیا میں پیار کو بڑھانے کیلئے کیا کچھ کر سکتے ہیں؟‏

۸ ایسے پیار کو مکمل طور پر پیدا کرنے کیلئے ہمیں اپنے دل کو ”‏کشادہ“‏ کرنے کی ضرورت ہے۔‏ پولس نے کرنتھس کی کلیسیا کو یوں لکھا:‏ ”‏ہمارا دل تمہاری طرف سے کشادہ ہو گیا۔‏ ہمارے دلوں میں تمہارے لئے تنگی نہیں۔‏“‏ اسلئے پولس نے ان سے التجا کی کہ ”‏تُم بھی اُسکے بدلے میں کشادہ دل ہو جاؤ۔‏“‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۶:‏۱۱-‏۱۳‏)‏ کیا آپکا دل بھی پیار ظاہر کرنے کے معاملے میں ”‏کشادہ“‏ ہو سکتا ہے؟‏ اس انتظار میں نہ رہیں کہ دوسرے پہل کریں۔‏ جس آیت میں پولس نے رومیوں کو ایک دوسرے سے پیار کیساتھ پیش آنے کی نصیحت دی تھی اسی آیت میں اُس نے یہ بھی لکھا کہ ”‏ایک دوسرے کی عزت کرنے میں پہل کرو۔‏“‏ (‏رومیوں ۱۲:‏۱۰‏،‏ این‌ڈبلیو‏)‏ آپ ایسا کیسے کر سکتے ہیں؟‏ اجلاسوں پر دوسروں کے پاس جا کر انکا حال دریافت کریں۔‏ آپ ان سے درخواست کر سکتے ہیں کہ وہ آپکے ساتھ ملکر مُنادی کے کام میں حصہ لیں یا اجلاسوں کیلئے تیاری کریں۔‏ ایسا کرنے سے آپ کلیسیا میں پیار کو بڑھا سکتے ہیں۔‏

۹.‏ اپنے بہن‌بھائیوں کے قریبی دوست بننے کیلئے بعض مسیحیوں نے کیا کِیا ہے؟‏ (‏مقامی مثالوں کا بھی ذکر کیجئے۔‏)‏

۹ کلیسیا کے افراد ایک دوسرے کو اپنے گھر کھانے کی دعوت دینے اور کوئی کام ملکر کرنے سے ”‏کشادہ دل“‏ ہو سکتے ہیں۔‏ (‏لوقا ۱۰:‏۴۲؛‏ ۱۴:‏۱۲-‏۱۴‏)‏ ہاکپ نامی ایک بھائی وقتاًفوقتاً کلیسیا کے کچھ افراد کیساتھ سیر کرنے جاتا ہے۔‏ وہ بتاتا ہے:‏ ”‏ان موقعوں پر ایسے والدین جو بچوں کی پرورش اکیلے کر رہے ہیں،‏ جوان اور عمررسیدہ لوگ،‏ یعنی ہر طرح کے بہن‌بھائی آتے ہیں۔‏ ہر ایک اپنے من میں اچھی یادیں لئے گھر واپس جاتا ہے۔‏ ایک ساتھ وقت گزارنے سے تمام بہن‌بھائی ایک دوسرے کے قریب ہو جاتے ہیں۔‏“‏ مسیحیوں میں نہ صرف ایمان کا بندھن ہونا چاہئے بلکہ اُنہیں اچھے دوست بھی ہونا چاہئے۔‏—‏۳-‏یوحنا ۱۴‏۔‏

۱۰.‏ جب ہمیں کسی مسیحی کیساتھ دوستی کرنا مشکل لگتا ہے تو ہمیں کیا کرنا چاہئے؟‏

۱۰ بعض دفعہ کسی بھائی کی ناکاملیتوں کی وجہ سے ہمیں اس سے دوستی کرنا مشکل لگتا ہے۔‏ اس صورتحال میں ہم کیا کر سکتے ہیں؟‏ سب سے پہلے خدا سے دُعا مانگیں کہ وہ آپکی اس بھائی کیساتھ ایک قریبی رشتہ پیدا کرنے میں مدد کرے۔‏ خدا کی مرضی یہ ہے کہ اسکے تمام خادم ایک دوسرے کیساتھ دوستانہ تعلقات بڑھائیں۔‏ لہٰذا وہ ایسی دُعاؤں کا ضرور جواب دیگا۔‏ (‏۱-‏یوحنا ۴:‏۲۰،‏ ۲۱؛‏ ۵:‏۱۴،‏ ۱۵‏)‏ اس کے بعد ہمیں اپنی دُعا کے مطابق عمل بھی کرنا چاہئے۔‏ رِک کی مثال لیجئے جو مغربی افریقہ میں سفری نگہبان کے طور پر خدمت کرتا ہے۔‏ اُسے ایک بھائی زیادہ پسند نہیں تھا کیونکہ یہ بھائی اکثر دوسروں کیساتھ بڑی سختی سے پیش آتا تھا۔‏ رِک بتاتا ہے:‏ ”‏اس بھائی سے کنارہ کرنے کی بجائے مَیں نے اُسے بہتر طور پر جاننے کا فیصلہ کِیا۔‏ مجھے پتہ چلا کہ اسکے والد اسکی تربیت کرنے میں حد سے زیادہ سخت تھے۔‏ اس وجہ سے اس بھائی کو دوسروں سے نرمی کیساتھ پیش آنا آسان نہیں لگتا تھا۔‏ مَیں سمجھ گیا کہ وہ اس کمزوری پر قابو پانے میں بہت ترقی کر چکا ہے۔‏ اسلئے مَیں اسکی قدر کرنے لگا۔‏ اب ہم پکے دوست ہیں۔‏“‏—‏۱-‏پطرس ۴:‏۸‏۔‏

دل کا دروازہ کھولیں

۱۱.‏ (‏ا)‏ کلیسیا میں پیار بڑھانے کیلئے ہمیں کیا کرنے کی ضرورت ہے؟‏ (‏ب)‏ دوسروں سے دُور رہنا ہمارے لئے روحانی طور پر نقصاندہ کیوں ہو سکتا ہے؟‏

۱۱ افسوس کی بات ہے کہ آجکل بہتیرے لوگ کسی کیساتھ دوستی نہیں کرنا چاہتے۔‏ لیکن مسیحیوں کو ایسا رویہ نہیں اختیار کرنا چاہئے۔‏ حقیقی برادرانہ محبت محض ایک دوسرے سے نرمی کیساتھ بات‌چیت کرنے اور خوش‌اخلاقی سے پیش آنے سے ظاہر نہیں ہوتی ہے،‏ اور یہ نہ ہی جذبات کا دِکھاوا کرنے سے ظاہر ہوتی ہے۔‏ اسکی بجائے ہمیں پولس کی طرح دل کھول کر اپنے بہن‌بھائیوں میں حقیقی دلچسپی لینی چاہئے۔‏ یہ بات سچ ہے کہ ہر کوئی فطرتی طور پر اپنے جذبات کا اظہار نہیں کرتا ہے۔‏ پھر بھی دوسروں سے دُور رہنا ہمارے لئے روحانی طور پر نقصاندہ ہو سکتا ہے۔‏ اس سلسلے میں بائبل یہ آگاہی دیتی ہے:‏ ”‏جو اپنے آپ کو سب سے دُور رکھتا ہے اپنی خواہش کا طالب ہے اور ہر معقول بات سے برہم ہوتا ہے۔‏“‏—‏امثال ۱۸:‏۱‏۔‏

۱۲.‏ کلیسیا میں پیار بڑھانے کے معاملے میں دل کھول کر بات کرنے کی کتنی اہمیت ہے؟‏

۱۲ دل کھول کر بات کرنے کی قابلیت دوستی کی بنیاد ہوتی ہے۔‏ (‏یوحنا ۱۵:‏۱۵‏)‏ ہر شخص کو ایسے دوستوں کی ضرورت ہوتی ہے جنہیں وہ اپنے خیالات اور جذبات کے بارے میں بتا سکتا ہے۔‏ ایسے اشخاص جو ایک دوسرے کو اچھی طرح سے جانتے ہیں وہ ایک دوسرے کی مدد کرنے کے قابل بھی ہوتے ہیں۔‏ اگر ہم ایک دوسرے میں دلچسپی لیتے ہیں تو ہمارا آپس میں پیار بڑھتا جائیگا۔‏ ہم یسوع کے ان الفاظ کو بھی سچ پائینگے:‏ ”‏دینا لینے سے مبارک ہے۔‏“‏—‏اعمال ۲۰:‏۳۵؛‏ فلپیوں ۲:‏۱-‏۴‏۔‏

۱۳.‏ ہم اپنے بہن‌بھائیوں کیلئے اپنے پیار کا اظہار کسطرح کر سکتے ہیں؟‏

۱۳ اگر ہم دوسروں کیلئے اپنے پیار کا اظہار نہیں کرینگے تو اسکا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔‏ (‏امثال ۲۷:‏۵‏)‏ حقیقی محبت ہمارے چہرے سے ظاہر ہوتی ہے،‏ جیسے کہ ایک مثل میں کہا گیا ہے:‏ ”‏آنکھوں کا نُور دل کو خوش کرتا ہے۔‏“‏ (‏امثال ۱۵:‏۳۰‏)‏ ہم اپنے اعمال سے بھی ظاہر کر سکتے ہیں کہ ہم اپنے بہن‌بھائیوں کا خیال کرتے ہیں۔‏ اگرچہ کسی کا پیار تو خریدا نہیں جا سکتا لیکن ہم ایک تحفہ دے کر اپنے پیار کا اظہار کر سکتے ہیں۔‏ ہم ایک کارڈ یا خط کے ذریعے اور ”‏باموقع باتیں“‏ کرنے سے بھی ایسا کر سکتے ہیں۔‏ (‏امثال ۲۵:‏۱۱؛‏ ۲۷:‏۹‏)‏ جب ہم نے کسی سے دوستی کر لی ہے تو اس دوستی کو برقرار رکھنے کیلئے ہمارا پیار بےغرض ہونا چاہئے۔‏ خاص طور پر جب ہمارے دوست مصیبتوں کا سامنا کرتے ہیں تو ہم انکا سہارا بنتے ہیں۔‏ بائبل بیان کرتی ہے کہ ”‏دوست ہر وقت محبت دکھاتا ہے اور بھائی مصیبت کے دن کیلئے پیدا ہؤا ہے۔‏“‏—‏امثال ۱۷:‏۱۷‏۔‏

۱۴.‏ اگر ہم محسوس کرتے ہیں کہ ایک شخص ہمارا قریبی دوست نہیں بننا چاہتا ہے تو ہم کیا کر سکتے ہیں؟‏

۱۴ یہ بات سچ ہے کہ ہم کلیسیا کے ہر فرد کے قریبی دوست نہیں ہو سکتے ہیں۔‏ یہ انسانی فطرت ہوتی ہے کہ کئی لوگ ہمیں دوسروں سے زیادہ پسند ہیں۔‏ اگر آپ کسی کے قریبی دوست بننا چاہتے ہیں لیکن آپ محسوس کرتے ہیں کہ وہ ایسا نہیں چاہتا تو اس میں مایوس ہونے کی کوئی بات نہیں۔‏ آپ کسی کو آپکا قریبی دوست بننے پر مجبور نہیں کر سکتے۔‏ لیکن پھر بھی دوستی کا دروازہ کھلا رکھنے کیلئے اس شخص کیساتھ نرمی اور پیار سے پیش آئیں۔‏

‏”‏تجھ سے مَیں خوش ہوں“‏

۱۵.‏ شاباش دینے اور نکتہ‌چینی کرنے کے کیا اثرات ہوتے ہیں؟‏

۱۵ جب یسوع نے اپنے بپتسمے کے بعد آسمان سے یہ الفاظ سنے کہ ”‏تجھ سے مَیں خوش ہوں“‏ تو وہ کس قدر خوش ہوا ہوگا!‏ (‏مرقس ۱:‏۱۱‏)‏ ان الفاظ کو سن کر یسوع کو یقین ہو گیا ہوگا کہ اسکا آسمانی باپ اُسے بہت عزیز رکھتا ہے۔‏ (‏یوحنا ۵:‏۲۰‏)‏ افسوس کی بات ہے کہ بعض لوگوں کو اپنے عزیزوں کی طرف سے کبھی شاباش نہیں ملتی۔‏ این نامی ایک بہن بیان کرتی ہے کہ ”‏میرے جیسے بہت سے نوجوان ہیں جنکے گھروالے یہوواہ کے گواہ نہیں ہیں اور وہ ہمیشہ ہماری نکتہ‌چینی کرتے ہیں۔‏ اس سے ہمیں کافی دُکھ پہنچتا ہے۔‏“‏ اسکے برعکس یہ نوجوان کلیسیا میں ایک روحانی خاندان کا پیار محسوس کرتے ہیں۔‏ اُنکے روحانی بہن‌بھائی،‏ مائیں اور باپ انکا سہارا بنتے ہیں۔‏—‏مرقس ۱۰:‏۲۹،‏ ۳۰؛‏ گلتیوں ۶:‏۱۰‏۔‏

۱۶.‏ دوسروں کی نکتہ‌چینی کرنے کے کونسے بُرے اثرات ہوتے ہیں؟‏

۱۶ بعض معاشروں میں والدین،‏ اساتذہ یا عمررسیدہ لوگ نوجوانوں کو شاباش دینے سے ہچکچاتے ہیں کیونکہ انکے خیال میں ایسا کرنے سے نوجوانوں میں گھمنڈ پیدا ہوگا۔‏ معاشرے کی یہ سوچ مسیحی خاندانوں اور کلیسیاؤں پر بھی اثرانداز ہو سکتی ہے۔‏ مثال کے طور پر جب ایک نوجوان نے کلیسیا میں تقریر دی ہے یا کچھ اَور کام کِیا ہے تو شاید عمررسیدہ لوگ اس سے کہیں کہ ”‏ٹھیک ہے،‏ مگر اگلی بار ذرا اَور محنت کرنا!‏“‏ یا شاید وہ کسی نہ کسی طرح اسے احساس دلاتے ہیں کہ وہ اُس سے خوش نہیں ہیں۔‏ ان بزرگوں کا خیال ہے کہ ایسا کرنے سے وہ نوجوانوں کی مدد کر سکتے ہیں تاکہ وہ اپنی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کریں۔‏ لیکن اکثر وہ ان نوجوانوں کو مایوس کرکے انہیں احساسِ‌کمتری کا شکار بناتے ہیں۔‏

۱۷.‏ ہمیں دوسروں کو شاباش کیوں دینی چاہئے؟‏

۱۷ تاہم ہمیں محض اس وقت ایک شخص کو شاباش نہیں دینی چاہئے جب ہم اسکی اصلاح کرنا چاہتے ہیں۔‏ جب ہم دل سے ایک دوسرے کو شاباش دینگے تو خاندان اور کلیسیا میں پیار بڑھیگا۔‏ اسی طرح جوان لوگ خوشی سے زیادہ تجربہ‌کار بہن‌بھائیوں سے مشورہ لینگے۔‏ جی‌ہاں،‏ معاشرے کی سوچ کو اپنانے سے کہیں بہتر ہے کہ ہم ’‏نئی انسانیت کو پہنیں جو خدا کے مطابق سچائی کی راستبازی اور پاکیزگی میں پیدا کی گئی ہے۔‏‘‏ شاباش دینے کے سلسلے میں یہوواہ کی نقل کریں۔‏—‏افسیوں ۴:‏۲۴‏۔‏

۱۸.‏ (‏ا)‏ نوجوانوں کو مشورہ دینے والے کی بابت کیسا خیال کرنا چاہئے؟‏ (‏ب)‏ کلیسیا کے بزرگ مشورہ دینے سے پہلے غور کرکے دُعا کیوں کرتے ہیں؟‏

۱۸ لیکن نوجوانوں کو یہ بھی نہیں سوچنا چاہئے کہ جب کوئی بڑا انکی اصلاح کرتا یا انکو مشورہ دیتا ہے تو وہ ان سے ناراض ہے۔‏ (‏واعظ ۷:‏۹‏)‏ ایسا کرنے سے وہ دراصل ظاہر کرتا ہے کہ اسے آپکی فکر ہے اور وہ آپ سے پیار کرتا ہے۔‏ ورنہ وہ آپکی اصلاح کرنے کی کوشش نہیں کرتا۔‏ کلیسیا کے بزرگوں کو معلوم ہے کہ صحیح الفاظ چننے کی کتنی اہمیت ہوتی ہے۔‏ اسلئے وہ کسی کو مشورہ دینے سے پہلے اس شخص کے بارے میں غور کرکے دُعا بھی کرتے ہیں۔‏ وہ ہماری بھلائی چاہتے ہیں۔‏—‏۱-‏پطرس ۵:‏۵‏۔‏

‏’‏یہوواہ ہم پر ترس کرتا ہے‘‏

۱۹.‏ ماضی میں مایوسی کا شکار ہونے والے کیوں یقین رکھ سکتے ہیں کہ یہوواہ انکا سہارا بنیگا؟‏

۱۹ بعض لوگ ماضی میں مایوسی کا شکار بن چکے ہیں۔‏ دوبارہ مایوس ہونے کے ڈر سے وہ کسی کے لئے اپنے پیار کا اظہار کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔‏ اپنے دل کا دروازہ پھر سے کھولنے کے لئے ایسے لوگوں کو جرأت اور ایمان کی ضرورت ہے۔‏ انہیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ یہوواہ ”‏ہم میں سے کسی سے دُور نہیں“‏ اور وہ ہمیں اسکے نزدیک جانے کی دعوت بھی دیتا ہے۔‏ (‏اعمال ۱۷:‏۲۷؛‏ یعقوب ۴:‏۸‏)‏ وہ ہمارے جذبات کو سمجھتا ہے اور اُس نے ہمارا سہارا بننے کا وعدہ کِیا ہے۔‏ زبورنویس داؤد نے لکھا کہ ”‏[‏یہوواہ]‏ شکستہ دلوں کے نزدیک ہے اور خستہ جانوں کو بچاتا ہے۔‏“‏—‏زبور ۳۴:‏۱۸‏۔‏

۲۰،‏ ۲۱.‏ (‏ا)‏ ہم کیوں یقین رکھ سکتے ہیں کہ خدا کی قُربت حاصل کرنا ہماری پہنچ میں ہے؟‏ (‏ب)‏ یہوواہ کے دوست بننے کیلئے ہمیں کونسے تقاضوں پر پورا اُترنا پڑیگا؟‏

۲۰ یہوواہ کی قریبی دوستی حاصل کرنا ہمارے لئے سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔‏ لیکن بعض لوگوں کے خیال میں ہم خدا کے اس قدر قریب نہیں ہو سکتے۔‏ تاہم بائبل بہت سے دیندار مرد اور عورتوں کے بارے میں بتاتی ہے جو خدا کے بہت ہی قریب تھے۔‏ انکے بیانات ہمیں یہ یقین دلاتے ہیں کہ خدا کی قُربت حاصل کرنا ہمارے لئے بھی ممکن ہے۔‏—‏زبور ۲۳،‏ ۳۴،‏ ۱۳۹؛‏ یوحنا ۱۶:‏۲۷؛‏ رومیوں ۱۵:‏۴‏۔‏

۲۱ یہوواہ کے دوست بننے کے تقاضوں کو پورا کرنا ہر انسان کی پہنچ میں ہے۔‏ داؤد نے سوال کِیا کہ ”‏اَے [‏یہوواہ]‏ تیرے خیمہ میں کون رہیگا؟‏“‏ پھر اُس نے جواب دیا:‏ ”‏وہ جو راستی سے چلتا اور صداقت کا کام کرتا اور دل سے سچ بولتا ہے۔‏“‏ (‏زبور ۱۵:‏۱،‏ ۲؛‏ ۲۵:‏۱۴‏)‏ اگر ہم ان تقاضوں پر پورا اُترتے ہیں تو ہم خدا کی راہنمائی اور تحفظ محسوس کرینگے اور ہمیں یہ بھی پتہ چلیگا کہ اُسکی خدمت کرنے کا ہمیشہ اچھا انجام ہوتا ہے۔‏ ان باتوں سے ’‏یہوواہ کا ترس اور رحم ظاہر ہوتا ہے۔‏‘‏—‏یعقوب ۵:‏۱۱‏۔‏

۲۲.‏ یہوواہ کی مرضی کے مطابق ہمیں اُسکے ساتھ اور ایک دوسرے کیساتھ کس قسم کا بندھن قائم کرنا چاہئے؟‏

۲۲ یہ یہوواہ کی ایک بڑی نعمت ہے کہ وہ ناکامل انسانوں کو اپنے ساتھ دوستی قائم کرنے کا موقع دیتا ہے!‏ اس وجہ سے ہمیں دوسروں کیلئے بھی پیار کا اظہار کرنا چاہئے۔‏ یہوواہ کی مدد سے ہم اپنے مسیحی بھائی‌چارے میں پائے جانے والے پیارومحبت کو اَور بھی بڑھا سکتے ہیں اور خدا کی آنے والی بادشاہت میں ہر شخص اس پیار کو ہمیشہ تک محسوس کریگا۔‏

کیا آپ وضاحت کر سکتے ہیں؟‏

‏• مسیحیوں کا آپس میں کس قسم کا بندھن ہونا چاہئے؟‏

‏• کلیسیا میں ہر ایک شخص پیار کو کیسے بڑھا سکتا ہے؟‏

‏• ہم پورے دل سے شاباش دینے سے مسیحی پیار کو کیوں بڑھاتے ہیں؟‏

‏• یہوواہ ہم پر ترس کرکے ہمارا سہارا کیسے بنتا ہے؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۱۵ پر تصویر]‏

مسیحیوں کی محبت محض فرض ادا کرنے پر مبنی نہیں

‏[‏صفحہ ۱۶ پر تصویریں]‏

کیا ہم ”‏کشادہ دل“‏ ہو سکتے ہیں؟‏

‏[‏صفحہ ۱۸ پر تصویر]‏

کیا آپ دوسروں کی نکتہ‌چینی کرتے ہیں یا انکی حوصلہ‌افزائی کرتے ہیں؟‏